(مشکوٰۃ المصابیح ، حدیث :۱۱۰۔۱۱۱)
عن مطر بن عسکام قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم إذا قضی لعبد أن یموت بأرض جعل لہ ألیہ حاجۃ.
ٌٌ’’حضرت مطر بن عسکام بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے لیے طے کر دیتے ہیں کہ وہ کسی علاقے میں وفات پائے تو اس کے لیے وہاں ایک ضرورت پیدا کر دیتے ہیں۔‘‘
قضی : یہ فعل فیصلہ کرنے، طے کرنے اورپورا کرنے کے معنی میں آتا ہے ۔ یہاں یہ پہلے معنی میں آیا ہے۔
بأرض : ’أرض‘ کا لفظ پورے کرۂ ارض، کسی خطۂ ارض اور رقبے کے معنی میں آتا ہے۔ یہاں اس سے دوسرے معنی مراد ہیں۔
حاجۃ: اس کے لغوی معنی تو ضرورت کے ہیں، لیکن یہاں یہ اس سے وسیع مفہوم یعنی سبب کے معنی میں آیا ہے ۔
یہ روایت متداول کتب حدیث میں سے صرف ترمذی اور مسند احمد میں روایت ہوئی ہے۔ صاحب مشکوٰۃ نے یہ روایت ترمذی سے لی ہے۔ مسند احمد کے متون کے الفاظ قدرے مختلف ہیں ، لیکن معنی و مفہوم میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا، مثلاً ایک متن میں ’ إذا قضی لعبد أن یموت بأرض‘ کے بجائے ’إذا قضی اﷲ میتۃ عبد بأرض‘ اور دوسرے متن میں ’لایقدر لأحد یموت بأرض إلا حببت إلیہ ‘کے الفاظ آئے ہیں۔ اسی طرح ایک متن میں ’عبد ‘ کی جگہ ’رجل ‘کا لفظ نقل ہوا ہے۔
معنی
یہ روایت موت کے بارے میں تقدیر کے عمل دخل کو بیان کرتی ہے۔ ہم یہ بات اس باب کی روایات کی وضاحت میں بیان کر چکے ہیں کہ موت ان امور میں سے ہے جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے طے کر دیا گیا ہے۔ اس روایت میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ موت کی جگہ بھی تقدیر میں طے ہوتی ہے۔ اگر آدمی موت سے پہلے مقام مطلوب سے دور بھی ہو تو اسے مختلف اسباب پیدا کرکے وہاں پہنچا دیا جاتا ہے۔
قرآن مجید کی سورہ لقمان میں ’ وما تدری نفس بأی أرض تموت‘ کے الفاظ میں موت کے مقام کو اس غیب میں شمار کیا گیا ہے جس کا انسان کو علم نہیں ہے۔اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ موت اور موت کی جگہ اصلاً انسان کے دائرۂ تدبیر کے امور نہیں ہیں۔یہی بات اس روایت میں بھی بیان ہوئی ہے۔
کتابیات
ترمذی ،رقم۲۰۷۲۔مسند احمد، رقم ۲۰۹۸۰، ۲۹۸۱۔ المعجم الکبیر، رقم ۸۰۷۔
_______
عن عائشۃ رضی اﷲ عنہا قالت: قلت: یارسول اﷲ ذراری المؤمنین؟ قال: من آباۂم. فقلت: یارسول اﷲ، بلاعمل؟ قال: اﷲ أعلم بما کانوا عاملین. قلت: فذراری المشرکین؟ قال: من آباۂم . قلت: بلاعمل؟ قال: اﷲ أعلم بما کانوا عاملین .
ٌٌ’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اہل ایمان کے بچوں (کا انجام کیا ہوگا) ؟آپ نے فرمایا: (وہ) اپنے آبا میں سے ہیں۔ میں نے پوچھا: بغیر کسی عمل کے؟ آپ نے فرمایا: اللہ اس بات سے خوب واقف ہے کہ وہ کیا عمل کرنے والے ہیں۔ فرماتی ہیں: میں نے اس کے بعد مشرکین کے بچوں کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا: (وہ) اپنے آبا میں سے ہیں۔ میں نے دریافت کیا : یہ بھی بغیر کسی عمل کے؟ آپ نے جواب دیا: اللہ تعالیٰ اس بات سے خوب واقف ہیں کہ وہ کیا عمل کرنے والے ہیں۔‘‘
من آباۂم : یعنی انھیں ان کے آبا میں شمار کیا جائے گا۔ یہاں مبتدا اور خبر ، دونوں محذوف ہیں اور صرف متعلق خبر بولا گیا ہے ۔ گفتگو میں حذف کا یہ طریقہ عام ہے۔
بلا عمل : یہ ایک سوالیہ جملہ ہے اور اس سے پہلے ’ أیدخلون الجنۃ ‘ کے الفاظ محذوف ہیں ۔
یہ روایت صاحب مشکوٰۃ نے ابوداؤد سے لی ہے۔اس روایت کے متون میں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ ابوداؤد نے اس روایت میں مشرکین اور مومنین، دونوں کے بچوں کے بارے میں سوال نقل کیا ہے ، جبکہ دوسری کتب حدیث میں صرف مشرکین کے بچوں کے بارے میں سوال روایت ہوا ہے۔ اس روایت میں مومنین کے بچوں کے بارے میں سوال پہلے نقل ہوا ہے اور دوسرا سوال بعد میں ۔ قیاس کہتا ہے کہ زیادہ امکان اسی کا ہے کہ ایک ہی سوال ہوا ہو۔ اور دوسرا سوال بعد میں توضیحاً شامل کر دیا گیا ہو، لیکن اس امکان کو رد کر دینا بھی ممکن نہیں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دوسرا سوال بھی کیا ہو ، لیکن اس صورت میں بھی پہلا سوال مشرکین کے بچوں کے بارے میں ہی ہونا چاہیے۔
اس فرق کے علاوہ اس روایت کے متون میں کچھ لفظی فرق بھی ہیں۔ مثلا ، ’ذراری ‘ کی جگہ ’أولاد ‘ یا ’أطفال‘ کا لفظ آیا ہے۔’المشرکین ‘ کے لیے ایک روایت میں ’الکفار ‘ کا لفظ آیا ہے۔ اسی طرح ’من آباۂم‘ کے بجائے ایک روایت میں ’ہم من آباۂم ‘یا ’ہم مع آباۂم ‘کی تعبیرات آئی ہیں۔ایک روایت میں ’اللّٰہ أعلم بما کانوا عاملین ‘کے جملے میں ’إذ خلقہم‘ کا اضافہ روایت ہوا ہے۔
مسند احمد کی ایک روایت اس حوالے سے سب سے مختلف ہے ۔ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب ’إن شئت أسمعتک تضاغیہم فی النار ‘(اگر تم چاہتی ہو تو میں تمھیں جہنم میں ان کی چیخ وپکار سنوا سکتا ہوں۔)کے الفاظ میں نقل ہوا ہے۔
یہ روایت آخرت کے حوالے سے قرآن مجید میں بیان کیے گئے اصول’ لیس للأنسان إلا ما سعی‘ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس معروف ارشاد ’کل مولود یولد علی الفطرۃ ‘کے بالکل خلاف ہے۔ ان سے واضح طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب تک انسان بڑا ہو کر شعور کے ساتھ شرک و کفر اختیار نہ کرے ، اسے کوئی سزا نہیں ملنی چاہیے۔اگرچہ اس روایت کے الفاظ اور متون میں اس بات کی گنجایش نہیں ہے کہ اسے عاقل و بالغ نسل سے متعلق قرار دیا جائے، لیکن اس متن کو قبول کرنے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں ہے۔
مسلم، رقم ۲۶۵۹۔ بخاری، رقم ۱۳۱۷، ۱۳۱۸، ۶۲۲۴، ۶۲۲۵۔ ابوداؤد، رقم ۴۰۸۹۔احمد ، رقم۲۳۴۰۶، ۲۴۵۶۱۔ ابن حبان، رقم۱۳۱۔ نسائی، رقم ۱۹۵۲۔ ابو یعلیٰ، رقم ۲۴۷۹۔
____________