امت مسلمہ اور پاکستان کے تناظر میں ریاست ہاے متحدہ امریکہ کا مطالعہ ہمارے لیے حد درجہ اہمیت کا حامل ہے ۔ یہ وسیع و عریض ملک ،جس میں بیک وقت چار مختلف ٹائم زون ہیں ، آج دنیا کا سب سے ترقی یافتہ ،دولت مند اور طاقت ور ملک ہے ۔ یہ حیثیت اسے کئی دہائیوں سے حاصل ہے ۔تاہم سوویت روس کے حصے بخر ے ہونے کے بعد تو اس کا کوئی ظاہری حریف بھی نہیں رہا ۔دنیا کے چھ بڑے ممالک یعنی برطانیہ ،فرانس ، جرمنی ،جاپان ، روس اور چین کی مجموعی طاقت بھی اس سے کم ہے ۔ دنیا بھر کی تجارت میں اس کا بہت بڑا حصہ ہے ۔سائنس اور ٹیکنالوجی میں اس کا کوئی ثانی نہیں ۔صنعت و حرفت میں یہ سب سے آگے ہے۔ اسلحہ سازی میں کوئی دوسرا ملک اس کا پاسنگ بھی نہیں ۔دنیا بھرکے ہر معاملے وہ سرگرمی کے ساتھ دلچسپی لیتا ہے ۔اقوام متحدہ کے اندر اس کا موقف سب سے زیادہ وزن رکھتا ہے ، چنانچہ ہم ہی پر کیا موقوف، ہر ملک کے لیے امریکہ سے تعلق اہم ترین ایشو ز میں سے ایک بن گیا ہے ۔
امریکی موقف ،اقدام اور کردار کو سمجھنے ،اس کا تجزیہ کرنے اور اس کے مطابق اپنی حکمت عملی بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہمیں امریکہ سے بھر پور واقفیت ہو ۔اس کی تاریخ ،اس کے جمہوری نظام ،اس کی اقدار ،اس کے کلچر ،اس کے طرز زندگی، اس کے اداروں اور اس کی سوچ کے مختلف زاویوں پر ہماری پوری گرفت ہو ۔ان تمام چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جب ہم کوئی حکمت عملی بنائیں گے تو وہ ہماے مفادات اور امن عالم کے لیے بہتر ہوگی ۔
اس وقت عالم اسلام میں امریکہ کے متعلق تین روے ہیں ۔ایک یہ کہ امریکہ مجمو عۂ شر اور شیطان کبیر ہے ۔وہ مسلمانوں کا دشمن ہے اور انھیں نیست ونابود کرنا چاہتا ہے ۔ وہ مسلمانوں کو معاشی اور سیاسی طور پر ہمیشہ کمزور ،دست نگر اور اپنی گرفت میں دیکھنا چاہتا ہے ۔وہ ہر حال میں مسلمانوں کی ترقی و خوش حالی کا مخالف ہے اور اس مقصد کے لیے امریکہ ،یورپ اور اسرائیل کا ناپاک گٹھ جوڑمسلسل مصروف عمل ہے ۔مسلمانوں کی تمام خرابیوں اور کمزوریوں کی جڑ امریکہ ہے ۔پاکستان میں اور مسلم دنیا کے کسی ملک میں امریکہ کے اشارۂ ا برو کے بغیر کچھ نہیں ہو تا ۔ہر حکمران کا نصب و عزل امریکہ ہی کا مرہون منت ہوتا ہے ۔حتیٰ کہ اگر دو مسلمان گروہ یا ملک آپس میں لڑتے ہیں تو یہ بھی دراصل امریکی سازش کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ا س لیے امریکہ جو کچھ بھی کرتا ہے ،وہ لازماً خلاف اسلام اور خلاف مسلم ہوتا ہے ۔ا س وجہ سے ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ہر امریکی اقدام کی مخالفت کریں۔امریکہ کے خلاف مسلمان رائے عامہ کو بیدار کریں اور بیدار رکھیں ۔ہماری سیاست اور ہماری سوچ کا مرکز و محور امریکہ دشمنی ہونا چاہیے۔
اس کے بالکل برعکس دوسرا رویہ یہ ہے کہ امریکہ ایک سپر طاقت ہے جس کے بغیر اس دنیا میں کوئی طاقت ور بھی دم نہیں مار سکتا ۔امریکہ کی مخالفت کرنا اپنی موت کو دعوت دینا ہے ۔چنانچہ یہ ضروری ہے کہ امریکہ کا حامی اور دوست بن کر جیا جائے۔ اس کے حضور میں اپنی عرض داشت تو پہنچائی جائے تاہم عملاً راضی برضاے امریکہ کا انداز اختیار کیا جائے ۔ایسا کوئی کام نہ کیا جائے جس سے امریکہ ناراض ہو ۔ہم امریکہ کی ناراضی پر قادر نہیں ۔اگر وہ ہم سے ناخوش ہوا تو وہ ہمارے لیے معاشی اور سیاسی پریشانیاں پیدا کردے گا ۔عوام ہماری حکومتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے ۔یوں ہمارا تختہ الٹ جائے گا۔
تیسرا رویہ یہ ہے کہ امریکی فیکٹر کو ایک حد سے زیادہ اہمیت نہ دی جائے، بلکہ اصل توجہ اپنے ملک اور گھر کی حالت سدھارنے پر رکھی جائے ۔اگر ہمارے عوام مطمئن ہوں گے ،سیاسی آزادی ہوگی ،معاشی ترقی ہوگی اور ملک ٹیکنالوجی میں آگے بڑھتا جائے گا تو مفرو ضہ یا حقیقی ،کوئی بیرونی سازش کامیاب نہیں ہوسکے گی ۔امریکہ ایک حد سے زیادہ ہمارے معاملات میں دخیل ہی نہ ہوسکے گا ۔دراصل یہ ہم ہیں جن کی اپنی کمزوریوں اور غلطیوں سے امریکہ فائدہ اٹھا کر دخل اندازی کے مواقع تلاش کر لیتا ہے ۔اس لیے امریکہ کو ایسا کوئی موقع دیا ہی نہیں جانا چاہیے ۔بین الاقوامی امور میں امریکہ سے تعلقات کار بھی رکھے جائیں اور اس سے ایک باوقار فاصلہ بھی رکھا جائے ۔کسی بھی معاملے میں بلا ضرورت نہ امریکہ کی مخالفت کی جائے نہ حمایت۔ بلکہ ہر مسئلے کے مثبت اور منفی پہلوں کا جائزہ لے کر اصو لی اور عملی دونوں امور کو سامنے رکھ کر حکمت عملی بنائی جائے۔ مسلم دنیا میں فی الوقت صرف ملایشیا کسی حد تک اس رویے پر گامزن ہے ۔
پاکستان کا ہر آدمی سیاست سے گہری دلچسپی رکھتا ہے ۔بازاروں، حجروں ،بیٹھکوں،ڈرائینگ روموں غرض یہ کہ ہر محفل کا مرغوب ترین مو ضوع سیاسی گفتگو ہو تا ہے ۔ ہر سیاسی گفتگو کی تان امریکہ پر آکر ٹھہرتی ہے ۔چنانچہ یہ ضروری ہے کہ امریکی نظام اور امریکی اقدا ر سے متعلق ہمیں پوری آگاہی ہو تاکہ ہماری سوچ میں اعتدال، ٹھہراؤ اور معروضیت پیدا ہو سکے ۔
ریاست ہاے متحدہ امریکہ کا رقبہ تقریباً چورانوے لاکھ یا نو اعشاریہ چار ملین مربع کلومیٹر ہے ۔ گویا رقبے کے لحاظ سے یہ پاکستان سے تقریباً بارہ گنا بڑا ہے ۔فی کس آمدنی تقریباً ۴۰ ہزار ڈالر سالانہ ہے ۔یہ پچاس ریاستوں اور ایک وفاقی ضلع پر مشتمل ہے ۔اس کی آبادی تقریباً ۲۷ کروڑ ہے ۔اس کے ایک طر ف بحر اوقیا نوس اور دوسری طرف بحر الکاہل ہے ۔جب کہ شمال میں اسی کا ایک دوست ملک کینیڈا اور جنوب میں دونوں سمندرو ں کے علاوہ ایک غریب ملک میکسیکو ہے جس کا ہر باشندہ امریکہ جانے کے لیے تڑپتا رہتا ہے ۔گویا امریکہ پر فوجی حملہ ناممکن حد تک مشکل ہے ۔
امریکہ کی تاریخ پوری دنیا میں نرالی ہے ۔یہ درحقیقت ایک نیا ملک ہے جو آج سے پانچ سو سال قبل دریافت ہوا جہاں سترہویں صدی میں یورپ سے آباد کاروں کی آمد شروع ہوئی اور اسی کے ساتھ افریقی غلاموں کو لانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ویسے تو ۱۴۹۷ء ہی میں سلطنت برطانیہ نے شمالی امریکہ کو اپنا علاقہ قرار دے دیا تھا ، تاہم یہاں انگریزوں کی آمد تقریباً ایک صدی بعد شروع ہوئی ۔قدرتی وسائل سے مالامال اور و سیع و عریض زمین کے حامل ملک نے بے شمار لوگوں کو قسمت آزمائی کے لیے مہم جوئی پر آمادہ کر لیا ۔بہت سے لوگوں نے مذہبی عدم رواداری اور آبادی کے پھیلاؤ کی وجہ سے بھی ترک وطن کر لیا۔ چونکہ یہ سب لوگ ایک ترقی یا فتہ ملک سے آئے تھے ، اس لیے معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ سیاسی ادارے بھی وجود میں آنے لگے۔ اگرچہ بظاہر حکومت تاج برطانیہ کی تھی ، لیکن اصل اختیار منتخب اسمبلیوں کے پاس تھا ۔چونکہ یہاں ہر مذہب اور علاقوں کے لوگ آئے تھے اور ان کو مختلف کالونیوں میں اکٹھے رہناتھا، اس لیے پہلے دن ہی سے بہت متنوع مذہبی اور تہذیبی زندگی وجود میں آگئی۔
۱۷۶۰ء میں سلطنت برطانیہ نے اس علاقے پر اپنا کنٹرول مضبوط کرنے کے لیے مختلف ٹیکس لگانے شروع کیے اور مزید حکام اور افواج کو یہاں بھیجنا شروع کیا ۔اس کے خلاف امریکی عوام میں غم وغصہ کے جذبات پیدا ہوئے ۔کئی ریاستوں کی اسمبلیوں نے ان ٹیکسوں کو خلاف قانون قرار دیا اور عوامی سطح پر بھی ا حتجاج شروع ہو ا ۔
۱۷۷۳ء میں چائے کے ٹیکس پر نظر ثانی کی گئی اور یہ سار ا کاروبار ایسٹ انڈیاکمپنی کو سونپ دیا گیا ۔اس پر بڑا سخت احتجاج ہو ا اور دسمبر ۱۷۷۳ء میں امریکی مزدوروں ،جو ریڈ انڈینیزکا لباس پہنے ہوئے تھے ،نے چائے کی پتی کے ۳۴۲پیٹیوں کو بوسٹن کے مقام پر سمندر میں پھینک دیا ۔اس مشہور واقعے کو بوسٹن ٹی پارٹی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔
اپریل ۱۷۷۵ میں تیرہ ریاستوں نے الحاق کر لیا اور جارج واشنگٹن کو امریکی فوج کا کمانڈر مقرر کر دیا گیا ۔یوں اس نوزائیدہ ریاست او ر برطانیہ کی آپس میں لڑائی شروع ہو گئی ۔۴ جولائی ۱۷۷۶ کو باقاعدہ اعلان آزادی کیا گیا ۔یہ جنگ آزادی اگلے پانچ برس تک جاری رہی اور اس میں فرانس نے بھی برطانیہ کے خلاف امریکی افواج کا بھر پور ساتھ دیا ۔ اس جنگ میں دونوں طرف سے ہزاروں لوگ ہلاک ہوئے ۔اس پورے وقت میں اور اس کے بعد بھی سارے ملک میں نظام حکومت کے متعلق مسلسل بحث جاری رہی ۔پہلے دن ہی سے تمام قائدین اور سب لوگوں کے دل میں یہ بات جان گز یں ہو گئی کہ ان کی بقا اور ترقی کی واحد ضمانت جمہوریت میں پوشیدہ ہے ۔چنانچہ بالکل ابتدا ہی سے جمہور ی کلچر اس نئی مملکت کے اندر بنیادی قدر کی حیثیت اختیار کر گیا ۔اس وفاق میں آہستہ آہستہ مزید ریاستیں بھی داخل ہو تی رہیں ۔
اس دوران میں شمالی اور جنوبی ریاستوں کے درمیان آویزش بڑھتی رہی۔اس آویزش کی اہم وجہ ’’مسئلۂ غلامی ‘‘تھا۔ مارچ۱۸۶۱ میں لنکن کے عہدۂ صدارت سنبھالنے کے وقت جنوب کی ساری ریاستوں نے وفاق چھوڑنے کا اعلان کیا۔ اپریل۱۸۶۱میں شمالی اور جنوبی ریاستوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی ۔یہ لڑائی اگلے چار برس تک جاری رہی جس میں شمال کو فیصلہ کن فتح حاصل ہوئی اور جنوب کی ساری ریاستیں ایک دفعہ پھر وفاق کا حصہ بن گئیں ۔اس جنگ میں بھی دونوں طرف سے ہزاروں لوگ ہلاک ہوئے ۔اس خونی جنگ کے خاتمہ کے بعد ملکی تعمیر نو کاکام جوش و جذبے سے شرو ع ہو ا ۔غلامی کو ممنوع قرار دیا گیا۔ اس دوران میں بہت بڑی تعداد میں تار کین وطن امریکہ آکر آباد ہو ئے ۔جس کی وجہ سے آبادی بھی بہت بڑھ گئی اور ان لوگوں نے امریکی صنعت و حرفت کو آگے بڑھانے میں بھر پور کردار ادا کیا ۔۱۸۹۸ء میں کیوبا کے مسئلے پر امریکہ اور سپین کے درمیان لڑائی چھڑ گئی جس میں امریکہ فاتح رہا ۔پہلی جنگ عظیم کے موقع پر پہلے چار سال کے دوران میں امریکہ غیرجانب دار رہا ، اگرچہ اس کی ہمدردیاں مغربی طاقتوں کے ساتھ تھیں ۔اس دوران میں جرمنی نے ،اس شک کی بنیادپر کہ امریکی جہازوں میں اتحادیوں کے لیے اسلحہ لے جایا جاتا ہے ،کئی امریکی بحری جہازوں کو ڈبو دیا ۔اس پر امریکہ نے بھی اتحادیوں کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ۔یوں آخری سال میں جرمنی کی شکست میں امریکہ نے بھی اپنا کردار ادا کیا ۔اس جنگ کے بعد امریکہ نے پہلی بین الاقوامی باڈی یعنی لیگ آف نیشنز میں سب سے سرگرم کردار ادا کیا ۔
۱۹۲۹ء سے لے کر ۱۹۳۳ء یعنی چار سال ملک سخت مالی بحران کی لپیٹ میں رہا ۔اس کو ’’گریٹ ڈیپریشن ‘‘کے سال کہا جاتا ہے ۔تاہم سخت قانونی اور ما لی اقدامات کی وجہ سے روز ویلٹ نے اس بحران پر قابوپا لیا ۔
۷ستمبر۱۹۴۱ کو جاپان نے پرل ہار برنامی امریکی بندر گاہ پر زبردست حملہ کیا جس کے نتیجے میں امریکہ نے پہلے جاپا ن اور پھر جرمنی اور اٹلی کے خلاف اعلان جنگ کردیا ۔ ۱۹۴۵ میں امریکہ ایٹم بم بنانے میں کامیاب ہو گیا ۔۶ اگست کو صدر ٹرومین کے حکم سے ہیرو شیما کے شہر پر پہلا ایٹم بم گرایا گیا جس سے اسی ہزار آدمی موت کے گھاٹ اتر گئے اور تقریباً ایک لاکھ شدید زخمی ہوئے۔اس کے تین دن بعد ناگا ساکی کو ایٹم بم کا نشانہ بنایا گیا ۔اس کے پانچ دن بعد جاپان نے ہتھیار ڈال دیے ۔
جنگ عظیم دوم کے فوراً بعد امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ شروع ہو گئی ، اس لیے کہ روس نے اپنا دائرۂ اثر مشرقی یورپ اور ایشیا کے بہت سے ممالک تک پھیلالیا ۔ چنانچہ امریکہ نے اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے کئی ممالک سے فوجی معاہدے کیے جس میں (NATO-North Atlantic Treaty Organisation)بھی شامل تھا۔
۱۹۵۰ء میں جنوبی کوریا کو شمالی کوریا کے حملے کے خلاف مدافعت کے لیے امریکہ نے جنرل میک آرتھر کی قیادت میں فوج بھیجی ۔اس فوج نے شمالی کوریا کو تقریباً فتح کرلیا ،مگر جب یہ فوج دریائے یالو کے قریب پہنچی جو شمالی کوریا اور چین کی سرحد پر واقع ہے ،تو دس لاکھ چینی فوج نے اس پر حملہ کرکے اسے تہس نہس کرکے رکھ دیا ۔جنرل میک آرتھر نے کانگریس کے ارکان کو خط لکھا جس میں اس نے چین پر بمباری اور حملہ کرنے کی اجازت نہ دینے پر صدر ٹرو مین کی مذمت کی ۔اس پر ٹرومین نے اسے کمانڈسے علیحدہ کردیا ۔اس کے بعد کچھ برس تک امریکہ نے خا رجہ تعلقات میں ا حتیاط کی پالیسی اپنائی ۔ مثلاً ۱۹۵۴ء میں جب انڈوچائنا میں کمیونزم کی حامی قوم پرست قوتیں فرانس کے خلاف لڑ رہی تھیں تو امریکہ نے فرانس کی مدد نہیں کی ۔ ۱۹۵۶ء میں ہنگری میں کمیونسٹ تسلط کے خلاف بغاوت پھوٹ پڑی ، مگر امریکہ نے باغیوں کی کوئی مدد نہیں کی۔اسی طرح جب برطانیہ فرانس اوراسرئیل نے نہر سویز پر قبضہ کر لیا تو امریکہ نے ان تینوں ممالک سے یہ قبضہ چھڑانے کے لیے ان کو معاشی مقاطعے کی دھمکی تو دی لیکن روس کے مقابلے میں براہ راست آنے سے کتراتا رہا ، تاہم روس کے مقابلے کے لیے اس نے کئی دفاعی معاہدے کیے جن میں سیٹو (Southeast Asia Treaty Organisation)اور سینٹو [Central (Middle Eastern treaty Organisation)] بہت اہم ہیں ۔
اگست۱۹۶۴ میں ،جب کہ کمیونسٹ شمالی ویت نام نے جنوبی ویت نام پر حملہ کر کے اسے کافی حد تک مغلوب کرلیا تھا، صدر جانسن نے اس جنگ میں کود پڑنے اور جنوبی ویت نام کو کمیونسٹ غلبے سے بچانے کااعلان کیا ۔وہاں امریکہ نے تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ فوجی بھیجے ۔اگلے نو برس تک امریکی فوجی ویت نام کی لڑائی میں شریک رہے ۔اس جنگ میں تقریباً اڑسٹھ ہزار امریکی فوجی مارے گئے ۔ایک بڑی تعداد شدید زخمی ہو ئی ۔تقریباً دس ہزار امریکی طیارے تباہ ہوئے اور امریکی معیشت کو بھی اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ۔بالآخر صدر نکسن نے امریکہ کو اس ہاری ہوئی جنگ سے نکالا۔
صدر کارٹر کے وقت میں بھی امریکہ کو ایک زک پہنچی جب ۱۹۷۹ء میں امریکی اتحادی شہنشاہ ایران کو ایک عوامی بغاوت، جس کی قیادت مذہبی طبقہ کر رہا تھا ،کے ذریعے سے تخت سے اتار دیا گیا ۔تین نومبر ۱۹۷۹ء کو تہران میں امریکی سفارت کاروں کو یرغمال بنالیا گیا ۔ان سفارت کاروں کو رہا کرانے کے لیے کارٹر کی تما م کوششیں بشمول ملٹری ایکشن ناکام رہیں ۔ بالآخر سوا سال بعد ۲۰ جنوری۱۹۸۱ کو صدر ریگن کی حلف برداری کے دن ایران نے ان یرغمالیوں کو رہا کردیا۔
اپریل ۱۹۷۸ میں افغانستان میں نور محمد ترکئی کی قیادت میں صدر سردار داؤد کا تختہ الٹ کر کمیونسٹ انقلاب برپا کردیا گیا۔ اس پر افغانستان میں خانہ جنگی چھڑگئی اور کمیونزم مخالف اسلامی عناصر نے دیہی علاقے کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کرلیا ۔ ۲۵ دسمبر ۱۹۷۹ کو روسی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں۔اس پر امریکہ نے روس مخالف اسلامی عناصر کو اسلحہ ،رقم اور سامان رسد کی فراہمی شروع کردی ۔ اگلے آٹھ نو برس میں امریکہ نے ان عناصر کو دو ارب ڈالر کا اسلحہ دیا ۔اتنی ہی مدد سعودی عرب نے بھی فراہم کی ۔چین،ایران اور مصر نے بھی روس مخالف افواج کی پوری پوری مدد کی ۔ستمبر ۱۹۸۶ میں امریکہ نے مجاہدین کو اینٹی ائیر کرافٹ اسٹنگر میزائل دینے شروع کیے ۔ان میزا ئلوں نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا ۔ سیکڑوں روسی طیارے گرنے سے اس کی کمر ٹوٹ گئی ۔اس جنگ میں پینتیس ہزار کے لگ بھگ روسی ہلاک ہوئے۔ بالآخر روسی افواج کو افغانستان سے نکلنا پڑا اور فروری۱۹۸۹ تک تمام روسی افغانستان سے واپس چلے گئے ۔اس جنگ سے روس کو معاشی طور پر اتنا نقصان ہوا جس سے وہ سنبھل نہ سکا ۔یہ امریکہ کی ایک بڑی کامیابی تھی ۔اس لیے کہ اپنا ایک بھی سپاہی مروائے بغیر اس نے روس کو عبرت ناک شکست دے دی ۔
۲ اگست۱۹۹۰ کو عراق نے کویت پر فوجی قبضہ کرلیا ۔اقوام متحدہ نے فوری طور پر اس کی مذمت کی ۔امریکہ کی سربراہی میں اٹھائیس ملکوں پر مشتمل فوج بنائی گئی ۔عراق کو الٹی میٹم دیا گیا کہ وہ کویت پر قبضہ چھوڑدے ورنہ ۱۶ جنوری ۱۹۹۱ کے بعد اس کے خلاف فوجی ایکشن کیا جائے گا ۔
عراق کی طرف سے انکار پر اس کے خلاف بمباری شروع کی گئی ۔پانچ ہفتے کی بمباری کے بعد زمینی حملہ کر دیاگیا ۔یہ حملہ چار دن جاری رہا ۔عراق کی روج افراتفری کے عالم میں کویت سے واپس ہوئی حتیٰ کہ انھوں نے جنوبی عراق بھی خالی کر دیا۔ اس جنگ میں تقریباً دو لاکھ عراقی فوجی اور سویلین کام آئے جب کہ امریکی افواج کا نقصان نہ ہونے کے برابر ہوا ۔ صرف یہی نہیں، بلکہ کویت اور سعودی عرب کو مستقبل کے ممکنہ عراقی جارحیت سے روکنے کے لیے کچھ امریکی افواج سعودی عرب اور کویت میں ٹھہر گئیں ۔امریکی افواج کے تمام اخراجات بھی سعودی عر ب اور کویت نے ادا کیے ۔اس سے پہلے عراق ستمبر ۱۹۸۰ میں ایران پر حملہ آور ہوا تھا ۔یہ جنگ جو اگست ۱۹۸۸ تک یعنی آٹھ برس جاری رہی ،اس میں بھی چار لاکھ عراقی اور چھ لاکھ ایرانی مارے گئے تھے ۔جبکہ ان دونوں ممالک اور باقی عرب ممالک کے بیسیوں ارب ڈالر اس بے قائدہ جنگ کی نذر ہوئے۔
دسمبر۱۹۹۱ میں یوگو سلاویہ کا شیرازہ بکھرنے کے بعد مسلم اکثریتی صوبے بوسنیا نے آزادی کا اعلان کیا ۔اس پر ہمسایہ عیسائی ریاست سربیا نے بوسنیا پر حملہ کردیا ۔بوسنیا میں بھی ۳۰ فی صد سرب باشندے رہائش پزیر تھے اس لیے بوسنیا کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا ۔پہلے تین سال بوسنیا نے اپنا کامیاب دفاع کیا ۔پھر امریکہ کے دباؤ پر یورپی ممالک کی افواج نے نیٹو کی کمان کے تحت سربیا کی افواج اور بلغراد پر پانچ ہفتے تک فضائی حملے جاری رکھے ۔بالآخر سربیا مذاکرات پر آمادہ ہو گیا۔ امریکہ کے تحت مذاکرات ہوئے جس کے نتیجے میں ’’ڈیٹن امن سمجھوتہ ‘‘ طے پایا اور مسلم اکثریتی بوسنیا ایک آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر جلوہ گر ہو گیا ۔بعد میں جنگی مجرموں کی حیثیت سے کئی سرب لیڈروں پر بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور انھیں سزائیں دی گئیں ۔بوسنیا کی حکومت کو امریکہ اور یورپی اقوام نے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے چھ ارب ڈالر کی امداد بھی دی ۔
بوسنیا کے بالکل قریب کوسوو کا ایک اور مسلم اکثریتی علاقہ موجود ہے ۔اس علاقے کو بھی عیسائی آرتھوڈوکس سربیا سے بچانے کے لیے امریکہ کے دباؤ پر نیٹو کی افواج نے سربیا افواج پر زبردست بمباری کی ۔اس کے نتیجے میں یورپ کے اندر ایک اور مسلم ملک منصہ شہود میں آگیا ۔
۱۹۹۸ سے امریکہ اسامہ بن لادن کے معاملے میں الجھ گیا ۔بن لادن جو سعودی عرب کے انتہائی بااثر خاندان سے تعلق رکھتے تھے ، ۱۹۸۰ سے لے کر ۱۹۹۰ تک افغانستان میں تھے ۔خلیجی جنگ کے بعد جب سعودی عرب کی درخواست پر کچھ امریکی افواج وہیں ٹھہر گئیں تب بن لادن سعودی حکمرانوں اور امریکہ دونوں کے خلاف ہو گئے ۔۱۹۹۲ کے بعد وہ چار سال سوڈان میں مقیم ہو کر اپنے ساتھیوں کی فوجی تربیت کرتے رہے۔ پھر وہ ۱۹۹۶ میں افغانستان چلے آئے ۔ اگست ۱۹۹۶ میں انھوں نے امریکہ کے خلاف اعلان جنگ کیا ۔ان کی زیر سرکردگی بہت سے کیمپ بنائے گئے جہاں سیکڑوں عربوں اور دوسری قومیتوں کے لوگوں کو مسلح تربیت دی جاتی تھی ۔ ۲۳ فروری ۱۹۹۸ کو خوست کیمپ میں القاعدہ سے وابستہ تمام گروپوں نے ایک فتوے کے ذریعے سے امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ کیا اور کہا کہ ان ممالک کے ہر فوجی اور سویلین کو قتل کرنا مسلمانوں پر فرض ہے ۔اگست ۱۹۹۸ میں کینیا اور تنزانیہ کے امریکی سفارت خانوں میں بم دھماکو ں میں کئی سو افراد ہلاک ہوئے ۔ امریکہ نے اس کا الزام القاعدہ پر لگایا اور افغانستان کی طالبان حکومت سے مطالبہ کیا کہ ملزموں کو اس کے حوالے کر دیا جائے ۔اقوام متحدہ کی طر ف سے بھی اسی مضمون کا متفقہ مطالبہ کیا گیا ۔اس کے بعد یمن کی بندرگاہ پر کول نامی بحری جہاز پر حملے کو بھی القاعدہ کی کارروائی قرار دیا گیا ۔لیکن سب سے بڑا سانحہ گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ کو پیش آیا ۔ جب انیس عرب خود کش ہائی جیکروں نے چار ہوائی جہاز اغواکر کے دو جہازوں کو امریکہ اور نیویا رک کی مشہور ترین اور اہم ترین عمارت ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے ٹکرا کر اس بلڈنگ کو زمین بو س کردیا اور اس میں موجود چار ہزار افراد ہلاک ہوگئے ۔تیسرا جہاز امریکی افواج کے ہیڈکوارٹر پینٹیگان سے جا ٹکرایا اور چوتھا جہاز اغوا ہونے کے بعد مسافروں اور ہائی جیکرز کے جھگڑے میں گر کر تباہ ہو گیا ۔ظاہر ہے کہ اس حملہ کے ضمن میں ’’اہم ترین مشتبہ‘‘ القاعدہ اور بن لادن کو قرار دیا گیا ۔امریکہ نے بہت واضح الفاظ میں طالبان کو الٹی میٹم دیا کہ القاعدہ تنظیم کے اہم ارکان کو اس کے حوالے کر دیا جائے ورنہ وہ افغانستان پر حملہ کر دے گا اقوام متحدہ نے بھی متفقہ قرار داد کے ذریعے سے یہی مطالبہ کیا ۔مگر طالبان نے اس مطالبہ کو پورا کرنے سے انکار کر دیا ۔ جس کے نتیجے میں ۷ اکتوبر کو امریکہ نے شمالی اتحاد کی مدد سے طالبان کے خلاف جنگ شروع کردی ۔دو مہینے کے اندر اندر طالبان حکومت ختم ہوگئی اور بیس دسمبر کو بون معاہدے کی رو سے حامد کرزئی عبوری حکومت کے سربراہ مقرر ہوئے ۔امریکہ اور اس کی اتحادی افواج اب بھی افغانستان میں مقیم ہیں ۔
امریکی کلچرمیں ذاتی پسند ونا پسند اور ذاتی کامیابی پر بہت غیر معمولی زو ردیا جاتا ہے ۔اس اعتبار سے یہ معاشرہ دنیا کے دوسرے معاشروں حتیٰ کہ یورپی معاشروں سے بھی بہت مختلف ہے ۔ چونکہ ہر آدمی اپنی ذاتی حیثیت سے اس سرزمین پر آیا اور اس کے سامنے کام کرنے اور کامیابی حاصل کرنے کا ایک موقع تھا ۔یہا ںآنے والوں کی بڑی اکثریت مڈل کلاس یا غریب طبقے سے تعلق رکھتی تھی ، اس لیے اعلیٰ طبقے کا رکھ رکھاؤ اور اس کی مصنوعی اقدار یہاں منتقل نہیں ہوئیں ۔گویا پورا امریکہ درحقیقت تہذیبی اعتبار سے ایک مڈل کلاس سوسائٹی ہے جہاں کوئی بھی فرد اپنے آپ کو کسی بھی دوسرے فرد سے کم تر یا بر تر نہیں سمجھتا ۔اسی لیے امریکی جلد بے تکلف ہونے والے ،صاف گو اور دوستانہ طبیعت کے لوگ ہیں ۔دوسری سوسائٹیوں کے بر عکس امریکی کلچر میں خاندانی وجاہت اور وراثتی دولت کوئی ذر یعۂ عزت و افتحار نہیں ۔بلکہ اصل کارنامہ وہی ہے جو اپنے زور بازو پر انجام دیاجائے ۔
یہ قدر اتنی اہمیت رکھتی ہے کہ کوئی انسان کسی دوسرے فرد کی ذاتی زندگی میں دخل انداز ی نہیں کرسکتا ۔اگر کوئی انسان قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتا اور تشدد کی تبلیغ نہیں کرتا تو پھر وہ جو چاہے کرے اور جو چاہے کہے ۔اس انفرادیت کی وجہ سے مقابلے کا رجحان بھی بہت زیادہ ہے ۔ہر فرد کے لیے لازم ہے کہ وہ خود کچھ کر کے دکھائے ۔ اسی قدر کی وجہ سے یہ معاشرہ قانونی تارکین وطن کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں ۔
جمہوری کلچر اس معاشرے کے ر گ و پے میں اسی طرح سرایت کیے ہوئے ہے کہ اس کے بغیر کوئی فرد اجتماعی زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔یہ سوسائٹی بتدریج بادشاہت سے جمہوریت کی طرف نہیں آئی ، بلکہ انفرادی آزادی کی ایک شاخ کی حیثیت سے اس نے آنکھ ہی جمہوریت کے ماحول میں کھولی ہے ۔سب لوگ پہلے دن سے یہ جان گئے کہ جمہوریت کے بغیر وہ زندہ ہی نہیں رہ سکتے ۔اسی لیے ان کا ہر رہنما جمہوریت سے آخری درجے میں مخلص تھا ۔یہاں جمہوریت کا ہر ممکن تجربہ ہوا۔ یہاں کا پریس آزاد بھی ہے اور بے رحم بھی ۔یہاں ٹی وی چینلوں اور ریڈیو اسٹیشنوں پر حکومت کی اجارہ داری نہیں ۔بیشک کئی معاملات سے متعلق یہاں تعصب بھی برتاجاتا ہے اور جس معاملے پر اجماع ہو ،وہاں مخالفین کی بات مشکل ہی سے سنی جاتی ہے ، مگر سب کچھ جمہوری دائرے کے اندر ہوتا ہے ۔ہر فرد کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے ۔سیاسی پارٹیوں کے اندر بھی کسی پارٹی لیڈر یا کسی سنٹرل ایگزیکٹیوکو ویٹو پاور حاصل نہیں ہوتا ۔گویا جس طرح ایک فرد کی زندگی انفرادی آزادی سے عبارت ہے ، اسی طرح اجتماعی زندگی کی بنیادی قدر جمہوریت ہے ۔
دوسرے ترقی یافتہ معاشروں کے برعکس امریکہ میں مذہب کی گرفت کافی حد تک مضبوط ہے ۔لوگوں کی ایک بڑی تعداد چرچ سے اپنا تعلق رکھتی ہے اور اپنے عیسائی ہونے کا شعور رکھتی ہے ۔مذہبی پروگراموں اور مذہبی رفاہی اداروں میں لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔بے شمار لوگ مذہب کی ترویج اور خدمت کو اپنا بنیادی مقصد زندگی بنالیتے ہیں اور اس کے لیے دنیا کے دور دراز دشوار گزارگوشوں میں کئی کئی سال تک خدمت انجام دیتے ہیں ۔گویا مذہب یہاں ایک زندہ قدر کی حیثیت رکھتا ہے ۔اسی وجہ سے لوگ دوسرے مذاہب میں بھی دلچسپی لیتے ہیں اور اس ضمن میں تباد لۂ خیال کو پسند کیا جاتا ہے ۔
امریکی معاشرے میں سچائی ،امانت ،دیانت اور انصاف کا عام چلن ہے ۔جھوٹ بولنے ،غلط بیانی کرنے اور ملاوٹ کرنے کو بد ترین برائیاں سمجھا جاتا ہے ۔ناپ تول میں کوئی بے ایمانی نہیں کی جاتی ۔قانون کی پابندی کو ہر انسان لازمۂ حیات تصور کرتا ہے ۔ہر انسان سچی گواہی دینے کے لیے ہر وقت آمادہ و تیار رہتا ہے ۔ہر جگہ محنت کی قدر ہے۔ ہر فرد کی اصل قیمت اس کی صلاحیت و قابلیت ہے ۔رشوت و ناجائز سفارش ناقابل تصور ہے ۔ہر بات دلیل کی بنیاد پر کہی اور سنی جاتی ہے خود تنقیدی عام ہے ۔جذباتیت بہت کم ہے ۔برداشت اور مکالمہ کو بہت پسند کیا جاتا ہے ۔
اس سوسائٹی میں ہر فرد کو یہ تربیت دی جاتی ہے کہ اسے اپنے وقت ،صلاحیت اور سرمائے کا کچھ حصہ لازماً معاشرے کی خدمت میں صرف کرنا ہے ۔یہ خدمت ہمہ جہت اور نہایت متنوع ہو سکتی ہے ۔چنانچہ مفلوک الحال طبقات اور غریب مریضوں کے لیے بے شمار ادارے موجود ہیں ۔مستحق طلبہ کی مدد کے لیے بیسیوں ادارے ہیں۔معاشرے میں کسی اچھی بات یا کسی قدر کو عام کرنے کے لیے کئی انجمنیں مصروف عمل ہیں ۔مثلاً ایسی تنظیمیں بھی موجود ہیں جو ایڈز سے بچاؤ کے لیے نوجوانوں میں یہ تحریک چلاتی ہیں کہ وہ شادی سے پہلے جنسی تعلق سے احتراز کریں ۔خاندانی نظام کی بحالی کے لیے کئی ادارے کام کر رہے ہیں۔حتیٰ کہ جانوروں کے حقوق کے تحفظ ،پرانے آرٹ وادب کے تحفظ ،غرض یہ کہ ہر قابل تصور موضوع کے لیے لوگوں نے اپنے آپ کو وقف کیا ہوا ہے ۔ گویا ہر فرد اجتماعیت کی خدمت کے لیے کچھ نہ کچھ قربانی ضرور دیتا ہے ۔
جنسی اعتبار سے امریکی سوسائٹی افراط وتفریط کا شکار ہے ۔تاہم بعض یورپی معاشروں کے برعکس یہ مادرپدر آزاد معاشرہ نہیں ہے ۔ کم لباس، مخلوط محفلیں ،کلب اور ڈانس روز مرہ کا معمول ہیں ، تاہم فری سیکس بہت کم ہے اوراسے بری نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔راہ چلتے بوس وکنار کو معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ایک طرف گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کے رشتے کی میاں بیوی کے رشتے کی طرح حفاظت کی جاتی ہے ،سوائے اس کے کہ میاں بیوی کا رشتہ قانونی اور دستاویزی ہوتا ہے جب کہ دوسرے رشتے کے لیے کسی دستاویزات کی ضرورت نہیں ہوتی ۔دوسر ی طرف سنگل مدرزیعنی اکیلی مائیں بھی عام ہیں ۔یہاں کسی سے جنسی تعلق بنانا آسان نہیں تو دوسری طرف ہم جنسیت پر بھی کوئی پابندی نہیں ۔البتہ یہ بات جان لینی چاہیے کہ دس فیصد سے کم لوگ اس میں آلودہ ہیں اور معاشرے کی ایک بڑی اکثریت اس سے نفرت کرتی ہے ۔گو یاجنس اور لباس کے معاملے میں پابندی کسی چیز پر نہیں ۔ اس لیے کہ ایسی پابندیاں ان کے خیال میں انفرادی آزادی کے خلاف ہیں تاہم سوسائٹی کے اپنے قواعد اور اقدار موجود ہیں جن کا خیال رکھا جاتا ہے ۔
امریکہ کی ایک قدر سیکولرزم ہے۔تاہم یہ سیکولرزم بعض یورپی ممالک کے سیکولرزم سے بالکل مختلف ہے ۔یہاں سیکولرزم کا مطلب ہر مذہب کے لیے احترام اور رواداری ہے ۔اسی لیے یہاں کسی بھی مذہب کے مطابق عبادت کرنے یا لباس پہننے پر کوئی پابندی نہیں ۔اس کی ایک مثال یہ ہے کہ فرانس میں مسلمان خواتین کے نقاب استعمال کرنے کو مذہب کی علامت قرار دے کر سرکاری اداروں میں ایسی خواتین کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے ۔دوسری طرف امریکہ میں اس کو انفرادی آزادی کا مظہر قرار دے کر اس کا احترام کیا جاتا ہے ۔
یہ بڑی عجیب بات ہے کہ دنیا کے سب سے امیر ملک میں جابجا غربت کے مناظر موجود ہیں ۔ملک کے دارالحکومت واشنگٹن میں ،جس کی آبادی چھ لاکھ ہے ، ہر وقت تقریباً پندرہ ہزار افراد بے گھر اور بے آسرا فٹ پاتھ پر بسیرا کرتے ہیں ۔یہ غربت افریقی امریکیوں یعنی کالوں اور قدیم امریکیوں یعنی ریڈانڈینیز میں زیادہ ہے اور یورپی امریکیوں یعنی سفید فاموں میں بہت کم ہے ۔دراصل فلاحی مملکت کا امریکی تصور بھی یورپی تصور سے بہت مختلف ہے۔ یورپی فلاحی ملکوں میں ریاست مہد سے لحد تک یعنی پوری زندگی کے لیے ایک فرد کی ذمہ داری لیتی ہے ، اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ا سے بہت زیادہ ٹیکس لگانے پڑتے ہیں ۔اکثر حالتوں میں یہ ٹیکس آمدن کے پچاس فیصد سے زیادہ ہوجاتے ہیں چونکہ حقیقی فلاحی مملکتیں یعنی سکینڈے نیوین ملک بہت چھوٹے بھی ہیں ۔ انہیں کوئی بیرونی خطر ہ بھی درپیش نہیں اور انہیں بین الاقوامی تنازعات میں کوئی کردار بھی ادا نہیں کرنا ہوتا ، اس لیے اُن کے لیے فلاحی مملکت کے تقاضوں کو نبھانا ممکن ہو جاتا ہے ۔اس کے بالکل برعکس امریکی نقطۂ نظر یہ ہے کہ فلاحی مملکت کا تصور اپنی انتہائی شکل میں مارکیٹ اکانومی کے تصور کے خلاف ہے ۔اس کی وجہ سے عام فرد پر اتنے زیادہ ٹیکس لگ جاتے ہیں جن سے انفرادی مسابقت کا جذبہ ماند پڑ جاتاہے اور فرد کی آزادی کا تصور مجروح ہو جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ سیلز ٹیکس ہو انکم ٹیکس ہو یا ویلتھ ٹیکس ،کسی کا بھی تناسب پانچ فی صد سے زیادہ نہیں ۔اکثر ریاستوں میں انکم ٹیکس اور ویلتھ ٹیکس میں سے صرف ایک موجود ہو تا ہے ۔امریکہ میں ابتدائی بارہ برس کی تعلیم بالکل مفت ہے ۔باقی ہر چیز کے لیے ہر فرد کو کچھ نہ کچھ دینا پڑتا ہے ۔فلاحی مملکت کو امریکیوں نے ریاست کی ذمہ داری سے الگ کر کے سو سائٹی کی ذمہ داری بنا دیا ہے ۔اس لیے سارے ملک میں ایسے غیر سرکاری اداروں کا جال بچھا ہوا ہے جو کمزور طبقے کی تعلیم ،صحت ،کھانے اور رہایش کا خیال رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ہر مستحق فرد ان خدمات سے مستفید ہو جاتا ہے ۔مثلاً ایسے ادارے موجود ہیں جو بے سہارا لوگوں کو ناشتہ کھلاتے ہیں ،کوئی تنظیم مستقلاً شام کے کھانے کا بندوبست کرتی ہے ،کچھ تنظیمیں بے گھر لوگوں کے لیے چند ہفتوں کے لیے سر چھپانے کا بندوبست کرتی ہیں ،کچھ ادارے ایسے بھی ہیں جو ہر مستحق فرد کو طبی سہولیات فراہم کر تے ہیں خواہ وہ امریکہ میں غیر قانونی طریقے پر ہی کیوں نہ مقیم ہو ۔یہی حال تعلیم کا ہے ۔یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی باصلاحیت طالب علم سرمائے کی کمی کی وجہ سے تعلیم سے محروم رہ جائے ۔کوئی نہ کوئی غیر سرکاری فلاحی تنظیم اس کو سنبھال لے گی۔
بر طانوی جمہوریت کے بر عکس امریکی جمہوریت براہ راست ہے ۔یعنی پارلیمانی کے بجائے صدارتی نظام ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ کے اندر بے شمار چیزیں بر طانیہ سے الٹ ہیں ۔وہاں ٹریفک بائیں ہاتھ ہے اور یہاں دائیں ہاتھ ،وہاں کلومیٹر ہیں اور یہاں میل ،وہاں بجلی دوسو بیس وولٹ ہے اور یہاں اس سے الٹ ،وہاں لوگ اور بچے خاموش رہتے ہیں ،بغیر تعارف کے ایک دوسرے سے گفتگو کے روادار نہیں ہوتے ،یہاں لوگ اور بچے خوب شور مچاتے ہیں اور ایک دوسرے سے گفتگو اور ہنسی مذاق کے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں ،وہاں بجلی کے سوئچ اوپر سے نیچے کی طرف آن ہوتے ہیں ،یہاں نیچے سے اوپر کی طرف آن ہوتے ہیں ۔غرض یوں لگتا ہے جیسے امریکیوں نے ہر چیز جان بوجھ کر انگریزوں سے الٹ رکھی ہے ۔ بہرحال یہ براہ راست جمہوریت ہر جگہ ہے ۔ مئیر ہو ،ریاست کا گورنر ہو ،عدالت کا جج ہو یا ملک کا صدر ،ہر کوئی براہ راست عوامی ووٹ سے منتخب ہوتا ہے۔
مدت دراز سے امریکہ میں دو پارٹی نظام رائج ہے ایک ریپبلیکن پارٹی اور دوسری ڈیموکریٹک پا رٹی ۔وقتاً فوقتاً کوئی تیسری پارٹی بھی ابھر کر کچھ عرصے کے لیے ارتعاش پیدا کرتی ہے مگر جلد بیٹھ جاتی ہے ۔جیسے آج کل گرین پارٹی بھی میدان میں موجود ہے۔اگر چہ ابھی تک اس کی بنیادیں مضبوط نہیں ہوسکیں ۔
امریکہ میں دو پارٹی نظام کو قائم ہوتے اور جڑ پکڑتے پکڑتے بہت وقت لگا ۔ریپبلیکن پارٹی امریکی کلچر ،امریکی اقدار اور امریکہ کی بالا تری پر یقین رکھتی ہے ۔یہ پارٹی خاندانی اقدار اور مذہب کی طرف نسبتاً زیادہ مائل ہے۔خارجہ تعلقات کے ضمن میں یہ پارٹی امریکی مفادات کو بہت زیادہ دیکھتی ہے ۔اس کے برعکس ڈیموکریٹک پارٹی انسانی حقوق ،عورتوں ،اقلیتوں ، مزدور طبقہ اور تارکیں وطن کی جانب ہمدردانہ رویہ رکھتی ہے ۔تاہم ان دونوں پارٹیوں میں نمایاں حد فاصل تلاش کرنامشکل ہے ۔ ہرپارٹی کے اندر خیالات کے اعتبار سے مزید تین گروپ بن جاتے ہیں ۔یعنی لبرل ،ماڈریٹ اورکنزرویٹیو۔ان مختلف شیڈز کی وجہ سے بسا اوقات بڑی دلچسپ صورت حال بن جاتی ہے مثلاً ایک کنزرویٹیو ڈیموکریٹک کے خیالات اور ایک لبرل ریپبلیکن کے نظریات میں حقیقتاً کوئی فرق نہیں ہوتا ۔دونوں پارٹیوں کے ماڈریٹ بھی تقریباً ہم رنگ ہی ہوتے ہیں ۔
پارٹیوں کی اصل تنظیم ریاستی سطح پر ہوتی ہے ۔ملکی سطح کی تنظیم بڑی ڈھیلی ڈھالی ہوتی ہے اور وہ صرف صدارتی انتخاب کے موقع پر انگڑ ئی لیتی ہے ۔اس کے علاوہ اس کا کوئی کا م نہیں ہوتا ۔
ہر ووٹر کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ ووٹرز لسٹ میں اپنے آپ کو بطور ریپبلیکن یا ڈیموکریٹ یا کسی بھی پارٹی کے ساتھ ملحق ظاہر کرے اور چاہے تو آزاد رہے ۔جب وہ اپنے آپ کو کسی پارٹی سے وابستہ ظاہر کرے گا تو و ہ خود بخود اس پارٹی کے تمام معاملات میں بطور رکن ووٹ دینے کا اہل ہوجائے گا ۔وہ جب چاہے اپنی وابستگی تبدیل کر سکتا ہے ۔
امریکہ میں پارٹی ڈکٹیٹر شپ کا کوئی تصو ر نہیں ہے ۔ہر عہدہ کے لیے اپنی پارٹی کے امیدوار کا چناؤ بھی اس حلقے سے تعلق رکھنے والے پارٹی ممبر کرتے ہیں ۔اس کا طریقہ یوں ہوتا ہے کہ مثلاً ایک ریاست سے ریپبلیکن پارٹی کی طرف سے سینٹ کی ایک سیٹ کے لیے دو افراد امیدوار ہیں ۔یہ دونوں افراد اپنے لیے بھر پور انتخابی مہم چلائیں گے ۔بالکل ایسے ہی جیسے عام انتخابات میں ہوتا ہے ۔ایک خاص تاریخ کو ریاست میں ’’پرائمریز‘‘ یعنی پرائمری الیکشن ہوں گے ۔(ان پرائمریز میں مختلف عہدوں کے لیے دوسرے امیدوار بھی اپنی اپنی پارٹی کے اندر انتخاب لڑ رہے ہوں گے )۔جن ووٹروں نے اپنے آپ کو بحیثیت ریپبلیکن ووٹر رجسٹرڈ کیا ہو گا ،وہ ان دونوں امیدواروں میں سے کسی ایک کو ووٹ دیں گے ۔اس طر ح جو امیدوار بھی پارٹی کا یہ اندرونی انتخاب جیت جائے گا ۔وہ ریاستی انتخاب میں مخالف پارٹی کے امیدوار کے ساتھ مقابلہ کرے گا ۔گویا یہاں پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹیو یا سنٹرل پا رٹی ٹکٹ کمیٹی کی اجارہ داری کا کوئی تصور نہیں ۔
امریکہ سے باہر لوگ سمجھتے ہیں کہ اس ملک کے اندر شاید صدر ،کانگریس اورسینٹ ہی سب کچھ ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ امریکی وفاق کے پاس چند ہی اختیارات ہیں جب کہ عام انسان سے تعلق رکھنے والے تمام تر اختیارات ریاست یعنی صوبے کے پاس ہو تے ہیں ۔ریاست کا گورنر بھی براہ راست منتخب ہوتا ہے اور ریاستی اسمبلی بھی براہ راست منتخب ہوتی ہے۔گورنر کے پاس عمومی انتظامی اختیارات ہوتے ہیں جب کہ ریاستی اسمبلی قانون سازی کرتی ہے اور بجٹ پاس کرتی ہے۔
یہ ایوان درحقیقت دو حصوں پر مشتمل ہے ۔ایک ایوان نمائند گان اور دوسراسینٹ ۔ان دونوں کے مجموعے کو کانگریس کہا جاتا ہے ، مگر کبھی کبھی ایوان نمائندگان کو بھی کانگریس کہہ دیا جاتا ہے ۔ایوان نمائندگان کا ہر رکن آبادی کی بنیاد پر منتخب کیا جاتا ہے ۔آج کل اس کے ارکان کی تعداد چار سو ہے ۔جب کہ ہر ریاست سے دو سینیٹر منتخب کیے جاتے ہیں ۔اس طرح سینیٹرز کی تعداد ہمیشہ ایک سو رہتی ہے ۔ایوان نمائندگان کی میعاد صرف دو برس ہوتی ہے اور سینٹ کی میعادچھ برس ۔ہر دو سال بعد ایک تہائی سینیٹرز ریٹائر ہو جاتے ہیں اور ان کے انتخاب کے لیے پوری ریاست کو حلقہ تصور کیا جاتا ہے ۔ایوان نمائندگان کے لیے اتنی مختصر میعاد اس لیے رکھی گئی ہے تاکہ وہ کبھی بھی اپنے حلقۂ انتخاب کے عوام سے کٹنے نہ پائیں اور الیکشن میں کامیاب ہوتے ہی وہ اگلے الیکشن کے لیے تیاری شروع کر دیں۔عام طور پر ایوان نمائندگان کے ہر ممبر کے تین چار دن واشنگٹن میں گزرتے ہیں اور تین یا چا ر دن اپنے حلقۂ انتخاب میں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایوان نمائندگان کے ممبر کی حیثیت سے ذمہ داری سرانجام دینا ایک مشکل کام ہے ۔
سینٹ کی میعاد چھ برس ا س لیے رکھی گئی ہے تاکہ ایک دفعہ منتخب ہونے کے بعد ان اراکین پر اپنے حلقۂ انتخاب کا زیادہ دباؤ نہ رہے اور وہ اطمینان و دلجمعی کے ساتھ قانون سازی کا کام کر سکیں ۔تاہم ان کو بھی اپنے حلقۂ انتخاب سے پورا رابطہ رکھنا پڑتا ہے ، اس لیے کہ ان کا انتخاب (پاکستان کے برعکس )ریاستی اسمبلیاں نہیں ، بلکہ براہ راست عوام کرتے ہیں ۔ہر نمائندے کا واشنگٹن میں ایک دفتر او راپنے حلقے میں پانچ چھ دفاتر ہوتے ہیں ۔ان دفاتر کا سٹاف وہ خود مقرر کرتا ہے اور اس کے اخراجات حکومت برداشت کرتی ہے ۔اس طرح وہ ہمہ وقت اپنے حلقۂ انتخاب سے رابطے میں رہتا ہے ۔
کسی بھی مسئلے پر بحث ،موقف سازی اور ووٹنگ کے وقت کسی بھی ممبر کے لیے پارٹی ڈسپلن کا خیال رکھنا ضروری نہیں ہوتا۔ ہر ممبر اپنے ضمیر کے مطابق بات کرتا ہے اور ووٹ دیتا ہے ۔ممبر کے لیے پارٹی تبدیل کرنے یا اپنی پارٹی چھوڑ کر آزاد ممبر بننے پر بھی کوئی قانونی پابندی نہیں ۔تاہم ایسا بہت کم ہوتا ہے ۔پچھلے دس سال میں شاید صرف ایک دفعہ ایسا ہوا ہے کہ ایک رکن نے بر سر اقتدار پارٹی چھوڑ کر آزاد ممبر بننے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔
امریکہ کے صدارتی انتخابات کا طریق کار انتہائی دلچسپ اور پیچیدہ ہے ۔سب سے پہلے ہر ریاست کے اندر ہر بڑی پارٹی کے امیدواروں کے درمیان باہمی مقابلہ ہوتا ہے ۔مثلاً اگر ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے تین افراد صدارتی امیدوار بننا چاہتے ہیں تو ان میں سے ایک متفقہ امیدوار کے سلیکشن کے لیے آپس میں مقابلہ ہو گا ۔اس سلیکشن کے دو طریقے ہیں ۔ایک طریقہ، جس کے لیے ریاست آئیوا بہت شہرت رکھتی ہے ،کاکس (Caxcus)کا طریقہ کہلاتا ہے ۔ہوتا یوں ہے کہ ایک چھوٹے یونٹ (مثلاً کسی چھوٹے قصبے)کے اس پارٹی سے تعلق رکھنے والے افراد ایک جگہ اکٹھے ہو جاتے ہیں ۔ہر فرد اپنے پسندیدہ امیدوار کانام لیتا ہے ۔اگر امیدوار زیادہ ہو ں تو سب سے کم ووٹ لینے والے امیدوار کا نام ڈراپ ہو تا رہتا ہے اور نئے سرے سے انتخاب ہو تا ہے حتیٰ کہ آخر میں دو امیدوار رہ جاتے ہیں اور اُن دونوں میں سے کوئی ایک یہ کاکس جیت لیتا ہے۔ یہ تمام پراسیس ایک ہی وقت میں پاےۂ تکمیل کو پہنچتا ہے ۔اس طرح جب ریاست کے تمام کاکسوں کے نتائج آجاتے ہیں تو جس امیدوار نے زیادہ کاکس (نہ کہ زیادہ ووٹوں کی تعداد) میں کامیابی حاصل کی ہوتی ہے ،اُسے اس ریاست کی طرف سے فاتح قرار دیا جاتا ہے ۔تاہم اس کامیابی سے کوئی امیدوار واقعتاامیدوار نہیں بن جاتا ، اس لیے کہ اس ضمن میں اصل فیصلہ قومی نامزدگی کنوینشن (National Nominating Convention) کے ڈیلی گیٹس کے اکثریتی ووٹ سے ہو تا ہے۔ اب اکثر ریاستوں میں کاکس کا رواج نہیں رہا ۔
کسی پارٹی کے صدارتی امیدوار کا اصل فیصلہ ڈیلی گیٹس کرتے ہیں ۔اس موقع کے لیے ہر ریاست میں ’’پرائمریز ‘‘ منعقد ہو تے ہیں ۔ان پرائمریز کے لیے ہر امیدوار اپنا پینل کھڑ ا کرتا ہے ۔ڈیلی گیٹس کی تعداد ریاست کی آبادی کی تناسب سے ہوتی ہے ہر ریاست میں باقاعدہ سرکاری طور پر الیکشن منعقد ہو تا ہے جس میں اس پارٹی سے تعلق رکھنے والے ممبر ڈیلیگیٹس کا انتخاب کرتے ہیں (یہ بات پہلے بیان کی چکی ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس بحیثیت ووٹر اپنے آ پ کو رجسٹر کراتے وقت ہر فرد کو اختیار ہے کہ وہ چاہے تو اپنی پسندیدہ پارٹی کا نام بتائے یاآزاد رہے ۔پسندیدہ پارٹی کانام بتانے والا خود بخود اس پارٹی کا ممبر بن جاتا ہے ۔)اس انتخاب سے پہلے بھی پورے ملک میں ہر امیدوار ا پنی پارٹی کے اندر اپنی انتخابی مہم چلاتا ہے ۔جب تمام ریاستوں سے ڈیلی گیٹ منتخب ہو جاتے ہیں تو پھر نیشنل کنونشن منعقد ہوتا ہے جس میں متفقہ امیدوار کا باقاعدہ اعلان کیا جاتا ہے۔ نتیجہ ہر کسی کو پہلے سے ہی معلوم ہو تا ہے۔اس کے بعد ہر ریاست کی پارٹی ’’الیکٹرل کالج ‘‘یعنی انتخابی ادارے کے افراد کا تقرر کرتی ہے ۔ان کی تعدا دہر ریاست کے اراکین سینٹ اور اراکین ایوان نمائندگان کی مجموعی تعداد کے برابر ہوتی ہے۔ یہ افراد عام طور پر پارٹی کے وفادار ترین ارکان ہوتے ہیں ۔امریکہ میں ہر چوتھا سال صدارتی انتخابات کا سال ہوتا ہے ۔ اس سال نومبر کی پہلی پیر کو صدارتی انتخابات کے لیے پولنگ ہوتی ہے،لیکن یوں نہیں ہوتا کہ جس امیدوار نے سب سے زیادہ ووٹ لے لیے ہوں ،اُسے کامیاب قرار دے دیا جائے ۔بلکہ ہوتا یوں ہے کہ جس ریاست میں جس امیدوار کو زیادہ ووٹ پڑے ہوتے ہیں ،اس ریاست سے اس پارٹی کا پورا الیکٹرل کالج کامیاب قرار دے دیا جاتا ہے ۔مثلاً کسی ریاست میں الیکٹرل کالج کے ارکان کی تعداد دس ہے ۔اس ریاست میں تین لاکھ عام ووٹ ریپبلیکن پارٹی کا امیدوار لے لیتا ہے ۔دو لاکھ نوے ہزار ووٹ ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار کے حق میں پڑجاتے ہیں اور ایک لاکھ ووٹ گرین پارٹی لے لیتی ہے۔تو اس ریاست سے ریپبلیکن پارٹی کے دس کے دس ارکان الیکٹرکل کالج کامیاب قرار دے دیے جائیں گے ۔
صدارت کا اصل فیصلہ عام ووٹوں کی اکثریت کی بنیاد پر نہیں ، بلکہ تمام ریاستوں کے الیکٹرل کالج کے ارکان کی اکثریتی رائے سے ہو تا ہے۔چنانچہ یہ عین ممکن ہے کہ عام اکثریتی ووٹ ایک امیدوار کے حق میں پڑے ہوں اور بالفعل دوسرا امیدوار الیکڑل کالج کے ووٹوں کی اکثریت سے کامیاب ہو جائے ۔مثلاً ۲۰۰۰ء کے انتخاب میں اکثریتی ووٹ الگور کے حق میں پڑے تھے ، مگر الیکڑل کالج کے طریقۂ کار کی وجہ سے جارج بش الیکشن جیت گئے ۔
اگر چہ الیکٹرل کالج کے افراد سرکاری طور پر عام انتخاب کے چند دن بعد ووٹ دیتے ہیں ۔تاہم عام ووٹوں کی گنتی مکمل ہوتے ہی الیکٹرل کالج میں ہر پارٹی کے ارکان کی تعداد خود بخود معلوم ہو جاتی ہے ، اس لیے غیر سرکاری طور پر فوری اعلان کامیابی ممکن ہو تاہے ۔
بادی النظر میں الیکٹرل کالج کا ادارہ بالکل غیر ضروری معلوم ہوتا ہے ۔تاہم امریکیوں کے خیال میں دو نکات کی بنیاد پر اس کی افادیت ہے ۔ایک یہ کہ اس سے ہر ریاست کی طاقت اور اہمیت کا اظہار ہو تا ہے ۔اور اس طریقۂ کار کی وجہ سے کسی چھوٹی ریاست کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، دوسرا یہ کہ اس سٹرکچر کی وجہ سے کسی تیسری پارٹی کے لیے میدان پر قبضہ یا تیسرے امیدوار کی جیت عملاً ناممکن ہو جاتی ہے ۔اس لیے تیسری پارٹی یا تیسرا امیدوار کسی بڑی پارٹی کے ووٹ تو خراب کرنے کا باعث بن سکتا ہے یا اپنا احتجاج تو ریکارڈ کر سکتا ہے ،مگر عملاً وائٹ ہاؤس پر قبضہ نہیں کر سکتا۔
امریکی انتخا بات میں سیاسی اخلاقیات کی اہمیت
درج بالا صفحات میں امریکی انتخابی نظام کا جو مختصر سا خاکہ بیان کیا گیا ہے،اس سے ایک عام قاری بھی یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ اگر سیاست دانوں میں سے کچھ مفسد اور بیمار ذہن کے لوگ اس سسٹم سے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہیں تو ایک مختصر عرصے میں یہ نظام بالکل بیٹھ سکتا ہے ۔مثلاً اس نظام کے تحت اگر کوئی پارٹی چاہے تو اپنی مخالف پارٹی کی طرف سے ایک نسبتاً کمزور امیدوار کو نامزد کرا سکتی ہے ۔وہ یوں کہ یہ پارٹی اپنے کچھ لوگوں کو مخالف پارٹی کا رکن بنوا د ے اور وہ پرائمریز میں کسی کمزور امیدوار کے حق میں رائے دے دیں ۔اسی طرح امریکی سسٹم میں فلور کراسنگ پر کہیں بھی کوئی پابندی نہیں ہے ۔اسی طرح کسی پارٹی کے منتخب ممبر پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہے کہ اسے لازماً اپنی پارٹی پالیسی یا پارٹی لائن یا کسی خاص موقف کے حق میں ووٹ دینا ہے ۔اس پر واحد قد غن اس کے اپنے ضمیر کی ہے ۔حتیٰ کہ الیکٹرل کالج کے ارکان ،جن کا واحد کا م اپنے صدارتی امیدوار کے حق میں چار برس میں صرف ایک دفعہ ووٹ دینا ہو تا ہے ،یہ بھی اپنے پارٹی امیدوار کے حق میں ووٹ دینے کی پابند نہیں ہے۔اس لیے ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ بعض اوقات کسی پارٹی کا کوئی الیکٹرل کالج کا رکن علی الاعلان اپنی پارٹی کے صدارتی امیدوا ر کے خلاف بطور احتجاج ووٹ دیتا ہے ۔اور اس کے ساتھ وہ بتا دیتا ہے کہ وہ کس بات پر علامتی ا حتجاج کر رہا ہے ۔یہ احتجاج بھی وہ صرف اس وقت کر تا ہے جب اسے یہ علم ہو کہ اس کے مخالفانہ ووٹ سے اس کی پارٹی کے امیدوار کی جیت یا ہار پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔او رمزید لطف کی بات یہ کہ کسی بھی معاملے میں مخالفانہ ووٹ دینے والے کسی بھی منتخب یا غیر منتخب رکن کو پارٹی سے بھی نہیں نکالا جا سکتا ، اس لیے کہ امریکہ میں کسی فرد کو پارٹی سے نکالنے کا کوئی سسٹم موجود ہی نہیں ۔گو یا امریکی سیاسی نظا م میں بے شمار خامیاں (loop-holes)موجود ہیں۔اگر اس سسٹم کو کوئی چیز تھامے ہوئے ہے تو وہ امریکی سیاست دانوں کا اجتماعی سیاسی اخلاقیات اور اپنے ضمیر کی آواز پر سختی سے جمے رہنا ہے ۔فی الوقت یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکی سیاست دان اجتماعی سیاسی اخلاقیات کی عمومی پیروی کرتے ہیں ۔
میڈیا او ر سیاست
امریکی میڈیا ،خواہ وہ پرائیویٹ ٹی وی چینل ہوں یا اخبارات ،بنیادی طور پر کمر شل ادارے ہوتے ہیں ۔تاہم ان میں سے ہر ادارے کا اپنا ایک موقف،طرز فکر اور بنیادی تجزیہ بھی ہوتا ہے ۔ا س کے ساتھ ساتھ یہ ادارے سیاست و حکومت کے لیے ایک بے رحم محتسب کا کردار بھی ادا کرتے ہیں ۔عوام کو نت نئی چیزوں سے روشناس کرنے کی دوڑ میں ہر ادارے کی اپنی انویسٹی گیشن ٹیمیں ہو تی ہیں ۔وہاں کی اصل رپورٹنگ ہوتی ہی تحقیقاتی ہے۔سیاسی لیڈر اول تو بیانات دیتے ہی نہیں او ر اگر دیں بھی تو انھیں کوئی چھاپنے کا تکلف گوارا نہیں کرتا۔قانونی طور پر بھی صحافیوں (بلکہ ہر امریکی )کو ہر محکمے اور شعبے کے متعلق سب کچھ جاننے کا اختیار ہو تا ہے ۔اس لیے عملاً کوئی بات چھپانی ناممکن ہو جاتی ہے ۔اس سخت گیر نقاد کے ہوتے ہوئے کوئی سیاست کار یا ذمہ دا ر فرد کوئی غلط کام کرتے ہوئے ہزار مرتبہ سوچتا ہے ۔واٹر گیٹ اسکینڈل کو طشت ازبام کرنے کا کارنامہ ایک صحافی نے ہی انجام دیا تھا ۔ہوا یوں تھا کہ ریپبلیکن پارٹی کے کچھ لوگوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی دفتر واٹر گیٹ بلڈنگ میں جاسوسی آلات نصب کردیے تھے تاکہ ان کی نج کی گفتگو سے باخبر رہا جا سکے ۔اس اسکینڈل کے نتیجے میں نکسن جیسے طاقت ور صدر کو وہائٹ ہائو س سے رخصت ہو نا پڑا تھا ۔
عدلیہ اور جمہوریت
امریکی نظام کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ وہاں ریاستی سطح پر کئی جج بھی یا تو منتخب کیے جاتے ہیں اور یا ان کو عام ووٹرز کی تائید یا عدم تائید کے لیے پیش کیا جاتا ہے ۔گویا اگر کوئی جج سست اور کام چور ہو ،اس کے فیصلے مفاد عامہ اور مصالح عمومی کے مطابق نہ ہو ں یا اس کی عمومی شہرت ٹھیک نہ ہو تو عوام اسے کرسی عدالت سے کھینچ سکتے ہیں ۔
وفاقی عدالت کی نشست کے لیے اصل نامزدگی تو صدر کرتا ہے ، مگر اس کی نامزدگی کی توثیق دونوں ایوانوں پر مشتمل کمیٹی کے ذریعے سے کی جاتی ہے۔ چونکہ دونوں ایوانوں میں دونوں پارٹیوں کی نشستوں میں محض انیس بیس ہی کا فرق ہو تا ہے ، اس لیے کمیٹی میں دونوں پارٹیوں کے ارکان کی تعداد تقریباً برابر ہوتی ہے۔اس کا عملاً مطلب یہ ہے کہ ہر جج کی تقرری پر صدر اور دونوں بڑی پارٹیوں کا اتفاق رائے ضروری ہے ۔عدالت عالیہ کا جج کبھی ریٹائرڈ نہیں ہو تا ۔اگر عمر رسیدگی کی بنا پر وہ خود کر سی عدالت چھوڑنا چاہے ،تو الگ بات ہے ، مگر موا خذے کی کسی تحریک کو چھوڑ کر اسے برطرف نہیں کیا سکتا ۔اس طرح وہ ہر طرح کے دبائو اور ترغیب وتحریص سے بالا تر ہو کر فیصلے کر تا ہے ۔
انتخابات اور دولت
امریکی انتخابات میں دولت کا بے تحاشا استعمال ہو تا ہے ۔کانگریس کا ہر امیدوار چار سے لے کردس ملین ڈالر تک خرچ کرتا ہے ۔گویا چوبیس کروڑ سے لے کر سا ٹھ کروڑ روپے تک ۔سینٹ کا ہر امیدوار چھ سے لے کر بیس ملین ڈالر یعنی چھتیس کروڑ روپے سے ایک ارب بیس کروڑ روپے تک صرف کر تا ہے ۔ جب کہ صدارتی انتخاب میں ہر امیدوار کی طرف سے چار سو سے لے کر چھ سو ملین ڈالر یعنی دوارب چالیس کروڑ سے لے کر تین ارب ساٹھ کروڑ روپے تک صرف ہوتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس رقم کے آمد و خرچ کا مکمل حساب رکھا جا تا ہے۔ انتخا ب کے لیے ہر فرد ایک خاص حد تک ایک امیدوار کو چندہ دے سکتا ہے ، جب کہ اداروں کے لیے بعض حالات میں حد موجود ہے اور بعض حالات میں کوئی حد نہیں ۔تمام ادارے یہ رقم علی الاعلان دیتے ہیں اور اس لیے دیتے ہیں کہ ان کا پسندیدہ امیدوار اقتدار میں آکر ان کے مفادات کا تحفظ کرے ۔
امیدواروں کا ایک بڑا وقت اپنے لیے چندہ اکٹھا کرنے میں گزرتا ہے ۔درحقیقت یہ بھی عوامی رابطے اور مختلف اداروں اور گروپوں کے مسائل اور نقطئہ نظر جاننے کا ایک ذریعہ ہو تا ہے ۔اس لیے کہ ہر بڑے چندے کے لیے کوئی پروگرام منعقد کیا جاتا ہے جس میں باہمی دلچسپی کے امور پر تقاریر اور تبادلۂ خیال ہو تا ہے ۔چندے کی اس رقم کے ایک ایک پیسے کا حساب کتاب رکھا جاتا ہے ۔اس کا باقاعدہ آڈٹ ہو تا ہے ۔اگر چہ نظری طور پر اس میں خرد برد کے بہت سے امکانات ہو سکتے ہیں، مگر عملاً اس میں خرد برد کا تصور ناپید ہے ۔ اس رقم کا ایک بڑا حصہ ٹی وی اور اخبارات کے اشتہارات کے لیے خرچ ہو تا ہے۔ اس کے علاوہ باقی اخراجات تو ہوتے ہی ہیں۔
صدر اور کانگریس کے اختیارات اور ملکی بجٹ
امریکی جمہوریت میں فیصلہ سازی کا ایک پیچیدہ نظام ہے جس کی اصل روح یہ ہے کہ کوئی بھی فرد یا ادارہ من مانی کی حد تک طاقت ور نہ ہونے پائے ۔ہر اہم معاملے کے لیے یہ لازم ہے کہ صدر ،سینٹ اور ایوان نمائندگان ، تینوں اس کی منظوری دے دیں۔اس کی سب سے نمایاں مثال بجٹ ہے ۔بجٹ مارچ میں سینٹ اور ایوان نمائندگان میں پیش ہو تا ہے ۔پھر بجٹ کے ہر اہم حصے کے متعلق دونوں ایوانوں کی علیحدہ علیحدہ کمیٹیاں بن جاتی ہے ۔تقریباً ہر سینیٹر یا کانگریس مین کسی نہ کسی کمیٹی کا رکن ہو تا ہے ۔ہر کمیٹی میں بجٹ کے ایک ایک پہلو کی بال کی کھال اتاری جاتی ہے ۔صدر کے نمائندے ہر کمیٹی میں آکر اپنا کیس پیش کرتے ہیں اور جرح کا جواب دیتے ہیں ۔عموماً یہ ہوتا ہے کہ تقریباً ہر معاملے میں تینوں اداروں میں اتفاق رائے نہیں ہو پا تا ۔چنانچہ تینوں اداروں کی کمیٹیوں پر مشتمل ایک اور کمیٹی بنتی ہے جو افہام و تفہیم اور کچھ لو اور کچھ دو کے تحت ہر معاملے میں اتفاق رائے تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے ۔عموماً بجٹ کی منظور ی کا یہ معاملہ اکتوبر تک یعنی چھ مہینے میں پا یۂ تکمیل کو پہنچتا ہے۔اگر چہ اکتوبر بھی اس کے لیے کوئی ڈیڈ لائن نہیں ہے ۔لیکن عموماً نومبر میں مختلف انتخابات ہوتے ہیں جن میں ہر سینیٹر اور کانگریس مین کو اپنا کردار ادا کرنا ہو تا ہے ۔اس لیے سب لوگ کوشش کرتے ہیں کہ اکتوبر تک کوئی فیصلہ ہو جائے ۔تاہم اگر فیصلہ نہ ہو سکے تو پرانے بجٹ کی مختص کردہ رقم کے مطابق خرچ جاری رہتا ہے ۔
تقریباً تمام معاملات میں یہی طریقہ کا ر فرما رہتا ہے ۔البتہ ایمر جنسی کے معاملات میں سینٹ اور ایوان نمائندگان ، دونوں ازخود اپنی کارروائی کی رفتار تیز تر کر دیتے ہیں ۔اس سے امریکی نظا م میں گفتگو اور مکالمے کی اہمیت کا اند ازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
کمیٹی سسٹم
دونو ں ایوانوں میں کئی کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں ۔جن میں بعض مثلاً ڈیفنس کمیٹی یا خارجہ تعلقا ت کی کمیٹی بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔ان کمیٹیوں کے اجلا س سارا سال جاری رہتے ہیں ۔گویا ہر ممبر اپنے ایوان یا کمیٹی کے اجلاسوں میں سارا سال مصروف ہو تا ہے ۔عموماً یہ اجلاس ہفتے میں چا ر دن ہوتے ہیں تاکہ ہر ممبر تین دن اپنے حلقے میں گزار سکے ۔اصل فیصلے انھی کمیٹیوں میں ہوتے ہیں ۔پھر انھیں ایوان کے فلور پر لایا جا تا ہے ۔
لابئینگ سسٹم
امریکی جمہوری نظام کا ایک دلچسپ پہلو وہاں کا لابی سسٹم ہے ۔امریکہ کے داخلی سیاسی مرکز واشنگٹن میں مختلف لابیٹس (lobbiests)کے سترہ ہزار سے زیادہ دفاتر ہیں ، گویا سترہ ہزار سے زیادہ ادارے مختلف ملکوں ،انجمنوں ،تنظیموں اور افراد کے لیے لابئینگ کر رہے ہیں۔
یہ لابئینگ سسٹم کیا ہے۔ اختصار کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ کا ہر ادارہ یہ چاہتا ہے کہ اس کی ضروریات او رحالات کے مطابق قانون سازی ہو اور اس کے مفادات کے خلاف کوئی قانون سازی نہ ہو (۔مثلاً ڈاکٹر یہ چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا قانون نہ بنے جس سے ان کے لیے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔)چونکہ ان اداروں کے پاس خود وقت نہیں ہو تا ، اس لیے یہ لوگ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کسی لابی فرم کی خدمات حاصل کر لیتے ہیں ۔یہ فرمیں قانون ساز ادارے میں پیش کردہ بلوں اور قوانین پر نظر رکھتی ہیں ، اپنے حق میں مثبت قانون سازی کرتی ہیں،کسی قانون کو ختم کرنا ہو یا کسی زیر تجویز قانون کا راستہ روکنا ہو ،یہ فرمیں مختلف سینیٹرز اور کانگریس کے اراکین سے ملاقات کرتی ہیں ، انھیں قائل کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ انھیں متعلقہ لٹریچر اور دستاویزات فراہم کرتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔
بعض اوقات یہ لابئیسٹ فرمیں ایسے ہتھ کنڈوں سے بھی کا م لیتی تھیں جنھیں کرپشن کے زمرے میں شمار کیا جاسکتا تھا۔ مثلاً یہ مخصوص ارکان کانگریس کو خوبصورت سمندری ساحلوں پر دو تین دن کے لیے لے جا کر ان کے اور ان کے اہل خاندان کے لیے قیام و طعام کا بندوبست کرتی تھیں تاکہ انھیں اپنے موقف سے ’’روشناس‘‘کرایا جا سکے ۔تاہم تقریباً دس سال پہلے اس ضمن میں کی جانے والی سخت قانون سازی نے اس طرح کے طریقوں کو ختم کر دیا ۔
تھنک ٹینک
امریکہ کے اندر ایسے کئی غیر جانب دار یا جانب دار ادارے ہیں جو مختلف اہم مسائل پر ماہرین سے تحقیقاتی رپورٹس مرتب کراتے ہیں ،ان کے آپس میں مکالمے اور بحث کا اہتمام کرتے ہیں اور پھر اپنے نتائج فکر کو میڈیا اور عوامی نمائندوں کے سامنے پیش کرتے ہیں اور تحقیقاتی رپورٹس کی صورت میں شائع بھی کراتے ہیں۔ان میں ایسے ادار ے بھی ہیں جو کسی حکومتی ادارے سے فنڈ نہیں لیتے۔بسا اوقات کسی نام ور صنعت کار یا تاجر نے اس طرح کے کسی ادارے کے لیے خطیر رقم مختص کی ہوتی ہے ،جس کے سود سے یہ ادارہ چلتا ہے ۔چونکہ یہ ادارے عموماً کسی کے زیر اثر نہیں ہوتے اور انھوں نے تجربہ کار مسلمہ ماہرین کی خدمات حاصل کی ہوتی ہیں،اس لیے ان کی آرا کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے اور عوامی نمائندے کوئی قانون نافذ کرتے یا پالیسی بناتے وقت ان تھنک ٹینکس کے نتائج فکر سے استفادہ لازم سمجھتے ہیں۔
آج دنیا میں امریکہ بلا شرکت غیر ے عظیم ترین طاقت ہے ۔دنیا کی پوری تاریخ میں کوئی ملک اتنا امیر اور اتنا طاقت ور کبھی نہیں بنا تھا جتنا آ ج امریکہ ہے ۔دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کے اندر ایک نئی مساوات نے جنم لیا ۔اس جنگ سے پہلے برطانیہ، فرانس،جرمنی اور جاپان بھی سپر طاقت کہلائے جاتے تھے ، مگر اس کے بعد ان سب کی حیثیت ثانوی ہوگئی اور اصل اہمیت امریکہ اور روس کی ہوگئی ۔امریکہ اس لیے سپر پاور بنا کہ اس جنگ میں اسے کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا تھا اور روس اس لیے سپر پاور بنا کہ اس کے پاس بہت بڑا علاقہ ،زمین اور وسائل موجود تھے ۔کاروبار حکومت چلانے کے لیے لاکھوں افراد پر مشتمل کمیونسٹ پارٹی کے جاں بازوں اور مخلص ترین افراد کی ٹیم اور نظریۂ حیات کے طور پر ایک توانا ،پر عزم اور کروڑوں لوگوںکے دلوں کو گرمانے اور متحد رکھنے والانظریہ موجود تھا ۔یہ دونوں ممالک ایک دوسرے سے بالکل متضاد معاشی نظریے کے حامل ملک تھے ، اس لیے دونوں کے درمیان آویزش قدرتی تھی ۔تاہم اس آویز ش کو جس چیز نے مہمیز دی وہ روس کی توسیع پسندانہ پالیسی تھی جس کے مطابق اس کی نظریاتی ذمہ داری تھی کہ وہ اس انقلاب کو پوری دنیا میں برپا کرے اور اس کا قائد بنے۔ اس پالیسی نے امریکہ کو یہ جواز فراہم کیا کہ چونکہ روس کے ان ارادوں کی وجہ سے پوری آزاد دنیا کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ امریکہ اسے لگام دے اور اس کی بین الاقوامی خواہشات کے مقابلے میں رکاوٹ بنے ۔چنانچہ اگلے چالیس برس یہ مقابلہ جاری رہا جس میں فیصلہ کن فتح امریکہ کواس وقت حاصل ہو ئی جب کمیونسٹ سوویت یونین کے حصے بخرے ہو گئے ۔اس معرکے میں امریکہ کیوں جیتا اور سوویت یونین کیوں ہارا ۔اس کی نظری وجوہات ہم بالواسطہ بیان کریں گے۔یہ موضوع بذات خود ایک مفصل تحریر کا متقاضی ہے ۔اس لیے اس تحریر میں ہم اس کی عملی تفصیلات سے صرف نظر کر لیتے ہیں ۔
سپر پاورز کی نفسیات
دنیا کی پوری تاریخ میں سپرپاورز کی ہمیشہ سے ایک ہی نفسیات رہی ہے ۔اس کو ایک فقرے میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ ایک سپر پاور یہ چاہتی ہے کہ وہ مستقلاً ایک سپر پاور کے طور پر قائم رہے اور اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے وہ سب کچھ کرنے پر آمادہ رہتی ہے ۔
اس دنیا میں ہر فرد اور ہر قوم جدوجہد میں لگی ہوئی ہے ۔یہ جدوجہد نہ صرف زندہ رہنے کے لیے ہے ، بلکہ ایک برتر حیثیت میں زندہ رہنے کے لیے ہے ۔یہاں صرف وہی افراد ،نسلیں اور قومیں کامیاب ہوتی ہیں جو دوسروں سے بڑھ کر جدوجہد کریں۔ چنانچہ اس جدوجہد میں اگر کوئی قوم سب سے بر تر مقام تک پہنچے تو یہ امر با لکل قدرتی ہے کہ وہ اس پوزیشن کو بر قرار رکھنے کی کوشش کرے۔اس کوشش میں اگر اس سے کوئی کوتاہی ہو جائے تو اس کا نقصان خود اسی کو پہنچے گا ۔چنانچہ اس قوم کے لیے ہر وہ فعل بالکل ٹھیک ،صحیح ،جائز اور مطلو ب ہے جس سے وہ اس مقام پر فائز رہے ۔
سپر پاور برقرار رہنے اور اس سے محروم ہونے کے عوامل
دنیا کی تاریخ عروج و زوال کی داستانوں سے بھری پڑی ہے ۔ماضی کی سپر پاور زکا آج کہیں نام و نشان بھی نہیں ہے۔ایسا بھی ہو تا ہے کہ ماضی کی سپر پاور آج بھی زندہ ہوتی ہے ، لیکن نسبتاً کم تر حالت میں ۔ایسا کن عوامل کی بنا پر ہو تا ہے کہ ایک سپر پاور آہستہ آہستہ یا یک دم اپنی حیثیت کھو بیٹھتی ہے اور اسے دوسروں کے لیے جگہ خالی کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے ؟اس کے اصلاً چار عوامل ہیں:
۱۔ اجتماعی اخلاقیات
چند ایسی بنیا دی اجتماعی صفات ہیں جن کی ایک قوم میں موجودگی اس قو م کے اندرونی اتحاد اوراس کی بقاو نمو کی ضامن ہوتی ہیں ۔یہ صفات جتنی اعلیٰ ترین شکل میں ہوتی ہیں ،وہ قوم عالمی برادری میں اتنے ہی اونچے مقام و مرتبے کی حامل ہوتی ہے اور اگر وہ سپر پاور ہو تو وہ اپنے اس مقام پر فائز رہتی ہے ۔ان میں پہلی صفت اپنے ملک ، مذہب یا نظریے سے محبت ،اپنے معاشرے کے ساتھ یک جہتی ویکتا ئی کا احساس اور ایک قومی احساس تفاخر اور بہادری ہے۔ دوسری صفت مساوات انسانی اور جمہوری کلچر ہے جس کی وجہ سے ہر انسان اپنے آپ کو پوری قوم سے جڑا ہوا محسو س کرتا ہے اور اسے خود اعتمادی حاصل ہوتی ہے ۔او ر پوری قوم کے اندر جوش و جذبہ ہر وقت زندہ ہو تا ہے۔ تیسری صفت امانت ودیانت ہے ۔چوتھی صفت انصاف ہے۔ پانچویں صفت میرٹ ہے یعنی یہ کہ ہرفرد کو قابلیت و صلاحیت کی بنیاد پر جانچا جائے ، رشوت و سفارش کم سے کم ہو اور سب کے لیے ترقی کے یکساں مواقع ہو ں ۔چھٹی صفت محنت ہے یعنی یہ کہ سوسائٹی میں محنت کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے ۔ساتویں صفت ملکی قانون کی پابندی ہے یعنی یہ کہ کوئی بھی اپنے آپ کو قانون سے بالاتر نہ سمجھے ۔آٹھویں صفت محروم اورکمزورطبقات کی خدمت کا توانا جذبہ ہے ۔ نویں صفت تدبر ، حکمت و دانش اور سوسائٹی میں مکالمے کا دور دورہ ہے ۔اور دسویں صفت قوم میں بلحاظ مجموعی صبر و استقامت کے جذبے کی موجودگی ہے ۔
یہ سب خوبیاں باہم دگر مربوط ہیںیعنی ایک کی کمی سے خود دوسر ی میں بھی انحطاط کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ا ن صفات میں بھی سب سے اہم جمہوری کلچر ہے جس کے فقدان سے قومی محبت ،انصاف،میرٹ اور کئی مزید پہلووں میں بھی کمزوری اور زوال آنا شروع ہو جاتا ہے ۔پرانے زمانے کے بادشاہوں کا زوال بھی جمہوریت کے فقدان کی وجہ سے ہو تا تھا۔ وہ یوں کہ سوسائٹی کے اندر ابتدا میں ایک خاص وقت تک تو نئے نئے علاقوں پر فتح کے نتیجے میں ملنے والی دولت کی وجہ سے جوش و جذبہ موجود رہتا تھا ۔مگر جمہوری کلچر کے فقدان کی وجہ سے ایک طرف حکمرانوں کا احتساب ممکن نہیں ہو تا تھا ، موروثی نظام کی وجہ سے انھیں اقتدار سے بے دخلی کا ڈر نہیں رہتا تھا جس کی وجہ سے وہ زندگی کی لذتوں ، آسانیوں اور رنگینیوں کی کشش میں مبتلا ہو جاتے تھے ، دوسری طرف عوام کی امور مملکت سے لا تعلقی کے نتیجے میں ان کی اپنے ملک سے محبت ، جذبۂ قربانی اور ملکی قانون کی پابندی میں کمی آنے لگتی تھی۔ نتیجہ کسی اور طاقت کے غلبے یا ظہور کی شکل میں نمودار ہوتا تھا ۔
زمانۂ قریب میں کمیونسٹ روس کا خاتمہ بھی جمہوریت کے فقدان سے ہوا ۔شروع میں کمیونزم کے نظریاتی جذبے اور کشش کی وجہ سے ملک ترقی کرتا رہا ۔مگر بعد میں جب کمیونسٹ پارٹی کی ایک اعلیٰ ترین کلاس کے ہاتھ میں سارا اختیار مرتکز ہو گیا ،احتساب ختم ہو گیا ،میرٹ کی جگہ رشوت نے لے لی ،بالا دست طبقے سے امانت و دیانت ختم ہو کر رہ گئی تو عوام نے محنت چھوڑ دی ۔ ان کی اپنے ملک سے محبت نہ ہو نے کے برابر رہ گئی ۔سوسائٹی پوری طرح کرپٹ ہو کر رہ گئی ۔نتیجتاً وہ اندر سے اتنی کھوکھلی ہو گئی کہ وہ افغانستان کے چھوٹے سے دھچکے سے بھی سنبھل نہ سکی ۔اگر اس وقت افغانستان کے مسئلے کے بجائے کوئی بھی اور مسئلہ سوویت یونین کے لیے پیدا ہو جا تا تو یہی نتیجہ برآمد ہو نا تھا۔ اگر افغانستان میں روسی مداخلت کا موازنہ ویت نام میں امریکی مداخلت سے کیا جائے تو ویت نام میں امریکی جانی و مالی نقصان روس کے افغانستان میں نقصان سے کئی گنا زیادہ تھا ۔اس کے باوجود امریکہ پر ویت نام کی لڑائی کا کوئی بڑا اثر مرتب نہیں ہوا ۔
جمہوریت کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اگر کوئی جمہوری ملک کچھ اور عوامل کے نتیجے میں سپر پاور کے درجے سے گر جا ئے ،تب بھی وہ مکمل طور پر زوال آشنا نہیں ہو جاتا ، بلکہ وہ اپنے آپ کو سنبھال لیتا ہے ۔مثلاً دوسری جنگ عظیم میں جرمنی، جاپان اور اٹلی ایک عظیم نقصان اور شکست سے دوچار ہو گئے ۔دوسری طرف بر طانیہ اور فرانس کا نقصان بھی کچھ کم نہ تھا ۔لیکن یہ تمام آج بھی بہت بڑی طاقتیں ہیں۔ان میں سے ہر ایک ملک کی علیحدہ علیحدہ مجموعی قومی پیداو ار تمام عالم اسلام کی مجموعی پیداوار سے زیادہ ہے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی
سپر پاور بننے اور برقرا ر رہنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی پر اعلیٰ ترین دسترس حاصل کی جائے اور اس معیار کو نمو و ترقی کے ذریعے سے برقرار رکھا جائے ۔یہ ترقی صنعتی ،زرعی ،طبعی ،دفاعی ،جنگی غرض یہ کہ ہر میدان میں ہونی چاہیے۔ گویا جدید ترین علم کا مسلسل حصو ل اور اس کا استعمال واطلاق ایک سپر پاور کے لیے زندگی اور موت کا سوال ہے ۔ظاہر ہے کہ اس غرض کے لیے تعلیم،ریسرچ ،دریافت اور اس سے متعلقہ تمام پہلووں کی طر ف آخری درجے میں بھر پور توجہ ضروری ہے ۔چنانچہ سپر پاورز یہ سب کام کرتی ہیں اور یہ ان کے لیے اہم ترین شعبوں میں سے ایک ہوتا ہے۔
ٹیکنالوجی کی برتری کی وجہ سے انگریزوں ،فرانسیسیوں ،پرتگیزوں اور ولندیزوں نے سترہویں اور اٹھارو یں صدی میں مسلم دنیا سمیت افریقہ اور ایشیا کے بہت بڑے علاقوں پر قبضہ جما لیا جو انیسویں صدی کے نصف تک جاری رہا۔اسی فرق کی وجہ سے ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ شکست کھا گئے ۔بہتر ٹیکنالوجی اور تنظیم ہی کی وجہ سے سید احمد شہید کے مقابلے میں سکھ غالب رہے اور ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں حریت پسندوں کے مقابلے میں انگریز کامیاب رہے ۔
ٹیکنالوجی ہی کی مدد سے امریکہ نے روس کو افغانستان میں ۱۹۸۵ء میں شکست دی جب اسٹنگر میزائلوں نے روسی ہیلی کاپٹروں پر ۹۰ فی صد ٹھیک ٹھیک نشانے لگا کر ان کی فضائی برتری ختم کر دی ۔اسی وجہ سے برطانیہ نے ارجنٹائن کے بالکل پاس جا کرفاک لینڈ کی جنگ میں اسے شکست سے دوچار کیا ۔یہ ٹیکنالوجی ہی کا کرشمہ تھا کہ امریکہ نے اپنے کسی خاص جانی نقصان کے بغیر طالبان کو شکست سے دوچار کیا ۔
یہاں ایک سوال کا جواب مناسب معلوم ہو تا ہے ۔وہ یہ کہ مسلمانوں کے دور زوال کی تاریخ غداروں سے کیوں بھری ہے؟ کہا جاتا ہے کہ میر جعفر کی غداری سے سراج الدولہ اور میر صادق کی غداری سے ٹیپو سلطان شکست کھا گئے۔ ۱۸۵۷ء کی شکست بھی اپنوں کی غداری ہی کا نتیجہ تھی اور سید احمد بھی چند خو انین کی غداری کی وجہ سے بالاکوٹ کے میدان میں شہید ہو گئے۔ یہ دراصل سطحی تاریخی اور عمرانی مطالعے کا نتیجہ ہے ۔دراصل غدار ہمیشہ ا س جگہ جنم لیتے ہیں جب ایک طرف کی فوج ٹیکنالوجی اور معروضی حالات کی و جہ سے واضح بر تر پوزیشن میں ہو اور دوسری طرف کے کچھ ذمہ دار لوگوں کی اپنے تجزیے کی وجہ سے شکست سامنے نظر آرہی ہو تو وہ اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کو محفوظ کرنے کے لیے دشمن سے اپنا معاملہ طے کر لیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان تما م لڑائیوں میں انگریزوں کے ہاں کسی غدار نے جنم نہیں لیا ۔اس قابل شرم مخلوق نے ہمیشہ ہماری طرف ہی سے جنم لیا ہے ۔
گویا جو بھی طاقت اپنے آپ کو برتری کے مقام پر فائز دیکھنا چاہتی ہو ، اس کے لیے لازم ہے کہ وہ سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہو ۔
قدرتی عوامل اور ارتقائے زمانہ
کئی قدرتی عوامل اور زمانے کی ترقی بھی مختلف طاقتوں کی برتری وکمزوری میں اپنا کردار ادا کرتی ہے ۔جس ملک کی آبادی زیادہ ہو ،رقبہ بڑا ہو اور وہ قدرتی وسائل پر دسترس رکھتا ہو ،اتنا ہی اس کے سپر پاور بننے کا امکان زیادہ ہو جاتا ہے اور اگر وہ اس مقام پر نہ رہے تب بھی وہ کامل زوال اور فنا سے بچ جا تا ہے ۔اسی طرح زمانے کی ترقی سے ایسے نئے عوامل پیدا ہوتے ہیں جن سے معروضی حالات میں جوہری فرق رونما ہو جا تا ہے ۔مثلاً چین کے ایک بڑی طاقت بننے میں اس کی آبادی اور رقبے کا بڑا دخل ہے ۔امریکہ کا معاملہ بھی ایسا ہے ۔اسی طرح سویت یونین دنیا کے نقشے سے مٹ گیا ، مگر روس پھر ایک بڑی طاقت کے طورپر ابھر رہا ہے اور ممکن ہے کہ اگلے پانچ دس سال میں اس کی عظمت رفتہ کسی حد تک پھر بحال ہو جائے ۔
اسی طرح جب جمہوریت دنیا کے اندر ایک مسلمہ قدر بن گئی تو مغربی ممالک کے اند ر یہ عوامی شعور ابھر ا کہ دوسری قوموں کو غلام بنانا غلط ہے ۔دوسری طرف ان غلام قومو ں کے اندر بھی یہ احسا س پیدا ہوا کہ اگر جمہوریت مغرب کے لیے اچھی ہے تو وہ ہمارے لیے کیوں بری ہے ۔ اس کے نتیجے میں یہ ممالک آزاد ہو گئے ۔
مغرب کے اندر یہ اقدار اب مسلمہ حیثیت اختیار کر گئی ہیں۔ اب وہاں کی حکومتیں دوسرے ممالک سے معاملات کرتے وقت بظاہر ان کی خلاف ورزی نہیں کرتیں ، اس لیے کہ ان کو اپنے ہاں کے عوامی رد عمل کا ڈر ہوتا ہے ۔گویا اگر کوئی عام ملک مغربی ممالک کی دست برد سے محفوظ رہنا چاہے تو خود انھی کی اقدار سے فائدہ اٹھاکر ایسا کر سکتا ہے ۔اب یہ بھی مغرب کی مجبوری بن گئی ہے کہ کسی بھی دشمن پر حملے سے پہلے اس کے لیے اپنی رائے عامہ کو مطمئن کرنا ، بلکہ بسااوقات دنیا کے ایک بڑے حصے کو مطمئن کرنا ، بلکہ عملاً اپنے ساتھ ملانا لازم بن جا تا ہے ۔
اب کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کی ایجاد نے ترقی پزیر دنیا کے سامنے ٹیکنالوجی کے حصول کے آسان ترین راستے کھول دیے ہیں۔اب سائنس اور ٹیکنالوجی پر کسی کی اجارہ داری نہیں رہی ۔ہر ملک عزم صمیم اورپیہم محنت کے ذریعے سے کم سے کم وقت میں سائنس کی اعلیٰ ترین ر فعتوں کو پا سکتا ہے ۔گویا ٹیکنالوجی کے حصول میں وقت کا فرق (time gap) ختم ہو گیا ہے اور غیر ترقی یا فتہ ممالک بہت کم عرصے میں مغرب کے برابر ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کر کے اس خلیج کو پاٹ سکتے ہیں ۔
ایسے ہی عوامل کی وجہ سے قدرت کمزور قوموں کو زندہ رہنے اور آگے بڑھنے اور مضبوط ملکوں کو مضبوط تر بننے کے مواقع دیتی رہتی ہے ۔اب کوئی تو ان مواقع سے فائدہ اٹھا لیتا ہے اور کوئی اپنے آپ کو محروم رکھ لیتا ہے ۔
صحیح حکمت عملی
سپر پاور بننے ،رہنے اور اپنے آپ کو حال اور مستقبل کی مشکلات سے بچانے کی خاطر عالمی حالات کا صحیح تجزیہ اور اس کے مطابق عمل کر نا بھی حد درجہ ضرور ی ہے ۔یہ حکمت عملی زمانۂ امن اور زمانۂ جنگ ، دونوں میں ہوتی ہے ۔اس مقصد کے لیے جاسوسی کا ایک وسیع نیٹ ورک تشکیل دیا جا تا ہے ۔مخالف قوت کے خلاف چالیں چلی جاتی ہیں اور اس کی چالوں کو نا کام بنایا جا تا ہے ۔یہاں اس ضمن میں اصل اہمیت کسی اخلاقی اصول کی نہیں ، بلکہ اپنے ملک کی کامیابی کی ہوتی ہے ۔مثلاً اپنے ملک میں رشوت دینے کا تصور بھی نہیں کیا جاتا ، مگر باہر کے مخالفین کو خریدنے کے لیے رقم کا استعمال بے تکلف کر لیا جاتا ہے ۔گویا سپر پاور کے لیے دوسرے ملکوں سے تعلق رکھنے کے ضمن میں سب سے بڑا اصول دراصل ہر اس ممکن طریق عمل سے کام لینا ہے جس سے وہ سپر پاور کے منصب پر سرفراز رہے یا اگر مجبوری آڑے آجائے تو وہ ایک خاص سطح سے گرنے نہ پائے۔ جمہوری ممالک میں تمام غیر سرکاری ادارے بھی ہر اہم اور بحرانی موقع پر اپنے ملک کی بھر پور مدد کرتے ہیں ۔مثلاًسرد جنگ کے زمانے میں سارا مغربی میڈیا کمیونزم کے خلاف پروپیگنڈے میں اپنی حکومتوں کا ہم نوا تھا ۔افغانستان میں روسی فوجی مداخلت کے بعد آزادمغربی میڈیا پاکستان کے فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کے لیے پوری طرح رطب اللسان تھا اور انھیں اس ملک میں جمہوریت کی یاد قطعاً نہ ستائی ۔ نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکی ٹی وی اور پریس میں کوئی مخالفانہ رائے دینا نا ممکن حد تک مشکل تھا۔ گویا جس ’’قومی مفاد ‘‘پر ’’ا جماع‘‘ ہو جائے ، وہاں قومی مفاد ہی اعلیٰ ترین اصول بن جاتاہے ۔
ہر جنگ اور ہر معرکے میں اسی ملک کو کامیابی ملی ہے جس نے بہتر حکمت عملی کا مظاہر ہ کیا ۔اگر جرمنی جذباتیت سے کام لے کر پہلی اور دوسری جنگ عظیم نہ چھیڑتا تو آج وہ سپر پاور ہو تا ۔یہی صورت حال جاپان کی ہے ۔دوسری جنگ عظیم کے بعد جب برطانیہ نے دیکھا کہ اس کی آبادی تھوڑی ہے او ر اب اس کے لیے اپنی نو آباد یات کو قابو میں رکھنا ممکن نہیں ہے تو اس نے آہستہ آہستہ تمام غلام ملکوں کو آزادکرکے اپنی قوت محفوظ کرلی ۔ہمارے ہاں بعض کم فہم سیاسی نعرے بازی کے طور پر کہتے ہیں کہ برطانیہ عظمیٰ پر پہلے سورج غروب نہیں ہوتا تھا ، اب اس پر سورج طلوع بھی نہیں ہو تا ۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سورج نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا سے طلوع ہو تا ہے جو سلطنت برطانیہ ہی کی ایک توسیع ہے اور پھر وہ بحر ہند کے انگریزی عمل داری والے مختلف جزیروں سے ہوتا ہوا جنوبی افریقہ جا پہنچتا ہے ۔یہاں سورج یورپ سے ہوتا ہوا امریکہ جا پہنچتا ہے جو برطانیہ ہی کی اولاد ہے اور وہاں سے ہوتا ہوا وہ بحر الکاہل کے ان جزیروں پر جا چمکتا ہے جہاں امریکی پرچم لہراتا ہے ۔
چین نے بھی خارجہ حکمت عملی کے میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے ۔تائیوان اسی کا جزوہے جو امریکی پشت پناہی سے آزاد ملک کی حیثیت سے زندہ ہے ، مگر چین نے آج تک اس کے خلاف کوئی فوجی کارروائی نہیں کی، اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ اس سے وہ مشکلات میں پھنس جائے گا ۔اسی طرح ایک لمبے عرصے سے اس نے یہ پالیسی بنائی ہے کہ وہ کسی بین الاقوامی معاملے میں براہ راست مداخلت نہیں کرے گا ۔چنانچہ ۱۹۷۱ء کی جنگ میں اس نے پاکستان کی کوئی فوجی مدد نہیں کی ، حالا نکہ اس کی عملی مداخلت کی صر ف دھمکی ہی بنگلہ دیش بننے میں بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتی تھی ۔ اسی طرح ۱۹۸۴ء میں سیاچین پر بھارتی قبضے کے وقت بھی اس نے کوئی سرگرمی نہیں دکھائی۔ ۱۹۹۹ء میں پاکستان نے کارگل کے محاذ پر جو لڑائی شروع کی ،اس پربھی چین نے ناراضی کا اظہار کیا اور پاکستان کی عملی مدد سے انکار کیا ۔دراصل چین کی حکمت عملی یہ ہے کہ ایک بھر پور عالمی طاقت بننے تک وہ امریکہ سے کسی بھی طرح بگاڑ پیدا نہ کرے تا کہ امریکہ کو اس کے خلاف کارروائی کا کوئی جواز نہ مل سکے ۔
اسی طرح جب چین نے دیکھا کہ کمیونزم اس کی معاشی ترقی میں رکاوٹ بن رہا ہے تو اس نے بہت عرصہ پہلے بڑے شہروں میں سرمایہ دارانہ نظام کو پھلنے پھولنے کی آزادی دی ۔اسی لیے جب روس اور باقی کمیونسٹ دنیا میں بغاوت کی لہر پورے زوروں پر تھی ،چین اس سے نسبتاًمحفوظ تھا ۔کمیو نسٹ پارٹی نے اقتدار پر سے تو اپنی گرفت کمزور نہیں کی ، لیکن عوام کو مزید معاشی آزادی دے کر اس نے اپنے ہاں بغاوت پر قابو پا لیا ۔اور اب نومبر ۲۰۰۲ میں بوڑھی قیادت نے نئی قیادت کے لیے جگہ چھوڑ کر ایک بڑا کارنامہ سر انجام دے دیا ہے ۔
سپر پاور زدنیا میں اپنی سودے بازی کی قوت برقرار رکھنے کی خاطر اپنے سخت ترین مخالف ملکوں کو بھی قرضے اور امداد دیتی ہیں ۔مثلاً امریکہ غیر ترقی یافتہ دنیا کے تمام ممالک کو امداد دیتا ہے جس میں اس کے بد ترین مخالف بھی شامل ہیں۔اس سے امریکہ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ رابطے کا دروازہ کھلا رہے اور مناسب موقع پر اسے استعمال کیا جائے ۔سپر پاور ز اپنی غلطیوں سے بھی بہت کچھ سیکھتی ہیں ۔اپنی پوری تاریخ میں امریکہ سے ایک ہی بڑی غلطی ہوئی ہے اور وہ ہے ویت نام میں فوجی مداخلت۔ اس کے مقابلے میں امریکہ نے بہت سی کامیابیاں حاصل کی ہیں، تاہم امریکہ میں ان کامیابیوں کو بہت کم یاد رکھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس واشنگٹن کی اہم ترین یادگاروں میں سے ایک ویت نام جنگ کی یاد گار ہے ۔اس عجیب و غریب یادگار ، جس پر ان تمام اڑ سٹھ ہزار ہلاک شد گان کے نام بمعہ کمپنی ورجمنٹ کندہ ہیں جو اس جنگ میں کام آئے ، روزانہ سیکڑوں افراد آتے ہیں اور میموریل ڈے پر تو وہاں ہزاروں افراد کے میلے کا سماں رہتا ہے ۔یہ عام انسانی نفسیا ت ہے کہ لوگ اپنی ناکامیا ں فراموش کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جیسے ہم نے بحیثیت قوم سقوط مشرقی پاکستان کی یاد کبھی نہیں منائی اور چھ ستمبر کی چھٹی ہمیشہ کرتے ہیں ۔اسی طرح پچھلے ایک برس کے دوران میں طالبان کی حامی قوتوں نے طا لبان کی شکست کا کوئی سنجید ہ تجزیہ نہیں کیا ، بلکہ ان کی تقریروں سے طالبان کا نام ہی غائب ہو گیا ہے ۔لیکن زندہ قومیں اپنی کامیابیو ں کے بجائے ناکامیوں کو ایک زندہ واقعے کے طور پر یاد رکھتی ہیں اور ہر ہر حوالے اور پہلو سے ان کا تجزیہ کیا جاتا ہے ۔تاکہ آیندہ ا س کے اعادے سے بچا جا سکے ۔
یہ بات واضح ہے کہ سپر پاورز خارجہ تعلقات اور اقدامات کے ضمن میں خفیہ اور کبھی کبھار علانیہ طور پر دہرے معیار سے کام لیتی ہیں، تاہم وہ بظاہراور بعض اوقات مجبوراًبین الاقوامی معاہدوںکا احترام کرتی ہیں ۔جمہوری ممالک کے خلاف قدم اٹھانا ان کے لیے ناممکن حد تک مشکل ہو تا ہے اور اب اپنی رائے عامہ کو مطمئن کرنا ،اپنے اقداما ت انسانی امن اور انسانیت کے مفاد کے لیے ثابت کرنا اور اقوام عالم کی اکثریت کو کسی بھی طریقے سے مطمئن کرنا ،ان کے لیے کسی بھی بڑی مہم سے پہلے لازم بن گیا ہے ۔یہ سب کچھ حکمت عملی کے ایک حصے کے طور پر کیا جاتا ہے ۔
امریکہ بحیثیت سپر پاور برقرار رہنے کے تقاضے
درجہ بالا بحث سے یہ حقیقت ظاہر ہے کہ امریکہ سپر پاور برقرار رہنے کے تمام تقاضے بدرجۂ اتم پورا کرتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ اس نے تمام بین الاقوامی تنازعات میں سر گرم شمولیت اور وابستگی سے اپنے آپ کو اقوام عالم کے لیے ناگزیر بنا دیا ہے ۔اس نے اپنے لیے ضروری خام مال کی فراہمی کا سامان بھی کر لیا ہے ۔تیل پیدا کر نے والے تمام ممالک اس کے اشارئہ ابرو کے محتاج ہیں۔اس کے اپنے تیل کے ذخیرے محفوظ ہیں اور اگلے پندرہ بیس برس کے اندر ایسی ٹیکنالوجی بالکل عام ہو جائے گی جب تیل کی ضرورت ہی نہ رہے گی ۔گویا اگلی ربع صدی سے لے کے تیس چالیس برس کے اندر تیل پیدا کرنے والے ممالک کا موجودہ سنہرا دور ختم ہو جائے گا ۔
کیا امریکہ سپر پاور کے مرتبے سے گر سکتا ہے
اگر امریکہ کے اندر اجتماعی اخلاقیات میں کمزوری آجائے ، جمہوری اقدار ماند پڑ جائیں ،انصاف کی حکمرانی نہ رہے، سائنس اور ٹیکنالوجی میں کوئی دوسرا ملک اس سے آگے بڑھ جائے ، اگر اس سے بین الاقوامی تنازعات میں کوئی غلطی سرزد ہوجائے اور اگر وہ یہ بھول جائے کہ اسے سپر پاور برقرار رہنے کے لیے ہر وقت بہترین حکمت عملی پر کاربند رہنا ہے تو یقینا وہ اس مقا م کا مستحق نہیں رہے گا ۔
[باقی]
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ