بسم اللہ الرحمن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ )
إِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِآیَاتِ اللّٰہِ ، وَیَقْتُلُوْنَ النَّبِیِّیْنَ بِغَیْرِ حَقٍّ، وَّیَقْتُلُوْنَ الََّذِیْنَ یَأْمُرُوْنَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ، فَبَشِّرْہُم بِعَذَابٍ أَلِیمٍ {۲۱} أُوْلَـئِکَ الَّذِیْنَ حَبِطَتْ أَعْمَالُہُمْ فِی الدُّنْیَا وَالاٰخِرَۃِ،وَمَا لَہُمْ مِّنْ نَّاصِرِیْنَ.{۲۲}
أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْنَ أُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتَابِ، یُدْعَوْنَ إِلَی کِتَابِ اللّٰہِ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ ، ثُمَّ یَتَوَلّٰی فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ ، وَہُمْ مُّعْرِضُوْنَ. {۲۳} ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ قَالُوْا: لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلاَّ أَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ ، وَغَرَّہُمْ فِی دِیْنِہِمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ.{۲۴} فَکَیْفَ إِذَا جَمَعْنَاہُمْ لِیَوْمٍ لاَّ رَیْبَ فِیْہِ، وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ ، وَہُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ.{۲۵}
سو اِن لوگوں کو ایک درد ناک عذاب کی خوش خبری سنا دو ،۳۸؎ یہ جو اللہ کی آیتوں کا انکارکر تے رہے اور اُس کے پیغمبر وں کوناحق ۳۹؎ قتل کرتے رہے اور اُنھیں قتل کر تے رہے جو لوگوں میں سے انصاف پرقائم رہنے کی دعوت دیتے تھے ۔یہی ہیں کہ جن کے اعمال دنیا اورآخرت ، دونوں میں ضائع ہوئے اوراب ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ ۴۰؎ ۲۱۔ ۲۲
تم نے دیکھا نہیں ۴۱؎ اُن لوگوں کو جنھیں اِس کتاب کا ایک حصہ دیا گیا ، اُنھیں اللہ کی اِس کتاب ۴۲؎ ہی کی طرف بلایا جارہا ہے کہ اُن کے درمیان (اختلافات کا ) فیصلہ کردے ۔پھر (دیکھا نہیں کہ ) اُنھی میں سے ایک گروہ اُس سے منہ پھیر لیتا ہے ۴۳؎ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ منہ پھیرلینے والے لوگ ہی ہیں۔ ۴۴؎ اِن کے اِس رویے کی وجہ یہ ہے کہ اِن کا کہنا ہے کہ دوزخ کی آگ توہمیں بس گنتی کے چند دن ہی چھوئے گئی او ر(یہ ہے کہ اِس طرح کی ) جو باتیں یہ گھڑتے رہے ہیں ، اُنھوں نے دین کے معاملے میں اِنھیں دھوکے میں ڈال دیا ہے ۔ ۴۵؎ لیکن کیا بنے گی اُس وقت جب اِن کو ہم ایک ایسے دن کی پیشی کے لیے اکٹھا کریں گے جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں اور(جس میں)ہر شخص کی کمائی کا پورا بدلہ اُسے دے دیا جائے گا اور کسی پر کوئی ظلم نہ ہوگا ۔۲۳۔ ۲۵
۳۸؎ اصل الفاظ ہیں: ’فبشر ھم بعذاب الیم ‘۔یہ ’ان ‘کی خبر ہے اوراس پر ’ ف‘ اس لیے آگئی ہے کہ ’ ان ‘ کا اسم اس جملے میں جزا کے مفہوم پر متضمن ہے ۔
۳۹؎ اس لفظ سے یہاں ایک تویہود کے اس جرم کی سنگینی ظاہر ہوتی ہے ، اس لیے کہ قتل ناحق اوروہ بھی اگر کسی نبی کا ہوتو اس کی سنگینی کا تصور ہی کیا جاسکتا ہے ۔ دوسرے حق کی عظمت کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ ایسی چیزہے کہ کوئی پیغمبر بھی اس سے بالاتر نہیں ہوسکتا ۔
۴۰؎ قرآن کی یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف پور ی ہوئی۔چنانچہ تھوڑے ہی عرصے میں ان کی تمام تدبیریں اکارت ہو گئیں اوریہ ذلت ونامرادی کے ساتھ جزیرہ نما ے عرب سے اس طر ح نکال دیے گئے کہ کوئی ان کا حامی اور مددگار نہ تھا ۔
۴۱؎ یہ اظہار تعجب کا اسلوب ہے جوعربی زبان میں اس طرح کے موقعوں پر اختیار کیا جاتا ہے ۔
۴۲؎ یعنی اللہ کی جس کتاب کا ایک حصہ دیا گیا تھا ، اسی کتاب کی طرف بلایا جارہا ہے ۔اس سے ظاہر ہے کہ قرآن مجید مراد ہے ۔یہود ونصاریٰ کے صحائف کو اس کا ایک حصہ قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ تورات میں زیادہ تر شریعت اورانجیل میں حکمت بیان ہوئی ہے ۔زبور اسی حکمت کی تمہید میں خداوند عالم کی تمجید کا مزمور ہے ۔لیکن قرآن کا معاملہ یہ نہیں ہے ۔وہ حکمت اورشریعت ، دونوں کے لیے ایک جامع شہ پارۂ ادب کی حیثیت سے نازل ہوا ہے ۔ پھر اس کے ساتھ خدا کے آخری پیغمبر کی سرگزشتِ انذار بھی ہے ۔ اس لحاظ سے دیکھیے تو وہ ایک صحیفۂ کامل ہے اور تورات و انجیل اوردوسرے الہامی صحائف ، درحقیقت اسی کے اوراق ہیں جو اس سے پہلے کی امتوں کو دیے گئے تھے۔
۴۳؎ اصل میں ’ ثم یتولی فریق منھم ‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔ان میں اصلی زور ’ منھم‘ کے لفظ پر ہے ۔یعنی تعجب اس بات پرہے کہ یہ منہ پھیر نے والے لوگ اہل کتاب ہیں جو سزاوار تھے کہ سب سے پہلے کتاب الٰہی کوپہچانتے اوراس پرایمان لاتے۔استاذ امام لکھتے ہیں :
’’ان لوگوں کے لیے جوتورات وانجیل کوجانتے اور مانتے ہوں قرآن کا پہچاننا کچھ مشکل نہ تھا، بشرطیکہ انھوں نے اپنی آنکھوں پر تعصب اورضد کی پٹیاں نہ باندھ رکھی ہوتیں ۔جس کتاب کے ابتدائی ابواب انھوں نے پڑھے ہوں، جس کے انداز، اسلوب اورمزاج سے آشناہوں ، جس کی ہدایات وتعلیمات کا ابتدائی عکس اورخاکہ انھوں نے دیکھا ہو جس کی پیشین گوئیوں سے وہ باخبر اور ان کے مصداق کے وہ منتظر ہو ں ،یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ کتاب عزیز جب اپنے اصلی جمال و کمال کے روپ میں نمایاں ہوتو وہ اس کو نہ پہچان سکیں ۔پھرکس قدر تعجب کی بات ہے کہ اہل کتاب نے اس سے منہ موڑا اورجان کر اس سے انجان بن گئے ۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۶۰)
۴۴؎ یہ اہل کتاب کے لیے ملامت اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی ہے ۔مطلب یہ ہے کہ ان پتھروں میں جونک نہیں لگ سکتی ۔حق سے اعراض ان کی فطرت ثانیہ بن چکا ہے ، اس لیے تمھار ی دعوت اگر ان کے لیے موثر نہیں ہورہی تواس میں تمھار ا کوئی قصور نہیں ہے ، یہ سراسر ان کے فساد طبیعت کا قصور ہے ۔
۴۵؎ یعنی اس بات پرمطمئن کردیا ہے کہ ان کے اعمال خواہ کچھ بھی ہوں ، ان کے لیے ہمیشہ کی جہنم نہیں ہے ۔یہ اول تو اس میں ڈالے نہیں جائیں گے اوراگر ڈالے بھی گئے تو چند دن کے لیے گناہوں کی سزا پاکر لازماً چھوڑ دیے جائیں گے ۔یہ ظاہر ہے کہ ایک دھوکا ہے جس میں ان کی جھوٹی آرزووں نے انھیں مبتلا کردیا ہے ۔
۴۶؎ اصل الفاظ ہیں: ’ فکیف اذا جمعناھم لیوم لاریب فیہ‘ ۔ ان میں حرف جر کے بعد ایک مضاف ہمارے نزدیک محذوف ہے ۔چنانچہ ہم نے ترجمہ اسی کے لحاظ سے کیا ہے ۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــ