اس دنیا میں اور بالخصوص اس مملکت خداداد میں جو بات آج ہر شخص جانتا ہے ، وہ یہ ہے کہ اس کی زندگی خوشیوں سے محروم ہے، زندگی کے مسائل کا وہ کوہ گراں ہے کہ جس کے بوجھ تلے دب کر اس کا وجود پسا جارہا ہے، وہ محرومی کی ایسی کہانی ہے جو صرف دکھوں سے عبارت ہے ، وہ مایوسی کی شبِ تاریک ہے جس کے نصیب میں صبحِ امید کے سورج کا طلوع نہیں۔
لوگ روزگار کے لیے پریشان ہیں ، مہنگائی کے عذاب میں مبتلا ہیں، طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہیں، اچھے رشتوں کے نہ ملنے سے نالاں ہیں ، بدامنی و خوف سے لرزاں ہیں۔ غرض ایک ختم نہ ہونے والی پرابلم لسٹ ہے، جس نے داستانِ حیات کو داستانِ غم بنادیا ہے۔
ایسے میں کچھ لوگ اس دعوے کے ساتھ اٹھتے ہیں کہ ان کے پاس وہ امرت دھارا ہے جو ہر درد کی دوا ہے۔ بس عوام اپنے کندھوں پر بٹھاکر انھیں اقتدار کی کرسی تک پہنچادیں ۔ ان میں سے ہر شخص کے پاس اپنی سچائی میں کہنے کو بہت کچھ ہے۔ بعض آسمانی صحائف کو اپنی صداقت کا گواہ ٹھیراتے ہیں اور بعض زمینی حقائق کو اپنے برسرِ حق ہونے کی دلیل گردانتے ہیں۔
آپ نے ان لوگوں کی باتیں سن ہی لی ہوں گی۔ ان کے دلائل جان ہی لیے ہوں گے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ لمحہ بھر ٹھیر کر آپ ہماری بات بھی سن لیں۔
ہم یہ مانتے ہیں کہ مسائل کی کثرت اور خواہشات کی عدم تسکین نے دنیا کی زندگی کو مشکل بنا دیا ہے ، مگر ذہن میں رہے، یہ ایک ادھوری بات ہے۔ اس ادھوری بات کی وجہ سے بہت سے لوگ اپنے خالق سے برگشتہ ہوگئے ۔ اس کے منکر ہوگئے ۔ اور یوں وہ الحادی تہذیب وجود میں آئی جوآج دھرتی کے خشک و تر پر حکمران ہے۔
پھر پوری بات کیا ہے؟ پوری بات یہ ہے کہ انسان ایک ابدی مخلوق ہے۔ اسے اپنی لامحدود زندگی کا بہت تھوڑا حصہ اس دنیا میں گزارنا ہے۔ اور پھر کبھی نہ ختم ہونے والی آخرت ہے جو خود اس دنیا کا جوڑا ہے۔ فرق یہ ہے کہ دنیا فانی ہے اور آخرت لافانی ، دنیا کے غم عارضی ہیں اور آخرت کا عذاب ابدی ، یہاں کی لذت ناقص ہے اور وہاں کی لذت کامل ۔
اس دنیا میں خدا نے غم و الم آپ کو دکھی کرنے کے لیے نہیں رکھے، بلکہ ان کا مقصد آپ کی آزمایش ہے کہ ان حالات میں آپ صبر کرتے ہیں یا نہیں ۔ ایک اور پہلو سے دیکھیں تو ان کا مقصد یہ بھی ہے کہ آپ آخرت کے ناقابل برداشت عذاب کا اندازہ کریں اور اس سے بچنے کی سعی کریں اور اگر لذت کی عدمِ تسکین رکھی ہے تو محض اس لیے کہ آپ خدا کی جنت کو چھوڑ کر دنیا کی اس سرائے کو اپنا مستقل گھر نہ سمجھ بیٹھیں۔
جان لیجیے ، اپنے بارے میں خدا کی اسکیم جان لیجیے ۔ خدا یہ چاہتا ہے کہ دکھوں کی آگ آپ کے وجود کو جھلسائے تاکہ آپ پر بے حسی کی نیند طاری نہ ہو، آپ جہنم سے بھاگنے والے بنیں ۔ آپ کو محرومی کے تجربے سے گزارا جائے تاکہ آپ جنت سے محرومی کی تکلیف کو یاد رکھیں۔
جان لیجیے ، اس دنیا کے غم کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ غموں سے خالی معاشرہ اس زمین پر کبھی قائم ہوا ہے اور نہ کبھی قائم ہوگا۔ یہ کام تو خدا کے پیغمبر بھی نہ کرسکے اور وہ یہ کام کرنے کے لیے آئے بھی نہیں تھے ۔اس لیے کہ پرابلم فری سوسائٹی خدا کے دنیا بنانے کے منصوبے کے خلاف ہے۔ وہ تو یہ بتانے آئے تھے کہ یہ دنیا ، یہ عارضی دنیا ، خدا کی بات ماننے کی جگہ ہے۔ اپنی بات منوانے کی جگہ تو آگے آرہی ہے۔ اس دنیا میں خدا آزمارہا ہے۔ اس کی مرضی چل رہی ہے۔ اُس دنیا میں تمھاری مرضی ہوگی، تم خدا کو آزمالینا ، جو چاہو مانگ لینا ، جو چاہو لے لینا۔
ریحان احمد یوسفی
_______
اولاد انسان کابہترین سرمایہ ہے۔یہ اس کی ذات کا تسلسل ہی نہیں، اس کی امیدوں اور خواہشوں کا سب سے بڑا مرکز بھی ہے۔ہم میں سے کون ہے جو اپنی اولاد کے برے مستقبل کا تصور بھی کرسکے۔ لیکن اولاد کا اچھا مستقبل صرف خواہشوں اورتمناؤں کے سہارے وجود پزیر نہیں ہوسکتا۔اس کے لیے ایک واضح اور متعین لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔ ذیل میں ہم اختصار کے ساتھ وہ لائحۂ عمل بیان کررہے ہیں جو دنیا اور آخرت دونوں میںآپ کی اولاد کو آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنادے گا۔
عام طور پر والدین اولاد کا دامن خوشیوں سے بھر دینے کی فکر میں رہتے ہیں۔ خوشیوں سے ان کی مراد بالعموم مادی اشیا کی بہتات ہوتی ہے۔ تاہم خوشی صرف مادی اشیا سے نہیں ملتی۔خوشی زندگی کے بارے میں مثبت نقطۂ نظر اختیار کرنے سے ملتی ہے۔ اس دنیا میں دکھوں، پریشانیوں اور ناپسندیدہ حالات سے مفر ممکن نہیں ہے۔ آپ کچھ بھی کرلیں،برے حالات سے اپنی اولاد کو بچا نہیں سکتے۔
ہاں ایک طریقہ ایسا ہے جس سے آپ کی اولاد پر مصائب و آلام کی آگ ٹھنڈی ہوسکتی ہے ۔ وہ یہ کہ آپ اپنی اولاد کوزندگی کے بارے میں مثبت نقطۂ نظر دیں۔ اسے بتائیں کہ دنیا میں سخت حالات ہی بہترین انسانوں کوجنم دیتے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ سختیاں خدا کی نعمت ہیں۔ یہ ایک طرف انسان کی صلاحیتوں کو بہترین طریقے سے پروان چڑھاتی ہیں اوردوسری طرف آخرت میں خدا کی رضا اور اس کی بہترین نعمتوں کے حصول کا ذریعہ بھی بنتی ہیں۔ چنانچہ بچوں کویہ سبق دیں کہ وہ مشکلات کو چیلنج کے طورپرلیں۔اس کے بعد وہی دکھ جو دوسروں کو نڈھال کردیتے ہیں انھیں سرشار کردیں گے۔
اولاد کو دینے والی دوسری چیز سخت محنت کرنے کی عادت ہے۔والدین لاڈ پیار میں بچوں کی زندگی آسان بنانا چاہتے ہیں۔مگر بے جا لاڈ پیارمستقبل میں ان کی زندگی مشکل بنادیتا ہے۔لاڈ پیار سے بچے اکثر نکمے ہوجاتے ہیں۔ اس دنیا میں نکمے اور ناکارہ لوگوں کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ کامیابی صرف سخت محنت سے ملتی ہے۔حتیٰ کہ ذہانت بھی محنت کے کندھوں پر بیٹھ کر ہی خود کو نمایاں کرپاتی ہے۔ انگریزی میں کہا جاتا ہے:
’’Genius is ninety percent perspiration and only ten percent inspiration.‘‘
یعنی ذہانت نوے فیصدمحنت ہے اور صرف دس فیصد دماغی صلاحیت۔
بچپن ہی سے اولاد کو سخت ذہنی اور جسمانی محنت کا عادی بنائیں۔ اس کام کے لیے بچوں کے بڑے ہونے کا انتظار نہ کریں۔ بڑے ہونے پر تو بچوں کی عادتیں پختہ ہوجاتی ہیں جن کا بدلنا آسان نہیں رہتا۔ عادتیں تو بچپن ہی میں ڈلوائی جاتی ہیں۔
بچہ ایک مکمل نقال ہوتا ہے۔ وہ سب کچھ آپ سے یا آپ کے فراہم کردہ ماحول سے سیکھتا ہے۔ لہٰذاآپ بچوں کو جیسا بنانا چاہتے ہیں، ویسے ہی بن جائیں اور انھیں اسی طرح کا ماحول فراہم کریں جو بچہ ہر وقت گھر میں جھوٹ سنے گا، اس سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ کتاب میں جھوٹ کی برائی پڑھ کروہ اس سے نفرت کرنے لگے ۔ یہ ناممکن ہے۔
اسی طرح گھر میں کیبل اور ڈش لگا کر اور بچوں کواخلاق و کردار کی قاتل فلموں کے حوالے کرکے یہ توقع کرنا کہ آپ کی اولاد بہت باحیا اٹھے گی، ایک ایسا خواب ہے جس کی تعبیر کبھی نہیں نکل سکتی۔آپ کے بچے آپ کے فراہم کردہ ماحول کا عکس ہوتے ہیں۔ اب یہ آپ کو فیصلہ کرنا ہے کہ آپ انھیں کیسا بنانا چاہتے ہیں۔
وہ دور گیا جب بچے خود سے پل جایا کرتے تھے۔ اب ہر بچہ ذاتی توجہ چاہتا ہے۔ آپ کی تمام تر احتیاط کے باوجود معاشرے میں موجود شر اور برائیوں کا آپ کے بچے تک پہنچنا لازمی ہے۔یہ بچے سے آپ کا ذاتی تعلق ہے جو اسے ان برائیوں کے اثرات سے بچالے گا۔ بچوں سے آپ کا دوستانہ تعلق اور براہِ راست مکالمہ وہ ذریعہ ہے جس سے آپ ہر برائی کے بارے میں ان کے ساتھ کھل کر گفتگو کرسکیں گے اور انھیں یہ بتاسکیں گے کہ یہ چیزیں ہماری مذہبی اور تہذیبی اقدارکے خلاف ہیں۔اس کے بغیر آپ کے بچے اپنے تجسس کو دور کرنے کے لیے نا سمجھ دوستوں، بیہودہ کتابوں اور دیگر ایسے ذرائع سے رجوع کریں گے جو ان کی ذہنی اور عملی گمراہی کا سبب بنیں گے۔
بحیثیت مسلمان یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ دین کے بنیادی تصورات اپنے بچوں کو منتقل کریں۔ اس دنیا کا ایک بنانے والا ہے۔ اس نے ہماری رہنمائی کے لیے اپنے رسولوں کو بھیجا ہے۔ اس کی رہنمائی دین کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ ہمیں ایک روز اپنے رب کے حضور پیش ہوکر اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ اچھے اعمال والے جنت اور برے اعمال والے جہنم میں جائیں گے۔ یہ وہ بنیادی تصورات ہیں جن کی اپنی اولاد تک منتقلی ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔
اچھے اخلاقی تصورات مثلاََ شرم و حیا، امانت و دیانت ، صدق وعدل اور اس جیسی دیگر صفات کوبچوں کی شخصیت کا حصہ بنانا بھی والدین ہی کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح معاملات کو گفت وشنید سے حل کرنااور سنی سنائی باتوں کے بجائے تحقیق کے ذریعے حقائق تک پہنچنا اعلیٰ انسانی خصلتیں ہیں۔
مندرجہ بالا امور اختیار کرنے کے بعد امید ہے کہ آپ کی اولاد آپ کے اور معاشرے کے لیے ایک بہترین اور قابل فخر اثاثہ ثابت ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے اپنی اولاد کی اصلاح اور بہتری کے لیے دعا کرتے رہیں ، کیونکہ دعا مومن کا اصل ہتھیار ہے۔
ریحان احمد یوسفی
_______
عصر حاضر میں میڈیا کی ترقی نے زندگی کے افق پر علم و آگہی کے جو نئے دریچے وا کیے ہیں ، ماضی میں ان کی مثال نہیں ملتی۔میڈیا کے انقلاب کے نتیجے میں رونما ہونے والی عظیم تبدیلی نے انسانوں کے لیے ایسے امکانات کو پیدا کردیا ہے جو اس سے قبل ناقابلِ تصور تھے۔آج ہم ان راہوں کے مسافر ہیں جہاں اس سے قبل کسی کے قد م نہیں پہنچے۔پرانے تہذیبی دائرے ختم ہورہے ہیں اور ان کی جگہ ایک نئی بین الاقوامی تہذیب جنم لے رہی ہے۔
اس تبدیلی کو وقوع پزیر ہونے سے روکاجا سکتا ہے نہ ایسا کرنے کی کوئی ضرورت ہے۔ اس پورے عمل میں، تاہم جس چیز کی اشد ضرورت ہے ، وہ یہ ہے کہ صفحۂ دل کو اس غلاظت سے محفوظ رکھنے کی سعی کی جائے جو نگاہوں کے رستے انسان کے اندرون تک رسائی پالیتی ہے۔
کمپیوٹر اور ٹی وی کی اسکرین سے رنگ و آہنگ اور ساز و آواز کی جو یلغار دل ووماغ پر ہوتی ہے ، وہ حیران کن حد تک موثر ہے۔ اس سے قبل کہ ایک فرد یہ جان سکے کہ اس کے ساتھ کیا معاملہ ہورہا ہے ، بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔لطف و سرور کا متلاشی ٹی وی، ڈش اور کیبل کے چینل اور انٹرنیٹ کی وادیوں میں آوارہ پھرتے پھرتے اپنے باطن کی پاکیزگی کھودیتا ہے۔ یہ جانے بغیر کہ کس متاع بے بہا سے وہ ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ انسان کے وجود میں نگاہ قلب کا دروازہ ہوتی ہے۔ہر آنے والااسی راستے سے نہاں خانۂ دل کا مہمان ہوتا ہے۔یہ دروازہ اگر ہر کس و ناکس کے لیے کھلا چھوڑدیا جائے توگو آنکھ روشن رہے ، مگر پاکیزگی قلب کی روشنی سے انسان محروم ہوجا تاہے۔ دو ہزار سال قبل حضرت عیسٰی علیہ السلام نے نگاہ کی اس غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر ارشاد فرمایا تھا:
’’تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ زنا نہ کرنا۔ لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جس کسی نے کسی بری خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی وہ اپنے دل میں اس کے ساتھ زنا کرچکا۔ ‘‘( متی ۵ :۲۷۔ ۲۸)
آج زمانے نے نگاہ کی آلودگی کے وہ اسباب مہیا کردیے ہیں جس کے بعد دل و نظر کا سفینہ بچا لے جانا بہت مشکل ہوچکا ہے۔ پناہ صرف اس شخص کے لیے ہے جو نگاہ کے دروازے پر خدا خوفی کی تلوار لے کر بیٹھ جائے۔ جو ایسا نہ کرے گا، وہ اس دوشیزہ کی طرح پچھتائے گا جو زمانے کی ہوا سے بے پروا ہوکر شہر کی رونق دیکھنے نکلی ، مگر رات گئے جب گھر لوٹی تواپنے وجود کی سب سے قیمتی شے اپنی عصمت گنوا بیٹھی تھی۔
شہزاد سلیم/ریحان احمد یوسفی
____________