HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر فاروق خان

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

امریکہ کا کردار: امت مسلمہ اور پاکستان کے تناظر میں (۲)

امریکہ: ہمارا دوست یا دشمن


عالم اسلام کے اندر اس وقت اس سوال پر بڑی بحث ہو رہی ہے کہ آیا امریکہ پورے عالم اسلام اور بذات خود مذہب اسلام کو دشمن کی نظر سے دیکھتا ہے یا وہ درحقیقت عالم اسلام کا دوست ہے ۔یا پھر یہ کہ وہ عالم اسلام کا نہ دوست ہے نہ دشمن ، بلکہ وہ عالم اسلام کے ہر ملک سے علیحدہ علیحدہ محض تعلقات کار رکھنا چاہتا ہے ۔

جو مکتب فکر یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ پورے عالم اسلام اور بذات خود مذہب اسلام کا دشمن ہے ،ا س کی دلیل یہ ہے کہ امریکہ دراصل اسی استعماری اور سامراجی قو ت کا تسلسل ہے جس نے مسلمانوں کے ساتھ صلیبی جنگیں چھیڑیں اور جو بعد میں یورپی نوآبادیاتی طاقتوں کی شکل میں ایشیا اور پھر افریقہ پر قابض ہوئی ۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ پچھلے پچاس برس سے اسرائیل کی مسلسل اور غیر متزلزل حمایت کر رہا ہے ۔امریکہ نے ۱۹۹۰ء میں خلیجی جنگ کے بعد تمام خلیجی ملکوں اور سعودی عر ب میں اپنے فوجی اڈے قائم کرلیے ۔ ’’القاعدہ‘‘ کے بہانے سے اس نے طالبان کی حکومت ختم کر دی اور اب عراق کے درپے ہے۔ اس کے بعد اغلباً ایران اور پھر پاکستان کی باری ہے ۔

دوستی کی بات کرنے والا مکتب فکر درج بالا دلائل کو غلط سمجھتا ہے ۔ اس کے خیال میں صلیبی جنگوں سے پہلے او ر صلیبی جنگوں کے بعد ایک لمبے عرصے تک مسلم ملکوں اور یورپی طاقتوں میں دوستی بھی رہی ہے ۔اس دوران میں خود عیسائی یورپی ملکوں میں بھی آپس میں بڑی خون ریز لڑائیاں ہوئی ہیں ۔اس کے بعد افریقہ اور ایشیا پر یورپی قبضہ دراصل ٹیکنالوجی کی قوت کا مظہر تھا ۔اس میں بھی عیسائی یورپی طاقتیں آپس میں کبھی متحد نہیں رہیں ،بلکہ انگریزوں، فرانسیسیوں، پرتگیزیوں اور ولندیزیوں کے درمیان اس دوران میں بڑی جنگیں ہوئی ہیں ۔پہلی اور دوسری جنگ عظیم بھی اصلاً یورپی عیسائی طاقتوں کی آپس کی لڑائی تھی جس میں دونوں طرف سے کروڑوں لوگ ہلاک ہوئے ۔آج امریکہ عالم اسلام کے غریب ممالک کو سب سے زیادہ امداد دینے والا ملک ہے ،خصوصاً پاکستان کی ترقی کی ایک ایک اینٹ امریکی امداد کی مرہون منت ہے ۔امر یکہ نے مسلمان ممالک کو کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچایا ، سوائے ان مواقع کے کہ جب کسی نے خود آگے بڑھ کر امریکی مفادات یا امریکہ پر براہ راست حملہ کر دیا ہو ۔دو یورپی مسلمان ملکوں یعنی بوسنیا اور کوسووو کی آزادی دراصل امریکہ ہی کی مرہون منت ہے ۔

ورکنگ ریلیشن شپ یا تعلقاتِ کار والے مکتب فکر کے خیال میں بین الاقوامی تعلقات میں نہ مستقل دوستی چلتی ہے ،نہ مستقل دشمنی ، بلکہ ہر ملک اپنے وقتی مفادات کی خاطر دوسروں سے تعلقات کار رکھتا ہے ۔امریکہ کی اصل دلچسپی اس خواہش سے ہے کہ اس کے سپر پاور ہونے کی حیثیت برقرار رہے اور اس کے مفادات کو کوئی نقصان نہ پہنچے ۔اس کی پچھلی تمام تاریخ اس امر کی گواہ رہی ہے کہ اس نے دوسرے ملکوں سے تعلقات ہمیشہ اسی وجہ سے اور یا پھر اپنی اندرونی سیاست کی وجہ سے رکھے ہیں اور اس میں ا س نے مذہب ،رنگ اور نسل کا خیال کم ہی رکھا ہے۔ پچھلے پچاس برس میں اس کا سب سے بڑا دشمن کمیونزم رہا ہے جس کا علم بردار سفید فام عیسائی روس اور مشرقی یورپ تھا۔ تیس چالیس برس پہلے عراق، شام ،لیبیا ،ایران اور کئی دوسرے ممالک میں امریکہ مخالف انقلاب آئے ، مگر امریکہ نے ان پر حملہ نہیں کیا ، اس لیے کہ یہ حملے اس کو بہت مہنگے پڑتے ۔ کئی بدھسٹ ممالک مثلاً جاپان ،جنوبی کوریا ،تائیوان اور تھائی لینڈ سے اس کے بہت اچھے تعلقات ہیں۔زمبابوے اور جنوبی افریقہ میں اس نے سفید فام نسلی امتیاز پر مبنی حکومتوں کو ختم کرنے اور افریقی اکثریت کی حکومت کو قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ایسے جھگڑے جن میں ایک فریق عیسائیوں پر مشتمل تھا ، مثلاً اریٹریا اور صومالیہ کی آویزش ،جنوبی سوڈان کی لڑائی اور بیافرا کے مسئلے پر اس نے عیسائیوں کا ساتھ نہیں دیا ۔افریقہ کے غریب ترین عیسائی ممالک کی امداد میں امریکہ نے کوئی خاص گرم جوشی نہیں دکھائی ۔اس کے برعکس اس نے کئی مسلمان ممالک مثلاً انڈونیشیا ،بنگلہ دیش ،سعودی عرب ،کویت ،ترکی اور مراکش وغیرہ سے قریبی تعلق رکھا ہے ۔

درج بالا تینوں نقطہ ہاے نظر کے دلائل میں وزن موجود ہے۔مناسب ہے کہ ان میں سے بعض امور پر خصوصی توجہ دی جائے خصوصاً ان مسائل پر جن کا تعلق موجودہ حالات سے ہے ،تفصیل سے روشنی ڈالی جائے ۔

مسلمانوں اور عیسائیوں کی تاریخی کشمکش

امریکی اقدامات کے تجزیے میں یہ نکتہ بھی باربار آتا ہے کہ یہ دراصل عالم اسلام اور عیسائی دنیا کے درمیان تاریخی کشمکش کی ایک کڑی ہے ۔اس لیے ضروری ہے کہ چودہ سو سال کی تاریخ پر ہماری نظر رہے۔

مسلمانوں نے اپنے ابتدائی چھ سو برس میں جتنا علاقہ فتح کیا ،سوائے اندلس ،بھارت اورفلسطین کے ،کم و بیش باقی تمام علاقہ اب بھی عالم اسلام میں شامل ہے ۔اندلس کی حکومت کے خاتمے کی اصل وجہ آپس کی خانہ جنگی تھی۔ اس کے برعکس برصغیر پر جن مسلمان حکمرانوں نے قبضہ کیا ، انھیں یہاں اسلام کی دعوت پھیلانے سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی ۔البتہ ارض فلسطین خصوصاً یروشلم ہمیشہ سے کشمکش کا مرکز رہا ہے ۔یروشلم پر مسلمانوں نے ۶۴۰ء میں قبضہ کر لیا تھا ۔اس کے بعد ۱۰۹۶ء یعنی اگلے ساڑھے چار سو بر س سے بھی زیادہ عرصہ اس پر مسلمانوں کا قبضہ رہا ۔اس کے بعد ایک سوبرس تک اس علاقے پر عیسائی طاقتوں کا قبضہ رہا۔ ۱۰۹۶ء سے لے کر ۱۲۷۱ء تک یعنی کم و بیش دوسو برس میں مسلم طاقتوں اور عیسائی طاقتوں کے درمیان آٹھ بڑی لڑائیاں لڑی گئیں جن میں پہلے عیسائی طاقتوں اور بعد میں مسلم طاقتوں کو کامیابی حاصل ہوئی۔ اس کے بعد اگلے سات سو برس مزید اس پر مسلمانوں کا قبضہ رہا ۔حتیٰ کہ جب عثمانی سلطنت نے پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کا ساتھ دیا تو برطانیہ نے جرمنی کے ساتھ ساتھ عثمانی مملکت کو بھی شکست دیتے ہوئے اس کے زیر قبضہ تمام عرب علاقوں بشمول فلسطین و یروشلم پر قبضہ کر لیا ۔اگلے تیس برس تک یہاں انگریزوں کا قبضہ رہا ۔ان کے جانے پر فلسطین کا آدھا حصہ اسرائیل اور آدھا حصہ اردن کے قبضے میں آگیا ۔بیت المقدس اردن کے قبضے میں رہا حتیٰ کہ ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے اس پر قبضہ کر لیا پچھلے پینتیس برس سے یروشلم اسرائیل کے قبضے میں ہے۔

گویا ارض فلسطین کے متعلق تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہاں پچھلی ایک صدی سے ہلال و صلیب اور ہلال و ڈیو ڈسٹار کی کشمکش جاری ہے ۔تاہم باقی عالم اسلام پر یہ بات صادق نہیں آتی۔اس بحث کے بعد یہ ضروری ہے کہ ان حالیہ اہم ترین مسائل کا تجزیہ کیا جائے جہاں امریکہ کے مقابل مسلمان قوتیں صف آرا ہیں ۔

ا۔ طالبان اور القاعدہ

اس ضمن میں امریکہ مخا لف نقطۂ نظر کے دلائل درج ذیل ہیں:

0 ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ القاعدہ کا کام نہیں ہے ۔اس حملے کی منصوبہ بندی ،فنی مہارت اور اس پر عمل درآمد کے لیے جو ٹیکنالوجی چاہیے وہ القاعدہ کے بس کی بات نہیں ہے ۔اس لیے امریکہ کا یہ الزام بے بنیاد ہے ۔

0 اس حملے سے سب سے زیادہ فائدہ یہودیوں کو پہنچا ہے ۔نیز ۱۱ ستمبر کے دن ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں کام کرنے والے چار ہزار یہودی غیر حاضر تھے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حملہ یہودیوں نے کیا ہے اور یہودیوں کو اس کے بارے میں پہلے سے معلوم تھا ۔

0 ملاعمر نے یہ پیش کش کی تھی کہ بن لادن پر افغانستان میں مقدمہ چلایا جائے ، مگر اسے یک سر نظر انداز کر دیا گیا۔

0 افغانستان پر امریکی بم باری کے نتیجے میں تقریباً تیس ہزار افراد ہلاک ہوئے اور سیکڑوں عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔ یہ بڑا ظلم اور سفاکی تھی ۔

0 امریکہ کی نظر وسط ایشیا کے تیل پر ہے ۔جس کے لیے اس نے افغانستا ن کو فتح کیا ۔باقی تو محض بہانے ہیں۔

ان دلائل کے جواب میں امریکیوں کا نقطۂ نظریہ ہے:

0 پوری دنیا میں القاعدہ ہی واحد ایسی آرگنائزیشن ہے جس نے امریکہ کے خلاف باقاعدہ تحریری طورپر پہلے ۱۹۹۶ء میں اور پھر ۲۳ فروری ۱۹۹۸ کو اعلان جنگ کیا تھا ۔کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر حملے کے مجرم گرفتار ہو کر اعتراف جرم بھی کرچکے ہیں اور ان کو سزائیں بھی سنائی جا چکی ہیں ۔ان سب نے القاعدہ سے تعلق کا اعتراف کیا ہے ۔ ۱۱ ستمبر کے تمام ۱۹ ہائی جیکروں کی شناخت ہو چکی ہے۔وہ سب عرب تھے اور القاعدہ کے کارکن تھے ۔اس کام کی تربیت انھوں نے امریکہ ہی میں امریکہ کی اندرونی آزادیوں کی بدولت حاصل کی تھی ۔بن لادن اور القاعدہ کے دوسرے ذمہ داروں نے کئی وڈیو اور آڈیوٹیپس میں اس حملے کا اعتراف کیا ہے ۔اس کے بعد بھی دنیا میں کئی حملے ہوئے ہیں مثلاً بالی انڈونیشیا والا دھماکا ۔ان سب میں القاعدہ ہی کے کار کنوں کو پکڑ ا گیا ہے ۔ہم یہ چاہتے تھے کہ بن لادن اور اس کے ساتھیوں پر امریکہ یا اقوام متحدہ کے کسی ادارے کے تحت مقدمہ چلایا جائے ۔

0 یہودیوں کے ملوث ہونے والی بات محض افسانہ تھا جس کا کوئی ثبوت ہی نہیں ۔ممکن ہے کہ اس دن کچھ یہودی غیر حاضر ہوں ، مگر اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ان کے ایک اہم مذہبی تہوار یوم کپور کا دن تھا ، اس حملے میں اسرائیل کے ۴۹ شہری بھی ہلاک ہوئے تھے جو سب کے سب یہودی تھے ۔ یہودیوں کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی سے کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا ۔ویسے بھی احمقانہ ایکشن کا فائدہ مخالف کو پہنچتا ہے ۔اس لیے یہ کوئی دلیل نہیں بنتی ۔امریکہ پہلے بھی اسرائیل کا حامی تھا اور اب بھی ہے ۔

0 طالبان انتظامیہ کے تحت بن لادن پر مقدمہ چلانا محض ایک مذاق ہوتا ۔اس لیے کہ کئی برس سے بن لادن ان کا فنانسر اور طالبان اس کے پشتی بان تھے ۔

0 ہمارے اندازے کے مطابق امریکی بم باری سے پانچ ہزار کے لگ بھگ عام افراد ہلاک ہوئے ۔اگرچہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا ۔تاہم اس طرح کا نقصان کسی بھی جنگ کا ناگزیر حصہ ہو تا ہے ۔

0 اگر وسط ایشیا کی تیل کی پائپ لائنوں پر قبضہ ہمارا بنیادی مقصد ہو تا تو ہم ۱۹۸۸ ء میں افغانستان میں اپنی دلچسپی کیوں ختم کرتے ؟ دوبارہ افغانستان کو اپنے کنٹرول میں لانے کے لیے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی جیسا ڈرامہ کرنے کی کیاضرورت تھی؟یہ سب کچھ تو اس کے بغیر بھی ہم کر سکتے تھے ۔

تبصرہ

کئی سوال ایسے ہیں جن کا جواب کسی بھی فریق کے پاس نہیں ہے ۔یہ بات معلوم ہے کہ بن لادن کو اصل غصہ سعودی سرزمین میں امریکی افواج کی موجودگی پر تھا ۔امریکیوں کے لیے یہاں سے اپنی افواج نکال کر کہیں اور تعینات کرنے میں کیا مشکل تھی اور انھوں نے ایسا کیوں نہیں کیا ؟اسی طرح امریکہ کے پاس اس سوال کا بھی کوئی جواب نہیں کہ اس نے دہشت گردی کی بنیادی وجوہات ختم کرنے کے لیے کیا کیا ہے؟دوسری طرف طالبان کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ امریکہ کے خلاف اعلان جنگ کے باوجود انھوں نے مسلسل بن لادن کو کیوں پناہ دی ۔اور پھر یہ کہ انھوں نے اپنے ملک اور حکومت کو امریکہ سے بچانے کی خاطر بن لادن کو امریکہ کے حوالے کر نے سے انکار کیوں کیا ۔امریکہ مجبور ہوتا کہ بن لادن پر بہترین منصفانہ طریقے سے مقدمہ چلائے ۔بن لادن اسی مقدمے کو اپنے موقف کے لیے بڑی خوب صورتی سے استعمال کر سکتا تھا ۔اور اگر اسے اس مقدمے میں بڑی سے بڑی سزا بھی ہو جاتی تو کم از کم امریکہ کو افغانستان پر حملے کا بہانہ تو نہ ملتا ۔

اس معاملے میں پاکستان کے کردار پر تبصرہ بھی ناگزیر ہے ۔یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ تک پاکستان پوری طرح طالبا ن کا حامی تھا ۔اس کی پالیسی میں اچانک تبدیلی کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے ،مگر یہ بات ناقابل فہم ہے کہ اس وقت کی فوجی حکومت نے امریکہ کو لاجسٹک مدد کیوں فراہم کی اور کئی ہوائی اڈے کیوں ان کے حوالے کیے؟ وہ اس معاملے میں بآسانی معذرت کر سکتا تھا ۔اگرچہ اس سے امریکہ کا طالبان انتظامیہ پر حملہ زیادہ سے زیادہ کچھ مشکلات کاشکار ہو جاتا ، مگر پاکستان ایک غلط اقدام سے تو بچ جاتا ۔

ب ۔ مسئلۂ فلسطین

اگر یہ کہا جائے کہ عالم اسلا م میں امریکہ کی منفی تصویر کا اصل سبب یہی مسئلہ ہے تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہو گا۔ اس مسئلے میں امریکی مخالف نقطۂ نظر کے دلائل حسب ذیل ہیں:

0 اسرائیلی ریاست کی تخلیق برطانیہ کا ایک بڑا ظلم تھا اور اس ریاست کی مسلسل تعمیر اور حمایت امریکہ کی ایک بڑی بے انصافی ہے ۔مشرق وسطیٰ کی اب تک تمام خوں ریزی کی اصلاً ذمہ داری ان دونوں پر عائد ہو تی ہے ۔

0 امریکہ نے ہر معاملے میں اسرئیل کی اندھا دھند حمایت کی ہے ۔اسرائیل کے صر یحاً ناجائز اقدامات پر بھی امریکہ نے کچھ نہیں کیا ۔کئی دفعہ ایسا بھی ہو ا ہے کہ اقوام متحدہ اور دوسرے بین الاقوامی فورموں پر امریکہ اور اسرائیل ایک طرف تھے اور باقی سار ی دنیا دوسری طرف ۔

0 اسرائیل امریکی امداد کے سہارے زندہ ہے ۔اس کے باوجود امریکہ نے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کبھی اسرائیل پر حقیقی دباؤ نہیں ڈالا ۔اگر امریکہ چاہے تو مختصر عرصے میں مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہو سکتا ہے ۔

دوسری طرف امریکیوں کے دلائل درج ذیل ہیں:

0 اسرائیل کے قیام میں برطانیہ کی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ سلطنت عثمانیہ کی غلطیوں اور خود عربوں کی عملی مدد کا بھی بڑا کردار ہے ۔اگر سلطنت عثمانیہ پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کا ساتھ نہ دیتی تو برطانیہ اس پر کبھی حملہ نہ کرتا اور اگر سرزمین عرب کا ہاشمی خاندان انگریزوں کی مدد نہ کرتا تو وہ کبھی فلسطین پر قابض نہیں ہو سکتے تھے ۔اور اگر مصر و مراکش اپنے ہاں کے یہودیوں کو اسرائیل جانے کی اجازت نہ دیتے تو اسرائیل کی آبادی نہیں بڑھ سکتی تھی ۔

0 اسرائیل کی مسلسل عملی حمایت امریکہ کے علاوہ روس،چین ،بھارت اور بہت سے دوسرے ملکوں نے بھی کی ہے ۔

0 امریکہ کی یہودی کمیونٹی (تعداد:۵۲ لاکھ )انتہائی منظم ،مال دار اور باصلاحیت ہے ۔اسرائیل کی حمایت میں یہ کمیونٹی مکمل متحد ہے ۔کوئی امریکی حکومت اس کمیونٹی کی مخالفت مول لینے کا تصور بھی نہیں کرسکتی ۔اس لیے یہ ہر امریکی حکومت کی سیاسی مجبوری ہے کہ وہ اسرائیل کی حمایت کرے۔اس کے برعکس امریکی مسلمان اور امریکی عرب بالکل غیر منظم اور بیسیوں متحارب تنظیموں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ان کے درمیان اتحاد عمل اور فکری ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ اس لیے امریکی سیاست پر ان کا کوئی اثر مرتب نہیں ہو تا ۔

0 خود عالم عرب بھی فلسطین کے معاملے میں بالکل غیر متحد اور تضادات کا شکار ہے ۔۱۹۶۷ء تک آدھا فلسطین اردن اور آدھا مصر کے قبضے میں تھا ۔مگر ان دونوں ممالک نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں فلسطینی ریاست نہیں بننے دی ۔ اگر یہ دونوں ممالک اپنے ہاں فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لے آتے تو ہم فوراً اس کو تسلیم کر لیتے ۔

0 عالم عرب نے اقوام متحدہ کی متعدد قرار دادیں تسلیم نہ کرکے بے بصیرتی کا ثبوت دیا ۔اگر ۱۹۴۸ء کی قرار دادمان لی جاتی تو اسرائیل آج کی نسبت ایک تہائی ہو تا اور اسی وقت فلسطینی ریاست بھی بن جاتی۔

0 فلسطینیوں نے ۲۰۰۰ء کے کیمپ ڈیوڈ مذاکرات میں صدر کلنٹن کا پیش کردہ حل نہ مان کر بڑی غلطی کی جس کے مطابق مغربی کنارے کا دو تہائی حصہ ،آدھا یروشلم بشمول مسجد اقصیٰ اور پورا غزہ فلسطینی ریاست میں شامل ہو جاتا۔ اسرائیل نے اس کو مان لیا تھا ۔

0 مشرق وسطیٰ میں اسرائیل واحد جمہوری ریاست ہے ۔یہ آمریت کے سمندر میں جمہوریت کا جزیرہ ہے اس لیے ہم اس کی حمایت کرتے ہیں۔

تبصرہ

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل امریکی امداد کے سہارے زندہ ہے ۔اس کے بجٹ کا دس پندرہ فی صد حصہ امریکی حکومت کی امداد اوردس پندرہ فی صد حصہ امریکی یہودی تنظیموں کی امداد پر مشتمل ہو تا ہے ۔اگر ۱۹۷۳ء میں امریکہ اسرائیل کی مدد کو نہ پہنچتا تو مصر اس کو شکست دے چکا تھا ۔دراصل امریکہ اپنی اندرونی سیاست کی مجبوری کی وجہ سے فلسطین کے معاملے میں دہرے معیا ر سے کام لے رہا ہے ۔فلسطین کے معاملے میں عالم عرب کی غلطیاں اور تضادات اپنی جگہ پر ،مگر ان کو وجہ جواز بنا کر امریکہ اپنی غلطیوں سے مبرا نہیں ہو سکتا ۔

اسرائیل اپنے عرب شہریوں سے جو سلوک کرتا ہے ،وہ عملاً دوسرے درجے کے شہریوں والا سلوک ہے ۔ یہ واحد ملک ہے جہاں مذہب ،کلچر اور نسل ایک ہے اور اسے ایک ہی رکھنے پر اصرار کیا جاتا ہے تاکہ یہ ملک ہمیشہ ایک خالص یہودی ملک رہے۔ ایسا ملک دکھاوے کے لیے تو جمہوریت کا ڈراما رچا سکتا ہے ، مگر حقیقت میں کبھی جمہوری ملک نہیں بن سکتا ۔اگر ساری دنیا کے یہودی اسرائیل چلے جائیں (جو کہ ناممکن ہے ، اس لیے کہ خود اس ریاست کی بقا اور اس کو مسلسل مدد دینے کی خاطر آدھے سے زیادہ یہودیوں کا اس ملک سے باہر رہنا ضروری ہے)تب بھی یہ ایک چھوٹا سا ملک ہی رہے گا اور اس کی توسیع پسندانہ پالیسیاں بالآخر اسے نقصان پہنچا کر رہیں گی ۔

امریکہ جس طرح اسرائیل کی اندھا دھند حمایت کر رہا ہے ، یہ اس کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہے ۔امریکہ کو علم ہے کہ اسرائیل کے پاس جوہری اسلحہ موجود ہے اور وہ اس کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے بھی واقف ہے ۔اس کے باوجود اسرائیل کے ہر نقصان اور اس کے بجٹ کے ہر خسارے کوامریکہ پورا کر تا ہے ۔امریکی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ امریکہ میں اسرائیلی نواز یہودی لابی کے دباؤ کی وجہ سے ہوتا ہے ۔تاہم یہ سب کچھ سراسر نا انصافی ہے اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو اس کا ردعمل بھی یقیناًجاری رہے گا ۔

فلسطینیوں کی طرف سے ا نتفادہ کی دوسری پر تشدد تحریک اور خود کش حملے ،جو ستمبر ۲۰۰۰ سے جاری ہیں ،یقیناًدرست حکمت عملی کے آئینہ دار نہیں ہیں ۔ صبر کے ساتھ حل کا انتظار خود فلسطینیوں کے مفاد میں ہے،خواہ اس میں جتنی بھی مدت لگے۔ تاہم اس دنیا میں زیادہ تر حکمت و دانش کا اصول نہیں ، بلکہ عمل اور رد عمل کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے جس کی زد ہر ایک پر پڑتی ہے۔

امریکہ کی اسرائیل نوازی کے باوجود عالم اسلام اس مسئلے کو کیسے حل کر سکتا ہے ،اس پر ہم بعد میں روشنی ڈالیں گے ۔

ج۔ مسئلۂ عراق

طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد بش انتظامیہ نے صدام حسین کو اپنا ٹارگٹ بنا لیا ہے ۔امریکہ کی انتہائی خواہش ہے کہ وہ جلد از جلد عراق پر حملہ کرکے صدام انتظامیہ کی حکومت ختم کرکے وہاں اپنی پسند کی حکومت بنالے ۔ اس مسئلے پر امریکی نقطۂ نظر در ج ذیل ہے:

0 عراق کے پاس کیمیائی ، حیاتیاتی اور وسیع تباہی پھیلانے والے دوسرے ہتھیار موجود ہیں جنھیں اس نے اپنے باشندوں کے خلاف بھی استعمال کیا ہے اور ایران کے ساتھ جنگ میں بھی استعمال کیا ہے ۔صدام ایک غیر ذمہ دار آمر ہے ۔ماضی میں اس نے کویت پر بھی قبضہ کر لیا تھا ۔یہ خدشہ ہے کہ وہ مزید ہتھیا رتیا ر کر کے انھیں عالمی امن کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے ۔چنانچہ اس مقصد کے لیے اس پر گرفت کرنی چاہیے اور اس کی حکومت ختم کرنی چاہیے۔

اسی مسئلے پر امریکی مخالف نقطۂ نظر درج ذیل ہے:

0 دراصل امریکہ عراقی تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنا چاہتا ہے جس کے لیے وہ بہانے تراش رہا ہے ۔ورنہ عراق نے کردوں کا قتل عام ۱۹۸۸ء میں کیا تھا ۔اب اس کا بدلہ لینے کا کیا موقع ہے ۔اسی طرح عراق نے کویت پر قبضہ ۱۹۹۰ء میں کیا تھا ۔اگر صدام برائی کی جڑ ہے تو اسے حکمرانی سے اتارنے کا صحیح وقت وہ تھا نہ کہ اب ۔

0 امر یکہ کا عراق پر حملہ مسلمانوں کے اندر ایک بڑے رد عمل کو جنم دے گا ۔کون نہیں جانتا کہ اسرائیل کے پاس کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیا ر تو کیا ایٹمی ہتھیار بھی موجود ہیں۔امریکہ نے اس کا نوٹس کیوں نہیں لیا ۔خود امریکہ کے پاس بھی یہ ہتھیا ر موجود ہیں ۔پہلے وہ اپنے ہتھیاروں کو کیوں تلف نہیں کر لیتا ؟

0 طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد عراق پر امریکی حملے سے پوری دنیا میں یہ تاثر پختہ ہو جائے گا کہ امریکہ کے پاس ہر مسئلے کا علاج جنگ ہے ۔یوں امریکہ کو دنیا ایک عالمی دہشت گرد کے روپ میں دیکھنے لگے گی۔یہ خوف و دہشت کی فضا سارے عالم اور بدر جہ آخر خود امریکہ کے لیے نقصان دہ ہے۔

تبصرہ

یہ بات واضح ہے کہ امریکہ ہر قیمت پر صدام کی حکمرانی کو ختم کر نا چاہتا ہے ، مگر اس کے لیے وہ اقوام متحدہ سے اخلاقی جواز ملنے کی خواہش رکھتا ہے ۔ابھی تک صدام نے (طالبان کے برعکس )اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے سامنے سر تسلیم خم کرکے امریکی حملے سے اپنے آپ کو بچایا ہو ا ہے ۔راقم الحروف کے نزدیک تیل والی تھیوری کمزور ہے اور اس میں کئی جھول ہیں۔ امریکہ کو تیل کی کمی کا مسئلہ نہ آج درپیش ہے ،نہ مستقبل میں ایسا کوئی امکان نظر آتا ہے۔ دراصل امریکہ کا خیال ہے کہ دہشت گردی انھی مسلمان ملکوں میں پروان چڑھتی ہے جہاں آمریت ہے ۔چونکہ تمام عرب ملکوں میں آمریت ہے ، اس لیے اس کو ختم کرکے یہاں جمہوریت آنی چاہیے۔جمہوری عمل کی ابتدا اگر عراق سے ہو جائے تو بہت جلد تمام عالم عرب اپنے آپ کو جمہوریت قبول کرنے پر مجبور پائے گا ۔امریکہ کا یہ نقطۂ نظر نہایت کمزور ہے ، بلکہ اس بات کا خدشہ ہے کہ ایسے حملے کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ عراق ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا ، بلکہ عالم عرب کے اندرمزید ردعمل جنم لے گا اور بعید نہیں کہ وہا ں کے آمر مزید مضبوط ہو جائیں ۔

یہ قوی امکان موجود ہے کہ امریکہ اقوام متحدہ کی قرار داد کا انتظار کیے بغیر عراق پر کسی بہانے سے حملہ کر دے ۔ اگر اس نے ایسا کیا تو عالم اسلام کے اندر امریکی مخالف جذبات جائز طور پراپنی انتہا کو پہنچ جائیں گے ۔ممکن ہے کہ اس حملے میں بھی امریکہ کو وقتی کامیابی مل جائے ، لیکن بدرجۂ آخر یہ اس کے لیے بہت گھاٹے کا سودا ثابت ہو گا ۔البتہ اگر اس ضمن میں اقوام متحدہ کی طرف سے عراق کے خلاف متفقہ قرارداد آجاتی ہے تو پھر صورت حال مختلف ہوگی ۔

عراق اپنے آپ کو کس طرح امریکی مداخلت سے بچاسکتا ہے ۔اس پر ہم بعد میں روشنی ڈالیں گے ۔

د۔ پاکستان کی امریکہ سے شکایت

اہل پاکستان امریکہ سے بڑی شکا یات رکھتے ہیں ۔اس ضمن میں پاکستانی دانش وروں کا نقطۂ نظر در ج ذیل ہے:

0 پاکستان نے بالکل ابتدا ہی سے اپنے آپ کو امریکی کیمپ کا حصہ بنا لیا تھا ۔اس کے باوجود امریکہ نے کبھی پاکستا ن کی حقیقی مدد نہیں کی ۔کشمیر کے مسئلے پر اس نے پاکستا ن کی کوئی مدد نہیں کی ۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ میں اس نے بھار ت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے بھی فاضل پرزوں پر پابندی لگا کر ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ، اس لیے کہ امریکی اسلحہ تو صرف پاکستا ن کے پاس تھا ۔۱۹۷۱ء کی جنگ میں امریکہ نے بنگلہ دیش کی تخلیق رکوانے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کیا ۔اسی طرح جب افغانستان سے روسی افواج چلی گئیں تو امریکہ نے بعد کے مسائل سے نمٹنے کے لیے ہمیں تنہا چھوڑ کر اس خطے میں اپنی دلچسپی ختم کر دی۔

اس کے مقابلے میں امریکی نقطۂ نظر د رج ذیل ہے :

0 پاکستان برضا ورغبت اور اپنے فیصلے سے مغربی کیمپ کے قریب آیا تھا ۔ہم نے اسے خوش آمدید کہنے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ اسے یہ بتایا ہے کہ بھارت بھی بہت بڑا اور اہم ملک ہے ۔ہمارے اور اس کے درمیان بہت سی اقدار و روا یات مشترک ہیں۔اس لیے ہم بھارت سے بھی لازماً قریبی تعلقات رکھیں گے ۔

0 مسئلۂ کشمیر کے ضمن میں ہم نے اقوام متحدہ میں ہمیشہ پاکستانی موقف کی حمایت کی ہے ۔ہمارے نزدیک یہ ایک متنازع علاقہ ہے جس کا آخری فیصلہ باہمی گفت وشنید اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت ہی کے ذریعے سے ممکن ہے۔ تاہم یہ مسئلہ پر امن طریقہ سے حل ہو نا چاہیے۔ہم نے ہمیشہ پاکستان سے کہا ہے کہ اس مسئلے پر پاک بھارت جنگ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہو گی ۔

0 پاکستان کو ہم نے تمام اسلحہ اس شرط کے ساتھ دیا تھا کہ اسے صرف کمیونسٹ خطرے کے خلاف دفاعی طور پر استعمال کیا جائے گا ۔جب ہمیں معلوم ہوا کہ ۱۹۶۵ء میں یہ اسلحہ بھارت کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے تو ہم نے اس کے فاضل پرزوں کی فراہمی پر پابندی لگا دی ۔پاکستان نے یہ جنگ ہمارے مشورے سے شروع نہیں کی تھی ۔

0 بنگلہ دیش کا قیام پاکستان کی اپنی غلطیوں ،کوتاہیوں اور سیاسی عدم توا زن کا نتیجہ تھا ۔وہاں کے ۹۴ فی صد عوام اپنے لیے علیحدہ ملک چاہتے تھے ۔بحیثیت ایک جمہوری ملک کے ہم اس سے کیسے نظریں چراسکتے تھے۔ البتہ جب ہمیں معلوم ہوا کہ بنگلہ دیش کے بعد اندر اگاندھی اب مغربی پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا فیصلہ کر چکی ہیں تو ہمارے ہی دباؤ پر وہ اس ارادے سے باز آئیں ۔

0 ہم نے کبھی اس بات کو نہیں چھپایا کہ افغانستان میں ہماری دلچسپی صرف روسی افواج کے نکلنے تک محدود ہے۔افغان مجاہد تنظیمیں پاکستان کے زیر اثر تھیں اور پاکستان نے ہی انہیں تخلیق کیا تھا ۔اگر یہ سب تنظیمیں آپس میں لڑنے لگیں اور پاکستا ن ان کی خانہ جنگی پر قابو نہ پاسکا یا اس میں فریق بن گیا تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔

0 مثبت طور پر ہم نے پاکستان کی دوستی کی پوری قدر کی ہے ۔پاکستان ان چار ممالک میں شامل ہے جنھیں پچھلے پچاس برس میں سب سے زیادہ امریکی امداد ملی ہے۔ پاکستان کا ہر اہم پروجیکٹ براہ راست یا بلواسطہ امریکی امداد یا قرضے ہی کا مرہون منت ہے۔ پاکستان کو امریکہ کی طرف سے مہیا کردہ قرضے اکثر و بیشتر صرف ایک فیصد برائے نام سود پر دیے گئے ہیں۔ اربوں ڈالر کی ناقابل واپسی امداد اس کے علاوہ ہے۔

تبصرہ

ہم پاکستانی ایک جذباتی قوم ہیں جو بین الاقوامی تعلقات میں ’’کاروبار ‘‘پر نہیں ، بلکہ لوافیئرپر یقین رکھتے ہیں، اس لیے ہم ہمیشہ امریکہ سے وہ توقعات وابستہ کر لیتے ہیں جن کے پورا کرنے کا امریکہ نے کبھی کہا نہیں ہو تا ۔ہمار ا خیال ہوتا ہے کہ شاید امریکی انتظامیہ ہر وقت پاکستان ہی کے بارے میں سوچتی رہتی ہے اور امریکی صدر صبح سویرے اٹھ کر سب سے پہلے پاکستان کے اردو اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں ۔اسی لیے تو ہر اردو اخبار میں روزانہ امریکہ پر لعن طعن کے دو تین جذباتی مضامین لازماً موجود ہوتے ہیں جن میں امریکی انتظامیہ کو ’’زریں اور قیمتی ‘‘مشوروں سے بھی نوازا گیا ہو تا ہے تاکہ وہ ان پر عمل کر کے بھارت سے لڑ کر کشمیر کو آزاد ی دلوا کر پاکستا ن کو پلیٹ میں پیش کر کے اپنی عاقبت سنوار لے۔ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور مغرب ہر وقت ہمارے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے ہر صدر ،وزیر اعظم ،چیف آ ف اسٹاف حتیٰ کہ وزیر خارجہ کا نام بھی وائٹ ہاؤس سے منظور ہو کر آتا ہے۔ ہر تبدیلی اور انقلاب کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہوتا ہے ۔اور وہ فرد جس دن امریکہ کی نظر ا لتفات سے محروم ہو جائے ،اسی دن وہ اقتدار سے بھی محروم ہو جاتا ہے ۔

جب تک ہم’’ محبت‘‘،’’ردعمل‘‘ اور’’ سازش کی تھیوری‘‘والی نفسیات سے چھٹکارا پا کر بین الاقوامی تعلقات کو ایک کاروبار کی شکل میں نہیں دیکھیں گے تب تک امریکہ سے ہمارے گلے شکوے جاری رہیں گے ۔جس دن ہم یہ عزم کر لیں کہ ہم اپنے مسائل خود حل کریں گے، امریکہ سے تعلقات کار یقیناًرکھیں گے ، مگر اس پر کلی انحصار نہیں کریں گے ، وہی ہماری فریادی و احتجاجی ذہنیت کا آخری دن اور قومی وقار کا پہلا دن ہو گا ۔

ر۔ دہشت گردی کے متعلق مختلف موقف

اگرچہ دہشت گردی کی کوئی متفقہ تعریف ابھی تک متعین نہیں کی جا سکی، تاہم امریکہ کی نظر میں ہر وہ مسلح عمل دہشت گردی ہے جو کسی غیر حکومتی مسلح تنظیم کی طرف سے عام لوگوں کے خلا ف ہو ۔گویا اگر کوئی مقامی پرائیویٹ مسلح تنظیم اپنے کسی مقصد کے لیے خا لصتاً فوجی تنصیبات پر حملے کرتی ہے تو وہ دہشت گردی نہیں ۔اسی لیے اس کے نزدیک کشمیر میں بر سر پیکار ’’حزب المجاہدین‘‘ دہشت گرد تنظیم نہیں ، اس لیے کہ وہ صرف مسلح افواج پر حملے کرتی ہے اور اس میں غیر مقامی لوگ نہیں ۔اس کے برعکس اس کے خیال میں ’’لشکر طیبہ‘‘ دہشت گرد تنظیم ہے ، اس لیے کہ اس میں سرحد پار سے لوگ بھرتی ہو تے ہیں اور وہ غیر مسلح لوگوں کو بھی ٹارگٹ بناتی ہے۔چنانچہ اسی معیار کے تحت امریکہ نے بہت سی تنظیموں کو دہشت گرد قرار دیا ہو ا ہے ۔ان میں کچھ غیر مسلم عیسائی اور نسلی تنظیمیں بھی شامل ہیں، تاہم ان کی بڑی اکثریت القاعدہ جیسی مسلمان تنظیموں پر مشتمل ہے ۔خود یہ تنظیمیں اپنے آپ کو دہشت گرد کہلانے سے انکار کرتی ہیں۔ان کے خیال میں وہ بہت اچھے مقاصد کے لیے مسلح جدو جہد کر رہی ہیں اور اس جدوجہد کا ایک راستہ غاصب ملک کے بظاہر عام باشندوں کا قتل بھی ہے تاکہ اس ملک کو جھنجھوڑا جا سکے ۔یہ تنظیمیں اپنے بہت سے کارکنوں کو خود کش حملوں کے لیے بھی تیار کرتی ہیں تا کہ دشمن کے ٹارگٹ پر زیادہ سے زیادہ تباہی کا مقصد حاصل کیا جاسکے ۔اس خود کشی کو وہ اعلیٰ ترین قربانی گر دانتی ہیں۔ کئی ممالک ان تنظیموں کے موقف سے جزوی طور پر اتفاق کرتے ہیں۔ مثلاً پاکستان مقبوضہ کشمیر کے اندر مسلح تنظیموں کو اصلاً آزادی کی تحریکیں سمجھتا ہے ۔اسی طرح اکثر عرب ممالک ’’حماس‘‘ جیسی مسلح تنظیموں اور ان کے خود کش حملوں کو صحیح سمجھتے ہیں ۔اگرچہ ان کے خیال میں حکمت عملی کے طور پر غیر فوجی مقامات پر حملے آج کے حالا ت میں مناسب نہیں ہیں۔

امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ ان تنظیموں کو جڑ سے اکھاڑ کر رہیں گے اور ان کے کسی مطالبے کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کریں گے ۔دوسری طرف ان تنظیموں کا فیصلہ ہے کہ وہ آخر دم تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گی ۔اس صورت حال میں ہمار ے سامنے تین سوالات آتے ہیں ۔ایک یہ کہ کیا مسلح تنظیموں سے مقابلہ کرنے کا امریکی طریقہ صحیح ہے ؟دوسرا یہ کہ کیا ان تنظیموں کے غیر مسلح لوگوں پر حملے اور خود کش جتھوں کی تیاری ایک صحیح طرز عمل ہے ؟تیسرا یہ کہ اگر امریکہ اور ان تنظیموں ، دونوں کی رائے صحیح نہیں ہے تو پھر صحیح طرز عمل کیا ہے ؟

پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ جب تک ان تنظیموں کے قیام کے پیچھے اصل وجوہات و محرکات کا تجزیہ کرکے ان کا حل نہیں لایا جائے گا ، تب تک ان کی سرگرمیاں کسی نہ کسی شکل میں جاری رہیں گی ۔ممکن ہے امریکہ موجودہ لہر پر قابو پالے ، مگر ان تنظیموں کی راکھ سے نئی نئی کونپلیں پھوٹیں گی ۔عالم اسلام کے اندر ان تنظیموں کے نمو پانے کی اصل وجوہات غربت، غیرجمہوری حکومتیں اور اسرائیل کا ظلم و ستم ہیں۔امریکہ کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ مسئلۂ فلسطین کے ایک معقول اور قابل عمل حل (جو آج کے حالات میں پورے غزہ ،اور عرب اردن بشمول مشرقی یروشلم و بیت المقدس پر مشتمل فلسطینی ریاست کا قیام ہے) کو پیش کر کے پہلے اس پر امریکی یہودیوں سے اتفاق رائے حاصل کرے اور پھر اپنی سفارت کاری سے کام لے کر اس پر اسرائیل کو قائل کرے۔اگر امریکہ عالم اسلام کے اندر اپنے انتہائی منفی امیج کو کچھ بھی بہتر کر ناچاہتا ہے تو اسے ایسا کرنا پڑ ے گا۔

دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ مسلح تنظیمیں خواہ کتنے ہی اعلیٰ مقاصد اور خلوص کے ساتھ اپنی جدوجہد کررہی ہو ں ، تاہم تاریخ کا بھی یہ فیصلہ ہے اور انسانی ضمیر بھی اس پر شا ہد ہے کہ غیر مسلح لوگوں کو مارنے کا فعل غلط ہے ۔اس سے دوسری قوم میں انتقام اور رد عمل پیدا ہو تا ہے ۔جذباتیت پروان چڑھتی ہے۔گفتگو اور مکالمہ ممکن نہیں رہتا ۔تاریخ اس پر شا ہد ہے کہ پر امن ،مظلومانہ ،عدم تشدد اورقومی اتحاد پر مبنی جد و جہد ہمیشہ کامیاب رہی ہے ۔جب کہ متشدد اور متفرق جد وجہد اکثر و بیشتر ناکامی سے دوچار ہوئی ہے ۔آج اہل فلسطین اور اہل کشمیر ، دونوں بیسیوں سیاسی اور مسلح تنظیموں میں بٹے ہوئے ہیں ۔بھلا ایسی جدوجہد کیسے کامیاب ہو سکتی ہے ؟آج اگر اہل فلسطین اور اہل کشمیر ایک سیاسی تنظیم کے تحت منظم ہو جائیں۔اپنی علیحدہ علیحدہ بیسیوں شناختیں ختم کر د یں او رخالصتاً پر امن جد و جہد شروع کر دیں توچند سال کے اندر اندر بغیر کسی بیرونی مدد کے کامیاب ہو سکتے ہیں ۔مسلح تنظیموں کی حرکت ان کی آزادی کو دور تو کر سکتی ہے ،قریب نہیں لا سکتی ۔

اسی طرح خود کش جتھے تر تیب دینے کا نقصان بھی اسی قوم کو ہو تا ہے ۔خود کشی کے لیے وہی فرد تیار ہو تا ہے جو انتہائی پرعزم، باصلاحیت اور قربانی کے جذبے سے سرشار ہو ، جب کہ ان حملوں میں مرنے والے مخالف قوم کے لوگ تو بس عام افراد ہوتے ہیں جو اتفاق سے لقمۂ اجل بن جاتے ہیں ۔ جب قوم کے باصلاحیت اور پر عزم نوجوان ان حملوں میں کام آجائیں تو اوسط درجے کے لوگ ہی پیچھے بچتے ہیں ۔جاپان نے بھی دوسر ی جنگ عظیم میں اپنے پائلٹوں کو دشمن کے بحری جہازوں سے ٹکر ا کر ایسا ہی غلط فیصلہ کیا تھا جس کے نتیجے میں اس کے پاس پائلٹوں کی شدید قلت ہو گئی تھی ۔چنانچہ یہ بھی کوئی صحیح حکمت عملی نہیں ہے۔

تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ امریکہ سے مطلوب رویے کی بات تو ہم نے محض بر سبیل تذکرہ کی۔ امریکہ بھلا ہماری بات کیوں مانے گا ۔ہمار ا اصلی مقصد تو اپنی قوم اور اپنی امت کو حکمت و تدبیر کا راستہ سمجھا نا ہے ۔ایسا راستہ جس پر چل کر وہ حالیہ مصیبت سے نکل جائیں اور ایک بہتر مستقبل کی طرف گامزن ہو جائیں ۔چنانچہ یہ جواب اگلے صفحات پر تفصیل سے آئے گا ۔

امریکہ کے ساتھ تعلقات کار کے تقاضے

پچھلے باب میں ہم نے ان تمام دلائل کا مختصراً جائزہ لیا تھا جو مختلف نقطہ ہاے نظر کی طرف سے اس سوال کے جواب میں پیش کیے جا رہے ہیں کہ کیا امریکہ عالم اسلام کا دوست ہے یا دشمن یا وہ اس کے ساتھ محض تعلقات کا ر رکھنا چاہتا ہے ۔یہ ہر انسان کے رجحان ،ذہنی افق اور ا فتاد طبع پر منحصر ہے کہ وہ ان میں کون سے دلائل کو زیادہ وزنی تصور کرتا ہے ۔جہاں تک راقم کا تعلق ہے ،اس کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ’’امریکہ مسلمان ملکوں کے ساتھ تعلقات کار رکھنا چاہتا ہے بشرطیکہ ان میں سے کوئی اس کے سپر پاور ہونے کی حیثیت کو چیلنج نہ کرے۔‘‘ہمارے اس نقطۂ نظر کے دلائل درج ذیل ہیں:

0 سپر پاور کی نفسیات ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ وہ اس پوزیشن پر برقرار رہے ۔اس لیے امریکہ کی نفسیات بھی یہی ہے۔

0 پچھلے ہزار برس کی تاریخ میں جتنی لڑائیاں عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان لڑی گئی ہیں ،اتنی ہی لڑائیاں خود عیسائی طاقتوں نے آپس میں اور مسلمان ملکوں نے آپس میں لڑی ہیں۔گویا مختلف لڑائیوں او رقضیوں میں مذہب ایک عامل تو رہا ہے، مگر واحد عامل کبھی نہیں رہا۔

0 پچھلے تین چار سو برس میں بزور و جبر مذہب تبدیل کرانے کا رجحان ختم ہو گیا ہے ۔مثلاً جب انگریز برصغیر میں آئے تو صرف شودروں نے عیسائیت قبول کی ۔ان کو بھی انگریزوں نے کوئی زیادہ وقعت نہیں دی ، بلکہ ان کو محض صفائی ستھرائی کے کام پر لگا دیا ۔

0 غیر مسلم طاقتیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ مسلمانوں کی تعداد بد ترین غلامی کے دور میں بھی کبھی کم نہیں ہوئی تو اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک سو بیس کروڑ مسلمانوں سے جان چھڑائی جائے۔

0 اب کسی بھی ملک کے لیے کسی بھی قوم کو لمبے عرصے تک جسمانی طور پر غلام بنانا ممکن نہیں رہا۔تا وقتیکہ وہ قوم عددی طور پر بہت ہی چھوٹی ہو یا وہ مختلف ملکوں میں بٹی ہوئی ہو ۔اب نہ صر ف مختلف ملکوں ، بلکہ نسلی وحدتوں پر مشتمل صوبائی بارڈرز کو بھی ایک تقدس حاصل ہو گیا ہے ۔اس لیے اب کسی ملک کے لیے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ مسلمانوں کو علاقائی طور پر غلام بنالے۔

0 امریکہ کی پچھلی تاریخ اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ اس کی ترجیحات میں مذہب کو کوئی بڑا مقام حاصل نہیں ہے، سوائے اسرائیل کی انتہائی ناجائز حمایت کے ۔اس نے افریقہ اور لاطینی امریکہ کے غریب عیسائی ملکوں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔ اس نے کئی ایسی خانہ جنگیوں میں کوئی خاص حصہ نہیں لیا جہاں ایک طرف عیسائی غالب اکثریت میں تھے اور دوسری طرف مسلمان تھے ۔

0 امریکہ نے صرف ان مسلمان ملکوں سے مخاصمت مول لی ہے جہاں اس کے سٹریٹیجک مفادات کو کوئی لازمی خطرہ لاحق ہوا یا جہاں مداخلت سے اسے کچھ اضافی فوائد حاصل ہو سکتے تھے ۔مثلاً ایران عراق جنگ میں مداخلت اسے کوئی فائدہ نہیں تھا، اس لیے اس نے مداخلت نہیں کی ۔اس کے بر عکس عراق کویت جنگ میں مداخلت سے اس کو بڑے فائد ے متوقع تھے ، سو اس نے مداخلت کر لی ۔اسی طرح بوسنیا اور کوسووو کے مسائل میں مداخلت اس کے لیے فوائد کا باعث تھی ،چنانچہ اس کی مداخلت سے یہ دو مسلمان ملک معرض وجود میں آئے ۔

0 امریکہ اس دنیا کا ،خدا نخواستہ کوئی قادر مطلق نہیں ہے ۔نہ وہاں سپر مین بستے ہیں ۔ وہاں کے نظام اور وہاں کے انسانوں میں بھی بڑی کمزوریاں اور جھول ہیں۔ وہ چاہیں بھی تو اپنی ٹیکنالوجی کی مدد سے نہ پوری دنیا کو غلام بنا سکتے ہیں ،نہ اس پر قبضہ جما سکتے ہیں ۔امریکی اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔

0 کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کی ایجاد سے اب ٹیکنالوجی کسی کی اجارہ داری نہیں رہی۔ امریکی اس حقیقت کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں ۔جلد یا بدیر ہر کوئی محنت ، عزم اور ثابت قدمی کے ساتھ ٹیکنالوجی کی ہر رفعت کو پا سکتا ہے ۔

0 امریکہ کے اندر اسلام کی دعوت و اشاعت پر کوئی قد غن نہیں ہے ۔وہاں اسلامی ادارے اس حد تک آزادی سے کام کر رہے ہیں جس کا وہ مسلمان ممالک میں تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ اسی لیے ہر سال وہاں ہزاروں لوگ مسلمان ہو رہے ہیں ۔اور امریکہ کی طر ف سے اس میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی جا رہی ۔

0 بین الاقوامی تعلق اب اصلاً ایک کاروباری تعلق بن گیا ہے جس میں پائداری مفادات اور تجارت کے اشتراک سے آتی ہے ۔ ہر ملک بنیادی طور پر اپنی ہی ترقی اور بقا کے لیے سوچتا ہے اور اسی سے تعلق رکھتا ہے جس سے تعلق اس کی مادی ترقی اور بقا کے لیے مفید ہو۔

درج بالا نکات کی بنیا د پر ہماری رائے یہ ہے کہ امریکہ ہر ممکن حد تک مسلم ممالک سے تعلقات کار رکھنا چاہتا ہے۔

ہمارا رویہ کیا ہو نا چاہیے

اگر امریکہ ہم سے تعلقات کار رکھنا چا ہتا ہے تو پھر ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اس کے ساتھ تعلقات کار رکھیں اور اس تعلق کو زیادہ سے زیادہ اپنے فائدے کے لیے استعمال کریں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم بنیادی طور پر امن پسند لوگ ہیں۔ہم جیو اور جینے دو کی پالیسی پر یقین رکھتے ہیں ۔ہم پر امن بقاے باہمی کے علم بردار ہیں ۔ہم ہر گروہ کا یہ حق تسلیم کرتے ہیں کہ وہ جمہوری اصولوں کے تحت اپنے ضمیر کے مطابق دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر اپنی زندگی کا راستہ متعین کرے۔اگر ہماری نظر میں یہ راستہ غلط بھی ہو تب بھی ہمیں کسی پر اپنی مرضی مسلط کرنے کا حق نہیں ہے۔ جس طرح ہم یہ نہیں چاہتے کہ کوئی جبراً اپنے خیالات ہم پر ٹھونسے ، اسی طرح ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ اپنے خیالات دوسروں پر بزور مسلط کریں۔اس لیے اگر کوئی ہمارے ساتھ امن سے رہنا چاہتا ہے تو ہمیں بھی چاہیے کہ اس کے ساتھ امن سے رہیں ۔ان تعلقات کار سے ہمیں در ج ذیل فوائد حاصل ہو ں گے :

0 ایک یہ کہ ہم امریکہ سے سائنس اور ٹیکنالوجی سیکھ سکیں گے ۔ان کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر ہم ا پنی قوم کو ترقی دے سکیں گے۔

0 ان کے ساتھ تجارتی تعلقات مضبوط بنانے سے ہماری اقتصادی حالت مضبوط ہوگی ۔

0 باہمی روابط بڑھنے سے ہم ان سے اور وہ ہم سے اچھی اقدار سیکھ سکیں گے ۔باہمی تعلق کی وجہ سے یہ بھی ممکن ہو گا کہ ہم ان کی بری چیزوں کو حکمت کے ساتھ اپنے ہاں آنے سے روک سکیں۔

0 ہمارے لیے امریکہ میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت مزید آسان ہو جائے گی ۔ ہم ان کے سامنے انسان دوست اور معتدل حقیقی اسلام کا چہرہ بڑی خوبصورتی سے پیش کر سکیں گے ۔

0 بین الاقوامی تنازعات میں ہم امریکیوں کی مزید حمایت حاصل کر سکیں گے ۔اور وہ بیشتر معاملات میں ہم سے مشورہ کرنے پر مجبور ہو ں گے ۔

تعلقات کار کے تقاضے

تعلقات کار کا مطلب نہ کسی کی غلامی ہے ،نہ اس کی ہر جائز و ناجائز بات ماننا اور نہ اس پر کامل انحصار کرنا ہے ، بلکہ اس کا مطلب ہے اپنے ملک کو متحد رکھتے ہوئے باوقار طریقہ سے دوسرے ملک سے تعلق اور اس کے ساتھ تمام چھوٹے بڑے تنازعات کو باہمی گفت وشنید اور مکالمے سے حل کرنا ۔تاہم دوسروں سے خصوصاًامریکہ سے تعلقات کار رکھنے کے لیے خو د ہمارے ہاں چند بنیادی امور کی موجودگی نہایت ضروری ہے ۔اگر یہ موجود نہ ہو ں تو پھر تعلق کسی کام کا نہیں رہتا ۔اور اگر یہ موجود ہوں تو پھر ہر تعلق سے اپنے قومی مفادات کے لیے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

0 ہمارے اپنے ہاں ہر مسلم ملک میں اندرونی قومی اتحاد ہو نا چاہیے۔موجودہ حالات میں قومی اتحاد صرف اور صرف بھرپور جمہوری کلچر کے ذریعے سے ممکن ہے ۔

0 ہمارے ہاں ترقی کرنے کی امنگ اور جذبہ ہو نا چاہیے ۔یہ اجنبی لیکن بالکل صحیح بات ہے کہ مسابقت کا جذبہ بھی جمہوری کلچر ہی کے ذریعے سے پروان چڑھتا ہے ۔

0 ہمارے ہاں ہر ملک کے اندر آزادانہ مکالمے کا کلچر ہو نا چاہیے ۔جس میں ہر بات کو دلیل کے ساتھ سنا اور سمجھا جائے اور دلیل ہی کی بنیاد پر بات کی جائے جذباتی انداز فکر ،جذباتی گفتگو اور نعرے بازی مکالمے کے کلچر کو ختم کرکے رکھ دیتی ہے ۔

0 دنیا کے تمام ملکوں خصوصاً ہمسایہ ممالک سے بات چیت کے دروازے کھلے رکھے جائیں۔

0 ہر معاہدے کی لفظ و معنی کے ساتھ پابندی کی جائے ۔تاکہ کسی کو یہ موقع نہ ملے کہ وہ ہم پر مختلف الزامات لگا کر ہمارے خلاف کوئی اقدام کرے۔

واضح رہے کہ امریکہ کی طرف سے مسلمان ملکوں سے تعلقات کار رکھنے کی پالیسی کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہمارے اور اس کے تعلقات میں کوئی کھنچاؤ آئے گا ہی نہیں ۔ایسا کھنچاؤ تو مختلف معاملات میں لازماً آئے گا ۔بین الاقوامی طور پر امریکہ ایسے کام کرے گا جن سے اتفاق ہمارے لیے نا ممکن ہو گا ۔ایسے موقع پر دلیل کے ساتھ باوقار اختلاف رائے ضرور کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہمارا اپنا گھر صحیح ہو ،ہمار ے ہاں جمہوریت ،مکالمے کا کلچر اور انصاف ہو تو امریکہ کے لیے ہمارے ساتھ اختلاف رائے کو نظر انداز کرنا آسان نہیں ہو گا ۔

اسی طرح امریکہ کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ مسلمان ممالک اسلحہ سازی کی انڈسٹری میں ترقی کریں۔اسی لیے کہ اس سے اس کے سپر پاور ہونے کی حیثیت کو خطرہ لاحق ہونے کا اندیشہ ہے ۔کچھ مسلمان ممالک اس سٹریٹیجک پوزیشن میں ہیں کہ وہ اسلحہ سازی کی صنعت میں آگے بڑھ سکتے ہیں ۔بین الاقوامی قوانین کی پابندی کرتے ہوئے ایسا کیا جا سکتا ہے ۔جو ممالک اس پوزیشن میں نہیں ، وہ ٹیکنالوجی کے دوسرے میدانوں میں اپنی توجہ مرتکز کر سکتے ہیں ۔ایک راستہ بند ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ بار بار دیوار سے سر ٹکرایا جائے ۔متبادل راستے ہر و قت اور ہر حالت میں موجود ہوتے ہیں ۔جرمنی اور جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔

اگر امریکہ ہمارا دشمن ہے تو ۔۔۔

یہ بھی تو ممکن ہے کہ ہماری یہ رائے کہ امریکہ عالم اسلام سے تعلقات کار رکھنا چاہتا ہے ،غلط ہو ۔اور اس کے برعکس امریکہ کی اصل پالیسی یہ ہو کہ عالم اسلام کو زیادہ سے زیادہ مغلوب،کمزور اور پس ماندہ رکھا جائے ۔مسلمان ملک ہمیشہ اس کے سامنے محتاج رہیں ۔ جہاں جہاں ان کو جس کے ہاتھوں سزا دینی ممکن ہو وہ دی جائے ۔ان میں سے جو بھی ملک سر اٹھانے کی کوشش یا جرأ ت کرے،اسے فوراً کچل دیا جائے ۔اقتصادی طور پر ان کو ہمیشہ تنگ دست اور بد حال رکھنے کی کوشش کی جائے۔اگر ان کو جسمانی طور پر ختم نہ کیا جاسکے تو کم از کم ان کو ہمیشہ نیم غلامی کی کیفیت میں رکھا جائے ۔ان کو پیش آمدہ مسائل حل نہ کیے جائیں ، بلکہ ان کو معلق رکھا جائے حتیٰ کہ وہ کافی حد تک لاینحل بن جائیں۔ان کے وسائل پر ملفوف قبضہ برقرار رکھا جائے ۔ان کو ایک دوسرے سے لڑایا جائے ۔اسی پالیسی کے تحت پہلے طالبان کو کچل دیا گیا ۔اب عراق کی باری ہے۔عراق کے بعد ایران کا نمبر آئے گا اور ممکن ہے کہ اس کے بعد پاکستان سر فہرست ہو جائے ۔مسلمانوں کی تیل کی دولت پر اصلاً امریکیوں کا قبضہ ہو اور اگر مسلمان ممالک امریکیوں کے تابع ہو کر زندگی گزارنے پر قانع ہوں تب تو ٹھیک ورنہ ان کو بزور ان کی حیثیت یاد دلائی جائے ۔صرف یہی نہیں ، بلکہ مسلمان ممالک کی اقدار بدل کر ان کو ہر ممکن طریقہ سے امریکی انداز میں ڈھالا جائے اور انھی حکومتوں سے تعلق رکھا جائے جو اس کے رنگ میں رنگ جانے کے لیے تیار ہوں۔

درج بالا نقطۂ نظر بھی قابل غور ہے ، بلکہ اس کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے ، اس لیے کہ بہر حال ہمیں امریکہ کے اصل مقاصد کا تو علم نہیں ہے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ امریکہ کے اندر طاقت کے کچھ مراکز ،ورکنگ ر یلیشن شپ والا نقطۂ نظر رکھتے ہوں اور کچھ بالا دستی اور غلبے کا مقصد رکھتے ہوں۔

اب ہمیں اس انداز سے غور کرنا ہے کہ اگر با لفرض امریکہ ہم سے دشمنی پر تلا ہوا ہوتو ہماری حکمت عملی کیا ہونی چاہیے۔ ہمیں کس طرح اس کی چالوں کو ناکام بنانا ہے اور ہمیں وہ کون سے متبادل اقدامات کرنے ہیں جن سے ہم نہ صرف اس کے شر سے بچ سکیں ، بلکہ ترقی کے راستے پر آگے بھی بڑھ سکیں۔اس ضمن میں تین امور بہت اچھی طرح سمجھ لینے چاہییں۔

امریکہ کی طاقت اور طاقت کی اہمیت 

یہ امر مسلمہ ہے کہ اس وقت امریکہ دنیا کے اندر سب سے ترقی یافتہ ملک ہے ۔ٹیکنالوجی ،سائنسی تحقیق ،جنگی صنعت اور طاقت میں اس کا کوئی ثانی تو کیا پاسنگ بھی نہیں ۔سوائے چین کے دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک اسی کے خوشہ چین ،اس کی ہاں میں ہاں ملانے والے ،اس کی نقالی پر فخر کرنے والے اور اسی کے کلچر کو اپنانے والے ہیں۔ آبادی کے اعتبار سے دنیا کی مزید دو طاقتیں یعنی چین اور بھارت بھی تیزی سے اس کا کلچر اپنانے کے راستے پر جا رہی ہیں ۔سلامتی کونسل کے باقی تمام اراکین کو کچھ رد وکد کے بعد چار و ناچار اس کے موقف کے سا منے سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے ۔امریکہ کی منفرد جغرافیائی پوزیشن، آبادی کی ساخت اور آزاد کلچر نے اس کی ترقی اور طاقت کو مزید مہمیز دی ہے۔

اس دنیا میں ہمیشہ طاقت کی بڑی اہمیت رہی ہے ۔ایسے ادوار کی تعداد آ ٹے میں نمک سے بھی کم ہے جب طاقت کے بجائے خالصتاً انصا ف کی حکمرانی اندرو ن ملک اور بیرونی تعلقات کار کے ضمن میں رہی ہو ۔بیرونی تعلقات کار کے ضمن میں وہی ممالک ان مسائل میں انصاف کا ڈھونگ رچاتے ہیں جن سے ان کا کوئی مفاد وابستہ نہ ہو ۔پچھلے ہزار برس میں شاید ایک بھی ایسی مثال پیش نہ کی جاسکے جب کسی ملک نے بین الاقوامی تعلقات میں مستقلاً خالصتاً انصاف کا وطیر ہ اپنایا ہو ۔ایک امریکہ ہی پر کیا موقوف ہر جگہ ایسا ہی ہے ۔جس طرح ہمارے ہر گائوں میں خان ،جاگیر دار اور وڈیرے کو ویٹو پاور حاصل ہوتی ہے ، اسی طرح اقوام متحدہ میں بھی پانچ وڈیروں کو ویٹو پاور حاصل ہے ۔جب اس اصول کو ساری دنیا نے تسلیم کیا ہوا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ طاقت کی اہمیت کا اصول مسلمہ ہے ۔اس لیے جو کوئی بھی اس دنیا میں اثر ورسوخ کا حامل بننا چاہتا ہو ، اس کے لیے لازم ہے کہ وہ طاقت کے حصول پر توجہ دے اور کم از کم اتنی طاقت حاصل کرے کہ وہ طاقت ور ترین ملکوں کے ساتھ برابری کی سطح پر بات کر سکے۔

عالم اسلام کی زبوں حالی اور اس کا دہرا معیار 

ہر معیار کے اعتبار سے عالم اسلام اس وقت بدحالی ،کمزوری،نااتفاقی ،بد انتظامی ،اور بے انصافی کی آخری حد پر ہے۔ تمام عالم اسلام کی مجموعی قومی آمدنی (تیل والے ممالک کی آمدنی سمیت )ترقی یافتہ ممالک میں سے کسی ایک ملک کی آمدنی سے بھی کم ہے۔سوائے ملایشیا کے کسی ملک کی کوئی خاص صنعتی بنیاد نہیں ۔چند افریقی ممالک کو چھوڑ کر ہمارے ہاں تعلیم سب سے کم ہے ۔صحت کی سہولتوں کا بھی یہی حال ہے۔پورے عالم اسلام میں سے کسی ملک میں مضبوط ادارے موجود نہیں ہیں۔ دفاعی صنعت کے اعتبار سے صرف پاکستان کے پاس نیو کلیئر ٹیکنالوجی موجود ہے۔ہوائی جہاز ،ٹینک ،توپ، آب دوز، بحری جہاز،ریڈار،بکتر بند گاڑ یاں اور اس نوعیت کی دیگر تمام چیزوں کے لیے مسلمان دوسروں کے محتاج ہیں۔ایک سعودی عرب کے علاوہ ،باقی مسلمان ملکوں میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی ۔سعودی عرب کا انصاف بھی اپنے ملک کے باشندوں کے لیے کچھ اور ،اور دوسروں کے لیے کچھ اور ہے۔ہم مسلمان ہر وقت مغرب پر دہرے معیار کا الزام لگاتے ہیں۔یقینا یہ الزام اس حد تک صحیح ہے کہ مغربی اور ترقی یافتہ ممالک اپنے اندرونی نظام میںتو نہیں ، لیکن بیرون ملک تعلقات کے ضمن میں قابل مذمت اور دہرے معیار سے کا م لیتے ہیں ۔تاہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہم نے اس ضمن میں اپنے ممالک کا جائزہ لیا ہے ۔اگر غیر جانب دارانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ مسلمان ممالک اندرونی اور بیرونی ، دونوں اعتبارات سے بدترین دہرے معیار سے کام لیتیہیں ۔سارے مسلمان ملکوں میں سے اس وقت صرف بنگلہ دیش کے اندر پچھلے دس برس سے جمہوریت قائم ہے ۔اس کے علاوہ ملایشیا اور انڈونیشیا میں کسی حد تک جمہوریت ہے ۔ایران میں انتخابات ہوتے ہیں ، مگر اصل اختیار غیر منتخب قوتوں کے پاس ہے ۔ترکی میں بھی انتخابات ہوتے ہیں ، مگر طاقت کا سرچشمہ فوج ہے ۔پاکستان کی صورت حال تو ہم سبھی کے سامنے ہے۔جہاں تک عرب ممالک کا تعلق ہے تو وہاں یا بد ترین فوجی آمریتیں ہیں یا خاندانی بادشا ہتیں ہیں۔سوال یہ ہے کہ جو حکمران خود اپنے عوام کو اپنے ملکی معاملات میں دخیل ہونے کا حق نہیں دیتے ۔جہاں عوام کی حیثیت رعایا سے زیادہ کچھ نہیں ،وہ لوگ اپنا گھر ٹھیک کر نے سے پہلے دوسروں پر کیسے دوہرے معیار کا الزام لگا سکتے ہیں ۔مسلمان ملکوں میں کہیں بھی عدل اجتماعی نہیں ۔احتساب کا اور احتسابی اداروں کا کوئی تصور ہی نہیں۔ حکمران ہر طرح کے قوانین سے بالا تر ہیں ۔مشرق وسطیٰ کے تیل کی ساری آمدن درحقیقت حکمران کی ذاتی آمدن ہوتی ہے۔حکمران خاندانوں اور حکمران طبقوں کے لیے بالکل علیحدہ قوانین ہیں اور عام انسان کے لیے بالکل علیحدہ ۔مثلاً سعودی شاہی خاندان کے چھتیس ہزاراراکین کو ساری دنیا میں لامحدود مفت سفر کی سہولت حاصل ہے ۔یہی حالت تیل پیدا کرنے والے تمام باقی ممالک کی ہے ۔چند امیر مسلمان ممالک کو چھوڑ کر باقی ملکوں میں مفلوک الحال نچلے طبقے کی صورت حال بہت ناگفتہ بہ ہے ۔زندگی کی بنیادی سہولیات تک بھی ان کی رسائی نہیں ۔تعلیم، صحت ،رہایش اور روزگار تک محض خوش قسمت کی رسائی ہے ۔ایسانہیں ہے کہ ان مقاصد کے حصول کے لیے رقم میسر نہیں ، بلکہ پیسہ ہے ، مگر وہ غلط ترجیحات ،مخالفین کو دبانے اور حکمران طبقے اور ان کے چہیتوں کے کام آتا ہے۔

مسلمان ملکوں نے بلحاظ مجموعی صنعتی ترقی کی طرف کوئی توجہ نہیں دی ۔ہمارے یہاں سائنس دانوں کی تعدادبہت کم ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی ہماری ترجیحات میں شامل نہیں ہیں ۔پچھلے سو برس میں شاید کسی مسلمان ملک کے ہاں کوئی نئی ایجاد نہیں ہوئی ہوگی ۔اسی لیے ہمیں ہر چیز میں مغربی ممالک کا محتاج ہو نا پڑتا ہے ۔چنانچہ اگر وہ ہماری محتاجی کا فائدہ اٹھائیں ،ہم پر اپنی شرائط مسلط کریں اور ہمارا بازو مروڑنے کی کوشش کریں تو اصل قصور ہمارا ہے یا ان کا ؟

مسلمان ملکوں میں عام طور پر رشوت ،کرپشن ،سفارش،عیاشی اور کام چوری کا کلچر ہے ۔ہمارے امیر طبقے نے اپنی دولت کا بہت کم حصہ کمزور طبقے کے لیے مختص کیا ہے ، اور وہ بھی عجیب ترجیحات کے ساتھ ۔مثلاً امارات کے امیر شیخ آکر پاکستان اور بنگلہ دیش میں عظیم ا لشان مساجد تعمیر کر لیتے ہیں۔حالانکہ ان کا سرمایہ یہاں مسجدوں میں نہیں ،بلکہ کارخانوں میں لگنا چاہیے۔مسجد تو ہر بستی کے مسلمان اپنے معاشی حالات کے مطابق لازماً تعمیر کر ہی لیتے ہیں ۔

ہمارے عام لوگوں کی ترجیحات بھی کسی زندہ قوم کے شایان شان نہیں ۔ہم اپنے بچوں کی تعلیم کے بجائے شادی بیاہ اور دوسری تقریبات میں دکھاوے پر زیادہ رقم خرچ کرتے ہیں ۔ہم وقت کی قدر کر نا نہیں جانتے ، اس لیے ہماری ایک بڑی تہذیبی قدر مسلسل غمی شادی میں شریک ہونا ہے ۔ہمارے یہاں کسی بڑے جنازے کو اپنے بہت فخر اور دوسرے بہت قدر اور رشک کی نظر سے دیکھتے ہیں ، خواہ اس میں قوم کے کتنے ہی قیمتی دن ضائع ہو جائیں۔

ہم لوگ بے حسی ،خود غرضی ،لاپروائی اور غیر ذمہ داری کے آخری مقام پر ہیں ۔سوائے پاکستان کے ،اکثر مسلمان ممالک اپنے دفاع کی مطلوبہ صلاحیت نہیں رکھتے ۔مشرق وسطیٰ کے مسلمان ممالک کو محض اس لیے کوئی اپنا غلام نہیں بنا رہا کہ کسی کو اس کی ضرورت نہیں ۔ورنہ جو بھی ملک چاہے وہ چند دنوں کی لڑائی میں انھیں زیر کر سکتا ہے ۔

  مسلمان ممالک آپس میں پالیسیوں کی اعتبار سے بھی بالکل منتشر،غیر متفرق اور مختلف الخیال ہیں۔ایک فلسطین کے متعلق کسی حد تک ذہنی ہم آہنگی موجود ہے ، مگر اس کا معاملہ بھی یہ ہے کہ مصر کے مرحوم صدر سادات نے اسرائیل سے مذاکرات کے ذریعے سے صحراے سیناکو واپس لے لیا اور غزہ کا فلسطینی علاقہ بدستور اسرائیل کے کنٹرول میں رہنے دیا ، حالانکہ وہ علاقہ اسرا ئیل نے مصر سے ہی چھینا تھا ۔اسی طرح فلسطینیوں اور اردن کی آپس کی دشمنی سے ایک دنیا واقف ہے ۔شام اور فلسطینیوں کے درمیان بھی کئی اختلافات ہیں ۔ایک مدت سے پوری عرب دنیا نے عملاً فلسطینیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہوا ہے ۔خود فلسطینیوں کا یہ حال ہے کہ وہ بیسیوں تنظیموں میں بٹے ہوئے ہیں جن کے درمیان وسیع اختلافات پائے جاتے ہیں ۔

عالم اسلام کی یہ بھی عجیب صورت حال ہے کہ پاکستانی عوام کی ایک بھاری اکثریت عراق اور فلسطین کی حامی ہے اور ہماری حکومتوں نے ہمیشہ ان کی حمایت کی ہے ، مگر صدام حسین ہوں یا یاسر عرفات ،دونوں کشمیر کے معاملے میں بھارت کے حامی ہیں۔اور ان دونوں ممالک کے عوام بھی پاکستان کی بہ نسبت بھارت کے حامی اور دوست ہیں ۔

   یہ ہے عالم اسلام کی زبوں حا لی ،کمزوری ،نااتفاقی اور دہرے معیار کا ایک مختصر خاکہ ۔ا س حالت کے ساتھ تو ہمارا محض زندہ رہنا بھی ایک بڑی باعث حیرت بات ہے ،کجا یہ کہ ہم یہ سوچ سکیں کہ اپنی اس حالت کو بدلے بغیر ہم دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ بن سکیں گے ،ان کا مقابلہ کر سکیں گے اور ان کی سازشوں کا توڑ کر سکیں گے ۔ایسا ممکن نہیں ہے ۔پہلے ہمیں اپنے گھر کو ہر اعتبار سے ٹھیک کر نا ہو گا تب کہیں جا کر ہم آگے کا سوچ سکیں گے ۔

جذباتی نعرے ، کھوکھلے دعوے ، غلط اقدامات اور فضول جنگیں

عالم اسلام کے حکمران ہوں یا سیاسی لیڈر ،دانش ور ہوںیا مذہبی وا عظ ،صحافی ہوں یا کالم نگار،سب کے سب جذباتی الفاظ و اصلاحات استعمال کرنے،جذباتی تقریریں اور کالم لکھنے اور ہر وقت عوام کو ایک سحر کے عالم میں رکھنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ عوام بھی اس انداز کو پسند کرتے ہیں ۔ہر مقرر اپنی تقریرمیں یو ںسماں باند ھتا ہے جیسے پوری دنیا بس ہمارے ایک ہی وار کی زد میں ہے ۔ ہر کالم نگار رائی کو یوں پہاڑ بناتا ہے کہ ہر نوجوان کا جی چاہتا ہے کہ ابھی اٹھ کر عالم کفر کو للکار کر تخت یا تختہ میں سے کسی کا انتخاب کر لے۔ماضی کے کسی بھی واقعے کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنے کے بجائے ا س کو افسانہ طرازی کے انداز میں یوں پیش کیا جاتا ہے گویا مسلمانوں سے کبھی کوئی غلطی ہوئی ہی نہیں ۔

ہمارے لیڈر ہماری ہر خواہش اور جذبے کو نعرے کی صورت دے کر دلوں کو گرماتے ہیں چاہے وہ نعرہ یا دعویٰ کتنا ہی کھوکھلا کیوں نہ ہو ۔ــ’’اب روس کے بعد امریکہ کی باری ہے ‘‘، ’’ہم دہلی کے لال قلعہ پر سبز ہلالی پرچم لہرا کے رہیں گے ‘‘، ’’سارا ہندوستان مسلمان ہونے والا ہے ‘‘، گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو ـ‘‘۔ اس طرح کے نعرے پاکستان میں عام سنائی دیتے ہیں ۔۱۹۶۷ء میں ناصر نے کہا: ’’ہم اسرائیل کو اٹھا کر بحیرئہ قلزم میں غرق کر دیں گے۔‘‘ اس بیان کے تین چار دن بعد اسرائیل نے حملہ کر کے پانچ دن کے اندر اندر بشمول مصر تین ملکوں کو یوں شکست دی کہ سویز سے قاہرہ تک مصر کا ایک سپاہی بھی موجود نہیں تھا ۔خلیجی جنگ میں امریکی حملہ کے وقت صدام نے اسے ’’ام المحارب ‘‘یعنی جنگوں کی ما ں قرار دیا ۔یہ جنگ تین دن میں عراق کی بد ترین شکست پر اپنے انجام کو پہنچی ۔

عالم اسلام کا ہر قائد اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر کچھ سوچنے کے لیے تیار نہیں ۔ہر ایک اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار رہتا ہے ۔اسی لیے کسی بھی ملک کے اندر متبادل لیڈر شپ نہیں ابھرتی ۔ہر حکمران مسلسل غلطیاں کرتا رہتا ہے اور اس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے ۔یہاں جمہوریت ہے نہ ادارے ۔نہ اجتماعی قربانی ہے نہ انفرادی ،نفسانفسی کا دور دورہ ہے ۔اسی لیے مسلمان ممالک نے پچھلے پچاس برسوں میں آپس میں نہایت خو ف ناک جنگیں لڑی ہیں ۔صرف یہی نہیں ، بلکہ خود کئی ملکوں کے اندر خانہ جنگیوں میں بھی لاکھوں جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ مثلاً ایک لمبے عرصے تک انڈونیشیا اور ملائشیا کا آپس میں قضیہ چلتا رہا ۔یمن خانہ جنگی کا شکار رہا ۔سعودی عرب شمالی یمن کا طرف دار اور مصر جنوبی یمن کا حمایتی تھا۔ سعودی عرب کے فوجی شمالی یمن کی طرف سے اور مصر کے فوجی جنوبی یمن کی طرف سے لڑتے تھے ۔یہ لڑائی ایک لمبی مدت تک چلتی رہی جس میں دونوں طرف سے ہزاروں سپاہی ہلاک ہوئے ۔شام اور عراق میں خون ریز انقلاب آئے ۔شام میں ایک لمبے عرصے تک حکومت اور اخوان المسلمون کے درمیان مسلح جنگ ہوتی رہی ۔ایک دفعہ حکومت نے اخوان کے زیر قبضہ ایک شہر پر بم باری کر کے ایک تہائی شہر کو ملیامیٹ کر دیا ۔صرف اسی ایک حملے میں ہزاروں اموات ہوئیں ۔عراق میں صدام انتظامیہ نے اپنے سیاسی مخالفین اور کرد علیحدگی پسندوں کے خلاف قتل و غارت کا بازار گرم کیے رکھا ۔افریقہ میں الجزائر ،تیونس اور مراکش کا مغربی صحارا کے مسئلے پر آپس میں مناقشہ زوروں پر تھا ۔الجزائر میں ۱۹۹۱ء کے بعد خانہ جنگی شروع ہوئی جس میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

پاکستان کی اپنی غلطیوں سے بنگالی عوام میں احساس محرومی آخری درجے میں پیدا ہو گیا۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابی نتائج کو عملاً ماننے سے انکار اور مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن کے نتیجے میں خانہ جنگی برپا ہوئی ۔جس میں لاکھوں بنگالی بھی تہ تیغ ہوئے اور پاکستانی افواج کو بھی ایک بڑے نقصان کے علاوہ ذلت آمیز شکست کا سامنا کر نا پڑا ۔انڈونیشیا میں فوج کے دو متحارب دھڑوں کے درمیان لڑائی ہوئی ۔ایک گروہ کمیونزم کا حامی ، جب کہ دوسرا گروہ مغرب کا حامی تھا۔اس لڑائی میں بھی بہت بڑا نقصان ہوا ۔اسی کے نتیجہ میں سوہار تو بر سر اقتدار آئے اور اگلے پینتیس برسوں تک انڈونیشیا کے سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے۔

افغانستان میں ظاہر شاہ کی پالیسیوں کی وجہ سے کمیونسٹوں کو بڑا اثر و نفوذ حاصل ہو گیا ۔پھر سردار دائو د نے بھی ابتدا میں اس کو بڑھایا اور پھر جب اسے ہوش آیا تو پانی سر سے گزر چکا تھا ۔۱۹۷۷ء میں سردار دائود کا تختہ بھی الٹ کر ایک اشتراکی انقلاب برپا کر دیا گیا ۔خانہ جنگی میں اتنی شدت پیدا ہو ئی کہ دو برس بعد روس نے اپنی فوج بھیج کر براہ راست مداخلت کر دی ۔سات برس بعد روسی افواج واپس ہوئیں ۔لیکن ان کی واپسی کے مزید چار سال بعد تک کابل اور دوسرے اہم شہروں پر نجیب کی حامی افواج کا قبضہ رہا اور لڑائی جاری رہی ۔گویا روسیوں کی بھیانک غلطی اپنی جگہ پر ، مگر اصل میں تو یہ افغان تھے جو آپس میں لڑتے رہے اور آج تک لڑتے چلے آرہے ہیں ۔

۸۰ ء کی دہائی میں عراق نے ایران پر حملہ کر دیا ۔یہ لڑائی آٹھ برس جاری رہی اور اس میں دونوں طرف سے دس لاکھ افراد ہلاک ہوئے چھ لاکھ ایرانی اور چار لاکھ عراقی ۔نہ صرف پوری دنیا ، بلکہ مسلمان ممالک کی تنظیم اوراو آئی سی بھی تماشا دیکھتی رہی۔جہاں ایک طرف ایران کی ساری آمدنی اسلحہ پر لگ گئی ، وہاں مال دار عرب ممالک مسلسل عراق کی مدد کرتے رہے۔ آٹھ برس بعد یہ بے نتیجہ اور فضول جنگ اس وقت ختم ہوئی جب دونوں طاقتوں میں لڑنے کا دم خم رہا ہی نہیں ۔

اس کے بعد عراق نے ایک سرحدی تنازع کو بہانہ بنا کر کویت پر قبضہ کر لیا ۔اس کے بعد اقوام متحدہ کے جھنڈے تلے پوری دنیا عراق کے خلاف صف آرا ہوگئی ۔ عراق سے بار بار اپیلیں کی گئیں ۔اقوام متحدہ کی قرار دادیں سخت سے سخت تر ہو گئیں۔ مگر صدام کے کانوں پرجو ںتک نہ رینگی ۔بالآخر امریکہ کی زیر قیادت ایک فوجی آپریشن کے ذریعے سے چند ہی دنوں میں عراق کو کویت سے نکال باہر کیا گیا ۔اس تنازع میں لاکھوں اموات کے علاوہ تمام عرب ممالک کی معیشت کا بیڑا غرق ہو گیا۔ اس حملے کے ضمن میں صدام کی حمایت میں بعض اوقات یہ دلیل دی جاتی ہے کہ خود امریکہ نے اسے یہ اجازت دی تھی اور یہ کہا جاتا ہے کہ حملے سے پہلے صدام نے امریکی سفیر کو بلا کر اس کے سامنے کویت کے خلا ف اپنی شکایت رکھی تو امریکی سفیر نے اسے کہا کہ آپ دونوں کے سرحدی تنازعے میں امریکہ غیر جانب دار ہے ۔فرض کیجیے یہ واقعہ صحیح ہو تو کیا اس سے واقعی یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ امریکہ نے عراق سے کہا کہ اسے کویت پر قبضہ کر نا چاہیے ؟اور فرض کیجیے امریکہ نے اسے کھلے الفاظ میں کہا کہ اگر وہ کویت پر حملہ کرے گا تو امریکہ اسے کچھ نہیں کہے گا تو کیا امریکہ کے یہ کہنے پر صدام کو واقعی ایک برادر ہمسایہ مسلمان ملک پر حملہ کرنے کی بے وقوفی کرنی چاہیے تھی؟ کیا دوسرے کے بہکاوے میں آکر اپنے بھائی کی ملکیت پر قبضہ کرنا کوئی صحیح بات ہے ؟اور پھر جب ساری دنیا بشمول امریکہ نے اسے کئی مہینوں تک بار بار کہا کہ وہ یہ قبضہ چھوڑ دے حتیٰ کہ فوجی ایکشن ناگزیر دکھائی دینے لگا تو پھر صدام نے بروقت یہ قبضہ چھوڑا کیوں نہیں ؟حقیقت یہ ہے کہ یہ سب فضول وضاحتیں ہیں جو محض اپنی بھیانک غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے پیش کی جاتی ہیں ۔

اس عبرت ناک کہانی کا ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے ۔وہ یہ کہ جب صدام نے کویت پر قبضہ کر لیا تو یہاں پاکستان کے عوام میں خوشی اور مسرت کی ایک لہر دوڑ گئی ۔گلی گلی کوچے کوچے میں صدام کی حمایت میں جلسے ہونے لگے۔ مذہبی جماعتوں نے عراق کی حمایت میں پروگرام کیے حتیٰ کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اسلم بیگ بھی عراق کی حمایت میں مسلسل بیان بازی کرنے لگے ۔عوام کی مسرت و شادمانی کا یہ عالم تھا کہ گویا عراق نے کویت پر نہیں ، بلکہ اسرائیل پر قبضہ کر لیا ہو ۔یہ ہے ہماری حکمت و دانش اور دور اندیشی کا حال ۔

یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ پچھلے پچاس برس کے دوران میں مسلمانوں نے آپس کی خانہ جنگیوں میں ایک دوسرے کا جتنا خون بہایا ہے ،اس کا عشر عشیر بھی غیر مسلم طاقتوں کے ساتھ لڑائی میں نہیں بہایا گیا ۔ہمارا ہی ایک طبقہ بڑی آسانی سے یہ کہہ کر مطمئن ہو جاتا ہے کہ یہ سب کچھ غیر وں کی سازشوں سے ہوا ۔لیکن یہ محض حقائق سے آنکھیں چرانے والی بات ہے ۔سوال یہ ہے کہ صرف ہم ہی کیوں دوسروں کی سازشوں کا آلۂ کار اور شکار بنتے ہیں؟ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ اصل خرابی دراصل ہم میں ہے او ر اگر ہم میں خامی وکمزوری نہ ہو تو کوئی طاقت بھی ہمیں اپنا آلۂ کار نہیں بنا سکتی ۔

ہمارے لیے صحیح راہ عمل 

در ج بالا تین اجتماعی کمزوریوں کو ذہن نشین کرنے کے بعد یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ہماری نجات کا راستہ دراصل ان چار نکات پر مشتمل ہے : 

۱۔ امن کا وقفہ حاصل کرنا ۲۔ جمہوری کلچر اپنانا ۳۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کو اپنا مقصد اولین قرار دینا ۴۔جذباتیت سے مکمل پرہیز

امن کا وقفہ حاصل کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس وقت جہاں جہاں مسلم اور غیر مسلم ممالک کے درمیان مسلح تنازعات درپیش ہیں ،ان کے بارے میں ہم یک طرفہ فیصلہ کرلیں کہ ہم اس کے حل میں اپنی طرف سے طاقت استعمال نہیں کریں گے ، ہم مکالمے کے ذریعے سے سمجھوتے کی طرف پیش رفت کی کوشش کریں گے اور اگر سمجھوتا نہیں ہوتا تب بھی کسی بھی حالت میں مسلح کارروائی کی طرف قدم نہیں اٹھائیں گے ۔کسی بھی سمجھوتے کے لیے ہمـ’’منصفانہ ‘‘ کی شرط عائد نہیں کریں گے ، بلکہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر عملی حل کی طرف بڑھیں گے ۔

اس نکتے کی بنیاد یہ ہے کہ اس وقت ہم کمزور اور ہمارے مقابل کی قوتیں توانا اور مضبوط ہیں۔قبل از وقت میدان جنگ میں کود پڑنا خود اپنے ہاتھوں ایک اور شکست کو تحریر کرنا ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ درحقیقت مسلمانوں کو درپیش ہر مسئلے کا ایک ایسا ممکن عملی حل موجود ہے جس پر عمل پیر ا ہونے سے معاملات سدھر سکتے ہیں ۔فی الوقت ہمارے سامنے چار مسائل ہیں۔ یعنی کشمیر ،فلسطین ،عراق اور افغانستان ۔کشمیر کے مسئلے پر ہم ایک اور تحریر میں بہت تفصیل کے ساتھ روشنی ڈال چکے ہیں۔ عراق کے مسئلے کے حل کی کنجی صدام حسین کے پاس ہے ۔اگر صدام آج اعلان کر دے کہ وہ اپنے ملک میں جمہوری پارٹیوں کو اجازت دے رہا ہے اور چھ مہینوں کے اندر اندر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے سے اقتدار جمہوری نمائندوں کو منتقل کر دیا جائے گا جس میں وہ خود امیدوار نہیں ہو گا تو امریکی حملے کا سارا اندیشہ اور مداخلت کا خطرہ ہو ا ہو جائے گا ۔اسی طرح اگر افغانستان کے اندر تمام مسلح گروہ اپنی یورش ختم کر دیں اور سیاسی پارٹیاں بنا کر حکومت سے جمہوری انتخاب کا مطالبہ کریں تو اس ملک کے اندر امریکی افواج کی موجودگی کا جواز ختم ہو جائے گا ۔

فلسطین کا مسئلہ یقینا پیچیدہ ہے ۔ہماری دانست میں صدر کلنٹن کی آخری پیش کر دہ تجویز سب سے مناسب ممکن عملی حل تھا جس کے مطابق غزہ کی پوری پٹی اور مشرقی یروشلم ومسجد اقصیٰ سمیت مغربی کنارے کے ستر فی صد حصے پر مشتمل فلسطینی ریاست وجود میں لانا مقصود تھا ۔یہ حل اسرائیل کی لیبر پارٹی کو منظور ہے ۔تاہم بر سر اقتدار ،انتہا پسند لیکوڈ پارٹی ،جو انتفادہ ہی کے نتیجے میں مقبولیت کی معراج پر پہنچی ،اسے مسترد کرتی ہے ۔اگر فلسطینی قیادت آج اس حل کو قبول کرنے کا اعلان کرے اور ہر طرح کی مسلح کارروائیاں روک دینے کا فیصلہ کرے تو کچھ ہی عرصے میں حالات میں مثبت تبدیلی آسکتی ہے ۔لیکن اگر موجودہ صورت حال جاری رہتی ہے تو شاید پھر فلسطینیوں کو یہ کچھ بھی نہ مل سکے ۔

مسلمان ممالک کو ایک دفعہ امن کا وقفہ میسر آجائے تو وہ اگلے سو پچاس برس کے اندر اندر ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ بن سکتے ہیں ،اپنے معاشروں کی تعمیر کر سکتے ہیں اور خوش حالی کی نئی منزلوں کی طرف پیش قدمی کر سکتے ہیں ۔واضح رہے کہ یہ ایک ایسی حکمت عملی ہے جس پر دنیا کی ہر ہوش مند قوم عمل کر تی ہے ۔خود مغرب نے اپنے زریں دور میں اس پر عمل کیا ہے ۔مثلاً پرتگیزی نو آبادی ایسٹ تیمور نے جو عیسائی اکثریت پر مشتمل تھا ،۱۹۷۴ء میں آزادی کا اعلان کیا ۔بعد ازاں اس پر انڈونیشیا نے قبضہ کر لیا ۔اگرچہ اقوام متحدہ نے ایسٹ تیمور کی آزادی کے حق میں قرار دا د بھی منظور کر لی، تاہم انڈونیشیا کی طاقت کے سبب اس کے خلاف کوئی عملی کارروائی نہیں کی گئی ۔چھبیس بر س بعد جب انڈونیشیا ایک بڑے داخلی بحران سے دو چار ہوا تو ایسٹ تیمور کی آزادی کا راستہ خود بخود نکل آیا اور مغرب نے اس کے لیے اقوام متحدہ کے تحت تمام انتظامات کیے ۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ تمام مسلمان ممالک اپنے ہاں کامل جمہوری کلچر کو بطور اصول وقدر اختیار کرلیں ۔جمہوریت کے بغیر عوام عملاً غلام رہتے ہیں ۔جمہوریت ہی کے ذریعے سے صحت مند مسابقت کا ذہن فروغ پاتا ہے جس سے ترقی کا راستہ کھلتا ہے۔مختلف ممالک کے آپس میں ایک دوسرے کے نزدیک آنے کے لیے بھی جو قدر سب سے زیادہ ممد و معاون ثابت ہو تی ہے ، وہ جمہوریت ہے ۔اسی لیے تمام یورپی اقوام ایک دوسرے کے بے حد قریب آگئی ہیں اور ان کے درمیان سرحدیں ماند پڑ گئیں ہیں ۔مسلمان ممالک بھی صرف اسی وقت ایک دوسرے کے قریب آسکتے ہیں اور ان کا تعاون عملی حقیقت میں بدل سکتا ہے جب ان سب کے ہاں جمہوری کلچر وجود میں آئے ۔یوں تو ہمارے ہاں ہر مرض کا علاج یہ نعرہ سمجھا جاتا ہے کہ ’’عالم اسلام کو متحد ہو جانا چاہیے۔ ‘‘لیکن اس امر کی طرف بہت کم نگا ہ جاتی ہے کہ اس کے لیے شرط اولین جمہوریت پر کاربند ہو نا ہے۔ آج کے حالات میں اس شرط کے پورا کیے بغیر ایک حد سے زیادہ تعاون پر کاربند ہونا ممکن نہیں ہے ۔

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ تمام مسلمان ممالک سائنس اور ٹیکنالوجی کے حصول کو اپنا مقصد اولین قرار دیں ۔ اس کے بغیر دنیا میں عزت و وقار سے جینے کا خواب دیکھنا فضول ہے ۔آج کے حالات میں وہی کامیاب ہے جس کی دسترس میں ٹیکنالوجی ہے۔ یہی طاقت و قوت ہے اور یہی دولت ہے ۔اس کے سامنے باقی تمام سرمایہ ہیچ ہے (عالم اسلام کے تمام ممالک بشمول تیل پیدا کرنے والے ممالک کی مجموعی آمدنی ایک اسپین کی آمدنی سے کم ہے )۔لیکن آج ٹیکنالوجی کا حصول جتنا آسان ہے ،اتنا کبھی نہ تھا۔ کمپیوٹر او ر انٹر نیٹ کی ایجاد نے ٹیکنالوجی کے حصول میں موجود اکثر رکاوٹیں قابل عبور بنا دی ہیں ۔تاہم یہ کوئی قلیل المیعادفیصلہ نہیں ہے ۔جب تمام ملکی توانائیوں کا رخ اس طرف پھیر دیا جائے تب کہیں جا کر چند دہائیوں میں ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ آنے کا سوچا جا سکتا ہے۔

چوتھا نکتہ جذباتیت سے مکمل پر ہیز ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جذباتی نعرے نہ لگائے جائیں ،جذباتی تقریریں نہ کی جائیں ،مغرب کو نہ للکارا جائے ،دھمکیاں نہ دی جائیں،بغیر سوچے سمجھے اقدامات نہ اٹھائے جائیں، حکمت و مصلحت کی پالیسی اختیار کی جائے ۔ہر مثبت بات کی جائے اور منفی بات سے پر ہیز کیا جائے ۔در اصل جذباتی اور بلند بانگ نعرے اور دعوے ایک انتہا پسندانہ ردعمل کی ذہنیت کو جنم دیتے ہیں ۔جس میں انسان بے سوچے سمجھے مرنے مارنے پر اتر آتا ہے ۔اسی عالم میں کیے گئے تمام انفرادی اور جذباتی فیصلے نیم پختہ اور غلط ہوتے ہیں۔ جس کا نتیجہ خود ہمارے ہی لیے زہر قاتل ہو تا ہے ۔پچھلے تین سو برس سے ہم سے ایسے ہی غلط فیصلے سرزد ہو رہے ہیں۔ اس سے دوسری قوتیں بھی تشویش اور پریشانی کا شکار ہو جاتی ہیں اور ہم بزور ان کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔ اقبال نے کیا خوب کہا تھا: 

کہہ رہا ہے جوش دریا سے سمندر کا سکوت  

 جس کا جتنا ظرف ہے ،اتنا ہی وہ خاموش ہے  


پس چہ باید کرد

یہ بڑی عجیب بات ہے کہ اگر امریکہ ہم سے تعلقات کار رکھنا چاہتا ہے تب بھی اور اگر وہ ہمارا دشمن ہے تب بھی ، دونوں صورتوں میں ہماری حکمت عملی کے بنیادی نکات ایک ہی جیسے بنتے ہیں ۔یعنی امن کا وقفہ حاصل کرنا، جمہوریت ،ٹیکنالوجی میں پیش رفت اور جذباتیت سے اجتناب۔

دراصل قومی وقار ،ترقی،خود انحصاری ،اور حقیقی خود مختاری کے لیے یہی واحد لائحۂ عمل ہے ۔ہم توانا و طاقت ور ہوں گے تو دوسری قوتیں ہم سے تعلقات کار بھی بہتر انداز سے رکھیں گی اور ہماری طرف میلی آنکھ سے دیکھ بھی نہ سکیں گی ۔جب ہم یہ سب کچھ حاصل کر لیں گے تو دنیا میں تعلقات کار کی ایک نئی مساوات بنے گی جس میں ہم بھی برابر کے حصہ دار ہوں گے۔

تاہم یہاں ایک سوال پیش آتا ہے جس پر بحث ضروری ہے ۔ کیا مغرب ہمیں اپنے مقاصد کی طرف پیش قدمی کرنے دے گا ،کیا وہ ہمیں امن حاصل کرنے دے گا ،کیا وہ ہمیں یہ موقع دے گا کہ ہم ترقی کر سکیں؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ کوئی دوسرا ہمیں موقع نہیں دے گا ، بلکہ ہم خود اپنے لیے موقع حاصل کریں گے ۔دنیا کے اندر ہمیشہ ہر کسی لیے مواقع کے بے شمار امکانات ہوتے ہیں ،یہ اس گروہ کی عقل و دانش پر منحصر ہے کہ وہ حکمت سے کام لے کر ان مواقع سے فائدہ اٹھاتا ہے ، یا انھیں گنوا دیتا ہے ۔اس وقت ہمارے جتنے مسائل ہیں ، ان کے حل کرنے میں صرف ہمارا ہی نہیں ، بلکہ دوسرے فریق کا بھی فائدہ ہے ۔کشمیر ہی کو لے لیجیے ۔اس کے حل ہونے سے صرف ہم ہی نہیں ، بلکہ بھارت کی بھی کئی مسائل سے جان چھوٹ جائے گی ۔یہی صورت باقی تمام مسائل کی ہے۔ مواقع حاصل کرنے کے ضمن میں چین کی مثال بہت موزوں ہے ۔چین نے یہ سوچی سمجھی پالیسی بنائی ہے کہ وہ اپنے اقتصادی مسائل حل ہونے اور ٹیکنالوجی پر پوری گرفت حاصل ہونے تک کسی بین الاقوامی قضیے میں اپنے آپ کو ملوث نہیں کر ے گا ۔چنانچہ اسی پالیسی کے تحت اس نے ہر اشتعال انگیزی کا نہایت صبر و تحمل کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ اس نے پاک بھارت تنازع سے اپنے آپ کو الگ رکھا ،اس نے افغان مسئلے میں کوئی بڑا کردار ادا نہیں کیا ،اس نے تائیوان کے مسئلے پر ہمیشہ تحمل کی پالیسی اختیار کی حتیٰ کہ جب اس نے اپنی فضائی حدود میں امریکہ کا جاسوس طیارہ مار گرایا جو یقینا ایک سنگین واقعہ تھا تو اس نے پور ے طور پر معاملے کو رفع دفع کر دیا اور امریکہ کو جہاز کا ملبہ بھی لے جانے کی اجازت دے دی ۔

چنانچہ اگر ہم بھی اپنے لیے امن کا وقفہ حاصل کرنا چاہیں گے تو دوسری طاقتیں ہمیں بڑا اشتعال دلائیں گی ،ہمیں طرح طرح کے مسائل میں الجھانے کی کوشش کریں گی ،ہمارے راستے میں بہت سی رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کریں گی ، تاہم ہمیں حکمت و دانش اور صبر و تحمل کے ساتھ اپنے مقصد پر نگاہ رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا ۔

یہاں ایک اور اہم بات بھی مدنظر رکھنی ضروری ہے ، وہ یہ کہ امریکہ کے لیے کسی ایسے ملک یا ملکوں سے لڑائی مول لینا، جہاں جمہوریت بھی ہو ،انسانی حقوق کی پاس داری بھی ہو رہی ہو اور وہ پر امن بقاے باہمی کے اصول پر بھی گام زن ہوں، ناممکن حد تک مشکل ہے ۔وہاں کی رائے عامہ ،دوسرے مغربی ممالک اور دنیا کی پیچیدہ سیاست کاری اس کو ناکام بنا دے گی۔ مغربی رائے عامہ اب اس حد تک بیدار ہو چکی ہے کہ امن اور جمہوریت کے اصولوں کو ساتھ لے کر ان سے مکالمہ کرنا اور انہیں اپنا ہم نوا بنانا ممکن ہے ۔ہمیں اس موقع کو اسلام کی دعوت پھیلانے اور مسلمانوں کے بچائو اور استحکام کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔  

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B