HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

الحاد جدید کے مغربی اور مسلم دنیا پر اثرات

محمد مبشر نذیر

الحاد کا لفظ عموماً لادینیت اور خدا پر عدم یقین کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک توحید، نبوت و رسالت اور آخرت ، تینوں عقائد ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کا انکار یا اس سے اعراض باقی دو کو غیرموثر کردیتا ہے، اس لیے ان میں کسی ایک کا انکار بھی الحاد ہی کہلائے گا۔ چنانچہ اس تحریر میں ہم جس الحاد کی تاریخ پر گفتگو کریں گے ، وہ وجود خدا، نبوت و رسالت اور آخرت میں سے نظریاتی یا عملی طور پر کسی ایک یا تینوں کے انکار پر مبنی ہے۔ ہماری اس تحریر میں الحاد کی تعریف میں مروج ’Atheism’ ،‘Deisim‘ اور ’Agnosticism‘ سب ہی شامل ہیں۔ ڈی ازم سے مراد آخرت کا انکار ہے، جبکہ ایتھزم اور ایگناسٹسزم خدا کے انکار سے متعلق ہیں۔

ازمنۂ قدیم سے ہی بعض لوگ الحاد کے کسی نہ کسی شکل میں قائل تھے، لیکن اس معاملے میں خدا کے وجود کا انکار بہت ہی کم کیا گیاہے ۔ بڑے مذاہب میں صرف بدھ مت ہی ایسا مذہب ہے جس میں کسی خدا کا تصور نہیں پایا جاتا۔ ہندو مذہب کے بعض فرقوں جیسے جین مت میں خدا کا تصور نہیں ملتا۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں صرف چند فلسفی ہی ایسے گزرے ہیں جنھوں نے خدا کا انکار کیا۔ عوام الناس کی اکثریت ایک یا کئی خداؤں کے وجود کی بہرحال قائل رہی ہے۔ نبوت و رسالت کا اصولی حیثیت سے انکار کرنے والے بھی کم ہی رہے ہیں،ہاں ایسا ضرور ہوا کہ جب کوئی نبی یا رسول ان کے پاس خدا کا پیغام لے کر آیا تو اپنے مفادات یا ضد و ہٹ دھرمی کی وجہ سے انھوں نے اس نبی یا رسول کا انکار کیا ہو۔ آخرت کا انکار کرنے والے ہر دور میں کافی بڑی تعداد میں دنیا میں موجود رہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے مشرکین کے بارے میں بھی یہی پتاچلتا ہے کہ وہ خدا کے منکر تو نہ تھے ،لیکن ان میں آخرت پر یقین نہ رکھنے والوں کی کمی نہ تھی۔

عالمی تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خالص الحاد دنیا میں کبھی قوت نہ پکڑ سکا۔ دنیا بھر میں یا تو انبیاے کرام علیہم السلام کے ماننے والے غالب رہے یا پھر دین شرک کا غلبہ رہا۔ دین الحاد کو حقیقی فروغ موجودہ زمانے ہی میں حاصل ہوا ہے جب دنیا کی غالب اقوام نے اسے اپنے نظام حیات کے طور پر قبول کرلیا ہے اور اس کے اثرات پوری دنیا پر پڑ رہے ہیں۔ اس تحریر میں ہم یہ جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ وہ کیا عوامل تھے جن کی بنیاد پر الحاد کو اس قدر فروغ حاصل ہوا؟ دنیا بھر میں الحاد کی تحریک نے کیا کیا فتوحات حاصل کیں اور اسے قبول کرنے والے ممالک اور اقوام کی سیاست، معیشت اور معاشرت پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟ تاریخ کے مختلف ادوار میں الحاد کی تحریک نے کیا کیا رنگ اختیار کیے اور دور جدید میں الحاد کی کون سی شکل دنیا میں غالب ہے؟ مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک پر اس کے کیا اثرات مرتب ہو چکے ہیں اور اس کے مستقبل کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے؟

یورپ میں الحاد کی تحریک

یورپ میں قرون وسطیٰ ہی میں عیسائی حکومتیں قائم ہوچکی تھیں اور چرچ کا ادارہ پوری طرح مستحکم ہو چکا تھا۔ جب تیسری صدی عیسوی میں عوام الناس کی اکثریت نے عیسائیت قبول کرلی تو ان کے بادشاہ قسطنطین نے بھی عیسائیت قبول کرنے کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد عیسائی علمااور ان کے قائد پوپ کو حکومتی معاملات میں غیر معمولی اثرو رسوخ حاصل ہوگیا۔ حکومتی طاقت کو استعمال کرکے انھوں نے معاشرے میں پھیلے ہوئے دین شرک اور بت پرستی کا خاتمہ کردیا اور اس کے ماننے والوں کو عیسائیت قبول کرنے پر مجبور کیا۔ جن لوگوں نے عیسائیت قبول کرنے سے انکار کیا، انھیں تہ تیغ کردیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ پھر عیسائیت میں بھی حلول اور مسیح علیہ السلام کو خدا کا بیٹا ماننے کا عقیدہ پیدا ہوگیا اور شخصیت پرستی اور اکابر پرستی نے جنم لیا جس نے ان کے دین میں شرک کو داخل کیا۔ عیسائی علما نے وقت کے مسلمہ نظریات ،جن میں ارسطو اور افلاطون کے سائنسی اور فلسفیانہ افکار بھی شامل تھے، کی مقبولیت کے پیش نظر انھیں اپنے دین میں داخل کر لیا۔ حکومتیں پوپ اور مذہبی علماکی رہنمائی میں چلنے لگیں جسے آج تھیو کریسی کہا جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ مذہبی رہنما اپنے مسلک اور عقیدے میں شدت اختیار کرتے گئے۔ صدیوں کے انحطاط degeneration) ) کے عمل سے ان میں بہت سے فرقے بھی پیدا ہوگئے اور ان میں اخلاقی انحطاط بھی در آیا۔ مذہبی انتہا پسندی اس حد تک پہنچ گئی کہ کوئی بھی شخص جو مرکزی چرچ کے معمولی سے حکم سے بھی اختلاف کرتا، اسے مرتد قرار دے کر قتل کر دیا جاتا۔ نئے علوم و فنون کی تحصیل پر پابندی عائد کردی گئی ۔ اسی دور میں مسلمانوں نے یونانی فلسفے کی کتب کا عربی میں ترجمہ کیا اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں قابل قدر اضافے کیے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اہل یورپ میں بھی علم حاصل کرنے کا شعور پیدا ہوااور وہ یہی چیزیں سیکھنے کے لیے مسلم دنیا میں آئے۔ ایک ممتاز امریکی مصنف کے الفاظ میں:

’’جیسے جیسے مسلمانوں کا اقتدار پھیلتا گیا، یہ لوگ اچھے سیکھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے ثابت ہوئے۔مسلمان حکمرانوں نے مفتوحہ علاقوں کی ترقی یافتہ تہذیب کے مقابلے میں اپنی کمزوری (limitation)کو محسوس کرتے ہوئے مقامی اداروں، خیالات، نظریات اور ثقافت کو اسلامی سانچے میں ڈھال لیا ۔ انھوں نے اپنے سے زیادہ ترقی یافتہ مفتوحین سے سیکھنے میں کوئی جھجک محسوس نہ کی۔عظیم لائبریریاں اور دار التراجم قائم ہوئے۔ سائنس، طب اور فلسفہ کی بڑی بڑی کتابوں کو مشرق و مغرب سے اکٹھا کرکے ان کے ترجمے کیے گئے۔یونانی، لاطینی، فارسی، شامی اور سنسکرت زبانوں سے ترجمہ کرنے کا کام عام طور پر یہودی اور عیسائی مفتوحین نے سر انجام دیا۔اس طرح ادب، سائنس اور طب کی دنیا بھر کی بہترین کتابیں عوام الناس کے لیے میسر ہو گئیں۔ترجمے کے دور کے بعد تخلیقی کام کا دور شروع ہوا۔تعلیم یافتہ مسلمان مفکرین اور سائنس دانوں نے حاصل شدہ علم میں قابل قدر علمی اضافے کیے۔یہ وہ دور تھا جس میں سائنس اور فلسفہ کے عظیم امام ابن سینا، ابن رشد اور الفارابی پیدا ہوئے۔بڑے بڑے شہروں قرطبہ، نیشاپور، قاہرہ، بغداد، دمشق اور بخارا میں بڑی بڑی لائبریریاں قائم ہوئیں، جبکہ یورپ اس دور میں دور تاریک سے گزر رہا تھا۔مسلمانوں اور غیر مسلموں کی سیاسی اور ثقافتی زندگیوں کو ان کے قبائلی اور مذہبی پس منظر کی رعایت سے اسلام کے فریم ورک میں لایا گیا۔نئے نظریات اور طور طریقوں کو اسلامائز کیا گیا۔اسلامی تہذیب ایک متحرک اور تبدیلی کے تخلیقی عمل کا نتیجہ تھی جس میں مسلمانوں نے دوسری تہذیبوں سے آزادانہ اچھی چیزوں کو لیا۔یہ خود اعتمادی اور کھلے پن کا مظہر تھا جو اس خیال سے پیدا ہوا کہ ہم آقا ہیں غلام نہیں ہیں، فاتح ہیں مفتوح نہیں ہیں۔بیسویں صدی کے مسلمانوں کے برعکس، وہ مسلمان تحفظ اور اعتماد کے احساسات سے بھرپور تھے۔ان کو مغرب سے کچھ لینے میں کوئی رکاوٹ محسوس نہ ہوتی تھی ،کیونکہ مغرب اس وقت ان پر سیاسی یا ثقافتی غلبہ نہ رکھتا تھا۔کلچر کا یہ بہاؤ اس وقت الٹی سمت میں بہنے لگا، جب یورپ تاریک ادوار سے نکل کر مسلم مراکز میں اپنا کھویا ہوا ورثہ سیکھنے کے لیے آیا جس میں مسلمانوں کے ریاضی، طب اور سائنس کے اضافے بھی شامل تھے۔‘‘ (The Islamic Threat: Myth or Reality ، John L. Esposito، دوسرا ایڈیشن ، ۳۳۔۳۴)

تیرہویں سے سترہویں صدی تک یورپ میں چرچ کے اقتدار اور تنگ نظری کے خلاف بغاوت کے جذبات پیدا ہو چکے تھے۔ اس دور میں یورپ میں رینی ساں Renaissance) ) اور ریفارمیشن (Reformation) کی تحریکیں چلیں جن میں چرچ پر بھرپور تنقید کی گئی۔ اسی دوران میں مارٹن لوتھر کی مشہور پروٹسٹنٹ تحریک بھی چلی جس نے دنیاے عیسائیت کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ یورپ میں ایسے مفکرین بھی پیدا ہونے لگے جن کی تحقیقات نے ارسطو اور افلاطون کے ان سائنسی نظریات کو بھی چیلنج کردیا جنھیں اہل کلیسا نے طویل عرصے سے مذہبی عقائد کا حصہ بنایا ہوا تھا۔ ان میں سب سے مشہور زمین کے کائنات کا مرکز ہونے اور اس کے ساکن ہونے اور سورج اور تمام اجرام فلکی کے زمین کے گرد گھومنے کا نظریہ تھا۔ ان مفکرین میں لیونارڈو ڈا ونسی (۱۵۱۹ء۔۱۴۵۲ء)، جیارڈینو برونو (۱۶۰۰ ء ۔ ۱۵۴۸ء )، گلیلیو (۱۶۴۲ء ۔۱۵۶۴ء ) اور جوہانس کپلر(۱۶۳۰ء ۔۱۵۷۱ء ) زیادہ مشہور ہیں۔ مذہبی علمانے اس تنقید اور جدید نظریات کا سختی سے نوٹس لیا۔ انھوں نے عقل و منطق اور مشاہدے کی بنیاد پر حاصل ہونے والے سائنسی علم کو طاقت سے دبانا چاہا۔ احتساب (Inquisition) کی مشہور عدالتیں قائم ہوئیں جو اس قسم کے نظریات رکھنے والے مفکرین کو سخت سزائیں دیتیں۔ برونو کو کئی سال قید میں رکھنے کے بعد آگ میں زندہ جلا دیاگیا۔ گلیلیو کو اپنے عقائد سے توبہ کرنا پڑی ورنہ اسے بھی موت کی سزا سنا دی گئی تھی:

’’رینی ساں کا دور فکر انسانی میں ہر اعتبار سے ترقی کا دور ہے۔ اس دور میں آزادانہ سوچ اور الحاد کو فروغ حاصل ہوا۔ صرف اور صرف چرچ کے حکم کی بنیاد پر کسی چیز کو قبول کرنے کی پابندی کے بڑے مخالفین میں لیونارڈو ڈا ونسی تھے۔ انھوں نے علم کے حصول کے لیے تجربے کی اہمیت پر زور دیا۔ نکولو میکیا ولی بھی چرچ پر مسلسل تنقید کرتے رہے۔ ان کی شہرت بھی ایک ملحد کی ہے۔... جیارڈینو برونو کی موت( ۱۶۰۰ء ) آزادی فکر کے نئے دور کا آغاز ہے۔ برونو اٹلی کے رہنے والے ایک مصنف تھے جو علم کلام کے ماہر تھے۔ اپنی تحریروں کے باعث انھیں محکمۂ احتساب (Inquisition)کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ انھوں نے پورے یورپ کا سفر کیا جس کے دوران میں وہ اپنے نظریات کو تقریر و تحریر کے ذریعے سے پھیلاتے رہے۔ انھیں گرفتار ہوجانے کا خطرہ بھی لاحق رہا۔ چودہ سال کے بعد ، وینس شہر میں انھیں ان کے ایک پرانے شاگرد نے احتساب والوں کے ہاتھوں گرفتار کرا دیا۔ برونو احتساب کی عدالت کے سامنے اپنے نظریات سے انحراف نہ کرسکے جن میں مسیح (علیہ السلام )کی الوہیت سے انکار، اس دنیا کے ہمیشہ باقی رہنے کا عقیدہ اور روح کے حلول کا عقیدہ شامل ہے۔ وہ نظام شمسی کے کوپر نیکی نظریے (یعنی سورج نظام شمسی کا مرکز ہے) پر بھی یقین رکھتے تھے اور اس پر لیکچر بھی دیا کرتے تھے۔ برونو پر مقدمہ چلایا گیا اور عدالت کے سامنے ان کا جرم ثابت ہوگیا۔ برونو نے روم میں سات سال جیل میں گزارے۔ بالآخر فروری۱۶۰۰ میں انھیں آگ میں زندہ جلا دیاگیا۔ اگلے دو سو سال میں ان کے علاوہ آزادی فکر کے اور بھی شہید موجود ہیں۔‘‘ ( The History of Free Thought and Atheism، Dr. Gordon Stein ۔ www.positiveatheism.org )

مذہبی علما اور سائنس دانوں میں یہ چپقلش چلتی رہی۔ وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے پر اہل کلیسا کی گرفت کمزور ہوتی گئی اور فلسفیوں کا اثر و رسوخ بڑھتا چلا گیا۔ انیسویں صدی کے وسط تک ملحد فلسفیوں اور سائنس دانوں کی فکر اہل یورپ میں غالب فکر بن چکی تھی۔ چونکہ اہل کلیسانے اپنے اقتدار کے دور میں سائنس دانوں کے ساتھ بہت ظالمانہ اور جابرانہ رویہ رکھا تھا، اس لیے مذہب اور سائنس میں ایک وسیع خلیج پیدا ہوچکی تھی۔ اہل سائنس نے مذہب کے بارے میں کوئی معقول رویہ اختیار کرنے کے بجائے اپنے سائنسی نظریات کی روشنی میں یہی مناسب سمجھا کہ اسے خیر باد ہی کہہ دیا جائے۔ اس معاملے میں اہل مذہب کا کردار بھی اتنا معیاری نہ تھا کہ اس کی پیروی کی جاتی۔چنانچہ مشہور برطانوی ملحد فلسفی برٹر ینڈ رسل لکھتے ہیں:

’’میں تو یہاں تک سوچا کرتا ہوں کہ بعض اہم نیکیاں مذہب کے علم برداروں میں نہیں ملتیں۔ وہ ان لوگوں میں پائی جاتی ہیں جو مذہب کے باغی ہوتے ہیں۔ ان میں سے دو نیکیاں خاص طور پر قابل ذکر ہیں اور وہ راست بازی اور ذہنی دیانت ہیں۔ذہنی دیانت سے میری مراد پیچیدہ مسائل کو ثبوت اور شہادتوں کی بنیاد پر حل کرنے کی عادت ہے۔ اس سے مراد یہ بھی ہے کہ جب تک کافی ثبوت اور شہادتیں دستیاب نہ ہوں، تب تک ان مسائل کو غیر حل شدہ ہی رہنے دیا جائے۔...تحقیق کی حوصلہ شکنی ان میں سب سے پہلی خرابی ہے۔ لیکن دوسری خرابیاں بھی پیچھے نہیں رہتیں۔ قدامت پسندوں کو قوت و اختیار حاصل ہو جاتا ہے۔ تاریخی دستاویزات میں اگر کوئی بات عقیدوں کے بارے میں شبہات پیدا کرنے والی ہو تو ان کی تکذیب شروع کردی جاتی ہے۔ پھر یہ ہوتا ہے کہ جلد یا بدیر منحرف عقیدے رکھنے والوں کے خلاف مہم شروع کر دی جاتی ہے۔ پھانسیاں گاڑ دی جاتی ہیں اور نظر بندی کے کیمپ بنا دیے جاتے ہیں۔ میں اس شخص کی قدر کرسکتا ہوں جو یہ کہے کہ مذہب سچا ہے، لہٰذا ہم کو اس پر ایمان رکھنا چاہیے(اور سچائی ثابت کرے) ،لیکن ان لوگوں کے لیے میرے دل میں گہری نفرت کے سوا کچھ نہیں جو یہ کہتے ہیں کہ مذہب کی سچائی کا مسئلہ اٹھانا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے اور یہ کہ ہم کو مذہب اس لیے قبول کرلینا چاہیے کہ وہ مفید ثابت ہوتا ہے۔ یہ نقطۂ نظر سچائی کی توہین کرتا ہے ، اس کی اہمیت کو ختم کردیتا ہے اور جھوٹ کی بالادستی قائم کردیتا ہے۔... اشتراکیت کی برائیاں وہی ہیں جو ایمان کے زمانوں میں مسیحیت میں پائی جاتی تھیں۔ سوویت خفیہ پولیس کے کارنامے، رومن کیتھولک کلیسا کی قرون وسطیٰ کی عدالت، احتساب کے کارناموں سے صرف مقداری طور پر ہی مختلف تھے۔ جہاں تک ظلم و ستم کا تعلق ہے، دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ اس پولیس نے روسیوں کی ذہنی اور اخلاقی زندگی کو ایسا ہی نقصان پہنچایا جیسا کہ مذہبی احتساب کی عدالت نے مسیحی اقوام کی ذہنی اور اخلاقی زندگی کو پہنچایا تھا۔ اشتراکی تاریخ کی تکذیب کرتے ہیں۔ نشاۃ ثانیہ تک چرچ بھی یہی کام کیا کرتا تھا۔... جب دو سائنس دانوں کے درمیان اختلاف ہوتا ہے تو وہ اختلاف کو دور کرنے کے لیے ثبوت تلاش کرتے ہیں۔ جس کے حق میں ٹھوس اور واضح ثبوت مل جاتے ہیں، وہ راست قرار پاتا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ سائنس دان ہونے کی حیثیت سے ان دونوں میں سے کوئی بھی خود کو بے خطا خیال نہیں کرتا۔ دونوں سمجھتے ہیں کہ وہ غلطی پر ہوسکتے ہیں۔ اس کے برخلاف جب دو مذہبی علمامیں اختلاف پیدا ہوتا ہے تو وہ دونوں اپنے آپ کو مبرا عن الخطا خیال کرتے ہیں،وہ سمجھتے ہیں کہ ان سے کوئی غلطی نہیں ہوسکتی۔ دونوں میں سے ہر ایک کو یقین ہوتا ہے کہ صرف وہی راستی پر ہے۔ لہٰذا ان کے درمیان فیصلہ نہیں ہوپاتا۔ بس یہ ہوتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگتے ہیں، کیونکہ دونوں کو یقین ہوتا ہے کہ دوسرا نہ صرف غلطی پر ہے ، بلکہ راہ حق سے ہٹ جانے کے باعث گناہ گار بھی ہے۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ جذبات بھڑک اٹھتے ہیں اور نظری مسائل حل کرنے کے لیے دنگافساد تک نوبت جاپہنچتی ہے۔‘‘ (لوگوں کو سوچنے دو، برٹرینڈ رسل، اردو ترجمہ قاضی جاوید ۸۱۔۸۶ )

اسی دوران میں ڈی ازم (Deism)کی تحریک بھی پیدا ہوئی۔ اس کا بنیادی نظریہ یہ تھا کہ اگرچہ خدا ہی نے اس کائنات کو تخلیق کیا ہے، لیکن اس کے بعد وہ اس سے بے نیاز ہوگیا ہے۔ اب یہ کائنات خود بخود ہی چل رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس تحریک کا ہدف رسالت اور آخرت کا انکار تھا۔ اس تحریک کو فروغ ڈیوڈ ہیوم اور مڈلٹن کے علاوہ مشہور ماہر معاشیات ایڈم سمتھ کی تحریروں سے بھی ملا۔ ان لوگوں نے بھی چرچ پر اپنی تنقید جاری رکھی اور چرچ کا جبر و تشدد جاری رہا۔ تقریباً دو سو سال تک یہ تحریک بھی موجود رہی۔ کلیسا کے انتہا درجے کے جبر وتشدد کا نتیجہ یہ نکلا کہ اٹھارہویں صدی میں یورپ کے اہل علم میں بالعموم انکار خدا کی لہر چل نکلی جو انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل تک اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ ترکی کے مشہور عالم ہارون یحییٰ کے الفاظ میں:

’’یقیناً الحاد یعنی وجود خدا سے انکار کا نظریہ پرانے وقتوں میں بھی موجود رہا ہے ،لیکن اٹھارہویں صدی میں کچھ مخالف مذہب مفکرین کے فلسفے کے پھیلاؤ اور سیاسی اثرات سے اس کا عروج شروع ہوا۔ مادیت پرستوں جیسے ڈائڈرٹ اور بیرن ڈی ہالبیک نے یہ نظریہ پیش کیا کہ یہ کائنات مادے کا ایسا مجموعہ ہے جو ہمیشہ سے ایسے ہی موجود ہے اور اس کا کوئی نقطۂ آغاز نہیں۔ انیسویں صدی میں الحاد مزید پھیلا۔ بڑے بڑے ملحد مفکرین جیسے مارکس، اینجلز، نٹشے، ڈرخم اور فرائڈ نے سائنس اور فلسفے کی مختلف شاخوں کے علم کو الحادی بنیادوں پر منظم کیا۔(ان میں سے مارکس اور اینجلز ماہر معاشیات (Economists)، نٹشے ماہر فلسفہ (Philosopher)، ڈرخم ماہر عمرانیات (Sociologist) اور فرائڈ ماہر نفسیات (Psychologist) تھے۔) الحاد کو سب سے زیادہ مدد (ماہر حیاتیات Biologist ) چارلس ڈارون سے ملی جس نے تخلیق کائنات کے نظریے کو رد کرکے اس کے برعکس ارتقا (Evolution) کا نظریہ پیش کیا۔ ڈارون نے اس سائنسی سوال کا جواب دے دیا تھا جس نے صدیوں سے ملحدین کو پریشان کر رکھا تھا۔ وہ سوال یہ تھا کہ ’’انسان اور جان دار اشیا کس طرح وجود میں آتی ہیں؟‘‘ اس نظریے کے نتیجے میں بہت سے لوگ اس بات کے قائل ہو گئے کہ فطرت میں ایسا آٹو میٹک نظام موجود ہے جس کے نتیجے میں بے جان مادہ حرکت پزیر ہو کر اربوں کی تعداد میں موجود جان دار اشیا کی صورت اختیار کرتا ہے۔ انیسویں صدی کے آخر تک ملحدین کائنات کے بارے میں ایک ایسا نقطۂ نظر (worldview) بنا چکے تھے جو ان کے نزدیک اس کائنات سے متعلق ہر ایک سوال کا جواب دیتا تھا۔ انھوں نے کائنات کی تخلیق کا انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کائنات ہمیشہ سے ایسے ہی موجود ہے۔ انھو ں نے دعویٰ کیا کہ اس کائنات کا کوئی مقصد نہیں۔ اس میں جو توازن پایا جاتا ہے، وہ محض ایک اتفاقی امر ہے۔ انھیں یہ یقین ہوگیا کہ جان دار اشیا کے وجود پزیر ہونے کا سوال ڈارون نے حل کردیا ہے۔ ان کے خیال میں تاریخ اور عمرانیات سے متعلق ہر مسئلے کی تشریح مارکس اور ڈرخم نے کر دی ہے اور ملحدانہ بنیادوں پر فرائڈ نے ہر نفسیاتی سوال کا جواب دے دیا ہے۔ ‘‘ ( The Fall of Atheism ، Harun Yahya ، www.yahyah.org)

اسی الحاد کی بنیاد پر سیکولرازم کا نظریہ وجود پزیر ہوا جو مذہب اور الحاد کے درمیان ایک عملی تطبیق (Reconciliation)کی حیثیت رکھتا تھا۔ فلسفیانہ اور ملحدانہ نظریات نے اہل یورپ کی اشرافیہ کو بری طرح متاثر کر دیا تھا۔ ان کے ہاں تعلیم یافتہ ہونے کا مطلب ہی ملحد اور لادین ہونا تھا۔ دوسری طرف عوام الناس میں اہل مذہب کا اثر ورسوخ خاصی حد تک باقی تھا۔

اہل مذہب کا ایک اور مسئلہ یہ بھی تھا کہ وہ بہت سے فرقوں میں منقسم تھے اور ایک فرقے کے لیے یہ ناممکن تھا کہ وہ دوسرے کی بالادستی قبول کرسکے۔ ان حالات میں انھوں نے یہ طے کر لیا کہ ہر فرد کو اپنی ذات میں تو اپنے عقیدے پر قائم رہنے کی آزادی دی جائے، لیکن اجتماعی اور ریاستی سطح پر مذہب سے بالکل لاتعلق ہو کر خالص عقل و دانش اور جمہوریت کی بنیادوں پر نظام حیات کو مرتب کر لیا جائے۔ اگر حکومت کا کوئی سرکاری مذہب ہو بھی تو اس کی حیثیت محض نمایشی ہو، اسے معاملات زندگی سے کوئی سروکار نہ ہو۔

سیکولر ازم کے اس نظریے کا فروغ دراصل مذہب کی بہت بڑی شکست اور الحاد کی بہت بڑی فتح تھی۔ اہل مغرب نے اپنے سیاسی، عمرانی اور معاشی نظاموں کو مذہب کی روشنی سے دور ہوکر خالصتاً ملحدانہ بنیادوں پر استوار کیا۔ مذہب کو چرچ تک محدود کر دیا گیا۔ تمام قوانین جمہوری بنیادوں پر بنائے جانے لگے۔ عیسائیت میں بھی فری سیکس گناہ کی حیثیت رکھتا ہے ،لیکن جمہوری اصولوں کے مطابق اکثریت کی خواہش پر اسے جائز قرار دیا گیا حتیٰ کہ ہم جنس پرستی کو بھی قانونی مقام دیا گیا اور ایک ہی جنس میں شادی کو بھی قانونی ٹھہرا لیا گیا۔ سود ہمیشہ سے آسمانی مذاہب میں ممنوع رہا ہے ،لیکن معیشت کا پورا نظام سود پر قائم کیا گیا۔ سیکولر ازم کے نتیجے میں الحاد اہل مغرب کے نظام حیات میں غالب قوت بن گیا ۔ان کی اکثریت اگرچہ اب بھی خدا کی منکر نہیں ہے ،لیکن عملی اعتبار سے وہ نبوت و رسالت اور آخرت کا انکار کر چکی ہے۔ اگر کوئی مذہب کو حق مانتا ہے تو پھر یہ لازم ہے کہ وہ اسے اپنی پرائیویٹ لائف کے ساتھ ساتھ پبلک لائف میں بھی اپنائے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو خدا کو ماننے کے باوجود وہ عملاً خدا ، نبوت اور آخرت کا انکار کرکے الحاد کو اختیار کرہی چکا ہے۔ اب اس کے بعد صرف انسانی اخلاقیات یا دین فطرت ہی باقی رہ جاتا ہے جسے ملحدین بھی مانتے ہیں۔ اہل مغرب اگرچہ ان میں سے بہت سے اصولوں کو چھوڑ چکے ہیں ،لیکن اب بھی وہ ان اخلاقی اصولوں کے بڑے حصے کو اپنائے ہوئے ہیں۔

مسلم معاشروں میں الحاد کا فروغ

پندرہویں اور سولہویں صدی میں اہل یورپ اپنے ممالک سے نکل کر مشرق و مغرب میں پھیلنا شروع ہوئے۔ انیسویں صدی کے آخر تک وہ دنیا کے بڑے حصے پر اپنی حکومت قائم کرچکے تھے۔ ان کی نوآبادیات میں مسلم ممالک کی اکثریت بھی شامل تھی۔ اہل یورپ نے ان ممالک پر صرف اپنا سیاسی اقتدار ہی قائم نہیں کیا ،بلکہ ان میں اپنے الحادی نظریات کو بھی فروغ دیا۔ مغربی ملحدین نے عیسائیت کی طرح اسلام کی اساسات پر بھی حملہ کیا۔ مسلم ممالک میں ان کے نظریات کے جواب میں چار طرح کے رد عمل سامنے آئے:

۱۔ مغربی الحاد کی پیروی

۲۔ مغرب کو مکمل طور پر رد کر دینا

۳۔مغرب کی پیروی میں اسلام میں تبدیلیاں کرنا

۴۔مغرب کے مثبت پہلو کو لے کر اسے اسلامی سانچے میں ڈھالنا

پہلا رد عمل مسلمانوں کی اشرافیہ (Elite) کا تھا۔ ان کی اکثریت نے اہل مغرب اور ان کے الحاد کو کلی یا جزوی طور پر قبول کرلیا۔اگرچہ اپنے نام اور بنیادی عقائد کی حد تک وہ مسلمان ہی تھے ،لیکن اپنی اجتماعی زندگی میں وہ الحاد اور لادینیت کا نمونہ تھے۔ بیسویں صدی کے وسط میں آزادی کے بعد بھی ان کی یہ روش برقرار رہی۔ ان میں سے بعض تو اسلام کی تعلیمات کے کھلم کھلا مخالف تھے جن میں ترکی کے مصطفیٰ کمال پاشا، ایران کے رضا شاہ پہلوی، تیونس کے حبیب بورغبیہ اور پاکستان کے جنرل یحییٰ خان شامل ہیں۔ مسلم حکمرانوں کی اکثریت نے اگرچہ اسلام کا کھلم کھلا انکار نہیں کیا، لیکن وہ عملی طور پر الحاد ہی سے وابستہ رہے۔ چونکہ مسلم عوام کی اکثریت کا سیاسی و معاشی مفاد انھی کی پیروی میں تھا، اس لیے عوام الناس میں الحاد پھیلتا چلا گیا۔ اس کی تفصیل ہم آگے بیان کریں گے۔

دوسرا رد عمل روایتی مسلم علماکا تھا۔ انھوں نے اہل مغرب کے نظریات کو یک سر مسترد کردیا۔ انھوں نے مغربی زبانوں کی تعلیم، مغربی علوم کے حصول، مغربی لباس کے پہننے اور اہل مغرب کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلق کو حرام قرار دیا۔انھوں نے اپنے مدارس کے ماحول کو قرون وسطیٰ کے ماحول میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ انھوں نے دور جدید میں کسی مسئلے پر اجتہادی انداز میں سوچنے کے بجائے قدیم ائمہ کی حرف بہ حرف تقلید پر زور دیا۔ برصغیرمیں اس نقطۂ نظر کو ماننے والے بڑے بڑے علما میں قاسم نانوتوی، محمود الحسن اور احمد رضا خان بریلوی شامل تھے ،جن کے نقطۂ نظر کو پورے ہندوستان کے دینی مدارس نے قبول کیا۔ اگرچہ ان علما میں کچھ مسلکی اور فقہی اختلافات موجود تھے، لیکن مغرب کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر بالکل یکساں تھا۔ اگرچہ ان میں سے بعض مغربی زبانیں سیکھنے اور مغربی علوم کے حصول کے مخالف نہ تھے ،لیکن عملاً ان کا رویہ اس سے دوری ہی کا رہا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرے میں ان کا اثر و نفوذکم سے کم تر ہوتا چلا گیا اور ان کے نقطۂ نظر کو ماضی کی چیز سمجھ لیا گیا۔ جدید تعلیم یافتہ طبقہ ان سے بے زار ہونے لگا اور آہستہ آہستہ یا تو پہلے نقطۂ نظرکو قبول کرکے الحاد کی طرف چلا گیا یا پھر اس نے تیسرے اور چوتھے نقطۂ نظر کو قبول کیا۔ معاشرے میں ان کا کردار یہی رہ گیا کہ وہ مسجد میں نماز پڑھا دیں، کسی کے گھر میں ختم قرآن کردیں یا پھر نکاح، بچے کی پیدایش اور جنازے کے وقت چند رسومات ادا کردیں۔ عملی زندگی میں ان کے کردار کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جمعہ کی نماز کے وقت لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے یہ انتظار کر رہے ہوتے ہیں کہ کب مولوی صاحب وعظ ختم کریں اور وہ مسجد میں جا کر نماز جمعہ ادا کریں۔ جیسے ہی وعظ ختم ہونے کے قریب ہوتا ہے ، لوگ جوق در جوق مسجد کی طرف آنے لگتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو ان کے وعظ اور تقاریر سے کوئی دلچسپی نہیں۔ انھی روایتی علما میں سے بعض نے جدید دنیا کے علوم سے واقفیت حاصل کرکے عصر حاضر کے زندہ مسائل کو اپنا ہدف بنایا ہے۔ عام روایتی علما کی نسبت ان کا اثر و نفوذ معاشرے میں بہت زیادہ ہے اور ان کی دعوت کو سننے والے افراد کی کوئی کمی نہیں۔

اس دور میں امت مسلمہ کی علمی و فکری قیادت برصغیر اور مصر کے اہل علم کے ہاتھ میں آچکی تھی۔ بعض مسلمان مفکرین نے اسلام اور جدید الحادی نظریات میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے اس مقصد کے لیے اسلام کے بعض بنیادی عقائد و اعمال کا بھی انکار کردیا۔ اس نقطۂ نظر کو ماننے اور پھیلانے والوں میں ہندوستان کے سرسید احمد خان ، اورمصر کے محمدعبدہ ، طہٰ حسین اور سعد زغلول شامل ہیں۔ اسی فکر کو بیسویں صدی میں غلام احمد پرویز اور ان کے شاگرد ڈاکٹر عبد الودود نے پیش کیا۔ روایتی اور چوتھے نقطۂ نظر کے حامل علما کے اثر و رسوخ کے پیش نظر اس فکر کو مسلم معاشروں میں عام مقبولیت حاصل نہ ہو سکی تاہم اس سے اشرافیہ کا ایک اہم حلقہ ضرور متاثر ہوا۔

چوتھا رد عمل ان اہل علم کا تھا جو روایتی علما کے قدیم علمی ورثے کے ساتھ ساتھ جدید علوم سے بھی واقفیت رکھتے تھے۔ ان لوگوں نے مغرب کے الحادی افکار پر کڑی نکتہ چینی کی اور تیسرے نقطۂ نظر کے حامل علماکے برعکس اسلام کو معذرت خواہانہ انداز کے بجائے باوقار طریقے سے پیش کیا۔ انھوں نے روایتی علما پر تنقید کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت تو ناقابل تغیر ہے، لیکن قرون وسطیٰ کے علمانے اپنے ادوار کے تقاضوں کے مطابق جو قانون سازی کی تھی، اس کی تشکیل نو (Reconstruction)کی ضرورت ہے۔ روایتی علماکے برعکس انھوں نے جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے حصول پر زور دیا۔ اس نقطۂ نظر کے حاملین میں ہندوستان کے اہل علم میں سے محمد اقبال، ابوالکلام آزاد ، شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی، حمید الدین فراہی اور سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مصر کے علما میں رشید رضا، حسن البنا اور سید قطب شامل ہیں۔ ان کے علاوہ دوسرے ممالک کے جدید اہل علم نے انھی کی پیروی کی۔ اسی نقطۂ نظر کے حاملین نے عالم اسلام میں بڑی بڑی تحریکیں برپا کیں جنھوں نے جدید طبقے کو اسلام سے متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ روایتی علما کی نسبت انھیں تعلیم یافتہ طبقے میں کافی زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی اور ان کے اثرات اپنے اپنے معاشروں پر نہایت گہرے ہیں۔

مغربی اور مسلم معاشروں پر الحاد کے اثرات

الحاد کے اس عروج نے مغربی اورمسلم معاشروں پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے۔ یہ کہنا مبالغہ نہیں ہو گا کہ انھوں نے قدیم ورثے کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا اور عیسائیت اور اسلام کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج پیدا کر دیا۔ ہم الحاد کے اثرات کو نظریات، فلسفے، سیاست، معیشت ، معاشرت اور اخلاق، ہر پہلو میں نمایاں طور پر محسوس کر سکتے ہیں:

عقائد، فلسفہ اور نظریات

سب سے پہلے ہم نظریاتی اور فلسفیانہ پہلو کو لیتے ہیں۔ الحاد نے عیسائیت اور اسلام کے بنیادی عقائد یعنی وجود باری تعالیٰ، رسالت اور آخرت پر حملہ کیا اور اس کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلائے۔ خدا کے وجود سے انکار کردیا گیا، رسولوں کے تاریخی وجود ہی کاانکار کردیا گیا اور آخرت سے متعلق طرح طرح کے سوالات اٹھائے گئے۔ اس ضمن میں ملحدین کو کوئی خاص کامیابی حاصل نہ ہوسکی، کیونکہ یہ تینوں عقائد مابعد الطبیعیاتی حقائق سے تعلق رکھتے ہیں جسے اس دنیا کے مشاہداتی اور تجرباتی علم کی روشنی میں نہ تو ثابت کیاجاسکتا ہے اور نہ رد کیا جاسکتا ہے۔ ان ملحدین نے عیسائیت پر ایک اور طرف سے بڑا حملہ کیا اور وہ یہ تھا کہ قرون وسطیٰ کے عیسائی علمانے اپنے وقت کے کچھ سائنسی اور فلسفیانہ نظریات کو اپنے نظام عقائد (Theology)کا حصہ بنا لیا تھا جیسے زمین کائنات کا مرکز ہے اور سورج اس کے گر دگھومتا ہے۔ جب جدید سائنسی تحقیقات سے یہ نظریات غلط ثابت ہوئے تو بہت سے لوگوں کا پوری عیسائیت پر سے اعتماد اٹھ گیا اورانھوں نے فکری طور پر بھی الحاد کو اختیار کرلیا۔ اسلام میں چونکہ اس قسم کے کوئی عقائد نہیں، لہٰذا اسلام اس قسم کے حملوں سے محفوظ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ الحاد کو مغرب میں تو بہت سے ایسے پیروکار مل گئے جو ہر قسم کے مذہب سے بے زاری کا اعلان کرکے خود کو فخریہ طور پر ملحد (Atheist)کہتے ہیں ،لیکن مسلمانوں میں انھیں ایسے پیروکار بہت کم مل سکے۔ مسلمانوں میں صرف ایسے چند لوگ ہی پیدا ہوئے جو عام طور پر کمیونسٹ پارٹیوں میں شامل ہوئے۔ اگر ہم کمیونسٹ تحریک سے وابستہ نسلی مسلمانوں کا جائزہ لیں تو ان میں سے بھی بہت کم ایسے ملیں گے جو خود کو کھلم کھلا دہریہ یا ملحد کہلوانے پر تیار ہوں۔

عیسائیت پر ملحدین کا ایک اور بڑا حملہ یہ تھا کہ انھوں نے انبیاے کرام، بالخصوص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وجود سے انکار کردیا۔ انھو ں نے آسمانی صحیفوں بالخصوص بائیبل کو قصے کہانیوں کی کتاب قرار دیا۔ اس الزام کا کامیاب دفاع کرتے ہوئے کچھ عیسائی ماہرین آثار قدیمہ نے اپنی زندگیاں وقف کرکے علمی طور پر یہ بات ثابت کردی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک تاریخی شخصیت ہیں اور بائیبل محض قصے کہانیوں کی کتاب ہی نہیں ،بلکہ اس میں بیان کیے گئے واقعات تاریخی طور پر مسلم ہیں اور ان کا ثبوت آثار قدیمہ کے علم سے بھی ملتا ہے۔ یہ الحاد کے مقابلے میں عیسائیت کی بہت بڑی فتح تھی۔ اسلام کے معاملے میں ملحدین ایسا نہ کرسکے کیونکہ قرآن اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخی حیثیت کو چیلنج کرنا ان کے لیے علمی طور پر ممکن نہ تھا۔ انھو ں نے اسلام پر حملہ کرنے کی دوسری راہ نکالی۔ ان میں سے بعض کوتاہ قامت اور علمی بددیانتی کے شکار افراد نے چند من گھڑت روایات کا سہارا لے کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی کردار پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی ،لیکن وہ اس میں بری طرح ناکام ہوئے، کیونکہ ان من گھڑت روایات کی علمی و تاریخی حیثیت کو مسلم علمانے احسن انداز میں واضح کر دیا جسے انصاف پسند ملحد محققین نے بھی تسلیم کیا۔ ان محققین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی عظمت کا کھلے دل سے اعتراف کیا۔ خدا کی ذات کے متعلق جو شکوک و شبہات ان ملحدین نے پھیلائے تھے، اس کی بنیاد چند سائنسی نظریات پر تھی۔ بیسویں صدی کی سائنسی تحقیقات جو خود ان ملحدین کے ہاتھوں ہوئیں،نے یہ بات واضح کردی کہ جن سائنسی نظریات پر انھوں نے اپنی عمارت تعمیر کی تھی، بالکل غلط ہیں۔ اس طرح ان کی وہ پوری عمارت اپنی بنیاد ہی سے منہدم ہوگئی جو انھوں نے تعمیر کی تھی۔ اس کی تفصیل ہم آگے بیان کر رہے ہیں۔

سیاست

فکری اور نظریاتی میدان میں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ الحاد اسلام کے مقابلے میں ناکام رہا ،مگر عیسائیت کے مقابلے میں اسے جزوی فتح حاصل ہوئی، البتہ سیاسی، معاشی، معاشرتی اور اخلاقی میدانوں میں الحاد کو مغربی اور مسلم دنیا میں بڑی کامیابی حاصل ہوئی ۔ سیاسی میدان میں الحاد کی سب سے بڑی کامیابی سیکولر ازم کا فروغ ہے۔ پوری مغربی دنیا اور مسلم دنیا کے بڑے حصے نے سیکولر ازم کو اختیار کرلیا۔ سیکولر ازم کا مطلب ہی یہ ہے کہ مذہب کو گرجے یا مسجد تک محدود کردیا جائے اور کاروبار زندگی کو خالصتاً انسانی عقل کی بنیاد پر چلایا جائے جس میں مذہبی تعلیمات کا کوئی حصہ نہ ہو۔ مغربی دنیا نے تو سیکولر ازم کو پوری طرح قبول کر لیا اور اب اس کی حیثیت ان کے ہاں ایک مسلمہ نظریے کی ہے۔ انھوں نے اپنے مذہب کو گرجے کے اندر محدود کرکے کاروبار حیات کو مکمل طور پر سیکولر کر لیا ہے۔ چونکہ اہل مغرب کے زیر اثر مسلمانوں کی اشرافیہ بھی الحاد کے اثرات کو قبول کرچکی تھی، اس لیے ان میں سے بھی بہت سے ممالک نے سیکولر ازم کو بطور نظام حکومت کے قبول کرلیا۔ بعض ممالک جیسے ترکی اور تیونس نے تو اسلام سے کھلم کھلا بغاوت کا اعلان کیا، لیکن مسلم ممالک کی اکثریت نے سیکولر ازم اور اسلام کا ایک ملغوبہ تیار کرنے کی کوشش کی جس میں بالعموم غالب عنصر سیکولر ازم کا تھا۔

الحاد کو فروغ جمہوریت کے نظریے سے بھی ہوا۔ اگرچہ جمہوریت عملی اعتبار سے اسلام کے مخالف نہیں، کیونکہ اسلام میں بھی آزادی رائے اور شوریٰ کی بڑی اہمیت ہے، لیکن جمہوریت جن نظریاتی بنیادوں پر قائم ہے، وہ خالصتاً ملحدانہ ہے۔ جمہوریت کی بنیاد حاکمیت جمہور کے نظریے پر قائم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر عوام کی اکثریت خدا کی مرضی کے خلاف فیصلہ دے دے تو ملک کا قانون بنا کر اس فیصلے کو نافذ کر دیا جائے۔ اس کی واضح مثال ہمیں اہل مغرب کے ہاں ملتی ہے، جہاں اپنے دین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے انھوں نے فری سیکس، ہم جنس پرستی، شراب اور سود کو حلال کر لیا ہے۔ مسلمانوں کے ہاں اس کی مثال شاید ترکی ہی میں مل سکتی ہے۔ اسلام نظریاتی طور پر جمہوریت کے مغربی تصور کا شدید مخالف ہے۔ اسلام کے مطابق حاکمیت اعلیٰ جمہور کا حق نہیں ،بلکہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ اسلام کی نظر میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کا اقتدار اعلیٰ تسلیم کرنا شرک ہے۔ سب سے بڑا اقتدار (Sovereignty) صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا ہے۔ اس کے برعکس جہاں اللہ تعالیٰ نے کوئی ہدایت نہیں دی، وہاں عوام کی اکثریتی رائے اور مشورے سے فیصلہ کیا جانا چاہیے ۔ اکثریت کی مرضی کے خلاف اس پر اقلیتی رائے کو مسلط کرنا اسلام میں درست نہیں۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ ہر معاملہ مشورے سے طے کریں۔

معیشت

معیشت کے باب میں الحاد نے دنیا کو دو نظام دیے۔ ان میں سے ایک ایڈم سمتھ کا سرمایہ دارانہ نظام یا کیپیٹل ازم اور دوسرا کارل مارکس کی اشتراکیت یا کمیونزم۔ کیپیٹل ازم دراصل جاگیر دارانہ نظام (Feudalism) ہی کی ایک نئی شکل ہے جو نسبتاً جاگیر دارانہ نظام سے کچھ بہتر ہے۔ کیپیٹل ازم میں مارکیٹ کو مکمل طور پر آزاد چھوڑا جاتا ہے جس میں ہر شخص کو یہ آزادی ہوتی ہے کہ وہ دولت کے جتنے چاہے انبار لگا لے۔ جس شخص کو دولت کمانے کے لامحدود مواقع میسر ہوں، وہ امیر سے امیر تر ہوتا جائے گا اور جسے یہ مواقع میسر نہ ہوں، وہ غریب سے غریب تر ہوتا چلا جائے گا۔ حکومت اس سلسلے میں کوئی مداخلت نہیں کرتی۔ جاگیر دارانہ نظام کی طرح اس نظام میں بھی سرمایہ دار، غریب کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر اس کا استحصال کرتا ہے۔ غریب اور امیر کی خلیج اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ ایک طرف گھی کے چراغ جلائے جاتے ہیں اور دوسری طرف کھانے کو دال بھی میسر نہیں ہوتی۔ ایک طرف ایک شخص ایک وقت کے کھانے پر ہزاروں روپے خرچ کر دیتا ہے اور دوسری طرف ایک شخص کو بھوکا سونا پڑتا ہے۔ ایک طرف علاج کے لیے امریکہ یا یورپ جانا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا اور دوسری طرف ڈسپرین خریدنے کی رقم بھی نہیں ہوتی۔ ایک طرف بچوں کو تعلیم کے لیے ترقی یافتہ ممالک کی یونیورسٹیوں کے دروازے کھلے ہوتے ہیں اور دوسری طرف بچوں کو سرکاری سکول میں تعلیم دلانے کے لیے بھی ماں باپ کو فاقے کرنا پڑتے ہیں۔ ایک طرف محض ایک لباس سلوانے پر لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں اور دوسری طرف استعمال شدہ کپڑے خریدنے کے لیے بھی پیٹ کاٹنا پڑتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کے اس تفاوت کی مکمل ذمہ داری الحاد پر ہی نہیں ڈالی جاسکتی ،کیونکہ اس کا پیش رو نظام فیوڈل ازم ، جو کہ اس سے بھی زیادہ استحصالی نظام ہے، اس دور میں ارتقاپزیر ہوا جب مغربی دنیا میں عیسائی علمااور مسلم دنیا میں مسلم علماطبقۂ اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ عیسائی تھیو کریسی اور مسلم علمانے جاگیر دارانہ نظام کے ظلم وستم اور استحصال کے خلاف کبھی موثر جدوجہد نہیں کی ،بلکہ اپنے ادیان کی تعلیمات کے برعکس وہ اس کے سرپرست بنے رہے۔ اٹھارہویں صدی کے صنعتی انقلاب کے بعد فیوڈل ازم کی کوکھ سے کیپیٹل ازم نے جنم لیا، جو کہ امیر کے ہاتھوں غریب کے استحصال کا ایک نیا نظام تھا، لیکن اس کا استحصالی پہلو فیوڈل ازم کی نسبت کم تھا، کیونکہ وہاں تو بہتر مستقبل کی تلاش میں غریب کسی اور جگہ جا بھی نہیں سکتا۔چونکہ اہل مغرب اور اہل اسلام اپنے دین کی تعلیمات سے خاصے دور ہو چکے تھے، اس لیے یہ نظام اپنے پورے استحصالی رنگ میں پنپتا رہا۔ یورپ میں کارل مارکس نے کیپیٹل ازم کے استحصال کے خلاف ایک عظیم تحریک شروع کی جس میں اس نظام کی معاشی ناہمواریوں پر زبردست تنقید کی گئی۔ مارکس اور ان کے ساتھی فریڈرک اینجلز، جو بہت بڑے ملحد فلسفی تھے، نے پوری تاریخ کی ایک نئی تشریح (Interpretation) کی جس میں انھوں نے معاش ہی کو انسانی زندگی اور انسانی تاریخ کا محور و مرکز قرار دیا۔ ان کے نزدیک تاریخ کی تمام جنگیں، تمام مذاہب اور تمام سیاسی نظام معاشیات ہی کی پیداوار تھے ۔ انھوں نے خدا، نبوت اور آخرت کے عقائد کا انکار کرتے ہوئے دنیا کو ایک نیا نظام پیش کیاجسے تاریخ میں کمیونزم کے نام سے یاد رکھا جائے گا۔ کمیونزم کا نظام خالصتاً الحادی نظام تھا۔

کمیونسٹ نظام انفرادی ملکیت کی مکمل نفی کرتا ہے اور تمام ذرائع پیداوار، جن میں زراعت، صنعت، کان کنی اور تجارت شامل ہے ،کو مکمل طور پر حکومت کے کنٹرول میں دے دیتا ہے۔ پوری قوم ہر معاملے میں حکومت کے فیصلوں پر عمل کرتی ہے جو کہ کمیونسٹ پارٹی کے لیڈروں پر مشتمل ہوتی ہے۔ کمیونسٹ جدوجہد پوری دنیا میں پھیل گئی۔ اسے سب سے پہلے کامیابی روس میں ہوئی جہاں لینن کی قیادت میں ۱۹۱۷ء میں کمیونسٹ انقلاب برپا ہوا اور دنیا کی پہلی کمیونسٹ حکومت قائم ہوئی ۔ دوسرا بڑا ملک جس نے کمیونزم کو قبول کیا ، چین تھا ۔ باقی ممالک نے کمیونزم کی تبدیل شدہ صورتوں کو اختیار کیا۔ کمیونزم کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ اس میں فرد کے لیے کوئی محرک(Incentive) نہیں ہوتا جس سے وہ اپنے ادارے کے لیے اپنی خدمات کو اعلیٰ ترین انداز میں پیش کرسکے اور اس کے لیے زیادہ سے زیادہ محنت کرسکے۔ اس کے بر عکس کیپیٹل ازم میں ہر شخص اپنے کاروبار کو زیادہ سے زیادہ ترقی دینے اور اس سے زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کے لیے دن رات محنت کرتا ہے اور اپنی اعلیٰ ترین صلاحیتیں استعمال کرتا ہے۔ کمیونزم کی دوسری بڑی خامی یہ تھی کہ پورے نظام کو جبر کی بنیادوں پر قائم کیا گیا اور شخصی آزادی بالکل ہی ختم ہو کر رہ گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سوویت یونین کی معیشت کمزور ہوتی گئی اور بالآخر۹۱۔۱۹۹۰ء میں یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی ۔ اس کے بعد اسے کیپیٹل ازم ہی کو اپنانا پڑا۔ دوسری طرف چین کی معیشت کا حال بھی پتلا تھا۔ چین نے اپنی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے کمیونزم کو خیر باد کہہ دیا اور تدریجاً اپنی مارکیٹ کو اوپن کرکے کیپیٹل ازم کو قبول کرلیا۔

حقیقت یہ ہے کہ کیپیٹل ازم اور کمیونزم، دونوں نظام ہائے معیشت ہی استحصال پر مبنی نظام ہیں۔ ایک میں امیر غریب کا استحصال کرتا ہے اور دوسرے میں حکومت اپنے عوام کا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اہل مغرب نے اعلیٰ ترین اخلاقی اصولوں کو اپنا کر کیپیٹل ازم کے استحصالی نقصانات کو کافی حد تک کم کر لیا ہے، لیکن تیسری دنیا جس کی اخلاقی حالت بہت کمزور ہے، وہاں اس کے نقصانات کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ چونکہ یہاں ہم الحاد کی تاریخ کا مطالعہ کر رہے ہیں، اس لیے یہ کہنا مناسب ہو گا کہ پچھلی تین صدیوں میں معیشت کے میدان میں الحاد کو دنیا بھر میں واضح برتری حاصل رہی ہے اور دنیا نے الحاد پر قائم دو نظام ہائے معیشت یعنی کیپیٹل ازم اور کمیونزم کا تجربہ کیا ہے۔ کمیونزم تو اپنی عمر پوری کرکے تاریخ کا حصہ بن چکا ہے، اس لیے اس پر ہم زیادہ بحث نہیں کرتے ،لیکن کیپیٹل ازم کے چند اور پہلووں کا ایک مختصر جائزہ لینا ضروری ہے جو انسانیت کے لیے ایک خطرہ ہیں۔

کیپیٹل ازم کے نظام کی بنیاد سود پر ہے۔ بڑی بڑی صنعتوں کے قیام اور بڑے بڑے پراجیکٹس کی تکمیل کے لیے وسیع پیمانے پر فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک سرمایہ دار کے لیے اتنی بڑی رقم کا حصول بہت مشکل ہوتا ہے۔ اگر اس کے پاس اتنی رقم موجود بھی ہو تو اسے ایک ہی کاروبار میں لگا نے سے کاروباری خطرہ یا رسک بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ کیونکہ ایک کاروبار اگر ناکام ہوجائے تو پوری کی پوری رقم ڈوبنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اگر وہی رقم تھوڑی تھوڑی کرکے مختلف منصوبوں میں لگائی جائے تو ایک منصوبے کی ناکامی سے پوری رقم ڈوبنے کا خطرہ نہیں ہوتا اور تمام کے تمام منصوبوں کے ڈوبنے کا خطرہ بھی نہیں ہوتا۔ اسے علم مالیات (Finance)کی اصطلاح میں Diversification کہا جاتاہے۔ان بڑے بڑے پراجیکٹس کے لیے رقم کی فراہمی کے لیے دنیا نے Financial Intermediaries کا نظام وضع کیا ہے۔ اس درمیانی واسطے کا سب سے بڑا حصہ بینکوں پر مشتمل ہے۔ یہ بینک عوام الناس کی چھوٹی چھوٹی بچت کی رقوم کو اکٹھا کرنے کا کام کرتے ہیں جس پر بینک انھیں سود ادا کرتا ہے۔ پورے ملک کے لوگوں کی تھوڑی تھوڑی بچتوں کو ملا کر بہت بڑی تعداد میں فنڈ اکٹھا کر لیا جاتا ہے جو انھی سرمایہ داروں کو کچھ زیادہ شرح سود پر دیا جاتا ہے۔ مثلاً اگر بینک عوام کو 8% سود کی ادائیگی کر رہا ہے تو سرمایہ دار سے 10% سود وصول کررہا ہوگا۔ اس 2% میں بینک اپنے انتظامی اخراجات پورے کرکے بہت بڑا منافع بھی کما رہا ہوتا ہے۔ سرمایہ دار عموماً اپنے سرمایے کو ایسے کاروبار میں لگاتے ہیں جو اس سرمایے پر بہت زیادہ منافع دے سکے۔ اگر ہم دنیا بھر کی مختلف کمپنیوں کے سالانہ اکاؤنٹس(Annual Accounts)کا جائزہ لیں تو ہمیں اس میں ایسے کاروبار بھی ملیں گے جن میں سرمایہ پر منافع (Return on Capital Employed)کی شرح 50% سالانہ ،بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوگی۔اس منافع کا ایک معمولی سا حصہ بطور سود ان غریب لوگوں کے حصے میں بھی آتا ہے جن کا سرمایہ دراصل اس کاروبار میں لگا ہوتا ہے۔ اس کو ایک مثال سے اس طرح سمجھ لیجیے کہ بالفرض ایک سرمایہ دار کسی بینک سے ایک ارب روپے 10% سالانہ شرح سود پر لیتا ہے اور اس سرمائے سے پچاس کروڑ روپے سالانہ نفع کماتا ہے۔ اس میں سے وہ دس کروڑ بینک کو بطور سود ادا کرے گا اور بینک اس میں% ۸سالانہ کے حساب سے آٹھ کروڑ روپے اپنے کھاتہ داروں (Deposit Holders)کو ادا کرے گا۔ چونکہ یہ کھاتہ دار بہت بڑی تعداد میں ہوں گے جنھوں نے اپنی تھوڑی تھوڑی بچت بینک میں جمع کروائی ہوگی، اس لیے ان میں سے ہر ایک کے حصے میں چند ہزار یا چند سو روپے سے زیادہ نہیں آئے گا۔ اس طریقے سے سرمایہ دار ، عام لوگوں کو چند ہزار روپے پر ٹرخا کر ان کا پیسا استعمال کرتا ہے اور اسی پیسے سے خود کروڑوں روپے بنا لیتا ہے۔ اس مثال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جس طرح جاگیر دارانہ نظام میں جاگیر دار یا مہاجن غریبوں کو سود پر رقم دے کر ان کا استحصال کیا کرتا تھا، اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ دار غریبوں سے سود پر رقم لے کر ان کا استحصال کرتا ہے۔اس کے علاوہ فیوڈل ازم کے مہاجنی سود کا سلسلہ بھی اس نظام میں پوری طرح جاری ہے جس میں کریڈٹ کارڈزکے ذریعے Micro-Financingکا سلسلہ جاری ہے۔ اس معاملے میں 6% 3سالانہ کے حساب سے سود بھی وصول کیا جارہا ہے۔ اس سود میں سے صرف 8-10% اپنے کھاتہ داروں کو ادا کیا جارہا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کی ایک اور خصوصیت جوئے کا فروغ ہے۔ یہ لعنت فیوڈل ازم میں بھی اسی طرح پائی جاتی تھی۔ دنیا بھر میں جوا کھیلنے کے بڑے بڑے ادارے قائم کیے جاچکے ہیں۔ سٹاک ایکسچینج، فاریکس کمپنیز اور بڑی بڑی کیپیٹل اور منی مارکیٹس ان کیسینوز کے علاوہ ہیں جہاں بڑی بڑی رقوم کا سٹہ کھیلا جاتا ہے۔ کھربوں روپے سٹے میں برباد کر دیے جاتے ہیں، مگر بھوک سے مرنے والے بچوں کا کسی کو خیال نہیں آتا۔ ان کیسینوز میں جوئے کے ساتھ ساتھ بے حیائی اور بدکاری کو بھی فروغ مل رہا ہے ،بلکہ دنیا بھر میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے جوئے اور بدکاری کے مراکز بھی قائم کیے جاچکے ہیں۔ سود اور جوا ایسی برائیاں ہیں جن کا تعلق الحاد کی اخلاقی بنیادوں سے قائم کیا سکتا ہے۔ اس کی مزید تفصیل آگے آرہی ہے۔

اخلاق اور معاشرت

الحاد کے اثرات سے جو چیز سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے، وہ اخلاق انسانی اور نظام معاشرت ہے۔ اگر کوئی یہ مان لے کہ اس دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے، موت کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے جہاں اسے اپنے کیے کا حساب دینا ہوگا تو پھر سوائے حکومتی قوانین یا معاشرتی دبائو کے کوئی چیز دنیا میں اسے کسی برائی کو اختیار کرنے سے نہیں روک سکتی۔ پھر اس کی زندگی کا مقصد اس دنیا میں زیادہ سے زیادہ دولت اور اس سے لطف اندوز ہونا ہی رہ جاتا ہے۔ اگر اسے یقین ہو کہ کوئی اسے نہیں پکڑ سکتا تو پھر کیا حرج ہے کہ وہ اپنے کسی بوڑھے رشتے دار کی دولت کے حصول کے لیے اس کو زہر دے دے ؟ اگر وہ اتنا ہوشیار ہو کہ پولیس اس کا سراغ نہیں لگا سکتی ہو تو پھر لاکھوں روپے کے حصول کے لیے چند بم دھماکے کر کے دہشت گرد بننے میں کیا حرج ہے؟ قانون سے چھپ کر کسی کی عصمت دری سے اگر اس کی درندگی کی تسکین ہوتی ہے تو پھر اس میں کیا رکاوٹ ہے؟ اپنی خواہش کی تسکین کے لیے سو بچوں کو اغوا کرکے، ان سے زیادتی کرکے ،انھیں قتل کرکے تیزاب میں گلا سڑا دینے میں آخر کیا قباحت ہے؟ اپنے یتیم بھتیجے کامال ہڑپ کر جانے سے آخر کیا فرق پڑتا ہے؟ جھوٹا کلیم داخل کرکے اگر اسے اچھی خاصی جائداد مل سکتی ہے تو وہ ایسا کیوں نہ کرے؟ کسی کو اپنی گاڑی کے نیچے کچلنے کے بعد اسے ہسپتال تک پہنچا کر اپنا وقت برباد کرنے کی آخر کیا ضرورت ہے؟ جائداد کو تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے اگر کوئی اپنی بہن یا بیٹی پر کاروکاری کا الزام لگا کر اسے قتل کردے تو کیا قیامت برپا ہو جائے گی؟ اپنے دشمنوں کی بہو بیٹیوں کو ننگا کرکے بازاروں میں گھمانے پھرانے سے اگر اس کے انتقامی جذبات سرد پڑتے ہیں تو ایسا کرنے میں کیا حرج ہے؟ اپنی لاگت کو کم کرنے کے لیے اگر وہ خوراک یا ادویات میں ملاوٹ بھی کردے اور اس سے خواہ چند لوگ مر بھی جائیں تو کیا ہے، اس کا منافع تو بڑھ جائے گا؟ ذخیرہ اندوزی کرکے اگر کسی کے مال کی قیمتیں چڑھ سکتی ہیں تو وہ ایسا کیوں نہ کرے؟ اگر تیز رفتار ی میں کسی کو مزہ آتا ہے تو کیا فرق پڑتا ہے اگر اس سے کوئی ایک آدھ آدمی مر جائے یا ہمیشہ کے لئے معذور ہو جائے، اتنی enjoyment کے لیے ایک آدھ بندہ مارنا کون سا مسئلہ ہے؟ اگر کوئی کسی کے نظریات سے اختلاف کرے تو اسے گولی مارنے میں کیا قباحت ہے؟ یاپھر یہ سب نہ بھی ہو تو وہ اپنا وقت معاشرے کی خدمت میں کیوں لگائے ، وہ اپنے وقت کو زیادہ سے زیادہ enjoyment کے حصول ہی میں کیوں نہ صرف کرے؟ اگر وہ اپنے جرم کو چھپا سکتا ہو تو پھر سرکاری سودوں میں کمیشن کھا کر ملک و قوم کو نقصان پہنچانے میں کیا چیز مانع ہے؟ 

یہ وہ مثالیں ہیں جو روزانہ ہمارے سامنے اخبارات میں آتی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم وحشی درندوں کے درمیان اپنی زندگی گزار رہے ہیں جن پر انسان اور مسلمان ہونے کا محض لیبل لگا ہوا ہے۔ کم وبیش اسی قسم کے واقعات دوسرے ممالک میں بھی پیش آتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا کہ مسلم دنیا پر بھی الحاد غالب آچکا ہے۔ ایسا تو نہیں ہواکہ مسلمان توحید، رسالت اور آخرت کا کھلم کھلا انکار کردیں ،لیکن عملی طور پر ہم ان حقیقتوں سے غافل ہو چکے ہیں۔ خدا ہے یا نہیں ہے، اس نے اپنے کسی رسول کو اس دنیا میںبھی بھیجا یا نہیں بھیجا ، آخرت ہو گی یا نہیں ہو گی ، اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ ہمارا ہر عمل پکار پکار کر ہمارے ملحد ہونے کا اعلان کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں قانون صرف چند بدمعاشوں ہی کو کنٹرول کر سکتا ہے اور وہ بھی تب جب ان کے جرائم منظر عام پر آجائیں۔ معاشرہ دبائو ڈال کر صرف ان لوگوں کی اصلاح کر سکتا ہے جن کے جرائم کا انھیں علم ہوجائے ،بشرطیکہ ان لوگوں کی تعداد معاشرے میں آٹے میں نمک کے برابر ہو۔ جو چیز جرائم کی شرح کو کم سے کم کرتی ہے، وہ یہی انسانی اخلاقیا ت کا شعور ہی تو ہے۔ یہ شعور صرف ایک غالب قوت اور اس کے سامنے جواب دہی کے تصور ہی سے پیدا ہو سکتا ہے۔ ایک ملحدانہ معاشرے میں یہ تصور کیسے پیدا کیا جاسکتا ہے؟

یہ سب سے نمایاں سوال ہے جو الحاد پر کیا گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ دنیا بھر کے ملحد مفکرین اور فلسفی اس اخلاقی شعور سے بے بہرہ ہوں۔ اس کے برعکس وہ خود کو اخلاق اور انسانی حقوق کے علم بردار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ انھوں نے اس سوال کا پوری طرح جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کے نزدیک فکر آخرت کا نعم البدل یہ ہے کہ ایک انسان دوسرے کے ساتھ اس وجہ سے زیادتی نہ کرے کہ جواب میں وہ بھی زیادتی کرسکتا ہے یعنی دوسرے شخص کے منفی رد عمل سے بچنے کے لیے اس سے زیادتی نہ کی جائے۔ اگر اس اخلاقی معیار کو درست مان لیا جائے تو ایسا صرف اور صرف اس صورت میں ممکن ہے جب دونوں فریق قوت و اقتدار کے اعتبار سے بالکل مساوی درجے پر ہوں۔ ایک طاقت ور شخص اگر کسی سے زیادتی کرے تو اسے جوابی ردعمل کا کیا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے؟ اگر غور کیا جائے تو دنیا بھر کے مجرم اور جرائم پیشہ افراد اسی اخلاقی ضابطے کی پیروی کرتے ہیں۔ چوری اور ڈاکے کے بعد لوٹ کا مال آپس میں بڑی دیانت داری سے تقسیم کرلیا جاتا ہے۔ جوئے میں ہاری ہوئی رقم کو بڑی شرافت سے ادا کردیا جاتا ہے۔ منشیات فروش اپنا اپنا حصہ بڑی دیانت داری سے ایک دوسرے کو ادا کرتے ہیں۔لیکن ایک دوسرے سے دیانت دار یہ جرائم پیشہ لوگ پورے معاشرے کو تباہی کی طرف لے جار ہے ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھیںیقین ہوتا ہے کہ میرا ساتھی تو کسی طرح مجھے نقصان پہنچا سکتا ہے، لیکن ایک عام آدمی نہیں۔

الحاد کے اخلاقی اثرات بڑے واضح طور پر تیسری دنیا میں تو دیکھے جاسکتے ہیں ،لیکن دنیا کے ترقی یافتہ حصے میں یہ اثرات اتنے نمایاں نہیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ الحاد کی تحریک کو سب سے پہلے فروغ مغرب میں حاصل ہوا، لیکن وہاں کے لوگوں کا اخلاقی معیار تیسری دنیا سے نسبتاً بہتر ہے۔ کوئی بھی فلسفہ یا نظام حیات سب سے پہلے معاشرے کے ذہین ترین لوگ تشکیل دیتے ہیں اور پھر اسے اپنی تقریر وتحریر کے ذریعے معاشرے کے ذہین طبقے میں پھیلاتے ہیں جسے عرف عام میں اشرافیہ (Elite)کہتے ہیں۔ یہی طبقہ معاشرے میں تعلیم و ابلاغ کے تمام ذرائع پر قابض ہوتا ہے ۔ اس فلسفے یا نظام حیات کو قبول کرنے کے بعد یہ اسے عوام الناس تک پہنچاتا ہے۔ عوام ہر معاملے میں اسی اشرافیہ کے تابع ہوتے ہیں، اس لیے وہ اسے دل وجان سے قبول کر لیتے ہیں۔اہل مغرب میں الحادی نظریات کے فروغ میں جن ذہین افراد نے حصہ لیا، وہ اخلاقی اعتبار سے کوئی گرے پڑے لوگ نہ تھے۔ انھوں نے خود کو انسانی اخلاق کے علم بردار کی حیثیت سے پیش کیا۔ جدید دور میں الحاد کی تحریک نے اپنا نام Humanist رکھ لیا ہے اور وہ خود کو اخلاقیات کا چیمپئن سمجھتے ہیں۔ چنانچہ کونسل فار سیکولر ہیومن ازم کے بانی پال کرٹز اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں:

’’ہمیں تیسری طرف جو جنگ لڑنا ہے، وہ انسانی اخلاقیات کی جنگ ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اخلاقی انقلاب ہی انسانیت کے مستقبل کی ضمانت دیتا ہے۔ یہی آخرت کی نجات یا جنت کے عقیدے کے بغیر انسانی زندگی کو بہتر بناتا ہے ۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم اخلاقی اقدار کو مشاہدے اور دلائل کی بنیاد پر پرکھیں اور نتائج کی روشنی میں اپنی اخلاقی اقدار میں تبدیلی کرنے پر تیار رہیں۔ ہمارا طریقہ پلینیٹری ہے ، جیسا کہ ’ ’Humanist Manifesto 2000 ‘‘ میں زور دیا گیا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس سیارے زمین پر ہر انسان بالکل برابر حیثیت رکھتا ہے۔ اخلاق کے ساتھ ہماری committment یہ ہے کہ عالمی برادری میں ہر فرد کو اس کے حقوق ملیں اور ہم اپنے مشترکہ گھر یعنی اس زمین کی حفاظت کریں۔ انسانی اخلاقیات فرد کی آزادی، پرائیویسی کے حق، انسانی آزادی اور سماجی انصاف کی ضمانت دیتے ہیں۔ اس کا تعلق پوری نسل انسانیت کی فلاح و بہبود سے ہے۔‘‘ (Paul Kurtz, The Secular Humanist Prospect: In Historical Perspective, Free Inquiry Magazine,مئی ۲۰۰۳, ۴/ ۲۳) 

ان فلسفیوں نے انسانی حقوق اور انسانی اخلاق کو اپنے فلسفے میں بہت اہمیت دی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان ممالک کے عوام میں اخلاقی شعور نسبتاً بہت بہتر ہے۔ وہ لوگ بالعموم جھوٹ کم بولتے ہیں ، اپنے کاروبارمیں بددیانتی سے اجتناب کرتے ہیں، ایک دوسرے کااستحصال کم کرتے ہیں، فرد کی آزادی کا احترام کرتے ہیں، جانوروں کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں، یتیموں اور اپاہجوں کے لیے ان کے ہاں منظم ادارے ہیں، قانون کا احترام کرتے ہیں، ان کی سوچ عموماً منطقی (Rational) ہوتی ہے، وہ عقل و دانش کی بنیاد پر اپنے نظریات کو تبدیل کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں، ان کے ہاں ایک دوسرے کو مذہبی آزادی دی جاتی ہے، ایک دوسرے کا احترام کیا جاتا ہے، محض اختلاف رائے کی بنیاد پر کوئی کسی کو گولی نہیں مارتا، علم و دانش کا دور دورہ ہے، اشیا خالص ملتی ہیں اور ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھانے والے ادارے بہت موثر ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ اخلاقی لحاظ سے یہ لوگ فرشتے بن گئے ہیں، بلکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ ان لوگوں میں بہت سی اخلاقی خرابیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ یہ لوگ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے، ان کی خدمت نہیں کرتے، جنسی بے راہ روی ان کے ہاں عام ہے، ان کی اکثریت طرح طرح کے نشے میں سکون تلاش کرتی نظر آتی ہے، ان میں تشدد کا رجحان بڑھتا ہوا نظر آتا ہے، اور بالخصوص ان کے اخلاقی معیارات اپنی قوم کے افراد کے لیے کچھ اور ہیں اور باقی دنیا کے لیے کچھ اور۔ نیشنلزم کا جذبہ بہت طاقت ور ہونے کی وجہ سے یہ اپنی قوم کے افراد کے لیے تو ابریشم کی طرح نرم ہیں اور ہر اخلاقی اصول کی پیروی کرتے ہیں، لیکن جب معاملہ کسی دوسری قوم کے ساتھ ہو تو وہاں انسانی حقوق کے تمام سبق بھول جاتے ہیں۔

جب یہ الحادی نظریات اہل مغرب سے نکل کر مشرقی قوموں میں آئے تو اشرافیہ کے جس طبقے نے انھیں قبول کیا، بدقسمتی سے اس کی اخلاقی حالت نہایت پست تھی۔ جب یہ طبقہ اور اس کے زیر اثر عوام الناس عملی اعتبار سے الحاد کی طرف مائل ہوئے تو انھوں نے تمام اخلاقی حدود کو پھلانگ کر وحشت اور درندگی کی بدترین داستانیں رقم کیں۔ اگر ہم پاکستان بننے کے بعد ان مظالم کا جائزہ لیں جو خود مسلمانوں نے ہندووں اور سکھوں کے ظلم و ستم سے بچ کر آنے والے اپنے مسلمان بھائیوں پر کیے تو ہمیں صحیح معنوں میں الحاد کے اثرات کا اندازہ ہوگا۔ دور جدید میں اس کا اندازہ محض روزانہ اخبار پڑھنے ہی سے ہو جاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مغربی ملحدین میں جو خرابیاں پائی جاتی ہیں، وہ تو انھو ں نے پوری طرح اختیار کرلیں ،لیکن ان کی خوبیوں کا عشر عشیر بھی ان کے حصے میں نہ آیا۔

الحاد کے معاشرتی اثرات میں ایک بڑا واضح اثر خاندانی نظام کا خاتمہ اور فری سیکس کا فروغ ہے۔ جنسی زندگی سے متعلق آداب انسان کو انبیاے کرام علیہم السلام ہی نے بتائے ہیں اور اس ضمن میں ہر قسم کی بے راہ روی کا خاتمہ کیا ہے۔ جب ایک شخص انھی کا انکار کردے تو پھر اس کی راہ میں ایسی کون سی رکاوٹ ہے جو اسے دنیا کی کسی بھی عورت سے آزادانہ صنفی تعلقات سے روک سکے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ پھر ماں ، بہن اور بیٹی کا تقدس پامال کرنے میں بھی کیا حرج رہ جاتا ہے؟ اس کے بعد اگر نئی نئی لذتوں کی تلاش میں مرد مردوں کے پاس اور عورتیں عورتوں کے پاس جائیں تو اس میں کیا قباحت رہ جاتی ہے؟ الحاد کا یہ وہ اثرہے جسے مغربی معاشروں میں پوری طرح فروغ حاصل ہوا۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں اہل مغرب کی غلامی کے دوران میںخوش قسمتی سے مسلم دنیا الحاد کے ان اثرات سے بڑی حد تک محفوظ رہی ،لیکن بیسویں صدی کے ربع آخر میں میڈیا کے فروغ سے اب یہ اثرات بھی ہمارے معاشروں میں تیزی سے سرایت کر رہے ہیں۔ جہاں جہاں یہ فری سیکس پھیل رہا ہے وہاں وہاں اس کے نتیجے میں ایک طرف تو ایڈز سمیت بہت سی بیماریاں پھیل رہی ہیں اور دوسری طرف خاندانی نظام کا خاتمہ بھی ہورہا ہے جس کے نتیجے میں کوئی نہ تو بچوں کی پرورش کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہے اور نہ بوڑھوں کی خبر گیری کرنے کو۔ کڈز ہومز میں پلنے والے یہ بچے جب بڑے ہوتے ہیں تو اسی بے راہ روی کا شکار ہوکر یہ ذمہ داریاں قبول نہیں کرتے اور مکافات عمل کے نتیجے میں یہ جب بوڑھے ہوتے ہیں تو پھر ان کی خبر گیری کرنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ اچھے اولڈ ہومز میں داخلہ بھی اسی کو ملتا ہے جس کی اولاد کچھ فرماں بردار ہو اور اس اولڈ ہوم کا خرچ اٹھا سکے۔ان کی زندگی اب کڈز ہوم سے شروع ہوکر اولڈ ہوم پر ختم ہو جاتی ہے۔

معاشرتی اور معاشی اعتبار سے الحاد نے مسلم معاشروں کو جس اعتبار سے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے ،وہ دنیا پرستی کا فروغ ہے۔ دنیا پرستی کا فلسفہ مغربی اور مسلم، دونوں علاقوں میں پوری آب و تاب کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ جب انسان عملی اعتبار سے آخرت کی زندگی کا انکار کردے یعنی اس کے تقاضوں کو مکمل طور پر فراموش کردے تو پھر دنیاوی زندگی کی اس کی سرگرمیوں کا مطمح نظر بن جاتی ہے۔ مغربی معاشروں پر تو کسی تبصرے کی ضرورت نہیں، لیکن ہمارے اپنے معاشروں میں جس طرح دنیا پرستی کی بھیڑ چال شروع ہو چکی ہے، وہ ہماری پستی کی انتہا ہے۔ ایک طر ف تو ایسے لوگ ہیں جن کی اخلاقی تربیت بہت ناقص ہے اور وہ ہر طرح کے جرائم میں مبتلا ہیں ،لیکن ان کے برعکس ایسے لوگ جن کی اخلاقی قدریں کافی حد تک قائم ہیں، دنیا پرستی کے مرض میں کس حد تک مبتلا ہو چکے ہیں، اس کا اندازہ صرف ان کی چوبیس گھنٹے کی مصروفیات سے لگایا جاسکتا ہے۔ ہمارے عام تعلیم یافتہ لوگ جن کی اخلاقی سطح معاشرے کے عام افراد سے بلند ہے، روزانہ صبح اٹھتے ہیں اور اپنے کاروبار یا دفاتر کی طرف چلے جاتے ہیں۔ ان میں سے بہت کم ایسے ہوں گے جو دفتری اوقات کے فوراً بعد واپس آجاتے ہوں۔ زیادہ سے زیادہ ترقی کے لیے لیٹ سٹنگزکا رجحان بڑھتا جارہا ہے اور عام طور پر لوگ آٹھ نو بجے تک دفتر سے اٹھتے ہیں۔ اس کے بعد گھر واپس آکر کھانا کھانے، ٹی وی دیکھنے اور اہل خانہ سے کچھ گفتگو کرنے میں گیارہ بارہ بڑے آرام سے بج جاتے ہیں۔ سوتے سوتے ایک یا دو بج جاتے ہیں۔ بالعموم صبح کی نما ز چھوڑ کر لوگ سات بجے تک بیدار ہوتے ہیں اور پھر دفتر کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔چھٹی کا دن عموماً ہفتے بھر کی نیند پوری کرنے اور گھریلو مسائل میں نکل جاتا ہے۔ اب آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ ہم اللہ کو راضی کرنے ، دین سیکھنے، اپنی اخلاقی حالت بلند کرنے اور دین کے تقاضے پورے کرنے کے لیے کتنا وقت نکال سکتے ہیں؟ افسوس ہے کہ اس ترقی کو حاصل کرنے کے لیے جو زیادہ سے زیادہ بیس پچیس سال تک کام دے گی، ہم لامحدود سالوں پر محیط آخرت کی زندگی کو نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ کوئی اپنے کاروبار میں بیس روپے منافع کمانے کی دھن میں اربوں روپے کے سرمائے کا نقصان کرلے یا پھر دریا کی تہ میں پڑے ہوئے ایک روپے کے سکے کو حاصل کرنے کے لیے لاکھوں روپے کی دولت پھینک کر دریا میں چھلانگ لگا دے۔

الحاد کی سائنسی اساسات کا انہدام

انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے نصف اول کا زمانہ الحاد کے عروج کا دورہے۔ اسی دور میں وہ سائنسی تحقیقات ہوئیں جنھوں نے الحاد ی نظریات کی توجیہ پیش کی۔ اسی دور میں الحادی نظریات اور نظام ہائے حیات کو دنیا بھر میں فروغ ملا، اسی عرصے کے دوران میں دنیا بھر کے انسانوں نے اپنی زندگیوں میں مختلف درجوں پر الحاد کو قبول کیا۔ کوئی الحاد کو نظریاتی طور پر بھی مان کر خالص ملحد اور دہریہ بنا اور کسی نے صرف اس کے عملی اثرات کو قبول کرنے پر اکتفا کیا۔بیسویں صدی کے نصف آخر سے الحاد کا زوال شروع ہوا۔ دور قدیم کے ملحدین کے پاس الحادکی کوئی ٹھوس منطقی دلیل نہیں ہوا کرتی تھی۔ انیسویں صدی میں کچھ ایسے سائنسی نظریات وجودمیں آئے جنھوں نے الحاد کو کسی حد تک سپورٹ کیا۔ دلچسب بات یہ ہے کہ ان میں کسی کی حیثیت بھی سائنسی Law یا مسلمہ قانون کی نہیں تھی۔ یہ سب کے سب ابھی نظریے (Theory) کے درجے پر تھے۔ ان نظریات کا ایک مختصر جائزہ ہم پیش کرچکے ہیں، یہاں ہم ہارون یحییٰ کے مضمون The Fall of Atheism سے ان سائنسی تحقیقات کا اجمالاً ذکر کریں گے جنھوں نے الحاد کی ان سائنسی بنیا دوں کو منہدم کیا۔ ان نظریات میں ڈ ارون کا نظریۂ ارتقا فرائڈ کا نظریۂ جنس، مارکس اور اینجلز کے معاشی نظریات اور ڈرخم کے عمرانی نظریات شامل ہیں۔جو صاحب ان کی تفصیل جاننا چاہیں ، وہ اس آرٹیکل کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ یہ آرٹیکل ان کی ویب سائٹ www.hyahya.org  پر بھی میسر ہے ۔ ان سائنسی اساسات کے انہدام پر جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر پیٹرک گلائن کا تبصرہ بڑا معنی خیز ہے: 

 ’’پچھلے دو عشروں کی ریسرچ نے جدید سیکولر اور ملحد مفکرین کی پچھلی نسل کے تمام مفروضات اور پیش گوئیوں کو گرا کر رکھ دیا ہے جو انھوں نے خدا کے وجود کے بارے میں قائم کیے تھے۔ جدید (ملحد) مفکرین نے یہ فرض کر رکھا تھا کہ سائنس پر مزید تحقیقات اس کائنات کوبے ترتیب (Random) اور میکانکی ثابت کردیں گی،لیکن اس کے برعکس جدید سائنسی تحقیقات نے کائنات کو غیر متوقع طور پر ایسا منظم نظام ثابت کیا ہے جو کہ ایک ماسٹر ڈیزائن کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہو۔ ماڈرن (ملحد) ماہرین نفسیات یہ پیش گوئی کر رہے تھے کہ مذہب محض ایک دماغی خلل یا نفسیاتی بیماری ثابت ہو جائے گا ،لیکن انسان کا مذہب کے ساتھ تعلق مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں دماغی صحت کا اعلیٰ ترین نمونہ ثابت ہوا ہے۔ اس حقیقت کو ابھی صرف چند لوگ ہی تسلیم کر رہے ہیں، لیکن یہ بات اب واضح ہو جانی چاہیے کہ مذہب اور سائنس میں ایک صدی کی بحث کے بعد اب پانسا مذہب کے حق میں پلٹ چکا ہے۔ ڈارون کے نظریے کے فروغ کے دور میں ، ملحدین اور متشککین جیسے ہکسلے اور رسل یہ کہہ سکتے تھے کہ زندگی اتفاقی طور پر وجود میں آئی اور کائنات محض ایک اتفاق ہی سے بنی۔ اب بھی بہت سے سائنس دان اور دانش ور اسی نقطۂ نظر کو مانتے ہیں ، لیکن وہ اس کے دفاع میں اب بے تکی باتیں کرنے پر ہی مجبور ہیں۔ آج حقائق کے مضبوط اعدادو شمار یہی ثابت کرتے ہیں کہ خدا کے موجود ہونے کا نظریہ ہی درست ہے۔‘‘  (Patrick Glynn, God: The Evidence, The Reconciliation of Faith and Reason in a Postsecular World , Prima Publishing, California, 199 7, (۵۳، ۲۰۔ ۱۹ 

اب تک دنیا میں یہ مانا جارہا تھا کہ یہ کائنات ہمیشہ سے موجود ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ اس نظریے کو جدید دنیا میں جرمن فلسفی عمانویل کانٹ نے پیش کیا۔ یہ سمجھا جانے لگا کہ اس کائنات کو کسی نے تخلیق نہیں کیا ، بلکہ یہ ہمیشہ سے ایسے ہی ہے۔ بیسویں صدی میں فلکیات (Astronomy) کے میدان میں جدید علمی تحقیقات نے اس نظریے کو غلط ثابت کر دیا۔ ۱۹۲۹ ء میں امریکی ماہر فلکیات ایڈون ہبل نے دریافت کیا کہ کہکشائیں مسلسل ایک دوسرے سے دور ہو رہی ہیں۔ اس سے سائنس دانوں نے یہ اخذ کیا کہ ماضی میں کسی وقت یہ کہکشائیں اکٹھی تھیں۔ اس وقت یہ کائنات توانائی کے ایک بہت بڑے گولے کی شکل میں موجود تھیں جو ایک بہت عظیم دھماکے (Big Bang) کے نتیجے میں مادے کی صور ت اختیار کرگیا۔ملحد مفکرین نے اس نظریے کو ماننے سے انکار کردیا ،لیکن مزید سائنسی تحقیقات نے اس نظریے کو تقویت دی۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں دو سائنس دانوں ارنو پینزیاز اور رابرٹ ولسن نے دھماکے کے نتیجے میں بننے والی Cosmic Background Radiation کو دریافت کیا۔ اس مشاہدے کی تصدیق ۱۹۹۰ء میں Cosmic Background Explorer Satellite کے ذریعے سے کی گئی۔ اس صورت حال میں انتھونی فلیو جو کہ یونیورسٹی آف ریڈنگ میں فلسفے کے ایک ملحد پروفیسر ہیں، کہتے ہیں:

’’اعتراف روح کے لیے اچھی چیز ہے۔ میں اس اعتراف سے آغاز کرتا ہوں کہ علم فلکیات میں اس اتفاق رائے سے ایک ملحد کے نظریات پر زد پڑتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ فلکیات دان اس بات کو سائنسی طور پر ثابت کرنا چاہتے ہیں جو سینٹ تھامس فلسفیانہ طور پر ثابت نہ کرسکے یعنی یہ کہ اس کائنات کی کوئی ابتدا ہے۔ اس سے پہلے ہم یہ اطمینان رکھتے تھے کہ اس کائنات کی نہ تو کوئی ابتدا ہے اور نہ کوئی اختتام ... اب یہ کہنا بگ بینگ تھیوری کے سامنے آسان نہیں ۔‘‘(Henry Margenau, Roy Abraham Vargesse, Cosmos, Bios, Theos, La Salle IL: Open Court Publishing 1992,۲۴۱ )

جان میڈکس نے جو کہ ایک ملحد ہیں اور ’ Nature ‘کے نام سے رسالہ نکالتے ہیں ، اس نظریے کو اس بنیاد پر رد کر دیا کہ اس سے خدا کو ماننے والوں کو حجت مل جائے گی۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ یہ نظریہ دس سال سے زیادہ نہیں چل سکے گا ،لیکن مزید تحقیقات نے اس نظریے کو اور تقویت دی۔ برطانوی ملحد اور ماہر طبیعات ایچ پی لیپسن لکھتے ہیں:

’’میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ قابل قبول تشریح یہی ہے کہ اس کائنات کو تخلیق کیا گیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ ملحدین کی زبان بند کردے گی جیسا کہ میرے ساتھ ہوا، لیکن ہمیں کسی چیز کو صرف اس بنیاد پر رد نہیں کردینا چاہیے کہ ہم اسے پسند نہیں کرتے اگرچہ تجربہ اور مشاہدہ اسے ثابت کررہاہو۔‘‘(H.P.Lipson, "A Physicist Looks at Evolution", Physics Bulletin, 1980, ۱۳۸؍۱۳۸ )

 کائنات کے متعلق اہل الحاد کا ایک اور نظریہ بھی تھا اور وہ یہ تھا کہ یہ کائنات بے ترتیب (Random) ہے۔ اس میں موجود مادے، اجرام فلکی اور جن قوانین کے تحت یہ چل رہے ہیں ، ان کا کوئی مقصد نہیں،بلکہ یہ محض اتفاق ہی ہے۔ ۱۹۷۰ ء کے عشرے میں سائنس دانوں نے یہ دریافت کیا کہ کائنات میں ایسا توازن (Balance) پایا جاتا ہے جس میں اگر ذرا سا بھی ہیر پھیر ہو تو اس میں انسانی زندگی ممکن ہی نہ ہوسکے۔ تمام طبیعی، کیمیائی اور حیاتیاتی قوانین، کشش ثقل اور مقناطیسی قوتیں، ایٹمز اور مالیکیولز کی ساخت، عناصر اور مرکبات کی موجودگی یہ سب کا سب بالکل اسی طرح اس کائنات میں موجود ہے جیسا کہ انسانی زندگی کی ضرورت ہے۔ سائنس دانوں نے اس غیر معمولی ڈیزائن کو ’ Anthropic Principle‘ کا نام دیا۔ ان کے مطابق اگر بگ بینگ کے وقت دھماکے کی شدت، مادے کے پھیلنے کی رفتا رمیں ذرا سا بھی فرق پڑ جاتا تو یا تو مادہ دوبارہ جڑ جاتا یا پھر اتنا زیادہ پھیل جاتا کہ موجودہ حالت میں کسی طور پر آہی نہ سکتا ، اس طرح انسانی زندگی کبھی ممکن نہ ہوتی۔ زمین کاسائز، سورج کا سائز، سورج اور زمین کا فاصلہ، پانی کی طبعی اور کیمیائی خصوصیات، سورج کی شعاعوں کے طول موج (Wavelength) ، زمین کی فضا میں موجود گیسیں اور کشش ثقل سب کی سب اسی تناسب میں موجود ہیں جو انسانی زندگی کے لیے ہونا چاہیے تھا۔ اگر اس میں سے کسی میں 1/1039 کے برابر بھی فرق پڑ جاتا تو انسانی زندگی ممکن نہ ہوتی۔ کیا ایسا کسی مافوق الفطرت ہستی کی مداخلت کے بغیر ممکن تھا۔ کیا دنیا میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ ہوا میں ریت ، بجری اور سیمنٹ کو یونہی اچھا ل دیا جائے اور وہ جب زمین پر بیٹھے تو ایک خوبصورت بنگلے کی صورت اختیار کرجائے جو انسانی رہایش کے لیے موزوں ترین ہو یا پھر روشنائی کے قطروں کو اچھال دیا جائے اور جب وہ نیچے گریں تو غالب کی غزل لکھی ہوئی ہو۔ شاید ایسا صرف کارٹون فلموں ہی میں ممکن ہے ،لیکن حقیقی دنیا میں اس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایک منظم نتیجہ حاصل کرنے کے لیے کسی برتر ہستی کی موجودگی ضروری ہوا کرتی ہے۔ ان حقائق نے بہت سے سائنس دانوں جیسے پال ڈیوس، ڈبلیو پریس، جارج گرین اسٹائن اور مالیکیولر بائیولوجسٹ مائیکل ڈینٹن کو کسی برتر ہستی کا اعتراف کرنے پر مجبور کردیا ہے۔

جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ الحاد کو سب سے زیادہ سپورٹ ڈارون کے نظریۂ ارتقا سے ملی ہے۔ ڈارون کے مطابق تمام جان دار اشیا بے جان مادے سے ایک ارتقائی عمل کے تحت بنی ہیں۔ سب سے پہلے ایک خلیے پر مشتمل سادہ جاندار وجود میں آئے اور پھر یہ لاکھوں سال میں نسل در نسل ارتقاپزیر ہو کر اعلیٰ جانوروں کی شکل اختیار کرتے گئے۔بیسویں صدی میں پیلی انٹالوجی کے میدان میں قدیم ترین فوسلز پر ریسرچ سے نظریۂ ارتقا کسی طرح بھی ثابت نہ ہوسکا۔یہ ریسرچ محض دو جانوروں کے درمیان ارتقائی کڑیوں کو جوڑنے میں ناکام رہی۔ اسی طرح جانوروں کی نسلوں میں کئی عشروں تک تبدیلیوں کے مطالعے سے سائنس دان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کسی بھی نوع (Specie) میں تبدیلیاں مخصوص جینیاتی حدود  (Genetic Boundries) سے باہر نہیں جاتیں۔ انسانی آنکھ سے لے کر پرندوں کے پروں تک کسی بھی جان دار کے جسم کا ہر حصہ اتنی پیچیدہ ٹیکنالوجی (sophisticated technology) سے بنا ہوتا ہے کہ اس کا تقابل کسی بھی جدید مشینری سے کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے یہ ماننا بہت مشکل ہے کہ یہ سب کچھ محض اتفاق ہی سے اندھے قوانین کے تحت بن گیا۔ ان تمام تحقیقات کے نتیجے میں اب مغربی سائنس دانوں میں (Intelligent Design) کا نظریہ فروغ پارہا ہے۔

نفسیات کے میدان میں الحاد کی اساسات سگمنڈ فرائڈ کے نظریات پر قائم تھیں جو کہ آسٹریا کے ماہر نفسیات تھے۔ فرائڈ مذہب کو محض ایک نفسیاتی بیماری قرار دیتے تھے او ران کا خیال یہ تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسان جیسے جیسے ترقی کرے گا، یہ مرض دور ہوجائے گا۔ ماہرین نفسیات میں الحاد بہت تیزی سے پھیلا۔ ۱۹۷۲ء میں امریکن سائکالوجی ایسوسی ایشن کے ممبرز کے مابین ایک سروے کے مطابق ماہرین نفسیات میں صرف ایک اعشاریہ ایک فی صد ایسے تھے جو کسی مذہب پر یقین رکھتے ہوں۔ انھی ماہرین نفسیات نے طویل عرصے تک لوگوں کی نفسیات کا مطالعہ کرنے کے بعد جو رائے قائم کی، وہ پیٹرک گلائن کے الفاظ میں کچھ یوں تھی:

’’نفسیات کے میدان میں پچیس سالہ ریسرچ نے یہ ظاہر کیا ہے کہ فرائڈ اور ان کے پیروکاروں کے خیال کے برعکس ، مذہب پر ایمان ذہنی صحت اور خوشی کے اہم ترین اسباب میں سے ایک ہے۔ ریسرچ پر ریسرچ یہ ثابت کرتی ہے کہ مذہب پر ایمان اور اس پر عمل انسان کو بہت سے غیر صحت مندانہ رویوں جیسے خودکشی، منشیات کے استعمال، طلاق، ڈپریشن اور شادی کے بعد جنسی عدم تسکین سے بچاتا ہے۔ مختصراً، مشاہداتی ڈیٹا پہلے سے فرض کردہ سائیکو تھیراپک اجماع سے بالکل مختلف نتائج پیش کرتا ہے۔‘‘ Patrick Glynn, God: The Evidence, The Reconciliation of Faith and Reason in a Postsecular World, Prima Publishing, California, 1997 , ۶۱۔۶۰) 

معاشیات کے میدان میں الحاد کی سب سے بڑی شکست کمیونز م کا زوال ہے۔ کمیونزم جو دنیا میں الحاد کا سب سے بڑا داعی تھا، بالآخر اپنے دو بنیادی مراکز روس اور چین میں دم توڑ گیا۔ لینن نے اپنے تئیں خدا کو سوویت یونین سے نکا ل دیا تھا، لیکن خدا نے اس کے غرور کا خاتمہ کر ہی دیا۔ کمیونزم کے آخری دور میں روسی عوام اور آخری صدر گورباچوف کو خدا کی ضرورت بری طرح محسوس ہوئی۔ سیاسیات کے باب میں الحاد کی بنیاد پر بننے والے نظریات فاشزم وغیرہ بھی دم توڑ گئے۔ معاشریات یا عمرانیات (Sociology)کے اعتبار سے الحاد اہل مغرب کو سکون فراہم کرنے میں ناکام رہا۔ یہ بے سکونی اس قدر بڑھی کہ وہاں ہیپی تحریک نے فروغ پایا جو دنیا کی ذمہ داریوں سے جان چھڑا کر منشیات کے نشے میں مست پڑے رہتے اور سکون کی تلاش میں سرگرداں رہتے حتی کہ بعض تو اسی حالت میں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے۔  

یہ چند مثالیں ہیں جو بیسویں صدی کی جدید سائنسی تحقیقات کے نتیجے میں الحادی نظریات کی تردید میں آپ کے سامنے پیش کی گئیں۔ ان میں سے اگر صرف کائنات کے توازن اور اس کے عین انسانی ضروریات کے مطابق ہونے ہی کو لیا جائے تو خدا کے وجود کا معاملہ صاف ہو جاتا ہے۔ اس میں بعض چیزیں تو اتنی بدیہی ہیں کہ ان کوجاننے کے لیے کسی سائنسی تحقیق کی ضرورت نہیں ،بلکہ دیہات میں رہنے والے عام انسان بھی ان کو سوچ اور سمجھ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں تفصیلی سائنسی دلائل کے بجائے بالعموم ایسی چیزوں سے استدلال کیا گیا ہے جو ہر دور اور ہر ذہنی سطح کے لوگوں کی سمجھ میں آ جائیں۔ دور جدید میں کائنا ت کا علم یعنی فلکیات ہو یا انسان کی اپنی ذات کا علم یعنی حیاتیات و نفسیات، جیسے جیسے انسان پر حقائق منکشف ہو رہے ہیں ، وہ جانتا جارہا ہے کہ واقعی اس کائنات کا خدا اور اس کا کلام حق ہے: 

سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الاٰفَاقِ وَ فِی اَنْفُسِہِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ.(حم السجد ۴۱:۵۳) 
’’ہم عنقریب انھیں (انسانوں کو) اس کائنات اور خود ان کی ذات (جسم وروح) میں اپنی نشانیاںدکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے کہ (قرآن) حق ہے۔‘‘

اس موقع پر ہم یہ عرض کرنا مناسب سمجھتے ہیں کہ اثبات خدا سے متعلق سائنسی دلائل دیتے ہوئے ہمیں صرف ان چیزوں سے استدلال کرنا چاہیے جن کی حیثیت سائنس میں حتمی قانون (Law) یا مسلمات کی ہو۔ اگر ہم بھی ملحدین کی طرح محض سائنسی نظریات (Theories) سے استدلال کرنے لگیں گے تو عین ممکن ہے کہ کل وہ نظریات بھی غلط ثابت ہو جائیں اور ہمارا استدلال غلط قرار پائے۔

الحاد ، اکیسویں صدی اور ہماری ذمہ داریاں

جیسا کہ ہم نے مطالعہ کیا کہ انیسویں صدی میں جب سائنسی علوم نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ انسان ان کی بنیاد پر کوئی حتمی رائے قائم کرسکتا، بعض خام سائنسی نظریات نے ملحدین کو خدا کا انکار کرنے کا جواز عطا کیا۔ بیسویں صدی میں جب انسان کی علمی سطح بلند ہوئی تو اسے اپنے نظریات کی غلطی کا علم ہوا۔ بہت سے ایسے حقانیت پسند ملحد مفکرین اور سائنس دانوں ،جن میں پیٹرک گلائن بھی شامل ہیں، نے خدا کا اقرار کرلیا۔یہ کہا جاسکتا ہے کہ نظریاتی میدان میں اب الحاد کوشکست حاصل ہوچکی ہے۔ لیکن عملی میدان میں الحاد اب بھی اپنی پوری قوت کے ساتھ موجود ہے اور اس ضمن میں مغربی اور مسلم دنیا کی کوئی تخصیص نہیں ،بلکہ مغربی دنیا میں تو پھر بھی اخلاقی اصولوں کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے ،لیکن اس کے برعکس مسلم دنیا اخلاقی اعتبار سے بہت پیچھے ہے۔

اگر غور کیاجائے تو موجودہ دور میں صورت حال اتنی مایوس کن بھی نہیں ہے۔ ہمارے معاشروں میں تعلیم کے فروغ کے ساتھ ساتھ دین کی طرف لوگوں کا رجحان بڑھتا جارہا ہے اور بالخصوص ذہین لوگ بڑی کثیر تعداد میں دین کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ تعلیم یافتہ افراد کی اخلاقی حالت بھی بالعموم غیر تعلیم یافتہ افراد سے نسبتاً خاصی بہتر ہوتی جارہی ہے۔ اہل مغرب میں بھی دوبارہ خدا کی طرف رجوع کرنے کا رجحان موجود ہے۔ یہ بات بعید از قیاس نہ ہوگی کہ جس طرح بیسویں صدی میں الحاد کو نظریاتی میدان میں شکست ہوئی، اسی طرح اکیسویں صدی میں انشاء اللہ الحاد کو عملی میدان میں بھی شکست ہونے کا خاصا امکان موجود ہے۔ اس ضمن میں جو لوگ اللہ، رسول اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، ان پر بھی چند ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔ اگر اہل ایمان ان ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہوجاتے ہیں تو امید کی جاسکتی ہے کہ عمل کے میدان میں بھی الحاد کو شکست ہوگی۔

اہل ایمان کو سب سے پہلے اپنا ہدف متعین کر لینا چاہیے ۔ اس وقت جو لوگ دین کی خدمت کررہے ہیں، ان کا ہدف بالعموم اتنا جامع اور متعین نہیں ہے۔ عام علمابس کسی طرح اپنے روایتی ورثے کی حفاظت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ بعض دینی جماعتوں نے اپنا ہدف سیاسی نظام کی تبدیلی تک محدود کر لیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاسی نظام کی تبدیلی کے بعد کے مسائل پر کسی نے غور کرنے کی کوشش نہیں کی اور نہ اس کے لیے کوئی متعین لائحہ عمل (Specific Action Plan) تیار کرنے کی کسی نے زحمت کی ہے۔ اگر یہ لوگ اسلام کی بنیاد پر دور جدید کے سیاسی، معاشرتی اور معاشی ماڈلز تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے ہوتے تو اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ موجودہ حکمرانوں میں سے کوئی اسے نافذ کرنے پر تیار ہو جاتا۔اس کے برعکس بعض دینی جماعتوں کا ہدف لوگوں کو چند مخصوص دینی اعمال جیسے نوافل، ورد و وظائف اور عبادات کی تلقین کرنا رہ گیا ہے۔ دین کا کلی تصور ان کے ہاں بھی مفقود ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دین شرک سب سے بڑا فتنہ تھا اور آپ کی دعوت کا بنیادی ہدف شرک کا خاتمہ تھا، اسی طرح موجودہ دور میں ’’الحاد عملی ‘‘سب سے بڑا فتنہ اور اس کا خاتمہ اہل ایمان پر لازم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کو کسی دوسرے مذہب سے اتنا بڑا خطرہ لاحق نہیں ہے جتنا کہ الحاد سے جو دنیاپرستی اور اخلاقی انحطاط کی صور ت میں ملت اسلامیہ کے قلب میں جڑ پکڑ چکا ہے۔ آج کی ہر دینی جدوجہد کا بنیادی ہدف اس الحاد کی جڑ پر تیشہ چلانا ہونا چاہیے ۔

یہ حقیقت بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ اب تک اسلام پسند افراد اور تحریکیں الحاد کی بنیاد پرقائم ہونے والے نظریات جیسے جمہوریت، سیکولر ازم اور کیپیٹل ازم وغیرہ کے اسلامی بنیادوں پر قائم مربوط اور ترقی یافتہ متبادل پیش نہیں کرسکے۔ اس وقت اس چیز کی ضرورت ہے کہ اسلامی تعلیمات کی اساس پر دور جدید کے تقاضوں کے مطابق قابل عمل سیاسی، معاشی اور عمرانی ماڈلز تیار کیے جائیں اور امت کے ذہین ترین افراد علوم اسلامیہ میں اجتہادی بصیرت پیدا کرکے اس عمل میں حصہ لیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کا حصول بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پوری امت کے مزاج کو علمی اورمعقولیت پسند (Rational) بنانے کی ضرورت ہے جیسا کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں اور آج کل کے اہل مغرب کا مزاج علمی اور عقلی ہے۔تاریخ میں یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ جب ہم علم و دانش کی بلندیوں کو چھو رہے تھے اور اہل مغرب علم و دانش سے کوسوں دور تھے تو ہمارا دور عروج تھا اور جب ہم علم و دانش سے دور ہوئے اور اہل مغرب نے اسے اختیار کیا تو دنیا میں ان کا عروج اور ہمارا زوال شروع ہوا۔

اہم ترین ذمہ داریوں میں یہ بھی شامل ہے کہ امت مسلمہ کے اخلاق وکردارکو بہتر بنانے کی بھی کوشش کی جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملحدین کے بجائے مسلمان خود کو عملی طور پر اعلیٰ انسانی اخلاقیات کا چیمپئن ثابت کریں۔ اس ضمن میں نہ صرف یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی خامیوں اور کمزوریوں کا خود جائزہ لیں ،بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ امت مسلمہ سے باہر ہمارا کیا تاثرپایا جاتا ہے ۔ اس میں کیا کیا منفی عوامل شامل ہیں؟ ہم میں ایسی کون سی حقیقی کمزوریاں موجود ہیں جو غیر مسلموں کی نظر میں ہمارے امیج کو خراب کرتی ہیں؟ کیا ہم اسلام کے حقیقی داعی اور مبلغ کا کردار ادا کررہے ہیں یا ہماری حیثیت بھی بہت سی قوموں کے ہجوم میں محض ایک عام سی قوم کی ہے جو سب کی طرح صرف اپنے ہی حقوق کے لیے مری جارہی ہو؟اپنی اخلاقی کمزوریوں کو دور کرکے ایک داعی و مبلغ کا اعلیٰ ترین کردار پوری دنیا کے سامنے پیش کرنا بہت بڑا جہاد ہے جس کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں اس تنقید کا مطالعہ بہت ضروری ہے جو ملحدین اور دوسرے غیر مسلم مفکرین نے مسلمانوں کے کردار پر کی ہے۔

اگر ان خطوط پر کام کیا جائے تو امید کی جاسکتی ہے کہ ہم آنے والے دور میں الحاد کا بہتر مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B