HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ساجد حمید

نماز کے اوقات

شرح موطا


ظہر میں تاخیر

[۱۲] وحدثنی عن مالک عن ربیعۃ بن ابی عبد الرحمن عن القاسم بن محمد انہ قال:
مَا اَدْرَکْتُ النَّاسَ اِلَّا وَہُمْ یُصَلُّونَ الظُّہْرَ بِعَشِیٍّ.
قاسم بن محمد کہتے ہیں کہ
’’میں نے لوگوں کو ہمیشہ ظہر دیر سے پڑھتے پایا۔‘‘

شرح

مفہوم و مدعا

ظہر کی نمازکے بارے میں اس روایت کا ظاہری مفہو م یہ معلوم ہو رہا ہے کہ صحابہ کے زمانے میں ظہر عموماً دیر سے پڑھی جاتی تھی۔لیکن اس باب کی دوسری روایتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کو گرمیوں میں ابراد (ٹھنڈا) کر کے (عصر کے قریب )اور سردیوں میں اس سے پہلے پڑھتے تھے۔

امامت جبریل والی روایت میں ظہر کا آخری پسندیدہ وقت ایک مثل سایہ بتایا گیا ہے۔ قاسم بن محمد کی غالباً مراد یہی ہے کہ ظہر عموماً ایک مثل سایے پر پڑھی جاتی تھی۔یعنی عصر کے وقت کے قریب آنے پر۔ اسی لیے انھوں نے ’عشی‘ کا لفظ بولا ہے۔

روایت میں عموم بیان ہواہے۔ اس کے معنی گرم موسم کا عموم بھی ہو سکتے ہیں اور یہ بھی کہ صحابہ نے ایک درمیانہ سا وقت ظہر کے لیے مقرر کررکھا تھا، جس میں وہ ہر موسم میں نماز ادا کرتے رہتے تھے۔

لغوی مسائل

العشی: اس کے بارے میں اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ زوال سے غروب آفتاب یا زوال سے صبح تک کے وقت کو ’عشی‘ کہتے ہیں۔ ’عشی‘ دراصل سہ پہر اور اس کے بعد غروب آفتاب تک کا وقت ہے۔یعنی جب سورج کی تمازت کم ہونے لگتی ہے ، اس وقت سے اس کے ڈوبنے تک کا وقت ’عشی ‘ہے ۔اس کا قرینہ یہ ہے کہ یہ عموماً ’ابکار‘، ’الغداۃ‘ یا ’بکرۃ‘ کا مقابل بن کرآتا ہے۔جس طرح ’ابکار‘ اور’ بکرۃ‘ میں دوپہر شامل نہیں ہے ، اسی طرح ’عشی‘ میں دوپہر اور اس کی شدت کا وقت شامل نہیں ہے۔ سورۂ روم میں اس کا تقابل ’تظہرون ‘سے ہوا ہے :

فَسُبْحٰنَ اللّٰہِ حِیْنَ تُمْسُوْنَ وَحِیْنَ تُصْبِحُوْنَ. وَلَہُ الْحَمْدُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِیًّا وَّحِیْنَ تُظْہِرُوْنَ.(۳۰: ۱۷۔۱۸)
’’پس اللہ ہی کی تسبیح کرو جس وقت تم شام کرتے اور جس وقت صبح کرتے ہو اور آسمانوں اور زمین میں اسی کی حمد ہو رہی ہے اور عشا کے وقت بھی اور اس وقت بھی جب تم ظہر کرتے ہو۔‘‘

صاف واضح ہے کہ اس آیت میں صبح و شام کو جوڑا بنایا گیا ہے اور ظہر و عصر کو۔ یہی علامہ طبر ی اور کئی مفسرین کی رائے ہے۔ اور اسی کو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اختیار کیا ہے:

حین تمسون قال: صلاۃ المغرب، وحین تصبحون قال: صلاۃ الصبح، وعشیا قال: صلاۃ العصر، وحین تظہرون قال: صلاۃ الظہر.(تفسیر طبری۲۱/ ۲۹)
’’’حین تمسون‘ کے بارے میں انھوں نے کہا : یہ مغرب کی نماز ہے اور ’حین تصبحون‘ کے بارے میں کہا کہ یہ فجر ہے اور ’عشی‘ کے بارے میں کہا کہ یہ عصر ہے اور ’حین تظہرون‘ کے بارے میں کہا کہ یہ ظہر ہے۔‘‘

اگر دونوں آیتوں کو دیکھیں تو ان میں ایک طرح کی لف ونشر ہے۔ ’حین تمسون وحین تصبحون‘اور دوسری آیت میں’وعشیا وحین تظہرون ‘ہے۔ پہلے جملے میں شام کا ذکر صبح سے پہلے ہے، جو ہمارے شب وروز میں صبح سے پہلے آتی ہے۔ اسی طرح دوسرے جملے میں دیکھیں تو وہاں بھی ترتیب یہی ہے کہ عصر ظہر کے بعد آتی ہے، مگر اسے شام کی طرح ظہر سے پہلے بیان کیا گیا ہے۔یہ ترتیب بھی دلالت کرتی ہے کہ یہاں’عشی ‘سے مراد سہ پہر یا اس سے تھوڑا پہلے سے لے کرمغرب تک کا وقت ہے۔

ہمارے خیال میں اس حدیث میں بھی یہ اسی معنی میں ہے۔ یعنی اس سے اصل میں مراد دن کا آخری حصہ ہے۔ مطلب وہی ہے ، جسے ہم نے اوپر ترجمے میں بیان کردیا ہے کہ وہ تاخیر سے ظہر پڑھتے۔لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ سہ پہر کے وقت ظہر پڑھتے تھے ، بلکہ مراد یہ ہے کہ ان کا وقت سہ پہر کے قریب کا وقت تھا۔

دوسرا لغوی مسئلہ اس میں اس جملے کا عموم ہے کہ ’’میں نے لوگوں کو ہمیشہ ظہر ’عشی‘میں پڑھتے پایا‘‘ ۔اس عموم سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے ان کی ظہر ہمیشہ تاخیر سے ہوتی تھی۔روایتوں میں سیاق و سباق اور موقع و محل چونکہ نقل نہیں ہوتا،اس لیے اسے دوسری روایتوں کی روشنی میں رکھ کر ہی دیکھنا چاہیے ۔ جسے ہم آگے چل کر دیکھیں گے۔ لغوی اعتبار سے بھی یہ الفاظ لازم نہیں ہیں کہ مستقل عمل بیان کریں۔ مثلاً اگر بحث گرمیوں ہی کے وقت کے بار ے میں ہو رہی تھی تو یہ جملہ گرمیوں کے ذکر کے بغیر بھی گرمی کے موسم میں ہونے والی نمازوں تک محدود ہوگا ۔اور وہ معنی بھی ہو سکتے ہیں جو ہم نے اوپر بیان کیے کہ ایک وسطی سا وقت تھا جس کو صحابہ نے مقرر کرلیا تھااور گرمیوں اور سردیوں میں اسی وقت میں نماز ادا کرتے رہتے تھے۔

درایت

قرآن و سنت سے تعلق

سنت میں ظہر کے لیے ظہر ہی کا وقت جاری کیا گیا ہے۔ قرآن سے بھی اس وقت کے وقت نماز ہونے پر نص موجود ہے (الروم ۳۰: ۱۸)۔جیسا کہ ہم نے پچھلی روایتوں کے تحت بیان کیا ہے کہ نمازیوں کی سہولت کے لیے سنت نے جو وقت مقرر کیے ، وہ بھی تنگ نہیں تھے۔ پھر ان اوقات میں جو پسندیدہ اوقات انبیا نے چنے ، وہ بھی مناسب وسعت رکھتے تھے۔یعنی ایسا نہیں ہے کہ کہا گیا ہو کہ عصر کا پسندیدہ وقت بس اتنا ہی وقت ہے جب سایہ ایک مثل ہو۔ بلکہ یہ وقت بھی لمبا ہے، جس کے آغاز اور اختتام میں اچھا خاصاوقت ہوتا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ اچھے برے موسم ، سرد و گرم حالات میں آدمی اس خیر سے محروم نہ رہے۔

چنانچہ اس کھلے وقت کا یہ فائدہ ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم گرمیوں میں اور سردیوں میں اور اسی طرح نمازیوں کی سہولت کے لیے پسندیدہ وقت ہی میں نماز کی تعجیل و تاخیر کرکے نمازیوں کے لیے سہولت کا وقت نکال لیتے تھے۔ صحابہ نے بھی اسی طریقے کو اختیار کیا۔ چنانچہ اس روایت میں صحابہ کے جس عمل کا ذکر ہے، وہ سنت کے خلاف نہیں ہے ،بلکہ اسی طریقے کے مطابق ہے، جو انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا۔چنانچہ سب شارحین نے یہی رائے اختیار کی ہے کہ اس سے مراد ظہر کو ٹھنڈا کرکے پڑھنا ہے۔

یہ بات بھی قرآن وسنت کے خلاف نہیں ہو گی کہ انھوں نے ایسا درمیانہ سا وقت ظہر کے لیے مقرر کر لیا جو پسندیدہ وقت ہی سے ہو، مگر گرمیوں اور سردیوں ،دونوں میں یکساں چل سکتا ہو۔

احادیث باب پر نظر

روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ظہرگرمی کے موسم میں ابراد کرکے (تاخیر سے ) اداکرتے تھے:

عن ابی ذر قال: اذن مؤذن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم الظہر، فقال ابْرِد ابرد او قال انتظر انتظر، وقال شدۃ الحر من فیح جہنم فاذا اشتد الحر فابردوا عن الصلاۃ حتی راینا فیء التلول .(بخاری، رقم۵۱۱)
’’ابو ذر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موذن نے ظہر کی اذان دی تو آپ نے فرمایا: ابھی ٹھنڈا کرو، ابھی اسے ٹھنڈا کرو۔ یا آپ نے یہ فرمایا تھا کہ ٹھہرو، بھئی ٹھہرو۔ اورمزید یہ فرمایا: گرمی کی شدت جہنم کا جوش ہے، اس لیے جب بہت گرمی ہو تو نماز کو اس وقت پڑھو، جب سورج کی تمازت کم ہو جائے۔تو نماز میں اتنی دیر کی گئی، کہ ہم نے ٹیلوں کے سائے دیکھے (تو نماز پڑھی)۔‘‘

اس روایت سے تاخیر میں’ عشی‘کے وقت تک تاخیر کرنے کا واضح ثبوت موجود ہے۔یعنی موطا کی روایت جس کی اس وقت ہم شرح کررہے ہیں ، اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ صحابہ ظہر ’ عشی‘ کے وقت پڑھتے تھے۔

’تلول ‘چھوٹے ٹیلوں کو کہتے ہیں، ان کے سائے دیکھنے کے معنی یہ ہیں کہ سورج کافی نیچے آگیا تھا۔یقیناًیہ وقت عصر کے وقت سے پہلے ہی تھا۔ غالباً ایک مثل سایے پر اس لیے کہ دوسری روایتوں سے اسی کی خبر ملتی ہے۔

سردیوں میں آپ کا معمول یہ تھا کہ آپ نماز کو ذرا جلدی ادا کرتے تھے۔ حضرت انس کی روایت ہے:

عن انس بن مالک قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا کان الحر ابرد بالصلاۃ واذا کان البرد عجل.(نسائی ، رقم ۹ ۹ ۴ )
’’انس بن مالک کی روایت ہے کہ انھوں نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گرمی میں نماز تاخیر سے پڑھتے (ابراد کرتے)اور سردی میں تعجیل کرتے۔‘‘

اس روایت میں ظہر کے الفاظ نہیں ہیں ، یعنی یہ اصول ممکن ہے عصرو ظہر ،دونوں کے بارے میں رہا ہو کہ سردیوں میں آپ دونوں نمازیں دھوپ کے ہوتے ہوئے ادا کرلیتے تھے۔ گرمیوں میں دونوں میں تاخیر کرتے تھے۔ اس لیے کہ سورج کی موجودگی میں بس یہی دونوں نمازیں پڑھی جاتی ہیں:

عن خباب قال: شکونا الی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الصلاۃ فی الرمضاء فلم یشکنا.(مسلم ، رقم ۶۱۹)
’’خباب کی روایت ہے کہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ ریت گرم ہوتی ہے (چلتے ہوئے پاؤں جلتے ہیں) تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری شکایت کا جواب نہیں دیا۔‘‘

یہ روایت ظہر کو ٹھنڈا کرنے کے حکم سے پہلے کی ہے یا بعد کی، اس تعین کے لیے اس روایت کے الفاظ حتمی نہیں ہیں۔ البتہ ، یہ الفاظ کہ ہم نے شکایت کی تو آپ نے جواب نہیں دیا، یہ بتارہے ہیں کہ اس میں زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ یہ ابراد کے حکم کے بعد کی ہو۔ یعنی آپ نے نماز کے وقت میں مزید تاخیر کی گنجایش نہیں پائی تو خاموش رہے۔ جتنی تاخیر آپ کر سکتے تھے ، وہ آپ پہلے ہی کررہے تھے۔

موطا کی زیر شرح روایت میں یہ بات کہ ان کی نماز عموماً تاخیر سے ہی ہوتی تھی اس کے معنی یہ لیے جا سکتے ہیں کہ ظہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی تاخیر ہی سے ادا ہورہی تھی۔اور اسی پر صحابہ کا عمل رہا۔ سردیوں میں عجلت اور گرمی میں تاخیر والی روایت اس بات کے خلاف نہیں جاتی ، اس لیے کہ وہ صرف یہ کہہ رہی ہے کہ نماز کا وقت سردیوں میں گرمیوں کے مقابلے میں پہلے ہوجاتا تھا۔ اس کے معنی یہ لازم نہیں ہیں کہ وہ بالکل شروع میں چلا جاتا تھا۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اذان تو سورج کے زوال ہی پر دے دی جاتی تھی ،لیکن نماز میں پھر بھی تاخیر ہوتی تھی:

عن جابر بن سمرۃ قال : کان بلال یؤذن اذا دحضت فلا یقیم حتی یخرج النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فاذا خرج اقام الصلاۃ حین یراہ.(مسلم ، رقم ۶۰۶)
’’جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ حضرت بلال سورج کے ڈھلتے ہی اذان کہہ دیتے تھے۔ لیکن اقامت اس وقت تک نہ کہتے جب تک آپ اپنے حجرے سے نہ نکلتے ، چنانچہ جب آپ نکل آتے تو پھر وہ آپ کو دیکھ کر اقامت کہتے تھے ۔‘‘

اس لیے بعید نہیں ہے کہ ظہر کا وقت بالعموم وہی ہو جو قاسم بن محمد نے موطا کی زیر بحث روایت میں بیان کیا ہے۔ یعنی’ عشی‘کے آغاز میں۔یہ بات ان روایتوں کے بھی خلاف نہیں جو حدیثوں میں آئی ہے کہ آپ ظہر دوپہر کے وقت پڑھتے تھے:

عن جابر بن عبد اللّٰہ فقال: کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلی الظہر بالہاجرۃ. (بخاری ، رقم ۵۳۵)
’’جابر بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر دوپہر میں پڑھتے تھے۔‘‘

موطا کے اس زیربحث اثر سے یہ بات معلوم ہورہی ہے کہ صحابہ نے اس زمانے میں آکر غالباً ایک ہی وقت مقرر کرلیا تھا۔ اور وہ ’ عشی‘کے وقت تک اس کی تاخیر کا وقت تھا۔عین ممکن ہے کہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ظہر کے اختتامی وقت کے دومثل سایہ ہونے کا جو حکم لگایا تھا ، وہ صحابہ کے اس عمل کی روشنی میں ہو۔

لیکن اس امکان کے باوجود کہ ظہر’ عشی‘ تک موخر کی جاتی تھی ،رواتیوں کی حد تک واضح تر بات یہی ہے کہ گرمیوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کو سایوں میں کچھ طوالت تک موخر کرتے، تاکہ سورج کی حدت میں کمی آئے اور یہ کہ لوگ دیواروں کے زیر سایہ مسجد تک آسکیں۔

روایت

یہ روایت ایک اثر ہے۔ اس سے صرف یہ معلوم ہو رہا ہے کہ ان کے زمانے میں ظہر باقاعدگی سے موخر کرکے پڑھی جارہی تھی۔ قاسم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بیٹے محمد کے صاحب زادے ہیں۔ ان کا شمار فقہاے تابعین میں ہوتاہے۔ اور کبارتابعین میں سے ہیں۔ان کی وفات کم و بیش ۱۰۶ ہجری میں ہوئی ہے۔

اس اعتبار سے یہ دور صحابہ کے عینی شاہدہیں۔ اس لیے ان کی بات کی اہمیت کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ امام مالک نے اس باب کے اختتام پر ان کا یہ قول نقل کردیا ہے کہ ظہر کے باب میں صحابہ کا عمل کیا رہا ہے۔ اور یقیناًامام مالک نے اہل مدینہ کو اس کے خلاف نہ پایا ہوگا، ورنہ وہ اسے اپنی کتاب میں یوں نقل نہ کرتے۔

اس باب پر ایک نظر

اس روایت پر ’وقوت الصلوٰۃ‘کا باب ختم ہوا۔ہم نے اس باب میں درج ذیل باتیں جانی ہیں:

۱۔ تمام نمازوں کے اوقات سنت ثابتہ متواترہ میں مقرر کیے گئے ہیں۔ سنت میں ان نمازوں کے نام مقرر کر کے دراصل ان کے وقت مقرر کیے گئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نمازوں کے ناموں کے بارے میں بہت حساس تھے۔ آپ یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ ان کے سوا نمازوں کے کوئی اور نام رکھیں جائیں:

عن عبد اللّٰہ المزنی ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال :لا تغلبنکم الاعراب علی اسم صلاتکم المغرب. قال وتقول الاعراب ہی العشاء .(بخاری ، رقم ۵۳۸)
’’عبدا للہ المزنی کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، بدووں (کی زبان) مغرب کے نام کے معاملے میں تم پر غالب نہ آنے پائے۔ عبد اللہ کہتے ہیں کہ بدو مغرب کوعشا کہتے تھے۔‘‘

اسی طرح عشا کو’ العتمۃ‘ کہنے کے بارے میں فرمایا:

عن عبد اللّٰہ بن عمر قال سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: لا تغلبنکم الاعراب علی اسم صلاتکم الا انہا العشاء وہم یعتمون بالابل. (مسلم ، رقم ۶۴۴)
’’عبد اللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ تم پر تمھاری نمازکے نام کے معاملے میں بدو ہر گز غالب نہ آنے پائیں۔ یاد رکھو کہ عشا کا نام عشا ہے اور وہ چونکہ اونٹوں کا دودھ عتمہ کے وقت(ایک تہائی رات کے آس پاس) دوہتے ہیں، (تو اس لیے وہ عشا کو عتمہ کہتے ہیں۔) ‘‘

۲۔ موطا کے اس باب میں اس سنت کے لحاظ سے تین طرح کی روایتیں آئی ہیں۔

الف۔ وہ روایتیں جو سنت ہی کو بیان کررہی ہیں۔ جیسے تیسری روایت۔

ب ۔ وہ روایتیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معمو ل یا آپ کے پسندیدہ اوقات کو بیان کیا گیا ہے۔جیسے پہلی ، دوسری اور چوتھی روایت۔

ج ۔ وہ روایتیں جن میں اس سنت پر عمل کرنے میں پیدا ہونے والے فقہی مسائل کا حل دیا گیا ہے ، جیسے پانچویں روایت۔

۳۔اس کے بعد آثار صحابہ ہیں۔ ان میں بھی روایتیں اکثر پسندیدہ وقت ہی کے پہلو سے ہیں۔

اس اعتبار سے روایتوں کا باہمی اختلاف حل ہو جاتا ہے۔ نمازوں کے اوقات دو نوعیت کے ہیں۔ ایک وہ مقررہ اوقات ہیں جن میں نماز پڑھنے والے کی نماز قضا شمارنہیں ہوگی۔ جبکہ دوسرے وہ اوقات ہیں جن میں نماز ادا کرنے والا ان اوقات میں نماز پڑھے گا جن میں نماز پڑھنے والے پر سستی، کاہلی اور نماز سے بے پروائی کا الزام نہیں آئے گا۔

یہ پسندیدہ اوقات اصلاًتعجیل کے اصول پر مقرر کیے گئے ہیں۔ مگراس اصول میں دو وجوہ سے تبدیلی کی گئی ہے۔ ظہر اور فجر میں اس تعجیل کو ترک کیا گیا ہے تاکہ نمازیوں کو آنے میں سہولت رہے۔ عشا کی نماز میں اس وجہ سے تاخیر کی گئی ہے کہ ایسا کرنا نماز سے بے پروائی کا تاثر پیدا کرتا ہے کہ آدمی فٹا فٹ نماز پڑھ آئے اور آکر گپ شپ کرتا رہے۔ اس تاثر سے بچنے کے لیے آپ نے فرمایا کہ عشا کو موخر کرو اور اس کے بعد باتیں وغیرہ کرنا پسندیدہ نہیں ہے۔

امام مالک رحمہ اللہ نے جس طرح سے اس باب کو ترتیب دیا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پیش نظر اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ وہ کون سا عمل ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دور صحابہ کا معمول بہ کہا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے انھوں نے وہ روایات دی ہیں جن میں اس معمول کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ۔ اس کے بعد انھوں نے صحابہ کے اقوال اور ان کے معمول سے یہ بات ثابت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی مدینہ میں یہ عمل اسی طرح سے چلتا رہا۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B