جاوید احمد غامدی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
(۱۵)
(گزشتہ سے پیوستہ )
حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ . {۸۳۲} فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا اَوْ رُکْبَانًا فَاِذَآ اَمِنْتُمْ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَمَا عَلَّمَکُمْ مَّالَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ.{ ۹۳۲}
وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا وَّصِیَّۃً لِّاَزْوَاجِہِمْ مَّتَاعاً اِلَی الْحَوْلِ غَیْرَ اِخْرَاجٍ فَاِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فَیْ مَا فَعَلْنَ فَیْ اَنْفُسِہِنَّ مِنْ مَّعْرُوْفٍ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ .{۰۴۲}
وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ . {۱۴۲}
کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ. {۲۴۲}
(یہ خدا کی شریعت ہے۔ اِس پر قائم رہنا چاہتے ہو تو) اپنی نمازوں کی حفاظت کرو، ۳۲۶بالخصوص اُس نماز کی جو (دن اور رات کی نمازوں کے ) درمیان میں آتی ہے ، ۴۲۶ (جب تمھارے لیے اپنی مصروفیتوں سے نکلنا آسان نہیں ہوتا)، اور (سب کچھ چھوڑ کر) اللہ کے حضور میں نہایت ادب کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ۔ پھر اگر خطرے کا موقع ہو تو پیدل یا سواری پر ، جس طرح چاہے پڑھ لو ۔ لیکن جب امن ہو جائے تو اللہ کو اُسی طریقے ۵۲۶ سے یاد کرو، ۶۲۶ جواُس نے تمھیں سکھایا ہے ، جسے تم نہیں جانتے تھے ۔ ۷۲۶ ۸۳۲۔۹۳۲
اور ۸۲۶ (ہاں، بیوہ اور مطلقہ کے بارے میں جو ہدایات تمھیں دی گئی ہیں ، اُن سے متعلق یہ وضاحت ضروری ہے کہ) تم میں سے جو لوگ وفات پائیں ا ور اپنے پیچھے بیویاں چھوڑ رہے ہوں، وہ اپنی اُن بیویوں کے لیے سال بھر کے نان و نفقہ کی وصیت کر جائیں اور یہ بھی کہ (اِس عرصے میں) اُنھیں گھر سے نہ نکالا جائے ۔ ۹۲۶ لیکن وہ خود گھر چھوڑ دیں تو جو کچھ دستور کے مطابق وہ اپنے معاملے میں کریں ، اُس کا تم پر کوئی گناہ نہیں ہے ۔ (یہ اللہ کا قانون ہے) اور (جان لو کہ) اللہ زبردست ہے ، ۰۳۶ وہ بڑی حکمت والا ہے۔ ۱۳۶ ۰۴۲
اور (اِسی طرح یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ) مطلقہ عورتوں کو ہر حال میں دستور کے مطابق کچھ سامانِ زندگی دے کر رخصت کرنا چاہیے ۔ یہ حق ہے اُن پر جو خدا سے ڈرنے والے ہوں۔ ۲۳۶ ۱۴۲
اللہ اِسی طرح تمھارے لیے اپنی آیتوں کی وضاحت کرتا ہے تاکہ تم سمجھنے والے بنو۔ ۳۳۶ ۲۴۲
۳۲۶؎ یعنی ہر طرح کی مشکلات اور پر خطر حالات میں بھی اس کی حفاظت کی جائے ۔ اس میں ، ظاہر ہے کہ اُن تمام چیزوں کی نگہداشت اور ان کا اہتمام بھی شامل ہے جو نماز کے شرائط و ارکان یا اس کے آداب سے تعلق رکھتی ہیں اور اس طرح کی صورت حال میں لوگ بالعموم ان سے بے پروا ہو جاتے ہیں ۔
۴۲۶؎ اس سے مراد ہے عصر کی نماز ۔یہ ان حالات کی رعایت سے فرمایا ہے جن میں قرآن نازل ہوا ۔ تمدن کی تبدیلی یا حالات کے تغیر سے یہی صورت اگر کسی اور نماز کی ہو جائے تو اس کا حکم بھی یہی ہو گا ۔
۵۲۶؎ یعنی نماز کا وہ طریقہ جو انبیا علیہم السلام کی تعلیم سے انسان نے سیکھا ہے ۔ دین ابراہیمی کے پیرو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے بھی اس طریقے سے واقف تھے ا ور ان کے صالحین اس کے مطابق نماز ادا کرتے تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اصلاح و تجدید فرمائی اور اسے ایک سنت کی حیثیت سے پورے اہتمام کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں جاری کر دیا۔ یہاں امی عربوں کو خاص طور پر توجہ دلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کے ذریعے سے اس نوعیت کی جو تعلیم انھیں دی ہے ، یہ اس کا ان پر بہت بڑا کرم ہے ۔ اس کا جواب ان کی طرف سے یہی زیبا ہے کہ وہ اس کی قدر کریں ، بنی اسرائیل کی طرح اس کی ناقدری نہ کریں ۔
۶۲۶؎ نماز کی اصل حقیقت اللہ کی یاد ہی ہے ۔ یہ قرآن نے نہایت خوبی کے ساتھ اس کی طرف اشارہ کر دیا ہے ۔
۷۲۶؎ سورہ کی تیسری فصل یہاں ختم ہو رہی ہے ۔ یہ احکام شریعت کی فصل تھی جسے اللہ تعالیٰ نے نماز کی تاکید پر ختم کیا ہے ۔ اس سے جس بات کی طرف اشارہ مقصود ہے ، وہ یہ ہے کہ دین میں جو اہمیت نماز کی ہے ، وہ کسی دوسری چیز کی نہیں ہے ۔ انسان کے علم و عمل میں دین کی حفاظت اسی سے ہوتی ہے ۔ اگر کوئی شخص اسے ضائع کر دیتا ہے تو گویا سارے دین کو ضائع کر دیتا ہے ۔
۸۲۶؎ یہ دونوں آیتیں خاتمۂ فصل کے ساتھ بطور تتمہ ملحق کر دی گئی ہیں تاکہ سورہ میں ان کے مقام ہی سے واضح ہو جائے کہ اصل احکام کے بعد یہ ان کی وضاحت کے لیے نازل ہوئی ہیں ۔ چنانچہ آخر میں ’ کذلک یبین اللّٰہ لکم آیتہ‘ کے الفاظ سے اس طرف اشارہ بھی فرما دیا ہے ۔
۹۲۶؎ اصل الفاظ ہیں : ’ وصیۃ لازواجھم متاعاً الی الحول غیر اخراج‘ ۔ ان میں ’ وصیۃ‘ فعل محذوف کا مفعول ہے ۔ ’ متاعاً‘ ’وصیۃ‘کا مفعول ہے اور ’ غیر اخراج‘ ’لازواجھم‘ سے حال واقع ہوا ہے ۔ اس جملے کی یہی تالیف ہمارے نزدیک صحیح ہے ۔ عام طور پر لوگ اس حکم کو سورۂ نساء میں تقسیم وراثت کی آیات سے منسوخ مانتے ہیں ، لیکن صاف واضح ہے کہ عورت کو نان و نفقہ اور سکونت فراہم کرنے کی جو ذمہ داری شوہر پر اس کی زندگی میں عائد ہوتی ہے ، یہ اسی کی توسیع ہے ۔ عدت کی پابندی وہ شوہر ہی کے لیے قبول کرتی ہے ۔ پھر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے بھی اسے کچھ مہلت لازماً ملنی چاہیے ۔ یہ حکم ان مصلحتوں کے پیش نظر دیا گیا ہے ۔ تقسیم وراثت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔
۰۳۶؎ لہٰذا کسی کو اس کے قانون کی خلاف ورزی کی جسارت نہیں کرنی چاہیے ۔
۱۳۶؎ اس لیے ہر شخص کو سمجھنا چاہیے کہ اس نے جو احکام بھی دیے ہیں ، ان میں انھی کے مصالح پیش نظر ہیں۔
۲۳۶؎ اس سے واضح ہے کہ یہ ایک حق واجب ہے ۔ اگرکوئی شخص اسے ادا نہیں کرتا تو تقویٰ اور احسان کی صفات پر مبنی ہونے کی وجہ سے قانون چاہے اس پر گرفت نہ کر سکے ، لیکن اللہ کے ہاں وہ یقینا اس پر ماخوذ ہو گا اور آخرت میں اس کے ایمان و احسان کا وزن اسی کے لحاظ سے متعین کیا جائے گا ۔
۳۳۶؎ یہ اجمال کے بعد تفصیل اور توضیح کے بعد توضیح مزید کا جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے ، استاذ امام اس کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’...اس سے دین میں غورو فکر اور اس کے فوائد و مصالح اور ا س کے اسرار و حکم تک پہنچنے کے لیے ہماری عقل کی تربیت ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس تدریج کو نمایاں کر کے اس حقیقت کی طرف ہماری رہنمائی فرماتا ہے کہ ہم دین میں عقل کو کس طرح استعمال کر سکتے ہیں اور پیش آنے والے حالات و معاملات میں ان کلیات سے کس طرح جزئیات مستنبط کر سکتے ہیں ۔ اسی حقیقت کی طرف ’ لعلکم تعقلون‘ کے الفاظ اشارہ کر رہے ہیں ۔ ‘‘ ( تدبر قرآن ۱/۷۵۵)
باقی؎
ــــــــــــــــــــــ