بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ )
اَلَمْ تَرَاِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ، وَھُمْ اُلُوْفٌ، حَذَرَ الْمَوْتِ. فَقَالَ لَھُمُ اللّٰہُ: مُوْتُوْا، ثُمَّ اَحْیَاھُمْ، اِنَّ اللّٰہَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْکُرُوْنَ.(۲۴۳)
وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ.(۲۴۴) مَنْ ذَاالَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا، فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً، وَاللّٰہُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُطُ، وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ. (۲۴۵)
(یہ مباحث جہادو انفاق کے بارے میں تمھار ے سوالوں سے پیدا ہوئے تھے۔ ایمان والو، اِن کا حکم تم پر شاق نہ ہوناچاہیے)۔ کیا تم نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا ۶۳۴ جو ہزاروں کی تعداد میں تھے اور موت کے ڈر سے اپنے گھر چھوڑکر اُن سے نکل کھڑے ہوئے۔ ۶۳۵ اِس پر اللہ نے فرمایا کہ مردے ہوکر جیو۔ ۶۳۶ (وہ برسوں اِسی حالت میں رہے ۶۳۷)، پھر اللہ نے اُنھیں دوبارہ زندگی عطا فرمائی ۶۳۸۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اللہ لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے، مگر لوگوں میں زیادہ ہیں جو (اُس کے) شکر گزار نہیں ہوتے ۶۳۹۔ ۲۴۳
(ایمان والو، اِس سے سبق لو) اور اللہ کی راہ میں جنگ کرو ا ور خوب جان رکھو کہ اللہ سمیع و علیم ہے ۶۴۰۔ کون ہے جو (اِس جنگ کے لیے) اللہ کو قرض دے گا، اچھا قرض کہ اللہ اُس کے لیے اُسے کئی گنا بڑھا دے ۶۴۱۔ اور اللہ ہی ہے جو تنگی بھی کرتا ہے اور فراخی بھی۔ (اِس لیے جوکچھ ملاہے، یہ اُسی کی عنایت ہے) اور تم کو (ایک دن) اُسی کی طرف لوٹنا بھی ہے ۶۴۲۔ ۲۴۴۔۲۴۵
۶۳۴؎ اصل میں ’الم تر‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ واحد سے جمع کو خطاب کرنے کا یہ اسلوب اس وقت اختیار کیا جاتا ہے، جب کسی گرو ہ کے ہر شخص کو فرداً فرداً مخاطب کرنا پیش نظر ہوتا ہے۔ اس میں ’الم تر‘کے معنی لازماً یہ نہیں ہوتے کہ مخاطبین نے واقعہ آنکھوں سے دیکھاہے۔ کسی واقعہ کی شہرت عام ہو یا متکلم یہ سمجھتاہو کہ اس کی صداقت ایسی مسلم ہے کہ اس میں شبے کی کوئی گنجایش نہیں ہو سکتی تو وہ یہ اسلوب اختیار کر سکتا ہے ۔
۶۳۵؎ یہ اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے، جب فلستیوں نے بنی اسرائیل پر چڑھائی کرکے ان کا قتل عام کیا اور ان سے عہد کا وہ صندوق چھین لیا جس کی حیثیت ان کے ہاں بالکل قبلہ کی تھی۔ بائیبل میں ہے:
”اور فلستی لڑے اور بنی اسرائیل نے شکست کھائی اور ہر ایک اپنے ڈیرے کو بھاگا ا ور وہاں نہایت بڑی خون ریزی ہوئی کیونکہ تیس ہزار اسرائیلی پیادے وہاں کھیت آئے اورخدا کا صندوق چھن گیا۔“ (سموئیل ۴: ۱۰۔ ۱۱)
اس واقعے کی جو تفصیلات سموئیل باب ۷ اور ۱۱میں بیان ہوئی ہیں، ان سے معلوم ہوتاہے کہ بنی اسرائیل اگرچہ تین لاکھ سے زیادہ تھے، مگر اپنی مذہبی واخلاقی حالت کی خرابی اورسیاسی ابتری کے باعث فلستیوں کا مقابلہ نہیں کرسکے اور عقرون سے لے کر جات تک اپنے شہر خالی کر کے ان کے حوالے کرنے پر مجبور ہو گئے۔
۶۳۶؎ اصل میں لفظ ’موتوا‘ آیا ہے، یعنی مر جاؤ۔ یہ قومی حیثیت سے ذلت اور نامرادی کی تعبیر ہے۔ ذریت ابراہیم کے معاملے میں اللہ کا قانون یہی تھا کہ ان کے جرائم کی سزا انھیں دنیا ہی میں دی جائے گی۔ چنانچہ جب ایمان اور عمل صالح کے بجائے انھوں نے اخلاقی بے راہ روی اور خوف و بز دلی کی زندگی اختیار کی اور اس طرح اللہ کے ساتھ نقض عہد کے مرتکب ہوئے تو اس کی سزا کے طور پر اللہ نے بھی انھیں ذلت و نامرادی کے حوالے کر دیا۔
۶۳۷؎ سموئیل میں ہے کہ بنی اسرائیل پر یہ حالت پورے بیس سال تک طاری رہی:
”اور جس دن سے صندوق قریت یعریم میں رہا، تب سے ایک مدت ہوگئی، یعنی بیس برس گزرے اور اسرائیل کاساراگھرانا خداوندکے پیچھے نوحہ کرتا رہا۔“ (۷: ۲)
۶۳۸؎ یہ زندگی اسی قانون کے مطابق دی گئی جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ بنی اسرائیل نے توبہ استغفار کرکے ازسرنو ایمان واسلام کی راہ اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے بھی اس کے صلے میں انھیں قومی حیثیت سے از سر نو زندہ کردیا اور دشمنوں کے مقابلے میں عزت اور سربلندی عطا فرمائی۔ سموئیل میں ہے:
”اور سموئیل نے اسرائیل کے سار ے گھرانے سے کہا کہ اگر تم اپنے سارے دل سے خداوند کی طرف رجوع لاتے ہو تو اجنبی دیوتاؤں اور عستارات کو اپنے بیچ سے دور کرو اور خداوند کے لیے اپنے دلوں کو مستعد کر کے فقط اسی کی عبادت کرو ، اوروہ فلستیوں کے ہاتھ سے تمھیں رہائی دے گا۔تب بنی اسرائیل نے بعلیم او رعستارات کو دور کیا اور فقط خداوند کی عبادت کرنے لگے“۔(۷: ۳۔۴)
”سو فلستی مغلوب ہوئے اور اسرائیل کی سرحد میں پھر نہ آئے اور سموئیل کی زندگی بھر خداوند کا ہاتھ فلستیوں کے خلاف رہا اور عقرون سے جات تک کے شہر جن کو فلستیوں نے اسرائیلیوں سے لے لیا تھا، وہ پھر اسرائیلیوں کے قبضے میں آئے او ر اسرائیلیوں نے ان کی نواحی بھی فلستیوں کے ہاتھ سے چھڑالی۔“(۷: ۱۳۔ ۱۴)
۶۳۹؎ اس میں بنی اسمٰعیل کے لیے تشویق ہے کہ اگر وہ بھی جہادو انفاق کی دعوت قبول کریں گے تو اللہ ذریت ابراہیم کے ساتھ اپنے وعدے کے مطابق ان پر فضل فرمائے گا اور انھیں عروج و سربلندی سے سرفراز کرے گا۔ اسی طرح تنبیہ بھی ہے کہ اگر وہ موت سے ڈر گئے اور انھوں نے اپنے لیے ذلت و نامرادی کو پسند کیا تو اسی وعدے کے مطابق ان پر بھی یہی موت طاری ہو کر رہے گی۔
۶۴۰؎ ان صفات کا حوالہ دینے سے مقصود، استاذ امام کے الفاظ میں یہاں اس کا لازم ہے۔ یعنی جب اللہ سنتا اور جانتا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ تمھاری پکارپر تمھار ی مددبھی فرما ئے گا اور تمھاری جاں بازیوں کا بھرپور صلہ بھی دے گا۔
۶۴۱؎ یہ اللہ کی راہ میں جنگ کے لیے غایت درجہ موثر اور نہایت شوق انگیز اسلوب میں مالی قربانی کی دعوت ہے۔ استاذامام اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
”قرض قرض دار کے ذمے واجب ہوتا ہے اور یہ رب کریم کا کتنا بڑا احسان ہے کہ جو مال اس نے خود بندوں کو عنایت فرمایا ہے، وہی مال وہ جب ان سے اپنی راہ میں خرچ کرنے کے لیے کہتا ہے تو اس کو اپنے ذمے قرض ٹھیراتا ہے، یعنی اس کی واپسی ازخود اپنے ذمے واجب قرار دیتاہے۔ پھر اس سے زیادہ روح و دل کو بے خود کردینے والی بات یہ ارشاد ہو ئی کہ رب کریم یہ قرض اس لیے مانگتا ہے کہ وہ بندوں کو دیے ہوئے خزف ریزوں کو خوب بڑھائے اوران کو بڑھا کر ایک لازوال خزانے کی شکل میں ان کو واپس کرے۔ یعنی اس قرض کی ضرورت اس لیے نہیں پیش آئی ہے کہ خدا کے خزانے میں کوئی کمی واقع ہوگئی ہے ، اس کا خزانہ بھرپور اور وہ بالکل بے نیاز و بے پروا ہے، البتہ اس کی کریمی نے اپنے بندوں کے لیے نفع کمانے کی یہ راہ کھولی ہے کہ اگر وہ چاہیں تو ایک خرچ کرکے دس گنے سے لے کر سات سو گنے تک اس کا اجر حاصل کر لیں۔“ (تدبر قرآن ۱/ ۵۶۷)
اس قرض کے متعلق اچھا قرض ہونے کی جو شر ط لگائی ہے، اس کی وضاحت میں انھوں نے لکھا ہے:
”قرض حسن کا مفہوم قرآن کے دوسرے مواقع سے جو نکلتا ہے، وہ یہ ہے کہ یہ دل کی تنگی کے ساتھ محض چھدا اتارنے کے لیے نہ دیا جائے ،بلکہ پوری فراخ دلی اور حوصلے کے ساتھ دیا جائے، ریا اور نمایش کے لیے نہ دیا جائے، بلکہ صرف خداکی خوش نودی کے دیا جائے، کسی دنیوی طمع کے حصول کی غرض سامنے رکھ کرنہ دیا جائے، بلکہ صرف آخرت کے اجر کی خاطر دیا جائے اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ حقیر، کم وقعت اور ناجائزذرائع سے حاصل کیے ہوئے مال میں سے نہ دیا جائے، بلکہ محبوب، عزیز ا ور پاکیزہ کمائی میں سے دیا جائے۔“(تدبر قرآن ۱/ ۵۶۷)
۶۴۲؎ مطلب یہ ہے کہ تم اگر اپنا مال خدا کی راہ میں نہیں دیتے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اسی کو نہیں دیتے جو بخشنے کے بعد، جب چاہے چھین بھی سکتا ہے اورجس کا معاملہ اسی دنیاتک نہیں رہ جانا، بلکہ کل آخرت میں جسے منہ بھی دکھانا ہے۔
[باقی]
__________