[گزشتہ دنوں ’’حلقۂ ارباب ذوق، لاہور‘‘ کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا۔ صدارت کے فرائض جناب ڈاکٹر خورشید رضوی نے انجام دیے۔ ان کا صدارتی خطبہ علم و ادب کا شاہ کار ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری تہذیبی روایات کی طرف مراجعت کاداعی بھی تھا۔ افادۂ عام کے لیے ہم اسے یہاں شائع کر رہے ہیں۔]
آج کی محفل میں زیر بحث لانے کے لیے میرے پاس کون سا ادبی مسئلہ ہے، یہ جاننے کے لیے جب میں اپنے گریباں میں غوطہ زن ہوا تو مجھے اپنے دل کی تہوں میں چھوٹے بڑے کئی مسائل لرزاں نظر آئے۔ جس مسئلے نے میری توجہ فوری طور پ اپنی جانب مبذول کرائی، اس میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس پر رجعت پسندی کا لیبل بڑی آسانی سے چسپاں کیا جا سکتا ہے۔ پلٹ کر دیکھنے کی خواہش اگر رجعت پسندی ہے تو اس سے مفر نہیں کہ اچھے ادب کا نصف سے زائد حسن اسی آرذوے بازدید میں مضمر ہے۔ دوش کے آئینے میں فردا کو دیکھنا شیوۂ صاحب نظراں ہے۔ جدت پسندی اپنی جگہ برحق ہے کہ تازہ کاری ک بغیر شب وروز کایہ تسلسل ایک بوجھل تکرار میں تبدیل ہو جاتا ہے اور تازہ ہوا کی طلب میں، ہر سچی روح، امروز وفردا کے اس میکانکی زنداں کو توڑ ڈالنا چاہتی ہے، بقول اقبال:
طرح نوافگن کہ ماجدت پسند افتادہ ایم
ایں چہ حیرت خانہ امروز وفردا ساختی
لیکن جہان نو کی تعمیر کے لیے جہان کہنہ کی راکھ بہرحال درکار ہوتی ہے، چنانچہ جدت پسند اقبال کو بھی یہ خواہش برابر رہتی ہے کہ:
گرد شے باید کہ گردوں ازضمیر روزگار
دوش من باز آرد اندر کسوت فردائے من
آج گیارہ مئی ہے، مجید امجد کی وفات کا دن، جس نے کہاتھا:
ہاں اسی گم سم اندھیرے میں ابھی
بیٹھ کر وہ راکھ چننی ہے ہمیں
راکھ ان دنیاؤں کی جو جل بجھیں
راکھ جس میں لاکھ خونیں شبنمیں
زیست کی پلکوں سے ٹپ ٹپ پھوٹتی
جانے کب سے جذب ہوتی آئی ہیں
کتنی روحیں ان زمانوں کا خمیر
اپنے اشکوں میں سموتی آئی ہیں
آج گزشتہ کی راکھ میں انگلیاں پھیرتے ہوئے جس چنگاری کی تپش سے میری پوریں جل اٹھی ہیں، وہ ان زبانوں، روایتوں، تلمیحوں اور علامتوں کا افسوس ناک زوال ہے، جوہمارے ادب کو ماضی سے مربوط رکھتے ہوئے اسے آیندہ کے سفر پر روانہ ہونے کا حوصلہ بخشتی تھیں۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ تازہ واردان بساط ادب، فارسی ادب کی روایت سے کٹ جانے کے نتیجے میں، اپنے عظیم ترین شعرا، غالب اور اقبال کے نصف سے زائد کلام سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔
عربی اور فارسی جو ہمارے کلاسیکی ورثے کے بنیادی سانچے مہیا کرتی ہیں کوئی مردہ زبانیں نہیں ہیں۔ عربی تمام مسلمانوں کی مذہبی زبان ہونے کے علاوہ، آج سعودی عرب، یمن، خلیج کی امارت متحدہ، عمان، کویت، بحرین، قطر، عراق، شام، اردن، لبنان ، مصر، سوڈان، لیبیا، تونس، الجزائر اور مراکش کی سرکاری اور بائیس کروڑ کے لگ بھگ انسانوں کی مادری زبان ہے۔
۱۹۴۷ء سے اسے اقوام متحدہ کی چھٹی رسمی زبان ہونے کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ فارسی اور اردو ادب پر قرآن و حدیث کے علاوہ عربی ادب کا جو اثر مرتب ہوا، اس کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں۔فارسی کے حوالے سے سر دست ایک رومی کو ہی لے لیجیے۔ رومی آج کے امریکہ میں ’craze‘ کے طور پر ابھرا ہے اور اس کے کلام کے انگریزی تراجم ہاتھوں ہاتھ فروخت ہورہے ہیں۔ انٹرنیٹ پر بعض ’websites‘ رومی کے لیے مخصوص ہیں۔ ’’مثنوی مولوی معنوی‘‘ کو ہمارے ہاں بھی ’’ہست قرآں درزبان پہلوی‘‘ کی حیثیت حاصل رہی اور اقبال نے رومی کو مرشد تسلیم کر کے اس کی ذات اور فن کی وہ جہتیں دریافت کیں جنھوں نے اسے جہد پیہم اور خود شناسی کی علامت بنا دیا۔
کلیلہ ودمنہ،الف لیلہ، گلستاں بوستاں، شاہنامہ فردوسی، دیوان حافظ اور رباعیات خیام جیسے ادب پاروں کو رفتہ و گزشتہ کے غلاف میں لپیٹ کر طاق نسیاں پر رکھ دینا ممکن نہیں۔ ان کی تابانی نے صرف مشرق ہی نہیں مغرب کوبھی ضیا بخشی ہے۔ بہت دور کی بات نہیں کہ ہمارے ہاں خانہ نشیں خواتین کو بھی ’’گلستاں بوستاں‘‘ سے واقفیت حاصل تھی اور آج صورت حال یہ ہے کہ دانش وروں کی محفل میں بھی، عربی تو درکنار، فارسی شعر پڑھنا بھی سخت دشوار ہوتا جارہا ہے۔
فارسی روایت سے مربوط ہوئے بغیر ہم مثال کے طور پر، اقبال کے ہاں ’’فرمان خدا (فرشتوں سے)‘‘ کا یہ شعر کیونکر سمجھ سکتے ہیں:
حق را بسجودے، صنماں رابطوافے
بہتر ہے چراغ حرم ودیر بجھا دو
اس شعر میں نہ صرف یہ کہ پہلا مصرع فارسی میں ہے، یہ ایک تلمیح کی حیثیت بھی رکھتا ہے جو غالب کے اس شعر سے مربوط ہے:
زنہار ازاں قوم نباشی کہ فریبند
حق را بسجودے ونبی رابدرودے
یعنی ہر گز ان لوگوں میں شامل نہ ہونا جو خدا کو ایک سجدے سے اور پیغمبر کوایک درود سے فریب دینا چاہتے ہیں۔ اقبال کے ہاں بات چونکہ ’’حرم ودیر‘‘ کے حوالے سے ہورہی ہے، اس لیے ’’حق‘‘ کے موازنے میں ’’صنم‘‘ درکار تھا، چنانچہ انھوں نے ’’نبی رابدرودے‘‘ کا ٹکڑا ’’صنماں رابطوفے‘‘ سے بدل دیا، لیکن ’’حق رابسجودے‘‘ کا ٹکڑا برابر غالب کے شعر کی تلمیح بنا رہا، جس سے ’’فریبند‘‘ جو اقبال کے ہاں محذوف ہے اور جس کے بغیر مصرع کا مفہوم مکمل نہیں ہوتا، ازخود سمجھ میں آجاتا ہے۔ یعنی حرم میں حق کو ایک سجدے سے اور دیر میں اصنام کو ایک طواف سے فریب دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اصلیت کہیں باقی نہیں رہی، لہٰذا بہتر ہے کہ حرم اور دیر، دونوں کا چراغ گل کر دیا جائے۔
اسی طرح نظم ’’طلوع اسلام‘‘ میں اقبال کا یہ شعر:
وہ چشم پاک بیں کیوں زینت برگستواں دیکھے
نظر آتی ہے جس کو مرد غازی کی جگر تابی
اس وقت تک سمجھ میں نہیں آسکتا جب تک، بطور پس منظر، عرفی کا یہ شعر ذہن میں نہ ہو:
بخوا ں آلودہ دست وتیغ غازی ماندہ بے تحسیں
تو اول زیب اسپ وزینت برگستوں بینی
یعنی مرد غازی کے خون آلودہ دست وتیغ کی کچھ داد نہ دی گئی۔ تو پہلے گھوڑے کی زیبایش اور برگستواںیعنی زرہ کی زینت کو دیکھنے میں لگا ہوا ہے۔ مراد یہ کہ چشم ظاہر بیں ظواہر میں الجھ کر اصل اہمیت کی چیز پر توجہ نہیں دیتی۔ اسی مضمون پر بنیاد اٹھاتے ہوئے اقبال نے یہ کہا کہ جو آنکھ ظاہر بیں نہیں، بلکہ پاک بیں ہے اور مرد غازی کی جگر تابی اسے نظر آسکتی ہے، وہ بھلا زرہ کی زیب وزینت میں کیوں محو ہو؟
اقبال ہی کی ایک اور دوبیتی اس موقع پر یاد آرہی ہے:
صبنت الکاس عناام عمرو
وکان الکاس مجراھا الیمینا
اگر ایں است شرط دوستداری
بدیوار حرم زن جام ومینا
پہلا شعر عمرو بن کلثوم کا ہے اورجس نظم سے ماخوذ ہے، وہ سبع معلقات میں شامل ہے۔ یہ شعر معلقے کے حصۂ تشبیب کا شعر ہے۔ یہ حصہ تمہیدی عشقیہ مضامین پر مشتمل ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ شاعر گریز کر کے اصل موضوع کی طرف آتا ہے۔ ’’ام عمرو‘‘ محبوبہ کا نام ہے جو ساقی گری کر رہی ہے۔ شعر کا مفہوم یہ ہے کہ اے ام عمرو تو نے جام کو ہماری طرف سے روک کر دوسروں کی طرف پھیر دیا، حالانکہ قاعدہ یہ ہے کہ جام کی گردش کا آغاز دائیں طرف سے ہوتا ہے۔ دائیں طرف ہم تھے اور بائیں طرف اغیار ۔ مگر تونے یہ کیاکیا کہ خلاف قاعدہ ان سے آغاز کیا۔ معلقہ عمرو بن کلثوم کا یہ شعر تشبیب کا اکہرا روایتی شعر ہے جس میں ایک سے زیادہ مفاہیم کی گنجایش نہیں، لیکن اقبال کے پہلو دار تخلیقی ذہن نے جب اسے چھوا تو تہ بہ تہ مفہوم پیدا کر کے نئی وسعتوں سے آشنا کر دیا اور وہ امکانات اس سے پیدا کر لیے جن کا اس شعر کے حوالے سے صدیوں میں کسی کو خیال نہ آیا ہوگا۔ اقبال کے ہاں ’’ام عمرو‘‘ کا علامتی خطاب محبوب حقیقی کی طرف منتقل ہوگیا ہے اور مفہوم وہی شکوے کا ہے کہ:
رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر
اقبال کے ہاں قرآن مجید کے ’’اصحاب المیمنہ‘‘ یا ’’اصحاب الیمین‘‘ (یعنی دائیں طرف والے ) اور ’’اصحاب المشئمہ‘‘ یا ’’اصحاب الشمال‘‘ (یعنی بائیں طرف والے) کے مفہوم کی چھوٹ بھی اس قبل ازاسلا م کے شعر پر پڑرہی ہے اور یہ غیر محسوس طور پر دور جدید کے ’Rightist‘ اور ’Leftist‘ کے تصور تک بھی پھیل گیا ہے۔ یوں ایک قدیم /جدید تناظر میں اپنوں کو محروم رکھنے اور غیروں کوفیض یاب کرنے کا شکوہ کرتے ہوئے اقبال، دوسرے شعر میں اپنی مخصوص بے باکی کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ اگر دوستداری کا یہی طریقہ ہے اور ساقی گری اسی انداز سے ہوتی ہے تو پھر جام ومینا کودیوار حرم پر دے مار۔
خواتین و حضرات! یہ مسئلہ عربی وفارسی پس منظر تک ہی محدود نہی، وہ ثقافتی حوالے جو خالصتاً اردو کے اپنے ہیں، ان سے ربط بھی اب ختم ہوتا چلا جارہا ہے۔ آزاد نے ’’آب حیات‘‘ میں میرتقی میر کی ہجو میں بقاء اللہ خاں بقا کے چند اشعار نقل کیے ہیں جن میں سے ایک یوں ہے:
لے کے دیواں پکارتے پھریے
ہر گلی کوچہ کام شاعر کا
اس شعر کا مفہوم واضح نہیں ہو سکتا جب تک یہ ثقافتی پس منظر معلوم نہ ہو کہ جس طرح پنجاب میں مختلف پیشوں کی مختلف ہانکیں ہوتی ہیں جن کے الفاظ سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں دور سے آتی ہوئی ہانک کا آہنگ ہی بتاتا ہے کہ بڑھئی یا قلعی گر آیا ہے، اسی طرح یوپی میں بڑھئی کی ایک ہانک تھی ’’کام بڑھئی کا‘‘۔ اس میں لفظ ’’کام‘‘ بہت کھینچ کراور ’’بڑھئی کا‘‘ تیزی سے ادا کیا جاتا تھا۔ اس ہانک کی لے بڑھئی کی آمد کا پتا دیتی تھی۔ بقا نے میر سے کہا ہے کہ تم کوئی شاعر تھوڑا ہی ہو، شاعری میں ٹھوکا پیٹی کرنے والے بڑھئی ہو، لہٰذا بڑھئی کے بقچے کی جگہ دیوان بغل میں مارواور گلی گلی ہانک لگاؤ: ’’کام شاعر کا‘‘۔
پھر ہماری مشرقی شاعری کی روایت میں تلازمات ورعایات کا ایک انٹر لاک نظام ہوتا ہے۔ صدیوں کی ریاضت نے اس میں وہ ’Kaleidoscopic‘ شان پیدا کر دی ہے کہ محض عکس درعکس کے بناؤ سے بے ترتیبی میں بھی ایک ترتیب پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ بجا ہے کہ اس نظام کے نقصانات بھی ہیں۔ اس نے شاعر کو تخلیقیت سے زیادہ تربیت پر مائل کر دیا نیز اس کے بل پر کم تر شاعری کی وضع ظاہری بھی معتبر نظر آنے لگتی ہے، یوں جیسے کوئی تہی مغز انسان، جبہ و دستار پہن کر بظاہر معقول دکھائی دینے لگتا ہے۔ لیکن دوسری طرف اس نظام نے تخلیقی شعرا کے کلام میں اعماق وجہات کا اضافہ بھی کیا۔ ان کے ہاں چونکہ تخلیقی زور بہت ہوتا ہے، اس لیے تلازمات سطح پر نظر نہیں آتے، بلکہ شعر کے اصل مضمون کے نفوذ کر جانے کے بعد رفتہ رفتہ یوں کھلتے ہیں جیسے بپھرے ہوئے سمندر کی موج کے آکر چلے جانے کے بعد وہ گھونگے اور سیپیاں دکھائی دیتی ہیں جو وہ ساحل پر ڈال جاتی ہے۔ غالب نے اپنے فارسی دیوان کے دیباچے میں تعلی کے کچھ شعر، تحدیث نعمت قرار دے کر درج کیے ہیں۔ ایک شعر دیکھیے:
میتواں پنجہ ازنطامی برد
پارۂ جمع گر حواس کنم
مفہوم یہ ہے کہ اگر ذرا سی مہلت اپنے پراگندہ حواس کو مجتمع کرنے کی مل سکے تو میں نظامی سے پنجہ لڑا سکتا ہوں۔ یعنی کچھ ویسی ہی بات کہ:
ہم بھی تمھیں دکھائیں کہ مجنوں نے کیا کیا
فرصت کشا کش غم پنہاں سے گر ملے
غالب کے فارسی شعر کا اولین تاثر صرف مضمون شعر ہی کا تاثر ہے اور پہلی نظر میں تلازمات کا تانا بانا نظر نہیں آتا۔ لیکن مضمون کا کوندا جب لپک چکتا ہے تو پھر رفتہ رفتہ آنکھ، گویا، اندھیرے میں دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔ تب نظر آتا ہے کہ ’’پنجہ‘‘ اور ’’نظامی‘‘ اور ’’حواس‘‘ میں ایک نظام رعایات پنہاں ہے۔ نظامی کا خمسہ مشہور ہے اور حواس خمسہ پانچوں حسوں کا مجموعی نام ہے جن کی پراگندگی کا شاعر کو شکوہ ہے اور لفظ ’’پنجہ‘‘ پانچ انگلیوں کا مجموعہ ہے جو ’’خمسہ‘‘ سے مناسبت رکھتاہے۔ اب تلازمات کا یہ تارو پود عیب نہیں، بہت بڑا ہنر ہے۔ یہ وہ جبہ ودستار نہیں جسے پہن کرنا کس کس نظر آنے لگتا ہے، بلکہ یہ عبا وقبا کی وہ موزونیت ہے جو خوبی اندام پر راست آتی ہے اور کسی سروقد کے قامت کے حسن کو دوبالا کرتی ہے۔ ہم نے شاعری کا یہ جسم صدیوں کی ریاضت سے کمایا ہے۔ اس کی خاک کو رائیگاں نہ اڑا دینا چاہیے۔
خواتین وحضرات! یہاں یہ واضح کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میری یہ معروضات پس منظر کا فہم پیدا کرنے کے سلسلے میں ہیں، انھیں کورا نہ تقلید کی دعوت تصور نہ کیا جائے۔ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے، روایت کے سانچے جب فرسودگی میں ڈھلنے لگتے ہیں تو تخلیق کی تازہ کاری انھیں توڑ ڈالنے کی ضرورت بھی محسوس کرتی ہے اور یقیناًاس کا حق بھی رکھتی ہے، لیکن اصولی طور پر، کسی بھی روایت کو توڑنے یا رد کرنے کے لیے اس کا علم اور اس پر قدرت رکھنا شرط ہے۔ چنانچہ خود روایت شکنی کے لیے روایت کو جاننا اور عملاً اس پر قادر ہونا ضروری ہے۔ اس علم اور اس قدرت کے بغیر روایت کے خلاف بغاوت کا نعرہ دراصل اپنی کمزوری کو چھپانے کا یاک بہانہ ہوتا ہے اورعربی مقولے’الناس اعداء ماجھلوا‘کا مصداق۔ یعنی لوگ جس چیز سے ناواقف ہوتے ہیں، اس کے دشمن ہوتے ہیں۔
اسی طرح یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ روایت سے وابستگی ہرگز جدت کے دروازے بند کر دینے کے مترادف نہیں۔ مغرب سے حذر کی ضرورت نہیں، لیکن مشرق سے بے زاری کا بھی کوئی جواز نہیں۔ دریا میں دیس دیس کی ندیاں آکر ملتی رہیں اور دریا کا رنگ بدلتا رہے تو اس سے اس کے روپ میں اضافہ ہوتا ہے، مگر دریا کو بہنا اپنی ہی مٹی پر چاہیے۔ ہر قوم کا ایک عقبی دیار ہوتا ہے اور اس کی فضا میں اس قوم کاادب یوں سانس لیتا ہے جیسے مچھلی، پانی کے وجود کا احساس کیے بغیر، پانی میں زندہ رہتی ہے۔
Keats کی نظم Ode To a Nightingale سے حظ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ ہمیں Lethe اور Dryad اور Hippocrene اور Bacchus اور Ruth ان سب کے ساتھ وابستہ تصورات ومفاہیم سے آشنائی ہو۔ اسی طرح ہمارے داستانی ورثے کی علامات عمر عیار اور اس کی زنبیل، لقا اور اسس کی داڑھی، سند باد اور اس کے سفر، رستم اور ہفت خواں، کوہ کن اور بے ستوں اور جوئے شیراور پیروزن الغرض وہ پوری فضا جو عربی اور فارسی ادب کے دریچوں سے ہمارے ادب پر وارد ہوتی ہے، یہی وہ پانی ہے جس میں ہمارا ادب مچھلی کی طرح سانس لیتا ہے۔ اجنبی دھاروں سے اس پانی کی رنگت کو اور رنگین کرنا بجا، مگر اس پانی سے نکل جانا ماہی بے آب ہو جانے کے مترادف ہو گا۔
ہمیں اس بات کا جلد از جلد احساس کرنا چاہیے کہ مشرقی روایت کے سوتے اگر اسی طرح گردوغبار سے اٹتے رہے تو ہمارا اصل سر چشمہ اندھا ہو جائے گا۔ ہمیں مغربی دریچے بند کیے بغیر مشرق کی طرف کے پرانے جھروکے بھی پھر سے کھولنے چاہییں، اس سے پہلے کہ وہ لاتعلقی کے زنگ سے ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں۔ ہمیں اس جانب سے آنے والی ہوا کی ضرورت ہے اوردھوپ تو آتی ہی ادھر سے ہے۔
____________