HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : معز امجد

نماز عصر کا وقت

[اس روایت کی ترتیب وتدوین اور شرح ووضاحت جناب جاوید احمد غامدی کی رہنمائی 
میں ان کے رفقا معز امجد، منظور الحسن، محمد اسلم نجمی اور کوکب شہزاد نے کی ہے۔]


روی۱ انہ کانت عائشۃ تقول: ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یصلی العصر، والشمس فی حجرتھا قبل ان تظھر.۲
روایت ہوا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز اس وقت پڑھا کرتے تھے جب سورج سیدہ کے کمرے میں (دیوار پر) چڑھنے سے پہلے (فرش پر) ہوتا تھا۔ ۱

ترجمے کے حواشی

[۱] بظاہرمعلوم ہوتا ہے کہ یہ وہ وقت ہے جب سورج نصف النہار اور غروب کی حالت کے درمیان میں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت سورج کی روشنی سیدہ کے کمرے کی دیواروں کے بجائے اس کے فرش پر ہوتی تھی۔

متن کے حواشی

۱۔ اپنی اصل کے اعتبار سے یہ مسلم کی روایت، رقم ۶۱۱ ہے۔ معمولی اختلاف کے ساتھ یہ حسب ذیل مقامات پر نقل ہوئی ہے:

بخاری، رقم ۴۹۹، ۵۱۹،۵۲۰،۵۲۱،۲۹۳۶۔ مسلم ، رقم ۶۱۱۔ موطا، رقم ۲۔ ترمذی، رقم ۱۵۹۔ ابوداؤد، رقم ۴۰۷۔ النسائی، رقم ۵۰۵۔ ابن ماجہ، رقم ۶۸۳۔ ابن خزیمہ، رقم ۳۳۲۔ ابن حبان، رقم ۱۴۵۰، ۱۵۲۱۔ احمد ابن حنبل، رقم ۲۴۱۴۱، ۲۴۵۹۸، ۲۵۶۷۷، ۲۵۷۲۶، ۲۶۴۲۱۔ سنن الکبریٰ، رقم ۱۴۹۴۔ بیہقی، رقم ۱۹۲۰،۱۹۱۹، ۱۹۱۸، ۱۵۸۰۔ دارمی، رقم ۱۱۸۶۔ مسند ابو یعلیٰ، رقم ۴۴۸۰، ۴۴۲۰۔ عبدالرزاق، رقم ۲۰۷۳، ۲۰۷۲، ۲۰۷۱۔ الحمیدی، رقم ۱۷۰۔ مسلم، رقم ۶۱۱۔

۲۔ ’والشمس فی حجرتھا قبل ان تظھر‘ (سورج ان کے کمرے میں دیوار پرچڑھنے سے پہلے فرش پر ہوتا تھا) کا جملہ متعدد روایات میں مختلف انداز سے روایت ہواہے۔ بعض روایات مثلاً بخاری، رقم ۵۱۹ میں ’والشمس لم تخرج من حجرتھا‘ (سورج ان کے کمرے سے نہیں نکلا تھا) کا اسلوب ہے۔ بعض روایات مثلاً بخاری، رقم ۵۲۰ میں ’والشمس فی حجرتھا لم یظھر الفئ من حجرتھا‘ (جب سورج ان کے کمرے میں تھا اور سائے ظاہر نہیں ہوئے تھے) کا جملہ نقل ہوا ہے۔بعض روایات مثلاً بخاری، رقم ۵۲۱ میں یہ الفاظ آئے ہیں: ’والشمس طالعۃ فی حجرتی لم یفئ الفئ بعد‘ (جب سورج میرے کمرے میں چمک رہا تھا اور سایہ ابھی ظاہر نہیں ہوا تھا)۔ بعض روایات مثلاً مسلم، رقم ۶۱۱ (ب) میں یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں: ’والشمس طالعۃ فی حجرتی لم یفی الفئ بعد‘ (جب سورج میرے کمرے میں چمک رہا تھا اور سایہ ابھی بڑھا نہیں تھا)۔ بعض روایات مثلاً مسلم، رقم ۶۱۱(ج) میں ’والشمس فی حجرتھا لم یظھر الفئ فی حجرتھا‘ (جب سورج ان کے کمرے میں تھا اور کمرے میں سائے ظاہر نہیں ہوئے تھے) کے الفاظ آئے ہیں۔بعض روایات مثلاً مسلم، رقم ۶۱۱ (د) میں یہ بات ان الفاظ میں آئی ہے: ’والشمس واقعۃ فی حجرتی‘ (جب سورج میرے کمرے میں تھا)۔ بعض روایات مثلاً ابن ماجہ، رقم ۳۸۳ میں ’والشمس فی حجرتی لم یظھرھا الفئ بعد‘ (جب سورج میرے کمرے میں تھا اور ابھی سائے اس پر نہیں پھیلے تھے۔) کا جملہ نقل ہواہے۔ بعض روایات مثلاً احمد ابن حنبل، رقم ۲۵۶۷۷ کے الفاظ یہ ہیں: ’قبل ان تخرج الشمس من حجرتی طالعۃ‘ (سورج کے میرے کمرے میں سے نکلنے سے پہلے) کے الفاظ آئے ہیں۔بعض روایات مثلاً بیہقی، رقم ۱۹۱۸ میں ’والشمس فی حجرتھا قبل ان تظھر الشمس‘ (جب سورج دیوار پر چڑھنے سے پہلے ان کے کمرے میں تھا)۔ بعض روایات مثلاً بیہقی ۱۹۲۰ میں ’والشمس فی قعر حجرتی‘ (جب سورج ان کے کمرے کے فرش پر تھا) کے الفاظ آئے ہیں۔ بعض روایات مثلاً مسند ابو یعلٰی، رقم ۴۴۸۰ ’والشمس طالعۃ فی حجرتی‘ (جب سورج میرے کمرے میں چمک رہا تھا) کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔ بعض روایات مثلاً مسند الحمیدی، رقم ۱۷۰ کے الفاظ یہ ہیں: ’والشمس طالعۃ فی حجرتی لم یظھر الفئ علیھا بعد‘ (جب سورج میرے کمرے میں چمک رہا تھا اور سائے ابھی کمرے پر غالب نہیں آئے تھے)۔ بعض روایات مثلاً عبدالرزاق ، رقم ۲۰۷۳ کا جملہ یہ ہے: ’والشمس فی حجرتھا قبل ان تظھر ولم یظھر الفئ من حجرتھا‘ (جب سورج دیواروں پر چڑھنے سے پہلے ان کے کمرے میں تھا اور سائے ان کے کمرے میں ظاہر نہیں ہوئے تھے)۔

جملے کی روایت کے بارے میں ان اختلافات سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سیدہ عائشہ کی بات کے فہم اور تاویل میں کس قدر مختلف آرا موجود ہیں۔ چنانچہ متعین طور پر یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ ام المومنین نے اصل میں کیا الفاظ ارشاد فرمائے تھے۔ ہم نے مسلم، رقم ۶۱۱ (ا) کے الفاظ کو اس بنا پر ترجیح دی ہے کہ یہ جملہ کافی حد تک مذکورہ بات کے مختلف پہلووں کا جامع ہے۔

____________

B