HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

حرمت جان کی شرط

(مسلم ، حدیث ۲۳)


عن أبی مالک عن أبیہ قال: سمعت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یقول: من قال لا إلٰہ إلا اﷲ وکفر بما یعبد من دون اﷲ حرم مالہ ودمہ وحسابہ علی اﷲ.
’’ابو مالک اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جس نے لا الٰہ الا اللہ کہا اور اللہ کے علاوہ جنھیں پوجا جاتا ہے ، ان کا انکار کردیا تو اس کا مال اور اس کا خون حرام ہو گیا۔ اور اس کا حساب اللہ پر ہے۔ ‘‘

اگلی روایت اسی روایت کا ایک دوسرا متن ہے جس کا آغاز ’من وحد اﷲ ‘سے ہوا ہے اور اس کے بعد بعینہٖ یہی الفاظ ہیں۔

لغوی مباحث

من وحد اﷲ: ’وحد‘ کا مطلب ہے ایک بنانا۔ لیکن اس جملے میں اس سے مرادایک اللہ پر ایمان لانا اور باقی معبودوں سے انکار کر دینا ہے۔

معنی

اس روایت کو دو پہلوؤں سے دیکھا جا سکتا ہے ۔ ایک پہلو تو وہی ہے جس سے اسے امام مسلم نے دیکھا ہے۔ انھوں نے اسے جس روایت کے ساتھ اور جس باب میں درج کیا ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ روایت اسی مضمون کی حامل ہے جو اس سے پچھلی روایت میں بیان ہوا ہے۔ پچھلی روایت جیسا کہ ہم اس کی شرح میں لکھ چکے ہیں سرتاسر مشرکین عرب کے ساتھ قتال سے متعلق ہے۔ اس روایت کے الفاظ میں اس بات کی گنجایش ہے کہ اسے بھی اسی معنی میں لیا جائے۔دوسرا پہلو یہ ہے کہ اسے مسلمانوں کے باہمی تعلق کے حوالے سے دیکھا جائے۔ اس پہلو سے یہ بالکل وہی بات بن جاتی ہے جو ’ المسلم من سلم المسلمون من یدہ ولسانہ‘ میں بیان ہوئی ہے۔ یعنی اس روایت میں مسلمانوں سے یہ کہا گیا ہے کہ جب کوئی آدمی کلمۂ توحید کا اقرار کر لے اور باقی معبودوں کی پرستش چھوڑ دے تو اس کے مال اور جان کے خلاف تعدی جائز نہیں ہے۔ تمھارا یہ سوچنا ٹھیک نہیں ہے کہ یہ ایمان حقیقی نہیں ہے۔ ایمان کی حقیقت کا فیصلہ اللہ علیم بذات الصدور پر ہے۔ اس کا حساب وہی کرے گا۔ہمارے خیال میں اس روایت کو سمجھنے میں یہ دوسرا پہلو ہی مرجح ہے۔ ہم نے ابوداؤد اور ترمذی سے جو متون اگلی فصل میں نقل کیے ہیں ، وہ ہماری بات کو موکد کرتے ہیں۔

متون

اس روایت کے متون دو ہی ہیں ۔ یہ دونوں متن امام مسلم نے اپنی صحیح میں درج کر دیے ہیں۔ایک متن میں ’ لا الٰہ الا اﷲ‘ کے الفاظ میں توحید کا بیان ہے اور دوسرے میں اسی کے لیے ’ وحد اﷲ ‘ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔ صرف ایک فرق ایسا ہے جو مسلم رحمہ اللہ نے نقل نہیں کیا اور وہ یہ کہ ’ حرم مالہ ودمہ‘ کے بجائے ایک روایت میں ’حرم اﷲ مالہ ودمہ‘ کے الفاظ ہیں۔ البتہ ، اگر اس روایت کو ، جیسا کہ ہم نے معنی کی بحث میں بیان کیا ہے ، دوسرے معنی میں لیا جائے تو اس سے ملتی جلتی کچھ اور روایتیں بھی کتب حدیث میں ملتی ہیں:

عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ قال نظر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الی الکعبۃ فقال : لا الٰہ الا اللّٰہ ما أطیبک وأطیب ریحک وأعظم حرمتک والمؤمن أعظم حرمۃ منک إن اللّٰہ عزوجل جعلک حرا ما وحرم من المؤمن مالہ ودمہ وعرضہ وأن نظن بہ ظنا سیئا.(المعجم الکبیر، رقم۱۰۹۶۶)
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کی طرف دیکھا تو کہا: لا الٰہ الا اللہ ، تو کتنا اچھا ہے۔ تیری خوش بو کتنی اچھی ہے۔تیری حرمت کتنی بڑی ہے۔ لیکن حرمت میں تجھ سے بڑھ کر ہے۔ اللہ نے تجھے حرم قرار دیا۔ اور اس نے مومن کے مال اور اس کے خون اور اس کی عزت کو اور یہ کہ اس کے بارے میں سوے ظن کیا جائے حرام قرار دیا۔‘‘

اس سے ملتی جلتی ایک روایت ابوداؤد میں بھی ہے:

عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : کل المسلم علی المسلم حرام مالہ وعرضہ ودمہ حسب امرئ من الشر أن یحقر أخاہ المسلم. (ابوداؤد، رقم ۴۸۸۲)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر مسلمان دوسرے مسلمان پر حرام ہے، یعنی اس کا مال، اس کی عزت اور اس کا خون۔ ہر مسلمان کو اس شر سے بچنا چاہیے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے۔‘‘

ترمذی میں یہی روایت کچھ اور اجزا کے ساتھ ہے۔

کتابیات

مسلم، رقم۲۳۔ احمد، رقم۱۵۹۱۵، ۱۵۹۱۹، ۲۷۲۵۵، ۲۷۲۵۶۔ السنن الکبریٰ، رقم۹۹۴۹۔ المعجم الکبیر، رقم۸۱۹۰، ۱۰۹۶۶۔ ابن ابی شیبہ، رقم۲۸۹۳۵، ۳۳۰۹۸۔ ابن حبان، رقم۱۷۱۔ ابوداؤد، رقم۴۸۸۲۔ ترمذی، رقم۱۹۲۷۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B