HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: آل عمران ۳: ۱۸-۲۰ (۵)

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ ) 


شَہِدَاللّٰہٗ اَنَّہٗ لَااِلٰہَ اِلَّاھُوَ، وَالْمَلٰئِکَۃُ ، وَاُوْلُوْاالْعِلْمِ ، قَائِمًا بِالْقِسْطِ، لَااِلٰہَ اِلَّاھُوَالْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ{۱۸}
اِنََّّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الِْاسْلَامُ، وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْکِتٰبَ اِلَّامِنْ بَعْدِمَاجَآئَ ھُمُ الْعِلْمُ، بَغْیًا بَیْنَھُمْ، وَمَنْ یَّکْفُرْ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَاِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ{۱۹} فَاِنْ حَآجُّوْکَ فَقُلْ: اَسْلَمْتُ وَجْہِی لِلّٰہِ، وَمَنِ اتَّبَعَنِ،وَقُلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْکِتٰبَ وَالْاُمِّیِّنَ : ئَ اَسْلَمْتُمْ ؟ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِاھْتَدَوْا، وَاِنْ تَوَلَّوْافَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلٰغُ ، وَاللّٰہُ بَصِیْرٌ بِالْعِبَادِ.{۲۰}
اللہ نے ،اُس کے فرشتو ں نے ،اور(اِس دنیا میں)علم حقیقی کے سب حاملین نے گواہی دی ہے ۳۱  کہ اُس کے سوا کوئی الہٰ نہیں ، وہ انصاف پرقائم ہے، ۳۲ اُس کے سوا کوئی الہٰ نہیں ،زبردست ہے، بڑی حکمت والاہے ۔۳۳  ۱۸
(یہ حقیقت ہے تو پھر اِس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ )اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے، (اِس لیے کہ وہی اللہ کو ا ِس طرح ماننے کی دعوت دیتا ہے )،اورجنھیں کتاب دی گئی ، اُنھوں نے تواللہ کی طرف سے اِس حقیقت کا علم اُن کے پاس آجانے کے بعد محض آپس کے ضدم ضدا کی وجہ سے اِس میں اختلاف کیا ہے ۔۳۴  (یہ صریح انکارہے )،اورجو اللہ کی آیتوں کے اِس طرح منکر ہوں، (اُنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ )اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے ۔چنانچہ وہ اگر تم سے جھگڑیں تو کہہ دو کہ میں نے اور میرے پیرووں نے تو اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کردیاہے ۔ ۳۵  اوراہل کتاب سے اور(بنی اسمعٰیل کے )اِن امیوں۳۶ سے پوچھو کہ کیا تم بھی اسی طرح اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کرتے ہو؟ پھر اگر کریں تو راستہ پاگئے اور اگر منہ موڑیں تو تم پرصرف پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے۔ اپنے بندوںکو تواللہ خود دیکھنے والاہے ۔ ۳۷   ۱۹۔۲۰

۳۱ ؎ یعنی اللہ کی وحدانیت اوراُس کا قائم بالقسط ہونا ایک ایسی حقیقت ہے کہ اللہ جو اس عالم کے تمام حقائق کا علم رکھتا ہے، جس کے سامنے تمام موجودات بے حجاب ہیں ،جس کی نگاہوں سے زمین وآسمان کی کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے ،وہ خو د بھی اسی کی شہادت دیتا ہے ؛اس کے فرشتے بھی جو اس کی سلطنت کو دیکھتے اور اس میں اس کے احکام کی تنفیذ کرتے ہیں ،یہی کہتے ہیں ؛اورانسانوں میںسے وہ سب لوگ بھی اسی کی گواہی دیتے ہیں جنھیں حقائق کا علم دیا گیا اورانھوں نے اس علم کو اپنی خواہشات، جذبات اورتعصبات کی آلایشوں سے پاک رکھنے کا اہتما م کیا ہے ۔

۳۲؎ اصل میں’ قائماً بالقسط ‘کے الفاظ آئے ہیں ۔ان میں ’قائماً‘، ہمارے نزدیک ’لاالٰہ الاھو‘ میں ’ھو‘ سے حال موکدہ ہے اوراس میں عامل جملے کا مفہوم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے ساتھ یہ اس کے قائم بالقسط ہونے کی شہادت ،اگر غور کیجیے تو اسلام کے ایمانیات میں بڑی اہمیت کی حامل ہے ۔اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم جس طرح یہ مانتے ہیں کہ اللہ یکتا اوریگانہ ہے ،اس کی ذات وصفات میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے اورتما م اختیار اورتصرف اصلاًاسی کے ہاتھ میں ہے ،اسی طرح یہ بھی مانتے ہیں کہ اپنے اس اختیار و تصرف کو وہ ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ استعمال کررہا ہے اور ہمیشہ انصاف کے ساتھ ہی استعمال کرے گا ۔یہ دنیا چونکہ امتحا ن کے لیے بنائی گئی ہے ،اس لیے اس کے تقاضے سے ظلم و عدوان اورعدم تواز ن کو اس میں بڑی حدتک گوار ا کیا جاتا ہے ۔تاہم اس سے کسی کوغلط فہمی نہیں ہونی چاہیے ۔یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے طبعی قوانین جس طرح اٹل ہیں،اس کے اخلاقی قوانین بھی اسی طرح اٹل اور بے لاگ ہیں۔اس حقیقت پر لوگوں کو متنبہ رکھنے کے لیے ،اللہ تعالیٰ اپنی دینونت اس دنیامیں وقتاً فوقتاًبرپا کرتا رہتا ہے ۔پہلے یہ رسولوں کے ذریعے سے برپا ہوتی تھی ،پھر ذریت ابراہیم کے ذریعے سے برپا ہوئی اوراب گزشتہ کئی صدیوں سے انھی کے ذریعے سے برپا ہے ۔اس کو دیکھ کرکوئی صاحب بصیرت اس بات میں شک نہیں کرسکتا کہ فرداًفرداًتمام انسانوں کے لیے بھی یہ ایک دن اسی طرح برپا ہوجائے گی ۔

۳۳؎ لہٰذا و ہ اپنی دینونت لازما ً برپا کرے گا ۔یہ اس کی عزت اورحکمت ،دونو ں کا تقاضا ہے ۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ یا تووہ بے بس ہے یا محض ایک کھلنڈرا ہے جس نے یہ دنیا کھیل تماشے کے لیے بنا دی ہے ۔

۳۴؎ مطلب یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ کا دین بھی یہی تھا ۔اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں اوررسولوں پرابتداسے یہی دین اتارا۔ اس سے الگ کوئی دین اس نے کسی کونہیں دیا ۔یہودیت اورنصرانیت کے نام سے جودین اس وقت موجو دہیں،یہ ان کے ماننے والوں نے اصل دین میں محض ضدم ضدا کی وجہ سے بہت سے اختلاف پیدا کرکے کھڑے کر لیے ہیں ۔

۳۵؎ اصل میں ’اسلمت وجھی للّٰہ ‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔ان میں چہرہ حوالے کرنا ،درحقیقت اپنی ذات کواللہ کے حوالے کرنے کی تعبیر ہے ۔استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کی وضاحت اپنی تفسیر ’’تدبرقرآن ‘‘میں اس طرح فرمائی ہے :

’’چہرہ انسان کی ذات کا سب سے اعلیٰ واشرف حصہ ہے ۔جب سب سے اعلیٰ واشرف حصہ حوالے کردیا تو گویاسب کچھ حوالے کردیا۔یہ اسی طرح کی تعبیر ہے ،جس طرح ہم کسی کی اطاعت کی تعبیر کے لیے سر جھکانا بولتے ہیں ۔اس تعبیر میں غایت درجہ تذلل ونیازمندی اورسپردگی پائی جاتی ہے ۔موقع دلیل ہے کہ یہا ں یہ اسلوب اصلاً تو اسلام لانے کے مفہوم کو ادا کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے ، لیکن ساتھ ہی اس سے اسلا م کی اصل روح بھی واضح ہوگئی ہے تاکہ دین داری کے ان مدعیوں کو ،جواسلام کی مخالفت میں بحث وجدال کے لیے آستینیں چڑھائے ہوئے تھے ،تنبیہ ہو کہ وہ کس چیز کے خلاف یہ زوردکھارہے ہیں ۔‘‘ (۲/ ۵۳)

۳۶؎ امی اس شخص کوکہتے ہیں جو مدرسی اورکتابی تعلیم وتعلم سے ناواقف ہو ۔یہ لفظ بنی اسمٰعیل کے لیے ان کے لقب کے طور پراستعمال ہوتا ہے ۔استاذ اما م لکھتے ہیں:

’’اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ مدرسی اوررسمی تعلیم وکتابت سے ناآشنا اپنی بدویانہ سادگی پرقائم تھے اوراس طرح بنی اسرائیل کے بالمقابل ،جو حامل کتاب تھے ،امیت ان کے لیے ایک امتیازی علامت تھی ۔ہوسکتا ہے کہ عربو ں کے لیے اس کے استعمال کا آغاز اہل کتاب سے ہی ہوا ہو ،اس لیے کہ حضرت اسمٰعیل اوران کی ذریت کی بدویت وامیت کا ذکر تورات میں بھی ہے ،لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس لفظ کے استعمال میں عربوں کے لیے تحقیر کا کوئی پہلو نہیں تھا ۔چنانچہ قرآن نے اس لفظ کوعربوں کے لیے ان کو اہل کتاب سے محض ممیز کرنے کے لیے استعمال کیا ہے ۔اسی پہلو سے آں حضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ’نبی امی ‘کا لقب استعمال ہوا ہے ۔اس میںتورات کی پیشین گوئیوں کی ایک تلمیح بھی ہے ۔عرب خود بھی اس لفظ کو اپنے لیے استعمال کرتے تھے ،جواس بات کا نہایت واضح ثبوت ہے کہ وہ اس میں اپنے لیے تحقیر کا کوئی پہلو نہیں پاتے تھے۔ بعض حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی قوم کے لیے یہ لفظ استعمال فرمایا ہے ۔مثلاًوہ حدیث جس میں ارشاد ہوا ہے :’نحن امۃ امیۃ‘۔o    بعض جگہ اگر یہ لفظ تحقیر کے طور پر استعمال ہواہے تو وہاں اس کا مفہوم محض لغوی ہے، اصطلاحی نہیں ،مثلاً ’منھم امیون لایعلمون‘۔ oo     ا س سے مراد یہود کے ان پڑھ عوام ہیں ۔‘‘

(تدبر قرآن۲/ ۵۳)                   

۳۷؎ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی ہے کہ اگر یہ لوگ تمھاری دعوت قبول نہیں کرتے اوراپنی حماقتوں ہی میں مبتلارہناچاہتے ہیں تو انھیںان کے حال پر چھوڑو اورمطمئن رہو کہ ا ن کا فیصلہ اب اللہ کے ہاتھ میں ہے ،وہ ان کے ہر قول و فعل کو دیکھ رہا ہے ،اور ہر ایک کے ساتھ وہی معاملہ کرے گا جس کا وہ مستحق ہوگا ۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــ

o بخاری ، رقم ۱۹۱۳۔ مسلم ، رقم ۱۰۸۵۔

oo  البقرہ ۲ : ۷۸ ۔

B