اس بحث میں مختصراََہم یہ بتائیں گے کہ معاشرے کی اجتماعی زندگی کے اجزاے ترکیبی کون سے ہوتے ہیں اور وہ کس طرح وجود پزیر ہوتے ہیں۔ نیز قومی زندگی میں ان کی اہمیت و مقام کیا ہے اور قوم کے عروج و زوال میں وہ کس طرح اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
قومیں افراد کے مجموعے سے تشکیل پاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ افراد کو متنوع صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کرتا ہے۔پھر عملی زندگی میں ان کے سامنے مواقع بھی مختلف آتے ہیں۔فرد کے اعتبار سے اس طریقۂ کار کا مقصد آزمایش ہے ، مگر اجتماعی طور پر اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یکساں صلاحیتوں اور مواقع ملنے والے افراد ایک گروہ بنتے چلے جاتے ہیں۔ مثلاً کچھ لوگوں کو قیادت کی غیر معمولی صلاحیتیں اور مواقع ملے ہوتے ہیں۔ چنانچہ سوسائٹی کی فکری اور عملی قیادت انھی لوگوں میں سے آتی ہے۔کچھ لوگوں کو مال و اقتدار کے حصول کے غیر معمولی مواقع نصیب ہوتے ہیں۔ یہ لوگ قوم کی اشرافیہ (Elite)کی تشکیل کرتے ہیں۔کچھ لوگوں کو علوم و فنون کی طرف غیر معمولی رغبت ہوتی ہے۔ انھیں اپنے ذوق کی تسکین کے مواقع بھی میسر ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ یہ لوگ علم و فن کی دنیا آباد کرتے ہیں ۔کسی معاشرے کے افکار و رجحات، عقائد و عبادات ،خیالات و نظریات، رسوم ورواج، طرزِ معاشرت ، غرض یہ کہ وہ تمام بنیادیں جو کسی سوسائٹی کا رخ متعین کرتی ہیں، ان لوگوں کے اثرات ہی سے پیدا ہوتی ہیں۔
تاہم سوسائٹی کی اکثریت وہ ہوتی ہے جن کا تعلق ان میں سے کسی گروہ سے نہیں ہوتا۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنھیں خدا نے غیر معمولی صلاحیتوں سے نہیں نوازا ہوتا ہے، یا وہ لوگ جنھیں زندگی میں مواقع نہیں ملے ہوتے، یا وہ لوگ جنھیں مواقع اور صلاحیت میں سے کوئی چیز نصیب نہیں ہوتی۔ چنانچہ ان لوگوں سے مل کر عوام الناس کا گروہ وجود میں آتا ہے۔ اور پھر مواقع اور صلاحیتوں میں فرق کے اعتبار سے خود ان لوگوں کے مختلف درجات بنتے چلے جاتے ہیں۔ تاہم مجموعی طور پر ان کی شناخت یہ ہوتی ہے کہ یہ لوگ قوم کی رہنمائی نہیں کرتے، بلکہ مذکورہ بالا گروہ کی متعین کردہ راہوں پر چلتے چلے جاتے ہیں۔
اسی طرح کسی قوم کی زندگی کے ابتدائی مراحل میں اس کے افراد قومی عصبیت کے اس جذبہ سے سرشار ہوتے ہیں جو قوم کی تشکیل کا باعث ہوتی ہے۔ایسے میں ہر فرد قوم کا قائم مقام ہوتا ہے اوراپنی ذات کی نفی کی قیمت پر قومی تعمیر کے عمل میں حصہ لیتا ہے۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ عصبیت کا یہ جذبہ مدہم پڑتا جاتا ہے اور اس کا اظہار صرف غیر معمولی مواقع پر ہی ہوتاہے۔ چنانچہ جیسے جیسے قوم تہذیبی ارتقا کا سفر طے کرتی ہے، ضروری ہوتا چلا جاتا ہے کہ معاشرے کے نظام کو چلانے اور اس کے استحکام کے لیے ادارے وجود میں لائے جائیں۔ چنانچہ زمانۂ قدیم میں جب کسی قوم کی بقا و استحکام کا سب سے بنیادی ذریعہ فوج ہوا کرتی تھی تو ابتدائی دور کے گزرنے کے بعد سب سے پہلے فوج کو باقاعدہ ادارے کی شکل میں منظم کیا جاتا تھا اور اسی کے سہارے ملک کو اندرونی و بیرونی خلفشار سے محفوظ رکھا جاتا تھا۔مختلف معاشروں کے حالات کے اعتبار سے اسی دوران میں سیاسی اورمذہبی قوتیں بھی اداروں کی شکل میں ڈھل جاتی ہیں۔تمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ دیگر ادارے بھی وجود میں آنے لگے اور آج حال یہ ہوچکا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں معاشرے کا بڑا حصہ اب غیر فوجی اور غیر سیاسی اداروں کی بنیادوں پر کھڑا ہوتا ہے۔
جب ہم ایک قوم کی بات کرتے ہیں تو مندرجہ بالا تمام عناصر اس میں شامل ہوتے ہیں۔ ان کی قوت قوم کی قوت ہوتی ہے اور ان کی کمزوری قوم کی کمزوری بن جاتی ہے۔ معاشرے کی فلاح و بہبود اور ترقی و استحکام میں تمام عناصر کا اپنا اپنا کردار ہوتا ہے۔جب تک وہ یہ کردار بھرپور طریقے سے ادا کرتے ہیں ، اس وقت تک قوم بام عروج کی سیڑھیاں چڑھتی رہتی ہے اور جب یہ عناصر اپنے مطلوبہ کردار کو ادا کرنے سے قاصر ہوجا تے ہیں تو قومی زندگی کی گاڑی شاہراہِ ترقی سے اتر جاتی ہے اور زوال کی کھائی میں جاگرتی ہے۔
ذیل میں ہم ان میں سے ایک ایک گروہ کو لے کر قوم کے عروج و زوال میں اس کے کردار اور اہمیت کو تاریخ کی روشنی میں واضح کریں گے۔
کسی قوم کے عروج و زوال کا بہت حد تک انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اسے اچھے قائدین میسر ہیں یا نہیں۔قومی جسد میں قائدین کی حیثیت دماغ کی سی ہوتی ہے۔انسانی جسم میں دماغ پورے جسم کو کنٹرول کرتا ہے اور ہر طرح کے حالات میں جسم کے عمل یا ردعمل کا تعین کرتا ہے۔ اسی طرح قائدین قومی زندگی کے ہر مرحلے پر قوم کے اندر اور باہر سے اٹھنے والے ہر چیلنج کے جواب میں قوم کا ردعمل متعین کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عام حالات میں وہ قومی زندگی کی گاڑی کو رواں دواں رکھتے ہیں۔ قیادت کی بحث سمجھنے کے لیے ہم اس کی تین نمایاں اقسام پر بحث کرتے ہیں: فکری قیادت، مذہبی قیادت اور سیاسی قیادت۔
ا۔ فکری قیادت
انسان اصلاً ایک فکری مخلوق ہے۔ وہ اس دنیا میں جو کچھ بھی افعال سر انجام دیتا ہے ، ان کی کوئی نہ کوئی فکری بنیاد ہوتی ہے۔اعمال کے ترک و اختیارکا معاملہ ہو یا اشیا کے رد و قبول کا ، اس کی اساس اس کے ذہن میں ہوتی ہے۔وہ تمام اقدار، اصول، تصورات، نظریات، خیالات اور عقائد جن کے گرد وہ اپنی عملی زندگی کا تانا بانا بنتا ہے ، ان کا تعلق فکر کی دنیا ہی سے ہوتا ہے۔ یہ بات اگر واضح ہے تو پھر اس حقیقت کو سمجھنے میں بھی کوئی مشکل نہیں ہونی چاہیے کہ وہ لوگ جو انسانی اذہان و افکار کی تشکیل کرتے ہیں ، وہی لوگ سب سے زیادہ کسی معاشرہ اور قوم کی زندگیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ایک قوم کی زندگی میں آنے والے ہر اہم موڑ میں ان لوگوں کی فکری رہنمائی کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ ہم اپنی بات کو کچھ مثالوں سے واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انیسویں صدی میں کارل مارکس نے سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیوں کے خلاف ایک فکری محاذ قائم کیا۔ اس نے سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت کی ہر خرابی سے پاک ایک تصوراتی دنیا کا نقشہ پیش کیا ۔ اس طرح صنعتی انقلاب کے دھارے میں بہتے ہوئے معاشروں کے سامنے ایک نئی فکر آئی۔ اس کے نظریات نے ایک دنیا کو متاثر کیا۔ وہ خود تو اپنی زندگی میں اپنے نظریات کو عملی شکل میں نہ دیکھ سکا ، مگر اس کے بعد روس میں اس کے افکار کے زیر اثر ایک عظیم اشتراکی انقلاب آیا جس نے آنے والی پون صدی تک نصف دنیا پر حکومت کی ۔
اسی طرح علامہ اقبال نے جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی ایک علیحدہ ریاست کا تصور پیش کیا۔ انھیں بھی اپنی زندگی میں اپنی فکر کو عملی زندگی میں برگ وبار لاتے ہوئے دیکھنا نصیب نہ ہوا ، لیکن ان کے بعد اس فکر کو مسلمانوں کی اکثریت نے قبول کیا جس کے نتیجے میں انگریزوں کے جانے کے بعد اس خطے میں دنیا کی پانچویں بڑی اور اسلامی دنیا کی سب سے بڑی ریاست وجود میں آئی۔
یہ دو مثالیں اس بات کو بخوبی واضح کرتی ہیں کہ کس طرح ایک فکری رہنما کی شخصیت اور اس کے نظریات کروڑوں ، بلکہ اربوں لوگوں کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ تاہم ان مثالوں سے یہ خیال نہیں پیدا ہونا چاہیے کہ ایک فکری رہنما صرف نظریہ دیتا ہے اور دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے،بلکہ وہ معاشرے میں رائج قدیم تصورات کے خلاف جنگ بھی کرتا ہے اور نئے خیالات کو فروغ بھی دیتا ہے۔ وہ ان کی ذہنی تربیت بھی کرتا ہے اور ان کے شعور کو فکر کے نئے دھارے بھی دیتا ہے ۔ اس طرح وہ قوم کے معاملات کو مختلف انداز سے دیکھنے کی صلاحیت دیتا ہے اور اس کے قومی مزاج کی تشکیل نو کرتا ہے ۔مثال کے طور پر۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں اور انگریزوں میں شدید مخاصمت پیدا ہوگئی تھی۔ انگریزوں نے ہندوستان میں صدیوں سے قائم مسلمانوں کے اقتدار کو ڈھایا تھا۔ نیز جنگ آزادی میں فتح کے بعد انھوں نے مسلمانوں کو بہت سختی کے ساتھ کچلا تھا۔ اس لیے مسلمانوں کے دل میں ان کے خلاف شدید نفرت تھی۔ایسے میں سر سید احمد خان نے مسلمانوں کو انگریزوں سے ٹکراؤ کی پالیسی سے ہٹایا اور جدید تعلیم کے حصول کی طرف متوجہ کیا۔ یہ انھی کی کوششیں تھیں جن کے زیر اثر مسلمانوں نے تعلیم اور سیاست کے میدان میں بھرپور طریقے سے حصہ لیا اور آخر کار اپنے لیے ایک الگ وطن حاصل کرنے کی جدو جہد میں کامیاب رہے ۔
اسی طرح یورپ میں مارٹن لوتھر اور کیلون (Calvin) وغیرہ نے سولہویں صدی کے آغاز پر اپنے افکار کے ذریعے سے یورپ کے معاشرے میں ہلچل مچادی۔ انھوں نے چرچ کے اقتدار کے خلاف آواز اٹھائی اور صدیوں سے جامد یورپی معاشرے کو آزادی کی نئی راہیں دکھائیں۔ یورپ کے عروج کی وجہ سائنس میں اس کی غیر معمولی ترقی تھی۔ چرچ اس سائنسی ترقی کا مخالف تھا۔ یہ لوتھر وغیرہ ہی تھے جن کے افکار کے زیر اثر چرچ کے اقتدار کو دھچکا پہنچا اور آزادی فکر کی فضا عام ہوئی۔ جس کے بعد یورپ نے تیزی سے عروج کا سفر طے کرنا شروع کردیا۔
ب۔ مذہبی قیادت
انسان اس دنیا میں جن تصورات سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے ، وہ مذہبی تصورات ہیں۔مذہب کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ اس کی بنیاد انسان کے خارج میں نہیں ، بلکہ انسان کے داخل میں ہے۔کسی برتر ہستی کاتصور وہ داخلی بنیاد ہے جس سے انسان خود کو کبھی بھی آزاد نہیں کرسکا۔مذہب اپنی اساس میں ایسی ہی برترہستی یا ہستیوں کے تعارف کا نام ہے۔پھر یہ بھی ا یک حقیقت ہے کہ انسان توجیہہ پسند واقع ہوا ہے۔حیات و کائنات کے بارے میں ان گنت سوالا ت ہیں جو اس کے ذہن میں پید اہوتے ہیں۔مذہب ان سولات کے سب سے آسان اور عام فہم جوابات دیتا ہے۔ یہی وہ بنیادیں ہیں جن کی بنا پر ہر دور میں مذہب اور اہل مذہب فرد و اجتماع کی زندگی میں بآسانی ایک غیر معمولی مقام حاصل کرلیتے ہیں۔
مندرجہ بالا گفتگو سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ مذہب اصلاً ایک فکر اور ایک تصور ہے۔چنانچہ تمام مذہبی قائدین بشمول انبیا علیہم السلام فکری قائد ین ہوتے ہیں۔ لیکن مذہب صرف فکر تک ہی محدود نہیں رہتا ، بلکہ ایک قدم آگے بڑھتا ہے اور انسانوں کے طرزِ زندگی، رسوم و رواج، معمولات حتیٰ کہ سونے جاگنے کے اوقات اور دستر خوان کا بھی تعین کرتا ہے۔انسانی زندگی میں مذہب کی اس اہمیت کی بنا پر مذہبی قائدین اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کا ذکر فکری قائدین سے علیحدہ کیا جائے۔
مذہبی قیادت کا فرد و معاشرے کی زندگیوں میں ہمیشہ ایک غیر معمولی کردار رہا ہے۔ مثال کے طور پر عیسائی مذہب میں چرچ اعتراف گناہ کے مذہبی تصور کے ذریعے سے فرد کے انتہائی ذاتی معاملات میں بھی مداخلت کا حق رکھتا تھا۔یہ کوئی اختیاری معاملہ نہ تھا، بلکہ قرون وسطیٰ کے یورپ میں چرچ نے لوگوں پر یہ پابندی لگادی تھی کہ سال میں ایک دفعہ ہر شخص اپنے علاقے کے پادری کے سامنے گناہوں کا اعتراف کرے گا۔ اسی طرح ۱۰۹۹ء سے لے کر ۱۲۹۱ء کے دوران میں لڑی جانے والی انسانی تاریخ کی مشہور اور اہم ترین لڑائیاں جو صلیبی جنگوں کے نام سے معروف ہیں ، ایک مذہبی لیڈر پوپ اربن دوم نے شروع کرائیں۔اس نے یورپ کے لوگوں میں جنگی جنون بھڑکایا اور انھیں مسلمانوں پر حملہ کرکے اپنے مقامات مقدسہ واپس لینے پر اکسایا۔
مذہبی قیادت قوموں کے عروج وزوال میں غیر معمولی کردار ادا کرتی ہے۔اخلاقی اقدار کو فروغ دے کر یہ نہ صرف معاشرے میں استحکام پیدا کرتی ہے ، بلکہ قومی زندگی کی مشکلات میں یہ سب سے بڑھ کر افراد کا حوصلہ بلند رکھتی ہے۔اسی طرح قومی مفادات کے حصول کے لیے جس اجتماعی تحریک وتوانائی کی ضرورت ہوتی ہے ، وہ بھی مذہبی قیادت ہی فراہم کرتی ہے۔ اس اعتبار سے قوموں کی زندگی کے کٹھن لمحات میں مذہبی قیادت غیر معمولی کردار ادا کرکے قوم کو عروج کی طرف لے جا سکتی ہے۔اس کے بر خلاف بعض اوقات مذہبی قیادت پوری قوم کو بے عملیت اور جمود کی طرف لے جاتی ہے، خود اخلاقی انارکی کا شکار ہوجاتی ہے اور بعض صورتوں میں یہ اہل اقتدار کی آلہ کار اور اپنے مفادات کی حریص ہوکر رہ جاتی ہے۔ ان تمام صورتوں میں یہ قومی زوال کا اہم سبب بن جاتی ہے۔
دراصل مذہب ہر شخص کی ضرورت ہے۔ مذہبی رہنما لوگوں کی اس ضرورت کی تکمیل کرتے ہیں اور لوگوں کی ضرورت بن جاتے ہیں۔نیز مذہبی رہنما اپنی زندگیوں میں اعلیٰ اخلاقی نمونہ پیش کرتے ہیں۔اس کی بنا پر لوگوں میں ان کا غیر معمولی احترام پیدا ہوجاتا ہے۔ افادیت اور احترام کا یہ مجموعہ جب مذہبی قائدین کی ذات میں جمع ہوتا ہے تو ان کے دائرۂ اثر کو معاشرے کے ہر فرد اور ہر گھر تک وسیع کردیتا ہے۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو فکر اور جو رویہ ان کی بارگاہ سے سند قبولیت حاصل کرتا ہے، وہی معاشرے کے عرف میں داخل ہوجاتا ہے اور جو ان کے ہاں مردود ٹھہرتا ہے ، وہ عوام کی نگاہ سے بھی گر جاتا ہے۔
مذہبی قیادت جب تک زندہ ہوتی ہے ، اپنے اس رسوخ کو استعمال کرکے معاشرے میں مثبت اقدر کو فروغ دیتی ہے اور شر کی طاقتوں کو اجتماعی زندگی میں دراندازی کی اجازت نہیں دیتی۔اس طرح قومی زندگی کے استحکام میں ان کا کردار بڑا غیرمعمولی ہوتا ہے۔ تاہم مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب مذہبی قیادت میں زندگی مفقود ہونے لگتی ہے۔ ایسے میں وہ ہر قدیم کو مقدس اور ہر جدید کو ملعون سمجھنے لگتی ہے۔ دوسری طرف زندگی کی گاڑی آگے کی سمت رواں رہتی ہے۔چنانچہ وقت کے ساتھ ساتھ معاشرہ آگے بڑھ جاتاہے اورروایتی مذہبی قیادت جمود کا شکار ہوکر پیچھے رہ جاتی ہے۔ ایسے تبدیل شدہ حالات میں مذہبی قیادت بالعموم خود بدلنے کے بجائے اپنے اثر و رسوخ اور طاقت کی بنا پر نئے افکار کو دبانے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے نتیجے میں دو میں سے ایک برا نتیجہ لازمی نکلتا ہے۔ ا یک صورت میں انھیں کامیابی ہوتی ہے ، مگر اس کے بعد قوم پس ماندگی کا شکار ہوجاتی ہے۔ جیسے پوپ کے زیر اثر جنوبی یورپ کے ممالک اسپین، پرتگال اور اٹلی میں نئے افکار کو طاقت کے ساتھ دبا دیا گیا۔ چنانچہ یہ ممالک جو پندرھویں صدی میں یورپ میں سب سے آگے تھے ، آنے والے دنوں میں بقیہ یورپ سے پیچھے رہ گئے۔ اس کے برعکس لوتھرکی پروٹسٹنٹ تحریک کے زیر اثر جس کا مرکز جرمنی تھا اور جو پوپ کے اثر سے باہر آچکا تھا، مغربی یورپ ترقی کی راہوں پر آگے بڑھتا چلا گیا۔
دوسری صورت میں مذہبی قیادت کو شکست ہوجاتی ہے اور جدید افکار اپنی جگہ بنالیتے ہیں۔ مگر اس کے نتیجے میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ یہ جدید افکار بعض ایسی بنیادی اقدار کو ملیا میٹ کردیتے ہیں جو مذہب کی زمین پر ہی جڑپکڑتی ہیں۔مثلاََ یورپ میں آخر کار چرچ کو شکست ہوئی۔ مگر اس کے بعد حیا اور عفت وغیرہ جیسی بنیادی انسانی اقدار کا خاتمہ ہوگیا اور بعض خبائث عام زندگی کا حصہ بن گئے ۔ مثلاً سود اب مغربی معاشرے کا جز لاینفک ہے۔
ج۔ سیاسی قیادت
اس میں شک نہیں کہ فکری اور مذہبی قیادت قومی زندگی میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے ، مگر وہ قوموں کی زندگی میں فیصلہ کن کردار ادا نہیں کرتی۔اس کا سبب یہ ہے کہ عملی زندگی کے تقاضے فکری اور مذہبی معاملات سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔اس لیے بالعموم فکری اور مذہبی رہنماؤں کے ہاتھ میں سیاسی اقتدار نہیں آتا ۔چنانچہ یہ سیاسی قائدین ہوتے ہیں جو قوموں کی زندگی کے نازک ترین فیصلے کرتے ہیں اور اس فضا کو استعمال کرتے ہیں جو مذہبی اور فکری قائدین بنا چکے ہوتے ہیں۔ مثلاً اقبال کے خواب کو تعبیر محمد علی جناح نے دی اور مارکس کے نظریات لینن کی قیادت میں عملی شکل اختیار کر سکے۔
دراصل حکومت و ریاست قومی زندگی کا سب سے اہم شعبہ ہے اور اس پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ چنانچہ سیاسی قائدین جو اقتدار کی سطح پر قومی معاملات میں دخیل ہوتے ہیں ، ان کی اہمیت غیر معمولی ہوجاتی ہے اور بعض اوقات ان کے فیصلے تاریخ ساز ہوجاتے ہیں۔ جس روز جنرل ضیاء الحق نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ روس کو واپس دریائے آمو کے پار بھیج کر ہی دم لیں گے، اس وقت کسی کے سان گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک شخص کا یہ عزم انسانی تاریخ کے کیسے عظیم موڑ کا پیش خیمہ ثابت ہوگامگر اس فیصلے نے ایک سپر پاور کا خاتمہ کردیا۔ یہ الگ بات ہے کہ خود پاکستانی قوم کو اس فیصلے کی بہت بھاری قیمت دینی پڑی۔
فکری اور مذہبی قیادت کے بر خلاف سیاسی قائدین قوم کے اجتماعی مزاج کی تشکیل میں براہِ راست حصہ نہیں لیتے ۔ ان کا کام یہ ہوتا ہے کہ جیسی کچھ قوم انھیں ملی ہے ، وہ اس کی امنگوں پر پورا اترے۔جو مواقع ہیں ، انھیں استعمال کریں اور جو مسائل ہیں ، ان سے قوم کو نجات دلائیں۔ سیاسی قائد کا اصل کردار قوم کو متحر ک کرنا ہے۔ وہ قوم میں ایک جذبہ اور ولولہ پیدا کرتا ہے، اس کا حوصلہ بلند کرتا ہے اور اسے نئی راہیں دکھاتا ہے۔ خود ایک سیاسی قائد کے لیے ضروری ہے کہ وہ حوصلہ مند اور مستقل مزاج ہو۔اس میں اپنے مقصد کے حصول کی غیر معمولی لگن ہو۔ اور اس راہ میں وہ کسی مشکل کو بھی خاطر میں نہ لاتا ہو۔ ان خصوصیات کے ہونے پر قائد پوری قوم متحد بھی کر لیتا ہے اور ایک نئی تاریخ رقم کرتا ہے۔تاہم اگر یہ خصوصیا ت نہ ہوں تو پوری قوم کے اس کے پیچھے کھڑے ہونے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ قائد خود بھی ڈوبتا ہے اور پوری قوم کی نیا بھی ڈبودیتا ہے۔گویا سیاسی قیادت قوم کے عروج و زوال کے پیچھے کارفرما سب سے زیادہ موثر عامل کا کام کرتی ہے۔ہم تاریخ کی دو مثالوں سے اپنی بات کی وضاحت کریں گے۔
۱۳۴ھ میں خلافت بنو امیہ کے خاتمہ کے وقت عباسیوں نے بنو امیہ پر ظلم و ستم کے ایسے پہاڑ توڑے کہ جن کی مثال تاریخ میں مشکل سے ملے گی۔ زندوں کے ساتھ تو جو ہوا سو ہوا انھوں نے اموی خلفا کی قبریں بھی کھودڈالیں۔ ہشام بن عبد الملک کی قبر سے اس کی لاش صحیح سالم نکل آئی تو اسے کوڑے لگائے گئے، پھر صلیب پر چڑھایا گیا اور آخر میں لاش کو جلاکر راکھ بنادیا گیا۔اموی خاندان سے تعلق رکھنے والوں اور ان کے ہمدردوں کوچن چن کر بے رحمی سے ہلاک کیا گیا۔ان حالات میں عبدالرحمن بن معاویہ نامی ایک اموی شہزادہ شام سے اپنی جان بچاکر بھاگا اور بچتا بچاتا افریقہ جا پہنچا ۔کئی سال تک اپنی جان بچانے کے لیے چھپتا پھرا ۔آخر کار اس نے اندلس کا رخ کیا جہاں عباسیوں کے اثرات ابھی تک قائم نہیں ہوئے تھے۔ اس وقت اندلس میں خانہ جنگی کی کیفیت تھی۔ اس غریب الوطن نوجوان شہزادہ نے ، جس کے خاندان کا اقتدار تباہ ہوچکا تھا اور دنیا کی طاقت ور ترین حکومت اس کی جان کے درپے تھی، اپنی ہمت وحوصلہ اور جرأت واستقامت کے بل بوتا پر اندلس میں اپنی حکومت قائم کی۔ اس کے بعد اگلی تین دہائیوں تک وہ مسلسل ان مسائل سے نمٹتا رہا جو عباسیوں، یورپ کے عیسائیوں اور سب سے بڑھ کر اندرونی بغاوتوں نے اس کے لیے پیدا کیے۔ اس نے اپنی غیر معمولی خوبیوں کی بنا پر ان تمام مشکلات پرقابو پاکر اندلس میں اعلیٰ درجے کا نظم ونسق قائم کیا اورعباسیوں کے تسلط سے آزادامویوں کی حکومت قائم کی جس نے اگلی تین صدیوں تک انتہائی شان و شوکت سے اندلس پر حکمرانی کی ۔اس طرح اس عظیم لیڈر کے عزم و حوصلہ سے مسلم اسپین کے عروج کی وہ شان دار تاریخ وجود میں آئی جس پر مسلمان آج تک فخر کرتے ہیں۔
اس کے برخلاف ۱۸۵۷ء میں ہندستان کے باشندوں نے انگریزی اقتدار کے خلاف ایک زبردست بغاوت کردی۔ اپنے وطن سے دور اور تعداد میں بہت کم انگریزی فوج کو شکست دینا بہت مشکل نہ تھا۔ مگر بدقسمتی سے جو مغل حکمران فطری طور پر اس جنگ کا قائد بن سکتا تھا ، وہ ایک بوڑھا اورکمزور شاعر تھا۔ مغلیہ شہزادوں میں کوئی ایسا جواں مرد نہ تھا جو قیادت کے اس خلا کو پورا کرسکے۔چنانچہ سیاسی قیادت کی اس کمزوری کی بنا پر اس عظیم موقع کو جو حالات نے پیدا کردیاتھا ، استعمال نہ کیا جاسکا۔ مزید یہ کہ اس کی بنا پر برصغیر میں مغلیہ حکومت کا خاتمہ ہوا اور مسلمانانِ ہند کا زوال اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔
قائدین کی مذکورہ بالا بحث میں ہم نے یہ دیکھا کہ وہ قومی زندگی میں کتنا غیر معمولی کردار ادا کرتے ہیں۔اسی بنا پرتاریخ میں قائدین کا تذکرہ نمایاں الفاظ میں درج ہوتا ہے ۔تاہم وہ تنہا قومی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکتے ، جب تک کہ قوم کی اشرافیہ ان کا ساتھ نہ دے۔بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اکثر حالات میں اشرافیہ ہی سے کسی قوم کی قیادت جنم لیتی ہے ۔یہی ایک بات قومی زندگی میں اشرافیہ کی اہمیت کی عکاس ہے۔
جیسا کہ ہم نے اس بحث کے شروع میں بیان کیا تھا کہ اشرافیہ کا گروہ وہ لوگ تشکیل دیتے ہیں جنھیں مال و اقتدار کے حصول کے مواقع اور صلاحیتیں خدا نے عام لوگوں سے زیادہ دی ہوتی ہیں۔چنانچہ اکثر ان لوگوں کے لیے معاش کی وہ جدو جہد جو دوسروں کی آخری توانائیاں تک نچوڑ لیتی ہے ، بہت بڑا مسئلہ نہیں بن پاتی۔ سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے اور ذاتی مشکلات سے محفوظ لوگ ہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اجتماعی معاملات میں دخل اندازی کرتے ہیں۔ ان کے پاس نہ صرف اس کام کے لیے درکار وقت اور پیسا وافر مقدار میں ہوتا ہے ، بلکہ یہ ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے بھی بہت ضروری ہوتا ہے۔اس طرح وہ حکومت اور حکمرانوں سے قریب رہتے ہیں اوراقتدار کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
زمانۂ قدیم میں اشرافیہ نواب، امرا، روسا، جاگیر دار، فوجی سردار اور سیاسی اثر و نفوذ رکھنے والے خاندانوں کی صورت میں موجود تھی ۔عصر حاضر میں ان پرانی شکلوں کے علاوہ یہ لوگ صنعتی اور تجارتی اداروں کے مالکان ، انھیں چلانے والے باصلاحیت افراد اوردیگر منفعت بخش پیشوں سے وابستہ لوگوں کے روپ میں معاشرے میں موجود ہوتے ہیں۔یہ اپنی تعداد کے اعتبار سے معاشرہ کا ایک بہت قلیل حصہ ہوتے ہیں ، لیکن اجتماعی وسائل کے بیشتر حصہ پر ان کا قبضہ ہوتا ہے۔اس بنا پر ایک طرف تو حکمران اس بات پر مجبور ہوتے ہیں کہ ان لوگوں کا تعاون حاصل کریں ، دوسری طرف عوام الناس پر بھی ان کا گہرا اثر ورسوخ ہوتا ہے۔کیونکہ اپنی نانِ شبینہ کے لیے وہ زیادہ تر ان کے قائم کردہ اداروں ہی کے محتاج ہوتے ہیں۔تاہم دور حاضر میں جمہوریت ، انسانی حقوق اور مساوات کے نعروں اور آزادی فکر ،میڈیا اور تعلیم کے فروغ کی بنا پر عوام الناس کو غیر معمولی قوت حاصل ہوئی ہے۔ اس بنا پروسائل و اقتدار پر قابض اشرافیہ کو اب قومی زندگی میں وہ فیصلہ کن قوت حاصل نہیں رہی جیسا کہ ماضی میں ا نھیں حاصل تھی۔بلکہ وہ دیگر گروہ جو عوام الناس کو متاثر کرنے کی اہلیت یا مواقع رکھتے ہیں ، وہ بھی بہت طاقت ور ہوگئے ہیں اور اپنی اسی طاقت کی بنا پر اشرافیہ میں شمار کیے جانے کے قابل ہیں۔ان میں اہل قلم، پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا سے وابستہ افراد اور دیگر علوم و فنون میں مہارت رکھنے والے وہ ممتاز افراد شامل ہیں جن کو عوام میں پزیرائی حاصل ہوجاتی ہے۔
چنانچہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں دورِ حاضر میں اشرافیہ ایک ایسے باصلاحیت گروہ کا نام ہے جسے قدرت نے وسائل، اقتدار اور عوام میں نفوذ کے غیر معمولی مواقع اور صلاحیتیں عطا کی ہوتی ہیں۔معاشرے کے وہ تمام باصلاحیت لوگ جنھیں مواقع ملتے چلے جائیں ، اشرافیہ کے اس گروہ میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔ تاہم اشرافیہ کی ہیئت ترکیبی میں فرق پڑنے سے اس حقیقت میں کوئی فرق نہیں پڑا کہ آج بھی کسی قوم کی قیادت اور سیادت مجموعی طور پر انھی کے پاس ہوتی ہے۔ عوام الناس آج بھی بالواسطہ یا بلا واسطہ انھی سے متاثر ہوتے ہیں۔معاشرے کے اجتماعی خیر و شر اور قوم کے عروج و زوال میں ا ن لوگوں کا کردار آج بھی غیر معمولی ہے۔
قرآن قوموں کے عروج و زوال میں اشرافیہ کی اہمیت کو اس طرح بیان کر تا ہے:
’’ اور جب ہم کسی قو م کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوش حال لوگوں کو حکم دیتے ہیں تو وہ اس میں فساد شروع کردیتے ہیں ۔ پس ان پر عذاب کی بات ثابت ہوجاتی ہے اور انہیں برباد کرڈالتے ہیں۔‘‘(بنی اسرائیل۱۷: ۱۶)
یہ لوگ معاشرے کے جسد میں اعضاے رئیسہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ جب یہ فساد کی طرف مائل ہوجاتے ہیں تو قومی زندگی کا توازن بگڑجاتا ہے ۔ اس کے برعکس جب تک یہ لوگ مجموعی طور پر خیر وصلاح کی طرف مائل رہتے ہیں ، قومی معاملات درست رہتے ہیں۔ خاص طور پر قوم کو جب چیلنج پیش آجائے تو یہی لوگ سب سے پہلے اس کا ادراک کرکے اس کی ٹھیک حیثیت متعین کرتے ہیں۔پھر انھی میں سے وہ لوگ ہوتے ہیں جو چیلنج کا جواب دینے کے لیے اٹھتے ہیں ۔ اشرافیہ ہی میں ہی سے وہ لوگ ہوتے ہیں جو ان قائدین کا دامے، درمے، قدمے، سخنے ساتھ دیتے ہیں۔تاہم جب یہ گروہ چیلنج کا جواب دینے کی صلاحیت سے محروم ہوجائے تو قوم کا وجود خطرے میں پڑجاتا ہے اور آخر کار قوم تباہ ہوجاتی ہے۔
عوام الناس کے بارے میں با لعموم دو غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ اول یہ کہ یہ بے چارے معصوم و بے قصور لوگ ہوتے ہیں جنھیں بادشاہوں کی بداعمالیوں کی سزا ملتی ہے۔ یہ حقیقت کی درست ترجمانی نہیں ہے ۔ عوام الناس قومی جسد کا اکثریتی حصہ ہوتے ہیں اور انھی کا اجتماعی رویہ قومی کردار کومتعین کرتا ہے۔ قوم کے عروج و زوال میں ان کے اخلاقی رویے کا ہمیشہ ایک کردار رہاہے۔زوال کا عمل گو اشرافیہ کے اخلاقی انحطاط سے شروع ہوتا ہے ، مگر یہ پاےۂ تکمیل اسی وقت پہنچتا ہے جب عوام عقل، فطرت اور مذہب کی تمام رکاوٹیں پھلانگ کر اندھادھند ان کی پیروی شروع کردیںیا پھر اجتماعی خیر و شر سے بے نیاز ہوکر اپنی ذات میں مگن ہوجائیں۔مورخین نے بغداد کی تباہی سے قبل وہاں کے عوام الناس کی بے حسی، اخلاقی پستی اور مذہبی تفرقہ بازی کا جو نقشہ کھینچا ہے ، وہ ہماری بات کی تصدیق کرتا ہے۔ رومن قوم میں دورِ زوال میں توہم پرستی اور بدکاری ، دونوں کا اجتماع ہوگیاتھا۔ایرانیوں کے دور زوال میں مزوک نامی تحریک وجود میں آئی جس میں دولت اور عورت کو مشترکہ قرار دے دیا گیا تھا۔ چھٹی صدی عیسوی میں قباد بن فیروز نے اس تحریک کی سر پرستی کی جس کے بعد پوری قوم عیش پرستی میں مخمور ہوگئی۔
اسی طرح یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دور حاضر سے قبل عوام کی حیثیت بھیڑ بکریوں کے اس گلے کی سی ہوتی تھی جس کی قسمت کا تمام تر انحصار اپنے گلہ بان کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ جنھیں اپنی زندگی کے کسی فیصلہ کا کوئی اختیار نہیں ہوتا تھا۔اکثر حالات میں ان کی حیثیت حوصلہ مند قائدین اور مقتدر طبقات کے درمیان برپا رہنے والے معرکوں کے تماشائی کی سی ہوتی تھی۔عوام کالانعام اور الناس علی دین ملوکہم جیسے محاورے قدیم معاشرے میں ان کی فکری اور عملی مقام کو بہت اچھے طریقے پر واضح کرتے ہیں۔یہ بات بڑی حد تک درست ہے ، لیکن یہ کلی حقیقت نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ عوام الناس کی زندگیوں کے فیصلے اگر حکمران کرتے رہے ہیں تو بہرحال انھیں بھی ان کی قومی امنگوں، خواہشات اور جذبات کا احترام کرنا پڑا ہے۔یہ تاریخ کے بعض ادوار میں اگر حالات کے اسیر محض رہے ہیں تو بعض مقامات پر بہرحال ان کی رضا و خوش نودی کے لیے مقتدر طبقات کو بھی اپنے طرزِ عمل کو متعین کرنا پڑا ہے۔سلطنت روم میں عیسائیت کے فروغ کے بعد قسطنطینہ کا قبول عیسائیت اس کی ایک نمایاں مثال ہے۔ اسی طرح عوام کے جذبات مجروح کرکے طاقت کے زور پر ان پر حکومت کرناممکن تھا ، لیکن اس کا طویل عرصے تک برقرار رہنا ممکن نہ تھا۔ مثال کے طور پر بنو امیہ کا طرز عمل کئی اعتبار سے عام مسلمانوں کے جذبات کے منافی تھا۔ چنانچہ بنو عباس نے اس بے چینی کا فائدہ اٹھایا اور ایک موثر تحریک چلا کر اس وقت بنو امیہ کی حکومت کا خاتمہ کردیا ، جب ان میں مزیدکئی صدیوں تک اقتدار میں رہنے کی سکت باقی تھی۔ جیسا کہ اندلس میں اگلی تین صدیوں تک انھوں نے اپنا اقتدار قائم رکھا۔
بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ دورِ جدید میں عوام الناس کو غیر معمولی تقویت حاصل ہوئی ہے۔بالخصوص جمہوریت کے فروغ کے بعد عوامی امنگوں کے خلاف اقتدار میں رہنا عملاًنا ممکن ہوچکا ہے۔سیاسی نمائندے، جن کے ہاتھوں میں قوم کی تقدیر ہوتی ہے ، عوامی تائید کے بعد ہی اقتدار میں آتے ہیں۔البتہ یہ الگ بات ہے کہ اب حکمران جور و ستم کے بجائے پروپیگنڈے کے سحر سے لوگوں کو اپنا اسیر بناتے ہیں اورعوام آج بھی اپنی ذہنی کمزوری کی بنا پر مقتدر طبقات کے اشارۂ ابرو پر جیتے ہیں۔ پہلے یہ ان کی تلوار کے خوف سے ہوتا تھا اور اب میڈیا کی زنجیریں عوام کے فکر و عمل کو جکڑ لیتی ہیں۔تاہم یہ صورت حال تعلیم اور شعور کے فروغ کے ساتھ مشروط ہے۔ جہاں عوام تعلیم یافتہ اور باشعور ہوتے ہیں ، وہاں وہ اپنے فیصلے خود آزادانہ طور پر کرتے ہیں۔اور جہاں تعلیم اور شعور ناپید ہیں ، وہاں پہلے اگر انھیں آزادانہ فیصلے کا اختیار نہ تھا تو اب ان میں آزادانہ فیصلے کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
اداروں کے ضمن میں کچھ بحث ہم اوپر کر چکے ہیں جہاں ہم نے یہ بتایا تھا کہ ادارے معاشرے کے نظام کو چلانے اور اس کے استحکام کے لیے وجود میں لائے جاتے ہیں۔ کوئی قوم جیسے جیسے تہذیب و تمدن کا سفر طے کرتی ہے، زندگی کے مختلف شعبوں کو ہموار طریقے سے چلانے کا عمل پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ پہلے جو ذمہ داری ایک یا چند افراد مل کر غیر منظم طریقے سے ادا کردیا کرتے تھے، اس کی ادائیگی کے لیے وقت کے ساتھ ساتھ ایک پورا ادارہ قائم کرنا، اس کے حدود و قیود اور اصول و ضوابط مرتب کرنا اور اس کا ایک تنظیمی ڈھانچا ترتیب دینا ایک ناگزیر تمدنی ضرورت بن جاتا ہے۔
ادارے چونکہ اجتماعی مفاد کے اصول پر چلتے ہیں ، اس لیے ان کا استحکام ہمیشہ معاشرتی استحکام کا باعث ہوا کرتا ہے۔یہ جتنے طاقت ور ہوتے ہیں معاشرہ اسی رفتار سے ترقی کا سفر طے کرتا ہے۔ادارے ان قومی روایات کے امین ہوتے ہیں جو اجتماعی زندگی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔تاہم مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ جب کوئی طالع آزما ان روایات کو توڑتا ہے اور اداروں کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرنا شروع کردیتا ہے۔ یہ چیز نہ صرف اداروں کے زوال کا باعث ہوتی ہے ، بلکہ آخر کار قومی زوال کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قومی طاقت اب ان اداروں میں مرتکز ہوجاتی ہے۔ اور ان کی تباہی قومی تباہی کا باعث بنتی ہے۔
اداروں کی مزید اہمیت اس اعتبار سے بھی ہے کہ ادارہ ہی وہ جگہ ہے جہاں قوم کے افراد اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہیں، کیونکہ یہی ادارے افراد کو وہ اسباب و وسائل مہیا کرتے ہیں جو ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے ناگزیر ہیں۔ جب تک کسی قوم کے اداروں میں اصول اور میرٹ کا رواج رہتا ہے ، با صلاحیت افراد آگے آتے رہتے ہیں اور جب قابلیت کے بجائے سفارش ، رشوت اور تعلقات کی بنیاد پر معاملات چلنے لگتے ہیں تو اول ادارے اور پھر پوری قوم بنجر ہونا شروع ہوجاتی ہے۔
آج مغرب نے جو ترقی کی ہے ، اس میں بنیادی کردار اس حقیقت کا ہے کہ وہاں ادارے شخصیات پر مقدم ہوچکے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں چند سالہ شخصی اقتدار کے لیے بار ہا اداروں کو ذبح کیا گیا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے ادارے قومی زندگی کی تعمیر تو کیا کرتے اپنی زندگی و بقا کے لیے بھی صاحبان اقتدار کے محتاج ہیں۔ تاہم یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ادارے خود کچھ نہیں ہوتے ،بلکہ قوم کے اجتماعی شعور کے عکاس ہوتے ہیں۔ جب اداروں کا وقار مجروح ہورہا ہو اور قوم خاموش ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قوم بے شعوری کے آخری مقام پر کھڑی ہے۔ یہ اصلا قوم کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اداروں کو تحفظ دے۔ اس کے بعد وہ وقت آتا ہے کہ پھر ادارے قوم کو تحفظ دینا شروع ہو جاتے ہیں۔
[باقی]
____________