HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ریحان احمد یوسفی

عروج و زوال کا قانون: تاریخ کی روشنی میں (۳)

عروج و زوال کے عوامل


پچھلے مباحث میں ہم نے اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ ایک قوم اپنی زندگی میں عروج و زوال کے کن کن مرحلوں سے گزرتی ہے، قوم کے اجزاے ترکیبی کیا ہوتے ہیں اور عروج و زوال کے عمل میں ان کا کردار کیا ہوتا ہے۔ نیز یہ کہ اس قانون عروج وزوال کو جاننے کی اہمیت و افادیت کیا ہے۔تاہم خود عروج و زوال کے پیچھے کام کرنے والے اسباب و عوامل کیا ہوتے ہیں ، اس کا جائزہ ہمیں ابھی لینا ہے ۔ اس بحث میں یہی ہمارا موضوع رہے گا۔

اس مختصر تحریر میں دنیا کی تمام اقوام اور تہذیبوں کا ایک ایک کرکے جائزہ لینا اور ان کے عروج و زوال کے محرکات پر تفصیلی تبصرہ کرنا ممکن نہیں ہے ۔ہم صرف ان بنیادی اصولوں پر بحث کریں گے جو ہمارے نزدیک عروج و زوال کے ضمن میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں ۔ ان میں سے دو غیر اختیاری ہیں اور دو ایسے ہیں جن کا ترک و اختیار اقوام کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ان کی تفصیل درج ذیل ہے ۔

غیر اختیاری عوامل

قوموں کے عروج و زوال میں دو عناصر ایسے ہیں جن کا تعلق قوموں کی مرضی و اختیار سے نہیں، بلکہ اس معاملے میں وہ کائنات کے چلانے والے کی مرضی و اختیار کے پابند ہیں۔ان میں سے پہلی چیز قوم کی اندرونی توانائی ہے ، جبکہ دوسری چیز خارج میں پیش آنے والے خطرات اور چیلنج ہیں۔ذیل میں ہم ان کی کچھ وضاحت کریں گے۔

۱۔ قوم کی اندرونی توانائی

اقوام عالم کے عروج و زوال میں سب سے بنیادی امر یہ ہے کہ معاشرے کے وہ اجزاے ترکیبی ، جن کا تفصیلی ذکر پچھلے مباحث میں ہم کرچکے ہیں، کس حد تک اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ جب تک قوم کے یہ اجزاے ترکیبی اپنا کردار درست طور پر ادا کرتے ہیں ، قوم عروج و ترقی کی طرف گامزن رہتی ہے اور جب معاملہ برعکس ہو تو قوم بھی زوال کا شکار ہوجاتی ہے ۔ مثال کے طور پر ایک حیوانی جسم میں اگر تمام نظام ہاے زندگی ٹھیک طور پر اپنا کردار ادا کرتے ہیں تو وہ جسم فعال رہتا ہے، مگر جب ان پر اضمحلال طاری ہوتا ہے اور وہ اپنے معمولات کو درست طور پر ادا نہیں کرپاتے تو جسم کمزورہونا شروع ہوجا تا ہے اور آخرکار زندگی کی حرارت سے محروم ہوکر وادی عدم میں اتر جاتا ہے۔ اسی طرح انسانی معاشرہ اپنے عروج و زوال کے عمل میں اپنے اجزاے ترکیبی کی قوت و ضعف سے براہ راست متعلق ہوتا ہے۔جب تک ان میں قوت رہتی ہے اور وہ اپنے فرائض و ذمہ داریاں احسن طریقے سے پورا کرتے رہتے ہیں تو معاشرہ مستحکم اور قوم ترقی کی طرف گامزن رہتا ہے اور جب وہ کمزور ہوتے ہیں اور اپنے فرائض سے غفلت برتنے لگتے ہیں تو قوم زوال پزیر ہوجاتی ہے۔

مثال کے طور پر فکری قیادت کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ حالات کا گہرا تجزیہ کرے اور بدلتی ہوئی دنیا میں قوم کے سامنے ایک ایسا لائحۂ عمل رکھے جو قوم کی امنگوں اور اس کے حوصلوں کو درست سمت عطا کرے ۔مذہبی قیادت کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ایک طرف اخلاقی اقدار کو قومی کردار میں زندہ رکھے تو دوسری طرف معاشرتی ارتقا اور مذہبی اصولوں میں قائم توازن کو برقرار رکھے۔ اسی طرح سیاسی قیادت کاکام ہے کہ حوصلہ مندی اور بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر طرح کے حالات میں ایسی حکمت عملی اختیا رکرے جس سے قوم اندرونی اور بیرونی خطرات سے محفوظ رہے۔ یہ اور ان جیسے دیگر بہت سے وظائف ہیں جو قوم کی قیادت کی بنیادی ذمہ داریاں ہیں۔ تاہم ان کی درست ادائیگی صرف اس وقت ممکن ہے جب قیادت زندگی سے بھرپور ہو۔ زندگی کی توانائیوں سے محروم قیادت عام حالات میں بھی قوم کو زوال پزیر کردیتی ہے اور کسی خطرہ کے پیش آنے پر توبالکل بے جان ثابت ہوتی ہے۔

جہا ں تک اس بات کا سوال ہے کہ قوم کے اجزاے ترکیبی کیوں قوت و ضعف کا شکار ہوتے ہیں تو اس کے دو بنیادی اسباب ہیں۔ ان میں سے ایک کی تفصیل ہم اختیاری عوامل کے تحت آگے بیان کررہے ہیں۔ تاہم اس کا دوسرا سبب فطرت کاقانون اجل ہے ، جس کے تحت خدا کسی کو لامحدود زندگی نہیں دیتا، بلکہ ایک خاص وقت کے بعد زندگی کو موت سے بدل دیتا ہے۔ اس عمل میں زندگی دینے والے عناصر بتدریج کم سے کم تر اور کمزور سے کمزور تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔اور ایک خاص وقت پر پہنچ کر زندگی کا بوجھ اٹھانا ان کی استطاعت سے باہر ہوجاتا ہے ۔ چنانچہ زندگی موت کی آغوش میں پناہ لینے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ اگر ہم سائنس کی تعبیر مستعار لیں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر شے کو ایک خاص مقدار میں مخفی توانائی (Potential Energy) دے کر اس دنیا میں بھیجتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ مخفی توانائی حرکی توانائی (Kinetic Energy) میں تبدیل ہوکر زندگی کی کہانی لکھتی رہتی ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ وجود اپنی مخفی توانائی کا تمام تر خزانہ صفحۂ ہستی کو بامعنی بنانے میں صرف کردیتا ہے ، جس کے بعد زندگی کی حرکت موت کے سکوت میں بدل جاتی ہے۔

ایک زیادہ قابل فہم مثال حیوانی اجسام کی ہے جن میں خلیات (Cells) زندگی کی توانائی کا مرکز ہوتے ہیں۔زندگی کے آغاز پر ان کی پیدایش کا عمل بہت تیز ہوتاہے۔چنانچہ زندگی کی گاڑی تیزی سے آگے کی سمت اپنا سفر طے کرتی ہوئی بام عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ اس دورا ن میں زندگی کی بنیادی اکائی یعنی خلیات کی پیدایش کا عمل کم سے کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ پیدایش کا یہ عمل اتنا کم ہوجاتا ہے کہ جسم اپنے عام فرائض کو ادا کرنے میں دقت محسوس کرنے لگتا ہے۔ ایسے میں کوئی معمولی سی بیماری بھی لاحق ہوجائے تو بڑھتے بڑھتے جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ٹھیک اسی طرح انسانی معاشروں میں ایک خاص وقت گزرنے کے بعد زندہ افراد پیدا ہونا کم ہوجاتے ہیں۔ان کی کمی کی بنا پر معاشرہ کمزور ہونا شروع ہوجاتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ معاشرہ مردہ نفوس کا ایک ہجوم بن جاتا ہے جسے فطرت کا قانون اجل ایک وقت آنے پر دھرتی سے مٹادیتا ہے۔

مختصر یہ کہ اس دنیا میں کوئی قوم اصلاً اپنی اندرونی توانائی کی بنیاد پر قوت و استحکام حاصل کرتی ہے۔ جب تک معاشرے میں یہ توانائی موجود ہے ، وہ اندر اور باہر سے پیش آنے والے خطرات کا جواب دیتا رہتا ہے۔ اس کے مختلف طبقات ان ذمہ داریوں کو با طریقۂ احسن ادا کرتے ہیں جو ان پر عائد ہوتی ہیں۔ جب یہ توانائی ختم ہونا شروع ہوجاتی ہے تو اس صورت میں قوم پہلے کمزور اور آخر میں زوال پزیر ہوجاتی ہے۔توانائی میں کمی کے اس عمل کو روکنا کسی کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ قدرت کا یہ قانون جب حرکت میں آتاہے توبڑی سے بڑی سپر پاور بھی ماضی کا ایک افسانہ بن کر رہ جاتی ہے۔ہم پچھلے صفحات میں قوموں کے عروج و زوال کے مراحل کے ضمن میں وہ پورا لائف سائیکل بیان کرچکے ہیں جس سے ایک سپر پاور گزرتی ہے۔مصری، رومی ، عرب، ترک سب اپنے عروج کے دور میں دنیا بھر کے حاکم تھے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی توانائی میں کمی آتی چلی گئی،جس کے نتیجے میں ان کی قیادت ختم ہو گئی سلطنت برباد ہوگئی اور بحیثیت قوم انھیں دوسری اقوام کی مغلوبیت یا اپنے ابتدائی جغرافیہ میں سمٹنے جیسے نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔

۲۔ خارجی چیلنج

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی دنیا مقابلے کے اصول پر بنائی ہے۔ اس دنیا میں کسی وجود کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ خارجی دنیامیں پیش آنے والے خطرات سے بے پروا ہوکر زندگی گزارے۔جب تک کسی قوم کی اندرونی توانائی اس کا ساتھ دیتی ہے، وہ خارج کے ان چیلنجوں کا مقابلہ کرتی ہے، مگر جب یہ توانائی کم یا ختم ہوجاتی ہے تو وہ ان خطرات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتی ہے۔تاہم بعض اوقات چیلنجوں اور خطرات اس قدر بڑے اور عظیم ہوتے ہیں کہ وہ قومیں بھی جن کی اٹھان دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ ابھی بڑھاپے سے کوسوں دور ہیں ، ان کے مقابلے میں خود کو بے دست و پا محسوس کرتی ہیں۔جس طرح کوئی جوان رعنا کسی تیز رفتا رگاڑی کے سامنے آکر موت کا نوالہ بن جاتا ہے ، اسی طرح بعض اوقات ایک قوم بھی کسی ایسے حادثے کا شکا ر ہوجاتی ہے جو اس کی ہمت و استعداد سے بڑھ کر ہوتا ہے۔یہ چیلنج یا حادثہ قدرت کی طرف سے بھی ہوسکتا ہے۔مثلاً زراعتی دور میں جو معلوم تاریخ کا سب سے بڑا دور ہے، بارہا ایسا ہوا کہ خشک سالی قوموں کی تباہی کا سبب بن گئی۔یا وہ قومیں جو دریاؤں کے کنارے آباد تھیں ، سیلاب آنے یا دریا کا رخ تبدیل ہوجانے کی بنا پر اپناوجود برقرار نہ رکھ سکیں۔ وادی سندھ کی تہذیب جو دنیا کی قدیم ترین تہذیب شمار ہوتی ہے، اس کی تباہی کے جو اسبا ب محققین بیان کرتے ہیں، ان میں سے ایک نمایاں سبب ایسے ہی قدرتی عوامل کی کارفرمائی تھا ۔ اسی طرح قرآن مجید کی سورۂ سبا (۳۴) کی آیات ۱۵ تا ۱۹ میں قوم سبا کا جوقصہ بیان کیا گیا ہے ، اس میں سبا کی تباہی کا نقطۂ آغاز عالم اسباب میں وہ عظیم سیلاب تھا جسے ’’سیل العرم‘‘ کہا جاتاہے۔

چیلنج کی دوسری قسم جو کسی قوم کو اس وقت تباہ کردیتی ہے جب کہ اس کی قدرتی زندگی کا خاتمہ ابھی دور ہوتا ہے ، اکثر و بیشتر دوسری اقوام کی طرف سے یلغار کی صورت میں پیش آتی ہے۔مغربی رومی سلطنت کو روس اور شمالی یورپ کے وحشی قبائل کی جن یلغاروں کا سامنا کرنا پڑا، اس نے اس کے وجود کو بے حد نحیف کرڈالا۔تیمور لنگ نے جس وقت بایزید یلدرم کو شکست دی تو وہ ایک ابھرتی ہوئی طاقت تھا اور مشرقی یورپ میں مسلم اقتدار کی وسعت کے بعد پورے یورپ کی فتح کا منصوبہ بنارہا تھا۔عثمانی حکومت کی خوش قسمتی تھی کہ یلدرم کے جانشین بہت باصلاحیت تھے ، وگرنہ عثمانی ترکوں کی تاریخ یلدرم کے ساتھ ہی ختم ہوجاتی۔

چیلنج کی ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ کوئی قوم جانے انجانے میں کسی ایسی جنگ میں ملوث ہوجائے جس میں جیت کر بھی وہ اپنا وجود ہار جاتی ہے۔دور جدید میں آخری دو سپر پاورز اسی جنگ و جدل کی وجہ سے قبل از وقت اپنا عروج کھونے پر مجبور ہوگئیں۔برطانیہ عظمیٰ کی سلطنت جس میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، دو عظیم جنگوں کی بنا پر اپنی عظمت و قوت گنوابیٹھی اور واپس اس چھوٹے سے جزیرہ میں محدود ہوگئی جہاں سورج اکثر بادلوں کے پیچھے چھپا رہتا ہے۔حال ہی میں سوویت یونین کی عظیم سپر پاور جو دنیا بھر میں خوف ودہشت کی علامت تھی اور جس کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ روس کے قدم جس ملک میں پڑگئے ، وہ باہر نہیں نکلتے، افغانستان میں ایک ایسی جنگ کا شکار ہوئی جس کے نتیجے میں نہ صرف اسے افغانستان خالی کرنا پڑا ، بلکہ خود اپنے وجود کی بقا و حفاظت میں بھی ناکام ہوکر تحلیل ہوگئی۔

یہاں یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ چیلنج ہمیشہ قوم کو تباہ کردیتے ہیں۔ یہ قوم کے عروج کا بھی سبب بنتے ہیں۔یہ چیلنج ہی ہوتے ہیں جس سے کسی قوم پر اس کی وہ توانائیاں عیاں ہوتی ہیں جو اس قوم میں پوشیدہ ہوتی ہیں اورجن کا اظہار اس سے قبل نہیں ہوا ہوتا۔چنگیز خان کو دنیا ایک عظیم فاتح کی حیثیت سے جانتی ہے۔اس کی فتوحات کا آغاز وہ چیلنج تھا جو خوارزم شاہ نے اس کے سفیروں کو قتل کرکے اس کے لیے پیدا کردیا تھا۔خوارزم شاہ خطے کا سب سے طاقت ور حکمران تھاجس کے بڑھتے ہوئے اقتدار کا اگلا نشانہ بغداد کی خلافت تھی ۔اس سے ٹکرانے کا فیصلہ آسان نہ تھا۔اس کا نتیجہ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ تاتاریوں کو بڑی تباہی اٹھاکر بھی کچھ نہ ملتا، مگر چنگیز خان نے اس چیلنج کو قبول کیا اور نتیجے سے دنیا واقف ہے۔

اختیاری عوامل

درج بالا عوامل وہ تھے جو قوموں کے عروج و زوال میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں ، مگر اصلاً یہ کسی قوم کے دائرۂ اختیار میں نہیں ہوتا کہ وہ ان دونوں محرکات کو اپنی طرف سے متعین کرے۔ وقت بہرحال گزرے گا اور اس کے بعد ضعف لازمی ہے۔ اسی طرح قدرتی حوادث بھی پیش آتے رہتے ہیں جن پر کسی قوم کا اختیار نہیں ہوتا۔ دوسری اقوام کے حملے اور جنگیں بھی کوئی ایسی چیز نہیں کہ کوئی قوم تنہا ان کے انجام کو متعین کرلے۔تاہم اس دنیا میں خدا نے دو معاملات ایسے رکھے ہیں جن میں قوموں کے پاس موقع ہوتا ہے کہ نہ صرف وہ اپنی طبعی عمر میں اضافہ کریں اور اپنی توانائی کو زیادہ دیر تک برقرار رکھیں ، بلکہ وہ ہر طرح کے خارجی چیلنج کا بھی مقابلہ کرسکتی ہیں۔ ان میں سے ایک چیزاخلاقی اقدار کی پاس داری ہے اور دوسری وقت کی مروجہ ٹیکنالوجی میں زیادہ سے زیادہ ترقی ہے۔ یہ دونوں چیزیں لوگوں کے اپنے اختیار کی ہیں اور جب وہ ان کی رعایت کرتے ہیں تو وہ غیر اختیاری محرکات کو بھی بالواسطہ اپنے اختیار میں کرلیتے ہیں۔

۱۔ اخلاقی اقدار کی پابندی

قوموں کی زندگی میں اخلاقیات کی کیا اہمیت ہے ، اس بات کو سمجھنے کے لیے انسان کا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔انسان کو اس دنیا میں ایک حیوانی قالب دے کر بھیجا گیا ہے۔بھوک ،پیاس ، شہوت اور کسی پناہ گاہ کا حصول اسی حیوانی قالب کی ضروریات ہیں۔ان کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے آنے والے خطرات سے مقابلے اور انھیں ختم کرنے کے لیے جنگ و جدل کرنا اس کے حیوانی وجود کی بقا کا ناگزیر تقاضا ہے۔ان معاملات میں انسان جانور جیسا ہے۔تاہم انسان کو قدرت کی طرف سے ایک فطرت صالحہ بھی عطا کی گئی ہے جو تمام اعلیٰ اخلاقیات کی ماخذ ہے۔ یہ فطرت انسانیت کی اساس ہے جس کی بنا پر انسان ہمیشہ خود کو کچھ ایسی حدود کا پابند محسوس کرتا ہے جن کی بنا پر وہ اپنے آپ کو جانوروں سے مختلف پاتا ہے۔ممکن ہے کہ کوئی فرد اپنے حیوانی تقاضوں کے سامنے مغلوب ہوکر ا خلاقی اصولوں کی خلاف ورزی کربیٹھے ، مگر انسان کے اجتماعی وجود میں ان کا تصور اتنا گہرا ہے کہ ایسا کوئی عمل ، عام حالات میں انسانوں کے لیے کبھی نمونہ نہیں بن سکتا۔

حیوانی قالب اور فطرت صالحہ کے ساتھ ایک تیسری چیز جسے لے کر انسان اس دنیا میں آتا ہے ، وہ عقل و بصیرت کی صلاحیت ہے۔یہ صلاحیت انسان کی کمزوریوں کے باجود اسے طاقت ور بناتی ہے۔ انسان محض اپنے حیوانی وجود کی توانائیوں کے سہارے قدرت کی طاقتوں، دیگر انواع یا خود اپنے جیسے انسانوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔یہ کام عقل و فہم کی ان صلاحیتوں کا ہے جو خداوند نے دنیا میں بھیجتے وقت زاد راہ کے طور پر اس کے ہم رکاب کی ہیں۔ اسی عقل کے سہارے انسان اس دنیا میں اپنی بقا کی جنگ لڑتا ہے اور ایک کمزور حیوانی وجود رکھنے کے باوجود ان تمام مخالفین کو شکست دے دیتا ہے جو اس سے کہیں زیادہ طاقت ور ہوتے ہیں۔

عقل و فہم کی یہ صلاحیتیں جو خارجی دنیا میں اس کی معاون ہوتی ہیں ، اس کے داخل میں بھی حیوانی اور اخلاقی تقاضوں میں ایک توازن قائم رکھتی ہیں۔انسان کے حیوانی جذبے بہت سرکش اور شدید ہوتے ہیں اور ہر رکاوٹ کو پھلانگ کر اپنی فوری تسکین کا مطالبہ کرتے ہیں۔یہ عقل و بصیرت ہے جو نہ صرف انسان کے حیوانی جذبوں کو لگام ڈالتی ہے ، بلکہ فطرت کی نسبتہً کمزور اور دبی ہوئی آواز پر لبیک کہتی ہے۔ تاہم جب انسان کے حیوانی تقاضے اس پر غالب آنے لگتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب معاملات کی باگ ڈور عقل کے ہاتھوں سے نکل کر حیوانیت کے ہاتھوں میں جارہی ہے۔اب اس کے وجود میں حکمران عقل نہیں ، بلکہ حیوانی جذبات ہیں اور عقل ان کی خادم ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ حیوانیت کی اقلیم میں اخلاقیات کی دنیا کے فرمان جاری نہیں ہوا کرتے ۔ حیوانیت اپنی اخلاقیات خود تشکیل دیتی ہے جس کی اساس عیش کوشی اور مفادپرستی پررکھی جاتی ہے۔

عقل جب فطرت و اخلاق کو حیوانیت پر غالب کرنے میں ناکام رہتی ہے تو عین اس وقت وہ خارج میں انسان کی حفاظت کے معاملے میں بھی غیر موثر ہونے لگتی ہے۔ اول تو جذبات کی نازبرداریاں خارج کے خطرات کی طرف اسے متوجہ ہی نہیں ہونے دیتیں اور اگر کبھی ایسا ہو بھی توعقل فطرت کے ان صالح عناصر کی مدد سے محروم ہوتی ہے جو اکثر اخلاقیات کی شکست کے ساتھ ہی موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ مثلاً شجاعت اور استقامت وغیرہ ۔ جیسے ہی یہ معاملہ ہوتا ہے تو انسان اصلاً ایک کمزور جسم والے حیوان کے مقام پر آکر کھڑا ہوجاتا ہے۔ایسا فرد زندگی کی جدوجہد میں زیادہ دیر تک شریک نہیں رہ پاتا۔

جب یہ رویہ پوری قوم یا اس کی اکثریت اختیار کرلیتی ہے تو ایسا معاشرہ اس قابل نہیں رہتا کہ خارج کے ان خطرات کا مقابلہ کرسکے جن کا پیش آنا اس دنیا میں ناگزیر ہے۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے ۔ ایسی قوم کے سامنے جیسے ہی کوئی چیلنج آتا ہے ، وہ ریت کی دیوار کی طرح اس کے سامنے ڈھیر ہوجاتی ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ ساز و آواز پر رقص کرنے والے موت کے رقص کے وقت بہت کمزور ثابت ہوتے ہیں۔ نازک کلائیاں اور شراب کے جام تھامنے والے ہاتھ تلوار کا بوجھ نہیں اٹھا پاتے۔ پسے ہوئے طبقات پر ظلم کرنے والے خارجی طاقتوں کے لیے تر نوالہ بنا کرتے ہیں۔اس کے برعکس اخلاقی طور پر طاقت ور قوم کی عقلی صلاحیتیں کہیں زیادہ متحرک اور فعال ہوتی ہیں۔ اس کے افراد اپنے داخل میں ہم آہنگی پیدا کرتے کرتے خارجی ہم آہنگی کے فن میں بھی طاق ہوجاتے ہیں۔ ہر خطرے کے وقت ا ن کے دل اور دماغ یک سو ہوکر مقابلے پر آتے ہیں۔

عقل و اخلاقیات کے اس باہمی تعلق کے علاوہ اخلاقیات کی ایک دوسری حیثیت یہ ہے کہ اصلاً یہ اس توانائی کا منبع ہے جس کا ذکرہم شروع میں کرآئے ہیں۔ جس طرح ایک ورزش کرنے والا شخص تندرست و توانا رہتا ہے ، اسی طرح اخلاقی زندگی گزارنے والے لوگوں میں وہ خصوصیات ہمیشہ زندہ رہتی ہیں جو خطرات کے پیش آنے پر ان سے مقابلہ کے لیے ضروری ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اخلاقی زندگی اصل میں قربانی کی زندگی ہوتی ہے۔ جو گروہ روزمرہ کی زندگی میں اخلاقی اصولوں کے لیے قربانی نہیں دے سکتا ، اس کے افراد اجتماعی ضرورت کے مواقع پر بھی اس درجہ کی قربانی پیش نہیں کرسکتے جو خطرات کو دفع کرنے کے لیے ضروری ہوتی ہے ، بلکہ اخلاق سے محرومی کے بعد ان میں وہ خصوصیات پیدا ہوجاتی ہیں جو انھیں دوسروں کے لیے ایک آسان ہدف بنادیتی ہیں۔مزید براں یہ اخلاقی داعیات ہیں جوذاتی مفادات سے بلند ہوکر قومی خدمت کے لیے اٹھنے والے بلند کردار لوگ پیدا کرتے ہیں۔قومیں ایسے ہی لوگوں سے زندگی ، طاقت اور توانائی کا خزانہ حاصل کرتی ہیں۔ جب یہ لوگ کم رہ جاتے ہیں، بالخصوص طبقۂ اشرافیہ میں، تو قوم انتہائی تیزی سے زوال کی طرف گامزن ہوجاتی ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ اخلاقی خوبیوں کا فروغ ہی وہ چیز ہے جو معاشرے کے مختلف طبقات میں باہمی الفت و محبت پیدا کرتا ہے۔ اور ان کی توانائیاں اندرونی کشمکش میں ضائع ہونے کے بجائے قومی تعمیر کے کام میں خرچ ہوتی ہیں۔ صور ت حال اگر برعکس ہو تو باہمی آویزش قومی اتحاد کو پارہ پارہ کردیتی ہے جو آخر کار تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔

فلسفۂ تاریخ کا بانی ابن خلدون اخلاقیات کی اسی اہمیت کی بناپراسے غیر معمولی اہمیت دیتا ہے۔ وہ غلبہ و اقتدار والی قوموں کی زندگی میں اخلاق حمیدہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:

’’عادات پسندیدہ و اخلاق حمیدہ اس قوم کے تمام افراد میں موجود ہیں۔ کرم و عفو ان کا شیوہ ہے۔مظلوم و بیکسوں کی باتوں کی برداشت اور آئے گئے مہمانوں کی میزبانی کرتے ہیں۔محنت ومشقت اور جدوجہد سے جی نہیں چراتے۔مکروہات پر صبر کرتے اور ایفائے عہد کو واجب جانتے ہیں۔عزت کی حفاظت میں مال خرچ کرنے سے انھیں دریغ نہیں ہوتا ... جو کوئی حق بات کہے اسے بغیر رعونت سنتے اور اس کی پیروی کرتے ہیں۔ضعیف الحال لوگوں سے باانصاف و شفقت پیش آتے ہیں۔ بذل وسخا سے کام لیتے ہیں۔ مسکینوں سے بتواضع ملتے اور داد خواہوں کی فریاد سنتے ہیں۔ دینی احکام و عبادات سے کبھی غافل نہیں ہوتے۔مکر وغداری اور عہد شکنی سے پرہیز کرتے ہیں۔یہی وہ اخلاق حمیدہ ہیں جن سے انھیں سلطنت و سیاست کا بلند مرتبہ ملتا ہے اور مخلوق پر حکمرانی کرتے ہیں۔‘‘ (مقدمہ: باب دوم فصل بیس)

آگے چل کر لکھتا ہے:

’’پس اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو ملک و سلطنت دینا چاہتا ہے تو پہلے اس کے اخلاق و اطوار کی تہذیب کرتا ہے اور بخلاف اس کے جب کسی قوم سے دولت و سلطنت سلب کرنا چاہتا ہے تو پہلے وہ قوم مرتکب مذام ہوتی ہے اور فضائل پسندیدہ اس سے مفقود ہوجاتے ہیں۔ اور برائیاں بڑھنے سے ملک اس کے ہاتھوں سے نکل کر دوسروں کے قبضہ میں آجاتا ہے۔‘‘ (ایضاً)

خاتمۂ بحث میں لکھتا ہے:

’’پس جب یہ باتیں کسی قوم کی عصبیت والوں میں پائی جائیں توسمجھنا چاہیے کہ یہ قوم بہت جلد سیاست عام اور مملکت کے مرتبے پر پہنچنے والی ہے ۔ کیونکہ یہی باتیں خداکی مقرر کردہ اقبال مندی اور سلطنت کی علامتیں ہیں اور یہی عادتیں خدا اس قوم سے سلب کرلیتا ہے جس سے ملک و سلطنت چھننا چاہتا ہے۔ اس لیے جب دیکھو کہ کسی قوم سے یہ باتیں مٹ چلی ہیں تو سمجھ لو کہ فضائل قومی روبہ زوال ہیں او ر ملک عنقریب اس قوم کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔‘‘ (ایضاً)
۲۔جدید ٹیکنالوجی پر عبور

ہم پیچھے یہ بات بیان کرچکے ہیں کہ اس دنیا میں اقوام کو مختلف قسم کے چیلنجوں سے سابقہ پڑتا رہتا ہے۔یہ چیلنجوں قدرت کی طرف سے بھی پیش آتے ہیں اوردوسری اقوام کی طرف سے بھی ۔چنانچہ ان کے لیے لازم ہے کہ ہر آن خطرات سے مقابلہ کی تیاری رکھیں۔اگر وہ تیار نہیں تو تباہی ان کا مقدر ہے۔ خطرات سے مقابلے کی واحد صورت یہ ہے کہ قوم کو اپنے وقت کی ٹیکنالوجی پر غیر معمولی عبور حاصل ہو۔ اس کے افراد علوم و فنون کے جدید رجحانات سے بے خبر نہ ہوں۔اس کی قیادت اپنی کمزوریوں اور دشمنوں کی طاقت سے بخوبی واقف ہو اور اس کے تدارک کے لیے بھرپور تیاری رکھتی ہو۔

یہ ٹیکنالوجی ہر دور کے اعتبار سے بدلتی رہتی ہے۔ مثلاً قرآن نے جب مسلمانوں کو اس امر پر متنبہ کیا تو گھوڑوں کا ذکر فرمایا:

’’اور ان کے لیے جس حد تک کر سکو قوت اور بندھے ہوئے گھوڑے تیار رکھو، جس سے اللہ کے اور تمھارے ان دشمنوں پر تمھاری ہیبت رہے اور ان کے علاوہ کچھ دوسروں پر بھی جنھیں تم نہیں جانتے۔‘‘ (الانفال۸: ۶۰)

تیر، تلوار،ڈھال، نیزے، زرہ بکتر، خود، رتھیں، منجنیق، آتشی تیراور بارود وغیرہ مختلف ادوار میں ایجاد کیے جاتے رہے اور ان کی مدد سے طاقت ور اور تعداد میں زیادہ دشمنوں کو شکست دی جاتی رہی ہے۔ ہم تاریخ کی ایک دو مثالوں سے اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہکساس نامی حملہ آور وں نے ۱۷۰۰ ق م کے لگ بھگ مصر پر حملہ کیا اور بآسانی پورے مصر پر قابض ہوگئے۔ ان کی کامیابی کا ایک اہم سبب جنگ میں رتھوں کا استعمال تھا جو مصریوں کے لیے بالکل اجنبی ہتھیار تھا۔ہکساس نے رتھوں کا طریقۂ استعمال میسوپوٹیمیا کی مٹانی قوم سے سیکھا ، جبکہ انھوں نے گھوڑں کا یہ استعمال اہل ایران سے لیا تھا۔ مغربی ایشیا کے تمام لوگ جدید تبدیلیوں سے بخوبی واقف تھے۔ جبکہ عظیم الشان اہرام تعمیر کرنے والے اور ایک شان دار تہذیب کے حامل مصری دنیا سے الگ تھلگ رہنے کی بنا پر جنگی فنون میں تبدیلیوں سے ناواقف رہے۔ اسلامی تاریخ میں بھی متعدد ایسی ہی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مثلاََ صلیبی جنگوں کے ہیرو سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقد س پر قابض جنونی عیسائیوں کے خلاف جو کامیابی حاصل کی ، اس کا ایک اہم سبب ان آتشی تیروں کا استعمال تھا جن کے ذریعے سے مخالفین کے لشکروں میں آگ لگ جایا کرتی تھی۔ اسی طرح اسلامی تاریخ سے ادنیٰ واقفیت رکھنے والا بھی یہ جانتا ہے کہ جنگ احزاب کے موقع پر جب پورا عرب مدینے کی مختصر آبادی پر چڑھ آیا تھا تو مسلمانوں نے خندق کی عجمی تکنیک کو استعمال کرکے دشمنوں کو حیران کردیا تھا۔

دور جدید میں ٹیکنالوجی سے پڑنے ولا فرق تو اتنا نمایاں ہوچکا ہے کہ اس پر مزید گفتگو کرنا غیر ضروری ہوگا۔پچھلے کئی سو برسوں میں اہل مغرب کی پے در پے کامیابیوں کے پیچھے کام کرنے والا بنیادی عامل جدید ٹیکنالوجی پر ان کا عبور ہے جس کا مقابلہ کسی اور ذریعے سے کرنا ممکن نہیں۔مزید براں یہ کہ آج ٹیکنالوجی کی یہ مہارت صرف جنگی معاملات میں کام نہیں آتی ، بلکہ معاشی اور تہذیبی میدانوں میں، جہاں اصلاً اب قومیں اپنی موت و زندگی کی جنگ لڑتی ہیں، فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔

تاہم یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ٹیکنالوجی کی یہ مہارت صرف ان قوموں میں جنم لیتی ہے جہاں تعلیم و مطالعہ کا عام رواج ہو۔ جن قوموں میں شرح خواندگی ناپنے کا پیمانہ دستخط کرنا ہو اور پھر بھی شرح خواندگی قابل شرم حد تک کم ہو، جہاں اہل علم و فضل کے مقابلے میں کھلاڑیوں ، اداکاروں اور گلوکاروں کو قوم کے ہیروز کا درجہ حاصل ہو، جہاں ایک کتاب خریدنے کے بجائے کنسرٹ کا ٹکٹ خریدنا اور برگرکھانا زیادہ مرغوب ہو ، وہ قومیں مصنوعی اقدامات سے کبھی بھی ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل نہیں کرپاتیں۔

خلاصۂ بحث

ہم نے تاریخ جیسے موضوع پر قلم اٹھایا اور اختصار کو اپنا شعار قرار دیا۔ اس لیے عین ممکن ہے کہ ہمارے بیانات کا ربط بعض مقامات پر زیادہ واضح نہ ہوا ہے۔ بہرحال ہم اس مختصر تحریر میں تاریخ بیان نہیں کررہے ، بلکہ فلسفۂ تاریخ کی روشنی میں قوموں کے عروج و زوال کے چند قواعد بیان کررہے ہیں۔ جو لوگ تفصیلات کے طالب ہیں وہ ابن خلدون، گستاؤ لی بان ، ٹوائن بی اور اشپنگلر وغیرہ کے کام کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

تاہم جو بات ہم نے پچھلے مباحث میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے ، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تاریخ بے ربط انداز میں عمل نہیں کرتی ۔ اس بارے میں اگر کوئی غلط فہمی پیدا ہوتی ہے تو وہ اس وجہ سے ہے کہ تاریخی عمل میں کام کرنے والے عناصر اس قدر بے گنتی اور متنوع ہوتے ہیں کہ معاصرین بھی ان کا حقیقی ادراک نہیں کرپاتے ۔ بعد میں آنے والوں کے لیے تو ان سے اصولوں کا استنباط کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔پھر واقعات کی ایک سے زیادہ تاویلات کی گنجایش بھی باقی رہتی ہے۔سب سے بڑھ کر مسئلہ یہ ہے کہ واقعات جب اگلی نسلوں تک پہنچتے ہیں تو اکثر ان کی صحت یقینی نہیں ہوتی۔ یہ بھی یقینی طور پر معلوم نہیں ہوتا کہ ہم تک واقعات کا ابلاغ مکمل بھی ہے یا نہیں۔ ان تمام مسائل کے باوجود فلسفۂ تاریخ پر اب تک جو کام ہو چکا ہے ، اس سے یہ بات اب بالکل واضح ہے کہ تاریخی عمل اتفاقات کا نام نہیں ہے۔ جب یہ عمل ایک قوم کی زندگی میں پورے طور پر روبہ عمل ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں عروج و زوال کا ایک سلسلہ وجود میں آتا ہے۔یہ سلسلہ جو کائنات کی ہر شے میں ظہور کرتا ہے ، قوموں کی زندگی میں بھی ظہور پزیر ہوتا ہے۔ اور مختلف مراحل سے گزر کر ایک منطقی انجام تک پہنچتا ہے۔

عروج و زوال کے اس عمل میں قومی زندگی کے تمام عناصر کا ایک کردار ہوتا ہے۔ یہ نہ صرف اس پورے عمل سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں ، بلکہ اصلاً اس کے تخلیق کرنے والے بھی ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قومی جسد اور اس کے عناصر قدرت کے کچھ قوانین کے پابند ہوتے ہیں ، تاہم خدا نے انسان کوایک صاحب اقتدار ہستی کے طور پر اس دنیا میں بھیجا ہے۔ اس لیے معاملات کی باگ اسی کے ہاتھ میں ہے۔ جب تک قوم کے افراد زندہ رہتے ہیں اور اخلاقی ومادی دنیا کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں ، تب تک عروج و سرفرازی ان کا مقدر رہتی ہے ۔ مگر جب وہ اخلاقی اور مادی دنیا کے تمام تقاضوں کو نظر انداز کرکے خوش گمانیوں، توہمات اور جذباتیت کے سہارے زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں تو زوال سے بچنا ممکن نہیں رہتا۔

[باقی]

____________

B