HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: البقرہ ۲: ۲۳۶-۲۳۷ (۵۰)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ ) 


لَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ مَا لَمْ تَمَسُّوْھُنَّ اَوْ تَفْرِضُوْا لَھُنَّ فَرِیْضَۃً، وَّ مَتِّعُوْھُنَّ ، عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ ، وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ ، مَتَاعًا بِالْمَعْرُوْفِ، حَقًّا عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ. وَاِنْ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْھُنَّ، وَ قَدْفَرَضْتُمْ لَھُنَّ فَرِیْضَۃً ، فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ اِلَّا اَنْ یَّعْفُوْنَ اَوْ یَعْفُوَا الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ ، وَ اَنْ تَعْفُوْآ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ، وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ. {۲۳۶۔۲۳۷}  

او ر اگر تم عورتوں کو اِس صورت میں طلاق دو کہ نہ اُنھیں ہاتھ لگایا ہو نہ اُن کا مہر مقرر کیا ہو تو مہر کے معاملے میں ۶۱۹ تم پر کچھ گناہ نہیں ہے ، لیکن (یہ تو لازماً ہونا چاہیے کہ) دستور کے مطابق اُنھیں کچھ سامان زندگی دے کر رخصت کرو، اچھی حالت والے اپنی حالت کے مطابق اور غریب اپنی حالت کے مطابق۔ یہ حق ہے اُن پر جو احسان کا رویہ اختیار کرنے والے ہوں ۔ ۶۲۰  اور اگر تم نے طلاق تو اُنھیں ہاتھ لگانے سے پہلے دی، مگر مہر مقرر کر چکے ہوتو مقررہ مہر کا نصف اُنھیں دینا ہو گا ، الاّ یہ کہ وہ اپنا حق چھوڑ دیں یا وہ چھوڑ دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے ۔ ۶۲۱  اور یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے کہ تم مرد اپنا حق چھوڑ دو ۔ اور اپنے درمیان کی فضیلت نہ بھولو۔ بے شک اللہ دیکھ رہا ہے اُس کو جو تم کر رہے ہو۔ ۶۲۲  ۲۳۶۔۲۳۷

۶۱۹؎ ’لا جناح علیکم‘ کے ساتھ یہ الفاظ اصل میں عربیت کے اسلوب پر اس جملے میں حذف ہیں ۔ ہم نے ترجمے میں انھیں کھول دیا ہے ۔

۶۲۰؎ یعنی ان عورتوں کو بھی سوسائٹی کے دستور اور اپنے معاشی حالات کے لحاظ سے کچھ سامان زندگی دے کر رخصت کرو جن سے خلوت نہ ہوئی ہو یا جنھیں مہر مقرر کیے بغیر طلاق دے دی جائے ۔

۶۲۱؎ یعنی مہر مقرر ہو اور ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق کی نوبت پہنچ جائے تو مقررہ مہر کا نصف ادا کرنا ہوگا، الاّ یہ کہ عورت اپنی مرضی سے پورا چھوڑ دے یا مرد پورا ادا کر دے ۔ اس کے لیے اصل میں ’ الا ان یعفون او یعفوا‘ کے الفاظ مجانست کے اسلوب پر آئے ہیں اور’ الذی بیدہ عقدۃ النکاح‘ کے الفاظ میں قرآن نے واضح کر دیا ہے کہ طلاق کا اختیار شریعت نے مرد کو دیا ہے ۔ اس کی وجہ بھی بالکل واضح ہے ۔ عورت کی حفاظت اور کفالت کی ذمہ داری ہمیشہ سے مرد پر ہے اور اس کی اہلیت بھی قدرت نے اسے ہی دی ہے ۔ قرآن نے اسی بنا پر اسے قوام قرار دیا اور اس سے پہلے اسی سورہ کی آیت ۲۲۸ میں بہ صراحت فرمایا ہے کہ ’ للرجال علیھن درجۃ‘ (شوہروں کو ان پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہے۔) چنانچہ ذمہ داری کی نوعیت اور حفظ مراتب ، دونوں کا تقاضا ہے کہ طلاق کا اختیار شوہر ہی کو دیا جائے ۔

              اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ عورت اگر علیحدگی چاہے تو وہ طلاق دے گی نہیں ، بلکہ شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے گی ۔ عام حالات میں توقع یہی ہے کہ ہر شریف النفس آدمی نباہ کی کوئی صورت نہ پا کر یہ مطالبہ مان لے گا ، لیکن اگر ایسا نہ ہو تو عورت عدالت سے رجوع کر سکتی ہے ۔

۶۲۲؎    استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے :

  ’’اگرچہ ایک محرک عورت کے لیے بھی مہر چھوڑنے کا موجود ہے کہ شوہر نے ملاقات سے پہلے ہی طلاق دی ہے ، لیکن قرآن نے مرد کو اکسایا ہے کہ اس کی فتوت اور مردانہ بلند حوصلگی اور اس کے درجے مرتبے کاتقاضا یہ ہے کہ وہ عورت سے اپنے حق کی دستبرداری کا خواہش مند نہ ہو ، بلکہ اس میدان ایثار میں خود آگے بڑھے۔ اس ایثار کے لیے قرآن نے یہاں مرد کو تین پہلووں سے ابھارا ہے : ایک تو یہ کہ مرد کو خدا نے یہ فضیلت بخشی ہے کہ وہ نکاح کی گرہ کو جس طرح باندھنے کا اختیار رکھتا ہے ، اسی طرح اس کو کھولنے کا بھی مجاز ہے ۔ دوسرا یہ کہ ایثار و قربانی جو تقویٰ کے اعلیٰ ترین اوصاف میں سے ہے ، وہ جنس ضعیف کے مقابل میں جنس قوی کے شایان شان زیادہ ہے ۔ تیسرا یہ کہ مرد کو خدا نے اس کی صلاحیتوں کے اعتبار سے عورت پر جو ایک درجہ ترجیح کا بخشا ہے اور جس کے سبب سے اس کو عورت کا قوام اور سربراہ بنایا ہے ، یہ ایک بہت بڑی فضیلت ہے جس کو عورت کے ساتھ کوئی معاملہ کرتے وقت مرد کو بھولنا نہیں چاہیے ۔ اس فضیلت کا فطری تقاضا یہ ہے کہ مرد عورت سے لینے والا نہیں ، بلکہ اس کو دینے والا بنے ۔ ‘‘(تدبر قرآن ۱/ ۵۴۸)

[باقی]

ــــــــــــــــــــــ

B