HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: آل عمران ۳: ۵۴-۵۷ (۱۳)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ)

  

وَمَکَرُوْاوَمَکَرَ اللّٰہُ، وَاللّٰہُ خَیْْرُ الْمٰکِرِیْنَ {۵۴} اِذْ قَالَ اللّٰہُ: یٰعِیْسٰٓی، اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ، وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا، وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ، ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاحْکُمُ بَیْْنَکُمْ فِیْمَا کُنتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ{۵۵} فَاَمَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا، فَاُعَذِّبُہُمْ عَذَاباً شَدِیْدًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ، وَمَا لَہُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ{۵۶} وَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ، فَیُوَفِّیْہِمْ اُجُوْرَہُمْ، وَاللّٰہُ لاَ یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ{۵۷} 
(یہ ہوا) اور بنی اسرائیل نے (اُس کے خلاف ) خفیہ تدبیریں کرنا شروع کیں، ۱۰۷؎ اور اللہ نے بھی (اِس کے جواب میں ) خفیہ تدبیر کی اور ایسی تدبیروں میں اللہ سب سے بڑھ کر ہے۔ ۱۰۸؎  اُس وقت، جب اللہ نے کہا: اے عیسیٰ ، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تجھے وفات دوں گااور اپنی طرف اٹھا لوں گا ۱۰۹؎ اور (تیرے) اِن منکروں سے تجھے پاک کروں گا ۱۱۰؎  اور تیری پیروی کرنے والوں ۱۱۱؎  کو قیامت کے دن تک اِن منکروں پر غالب رکھوں گا۔ ۱۱۲؎ پھر تم سب کو بالآخر میرے پاس آنا ہے ۔ سو اُس وقت میں تمھارے درمیان اُن چیزوں کا فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔ پھر رہے یہ منکر تو اِن کو میں دنیا اور آخرت ، دونوں میں سخت سزا دوں گا، ۱۱۳؎ اور وہ کوئی مددگار نہ پائیں گے، اور (اِن میں سے ) جو (اللہ پر) ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے تو اُن کو وہ اُن کا پورا اجر دے گا اور حقیقت یہ ہے کہ اِس طرح کے ظالموں کو اللہ ہرگز دوست نہیں رکھتا۔ ۵۴۔۵۷ 

۱۰۷؎  یہ تدبیریں کیا تھیں ؟ استاذامام امین احسن اصلاحی نے ان کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے:

’’ ایک تو انھوں نے آپ پر اور آپ کے ساتھیوں پراسلاف کی روایات توڑنے اور بزرگوں کی توہین و تحقیر کا الزام لگایا تاکہ عوام کے جذبات ان کے خلاف بھڑکائے جاسکیں ۔
دوسرا جال انھوں نے یہ بچھایا کہ اپنے مخصوص آدمی بھیج بھیج کر ان سے ایسے سوالات کیے جن کے جوابوں سے ان کے خلاف کفرو ارتداد کے فتوے کا مواد فراہم ہو سکے ۔ یہ کام یہود کے فقیہوں اور فریسیوں نے بڑی سرگرمی سے انجام دیا اور سیدنا مسیح کی تمثیلوں اور تشبیہوں کے اندر سے انھوں نے اپنی دانست میں وہ مواد فراہم کر لیا جس کی بنیاد پر ان کے واجب القتل ہونے کا فتویٰ دیا جا سکے ۔
تیسرا یہ کہ اس زمانے میں چونکہ ملک پر سیاسی اقتدار رومیوں کا تھا ، اس وجہ سے ان کو بھڑکانے کے لیے مواد فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ۔ پہلے تو خراج کی ادائیگی سے متعلق سیدنا مسیح علیہ السلام سے سوالات کیے گئے جن سے یہ ثابت ہو سکے کہ یہ شخص لوگوں کو قیصر کو خراج دینے سے روکتا ہے ۔ لیکن اس قسم کے سوالوں کے جواب سیدنا مسیح نے ایسے دندان شکن دیے کہ علماے یہود اپنا سا منہ لے کر رہ گئے ۔ پھر انھوں نے یہ الزام لگایا کہ یہ شخص اسرائیل کا بادشاہ ہونے کا مدعی ہے ۔اس کے لیے حضرت مسیح کے بعض تمثیلی اقوال سے مواد حاصل کرنے اور اس کے ذریعہ سے رومی حکومت کو بھڑکانے کی کوشش کی گئی۔
چوتھی تدبیر یہ کی گئی کہ سیدنا مسیح کے بارہ شاگردوں میں سے ایک شاگرد یہودا کو ، جو منافق تھا ، یہود نے رشوت دے کر اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ آنحضرت کی مخبری کرے اور ان کو گرفتار کرائے۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۱۰۲)

۱۰۸؎  اس کی صورت غالباً یہ ہوئی کہ جس شخص نے کوہ زیتون کی خلوت گاہ میں مسیح علیہ السلام کی مخبری کی تھی ، اس کی صورت انھی کی ہو گئی ۔ چنانچہ یہود نے اسی کو صلیب دی اور اس کی توہین کرتے رہے۔ آپ کو ہاتھ لگانا بھی ان کے لیے ممکن نہیں ہوا ۔

۱۰۹ ؎  یعنی روح قبض کر کے تیرا جسم بھی اپنی طرف اٹھا لوں گا تاکہ یہ ظالم اس کی توہین نہ کرسکیں ۔ مسیح علیہ السلام اللہ کے رسول تھے اور رسولوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ قانون قرآن میں بیان ہوا ہے کہ اللہ ان کی حفاظت کرتا ہے اور جب تک ان کا مشن پورا نہ ہو جائے ، ان کے دشمن ہرگز ان کو کوئی نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوتے ۔ اسی طرح ان کی توہین و تذلیل بھی اللہ تعالیٰ گوارا نہیں کرتے اور جو لوگ اس کے درپے ہوں ، انھیں ایک خاص حد تک مہلت دینے کے بعد اپنے رسولوں کو لازماً ان کی دستبرد سے محفوظ کر دیتے ہیں ۔

۱۱۰ ؎  یعنی علم و عقل اور سیرت و کردار کی نجاست میں مبتلا ان لوگوں سے الگ کر کے تمھیں صالحین وابرار کی اس دنیا میں لے جاؤں گا جو انھی کے لیے تیار کی گئی ہے۔

 ۱۱۱ ؎  اس سے مراد سیدنا مسیح علیہ السلام کے عام متبعین اور نام لیوا ہیں جو پہلے نصاریٰ اور اب مسیحی کہلاتے ہیں ۔ یہ موقع بشارت کا ہے جس کا تقاضا یہی ہے کہ اس میں وسعت ہو۔ پھر ’الذین اتبعوک‘ کے الفاظ یہاں ’الذین کفروا‘ کے مقابل میں آئے ہیں ، لہٰذا ان سے مراد منتسبین مسیح ہی ہو سکتے ہیں نہ کہ وہ لوگ جو آپ کے سچے پیرو اور آپ کی ہدایت پر مخلصانہ عمل کرنے والے ہوں۔

۱۱۲؎  یہ بنی اسرائیل کے لیے خدائی دینونت کا ظہور ہے جسے گزشتہ دو ہزار سال سے ہر شخص بچشم سر دیکھ سکتا ہے۔ اس غیر معمولی طور پرحیرت انگیز پیشین گوئی کو دنیا کا کوئی تغیر ، زمانے کی کوئی گردش اور وقت کی کوئی کروٹ کبھی ایک لمحے کے لیے بھی باطل نہیں کر سکی ۔ خدا اور اس کی عدالت کا یہ ایسا صریح ثبوت ہے جو ہر وقت ہماری آنکھوں کے سامنے ہے ۔ اس کے بعد وہ کیا چیز ہے جو قیامت کے بارے میں قرآن کی وعید کو جھٹلا سکتی ہے؟

۱۱۳؎  رسولوں کے منکروں کے لیے اللہ کا قانون یہی ہے کہ ان کی طرف سے اتمام حجت کے بعد وہ اسی دنیا میں عذاب سے دو چار ہو جاتے ہیں ۔ پھر بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے شہادت کے جس منصب پرفائز کیا ہے ، اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ان کے گناہوں کی سزا انھیں دنیا میں دی جائے ۔ چنانچہ قیامت تک کے لیے وہ جس طرح نصاریٰ کے محکوم بنائے گئے ہیں اور ان پر جو دل ہلا دینے والی آفتیں وقتاً فوقتاً آتی رہی ہیں ، وہ سب اسی قانون کے مطابق ہیں ۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــ

B