HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ساجد حمید

شرح موطا امام مالک باب و قوت الصلوٰۃ نماز کے اوقات

[۶] وحدثنی عن مالک عن نافع مولی عبد اللّٰہ بن عمر:

اَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابَ کَتَبَ اِلَی عُمَّالِہٖ: اِنَّ اَہَمَّ اَمْرِکُمْ عِنْدِی الصَّلَاۃُ. فَمَنْ حَفِظَہَا وَحَافَظَ عَلَیْہَا، حَفِظَ دِیْنَہُ. وَمَنْ ضَیَّعَہَا فَہُوَ لِمَا سِوَاہَا اَضْیَعُ.
ثُمَّ کَتَبَ: اَنْ صَلُّوْا الظُّہْرَ اِذَا کَانَ الفَیْءُ ذِرَاعًا اِلَی اَنْ یَکُوْنَ ظِلُّ اَحَدِکُمْ مِثْلَہُ. وَالْعَصَرَ ،وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَۃٌ بَیْضَاءُ نَقِیَّۃٌ، قَدْرَ مَا یَسِیْرُ الرَّاکِبُ فَرْسَخَیْنِ اَوْ ثَلَاثَۃً، قَبْلَ غُرُوْبِ الشَّمْسِ. وَالْمَغْرِبَ اِذَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ. وَالْعِشَاءَ اِذَا غَابَ الشَّفَقُ اِلَی ثُلُثُ اللَّیْلِ. فَمَنْ نَامَ فَلَا نَامَتْ عَیْنُہُ. فَمَنْ نَامَ فَلَا نَامَتْ عَیْنُہُ ، فَمَنْ نَامَ فَلَا نَامَتْ عَیْنُہُ .وَالصُّبْحَ، وَالنُّجُوْمُ بَادِیَۃٌ مُشْتَبِکَۃٌ.
’’نافع کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے اپنے عمال کو یہ خط لکھا: میرے نزدیک تمھارے لیے سب سے اہم دینی عمل نماز ہے۔جس نے اس کی حفاظت کی اوراس پر جما رہا، تو اس نے اپنے دین و ایمان کی حفاظت کی اور جس نے اسے ضائع کردیا، تو اس نے اس کے علاوہ جوکچھ ہے ، سب ضائع کردیا۔
انھوں نے یہ بھی لکھا:ظہر اپنے سایہ کے ایک ہاتھ کے برابر ہونے سے لے کر مثل سایہ ہونے کے وقت کے بیچ میں پڑھو۔ عصر اس وقت پڑھو، جب سورج ابھی بلند، سفید اورروشن ہو، اتنا کہ ایک سوار اس کے غروب سے پہلے پہلے دو یا تین فرسخ کا فاصلہ طے کرسکے۔ مغرب سورج ڈوبتے ہی پڑھ لو۔ عشا غیاب شفق سے ایک تہائی رات کے بیچ میں پڑھو۔تو جو کوئی (عشا سے پہلے )سو گیاتو اے اللہ ، پھر اس کی آنکھ نہ سوئے ، تو جو کوئی سو گیا،تو اے اللہ ، پھر اس کی آنکھ نہ سوئے ، تو جو کوئی سو گیاتواے اللہ ، پھر اس کی آنکھ نہ سوئے ۔ اور صبح اس وقت پڑھو جب ستارے ابھی نمایاں اورباہم گتھم گتھاہوں۔‘‘

شرح

مفہوم و مدعا

اس روایت کے دو حصے ہیں ، ایک تمہید ہے اور دوسرے اوقات نماز کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے۔ تمہید میں انھوں نے نماز کی اہمیت بیان فرمائی ہے۔

نماز کی اہمیت حضرت عمر نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اگر اسے چھوڑ دو گے تو دین جاتا رہے گا۔ یہاں یہ اتنی بات جان لینی چاہیے کہ نماز سے دین کی حفاظت صحابہ یا دوسرے لفظوں میں بنی اسماعیل کے لیے دوپہلووں سے ہے اور ہمارے لیے ایک پہلو سے۔یہ چونکہ حضرت عمر کا قول ہے جو انھوں نے اپنے عمال کو لکھا ہے، اس لیے اس میں دونوں پہلو شامل ہیں۔ اس پر تفصیلی گفتگو ’قرآن و سنت سے تعلق ‘کی فصل میں ہو گی۔

اس تمہید کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نماز کے اوقات بتائے ہیں ۔ ان اوقات میں تعجیل ہی کے اصول کو ملحوظ رکھا ہے۔ یعنی چونکہ وہ نماز کی اہمیت پر بات کررہے تھے ، اس لیے انھوں نے نماز کے مقرراوقات نہیں،بلکہ نماز کے وہ اوقات بتائے ہیں، جو تعمیل امر میں زیادہ بہتر ہیں۔جن میں نماز ادا کرنے ہی سے اس کے حقیقی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ان اوقات کی اہمیت و نوعیت پر پچھلی روایتوں میں تفصیل سے بات ہو چکی ہے۔ اس لیے یہاں اسے بیان کرنا محض تکرار ہو گا۔

آخر پر انھوں نے عشا سے پہلے سونے والے کو متنبہ کیا ہے کہ وہ نہ سوئے، اوریہ تنبیہ انھوں نے بددعا کے لہجے میں کی ہے۔ یہ تاثر دینے کے لیے کہ یہ نہایت ہی غلط عمل ہے کہ بندۂ مومن عشا سے پہلے سو جائے۔

یہ خط انھوں نے عمال کی طرف لکھا تھا۔حکمران کی حیثیت سے اور بالخصوص شہداء اللہ علی الارض کے نمائندہ ہونے کی حیثیت سے ایک خاص نوعیت کی دعوت دین کی ذمہ داری حضرت عمر پر عائد ہوتی تھی۔اس ذمہ داری کو انھوں نے ادا کیا اور کوشش کی کہ اس امت میں ترک نماز جیسا بگاڑ نہ آئے۔

اس بات کا پورا امکان ہے کہ یہ خط انھوں نے عمال کو اس لیے لکھا ہو کہ وہ مساجد میں جماعت کا اہتمام ،ان اوقات میں کریں، اس سے تاخیر نہ کریں۔

لغوی مسائل

حفظہا وحافظ علیہا: حفظ سے مراد حفاظت و نگرانی ہے، اور محافظت(حافظ) سے مرادمواظبت و ملازمت ہے۔ ترجمے میں اسے ہم نے ’اس پر جما رہا‘ کے الفاظ سے بیان کیا ہے۔

سیدنا عمر نے پہلے’ ضیّع‘ اور پھر اسی معنی میں’ أَضیع‘ استعمال کیا ہے۔مزید فیہ سے افعل التفضیل نہیں بنتا۔ سیبویہ کے نزدیک ’أضاع یضیع‘ سے’ أضیع‘ بنانا اس لیے درست ہے کہ اس کے شروع میں ہمزہ آتا ہے۔

الفیء‘ کے اصل معنی زوال کے بعد کے سائے کے ہیں۔یعنی پلٹا ہوا سایہ ۔ زوال سے پہلے کے سایہ کے لیے یہ استعمال نہیں ہوتا تھا ۔اس لیے کہ اس کے معنی ہی پلٹنے کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’ حتٰی تفِیٓء إلی امر اللّٰہ‘’حتیٰ کہ وہ گروہ اللہ کے فیصلے کی طرف لوٹ آئے‘(الحجرات ۴۹: ۹)۔

اس خط میں سیدنا عمر نے دو جملے ایسے بولے ہیں، جو اگر چہ مشکل نہیں ہیں ، مگر کلام کے صحیح مدعا کو سمجھنے کے لیے ان کے صحیح موقع استعمال سے واقف ہونا ضروری ہے۔پہلا جملہ ہے:’ فمن نام فلا نامت عینہ‘ یہ اپنے صیغوں میں بظاہر بددعا ہے ،لیکن یہ دراصل اس وقت کی نیند سے اظہار نفرت کے لیے بولا گیا ہے۔ یہ سوجانے والے کے لیے بے سکونی کی بددعا نہیں ہے۔

دوسرا جملہ’ والنجوم بادیۃ مشتبکۃ‘ کا ہے۔ یہ کنایہ ہے اندھیرا ہونے سے۔ اس لیے کہ جب اندھیرا ہو گا تو ستارے زیادہ روشن اور تعداد میں بھی زیادہ نظر آئیں گے۔ اس لیے باہم گتھم گتھا دکھائی دیں گے۔

فرسخین او ثلاثۃ: یہ تحدید و تعیین کے لیے نہیں ، بلکہ اندازہ و تخمین کے لیے ہے۔یعنی یہ بات نہیں ہے کہ آدمی تین فرسخ (یعنی نو میل )کا فاصلہ یقیناًطے کرسکے۔ بلکہ ایک اندازہ سا بتانے کے لیے یہ اسلوب اختیار کیا گیاہے۔ مراد صرف یہی ہے کہ آدمی نماز عصر کو سورج کے زرد ہونے پرنہ پڑھے، بلکہ اس سے پہلے پہلے ادا کر لے۔ اس لیے کہ گرمیوں میں عصر کے بعد تو نو میل شاید سوار مغرب سے پہلے سفر طے کرلے، سردیوں میں شاید ایسا ممکن نہ ہو۔ یہ اسلوب ہم اردو میں بھی استعمال کرتے ہیں، جیسے :’’بھئی یہی کوئی دو تین میل دو رہو گا‘‘۔

درایت

قرآن وسنت سے تعلق

نمازو ں کے اوقات سنت انبیا ہی کا بیان ہے۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے مشاہدے پر مبنی ان کی رائے ہے۔یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کم وبیش وہی اوقات بتائے ہیں، جو حضرت جبریل علیہ السلام کی امامت والی روایت میں بیان ہوئے ہیں، اور انھی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مداومت تھی۔یہ اثر بھی اوقات کا تعین نہیں کرتا ،بلکہ ان اوقات کا پتا دیتا ہے ،جن میں نماز پڑھنے والا غفلت کے الزام سے بری ہوگا۔

نماز کی اہمیت حضرت عمر نے یہ بیان کی ہے کہ اس کی حفاظت اور مداومت دین کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔دین پر قیام کے دو معنی ہیں۔ ایک اس کے احکام پر عمل کرنایعنی نیکی پر قائم رہنا اور دوسرے حامل دین ہوتے ہوئے، اس کے نقیب اور شاہد بن کر رہنا ۔۱؂ نماز ان دونوں پہلووں سے دین کے قیام کا ذریعہ ہے۔

پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ نماز ہمیں نیکی پر کیسے قائم رکھتی ہے۔ نماز کے ضائع کرنے اور اس کے بعد شہوات میں پڑنے کا قرآن نے مختلف مقامات پر اس طرح سے ذکر کیا ہے کہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔مثلاً سورۂ مریم میں’ اضاعوا الصلوٰۃ واتبعوا الشہوات‘ انھوں نے نماز ضائع کی ،اور(اس کے نتیجہ میں) خواہشوں میں مبتلا ہو گئے۔

اسی طرح قرآن کے الفاظ ہیں :’اقم الصلوٰۃ لذکری‘(طہ۲۰:۱۴) ’میری یاد کے لیے نماز کا اہتمام کرو‘۔ خداکی یہ یاد ایک نہایت موثر ہتھیار ہے۔یہ شیطان کو ہمارے قریب آنے اور پھر ہم پر مسلط ہوجانے سے روکتی ہے۔ یہ بات بھی قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ’ ومن یعش عن ذکر الرحمن نقیض لہ شیطانا، فہو لہ قرین‘(الزخرف۴۳: ۳۶ ) ’’اورجو رحمن کے ذکر سے اعراض کرلیتا ہے ، ہم اس پر شیطان کو مسلط کردیتے ہیں، وہ پھر اس کا ہم جولی بن جاتا ہے‘‘۔

اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص ذکر (یاددہانی) سے گریزاں ہو گا ، وہ شیطانوں کے نرغے میں آتا چلا جائے گا، اور ایک وقت وہ آجائے گا کہ وہ اس کے دوست اور ہم مشرب بن جائیں گے اور پھر جو شیطان اس سے کہے گا ،وہ وہی کرے گا۔

نماز کے اسی عمل، جو وہ یاد الہٰی کو تازہ کرکے کرتی ہے، کو قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ’ان الصلوٰۃ تنہی عن الفحشاء والمنکر‘،(العنکبوت۲۹: ۴۵)’’بلاشبہ نماز فحش کاموں اور برائی سے روکتی ہے‘‘۔ چنانچہ جب آدمی نماز کی محافظت کرے گا،تو اس کے دل میں خدا کی یاد تازہ رہے گی۔ جب یہ یاد اس کے دل میں بسی رہے گی تو وہ شیطان کی دوستی سے محفوظ رہے گا، اور جب شیطان اس کا دوست نہیں بنے گا تو وہ اسے برائی پرراغب نہیں کرسکے گااور یوں اس کے برائی سے بچنے کے امکانات بہت بڑھ جائیں گے ،جس سے اس کا دین و ایمان محفوظ رہے گا۔

اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ شہداء اللہ کے لیے نماز کی کیا اہمیت بتائی گئی ہے ۔ قرآن مجید میں بنی اسماعیل کو جب شہادت کے منصب پرفائزکیا، اور ان سے جب عہد لیا کہ تم مجھے یاد رکھنا میں تمھیں یاد رکھوں گا تو اس موقع پر انھیں یہ حکم دیا کہ اس عہد پر قائم رہنے کے لیے نماز سے مدد لیں۔قرآن مجید کا فرمان ہے:

فَا ذْ کُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ وْاشْکُرْوْالِیْ وَلاَ تَکْفُرُوْنِ ، یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوااسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ، اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ.(البقرہ ۲: ۱۵۲۔۱۵۳)
’’تم مجھے یاد رکھو، میں تمھیں یاد رکھوں گا، میری شکر گزاری کرتے رہنا، میری ناشکری نہ کرنا۔ اے ایمان والو، ثابت قدمی اور نماز سے مدد چاہو،بے شک اللہ ثابت قدموں کے ساتھ ہے۔‘‘

ٹھیک ایسا ہی بنی اسرائیل کے ساتھ اس عہد کے موقع پر ان سے کہاگیا:

وَقَالَ اللّٰہُ اِنِّیْ مَعَکُمْ لَءِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَیْتُمُ الزَّکٰوۃَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ.(المائدۃ ۵: ۱۲)
’’اور اللہ نے ان سے کہا: میں تمھارے ساتھ ہوں اگر تم نماز قائم کرو گے اور زکوٰۃ دو گے، اور میرے رسولوں کو مانو گے۔‘‘

نماز کی اس دوہری اہمیت کے پیش نظر خلفاے راشدین اس کے بارے میں ہمیشہ بیدار رہے۔ اور جیسے ہی ائمۂ بنی اسماعیل نماز میں کمزور ہوتے گئے ، وہ اللہ کے ساتھ سے محروم ہوتے گئے۔ حضرت عمر نے اسی لیے فرمایا کہ نماز تمھارے لیے سب سے اہم دینی حکم ہے۔ اسے ضائع کرو گے تو سارے دین سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔

دیگر متون
عن نافع عن بن عمر قال کتب عمر الی اہل الامصار ان صلوا الظہر اذا زالت الشمس الی ان یکون ظل کل شیء مثلہ والعصر والشمس باقیۃ قدر ما یسیر الراکب فرسخین او ثلاثۃ والمغرب حین تغرب الشمس وتدخل اللیل والعشاء اذا غاب الشفق الی ثلث اللیل لا تشاغلوا عن الصلاۃ فمن نام فلا نامت عینہ فمن نام فلا نامت عینہ.(مصنف عبد الرزاق ، رقم۲۰۳۷)
’’نافع نے عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے شہر والوں کو خط لکھا کہ وہ ظہر سورج کے ڈھلنے سے لے کرمثل سایہ تک پڑھیں۔ اور عصر اس وقت پڑھیں، جب سورج ڈوبنے میں اتنا وقت باقی ہو کہ ایک سوار دو یا تین فرسخ چل سکے۔ مغرب سورج ڈوبنے سے رات آنے تک پڑھو۔اور عشا ء شفق کے غیاب سے ایک تہائی رات تک، سنو نماز سے کوئی چیز تمھیں غافل نہ کرے، تو جو کوئی سوئے خدا کرے اس کی آنکھ نہ سوپائے،تو جو کوئی سوئے خدا کرے اس کی آنکھ نہ سوپائے۔‘‘

احادیث باب پر نظر

یہ اثر بھی پچھلی تمام حدیثوں کی طرح نماز کے اوقات میں ایک طرح کا تضاد پیدا کرتا ہے۔ ہم اس باب کی پچھلی روایتوں میں تفصیل سے اس مسئلے پر گفتگو کر آئے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ اثر بھی سبقت الی الخیر ہی کے وقت کو بیان کرتا ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ خیر القرون میں خدا کے حضور حاضری کا وقت خلفاے راشدین کے زمانے میں بھی وہ رہا جو انبیا نے اپنے لیے پسندیدہ قرار دیا۔

حضرت عمر کے زمانے میں نمازوں کے اوقات کوئی غیر معلوم چیز نہیں تھے اور نہ یقیناًانھوں نے صوبوں کے لیے ایسے عمال مقرر کیے ہوں گے جو نمازوں کے اوقات ہی سے نا واقف ہوں گے۔ یہ دراصل محض نماز کی اہمیت اور اس کے پسندیدہ اوقات ہی کا بیان ہے۔البتہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ انھوں نے عمال کو نمازوں کی تاخیر کرنے پر تنبیہ کے لیے یہ خط لکھا ہو۔ اور انھیں حکم دیا ہو کہ اپنی اپنی عمل داری میں ان ان اوقات میں نماز کی جماعت کا اہتمام کریں۔

روایت

یہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ کا ایک خط ہے۔ اگرچہ یہ حدیث نہیں ہے، مگر نماز کے بارے میں ان کے اس بیان سے سنت کو سمجھنے میں ہمیں مدد مل سکتی ہے۔اس لیے کہ وہ سنت دینے والے کے براہ راست شاہد تھے۔

رجال حدیث

یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں ہے۔ یہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ایک خط ہے ، جو انھوں نے اپنے عمال کو لکھا ، اس لیے اس کی سند اور رجال پر کسی قسم کی بحث کی ضرورت نہیں ہے۔ اس روایت میں نافع سے براہ راست حضرت عمر کے خط کا ذکر ہے، تو یہ یقیناًانھوں نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا ہوگا۔ جیسا کہ دوسری روایتوں کی سند سے معلوم ہوتاہے۔ (مصنف عبد الرزاق ، رقم۲۰۳۷)اس لیے اگر ان کی ملاقات حضرت عمر سے نہیں بھی ہے تب بھی یہ روایت درست ہے۔ اس لیے کہ وہ یہ نہیں کہہ رہے کہ میں نے حضرت عمر سے سنا ،یا ان کو دیکھا۔ وہ تو یہ اطلاع دے رہے ہیں کہ انھوں نے خط لکھا تھا۔ اپنی اطلاع کا ماخذ وہ بتا ہی نہیں رہے ہیں۔

________________


۱؂ پہلے کا تعلق عام مسلمانوں سے اور دوسرے کا تعلق اصلاً بنی اسماعیل (شہداء اللہ) سے ہے باقی مسلمان اس میں تبعاً شامل ہوں گے۔

B