(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: ۱۱۸)
عن ابی ہریرۃ رضی اﷲ عنہ قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: لما خلق اﷲ آدم مسح ظہرہ فسقط عن ظہرہ کل نسمۃ ہو خالقہا من ذریتہ الی یوم القیامۃ. وجعل بین عینی کل انسان منہم وبیصا من نور. ثم عرضہم علی آدم. فقال: أی رب، من ہؤلاء؟ قال: ذریتک. فرأی رجلا منہم. فأعجبہ وبیص ما بین عینیہ. قال: أی رب، من ہذا؟ قال: داؤد. فقال؟ أی رب، کم جعلت عمرہ؟ قال: ستین سنۃ. قال: رب، زدہ من عمری أربعین سنۃ. قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: فلما انقضی عمر آدم إلا أربعین جاء ہ ملک الموت. فقال آدم أولم یبق من عمری أربعون سنۃ؟ قال: أولم تعطہا ابنک داؤد؟ فجحد آدم، فجحدت ذریتہ. ونسی آدم فأکل من الشجرۃ فنسیت ذریتہ. وخطأ آدم وخطأت ذریتہ.
ٌٌ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو ان کی کمر پر ہاتھ پھیرا۔ چنانچہ وہ تمام جانیں نکل پڑیں جو اللہ تعالیٰ آدم کی ذریت میں سے قیامت تک پیدا کریں گے۔ ہر انسان کی دونوں آنکھوں کے بیچ میں نور کی لاٹ بنا دی۔ پھر انھیں آدم علیہ السلام کے سامنے پیش کیا۔ انھوں نے پوچھا:یہ کون لوگ ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے بتایا: تمھاری ذریت۔ اچانک ان کی نظر ایک آدمی پر پڑی اور اس کی آنکھوں کے بیچ کی لاٹ انھیں بہت پسند آئی۔ انھوں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ فرمایا: داؤد (علیہ السلام) ۔ انھوں نے پوچھا: اے رب، اس کی عمر کتنی ٹھیرائی ہے؟ فرمایا: ساٹھ سال۔ عرض کی: اے رب میری عمر میں سے اس کے چالیس سال بڑھا دیجیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا: جب آدم کی عمر چالیس سال نکال کر پوری ہو گئی تو ان کے پاس ملک الموت آیا۔ حضرت آدم نے پوچھا: کیا میری عمر کے چالیس سال ابھی باقی نہیں ہیں۔ فرشتے نے پوچھا: کیا آپ نے یہ چالیس سال اپنے بیٹے داؤد کو نہیں دے دیے تھے۔ حضرت آدم نے انکار کر دیا۔ اسی طرح اس کی ذریت بھی انکار کرتی رہی ہے۔ آدم بھول گئے اور انھوں نے شجرہ کا پھل کھایا۔ اسی طرح ان کی ذریت بھی بھولتی رہی ہے۔ آدم نے غلطی کی اور ان کی ذریت بھی غلطی کرتی آرہی ہے۔‘‘
نسمۃ: یہ لفظ جان کے لیے بھی آتا ہے اور ہر ذی روح کے لیے بھی ۔ یہ ’نسم‘ سے ماخوذ ہے۔ جو روح کی حرکت کے معنی پر متضمن ہے ۔ ’نسمۃ‘ کا لفظ نرم رو ہوا کے لیے بھی آتا ہے۔
وبیص : روشنی اور چمک اردو کا لفظ لاٹ اس سیاق و سباق میں اس کا صحیح مفہوم واضح کر دیتا ہے۔
اس روایت کے ترمذی میں دو متن نقل ہوئے ہیں ۔ ایک متن بہت مفصل ہے ۔ دوسرا متن یہی ہے جسے صاحب مشکوٰۃ نے منتخب کیا ہے۔ اس روایت کا متن خودسنن ترمذی کی مختلف راویتوں میں لفظی فرق سے منقول ہے۔ مثلاً، ترمذی کے میرے سامنے نسخے میں’ عن ظہرہ ‘ کے بجائے ’ من ظہرہ ‘روایت ہوا ہے۔ ’ قال ذریتک ‘ کی جگہ ’ قال ہؤلاء ذریتک ‘ آیا ہے۔دوسری بار ’ قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم‘ اور ’ الا اربعین ‘ کے الفاظ موجود ہی نہیں ہیں۔ اس میں حضرت داؤد کا تعارف مفصل ہے ۔ اس متن کے مطابق تعارف کے الفاظ یہ تھے:’ ہذا رجل من آخر الامم من ذریتک یقال لہ داؤد ‘ ۔اس روایت کے کچھ متن مسند احمد میں بھی منقول ہیں۔ ان میں لفظی فرق بھی ہیں اور کچھ ایسی باتیں بھی بیان ہوئی ہیں جو اس متن میں نہیں ہیں۔ ایک روایت میں یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے عمر دینے کی خواہش کو باقاعدہ معاہدے کی صورت میں لکھ لیا گیا تھا اور اس پر فرشتوں کی گواہی لی گئی تھی۔ ایک روایت میں یہ وضاحت بھی آئی ہے کہ حضرت آدم نے جب اس بات سے انکار کر دیا کہ انھوں نے حضرت داؤد کو اپنی عمر کے چالیس سال دے دیے تھے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم اور حضرت داؤد دونوں کی عمر مکمل کردی یعنی حضرت آدم کے ہزار سال اور حضرت داؤد کے سو سال۔مسند احمد کی ان روایات میں ذریت آدم کی آنکھوں کی لاٹ کا ذکر نہیں ہے اور حضرت داؤد کے لیے ’ یزہر ‘ کا لفظ آیا ہے۔ ایک روایت میں تصریح ہے کہ لین دین پر لکھنے کا دینی حکم حضرت آدم کے اسی انکار کے باعث دیا گیا تھا۔ ترمذی میں منقول اس روایت کا مفصل متن حسب ذیل ہے:
عن أبی ہریرۃ رضی اﷲ عنہ قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: لما خلق اﷲ آدم ونفخ فیہ الروح، عطس. فقال: الحمد ﷲ فحمد اﷲ بإذنہ. فقال لہ ربہ: یرحمک اﷲ، یا آدم، اذہب إلی اولئک الملائکۃ إلی ملإ منہم جلوس. فقل: السلام علیکم. قالوا: وعلیک السلام ورحمۃ اﷲ. ثم رجع الی ربہ. فقال: إن ہذہ تحیتک وتحیت بنیک بینہم. فقال اﷲ لہ ویداہ مقبوضتان. اختر ایہما شئت. قال اخترت یمین ربی وکلتایدی ربی یمین مبارکۃ. ثم بسطہا فإذا فیہا آدم وذریتہ. فقال أی رب ما ہؤلاء؟ فقال: ھؤلاء ذریتک. فإذا کل إنسان مکتوب عمرہ بین عینیہ، فإذا فیہم رجل أضوؤہم أو من أضوۂم. قال یا رب، من ہذا؟ قال: ہذا ابنک داؤد قد کتبت لہ عمر أربعین سنۃ. قال یا رب زدہ فی عمرہ. قال: ذاک الذی کتبت لہ. قال أی رب، جعلت لہ من عمری ستین سنۃ. قال: أنت وذاک. قال: ثم اسکن الجنۃ ما شاء اﷲ ثم أہبط منہا. فکان آدم یعد لنفسہ. قال: فأتاہ ملک الموت. فقال لہ آدم: قد عجلت قد کتب لی ألف سنۃ. قال: بلی، ولکنک جعلت لابنک داؤد ستین سنۃ. فجحد فجحدت ذریتہ. ونسی فنسیت ذریتۃ. قال فمن یومئذ أمر بالکتاب والشہود.(ترمذی، رقم ۳۲۰۹)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیااور ان میں روح پھونکی تو انھیں چھینک آئی۔ اس پر انھوں نے(دل میں )کہا کہ وہ الحمد للہ کہیں۔ پھر انھوں نے اللہ کے اذن سے الحمد للہ کہا۔ اس پر ان کے رب نے ان سے کہا کہ اللہ تجھ پر بہت مہربان ہے، اے آدم، ان فرشتوں یعنی ان کے سرداروں کی مجلس میں جاؤ۔ اور انھیں السلام علیکم کہو۔ فرشتوں نے جواب میں وعلیک السلام و رحمۃ اللہ کہا۔پھر آدم اپنے رب کے پاس آئے تو اللہ نے بتایا یہ تم اور تمھاری اولاد کے لیے باہم ملنے کا طریقہ ہے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی مٹھیاں بند کر کے ان سے کہا کہ ان میں سے کوئی ہاتھ چن لو ۔ آدم نے کہامیں نے اپنے رب کا دایاں ہاتھ چن لیا اور میرے رب کے دونوں ہاتھ بابرکت ہیں۔پھر اللہ نے اس ہاتھ کو کھول دیا تو آدم نے دیکھا کہ اس میں آدم اور اس کی ذریت ہے۔ آدم نے پوچھا: اے رب، یہ کیا ہے؟ اللہ نے بتایا: یہ تمھاری نسل ہے۔آدم نے دیکھا کہ ہر آدمی کی آنکھوں کے درمیان اس کی عمر لکھی ہوئی ہے۔آدم نے دیکھا کہ ان میں ایک آدمی سب سے زیادہ روشن صورت ہے۔ آدم نے پوچھا: اے رب، یہ کون ہے۔بتایا: یہ تمھارا بیٹا داؤد ہے۔ میں نے اس کی عمر چالیس سال لکھی ہے۔ آدم نے کہا : اس کی عمر بڑھا دیجیے۔ اللہ نے کہا: وہی رہے گی جو میں نے لکھ دی۔ آدم نے کہا: اے رب، میں نے اپنی عمر سے ساٹھ سال اس کے لیے ٹھہرا دیے۔اللہ نے کہا تم جانو اورتمھارا معاملہ۔ پھر جب تک اللہ نے چاہا انھیں جنت میں رکھا گیا۔ پھر انھیں جنت سے اتار دیا گیا۔ اس سارے عرصے میں آدم اپنی عمر کے سال گنتے رہے۔ ایک دن ملک الموت ان کے پاس آئے۔ آدم نے کہا : آپ جلدی آگئے ہیں دراں حالیکہ میری عمر ہزار سال ہے ۔ ملک الموت نے کہا۔ ٹھیک ہے، لیکن آپ نے ساٹھ سال اپنے بیٹے داؤد کو دے دیے تھے۔آدم نے انکار کر دیا۔ نتیجہ یہ کہ اس کی اولاد بھی انکار کرتی ہے۔ آدم بھول گیا۔ اب صورت یہ ہے کہ اس کی اولاد بھی بھولتی ہے۔آپ نے بتایا: اس دن لکھنے اور گواہی لینے کی ہدایت کی گئی۔ ‘‘
متون کے اس تجزیے سے ایک نتیجہ بالکل واضح طور پر سامنے آتا ہے کہ اس روایت کو بیان کرنے والے باہم متضاد باتیں روایت کر رہے ہیں۔
زیر بحث واقعہ صحیح ہے یا نہیں یہ ایک ضروری سوال ہے اور اس پر ہم آخر میں بات کریں گے۔ اس سے پہلے ہم اس کہانی کے تین اجزا کے بارے میں کچھ تفصیل بیان کریں گے۔
پہلا جز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی پشت سے ان کی ذریت نکالی تھی۔آدم علیہ السلام کی زندگی کا یہ واقعہ قرآن مجید میں بھی بیان ہوا ہے۔سورۂ اعراف میں ہے:
وَإِذْ أَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْ آدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَأَشْہَدَہُمْ عَلیٰ أَنفُسِہِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ؟ قَالُوْا بَلیٰ شَہِدْنَا أَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِنَّا کُنَّا عَنْ ہَذَا غَافِلِیْنَ.(۷: ۱۷۲)
’’اور یاد کرو، جب نکالا تمھارے رب نے بنی آدم سے ان کی پیٹھوں سے ان کی ذریت کواور ان کو گواہ ٹھہرایا خود ان کے اوپر۔ پوچھا: کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ انھوں نے کہا: کیوں نہیں ، ہم گواہ ہیں۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں قیامت کے روز کہیں کہ ہم تو اس سے بے خبر تھے۔‘‘
قرآن مجید کے اس بیان میں اور روایت کے الفاظ میں ایک فرق ہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ آیت میں تمام انسانوں کی پیٹھوں سے ان کی اولاد کے نکالنے کی بات کہی گئی ہے جبکہ روایت میں یہ بات صرف آدم علیہ السلام ہی سے متعلق ہے۔ اگرچہ روایت اور آیت کے اس فرق کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے ، لیکن اس سے بہرحال روایت اور قرآن مجید کے بیان میں رخ کے فرق کا اشارہ ایک اہمیت رکھتا ہے۔
دوسرا جز حضرت آدم کا حضرت داؤد کو ایک نمایاں آدمی کی حیثیت سے دیکھنا ہے۔قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کے اس اعتراض کے جواب میں کہ انسان ترک واختیار کی آزادی ملنے کے نتیجے میں زمین میں فساد برپا کرے گا اور ایک دوسرے کا خون بہائے گا، اللہ تعالیٰ نے ذریت آدم کو پیش کیا اور آدم علیہ السلام سے کہا کہ وہ اپنی ذریت کے ان لوگوں کے نام انھیں بتائیں جو نیکی اور خیر کے علم بردار ہوں گے اور صالحین کی بڑی بڑی جماعتیں ان کے ساتھ ہوں گی۔ فرشتے جونہی اس حقیقت سے آگاہ ہوئے انھوں نے اپنے علم کی کمی کا اعتراف کیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو ان کی ذریت سے اس طرح متعارف کرایا گیا کہ وہ ان تمام جلیل القدرہستیوں سے واقف ہو گئے جو ان کی اولاد میں نمایاں ہوں گی۔واقعے کی اس نوعیت میں صرف حضرت داؤد علیہ السلام کا نمایاں نظر آنا محل نظر ہے۔
ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام بنی اسرائیل کی تاریخ میں نمایاں ترین مقام رکھتے ہیں۔ یہ وہ پیغمبر ہیں جن کے زمانے میں بنی اسرائیل سیاسی اعتبار سے اوج کمال کو پہنچے۔ان کی قیادت نے بنی اسرائیل کو دنیا کی عظیم ترین قوم بنا دیا اور دنیا کی تمام قوموں پر ان کا تفوق قائم ہو گیا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے لیے بنی اسرائیل کے کیا جذبات ہوں گے۔ غالباً یہی جذبات ہیں جو اس روایت کے پیچھے ایک نفسیات کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
قرآن مجید نسل انسانی کے تناظر میں حضرت نوح علیہ السلام ، ان کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام ، ان کی نسل میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آخر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نمایاں شخصیات کی حیثیت سے سامنے لاتا ہے۔ جب حضرت آدم علیہ السلام کو ان کی ساری ذریت سے متعارف کرایا گیا ہو گا تو وہاں بھی صورت معاملہ یہی بیان کی گئی ہو گی ۔یہ روایت اس تاثر کو بالکل بدل دیتی ہے۔
تیسرا حصہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت داؤد علیہ السلام کی عمروں سے متعلق ہے۔ روایت کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام کی عمر نو سو ساٹھ سال اور حضرت داؤد علیہ السلام کی عمر ساٹھ سال ہے اور اگر اس روایت کے دوسرے متون کی تصریح کو مان لیا جائے تویہ عمریں ہزار اور سو سال ہیں۔ان دونوں شخصیات کی عمروں کے بارے میں قدیم مذہبی کتب میں بھی تصریحات موجود ہیں ۔ بائیبل میں حضرت آدم علیہ السلام کی عمر کے بارے میں بیان ہوا ہے:
’’اور آدم کی عمر کل نو سو تیس برس ہوئی تب وہ مرا۔‘‘ (پیدایش، ۵: ۵)
یہود کی روایات پر مبنی کتاب (The Book of Jubilees) میں ہے:
’’جب انیسویں پچاسوی ختم ہورہی تھی یعنی تیس سال گزر چکے تھے تو آدم فوت ہو گئے۔ ان کے تمام بیٹوں نے انھیں اس سر زمین میں سپرد خاک کیا جہاں ان کی تخلیق ہوئی تھی۔ اوراس طرح آدم وہ پہلی شخصیت بھی ہوئے جسے سپرد خاک کیا گیا۔ وہ ہزار سال میں سے ستر سال سے محروم رہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ (صحف ) آسمانی کی تصریح کے مطابق ایک ہزار سال ایک دن ہے۔ اور علم کے درخت کے حوالے سے لکھ دیا گیا تھا کہ جس دن تو اس درخت سے کھائے گا اسی دن فوت ہوگا۔ یہی سبب ہے کہ وہ پہلے دن کے دوران میں فوت ہو گئے۔‘‘ (The Apocrypha and Pseudepigrapha of The Old Testament in English:v.2, p.19,1979 Oxford Press)
یہی بات ہماری کتب ۱ تاریخ میں بھی آئی ہے مثلاً طبقات الکبری میں ہے:
فکان عمر آدم تسع ماءۃ سنۃ وستا وثلاثین سنۃ.(۱ / ۳۸)
’’حضرت آدم علیہ السلام کی عمر نو سو چھتیس سال تھی۔‘‘
ان بیانات کے درج کرنے سے پیش نظر یہ ہے کہ یہ بات واضح ہو جائے کہ یہ روایات ہزار سال اور نو سو ساٹھ سال کے بیانات سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ یہاں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ یہ بہت معمولی عدم مطابقت ہے ، اسے نظر انداز کر دینا چاہیے ، لیکن روایت ہزار اور نو سو ساٹھ سال کے الفاظ ایک یقین کے ساتھ بیان کرتی ہے۔اس لیے اگر اس روایت کا بیان درست ہو تو یہودی اقوال غلط قرار دیے جانے کے لائق ہیں۔ اسی طرح اگر یہودی روایات ٹھیک ہیں تو پھر اس روایت کی ایک داخلی کمزوری سامنے آتی ہے۔ یہ بات نظروں سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی عمر کے تعین کے کوئی خارجی ذرائع نہیں ہیں۔اس لیے بحث کا سارا انحصار مذہبی کتب کے بیان اور ان کے داخلی اشارات کے تجزیوں ہی پر ہے۔
اب حضرت داؤد علیہ السلام کی عمر کے بارے میں بائیبل کا بیان دیکھیے:
’’اور داؤد جب سلطنت کرنے لگا تو تیس برس کا تھااور اس نے چالیس برس سلطنت کی۔ اس نے حبرون میں سات برس چھ مہینے یہوداہ پرسلطنت کی اور یروشلم میں سب اسرائیل اور یہوداہ پر سینتیس برس سلطنت کی۔‘‘ (۲سیموئیل ۵: ۴۔۵)
اس بیان کے مطابق حضرت داؤد علیہ السلام کی عمر ستر سال بنتی ہے۔حضرت داؤد کی زندگی کے بارے میں تفصیلی معلومات بائیبل میں موجود ہیں ، ان سے قیاس کریں تو اس میں کچھ برسوں کا اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے ۔لیکن کسی بھی اندازے یا اشارے سے یہ عدد سو تک نہیں پہنچتا ۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی عمر کا معاملہ حضرت آدم علیہ السلام سے بالکل مختلف ہے۔ حضرت داؤد کی سلطنت اور ان کے کارہاے نمایاں مفصل روایات کی صورت میں موجود ہیں اور ان کی خارجی ذرائع سے ایک حدتک تصدیق بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ بات کافی یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ان کی عمر سو سال نہیں تھی ، بلکہ سو سال سے کافی کم تھی۔
اس روایت کا آخری حصہ سب سے زیادہ حیرت انگیز ہے ۔ اس کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام کے پاس جب موت کا فرشتہ آیا تو انھوں نے جان دینے سے انکار کر دیا اور جب انھیں یہ کہا گیا کہ آپ اپنی عمر کے چالیس سال داؤد کو دے چکے ہیں تو انھوں نے اس بات کو بھی نہیں مانا اور بعض روایات کے مطابق اللہ تعالیٰ کو دستاویز اور فرشتوں کی شہادتیں پیش کرنا پڑیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس واقعے کو اگر درست مان لیں تو اللہ تعالیٰ کے دربار کی عظمت وجلالت اور حضرت آدم علیہ السلام کے کردار کی تصویر بہت دھندلی ہو جاتی ہے۔یہ روایت اللہ تعالیٰ کو انسانوں ہی کی طرح کا ایک عام بادشاہ بنا دیتی ہے یعنی اسے انسانوں ہی کی طرح اپنی باتیں ثابت کرنی پڑتی ہیں۔ فرشتے خدا کا حکم بھی اس وقت تک نافذ نہیں کر پاتے جب تک یہ بڑے مان نہ لیں،وغیرہ۔
بہرحال، حضرت داؤد کو نمایاں کرنے کی کوشش اس روایت کے ایک اسرائیلی قصہ ہونے کی طرف واضح اشارہ کرتی ہے۔ ہمارے ہاں بعض صوفیوں کی عظمت کو ثابت کرنے کے لیے محیر العقول واقعات گھڑے گئے ہیں ۔ یہ واقعہ بھی اسی انسانی سرشت کا اظہار معلوم ہوتا ہے۔ اس طرح کے تمام واقعات میں ایک چیز بطور علامت موجود ہوتی ہے کہ ان میں اللہ تعالیٰ انسانوں کے مقابلے میں کمزور دکھائی دیتے ہیں۔صاحب عظمت و کرامت کی برتری اس قیمت پر ثابت کرنے میں بھی یہ قصہ ساز کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ کی شان مجروح ہو۔نعوذ باللہ من ذلک۔
ہم اس روایت کے متون کے واضح اضطراب اور اس کی ان داخلی کمزوریوں کی بنا پر اس روایت کو قابل اعتنا نہیں سمجھتے ۔ مزید یہ کہ سند کے اعتبار سے بھی یہ ایک کمزور روایت ہے۔
ترمذی، رقم ۳۰۰۲، ۳۲۰۹۔مسند احمد، رقم ۲۱۵۷، ۲۵۷۸، ۳۳۳۹، مستدرک، رقم ۳۲۵۷، ۴۱۳۲۔ مسند ابی یعلی، رقم ۶۳۷۷، ۶۶۵۴۔تاریخ طبری ۱/ ۴۸۔
____________