HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : معز امجد

اسلام کے پانچ ستون

[اس روایت کی ترتیب و تدوین اور شرح و وضاحت جناب جاوید احمد غامدی کی رہنمائی میں اُن کے رفقا معزا مجد ، منظور الحسن ، محمد اسلم نجمی اور کوکب شہزاد نے کی ہے ۔]


روی ۱ انہ قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: بنی الاسلام علی خمس۲ : شھادۃ ان لا الہ اللّٰہ وان محمدا رسول اللّٰہ ۳ واقام الصلاۃ وایتاء الزکوۃ و صوم رمضان وحج البیت. ۴ ۵
فقال رجل (لابن عمر): الحج وصیام رمضان؟ قال (ابن عمر): لا، صیام رمضان والحج ھکذا سمعتہ من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم. ۶ فقال لہ رجل: والجہاد فی سبیلاللّٰہ؟ قال ابن عمر: الجھاد حسن. ۷ ھکذا حدثنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم. ۸
’’روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام کی بنا پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے ۱ : یہ شہادت دی جائے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کی جائے ، زکوٰۃ ادا کی جائے ، رمضان کے روزے رکھے جائیں اور بیت اللہ کا حج کیا جائے ۔ ۲
(عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے) کسی نے پوچھا:کیا (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے) ’’حج‘‘ اور (اس کے بعد) ’’رمضان کے روزے‘‘ (فرمایا تھا)؟ انھوں نے جواب دیا : نہیں، (بلکہ آپ نے پہلے) ’’ رمضان کے روزے‘‘ اور( پھر) ’’حج ‘‘(فرمایا تھا)۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے(یہ بات) اسی ترتیب سے سنی ہے۔(اسی طرح )ایک اور شخص نے حضرت عبداللہ بن عمر سے سوال کیا: کیا اللہ کی راہ میں جہاد بھی( ان چیزوں میں شامل ہے)۳ ؟ انھوں نے فرمایا: جہاد ایک اچھا عمل ہے ، (مگر اس کی یہ حیثیت نہیں ہے)۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم نے اسی طرح سنا ہے۔‘‘

ترجمے کے حواشی

۱۔ اسلام اپنے ظاہر کے لحاظ سے انھی پانچ چیزوں سے عبارت ہے۔یہ غیر مسلموں کے مقابلے میں مسلمان کی پہچان ہیں۔ان میں سے پہلی چیز اسلام اختیار کرنے کا اعلان عام ہے ، جبکہ باقی چار وہ چیزیں ہیں جو ہمیشہ سے دین کے ساتھ خاص رہی ہیں ۔

۲۔اس مکالمے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں کی اہمیت کے لحاظ سے انھیں ایک خاص ترتیب سے بیان فرمایا ہے ۔تاہم ، بعض دوسری روایات میں حج کا ذکر روزے پر مقدم بھی ہے ۔

۳۔ معلوم ہوتا ہے کہ سوال پوچھنے والا’’جہاد‘‘ کو بھی وہی حیثیت دیتا تھا جو روایت میں نماز ، روزہ اور حج و زکوٰۃ کو دی گئی ہے ۔


متن کے حواشی

۱۔ اپنی اصل کے اعتبارسے یہ ترمذی کی روایت رقم ۲۶۰۹ ہے۔ معمولی اختلاف کے ساتھ یہ حسب ذیل مقامات پر نقل ہوئی ہے:

بخاری، رقم ۸،۴۲۴۳۔ مسلم، رقم۱۶۔نسائی، رقم۵۰۰۱۔ احمد ابن حنبل، رقم۴۷۹۸، ۵۶۷۲، ۶۰۱۵، ۶۳۰۱، ۱۹۲۴۰، ۱۹۲۴۶۔ ابن خزیمہ، رقم ۳۰۸، ۳۰۹، ۱۸۸۰، ۱۸۸۱، ۲۵۰۵۔ ابن حبان، رقم ۱۵۸، ۱۴۴۶۔ بیہقی، رقم ۱۵۶۱، ۷۰۱۳، ۷۶۸۰۔ ابن ابی شیبہ، رقم ۱۹۵۶۳، ۳۰۳۱۱۔ عبدالرزاق، رقم ۵۰۱۱، ۹۲۷۹، ۹۲۸۰۔ الحمیدی، رقم ۷۰۳۔ نسائی سنن الکبریٰ، رقم ۱۱۷۳۲۔ ابو یعلیٰ، رقم۵۷۸۸، ۷۵۰۲،۷۵۰۷۔

۲۔ مصنف عبدالرزاق، رقم۵۰۱۱ میں ’بنی الاسلام علی خمس‘(اسلام کی بنا پانچ چیزوں پرقائم ہے) کے بجائے ’ بنی الاسلام علی ثمانیۃ اسھم‘ (اسلام کی بنا آٹھ ا جزا پر استوار ہے)کے الفاظ آئے ہیں ۔ مزید براں اس روایت میں ’والامر بالمعروف والنھی عن المنکر‘(اور معروف کا حکم دینا اور منکر سے روکنا) کے الفاظ کا اضافہ بھی ہے۔یہ روایت ان الفاظ پر ختم ہوتی ہے: ’وقد خاب من لا سھم لہ‘(وہ شخص ناکام ٹھہرا جو ان میں سے کوئی جز نہ پا سکا)۔

۳۔ بعض روایات مثلاً مسلم، رقم ۱۶ میں ’شھادۃ ان لا الہ اللّٰہ وان محمدا رسول اللّٰہ ‘ (اس بات کی گواہی کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں) کی جگہ ’ان یوحد اللّٰہ‘ (یہ کہ اللہ کی وحدانیت کا اعلان کیا جائے) کے الفاظ آئے ہیں، جبکہ مسلم، رقم ۱۶ میں اس کی جگہ ’ان یعبد اللّٰہ و یکفر بما دونہ‘(کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا ہر کسی کی عبادت سے انکار کرو)کے الفاظ آئے ہیں۔

۴۔بخاری ، رقم ۴۲۴۳ میں یہ روایت اس پس منظر کے ساتھ بیان ہوئی ہے:

روی عنہ جاء الی عبد اللّٰہ بن عمر رجلان فی فتنۃ بن الزبیر. فقالا: ان الناس ضیعوا وانت بن عمر وصاحب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فما یمنعک ان تخرج. فقال: یمنعنی ان اللّٰہ حرم دم اخی. فقالا: الم یقل اللّٰہ: ’’وقاتلوھم حتی لاتکون فتنۃ.‘‘فقال: قاتلنا حتی لم تکن فتنۃ وکان الدین للّٰہ وانتم تریدون ان تقاتلوا حتی تکون فتنۃ ویکون الدین لغیر اللّٰہ. وزاد عثمان بن صالح عن بن وھب قال: اخبرنی فلان وحیوۃ بن شریح عن بکر بن عمرو المعافری ان بکیر بن عبد اللّٰہ حدثہ عن نافع ان رجلا اتی بن عمر. فقال: یا ابا عبد الرحمن ما حملک علی ان تحج عاما و تعتمر عاما وتترک الجھاد فی سبیل اللّٰہ عزوجل ؟ قد علمت ما رغب اللّٰہ فیہ. قال: یا بن اخی بنی الاسلام علی خمس: ایمان باللّٰہ و رسولہ والصلاۃ الخمس وصیام رمضان واداء الزکاۃ حج البیت. قال: یا ابا عبد الرحمن الا تسمع ما ذکر اللّٰہ فی کتابہ: ’’وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا فاصلحوا بینھما فان بغت احداھما علی الاخری فقاتلوا التی تبغی حتی تفئ الی امر اللّٰہ.‘‘ ’’قاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ.‘‘ قال: فعلنا علی عھد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم. وکان الاسلام قلیلا. فکان الرجل یفتن فی دینہ. اما قتلوہ واما یعذبونہ حتی کثر الاسلام فلم تکن فتنۃ. قال: فما قولک فی علی و عثمان؟ قال: اما عثمان فکان اللّٰہ عفا عنہ واما انتم فکرھتم ان تعفوا عنہ. واما علی فابن عم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم و ختنہ. واشار بیدہ فقال: ھذا بیتہ حیث ترون.
’’روایت ہے کہ فتنۂ ابن زبیرکے زمانے میں ایک مرتبہ دو آدمی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ انھوں نے کہا : لوگ ضائع ہو رہے ہیں اور آپ عمر رضی اللہ عنہ کے صاحب زادے اور صحابی رسول ہونے کے باوجود اس صورت حال سے غیرمتعلق ہیں۔ آپ کو کیا چیز اس معاملے میں مداخلت سے روک رہی ہے ؟انھوں نے جواب دیا: مجھے یہ بات روک رہی ہے کہ اللہ نے مجھ پر اپنے بھائی کا خون حرام ٹھہرایا ہے۔ آنے والوں نے پوچھا:کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ:’’انھیں قتل کرو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے؟‘‘ ابن عمر نے جواب دیا : ہم لڑتے رہے ، یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوا اور دین (اس شہر میں بس) اللہ کے لیے خاص ہو گیا۔ اس کے برخلاف تم اس لیے لڑنا چاہتے ہو کہ فتنہ برپا ہو اور دین پھر دوسروں کے لیے ہو جائے ۔ عثمان بن صالح نے اس روایت میں ابن وہب سے یہ اضافہ نقل کیا ہے کہ مجھے حیوہ بن شریح اور ان کے علا وہ ایک اور شخص بکیر بن عمرو المعافری کے حوالے سے بتایااور انھوں نے بکیر بن عبداللہ سے اور انھوں نے نافع سے سنا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے پوچھا :اے ابو عبدالرحمن ، کیا وجہ ہے کہ آپ نے ایک سال حج اورا گلے سال عمرہ تواداکیا، مگر اللہ کی راہ میں جہاد کو چھوڑ دیا، حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی ترغیب دی ہے؟ انھوں نے جواب دیا: عزیز بھتیجے ، اسلام کی عمارت پانچ چیزوں پر استوار ہے: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان، پانچ نمازیں، ماہ رمضان کے روزے ، زکوٰۃ اور بیت اللہ کا حج ۔ اس نے کہا : اے ابوعبدالرحمٰن کیا آپ اس بات سے واقف نہیں ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں فرمائی ہے کہ:’’اور مسلمانوں کے دو گروہ اگر کبھی آپس میں لڑ پڑیں توان کے درمیان صلح کراؤ۔ پھر اگر ان میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے جنگ کرو ، یہاں تک کہ وہ اللہ کے فیصلے کی طرف لوٹ آئے ۔‘‘ اور ’’انھیں قتل کرو ، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے ۔ ‘‘ ابن عمر نے جواب دیا : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہم نے یہی کیا تھا۔ اس زمانے میں مسلمان کم تھے ۔ چنانچہ لوگ دین کے معاملے میں ستائے گئے۔انھیں قتل بھی کیا گیا اور اذیت بھی دی گئی۔ بالآخراسلام پھیل گیا اور فتنہ باقی نہ رہا۔ اس آدمی نے پوچھا: آپ کی حضرت عثمان اور حضرت علی کے بارے میں کیا رائے ہے؟ ابن عمر نے فرمایا:سیدنا عثمان کو اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا ، لیکن تم انھیں معاف کرنے کے لیے تیار نہیں ہو۔ رہے سیدنا علی رضی اللہ عنہ تووہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد اور داماد تھے۔ یہ ان کا گھر ہے، جہاں تم انھیں دیکھا کرتے تھے۔‘‘

۵۔مصنف عبدالرزاق ،رقم۹۲۸۰ میں یہ الفاظ اضافی طور پر موجود ہیں: ’والامر بالمعروف والنھی عن المنکر.‘

۶۔ ’فقال رجل (لابن عمر) الحج .... ھکذا سمعتہ من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ‘ کسی نے پوچھا:کیا (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے) ’’حج‘‘ .... میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے (یہ بات) اسی ترتیب سے سنی ہے)کے الفاظ پر مشتمل حصہ مسلم رقم ۱۶ سے لیا گیا ہے۔تاہم ، یہاں یہ بات واضح رہے کہ چند دوسری روایات میں پانچ ستونوں کی ترتیب بیان حج کو روزوں پر مقدم کر کے کسی قدر مختلف نقل ہوئی ہے۔

۷۔عبدالرزاق، رقم ۹۲۷۹ میں ’والجہاد حسن‘(اور جہاد اچھا عمل ہے) کے الفاظ کے بجائے ’وان الجہاد والصدقہ من العمل الحسن‘ (بے شک جہاد اور صدقہ اچھے اعمال میں سے ہیں۔)کے الفاظ آئے ہیں ۔

۸۔’فقال لہ رجل والجہاد .... ھکذاحدثنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘ (ایک اور شخص نے حضرت عبداللہ بن عمر سے سوال کیا: کیا اللہ کی راہ میں جہاد بھی ....نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم نے اسی طرح سنا ہے) کے الفاظ احمد ابن حنبل، رقم ۴۷۹۸ سے لیے گئے ہیں۔

____________

B