بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ )
فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بِالْجُنُوْدِ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ مُبْتَلِیْکُمْ بِنَھَرٍ فَمَنْ شَرِبَ مِنْہَُ، فَلَیْسَ مِنِّی وَمَنْ لَّمْ یَطْعَمْہُ، فَاِنَّہٗ مِنِّیٓ، اِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَۃً بِیَدِہٖ، فَشَرِبُوْا مِنْہُ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْھُمْ، فَلَمَّا جَاوَزَہٗ ھُوَ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ قَالُوْا لَاطَاقَۃَ لَنَا الْیَوْمَ بِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ، قَالَ الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوا اللّٰہِ: کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللّٰہِ، وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ ۔{۲۴۹} وَلَمَّا بَرَزُوْالِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ، قَالُوْا: رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا، وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا، وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ۔{۲۵۰} فَھَزَمُوْھُمْ بِاِذْنِ اللّٰہِ، وَقَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ، وَاٰتٰہُ اللّٰہُ الْمُلْکَ وَالْحِکْمَۃَ، وَعَلَّمَہٗ مِمَّا یَشَآئُ، وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ، وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ۔{۲۵۱}
تِلْکَ اٰیٰتُ اللّٰہِ نَتْلُوْھَا عَلَیْکَ بِالْحَقِّ، وَاِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ۔{۲۵۲} تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ: مِنْھُمْ مَّنْ کَلَّمَ اللّٰہُ، وَرَفَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجٰتٍ، وَاٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ، وَاَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ، وَلَوْ شَآئَ اللّٰہُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِیْنَ مِنْم بَعْدِ ھِمْ مِّنْم بَعْدِ مَا جَآئَ تْھُمُ الْبَیِّنٰتُ، وَلٰکِنِ اخْتَلَفُوْا، فَمِنْھُمْ مَّنْ اٰمَنَ، وَمِنْھُمْ مَّنْ کَفَرَ، وَلَوْ شَآئَ اللّٰہُ مَا اقْتَتَلُوْا، وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ۔{۲۵۳}
یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا، اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْہِ وَ لَا خُلَّۃٌ وَّ لَا شَفَاعَۃٌ، وَالْکٰفِرُوْنَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ۔{۲۵۴}
اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ، لَا تَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّ لَانَوْمٌ ، لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ، مَنْ ذَاالَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ، یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ، وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْ ئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآئَ، وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ، وَ لَا یَؤُْدُہٗ حِفْظُھُمَا وَھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ۔{۲۵۵}
لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ، قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ، فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْ بِاللّٰہِ، فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقیٰ، لَا انْفِصَامَ لَھَا ، وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۔{۲۵۶}
(بنی اسرائیل کی حکومت سنبھالنے کے بعد) پھر جب طالوت فوجیں لے کر نکلے۶۵۶تو اُنھوں نے (لوگوں کو) بتایا کہ اللہ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ایک ندی کے ذریعے سے تمھیں آزمائے گا ۔۶۵۷اِس کی صورت یہ ہوگی کہ جو اِس کا پانی پیے گا ، وہ میرا ساتھی نہیںہے اور جس نے اِس (ندی) سے کچھ نہیں چکھا ، ۶۵۸وہ میرا ساتھی ہے۔ ہاں ، مگر اپنے ہاتھ سے ۶۵۹ایک چلو کوئی پی لے توپی لے ۔ لیکن ہوایہ کہ اُن میںسے تھوڑے لوگوں کے سوا باقی سب نے اُس (ندی )کا پانی پی لیا۔۶۶۰ پھر جب طالوت اُس کے پار اترے اور اُن کے وہ ساتھی بھی جو اپنے ایمان پر قائم رہے، ۶۶۱ (اور فوجیں دیکھیں) تو (جو لوگ آزمایش میں پور ے نہیں اترے تھے)، اُنھوں نے کہہ دیا کہ ہم تو آج جالوت اوراُس کے لشکر وں کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ اِس پر وہ لوگ جنھیں اللہ سے ملنے کا خیال تھا، ۶۶۲ بول اُٹھے کہ (حوصلہ کرو ، اِس لیے کہ ) بہت جگہ ایسا ہو ا ہے کہ اللہ کے حکم سے چھوٹے گروہ بڑے گروہو ں پر غالب آئے ہیں ، اور اللہ تو ثابت قدم رہنے والوں کے ساتھ ہوتاہے ۶۶۳ ۔اور (یہی سچے مسلمان تھے کہ) جب جالوت اور اُس کی فوجوں کا سامنا ہوا تو اُنھوں نے دعا کی کہ پروردگار ، ہم پر صبر کا فیضان فرمااور ہمارے پاؤں جما دے اوراِن منکروں پر ہمیں غلبہ عطا کر دے۔ چنانچہ (اُن کی دعا قبول ہوئی اور) اللہ کے حکم سے اُنھوں نے (اپنے) اُن (دشمنوں) کو شکست دے دی۶۶۴ اور جالوت کو دائود ۶۶۵ نے قتل کر دیا اور اللہ نے اُسے بادشاہی دی اور حکمت عطا فرمائی اور اُسے اُس علم میں سے سکھایا جو اللہ چاہتا ہے (کہ اپنے اِس طرح کے بندوں کو سکھائے) ۶۶۶ ــــــ اور (حقیقت یہ کہ) اگر اللہ ایک کو دوسرے سے نہ ہٹاتا تو زمین فساد سے بھر جاتی، لیکن (اُس نے اِسی طرح ہٹایا ہے، اِس لیے کہ ) اللہ دنیا والوں پر بڑی عنایت فرمانے والا ہے۔۶۶۷ ۲۴۹- ۲۵۱
یہ اللہ کی آیتیں ہیں جو ہم تمھیں حق کے ساتھ سنا رہے ہیں، اور اِس میں کوئی شک نہیں کہ تم اللہ کے رسولوں میں سے ہو۔ (بنی اسرائیل بھی اِس بات کو جانتے ہیں ، لیکن مانتے اِس لیے نہیں کہ) یہ جو رسول ہیں، ہم نے اِن میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ،( اِس طرح کہ) اِن میں سے کسی سے اللہ خود ہم کلام ہوا ۶۶۸ اور کسی کے درجے اُس نے (بعض دوسری حیثیتوں سے) بلند کیے اور (آخر میں) مریم کے بیٹے عیسیٰ کوہم نے نہایت واضح نشانیاں دیں اور روح القدس سے اُس کی تائید کی۔ ۶۶۹ (چنانچہ یہی چیز اِن رسولوں کے ماننے والوں میں ایک دوسرے کو جھٹلانے کا باعث بن گئی)۔ ۶۷۰اور اگر اللہ چاہتا تو نہایت واضح دلائل سامنے آجانے کے بعد یہ اُن کے بعد والے ایک دوسرے سے نہ لڑتے۔ لیکن (اللہ نے یہ نہیں چاہا کہ لوگوں پر جبر کرے، اِس لیے) اُنھوں نے اختلاف کیا۔ سو اُن میں سے کوئی (اِن رسولوں پر) ایمان لایا اور کسی نے ماننے سے انکار کر دیا۔(تم کو نہ ماننے کی وجہ بھی یہی ہے، اے پیغمبر) ، اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ہرگز آپس میں نہ لڑتے، مگر اللہ(اپنی حکمت کے مطابق) جو چاہے کرتا ہے۔ ۶۷۱ ۲۵۲-۲۵۳
ایمان والو، (تم اِنھیں اِن کے حال پر چھوڑ و اور) جو کچھ ہم نے تمھیں دیا ہے، اُس میں سے (اللہ کی راہ میں) اُس دن کے آنے سے پہلے خرچ کر لو ، جس میں نہ خریدو فروخت ہو گی، نہ (کسی کی) دوستی کام آئے گی اور نہ کوئی سفارش نفع دے گی۔ اور (حقیقت یہ ہے کہ اُس دن کے) منکر ہی اپنی جان پر ظلم ڈھانے والے ہیں۔۲۵۴
(اُس دن معاملہ صرف اللہ سے ہو گا)۔ اللہ، جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، زندہ اور سب کو قائم رکھنے والا۔۶۷۲ نہ اُس کو نیند آتی ہے ، نہ اونگھ لاحق ہوتی ہے۔ ۶۷۳ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے، سب اُسی کا ہے۔ کون ہے جو اُس کی اجازت کے بغیر اُس کے حضور میں کسی کی سفارش کرے ۔۶۷۴ لوگوں کے آگے اور پیچھے کی ہر چیز سے واقف ہے اور اُس کی مرضی کے بغیر وہ اُس کے علم میں سے کسی چیز کو بھی اپنی گرفت میں نہیں لے سکتے۔ ۶۷۵ اُس کی بادشاہی ۶۷۶ زمین اور آسمانوں پر چھائی ہوئی ہے اور اُن کی حفاظت اُس پر ذرا بھی گراں نہیں ہوتی، ۶۷۷ اور وہ بلند ہے، بڑی عظمت والا ہے۔ ۶۷۸ ۲۵۵
(یہ جو رویہ چاہیں، اختیار کریں)، دین کے معاملے میں (اللہ کی طرف سے) کو ئی جبر نہیں ہے۔ (حقیقت یہ ہے کہ) ہدایت (اِس قرآن کے بعد اب) گمراہی سے بالکل الگ ہو چکی ہے۔ لہٰذا جس نے شیطان ۶۷۹ کا انکار کیا اور اللہ کو مانا تو اُس نے گویا نہایت مضبوط رسی پکڑ لی جو کبھی ٹوٹ نہیں سکتی۔ اور (یہ اِس لیے کہ ) اللہ سمیع وعلیم ہے۔۲۵۶
۶۵۶؎ بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مہم فلستیوں کے مقابلے میں تھی جن کا سردار اُس زمانے میں جاتی جولیت تھا۔ قرآن نے اُس کا ذکر جالوت کے نام سے کیا ہے۔ سموئیل (۱)میں یہ واقعہ اِس طرح بیان ہوا ہے:
’’پھر فلستیوں نے جنگ کے لیے اپنی فوجیں جمع کیں اور یہوداہ کے شہر شوکہ میں فراہم ہوئے اور شوکہ اور عزیقہ کے درمیان افسدمیم میں خیمہ زن ہوئے ۔ اور سائول اور اسرائیل کے لوگوں نے جمع ہو کر ایلا کی وادی میں ڈیرے ڈالے اور لڑائی کے لیے فلستیوں کے مقابل صف آرائی کی ۔ اور ایک طرف کے پہاڑ پر فلستی اورد وسری طرف کے پہاڑ پر بنی اسرائیل کھڑے ہوئے اور اُن دونوں کے درمیان وادی تھی۔‘‘ (۱۷/ ۱: ۱-۳)
۶۵۷؎ اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ، ظاہر ہے کہ طالوت کو سموئیل علیہ السلام کی وساطت سے معلوم ہوا اور اِسی بنا پر اِسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا گیا۔
۶۵۸؎ اصل میں ’من لم یطعمہ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِس سے واضح ہے کہ اِس امتحان میں سو فی صدی کامیابی کے لیے ضروری تھا کہ ندی کا پانی سرے سے کوئی چکھے ہی نہیں۔
۶۵۹؎ ’اپنے ہاتھ سے‘ کی یہ قید اِس لیے لگا دی ہے کہ معاملہ گلاس اور کٹورے تک نہ پہنچ جائے۔
۶۶۰؎ بائیبل میں اِس امتحان کا ذکر نہیں ہے، لیکن اِسی سے ملتے جلتے ایک دوسرے امتحان کا ذکر ہے۔ اِن دونوں کو دیکھنے کے بعد ہر صاحب ذوق خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ اِس معاملے میں قرآن کا بیان ہی ہر پہلو سے قرین عقل بھی ہے اور بامقصد اور نتیجہ خیز بھی۔
۶۶۱؎ اصل الفاظ ہیں: ’والذین امنوا معہ‘ ۔ اِن میں ’امنوا ‘ کا فعل، قرینہ دلیل ہے کہ اپنے کامل معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اِس سے یہ بات آپ سے آپ نکلتی ہے کہ جو لوگ اِس امتحان میں پورے نہیں اترے، وہ اپنے ایمان کے دعووں میں بھی پورے نہیں تھے۔
۶۶۲؎ یہ اِس لیے فرمایا کہ خدا کی راہ میں موت اگر بندئہ مومن کو اپنی زندگی سے زیادہ عزیز ہوتی ہے تو اُس کے اِسی عقیدے کی بنا پر ہوتی ہے کہ وہ اِس موت سے مرے گا نہیں، بلکہ حقیقی زندگی پا کر اپنے پروردگار کی ملاقات سے مشرف ہوگا ۔
۶۶۳؎ طالوت کے بیٹے یونتن نے یہ فقرہ غالباً اِسی موقع پر کہا ہے:
’’سو یونتن نے اُس جوان سے جو اُس کا سلاح بردار تھا، کہا: آہم ادھر اِن نامختونوں کی چوکی کو چلیں۔ ممکن ہے کہ خداوند ہمارا کام بنا دے، کیونکہ خداوند کے لیے بہتوں یا تھوڑوں کے ذریعے سے بچانے کی قید نہیں۔‘‘ (۱-سموئیل ۱۴: ۶)
۶۶۴؎ یعنی اسباب و وسائل تو یقینا اختیار کیے گئے، لیکن فتح اصلاً اللہ کے حکم ہی سے ہوئی۔ سموئیل میں ہے کہ سیدنا دائود نے یہی بات اُس وقت کہی تھی ، جب وہ میدان جنگ میں جالوت کے مقابل ہوئے:
’’اور یہ ساری جماعت جان لے کہ خداوند تلوار اور بھالے کے ذریعے سے نہیں بچاتا، اِس لیے کہ جنگ تو خداوند کی ہے اور وہی تم کو ہمارے ہاتھ میں کردے گا۔‘‘ (۱-سموئیل ۱۷: ۴۷)
۶۶۵؎ یہ وہی حضرت دائود ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے نبوت عطا فرمائی اور جن کے فرزند بنی اسرائیل کے جلیل القدر بادشاہ اور نبی سیدنا سلیمان علیہ السلام ہیں۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے جالوت کو قتل کرنے کے اِس واقعے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے اُن کے بارے میں لکھا ہے:
’’۔۔۔ اِن کی ابتدا غریبانہ، لیکن انتہا نہایت شان دار ہوئی ۔ اِنھوں نے اپنے بارے میں خود فرمایا ہے کہ خداوند نے مجھے بھیڑسالے سے نکالا اور اسرائیل کے تخت پر لا بٹھایا۔ یہ طالوت کی اُس فوج میں شامل تھے جس کا ذکر چلا آ رہا ہے۔ اِس شمولیت کے متعلق تورات میں دو مختلف روایتیں ہیں۔ ایک سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ اِس جنگ کے پیش آنے سے پہلے ہی طالوت کے سلاح بردار کی حیثیت سے اُن کے لشکر میں داخل ہو چکے تھے اور درپردہ یہ سموئیل کے ممسوح اور مستقبل کے بادشاہ بھی تھے۔ دوسری روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بالکل وقت کے وقت اپنی بکریاں چراگاہ میں چھوڑ کر اپنے بڑے بھائیوں کو، جو جنگ میں شریک تھے ، اپنے باپ کے حکم سے کچھ کھانے کی چیزیں دینے آئے ۔ یہاں اِنھوں نے دیکھا کہ جالوت مقابلے کے لیے چیلنج دے رہا ہے ، لیکن کوئی اُس کے مقابلے کے لیے آگے نہیں بڑھ رہا ہے ۔ یہ دیکھ کر اِن کی غیرت کو جوش آیا۔ اِنھوں نے طالوت سے اُس کے مقابلے کی اجازت مانگی ۔ یہ اُس وقت ایک نوخیز، سرخ رواور خوش قامت نوجوان تھے۔ طالوت کو اِن کی کم عمری اور ناتجربہ کاری کی بنا پر اجازت دینے میں تردد ہوا۔ لیکن جب اِنھوں نے کہا کہ میں اپنی بکریوں پر حملہ کرنے والے شیروں اور ریچھوں کے جبڑے توڑ دیا کرتا ہوں ، بھلا اِس نامختون فلسطینی کی کیا حیثیت ہے کہ یہ زندہ خداوند کی فوجوں کو رسوا کرے ، تو طالوت نے اِن کے عزم و ہمت کو دیکھ کر اِن کو اجازت دے دی اور خود اپنا جنگی لباس پہنا کر اپنے مخصوص اسلحہ سے اِن کو لیس کیا ۔ اُس وقت تک اِن کا زمانہ بھیڑوں بکریوں کی چرواہی میں گزراتھا ،اِس جنگی لباس اور اِن جنگی اسلحہ کا اِن کو کوئی تجربہ نہیں تھا۔ وہ اِن کو پہن کر کچھ بندھا بندھا سا محسوس کرنے لگے۔ آخر طالوت کی اجازت سے اِس قید سے رہائی حاصل کی اور چرواہوں کی طرح اپنی فلاخن اٹھائی، چادر کے ایک کونے میں کچھ پتھر رکھے اور وقت کے سب سے بڑے دیو کے مقابل میں جا کے ڈٹ گئے ۔ پہلے تو اُس نے اِن کا مذاق اڑایا۔ لیکن جب اِن کی طرف سے اُس کو ترکی بہ ترکی جواب ملا تو اُس نے کہا کہ ’’اچھا آ ، آج تیرا گوشت چیلوں اورکووں کو کھلاتا ہوں۔‘‘ اتنے میں حضرت داؤد نے فلاخن میں پتھر رکھ کر جو اُ س کو مارا تو پتھر اُس کے سر سے چپک کر رہ گیا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ اتنے بڑے سپہ سالار کا ایک الھڑ چرواہے کی فلاخن سے اِس طرح مارا جانا ، ظاہر ہے کہ ایک عظیم واقعہ تھا۔ چنانچہ فلسطینی فوج میں بھگدڑ مچ گئی اور اِدھر بنی اسرائیل کی عورتوں کی زبان پر یہ گیت جاری ہو گیا :
’’ساؤل نے تو ہزاروں کو مارا ، پر دائود نے لاکھوں کو مارا‘‘۔‘‘ (تدبرقرآن۱/ ۵۸۰)
۶۶۶؎ اصل الفاظ ہیں: ’علمہ مما یشائ‘ ۔ یہاں بظاہر ’مما شائ‘ کا موقع تھا، مگر اِس کے بجاے یہ اسلوب اللہ تعالیٰ کے جس طریقے کو بیان کرنے کے لیے اختیار کیا گیا ہے، اُسے ہم نے اپنے ترجمے میں واضح کر دیا ہے۔
۶۶۷؎ یہ آخر میں جنگ کا مقصد بیان کرکے بات ختم کر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر ظلم و عدوان کے مقابلے میں اِس کا حکم نہ دیتے تو زمین میں ایسا فساد برپا ہو جاتا کہ وہ نیکی، تقویٰ اور صلاح و فلاح کے تمام آثار سے خالی ہو جاتی۔ اِس میں، ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے لیے ترغیب و تشویق ہے کہ اُنھیں بھی اب بغیر کسی تردد کے خدا کے اِس مقصد کو حاصل کرنے کی جدوجہد کے لیے تیار ہو جانا چاہیے اور بنی اسرائیل کی تاریخ کے اِن واقعات کی روشنی میں مطمئن رہنا چاہیے کہ وہ ثابت قدم رہے تو اللہ اُن کے دشمنوں پر اُنھیں اِسی طرح غلبہ عطا فرمائے گا۔
۶۶۸؎ اِس سے مرادوہ مخاطبۂ الٰہی ہے جس سے سیدنا موسیٰ علیہ السلام براہ راست مشرف ہوئے۔ یہ اُن کی فضیلت کا خاص پہلو ہے۔
۶۶۹؎ پرانے صحیفوں میں ’الروح القدس‘ سے جبریل امین مراد لیے جاتے ہیں۔ سیدنا مسیح علیہ السلام کے لیے روح القدس کی تائید کا ذکر اِس لیے کیا جاتا ہے کہ اُن سے جو کھلے کھلے معجزے صادر ہوئے، یہود نے اپنی بد بختی کے باعث اُنھیں بدروحوں کے سردار بعلز بول کی تائید کا نتیجہ قرار دیا۔
۶۷۰؎ یعنی جس نے جس نبی اور رسول کو مانا ، ’آں چہ خوباں ہمہ دارند وتو تنہاداری‘ کا مصداق بنا کر مانا۔ چنانچہ دوسرے کسی نبی یا رسول کے لیے کوئی فضیلت ماننا اُس کے نزدیک ایمان کے منافی قرار پایا، یہاں تک کہ نوبت اللہ کے نبیوں اور رسولوں کو جھٹلانے تک پہنچ گئی۔ بنی اسرائیل کا معاملہ بھی یہی تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے کے نتیجے میں خدا کی آخری ہدایت کا ماخذ آپ قرار پائیں گے اور یہ اُن کے پیغمبروں پر آپ کی فضیلت ماننے کے مترادف ہو گا۔
۶۷۱؎ یعنی اپنے علم اور اپنی حکمت کے مطابق جس چیز کو درست سمجھتا ہے، کرتا ہے۔ تمھاری خواہشوں سے اُس کا کوئی ارادہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔ سو اُس نے یہی درست سمجھا کہ اِس معاملے میں بندوں کو آزادی دے کہ اپنے ارادہ و اختیار کے ساتھ وہ کفر و ایمان میں سے جو چاہیں اختیار کر لیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’(یہ )اللہ تعالیٰ نے اُس سنت اللہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو ہدایت و ضلالت کے باب میں اُس نے پسند فرمائی ہے اور جس کا قرآن میں جگہ جگہ مختلف اسلوبوں سے بیان ہوا ہے۔ وہ سنت اللہ یہ ہے کہ اُس نے ہدایت و ضلالت کے معاملے میں جبر کا طریقہ نہیں اختیار فرمایا ہے۔ اگر وہ ایسا کرتا تو اِس میں شبہ نہیں کہ کسی کے لیے بھی ایمان کو چھوڑ کر کفر کی راہ اختیار کرنے کی کوئی گنجایش باقی نہ رہتی۔ لیکن اُس نے ایسا نہیں کیا، بلکہ بندوں کو آزادی دی کہ وہ اپنی سوچ سمجھ اور اپنے اختیار و ارادہ کی آزادی کے ساتھ چاہیں کفر کی راہ اختیار کریں ، چاہیں ایمان کی راہ اختیار کریں۔ اگر وہ ایمان کی راہ اختیار کریں گے تو اُس کا صلہ پائیں گے اور اگر کفر کی راہ اختیار کریں گے تو اُس کا انجام دیکھیں گے۔‘‘ (تدبرقرآن۱/ ۵۸۳)
۶۷۲؎ اصل میں لفظ ’ْقیوم‘ استعمال ہوا ہے۔ اِس کے معنی ہیں وہ ہستی جو خود اپنے بل پر قائم اور دوسروں کو قائم رکھنے والی ہو۔ اِس سے او ر اِس سے پہلے ’حی‘ کی صفت سے قرآن نے اُن تمام معبودوں کی نفی کر دی ہے جو نہ زندہ ہیں نہ دوسروں کو زندگی دے سکتے ہیں، اور نہ اپنے بل پر قائم ہیں، نہ دوسروں کو قائم رکھنے والے ہیں، بلکہ خود اپنی زندگی اور بقا کے لیے ایک حی و قیوم کے محتاج ہیں۔
۶۷۳؎ اِس نفی سے نیند کی ابتدا اور انتہا، دونوں کی نفی کی ہے۔ مدعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ غفلت کے اثرات سے بالکل آخری درجے میں پاک ہے۔
۶۷۴؎ یعنی جب اُس کی خدائی میں کسی کا کوئی حصہ نہیں ہے تو پھر کس کی مجال ہے کہ اُس کی اجازت کے بغیر اُس کے حضور میں سفارش کی جسارت کرے۔
۶۷۵؎ یعنی جب لوگوں کے ماضی اور مستقبل کی ہر چیز سے وہ خود واقف ہے اور کوئی دوسرا اُس کے علم کے کسی حصے کو اُس کی مرضی کے بغیر اپنی گرفت ادراک میں بھی نہیں لے سکتا تو سفارش کس بنا پر کی جائے گی؟ کیا کوئی شخص اِس لیے سفارش کرے گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی معلومات میں اضافہ کر سکتا ہے؟
۶۷۶؎ اصل میں لفظ ’کرسی‘ آیا ہے ۔ عربی زبان میں یہ اقتدار کی تعبیر ہے۔ ہماری اردو میں بھی یہ لفظ اِس مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔
۶۷۷؎ چنانچہ اُن کو سنبھالنے کے لیے اُسے کسی سہارے کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ اِس بنا پر کوئی اُس کا شریک و سہیم سمجھا جائے۔
۶۷۸؎ لہٰذا اُس کے علم اور اُس کی قدرت کو اپنے محدود پیمانوں سے ناپنے کی کوشش نہ کرو۔ اپنی صفات کے بارے میں جو کچھ وہ خود بتائے، صرف اُسی کو ماننا کافی ہے۔ اِس معاملے میں اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کرنی چاہیے۔ دین میں بے روح فلسفیانہ مباحث اور شرک و بدعت کی راہیں اِسی سے کھلتی ہیں۔
۶۷۹؎ اصل میں لفظ ’الطاغوت‘ آیا ہے ،یعنی وہ جو خدا کے سامنے سرکشی ، تمرد اور استکبار اختیار کرے۔ اِس میں اور ’الشیطان‘ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ قرآن میں یہ دونوں بالکل ہم معنی استعمال ہوئے ہیں۔
[باقی]
ــــــــــــــــــــ