HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

ایک عراقی کا سوال

یہ مارچ۲۰۰۳کی ۲۸ تاریخ تھی۔اس کی رات میں بھی عراقیوں پر قیامت ٹوٹی تھی۔بغداد کی شہری آبادی پر تعلیم اور تہذیب کے علم برداروں نے بدترین بم باری کی تھی۔لاشوں اور زخمیوں کے ڈھیر لگ گئے تھے ۔ہسپتالوں کے کمرے اور برآمدے نا کافی ہو گئے تھے۔ ٹی وی لاشوں کے دل ہلا دینے والے منظر دکھا رہا تھا۔ایک عراقی ایک لاش کے پاس کھڑا چلا رہا تھا :

’’یہ ابھی ایک گھنٹا پہلے نماز پڑھ رہا تھا ۔۔۔ یہ اب بولتا کیوں نہیں؟‘‘

میں نے یہ سوال سنا تو میر ی زبان سے تو کچھ نہ نکلا ، مگر میر ے دل نے بے اختیار کہا :

’’میرے بھائی ، یہ اس لیے خاموش ہے کہ یہ اس سوال کا جواب دینے کا ذمہ دار نہیں ہے۔ اس زندہ کو مردہ بنانے والے ، اس زندگی کو موت میں بدلنے والے ،اس آواز کو سکوت میں ڈھالنے والے کچھ اور لوگ ہیں۔تمھارے سوال کا جواب دینے کے ذمہ دار کچھ اورلوگ ہیں۔اور وہ لوگ بھی درحقیقت لاشیں ہیں، مگر زندہ لاشیں۔ان کاصرف حیوانی وجود زندہ ہے ۔ان کی صرف حرص و ہوس زندہ ہے۔ان کا صرف جوشِ جنوں زندہ ہے۔مگر ان کے دل کو کفنایا جا چکا ہے۔ا ن کے ضمیر کا جنازہ اٹھایا جا چکا ہے۔ان کے شعور کو دفنایا جا چکا ہے ۔

تم یہ سوال ان زندہ لاشوں سے پوچھو،جن کی آنکھوں میں برتری کا خواب خون بن کر اتر آیا ہے ۔ جو امکانی خطرے کو جنگ کاجوازبنا کر اتھاہ پستیوں میں گر چکے ہیں ۔جواپنے مفادات کی خاطر دوسروں کو بربادکرنے پر تلے ہوئے ہیں۔جواپنی زندگی کی آسایشوں کی خاطر دوسروں کی زندگی چھیننے پر تیار ہوگئے ہیں۔جوکائنات کو تسخیر کرتے کرتے پتھرکے زمانے میں جاپڑے ہیں۔

تم یہ سوال ان زندہ لاشوں سے پوچھو جنھوں نے ایران پر حملہ کیا تھا ۔ جنھوں نے کویت پردھاوا بول دیا تھا۔ جنھوں نے کویت پر قبضہ کرنے کے بعد اسے اپنا صوبہ قرار دے دیا تھا۔جن کا کویت کے ذکر کرنے پریہ کہنا تھا کہ اس کا ذکر نہ کریں، کویت اب ایک قصۂ ماضی ہے ۔

تم یہ سوال ان زندہ لاشوں سے پوچھوجنھیں خدا نے سیال سونے کے سمندروں سے نوازا ، مگر انھوں نے کتب خانے اور تجربہ گاہیں بنانے کے بجائے اپنے وسیع محلات تعمیر کیے اوررنگین عشرت کدے سجائے۔ جنھیں خدا نے اقتدار دیا ،مگر انھوں نے اسے اپنا ذاتی خزانہ سمجھ لیااور اس پر سانپ بن کر بیٹھ گئے۔جو مسلمان ہونے اور اس دور میں پیدا ہونے کے باوجودبادشاہ سلامت بن گئے ۔جنھوں نے تمھارے ہاتھ میں بندوق پکڑا کر تمھیں ہزاروں ٹینکوں سے مقابلہ کرنے پر مجبور کردیا۔جنھوں نے بموں کی طوفانی بارش سے لڑنے کے لیے تمھیں نہتا کھلے میدان میں اتار دیا۔

مگر یہ زندہ لاشیں بھی نہیں بولیں گی۔یہ تمھیں اس قابل ہی نہیں سمجھتیں کہ تمھارے سوال کا جواب دیں۔ ایسے میں مایوسی بھی تم پر حملہ کردے گی ۔ بے عملی بھی تمھیں مغلوب کرنے کوشش کرے گی ،مگر تم کو مایوس نہیں ہونا ۔ میدان عمل نہیں چھوڑنا۔ تاریکی سورج ڈوبنے سے نہیں،امید ٹوٹنے سے پھیلتی ہے ۔ تم کو جلد از جلد امن خریدنا ہے ۔ دنیا میں اپنا تاثر بدلنا ہے ۔پوری سرگرمی اور دل سوزی کے ساتھ ہر سطح پراور ہر شکل میں تعلیم کا اہتمام کرنا ہے ۔ان زندہ لاشوں نے جو تاریکی پھیلادی ہے، تم کو اس میں ہمت اور حکمت کے ساتھ یہ چراغ جلانا ہے ۔اور تیز ہواؤں کے باوجود اسے جلائے رکھنا ہے۔ زرد پتوں سے بھرے ہونے کے باوجود، اسی آنگن میں نیا پیڑ لگانا ہے۔ ہجوم میں گھرے ہونے کے باوجود،اسی ہجوم سے کارواں بنانا ہے۔اور آبشاروں کی یہ صدا سنتے رہنا ہے کہ عزمِ سفر ہو تو چٹانیں بھی راستہ بن جایا کرتی ہیں ۔اسی راستے کے سرے پر وہ منزل ہے جو اگر تم نے پالی تو پھر تمھیں دوبارہ ایسا سوال کرنے کی کبھی ضرورت نہیں پڑ ے گی۔

ا ور یہ حقیقت بھی ہر وقت یاد رکھنی ہے کہ اس ورلڈ آرڈر نے ہمیشہ نہیں رہنا ، بلکہ اس ورلڈ ہی نے ہمیشہ نہیں رہنا۔ایک دن ایسا آنا ہے جب تاج اچھا ل دیے جانے ہیں۔سرحدیں مٹا دی جانی ہیں۔پہاڑ اڑا دیے جانے ہیں۔سمندر سیلاب بنا دیے جانے ہیں۔پھررب کائنات کا عدل ظہور میں آئے گا۔سپریم پاور کا تخت لگے گا۔ پھر وہ سب خوف سے کانپ رہے ہوں گے جو آج لاشوں پر لاشیں بچھا رہے ہیں اوران پرقہقہے لگا رہے ہیں۔تب ہر ظالم اورہرقاتل ؛ہر مظلوم اورہر مقتول کی مٹھی میں ہو گا۔تب انھیں ایک ایک قتل کا حساب دیناہوگا۔ایک ایک قتل کے بدلے میں بار بار قتل ہونا ہوگا۔۔۔ اوریہ جو ابھی ایک گھنٹا پہلے نماز پڑھ رہا تھا اور اب بول نہیں رہا ،یہ اُس وقت بولے گا ، ہاں اُس وقت بولے گا ۔‘‘

____________

B