اس سے قبل کہ ہم امت مسلمہ کے عروج و زوال کے ضمن میں قرآن کاقانون واضح کریں یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ امت مسلمہ کی تشکیل کا پس منظر بیان کردیا جائے۔
ہم اوپر بیان کرچکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں انسان کو آزمایش کے لیے بھیجا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس آزمایش میں انسانیت کی مدد کے لیے متعدد اہتمام کیے۔ان میں سے ایک آخری درجہ کا اہتمام وہ تھا جس کا تفصیلی ذکر ہم اوپر کرچکے ہیں۔ یعنی ایک رسول کو اس کی قوم کی طرف بھیجا جاتا ہے اور وہ آخرت میں ہونے والی سزا وجزا کی داستان کو اس دنیا میں عملاً بر پا کرکے دکھادیتا ہے۔ اس طرح رسول کی قوم دنیا کے لیے ایک حسی نشان بن جاتی ہے کہ جس طرح دنیا میں خدا کے رسول کی نافرمانی پرتباہی اور فرماں برداری پر غلبہ نصیب ہوتا ہے ، اسی طرح قیامت کے دن خدا کے فرما ں برداروں کا مقدر ابدی عروج اور نافرمانوں کا مقدر ابدی زوال ہوگا۔
تاہم آزمایش کی اس دنیا میں ہمیشہ یہی ہوا کہ ایک رسول کے ماننے والے بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان برائیوں ، خصوصاََ شرک میں مبتلا ہوتے چلے گئے جو دنیا میں پھیلی ہوئی تھیں اور حق محض تاریخ کی ایک داستان بن کر رہ گیا۔اس کے ساتھ ساتھ قدیم دنیا میں ایک دوسری صورت حال پید اہوچکی تھی۔وہ یہ کہ اس وقت کی کم و بیش تمام متمدن دنیا میں حکومتی طاقت شرک کی محافظ تھی اوراہل حق کو مذہبی تعذیب کا نشانہ بناکر توحید کے راستے سے روکا جاتا تھا۔اس طرح حق کے آزادانہ طور پر پنپنے کے امکانات ہی ختم ہوچلے تھے جو کہ اللہ تعالیٰ کی اس اسکیم کے خلاف تھا جس کے تحت انسان کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ اپنی مرضی سے حق کے ردو قبول کا فیصلہ کرسکے۔
ہمارے پاس جو معلوم تاریخی ریکارڈ ہے ، وہ تقریباََ اسی عرصے میں منضبط ہونا شروع ہوا ہے۔اسی لیے وہ لوگوں کے عقائد کی داستان ہمیشہ شرک کے حوالے سے سناتا ہے۔حالانکہ قرآن نے اس دور کے رسولوں اور ان کی اقوام کی جو داستان بیان کی ہے، مثلاََ ہود، صالح، لوط اور شعیب وغیرہ اس سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ حق و باطل کا معرکہ ہمیشہ کی طرح اس دور میں بھی جاری تھا ۔ بد اعتقادی اور بد اعمالی کا غلبہ اس قدر ہوتا تھا کہ قوم تباہ ہوجاتی تھی ، مگر حق قبول نہ کرتی تھی۔یعنی انسانیت توحید کی راہ سے اس طرح اتری کہ اس کا واپس آنا بہت مشکل ہوچکا تھا۔
ان حالات میں آج سے تقریباََ چار ہزار سال قبل اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت ابراہیم کو کار رسالت کے ساتھ ایک دوسری ذمہ داری کے لیے قبول کیا۔ وہ ذمہ داری یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں مختلف آزمایشوں سے گزارا اور جب وہ ان میں کامیاب ہوگئے تو انھیں انسانیت کی امامت کے لیے منتخب کرلیا گیا۔ اس امامت کے نتیجے میں نبوت و رسالت کا سلسلہ آپ کی اولاد میں خاص کردیا گیا اورآپ کی اولاد میں سے دو عظیم الشان امتیں اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان امتوں کی تاسیس کا ایک مقصد تو یہ تھا کہ وہ شرک کی ان زنجیروں کو بالجبر توڑ ڈالیں جنھوں نے انسانیت کو صدیوں سے جکڑ رکھا تھا۔دوسرے ان کی شکل میں ایک ایسا معاشرہ ہر دور میں انسانوں کے سامنے رہے جو توحید کی بنیاد پر قائم ہو اور جہاں اللہ کے نبیوں کی لائی ہوئی شریعت کے مطابق لوگ ایک خدا پرستانہ زندگی گزارتے ہوں۔اس طرح وہ حق کی شمع کی صورت ،ظلمتوں میں بھٹکے ہوؤں کے لیے منزل کا نشان بن کر، ہمیشہ روشن رہے۔اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان کے عروج کو اپنی فرماں برداری اور ان کے زوال کو اپنی نافرمانی سے مشروط کردیا۔اس طرح حق لوگوں کے لیے تاریخ کی ایک سنی سنائی داستان نہ رہا ، بلکہ حال کی ایک زندہ تصویر بن کر ان کے سامنے مجسم ہوگیا کہ کس طرح خدا اپنے فرماں برداروں پر رحمتیں اور غداروں پر عذاب نازل کرتا ہے۔
قرآن میں حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد کے نصب امامت کا واقعہ یوں بیان ہوا ہے:
’’اور (یاد کرو) جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا تو وہ اس نے پوری کردکھائیں۔ فرمایا: بے شک میں تمھیں لوگوں کا پیشوا بناؤں گا۔اس نے پوچھا: اور میری اولاد میں سے؟ فرمایا: میرا یہ عہد ان لوگوں کو شامل نہیں ہے جو ظالم ہوں گے۔‘‘ (البقرہ ۲: ۱۲۴)
اس آیت میں نہ صرف حضرت ابراہیم کے امام بنائے جانے کا بیان ہے ، بلکہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اولادِ ابراہیم کے لیے نصبِ امامت کا ضابطہ وہی ہے جو ابراہیم کے لیے تھا۔یعنی جس طرح ابراہیم کو اس کے رب نے آزمایا ، اسی طرح اولادِ ابراہیم کو بھی آزمایاجائے گا۔ جو لوگ اس امتحان میں پورے اترے ، انھیں دنیا میں عروج واقتدار نصیب ہوگا ۔ جنھوں نے ظلم و نافرمانی کی راہ اختیار کی وہ اس منصب کے حق دار نہیں۔بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل کی پوری تاریخ کا فلسفہ اسی ایک آیت میں بیان ہوگیا ہے۔ چنانچہ ہم آگے چل کر ان دونوں کی تاریخ سے یہ بات دکھائیں گے کہ عالم اسباب میں رہتے ہوئے، ان کا عروج و زوال خداسے وفاداری اور شریعت کی پاس داری سے وابستہ رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے کی روشنی میں حضرت ابراہیم کو بڑھاپے میں دو عظیم بیٹے اور پیغمبر اسمٰعیل اور اسحاق عطا کیے گئے۔ انھیں اپنے اس مقام کا بخوبی احساس تھا۔چنانچہ عقیدہ اور عمل کی سطح پرخدا سے وفاداررہنے پر اپنی اولادکو متنبہ کرنا اور خدا سے اس کے لیے دعا کر نا حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد کا خاصہ رہا ہے۔
ان میں سے چھوٹے صاحب زادے اسحاق کو کنعان (موجودہ فلسطین) کے علاقے میں آباد کیا گیا اور پہلے انھی کی اولاد کو منصب امامت سے سرفراز کیا گیا۔جبکہ بڑے بیٹے حضرت اسماعیل کو اللہ کے حکم کے مطابق مکہ کی وادی غیر ذی زرع میں ان کی والدہ محترمہ ہاجرہ کے ہمرا ہ آباد کردیاگیا۔ اس موقع پر جو شان دار دعا حضرت ابراہیم نے فرمائی ، وہ اس بات کا بھی اظہار ہے کہ آپ کی ذریت کا اصل مشن توحید سے عقیدہ اور عمل کی سطح پر وفاداری اور اس کی بنیاد پر ایک خدا پرستانہ معاشرے کا قیام ہے اور جو لوگ اس ضمن میں آپ کی پیروی نہیں کریں گے ، ان کا آپ سے کوئی تعلق نہیں:
’’اور (یاد کرو) جب ابراہیم نے دعا کی: اے میرے رب ،اس سرزمین کو پرامن بنا اور مجھ کو اور میری اولاد کو اس بات سے محفوظ رکھ کہ ہم بتوں کو پوجیں۔ اے میرے رب، ان بتوں نے لوگوں میں سے ایک خلق کثیر کو گمراہ کررکھا ہے تو جو میری پیروی کرے ، وہ مجھ سے ہے۔ اور جو میری نافرمانی کرے تو تو بخشنے والا مہربان ہے۔اے میرے رب، میں نے اپنی اولاد میں سے ایک بن کھیتی کی وادی میں تیرے محترم گھر کے پاس بسایا ہے۔اے میرے رب، تاکہ وہ نماز کا اہتمام کریں ۔ تو تو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کردے اور ان کو پھلوں کی روزی عطا فرما تاکہ وہ تیرا شکر ادا کریں۔ اے میرے رب، تو جانتا ہے جو ہم پوشیدہ رکھتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں۔ اور اللہ سے کوئی چیز بھی مخفی نہیں نہ زمین میں اور نہ آسمان میں۔ شکر ہے اس اللہ کے لیے جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق عطا فرمائے۔ بے شک میرا رب دعا کا سننے والا ہے۔اے میرے رب، مجھے نماز کا اہتمام کرنے والا بنااور میری اولاد میں سے بھی۔ اے میرے رب، اور میری دعا قبول فرما ۔‘‘(ابراہیم ۱۴: ۳۵ ۔ ۴۱)
امامت کے اس منصب کا مطلب خدا کی کسی قوم سے خصوصی قرابت نہیں کہ ہر حال میں اس قوم کی مدد کرے ، بلکہ یہ پورا معاملہ آزمایش کے اصول پر کیا گیا تھا۔چنانچہ نزول قرآن کے وقت خدا نے یہ واضح کردیا کہ نافرمانی کی صورت میں وہ ماضی میں عذاب دینے میں کبھی جھجکا ہے اور نہ مستقبل میں جھجکے گا۔ بنی اسمٰعیل اور بنی اسرائیل ، دونوں کو مخاطب کرکے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ نہ تمھاری آرزووں سے کچھ ہونے کا ہے نہ اہل کتاب کی۔ جو کوئی برائی کرے گا ، اس کا بدلہ پائے گا اور وہ اپنے لیے اللہ کے مقابل کوئی کارساز اور مددگار نہیں پائے گا۔ ‘‘ (النساء ۴: ۱۲۳)
سورۂ بنی اسرائیل (۱۷) میں بنی اسرائیل کے عروج و زوال کی داستان بیان کی گئی اور اسے ان کے اعمال سے منسوب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا:
’’ اور ہم نے بنی اسرائیل کو اپنے اس فیصلہ سے کتاب میں آگاہ کردیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فساد مچاؤگے اور بہت سراٹھاؤگے ۔پس جب ان میں سے پہلی بار کی میعاد آئی تو ہم نے تم پر اپنے زورآور بندے مسلط کردیے تو وہ گھروں میں گھس پڑے اور شدنی وعدہ پورا ہوکر رہا۔ پھرہم نے تمھاری باری ان پر لوٹائی اور تمھاری مال و اولاد سے مدد کی اور تمھیں ایک کثیر التعداد جماعت بنادیا۔اگر تم بھلے کام کروگے تو اپنے لیے اور اگر برے کام کروگے تو بھی اپنے لیے۔پھر جب دوسرے وعدہ کا وقت آیا (تو ہم نے تم پر اپنے زور آور بندے مسلط کردیے)تاکہ تمھارے چہرے بگاڑ دیں اور تاکہ وہ مسجد میں گھس پڑیں جس طرح پہلی بار گھس پڑے تھے اور تاکہ جس چیز پران کا زور چلے اسے تہس نہس کرڈالیں۔ کیا عجب کہ تمھارا رب تم پر رحم فرمائے۔ اور اگر تم پھر وہی کروگے تو ہم بھی وہی کریں گے۔ ‘‘ (بنی اسرائیل۱۷: ۴ ۔ ۸)
بنی اسرائیل کے بعد بنی اسماعیل کو منصب امامت پر فائز کیا گیا اور انھیں بتادیا گیا کہ ایسا نہیں ہے کہ بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل کے بعد خدا کے پاس اور لوگ نہیں بچے کہ وہ ہر حال میں ان کے نازنخرے اٹھاتا رہے گا۔ فرمایا:
’’ ایمان والو، جو تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا( تو اللہ کو کوئی پروا نہیں)، وہ جلد ایسے لوگوں کو اٹھائے گا جن سے وہ محبت کرے گا اور وہ اس سے محبت کریں گے، وہ مسلمانوں کے لیے نرم مزاج اور کافروں کے لیے سخت ہوں گے، اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرو انہ کریں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے ، وہ جس کو چاہے بخشے گا۔ اور اللہ بڑی سماعی رکھنے ولا اور علم والا ہے۔‘‘ (المائدہ ۵: ۵۴)
اس تنبیہ کے ساتھ خدا سے وفاداری کی صورت میں حکومت و اقتدار کا وعدہ بنی اسماعیل سے اس طرح کیا گیا:
’’تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے عمل صالح کیے، ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو زمین میں اقتدار بخشے گا، جیسا کہ ان لوگوں کو اقتدار بخشا جو ان سے پہلے گزرے، اور ان کے لیے ان کے اس دین کو متمکن کرے گاجس کو ان کے لیے پسندیدہ ٹھیرایا، اور ان کی اس خوف کی حالت کے بعد اس کو امن سے بدل دے گا۔ وہ میری ہی عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہ ٹھیرائیں گے۔ اور جو اس کے بعد کفر کریں گے تو درحقیقت وہی لوگ نا فرمان ہیں۔‘‘(النور ۲۴: ۵۵)
قرآن کے ابتدائی حصہ میں موجود سورۂ بقرہ وہ مقام ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے امامت کے منصب سے ان دونوں امتوں کے نصب وعزل کی کہانی اور خدا سے وفاداری کے اس میثاق کاتذکرہ کیا ہے جو ان دونوں سے لیا گیا۔ابتدائی تمہید کے بعد سورہ کے ابتدائی حصے میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو مخاطب کیا اور اس عہد کی پاس داری کی طرف انھیں متوجہ کیا جو وہ خدا سے کرچکے ہیں۔فرمایا:
’’اے بنی اسرائیل، یاد کرو میری اس نعمت کو جو میں نے تم پر کی اور میرے عہد کو پورا کرومیں تمھارے عہد کو پورا کروں گا اور مجھی سے ڈرو۔‘‘ (البقرہ ۲: ۴۰)
اس کے بعد ان کی تاریخ کے بعض اہم واقعات کے حوالے سے ان پر فرد جرم عائد کی گئی ہے۔ اسی تذکرے میں بنی اسرائیل کے دوسرے جرائم کے علاوہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل سے متعدد عہد لیے گئے تھے ، مگر وہ ہر دفعہ عہد شکن ثابت ہوئے۔ ان میں سے خصوصاََ شریعت کی پاس داری کا عہد بڑے غیر معمولی حالات میں لیا گیا تھا:
’’اور (یاد کرو) جب کہ ہم نے تم سے عہد لیااور تمھارے اوپر طور کو اٹھایا( اور حکم دیا کہ ) جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے ، اس کو مضبوطی کے ساتھ پکڑو اور سنو(اورمانو)۔ انھوں نے کہا : ہم نے سنا اور نافرمانی کی۔‘‘ (البقرہ ۲: ۹۳)
ان کے اس جواب ’سمعنا و عصینا ‘ کے مقابلے میں ہم آگے چل کر ایسے ہی میثاق کے موقع پر بنی اسماعیل کا جواب بھی نقل کریں گے جو اس کے بالکل متضاد ہوگا۔پھراس سورہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ امامت کا منصب اصل میں سیدناابراہیم کو دیا گیا تھااورابراہیم و اسماعیل کی نسل سے ایک امت مسلمہ کی بعثت پہلے سے ہی اللہ تعالیٰ کی اسکیم میں شامل تھی ۔اب یہ منصب بنی اسرائیل سے ان کی نافرمانی کے نتیجے میں سلب کیا جارہا ہے اور آل ابراہیم کی دوسری شاخ یعنی بنی اسماعیل میں منتقل کیا جارہا ہے، جنھوں نے توحید کی دعوت کو قبول کرلیا ہے۔تحویل قبلہ کا حکم (یعنی بیت المقدس سے بیت اللہ کو قبلہ بنانے کا حکم) اس کی علامت تھی جس کے فوراََ بعد بنی اسماعیل کو اس منصب پر فائز کرنے کا اعلان ان الفاظ میں کیا گیا ہے:
’’ اور اسی طرح (یعنی جس طرح ہم نے بنی اسرائیل کو اس منصب پر فائز کیا تھا)ہم نے تمھیں ایک بیچ کی امت بنایاتاکہ تم لوگوں پر گواہی دینے والے بنو اور رسول تم پر گواہی دینے والابنے۔‘‘ (البقرہ ۲: ۱۴۳)
یہ بات زیادہ صراحت سے سورۂ حج (۲۲) آیات ۷۵ ۔ ۷۸ میں بیان ہوئی ہے۔اس کے بعد سورہ کے آخر تک شریعت کے احکامات دیے گئے ہیں تاکہ اس خدا پرستانہ معاشرہ کی بنیادیں دنیا کے سامنے آجائیں۔ سورہ کے آخر میں شریعت سے پاس داری کے ان کے اقرار کا بیان اس طرح ہے:
’’رسول ایمان لایااس چیز پر جو اس پر اس کے رب کی طرف سے اتاری گئی اور مومنین بھی۔ یہ سب ایمان لائے اللہ پر ، اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں پر، اور اس کے رسولوں پر۔ (ان کا اقرار ہے کہ ) ہم خدا کے رسولوں میں کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے ۔ اور کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔‘‘ (البقرہ ۲: ۲۸۶)
صحابۂ کرام نے بنی اسرائیل کے ’سمعنا و عصینا ‘ کے برعکس ’سمعنا واطعنا ‘کے الفاظ کہے۔ یہی وہ الفاظ اور عہد ہے جس کی یاددہانی شریعت کے آخری احکامات اترتے وقت اس طرح کرائی گئی:
’’اور اپنے اوپر اللہ کے فضل کو اور اس کے اس میثاق کو یاد رکھوجو اس نے تم سے لیا جب تم نے اقرار کیا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی اور اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘ (المائدہ ۵: ۷)
ہمیں اس باب میں صرف قرآن کے حوالے سے ہی قانونِ عروج و زوال بیان کرنا تھا ، مگر مذکورہ بالا قرآنی بیانات کو تاریخی حقائق کی روشنی میں بیان کرنا بھی اپنے اندر افادیت کا پہلو رکھتا ہے ۔ خاص طور پر اس اعتبار سے کہ بنی اسرائیل کی تاریخ کے بارے میں ہمارے ہاں عام طور پر لوگوں کو آگاہی حاصل نہیں ہے۔چنانچہ ذیل میں ہم بنی اسرائیل اور بنی اسمٰعیل کی تاریخ انتہائی اختصار کے ساتھ بیان کررہے ہیں جس سے یہ بات بالکل مبرہن ہوکر سامنے آجائے گی کہ بنی اسرائیل اور اسی طرح بنی اسماعیل کا عروج و زوال خد اکی اطاعت سے مشروط رہا ہے۔جب تک انھوں نے ایسا کیا خدا نے انھیں عزت و سرفرازی نصیب فرمائی اور جب انھوں نے اس سے پہلو تہی کی تو خدائی عذاب کا کوڑا ان پر برس گیا۔
حضرت اسحاق کے بیٹے یعقوب ایک نبی تھے۔آپ کا لقب اسرائیل (خدا کا بندہ) تھا۔ اسی بناپر آپ کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔ آپ کے بارہ بیٹے تھے جن میں سے حضرت یوسف نبی تھے۔ قرآن کی سورۂ یوسف میں بالتفصیل آپ کا قصہ بیان ہوا جس میں بتایا گیا ہے کہ انھی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو مصر میں منتقل کیا جو اس وقت تہذیب انسانی کا سب سے بڑا مرکز اور شرک کا گڑھ تھا۔آپ عملاً مصر کے حاکم مطلق تھے۔اس لیے آپ کے خاندان کو وہاں غیر معمولی تکریم نصیب ہوئی۔چنانچہ ان لوگوں نے ان مقاصد کی تکمیل شروع کردی جس کے لیے ان کو چنا گیا تھا اور وہ مصر کی مشرکانہ اور اخلاق باختہ سوسائٹی میں حق کا نمونہ بن کر رہنے لگے۔تاہم انھیں مصر کی مشرکانہ تہذیب کے اثرات سے بچانے کے لیے مصریوں سے الگ تھلگ جشن کی زمین میں بسایا گیا ۔ (پیدایش ۴۷ :۶)
تاہم کئی صدیوں تک مصر کی مشرکانہ سوسائٹی میں رہنے کے بعد بنی اسرائیل میں شرک کے جراثیم سرایت کرگئے۔ اور وہ اس مقصد کو پورا کرنے کے قابل نہیں رہے کہ مصریوں پر حق کی شہادت دے سکیں۔دوسرا مسئلہ یہ ہوا کہ مصر میں اس دوران میں ایک زبردست سیاسی تبدیلی رونما ہوگئی۔ حضرت یوسف کے زمانے میں ہکساس (HYKSOS)یعنی چرواہے بادشاہوں کی حکومت تھی جوعربی النسل تھے۔ ان کے بعد قبطی قوم اقتدار پر قابض ہوگئی جس کے ساتھ بنی اسرائیل کے لیے بھی سخت وقت شروع ہوگیا۔ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو بحیثیت رسول دوطرفہ مشن کے ساتھ مبعوث فرمایا ۔ آپ کی بعثت کا ایک پہلو تو وہی تھا جو تمام رسولوں کی بعثت کا ہوا کرتا ہے۔یعنی فرعون اور اس کے حواریوں پر اتمام حجت کرنا۔ دوسرا یہ کہ بنی اسرائیل کو قبطیوں کی غلامی سے نجات دلاکر انھیں بحیثیت امت پوری دنیا کے سامنے پیش کرنا۔
حضرت موسیٰ پر ان کی قوم ایمان لے آئی ۔ فرعون پر اتمام حجت کے بعد آل فرعون کو ہلاک کردیا گیا اور بنی اسرائیل کو نہ صرف مصریوں کی غلامی سے رہائی مل گئی ، بلکہ انھیں کتاب و شریعت کی نعمت سے سرفراز کرنے اور حکومت و اقتدار پر فائز کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔یہ حضرت موسیٰ کی دعوت پر لبیک کہنے اور اس راہ میں پیش آنے والی سختیوں پر صبر کانقد انعام تھا(الاعراف ۷: ۱۳۷)۔ مصر سے نکلنے کے بعد صحراے سینا میں ان کے لیے پانی اور من و سلویٰ کا بندو بست کیا گیا۔آسمان کے بادل دھوپ سے بچانے کے لیے ان پر سایہ فگن کردیے گئے۔
اس موقع پر بہت مناسب ہوگا کہ اس عہد و پیمان کی تفصیل بیان کردی جائے جو بنی اسرائیل کو شریعت دیتے وقت لیا گیا تھا۔ اس کا ذکر استثنا میں کئی جگہ کیا گیا ہے ، تاہم باب ۲۸ میں اس کی تفصیل اس طرح کی گئی ہے:
’’ اور اگر توخداوند اپنے خدا کی بات کو جاں فشانی سے مان کر اس کے ان سب حکموں پر جو آج کے دن میں تجھ کو دیتا ہوں، احتیاط سے عمل کرے تو خداوند تیرا خدا سب قوموں سے زیادہ تجھ کو سرفراز کرے گا۔ اور اگر تو خداوند اپنے خدا کی بات سنے تو یہ سب برکتیں تجھ پر نازل ہوں گی اور تجھ کو ملیں گی۔شہر میں بھی تو مبارک ہوگا اور کھیت میں بھی مبارک ہوگا۔ تیری اولاد اور تیری زمین کی پیداوار اور تیرے چوپایوں کے بچے یعنی گائیں بیل کی بڑھتی اور تیری بھیڑ بکریوں کے بچے مبارک ہوں گے۔ تیرا ٹوکرا اور تیری کٹھوتی ، دونوں مبارک ہوں گے۔ اور تو اندر آتے وقت مبارک ہوگا اور باہر جاتے وقت بھی مبارک ہوگا۔خدا وند تیرے دشمنوں کو جو تجھ پر حملہ کریں تیرے روبرو شکست دلائے گا۔وہ تیرے مقابلہ کو توایک ہی راستہ سے آئیں گے پر سات سات راستوں سے ہوکر تیرے آگے سے بھاگیں گے۔خداوند تیرے انبار خانوں میں اور سب کاموں میں جن میں تو ہاتھ لگائے برکت کا حکم دے گا اور خداوند تیراخدا اس ملک میں جسے وہ تجھ کو دیتا ہے ، تجھے بخشے گا۔ اگر تو خداوند اپنے خدا کے حکموں کو مانے اور اس کی راہوں پر چلے تو خداوند اپنی اس قسم کے مطابق جو اس نے تجھ سے کھائی تجھ کو اپنی پاک قوم بناکر قائم رکھے گا۔ اور دنیا کی سب قومیں یہ دیکھ کر کہ تو خداوند کے نام سے کہلاتا ہے تجھ سے ڈر جائیں گی۔ اور جس ملک کو تجھ کو دینے کی قسم خداوند نے تیرے باپ دادا سے کھائی تھی ، اس میں خداوند تیری اولاد کو اور تیرے چوپایوں کے بچوں کو اور تیری زمین کی پیداوار کو خوب بڑھاکر تجھ کو برومند کرے گا۔خداوندآسمان کو جو اس کا اچھا خزانہ ہے ، تیرے لیے کھول دے گا کہ تیرے ملک میں وقت پر مینہ برسائے اور وہ تیرے سب کاموں میں جن میں تو ہاتھ لگائے برکت دے گا اور تو بہت سی قوموں کو قرض دے گا پر خود قرض نہیں لے گا۔ اور خداوند تجھ کو دم نہیں ، بلکہ سر ٹھیرائے گا اور تو پست نہیں ، بلکہ سرفراز ہی رہے گابشرطیکہ تو خداوند اپنے خدا کے حکموں کو جو میں تجھ کو آج کے دن دیتا ہوں سنے اور احتیاط سے ان پر عمل کرے۔اور جن باتوں کا میں آج کے دن تجھ کو حکم دیتا ہوں ، ان میں سے کسی سے دہنے یا بائیں ہاتھ مڑکر اورمعبودوں کی پیروی اور عبادت نہ کرے۔
لیکن اگر تو ایسا نہ کرے کہ خداونداپنے خدا کی بات سن کر اس کے سب احکام اور آئین پر جو آج کے دن میں تجھ کو دیتا ہوں احتیاط سے عمل کرے تو یہ سب لعنتیں تجھ پر نازل ہوں گی اور تجھ پر لگیں گی۔ شہر میں بھی تو لعنتی ہوگا اور کھیت میں بھی تو لعنتی ہو گا۔تیرا ٹوکرا اور تیری کٹھوتی دونوں لعنتی ٹھیریں گے۔ تیری اولاد اور تیری زمین کی پیداوار اور تیرے گائیں بیل کی بڑھتی اور تیری بھیڑ بکریوں کے بچے لعنتی ہوں گے۔ تو اندر آتے لعنتی ٹھیرے گا اور باہر جاتے بھی لعنتی ٹھیرے گا۔ خداوند ان سب کاموں میں جن کو تو ہاتھ لگائے لعنت اور اضطراب اور پھٹکار کو تجھ پر نازل کرے گا ، جب تک کہ تو ہلاک ہوکر جلد نیست و نابود نہ ہوجائے۔ یہ تیری ان بد اعمالیوں کے سبب سے ہوگا جن کو کرنے کی وجہ سے تو مجھ کو چھوڑدے گا۔ خداوندایسا کرے گا کہ وبا تجھ سے لپٹی رہے گی۔ جب تک کہ وہ تجھ کو اس ملک سے جس پر قبضہ کرنے کو تو وہاں جا رہا ہے فنا نہ کردے۔خداوند تجھ کو تپ دق اور بخار اور سوزش اور شدید حرارت اور تلوار اور بادِ سموم اور گیروئی سے مارے گا اور یہ تیرے پیچھے پڑے رہیں گے ، جب تک کہ تو فنا نہ ہوجائے۔ اور آسمان جو تیرے سر پر ہے پیتل کا اور زمین جو تیرے نیچے ہے لوہے کی ہوجائے گی۔ خدا وند مینہ کے بدلے تیری زمین پر خاک و دھول برسائے گا یہ آسمان سے تجھ پر پڑتی ہی رہیں گی ، جب تک کہ تو ہلاک نہ ہوجائے ۔ خداوند تجھ کو تیرے دشمنوں کے آگے شکست دلائے گا۔ تو ان کے مقابلے کے لیے تو ایک ہی راستہ سے جائے گا اور ان کے سامنے سے سات سات راستوں سے ہوکر بھاگے گا اور دنیا کی تمام سلطنتوں میں تو مارا مارا پھرے گا۔اور تیری لاش ہوا کے پرندوں اور زمین کے درندوں کی خوراک ہوگی اور کوئی ان کو ہنکا کر بھگانے کو بھی نہ ہوگا ... اور تو اپنے سب دھندوں میں ناکام رہے گااور تجھ پر ہمیشہ ظلم ہی ہوگا اور تو لٹتا ہی رہے گا اور کوئی نہ ہوگا جو تجھ کو بچائے۔ عورت سے منگنی تو تو کرے گااور دوسرا اس سے مباشرت کرے گا۔ تو گھر بنائے گا پر اس میں بسنے نہ پائے گا۔ تو تاکستان لگائے گا اور اس کا پھل استعمال نہ کرے گا ... تیرے بیٹے اور بیٹیاں دوسری قوم کو دی جائیں گی اور تیری آنکھیں دیکھیں گی اور سارے دن ان کے لیے ترستی رہ جائیں گی ... اگر تو اس شریعت کی ان سب باتوں پر جو اس کتاب میں لکھی ہیں احتیاط رکھ کر اس طرح عمل نہ کرے کہ تجھ کو خداوند اپنے خدا کے جلالی اور مہیب نام کا خوف ہو تو خداوند تجھ پر عجیب آفتیں نازل کرے گا اور تیری اولاد کی آفتوں کی بڑھاکر اور بڑی اور دیرپا آفتیں اور سخت اور دیر پا بیماریاں کردے گا۔‘‘(استثنا : ۲۸)
بنی اسرائیل کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خدا سے وفاداری اور شریعت کی پاس داری کے اس عہد کی آخری درجہ میں پابندی کی ہے۔جب جب انھوں نے غداری و سرکشی کی تو ان پر بدترین عذاب مسلط کردیے گئے اور وفاداری کی صورت میں ان پر انعام و اکرام کے دروازے کھول دیے گئے۔ سورۂ بقرہ کے آغاز میں بنی اسرائیل کو سزا و جزا کی یہی داستان سنائی گئی ہے۔
اس داستان کا آغاز حضرت موسیٰ کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا۔آپ کے زمانے میں ان پر انعام و اکرام کا معاملہ تو اوپر بیان ہوگیا کہ نہ صرف فرعون سے انھیں نجات دلائی گئی ، بلکہ صحرا میں ان کے کھانے پینے اور ان پر سائے کے لیے غیر معمولی انتظامات کیے گئے۔تاہم جب حضرت موسیٰ کوہِ طور پر گئے اور ان کے پیچھے بنی اسرائیل بچھڑے کو خدا بنابیٹھے تو انھیں اس جرم پر شدید عذاب دیا گیا ۔ اس طرح کہ تمام مجرموں کو ان کے ہم قبیلہ اور خاندان کے لوگوں نے قتل کیا (البقرہ ۲: ۵۴، خروج ۳۲: ۲۵ ۔۳۰)۔اسی طرح جب انھوں نے جہا د پر جانے کے حضرت موسیٰ کے حکم کے معاملے میں بزدلی دکھائی تو فلسطین کی زمین چالیس سال کے لیے ان پر حرام کرکے صحرا میں بھٹکنے کے لیے چھوڑدیا گیا۔(المائدہ ۵: ۲۶)۔
حضرت موسیٰ کے جانشین حضرت یوشع بن نون ہوئے اور ان کے زمانے میں بنی اسرائیل نے شام و فلسطین کو فتح کر لیا۔ یوں خدا کا وہ وعدہ ان کے حق میں پورا ہوا جو اس مقدس سرزمین کے بارے میں ان سے کیا گیا تھا(یشوع ۱:۱ ۔ ۶) ۔ تاہم اس کا اصل مقصد یہ تھا کہ اس زمانے تک مصر کے زوال کا عمل تیزی سے شروع ہوچکا تھا ۔جبکہ فلسطین کا علاقہ تہذیب انسانی کا مرکز بن رہا تھا اور یہاں کی اقوام گردن تک شرک کی دلدل میں دھنسی ہوئی تھیں۔چنانچہ بنی اسرائیل کی شکل میں ایک خدا پرست قوم کو ان کے درمیان آباد کردیا گیا۔ یہ وہی معاملہ تھا جو پہلے مصر میں کیا گیا تھا۔اس دوران میں ان کی رہنمائی کے لیے نبی ان میں آتے رہے اور ان کے اجتماعی امور کی نگرانی قاضی کیا کرتے تھے، مگر صدیوں کے تعامل کے بعد ایک دفعہ پھر وہی کچھ ہونے لگا جو مصر میں ہوا تھا یعنی ایک طرف تو بنی اسرائیل میں شرک کے اثرات تیزی سے سرائیت کرنے لگے (قضاۃ ۲: ۱۱ ۔ ۱۳) اور دوسری طرف بنی اسرائیل سیاسی طور پر مغلوب ہونے لگے ۔ ان کے ارد گرد آباد مشرک اقوام نے متحد ہوکر ان پرحملے شروع کردیے اور فلسطین کے بڑے حصے سے انھیں بے دخل کردیا۔ اس پر بنی اسرائیل میں جہاد کا داعیہ پیدا ہوا اور انھوں نے اس دور کے نبی حضرت سموئیل سے درخواست کی کہ ان کے لیے ایک بادشاہ مقرر کردیا جائے تاکہ وہ بھی قومی حیثیت میں مشرکوں کا مقابلہ کرسکیں۔ان کی درخواست پر ا ن کے لیے طالوت کو بادشاہ مقرر کردیا گیا۔ان کی تمام تر کمزوریوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی اور طالوت کی زیر قیادت انھوں نے مشرکوں کو شکست دے کر اپنا اقتدار قائم کرلیا (البقرہ ۲: ۲۴۱ ۔۲۵۱)۔ یہیں سے بنی اسرائیل کی تاریخ کا سب سے روشن باب شروع ہوتا ہے جب طالوت کے بعد سیدنا داؤد اور پھر سیدنا سلیمان کے زمانے میں بنی اسرائیل کے اقتدار کا سکہ پورے مشرقِ وسطیٰ جو کہ اس دور کی تہذیب کا مرکز تھا پر چلنا شروع ہوگیا۔ اس دور میں بنی اسرائیل کے اقتدار کا کیا عالم تھا اور کس طرح توحید کی بنیاد پر قائم اس معاشرے نے ارد گرد کے مشرکوں پر اپنا اقتدار قائم کرلیا تھا ، اس کا ایک نمونہ وہ واقعہ ہے جو ملکۂ سبا اور حضرت سلیمان کے حوالے سے سورۂ نمل (۲۷) آیات۱۵ ۔ ۴۴ میں مذکور ہے۔یہ زمانہ ۱۰۰۰ق م کے لگ بھگ کا ہے۔
تاہم حضرت سلیمان کے بعد چند صدیوں کے اندر اندر بنی اسرائیل میں وہ تمام برائیاں پیدا ہوگئیں جن کے خلاف انھیں جنگ کرنا تھی۔ آنجناب کی عظیم حکومت دو ریاستوں یہودیہ اور اسرائیل میں تقسیم ہوگئی۔اس دوران میں کثرت کے ساتھ نبیوں نے بنی اسرائیل کو ان کی غلط روی پر متنبہ کیا ، مگربے سود۔ آخر کار خدائی عذاب کا کوڑا بنی اسرائیل پر برس پڑا۔ پہلے ریاست اسرائیل آشوریوں کے حملوں میں برباد ہوگئی۔ ۷۲۱ق م میں اشوری حکمران سارگون نے اس کے دارالحکومت سامریہ کو فتح کرلیا ۔دووسری طرف ۵۸۷ ق م میں یہودیہ کی ریاست کے تمام شہر بابل کے حکمران بخت نصر کے حملے میں برباد ہوگئے۔ یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی اور ہیکل سلیمانی کو زمین بوس کردیا گیا۔ اور بخت نصر بنی اسرائیل کو غلام بناکر بابل لے گیا۔
یہ بنی اسرئیل کے فساد کے جواب میں خدا کی پہلی عظیم سزا تھی جس کا تذکرہ سورۂ بنی اسرائیل (۱۷) آیات ۴ ۔۸ میں کیا گیا ہے۔ اس کے بعد خدا نے ان کے حال پر مہربانی کی ۔ایرانی حکمران سائرس نے انھیں بابل کی غلامی سے نجات دلائی اور واپس فلسطین آنے کی اجازت دی۔ ہیکل کی دوبارہ تعمیر ہوئی اورحضرت عزیر کی رہنمائی میں بنی اسرائیل کے دین کی ایک دفعہ پھر تجدید کی گئی۔ ان کی تجدیدکی مساعی اس قدر موثر تھی کہ اس واقعہ کے تین صدی بعد بھی جب یونانی حکمرانوں نے بنی اسرائیل پر شرک مسلط کرنا چاہا تو انھوں نے بھرپور مزاحمت کی اور آخر کار ان کو فلسطین سے باہر نکال دیا۔ انعام کے طور پر خدا نے ان کی سلطنت کو اتنا وسیع کردیا کہ اس کا علاقہ حضرت سلیمان کے دورِ اقتدار سے بھی بڑھ گیا۔تاہم ایک صدی کے اندر یہ اخلاقی روح فنا ہوتی چلی گئی۔جس کے نتیجے میں خدانے رومیوں کو ان پر مسلط کردیا اور رومی فاتح پومپی نے ۶۳ ق م میں یروشلم پر قبضہ کرکے ان کے اقتدار کا خاتمہ کردیا اور بالواسطہ رومی حکومت قائم کردی۔ اس عرصہ میں بنی اسرائیل کا زوال اپنی انتہاؤں کو پہنچ رہا تھاجس کا اظہار اینٹی پاس نا می یہودی حکمران کے دربار میں ایک رقاصہ کی فرمایش پر سیدنا یحیےٰ کے قتل سے ہوا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بحیثیت امت آخری مہلت کے طور پر بنی اسرائیل میں حضرت عیسیٰ جیسے جلیل القدر رسول کو مبعوث فرمایا۔ انھوں نے آخری درجہ میں بنی اسرائیل کو تنبیہ کی ،مگر حبِ دنیا اور ظاہر پرستی کے پھندوں میں گرفتار بنی اسرائیل نہ صرف یہ موقع گنوابیٹھے ، بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر انھوں نے آپ کے قتل کی سازش کرڈالی۔اللہ تعالیٰ نے اس آفتاب رسالت کو اٹھالیااور اس جرم عظیم کی پاداش میں بنی اسرائیل کو منصب امامت سے معزول کرکے ایک زبردست سزا دینے کا فیصلہ کیا ۔ چنانچہ اس واقعہ کے تھوڑے عرصے بعد یہودیوں نے رومیوں کے خلاف بغاوت کی جسے فرو کرنے کے لیے رومی حکمران ٹیٹس نے یروشلم پر حملہ کرکے پوری آبادی کو تہس نہس کرڈالا۔ اوریہودیوں کو اس طرح فلسطین سے نکالا کہ وہ دو ہزار سال تک یہاں واپس نہ لوٹ سکے۔
بنی اسرائیل کی تقریباََ ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ کا یہ ایک انتہائی مختصر بیان ہے جو نہ صرف اس بات پر گواہ ہے کہ کس طرح وہ دنیا میں امامت کے منصب پر فائز رہے ، بلکہ تاریخ کے اس آئینے میں یہ بات بھی صاف نظر آتی ہے کہ ان کے عروج و زوال کا تمام تر انحصار صرف اس بات پر تھا کہ وہ کس حد تک خدا کے ساتھ کیے گئے اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں۔
[باقی]
____________