عن عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ قدم وفد عبد القیس علی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم . فقالوا: یا رسول اﷲ إنا ہذا الحی من ربیعۃ وقد حالت بیننا وبینک کفار مضر. فلا نخلص إلیک إلا فی شہر الحرام. فمرنا بأمر نعمل بہ وندعو إلیہ من وراء نا. قال آمرکم بأربع وأنہاکم عن أربع الایمان باﷲ ثم فسرہا لہم. فقال: شہادۃ أن لا إلٰہ إلا اﷲ وأن محمدا رسول اﷲ وإقام الصلاۃ وإیتاء الزکاۃ وأن تؤدوا خمس ما غنمتم وأنہاکم عن الدبا والحنتم والنقیر والمقیر زاد خلف فی روایتہ شہادۃ أن لا إلٰہ إلا اﷲ وعقد واحدۃ.
’’عبد اﷲبن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عبد القیس کے کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انھوں نے کہا: ہم اس قبیلے ربیعہ سے ہیں۔ ہمارے اور آپ کے مابین مضر کے کفار حائل ہیں۔ چنانچہ ہم سوائے حرام مہینوں کے آپ کی طرف نہیں نکل سکتے۔ لہٰذا آپ ہمیں ایسی باتیں بتا دیجیے جس پر ہم خود بھی عمل کریں اور انھیں ان کی دعوت دیں جو ہمارے پیچھے ہیں۔آپ نے فرمایا:میں تمھیں چار چیزیں بتاتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں۔ایمان باللہ، پھر آپ نے ان کے لیے اس کی وضاحت کی۔ فرمایا: اس بات کی گواہی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے رسول ہیں، نماز کی پابندی، زکوۃ کی ادائیگی اور یہ کہ تمھیں جو مال غنیمت حاصل ہو اس کا پانچواں حصہ دو۔میں تمھیں دبا، حنتم، نقیر اور مقیر سے روکتا ہوں۔خلف نے اپنی روایت میں شہادۃ ان لا الہٰ الا اللہ کا اضافہ کیا ہے اور ایک ہی شہادت کا ذکر کیا ہے۔ ‘‘
عن ابی جمرۃ قال: کنت أترجم بین یدی ابن عباس و بین الناس فأتتہ إمرأۃ تسألہ عن نبیذ الجر فقال : إن وفد عبد القیس أتوا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فقال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم من الوفد أو من القوم؟ قالوا: ربیعۃ. قال: مرحبا بالقوم او بالوفد غیر خزایا ولاندامی. فقالوا: یارسول اﷲ إنا نأتیک من شقۃ بعیدۃ وإن بیننا وبینک ہذا الحی من کفار مضر وإنا لا نستطیع أن نأتیک الا فی شہر الحرام فمرنا بأمر فصل نخبربہ من وراء نا ندخل بہ الجنۃ. قال فأمرہم بأربع ونہاہم عن أربع قال أمرہم بالایمان باﷲ وحدہ وقال: ہل تدرون ما الایمان باﷲ. قالوا: اﷲ ورسولہ أعلم. قال شہادۃ أن لا الٰہ الا اﷲ وأن محمدا رسول اﷲ واقام الصلاۃ وایتاء الزکاۃ وصوم رمضان وأن تودوا خمسا من المغنم ونہاہم عن الدباء والحنتم والمزفت. قال شعبۃ: وربما قال النقیر. قال شعبۃ : وربما قال المقیر. وقال احفظوہ وأخبروا بہ من ورائکم وقال ابوبکر فی روایتہ: من وراء کم ولیس فی روایتہ المقیر.
’’ابوجمرہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور لوگوں کے مابین ترجمانی کا کام کرتا تھا۔ ایک دن ایک عورت ان سے جر کی نبیذ کے بارے میں پوچھنے کے لیے آئی تھی۔ انھوں نے جواب میں کہا تھا: عبد القیس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: وفد کون ہے؟ یا یہ کہا: یہ لوگ کون ہیں؟ان لوگوں نے کہا:(ہم )ربیعہ (سے ہیں)۔آپ نے کہا: خوش آمدید، تم ہمارے ہاں معزز ہو اور تمھیں کوئی زحمت نہیں ہوگی۔ انھوں نے کہا :یارسول اللہ ہم بہت دور سے آئے ہیں۔ ہمارے اور آپ کے بیچ کفار کا یہ قبیلہ مضر حائل ہے۔ہم آپ کے پاس حرام مہینوں کے سوا نہیں آسکتے۔ ہمیں ایسی حتمی بات بتا دیجیے، جو ہم اپنے پیچھے والوں کو بتائیں اور جنھیں اپنا کر جنت میں داخل ہو جائیں۔آپ نے انھیں چار باتیں کرنے کو کہیں اور چار باتوں سے روکا۔ آپ نے کہا: اللہ اکیلے پر ایمان لاؤ اور پوچھا: جانتے ہو ایمان باللہ کیا ہے؟انھوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اس بات کی گواہی کہ اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، نماز کی پابندی،زکوٰۃ کی ادائیگی، رمضان کے روزے اور(مزید یہ کہ) مال غنیمت میں سے خمس ادا کرو۔ اور آپ نے انھیں دبا، حنتم، مزفت (اور نقیر) سے روکا۔شعبہ بیان کرتے ہیں کہ راوی نے کبھی نقیرروایت کیا اور کبھی مقیر۔آپ نے فرمایا: اسے اچھی طرح ذہن نشین کرلواور اپنے پیچھے والوں کو اس سے آگاہ کرو۔ابوبکر کی روایت میں ’من وراء کم‘ والا جملہ ہے ،لیکن اس میں مقیر نہیں ہے۔ ‘‘
عن ابن عباس عن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم بہذا الحدیث نحو حدیث شعبۃ وقال أنہاکم عما ینبذ فی الدباء والنقیر والحنتم والمزفت وزاد ابن معاذ فی حدیثہ عن أبیہ قال وقال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم للأشج أشج عبد القیس ان فیک خصلتین یحبہما اﷲ الحلم والأناۃ.
’’حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے یہی حدیث روایت کرتے ہیں۔ (لیکن وہ منہیات والا جملہ اس طرح )روایت کرتے ہیں: میں اس نبیذ سے تمھیں روکتا ہوں جو دبا، نقیر اور حنتم میں بنائی جاتی ہیں۔ابن معاذ اپنے باپ سے اس روایت میں اضافہ کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد القیس کے اشج سے کہا تھا: تمھارے اندر دو خصلتیں ہیں جنھیں اللہ پسند کرتے ہیں ایک حلم اور دوسرے اناۃ۔‘‘
عن قتادۃ قال: حدثنا من لقی الوفد الذین قدموا علی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم من عبد القیس قال سعید وذکر قتادۃ أبا نضرۃ عن أبی سعید الخدری فی حدیثہ ہذا أن أناسا من عبد القیس قدموا علی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فقالوا: یانبی اﷲ إنا حی من ربیعۃ وبیننا وبینک کفار مضر ولا نقدر علیک الا فی أشہر الحرم فمرنا بأمر نأمر بہ من وراء نا وندخل بہ الجنۃ اذا نحن أخذنا بہ. فقال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم آمرکم بأربع وأنہاکم عن أربع: اعبدوا اﷲ ولا تشرکوا بہ شیئا وأقیموا الصلاۃ وآتوا الزکاۃ وصوموا رمضان وأعطوا الخمس من الغنائم وأنہاکم عن أربع عن الدباء والحنتم والمزفت والنقیر. قالوا یانبی اﷲ ما علمک بالنقیر قال: بلی جذع تنقرونہ فتقذفون فیہ من القطیعاء قال سعید أو قال من التمر ثم تصبون فیہ من الماء حتی إذا سکن غلیانہ شربتموہ حتی إن أحدکم أو إن أحدہم لیضرب ابن عمہ بالسیف. قال وفی القوم رجل أصابتہ جراحۃ کذٰلک. قال وکنت أخبأہا حیاء من رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم. فقلت ففیم نشرب یا رسول اﷲ. قال فی أسقیۃ الأدم التی یلاث علی أفواہہا. قالوا یا رسول اﷲ، إن أرضنا کثیرۃ الجرذان ولا تبقی بہا أسقیۃ الأدم. فقال النبی صلی اﷲ علیہ وسلم وإن أکلتہا الجرذان وإن أکلتہا الجرذان وإن أکلتہا الجرذان. قال: وقال النبی صلی اﷲ علیہ وسلم لأشج عبد القیس إن فیک لخصلتین یحبہما اﷲ الحلم والأناۃ.
’’حضرت قتادہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں اس آدمی نے بتایا جو عبد القیس کے اس وفد سے ملا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تھا۔سعید نے کہا ہے اور قتادہ نے ابوسعید خدری سے ابونضرہ سے اپنی اس حدیث میں بیان کیا ہے کہ عبد القیس میں سے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انھوں نے کہا: یا نبی اللہ، ہم ربیعہ قبیلے کے لوگ ہیں اور ہمارے اور آپ کے بیچ میں کفارمضر حائل ہیں۔ ہم آپ کے پاس صرف حرام مہینوں ہی میں آسکتے ہیں۔چنانچہ آپ ہمیں وہ باتیں بتا دیں جنھیں ہم اپنے پیچھے والوں کو بتائیں، جن کے ذریعے سے ہم جنت میں داخل ہوں جب ہم انھیں اپنا لیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمھیں چار چیزیں کرنے کے لیے کہتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں۔ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیراؤ۔ نماز کی پابندی کرو۔ زکوٰۃ ادا کرو۔ رمضان کے روزے رکھو۔ مال غنیمت میں سے خمس ادا کرو۔ میں تمھیں چار سے دبا، حنتم، مزفت اور نقیر سے روکتا ہوں۔ انھوں نے کہا: یا نبی اللہ، آپ نقیر کے بارے میں کیا جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: کیوں نہیں،ایک تناجسے تم (برتن بنانے کے لیے ) گھڑتے ہو۔ پھر اس میں قطیعا ڈالتے ہو۔ سعید بیان کرتے ہیں کہ یا آپ نے تمر کہا۔پھر اس میں پانی ڈالتے ہو۔ پھر جب اس کا ابال ٹھنڈا پڑ جاتا ہے تو تم اسے پیتے ہو۔ کبھی کبھی یہ حالت بھی پیش آتی ہے کہ تم میں سے کوئی ، یا فرمایا ان میں سے کوئی اپنے چچا زاد پر تلوار چلا دیتا ہے۔راوی بیان کرتا ہے کہ ان لوگوں میں ایک ایسا آدمی تھا جسے اسی طرح زخم آیا تھا۔ اس نے بتایاکہ حیا کے باعث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے چھپا رہا تھا۔پھر میں نے پوچھا: یا رسول اللہ ہم کس میں پیئیں۔ آپ نے فرمایا: چمڑے کے مشکیزوں میں جن کے مونہوں کو باندھ دیا جاتا ہے ۔ انھوں نے کہا: یا رسول اللہ، ہمارا علاقہ بہت چوہوں والا ہے۔ اس میں چمڑے کے مشکیزے باقی نہیں بچتے۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خواہ انھیں چوہے کھا جائیں۔ خواہ انھیں چوہے کھا جائیں۔ خواہ انھیں چوہے کھا جائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالقیس کے اشج سے کہا: تمھارے اندر دو خصلتیں ہیں جنھیں اللہ پسند کرتے ہیں:ایک حلم دوسرے اناۃ۔‘‘
عن أبی سعید الخدری رضی اﷲ عنہ أن وفد عبد القیس لما أتوا نبی اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قالوا یا نبی اﷲ، جعلنا اﷲ فداء ک ماذا یصلح لنا من الأشربۃ فقال لا تشربوا فی النقیر قالوا یا نبی اﷲ جعلنا اﷲ فداء ک أو تدری ما النقیر؟ قال نعم الجذع ینقر وسطہ ولا فی الدباء ولا فی الحنتمۃ وعلیکم بالموکی.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عبد القیس کا وفد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو انھوں نے پوچھا: یا نبی اللہ، اللہ نے ہمیں آپ پر فدا ہونے والا بنایا، کیا آپ جانتے ہیں کہ نقیر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، تنا، جسے بیچ میں سے کھود دیا جاتا ہے۔ نہ تمھیں حنتمہ استعمال کرنا ہے۔ تمھارے لیے چمڑے کا مشکیزہ لازمی ہے۔‘‘
وفد : یہ’ وافد‘ کی جمع ہے۔ یہ لفظ اس فرد کے لیے آتا ہے جو کسی خاص مقصد سے کسی ذمہ دار کے پاس آیا ہو۔
عبد القیس : عدنانی قبیلہ جو بحرین کے علاقے میں آباد تھا۔ ان کے آگے حجاز کے راستے میں مضر کے قبائل آباد تھے۔
الحی: یہ لفظ اصل میں اس جگہ کے لیے ہے جہاں کوئی قبیلہ آباد ہو۔ چونکہ ’قبیلۃ‘ اور’ حی‘ اس زمانے میں لازم وملزوم کی حیثیت رکھتے تھے اس لیے مترادف کے طور پر بھی استعمال ہو جاتے تھے۔
شہر الحرام: حرام مہینا۔ یہ موصوف کی صفت کی طرف اضافت ہے۔ کوفیوں کے نزدیک یہ جائز ہے۔ بصریوں کے نزدیک یہ جائز نہیں ہے۔ وہ اس میں صفت کے موصوف کو بربناے قرینہ حذف مانتے ہیں۔ پوری ترکیب ان کے نزدیک ’شہر الوقت الحرام‘ ہے۔
ربیعۃ : یہ بھی عبد القیس کی طرح ان کے کسی جد کا نام ہے، جس کی نسبت سے یہ ربیعہ بھی کہلاتے تھے۔
مرحبا بالقوم: یہ استقبال کا جملہ ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ لوگ کشادگی اور سہولت کی جگہ پر آئے ہیں۔ ’مرحبا‘ نحواً مفعول بہ ہے جس کا عامل حذف ہو گیا ہے۔
غیر خزایا ولا ندامی:’خزایا‘ ،’خزیان ‘کی جمع ہے، جو ’خزی‘ سے اسم صفت ہے۔ ’خزی‘ رسوائی اور ذلت کے معنی میں آتا ہے۔ ندامی، ندمان کی جمع ہے ۔ یہ بھی اسم صفت ہے جس کا مطلب ہے بہت شرمندہ۔ مراد یہ ہے کہ نہ تم رسوا ہو گے اور نہ ہمارے ہاں آنے پر شرمندہ۔یہ استقبال کے جملے کا حصہ ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ ہمارے ہاں معزز ہو۔
حنتم : ایک سبز برتن جس میں شراب بنائی جاتی تھی۔ یہ مٹی کا برتن تھا جس پرسبز، سرخ یا سبزی مائل سرخ رنگ کیا جاتا تھا۔ غالبًا یہ ایک خاص طرح کی کوٹنگ تھی جس سے اس کے مسام بند ہوجاتے تھے۔ ایک رائے یہ ہے کہ یہ برتن خون، بالوں اور مٹی کوگوندھ کر بنایا جاتا تھا۔شراب بنانے کا خاص برتن جس میں جلد خمیر پیدا ہو جاتا تھا۔
دبا: خشک کدو سے بنا ہوا برتن اس میں بھی شراب بناتے تھے۔
نقیر: درخت کے تنے کا ایک حصہ جسے کھوکھلا کرکے یعنی برتن بنا کر اس میں شراب تیار کی جاتی تھی۔
مزفت: کالے تیل سے چپڑا ہوا برتن یہ بھی شراب بنانے کے کام آتا تھا۔
الجر: مٹی کا مٹکا۔
الموکی : مشکیزہ۔لفظی مطلب ہے: وہ جس کا منہ بندھا ہوا ہو۔
الحلم : دانائی اور سمجھ داری۔
الاناۃ : سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا، یعنی رائے اور عمل میں جلد بازی نہ ہونا۔
اس روایت کے دو پہلو ہیں۔ ایک زاویے سے دیکھیں تو یہ سیرت کے کچھ پہلووں کو بیان کرتی ہے۔ دوسرے زاویے سے اس میں دین کے کچھ احکام بیان ہوئے ہیں۔ سیرت کے حوالے سے اس روایت کا نمایاں حصہ ایک قبیلے کے کچھ افراد کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہونے کا بیان ہے۔استاد گرامی نے اس حدیث کا درس دیتے ہوئے بیان کیا ہے کہ یہ عام الوفود کا واقعہ ہے۔ عام الوفود اس سال کو کہتے ہیں جس میں اطراف عرب سے مختلف قبائل کے لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔یہ لوگ آتے، اپنے قبول اسلام کا اظہار کرتے ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ضروری رہنمائی حاصل کرتے اور واپس چلے جاتے۔ ربیعہ کے یہ لوگ بھی اسی غرض کے لیے آئے تھے۔ شارحین نے بیان کیا ہے کہ یہ تعداد میں چودہ تھے۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ تیس لوگ تھے۔
روایت سے واضح ہے کہ یہ لوگ اسلام قبول کر چکے تھے اور اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بالمشافہ ملاقات اور براہ راست استفادے کے لیے آئے تھے۔شارحین نے ان کے قبول اسلام کے سبب کی تفصیل بھی کی ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں ان کا ایک آدمی منقذ بن حیان تجارت کے لیے یثرب آیا کرتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعدبھی وہ تجارت کے لے آیا تھا۔ وہ بیٹھا ہوا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس سے گزرے تو وہ کھڑا ہو گیا۔ آپ نے پوچھا: منقذ بن حیان ہو؟ تمھارے اور تمھاری قوم کے حالات کیا ہیں۔ پھر آپ نے اس کی قوم کے معززین کے بارے میں ایک ایک فرد کا نام لے کر پوچھا۔ اس پر وہ مسلمان ہو گیا۔ اس نے سورۂ فاتحہ اور سورۂ اقرا سیکھی اور واپس چلا گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے عبد القیس کے لیے ایک خط بھی دیا تھا۔ اس نے یہ سارا معاملہ ظاہر نہیں کیا، لیکن اس کی بیوی کو کچھ خبر ہو گئی۔ وہ منذر بن زائل کی بیٹی تھی۔ یہ منذر وہ شخص ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشانی کے نشان کی وجہ سے اشج کا نام دیا تھا۔منقذ نماز پڑھتے اور تلاوت کرتے تھے۔ یہ بات ان کی بیوی کو کچھ عجیب لگی۔اس نے اپنے باپ سے کہا: جب سے میرا شوہر یثرب سے لوٹا ہے، کچھ بدل سا گیا ہے۔ اپنے اطراف دھوتا ہے ، قبلے کی طرف منہ کرتا ہے، کبھی کمر جھکاتا ہے اور کبھی ماتھا زمین پر ٹکا دیتا ہے۔جب سے لوٹا ہے، یہی اس کا معمول ہے۔ چنانچہ دونوں (باپ بیٹی)اس سے ملے اوراس سے اس معاملے پر گفتگو کی۔ گفتگو کے نتیجے میں ایمان اشج کے دل میں اتر گیا۔اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ پکڑا اور اپنی قوم عصر ومحارب کے درپے ہو گیا۔ قوم کے دلوں میں بھی ایمان گھر کر گیا۔ اسی موقع پر انھوں نے طے کیا کہ وہ مدینہ جائیں گے۔ چنانچہ جب یہ لوگ مدینہ کے قریب آئے تو آپ نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں سے کہا: عبد القیس کا وفد آرہا ہے۔ یہ مشرق کے بہترین لوگ ہیں ۔ ان میں اشج عصری ہے۔ یہ لوگ نہ عہد توڑنے والے ہیں،نہ بات بدلنے والے ہیں اور نہ شک میں پڑنے والے ہیں۔ حالاں کہ کوئی قوم جب ایمان لاتی ہے تو اسے ضرور ستایا جاتا ہے۔(بحوالہ شرح مسلم للنووی ۱/ ۱۸۱)
سیرت کے حوالے سے اس روایت میں بیان ہونے والی دوسری چیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز تپاک ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جس طرح خیر مقدم کہا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ان لوگوں کے لیے خصوصی قدر تھی۔ روایت میں اس حوالے سے جو جملے آئے ہیں ان کا تعلق اگرچہ عرب کلچر سے ہے ،لیکن ان میں موجود گرم جوشی کا ہم بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں۔
سیرت کے حوالے سے اس روایت سے سامنے آنے والی تیسری چیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوحاصل نبوت کا حسی اظہار ہے۔ منقذ سے ہونے والی بات چیت میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قوم کے افراد کے نام جس طرح بیان کیے اور اسی طرح وفد سے گفتگو میں شراب پینے کے انجام کووفد میں شامل ایک فرد پرگزرنے والے تجربے کو جس طرح مثال کی صورت میں بیان کیا، یہ حضور کے پیغمبرانہ وجود کا اظہار تھا۔ استاد گرامی نے مسلم کا درس دیتے ہوئے بیان کیا کہ پیغمبر جب خود موجود ہوتا ہے تو اس کے ماحول سے پوری طرح واضح ہوتا ہے کہ اسے خدا کی رہنمائی اور معیت حاصل ہے۔ یہ اور اس طرح کی بیسیوں مثالیں اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہیں۔
سیرت کے حوالے سے اس روایت سے چوتھی چیز یہ واضح ہوتی ہے کہ کار دعوت میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی گروہ کے خاص مسئلے کو پیش نظر رکھا ہے۔ اس روایت میں عبدالقیس کو شراب کے بارے میں خصوصی ہدایت کی گئی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ قبیلہ شراب کے استعمال کی خرابی میں شدت سے مبتلا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انھیں مختصر طریقے پر دین بتایا تو اس میں شراب کی حرمت کو خاص اہمیت سے بیان کیا ۔ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے انبیا کا اسوہ بھی یہی ہے۔ جیسے حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کی ایک برائی کے استیصال کو اپنے کاردعوت میں خاص اہمیت دی۔
سیرت کے حوالے سے پانچویں چیز اس روایت سے یہ واضح ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعوت میں کس چیز کو سب سے نمایاں رکھتے تھے۔ اس وفد نے سوال یہ کیا کہ ہمیں وہ بات بتائی جائے جو ہمیں جنت میں لے جائے۔قرآن مجید میں بھی سب سے بڑھ کر جس چیز کی منادی کی گئی ہے وہ آخرت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن ہی کے ذریعے سے انذار کیا ہے۔ ظاہر ہے یہی چیز آپ کی عمومی گفتگو میں بھی نمایاں رہتی تھی ۔اس کا نتیجہ بھی سامنے تھا۔ ہمیں راویت اور سیرت کی کتابوں میں متعدد سوال کرنے والے یہی سوال کرتے نظر آتے ہیں۔
اس سوال کے جواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمھیں چار باتوں کا حکم دیتا ہوں اور چار باتوں سے روکتا ہوں۔ استاد گرامی نے اس اسلوب کی وضاحت کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ عرب قابل توجہ بات کو بیان کرنے کے لیے عدد کا استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ اسلوب عام نہیں ہے۔اس اسلوب سے مخاطب کو بات اخذ کرنے اور اسے اپنے ذہن میں محفوظ رکھنے میں مدد ملتی ہے۔استاد محترم نے دوسری بات یہ واضح کی کہ اس اسلوب کے لیے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ یہ عدد کے مطابق الگ الگ چیزیں ہوں۔ بسا اوقات ایک ہی بات کے اجزا یا فروع یا تقاضے بھی اس میں بیان کر دیے جاتے ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چار چیزوں کو کرنے کے لیے کہا ہے ۔ ایک فرق کے ساتھ وہ وہی ہیں جن کا ذکر حدیث جبریل میں اسلام کی تفصیل کے ضمن میں ہوا ہے۔ شارحین کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت تک حج فرض نہیں ہوا تھا۔ممکن ہے اس موقع پر حج کا ذکر نہ ہونے کی وجہ یہی ہو۔ بہر حال یہ وہ باتیں ہیں جو ہمارے دین میں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ ان کے بارے میں تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے۔ ان سے متعلق تفصیلات ان سے متعلق ابواب میں بیان ہوں گی۔چوتھی چیز خمس ہے۔ استاد محترم نے بیان کیا ہے کہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ زکوٰۃ کے حکم ہی کی فرع ہے۔
مشکوٰۃ کا درس دیتے ہوئے استاد محترم نے بیان کیا ہے کہ قرآن مجید نے سورۂ انفال میں واضح کیا ہے کہ جہاد میں کامیابیاں اور مال غنیمت کا حصول اللہ تعالیٰ کی خصوصی نصرت کے نتیجے میں ہو رہا ہے۔ اس لیے یہ اصل میں اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے۔ لیکن چونکہ مجاہدین اپنے سامان حرب کے ساتھ رضاکارانہ ان جنگوں میں شریک ہو رہے ہیں اس لیے مال غنیمت کا پانچواں حصہ رکھ کر باقی ان کو دیا جائے گا۔ استاد محترم نے واضح کیا کہ موجودہ زمانے میں باقاعدہ تنخواہ دار فوج رکھی جاتی ہے اور سامان حرب کی حکومت کی سطح پر فراہمی کا اہتمام ہوتا ہے لہٰذا اب حکومت مال غنیمت کے ضمن میں جو قانون سازی چاہے کر سکتی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چار چیزوں سے منع کیا ہے۔ وہ اپنی حقیقت میں ایک ہیں۔ قرآن مجید میں شراب پینے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ سورۂ مائدہ میں ہے:
اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسُٗ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ.(۵: ۹۰)
’’اے ایمان والو، شراب، جوا، تھان اور پانسے کے تیر بالکل نجس شیطانی کاموں میں سے ہیں۔ تم ان سے بچو تاکہ فلاح پاؤ۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جانتے ہوئے کہ ان کے ہاں مختلف طریقوں سے شرابیں بنائی جاتی ہیں اور ان کے لیے مخصوص برتن استعمال ہوتے ہیں۔ ان برتنوں کے استعمال سے بالکلیہ روک دیا۔ یہ نہی سد ذریعہ کے اصول پر ہے۔ مراد یہ ہے کہ ایک حرمت سے بچانے کے لیے اس کے متعلقات سے بھی پرہیز کیا جائے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں جب شراب کی حرمت کا شعور اور اس سے پرہیز کی عادت محکم ہو گئی تو ان برتنوں کے استعمال کی اجازت دے دی گئی۔
اس گروہ کے ایک فرد کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سامنے تحسین کے کلمات کہے۔ شارحین نے بیان کیا ہے کہ یہ لوگ جب مدینہ پہنچے تو باقی لوگ بغیر زیادہ ترددکیے مسجد نبوی میں آگئے۔ لیکن حضرت اشج رضی اللہ عنہ نے باقاعدہ تیاری کی اور پھر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ظاہر ہے یہ ایک باوقار آدمی ہونے کا اظہار ہے۔ خیال ہوتا ہے کہ ان کا سوچ سمجھ کر معاملات کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو میں بھی ظاہر ہوا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعریف کی۔ حقیقت یہ ہے کہ حلم اور اناۃ یعنی سمجھ داری اور سوچ سمجھ کر اقدام ایک بڑی شخصیت کی بنیادی خوبیاں ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واضح کیا کہ یہ خوبیاں اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں۔ اس سے سننے والوں کو یہ ترغیب دلائی کہ وہ انھیں پیدا کرنے کی کوشش کریں ۔
ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس روز ظہر کے فرضوں کے بعد کے نفل نہیں پڑھ سکے تھے۔ آپ نے یہ نفل عصر کے بعد پڑھے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وفد سے یہ ملاقات ظہر سے عصر تک جاری رہی تھی۔ظاہر ہے اتنے وقت میں متعدد باتیں ہوئی ہوں گی۔ اس روایت میں وہی بات نقل ہوئی ہے جو بعد میں دین کے سمجھنے سمجھانے میں معاون ہوئی۔
یہ بات ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ وفد عبد القیس اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری گفتگو روایت نہیں ہوئی ہے۔ اس ملاقات کے دوتین نکات ہی روایات میں نقل ہوئے ہیں۔ مسلم رحمہ اللہ نے اس روایت کے کم وبیش تمام دستیاب متون اپنی کتاب میں لے لیے ہیں۔ ان کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تمہید اور اختتام کی چند تفصیلات کے سوا چند لفظی فرق کے ساتھ ایک ہی بات تمام روایات میں بیان ہوئی ہے۔
بخاری، رقم ۵۳، ۸۷، ۵۰۰، ۱۳۳۴، ۲۹۲۸، ۳۳۱۹، ۴۱۱۱، ۵۸۲۲، ۶۸۳۸، ۷۱۱۷۔ مسلم، رقم۱۷، ۱۸، ۱۹۹۵۔
ابوداؤد، رقم ۳۶۹۲، ۴۶۷۷۔ ترمذی، رقم ۲۶۱۱۔ نسائی، رقم ۵۰۳۱، ۵۶۳۸، ۵۶۹۱، ۵۶۹۲۔ مسند احمد، رقم ۲۰۲۰، ۳۴۰۶، ۳۴۰۷، ۴۹۹۵، ۱۱۱۹۱، ۱۱۵۶۱، ۱۱۸۷۱، ۲۵۰۴۴۔ ابن حبان، رقم ۱۵۷، ۴۵۴۱، ۷۲۹۵۔ابن خزیمہ، رقم ۱۸۷۹، ۲۲۴۵، ۲۲۴۶۔ بیہقی، رقم ۷۶۸۲، ۱۲۵۰۰، ۱۲۵۲۸، ۱۷۲۰۶، ۱۷۲۰۸، ۱۷۲۰۹، ۲۰۰۶۰، ۲۰۵۹۱۔ ابویعلیٰ، رقم ۵۶۱۲۔ عبدالرزاق ، رقم ۱۶۹۲۹، ۱۷۱۱۸۔ ابن شیبہ،رقم ۲۳۷۴۳، ۳۲۴۹۹۔
_____________