روی ۱ أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہی عن ہاتین الشجرتین۲ وقال: من أکلہما فلا یقربن مسجدنا. وقال : إن کنتم لا بد من آکلیہما فأمیتوہما طبخا.۳ قال: یعنی: البصل والثوم.
’’روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو پودوں (یعنی لہسن اور پیازکھانے )سے(لوگوں کو) روکا اور فرمایا:جو انھیں کھائے ، اسے چاہیے کہ وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا : تمھیں اگرا نھیں کھانا ہی ہے تو پہلے انھیں پکا کر ان کی بو ختم کر لیا کرو۔
راوی کا کہنا ہے کہ (ان دو پودوں سے )آپ کی مراد لہسن اور پیاز ہے۔‘‘۱
۱۔ اس روایت کا مضمون اس باب کی دوسری روایات میں وضاحت سے بیان ہو چکاہے۔
۱۔یہ ابوداؤد کی روایت، رقم۳۸۲۷ہے۔ بعض اختلافات کے ساتھ یہ حسب ذیل مقامات پر نقل ہوئی ہے:
ترمذی، رقم ۱۸۰۸، ۱۸۰۹۔ ابوداؤد، رقم ۳۸۲۸۔ سنن الکبریٰ، رقم ۶۶۸۱۔ بیہقی، رقم ۴۸۴۴۔ احمد بن حنبل، رقم ۱۶۲۹۲۔
۲۔ بعض روایات مثلاً احمد بن حنبل ، رقم ۱۶۲۹۲ میں ’ہاتین الشجرتین‘(یہ دو درخت )کے الفاظ ’الخبیثتین‘ (مکروہ)کے لفظ کے اضافے کے ساتھ روایت ہوئے ہیں۔
۳۔ بعض روایات مثلاً ابوداؤد، رقم ۳۸۲۸میں یہ مضمون یوں روایت ہوا ہے : ’نھی عن أکل الثوم إلا مطبوخا‘ (لہسن کھانے سے منع کیا ہے، مگر یہ کہ وہ پکایا ہوا ہو)، جبکہ ترمذی ، رقم ۱۸۰۹میں ’نہی عن أکل الثوم‘ (لہسن کھانے سے منع کیا ہے )کے بجائے ’لا یصلح أکل الثوم‘(یہ مناسب نہیں ہے کہ لہسن کھایا جائے) کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔
مندرجہ بالا روایت کا مضمون حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خطبۂ جمعہ کے حصے کے طور پر بھی روایات میں نقل ہوا ہے:
روی أن عمر بن الخطاب خطب الناس یوم الجمعۃ وذکر نبی اللّٰہ وقال فیہ: إنکم أیہا الناس تأکلون شجرتین لا أراہما إلا خبیثتین ہذا البصل والثوم لقد رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا وجد ریحہما من الرجل فی المسجد أمر بہ فأخرج إلی البقیع فمن أکلہما فلیمتہما طبخا.
’’روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ جمعہ کے دن لوگوں سے خطاب کرتے ہوے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کیا اور کہا:لوگو ، تم دو پودے ایسے کھاتے ہو جنھیں میں مکروہ سمجھتا ہوں ۔ یہ پودے لہسن اور پیاز ہیں۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ جب آپ مسجد میں کسی سے ان کی بو محسوس کرتے تو آپ اسے بقیع کی طرف نکل جانے کا حکم دیتے۔ چنانچہ جو کوئی یہ پودے کھائے، اسے چاہیے کہ انھیں پکا کر ان کی بو ختم کر لے۔‘‘
یہ مسلم کی روایت، رقم ۵۶۷ہے۔ بعض اختلافات کے ساتھ یہ حسب ذیل مقامات پر نقل ہوئی ہے:
ابن ماجہ ، رقم ۱۰۱۴، ۳۳۶۳۔ نسائی، رقم ۷۰۸۔ ابن حبان ، رقم ۲۰۹۱۔ ابن خزیمہ، رقم ۱۶۶۶۔ احمد بن حنبل، رقم ۸۹، ۳۴۱۔ سنن الکبریٰ، رقم ۷۸۷، ۶۶۸۲، ۶۶۸۴۔ بیہقی ، رقم ۴۸۴۳، ۱۶۳۵۵۔ ابن ابی شیبہ ، رقم ۸۶۵۸، ۲۴۴۸۸، ۳۷۰۶۲۔ ابو یعلیٰ ، رقم۱۸۴، ۲۵۶۔ حمیدی ، رقم ۱۰۔
بعض روایات مثلاً سنن الکبریٰ، رقم۶۶۸۴میں ’إنکم أیہا الناس تأکلون شجرتین لا أراہما إلا خبیثتین‘ (لوگو ، تم دو پودے ایسے کھاتے ہوجنھیں میں مکروہ سمجھتا ہوں)کے بجائے ’إنکم تأکلون طعاما خبیثا ہاتین الشجرتین‘ (تم ایک مکروہ کھاناان دو پودوں کی صورت میں کھاتے ہو)کے الفاظ روایت ہوئے ہیں، جبکہ حمیدی ، رقم ۱۰میں ’إنی أحسب أنکم تأکلون شجرتین‘(میرا خیال ہے تم یہ دو پودے کھاتے ہو) کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔ بعض روایات مثلاً ابن خزیمہ، رقم ۱۶۶۶میں ’لا أراہما إلا خبیثتین‘(میں انھیں مکروہ سمجھتا ہوں)کے بجائے ’ما أراہما إلا خبیثتین‘(میں انھیں مکروہ سمجھتاہوں )کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔
بعض روایات مثلاً ابن خزیمہ، رقم ۱۶۶۶ میں ’ہذا البصل والثوم ‘ (یہ پیاز اور لہسن)کی جگہ ’ہذا البصل وہذا الثوم ‘ (یہ پیاز اور یہ لہسن)کے الفاظ روایت ہوئے ہیں، جبکہ سنن الکبریٰ، رقم ۶۶۸۲میں ’الثوم والبصل‘ (لہسن اور پیاز )کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔
بعض روایات مثلاً ابن خزیمہ، رقم ۱۶۶۶میں ’لقد رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا وجد ریحہما من الرجل فی المسجد أمر بہ فأخرج إلی البقیع‘(میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ کو مسجد میں کسی آدمی سے ان کی بو آتی تو آپ اسے بقیع کی طرف نکل جانے کا حکم دیتے )کی جگہ’وقد کنت أری الرجل یوجد ریحہ فیؤخذ بیدہ فیخرج بہ إلی البقیع‘(میں دیکھا کرتاتھا کہ جس آدمی سے اس کی بو آتی، اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے بقیع کی طرف نکال دیا جاتا )کے الفاظ روایت ہوئیہیں، جبکہ سنن الکبریٰ، رقم ۶۶۸۲ میں ’إن کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لیأمر بالرجل یوجد منہ ریحہما فیخرج إلی البقیع‘(بے شک، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسے آدمی کو جس سے اس کی بو آتی حکم دیتے تو وہ بقیع کی طرف نکل جاتا) کے الفاظ ، ابن ماجہ ، رقم۱۰۱۴میں ’ولقد کنت أری الرجل علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوجد ریحہ منہ فیؤخذ بیدہ حتی یخرج إلی البقیع‘(بے شک ، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں دیکھا کرتا تھا کہ جس آدمی سے اس کی بو آتی ، اسے ہاتھ سے پکڑا جاتا یہاں تک کہ اسے بقیع کی طرف نکال دیا جاتا) کے الفاظ ، ابن ماجہ ، رقم ۳۳۶۳میں ’حتی یخرج إلی البقیع‘(یہاں تک کہ اسے بقیع کی طرف نکال دیا جاتا )کے بجائے ’حتی یخرج بہ إلی البقیع‘(یہاں تک کہ اسے بقیع کی طرف نکال دیا جاتا )کے الفاظ ، بیہقی ، رقم ۱۶۳۵۵میں ’قد کنت أری الرجل علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوجد ریحہما منہ فیؤخذ بیدہ فیخرج إلی البقیع‘(میں دیکھا کرتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جس آدمی سے ان کی بو آتی ، اسے ہاتھ سے پکڑ کر بقیع کی طرف نکال دیا جاتا)کے الفاظ ، ابن ابی شیبہ ، رقم ۲۴۴۸میں ’کنت أری الرجل علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوجد ریحہ منہ فیؤخذ بیدہ حتی یخرج إلی البقیع‘(میں دیکھا کرتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جس آدمی سے اس کی بو آتی ، اسے ہاتھ سے پکڑ کر بقیع کی طرف نکال دیا جاتا)کے الفاظ ، احمد بن حنبل، رقم ۸۹میں ’وأیم اللّٰہ لقد کنت آری نبی اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یجد ریحہما من الرجل فیأمر بہ فیؤخذ بیدہ فیخرج بہ من المسجد حتی یؤتی بہ البقیع‘(اللہ کی قسم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کرتا تھا کہ آپ کسی سے ان کی بو محسوس کرتے تو اسے حکم دیتے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے مسجد سے نکال کر بقیع چھوڑ آتے )کے الفاظ ، ابن حبان ، رقم۲۰۹۱میں ’وإن کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یأمر بالرجل یوجد منہ ریحہا فیخرج إلی البقیع‘(نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس آدمی سے اس کی بو محسوس کرتے اسے بقیع کی طرف نکل جانے کا حکم دیتے)کے الفاظ ، ابو یعلیٰ ، رقم ۱۸۴میں ’لقد رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا وجد من الرجل ریحہما فی المسجد أمر بہ فأخرج إلی البقیع‘(میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھاکہ جب آپ مسجد میں کسی آدمی سے ان کی بو محسوس کرتے تو آپ اسے بقیع کی طرف نکل جانے کا حکم دیتے)کے الفاظ ، ابو یعلیٰ ، رقم ۲۵۶میں ’وإن کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یمر بالرجل یوجد منہ ریحہما یخرج إلی البقیع‘(اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایسے آدمی کے پاس سے گزرتے جس سے ان پودوں کی بو آرہی ہوتی تو آپ اسے بقیع کی طرف نکال دیتے )کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔
بعض روایات مثلاً ابن خزیمہ، رقم ۱۶۶۶میں ’إن کنتم لا بد من آکلیہما فأمیتوہما طبخا‘( اگر تمھیں ان سبزیوں کو کھانا ہی ہے تو پکا کر ان کی بو ختم کر لیا کرو )کے بجائے ’ومن کان آکلہما فلیمتہما طبخا‘ (جس کسی کو یہ سبزیاں کھانی ہوں تو اسے چاہیے کہ انھیں پکا کر ان کی بو ختم کرلے)کے الفاظ روایت ہوئے ہیں، جبکہ سنن الکبریٰ، رقم ۶۶۸۲میں ’فمن کان منکم آکلہما لا بد فلیمتہما طبخا‘(تو تم میں سے جس کسی نے یہ کھانی ہوں ، وہ لازماً انھیں پکا کر ان کی بو ختم کرلے)کے الفاظ ، سنن الکبریٰ، رقم ۶۶۸۴میں ’فإن کنتم آکلیہما فاقتلوہما بالنضج‘(تو اگر تمھیں یہ کھانی ہی ہیں تو انھیں پکا کر ان کی بو ختم کر لو)کے الفاظ ، ابن ماجہ، رقم ۱۰۱۴میں ’فمن کان آکلہا لا بد فلیمتہا طبخا‘(تو جسے یہ لازماً کھانی ہو تو وہ اسے پکا کر اس کی بو ختم کرلے)کے الفاظ ، ابن ماجہ، رقم ۳۳۶۳میں ’فمن کان آکلہما فلیمتہما طبخا‘(تو جسے یہ کھانی ہوں تو اسے چاہیے کہ انھیں پکا کر ان کی بو ختم کرلے )کے الفاظ ، ابن ابی شیبہ، رقم ۸۶۵۸میں ’فمن کان آکلہما لا بد لہ فلیمتہما طبخا‘(تو جسے یہ کھانی ہی ہوں تو اس کے لیے لازم ہے کہ انھیں پکا کر ان کی بو ختم کرلے)کے الفاظ ، ابن حبان ، رقم ۲۰۹۱میں ’فمن کان لا بد آکلہما فلیمتہما طبخا‘(تو جسے یہ لازماً کھانی ہوں تو اسے چاہیے کہ انھیں پکا کر ان کی بو ختم کرلے)کے الفاظ ، حمیدی، رقم ۱۰میں ’فإن کنتم لا بد فاعلین فاقتلوہما بالنضج ثم کلوہما‘(تو اگر تمھیں ایسا کرنا ہی ہے تو تم انھیں پکا کر ان کی بو ختم کر لیا کرو اور پھر انھیں کھایا کرو)کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔
تخریج : محمد اسلم نجمی
کوکب شہزاد
ترجمہ و ترتیب : اظہار احمد
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ