HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: البقرہ ۲: ۲۰۴-۲۱۴ (۴۲)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ ) 


وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُکَ قَوْلُہٗ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا، وَ یُشْھِدُ اللّٰہَ عَلٰی مَا فِیْ قَلْبِہٖ، وَھُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ {۲۰۴} وَاِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْھَا، وَ یُھْلِکَ الْحَرْثَ وَ النَّسْلَ، وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ {۲۰۵} وَاِذَا قِیْلَ لَہُ اتَّقِ اللّٰہَ، اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ، فَحَسْبُہٗ جَھَنَّمُ، وَلَبِئْسَ الْمِہَادُ۔ {۲۰۶}

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآئَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ، وَاللّٰہُ رَئُ وْفٌ بِالْعِبَادِ۔ {۲۰۷}

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا، ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً، وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ، اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ {۲۰۸} فَاِنْ زَلَلْتُمْ مِّنْ بَعْدِ مَاجَآئَ تْکُمُ الْبَیِّنٰتُ، فَاعْلَمُوْآ اَنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ۔ {۲۰۹}

ھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا ٓاَنْ یَّاْتِیَھُمُ اللّٰہُ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ،وَقُضِیَ الْاَمْرُ، وَاِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ{۲۱۰} سَلْ بَنِیْ ٓ اِسْرَآئِ یْلَ کَمْ اٰتَیْنٰہُمْ مِّنْ اٰیَۃٍ بَیِّنَۃٍ، وَمَنْ یُّبَدِّلْ نِعْمَۃَ اللّٰہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ تْہُ، فَاِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ{۲۱۱} زُیِّنَ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا، وَ یَسْخَرُوْنَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا، وَالَّذِیْنَ اتَّقَوْا فَوْقَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ، وَاللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍ{۲۱۲}

کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً، فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ، وَاَنْزَلَ مَعَھُمُ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ، وَمَا اخْتَلَفَ فِیْہِ اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْہُ مِنْ بَعْدِ مَاجَآئَ تْہُمُ الْبَیِِّنٰتُ بَغْیًا بَیْنَہُمْ، فَھَدَی اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِہٖ، وَاللّٰہُ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ {۲۱۳}

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ، وَلَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ، مَسَّتْھُمُ الْبَاْسَآئُ وَالضَّرَّآئُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ، اَلَا ٓ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ {۲۱۴}

(یہ عبادت ہے جس کی راہ روکنے والوں سے تم کو لڑنا ہے) اور (اِدھر صورت حال یہ ہے کہ تمھارے) لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں کہ جن کی باتیں تو اِس دنیا کی زندگی میں تمھیں بھلی معلوم ہوتی ہیں ، ۳ ۵۵ اور وہ اپنے دل کے ارادوں پر اللہ کو گواہ بھی بناتے ہیں ، ۵۵۴ لیکن ہیں وہ بدترین دشمن ۔ ۵۵۵ (تمھارے سامنے وہ یہی کرتے ہیں) اور جب وہاں سے ہٹتے ہیں تو اُن کی ساری تگ و دو اِس لیے ہوتی ہے کہ زمین میں فساد پھیلائیں اور کھیتیوں کو غارت کریں اور نسلیں تباہ و برباد کریں ، ۵۵۶ اور (تم جانتے ہو کہ) اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈرو تو گناہ پر آمادگی کے ساتھ اُن کا غرو ر دامن گیر ہو جاتا ہے ۔ ۵۵۷ سو اُن کے لیے جہنم کافی ہے ۔ اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے ۔ ۵۵۸  ۲۰۴ ۔ ۲۰۶ 

اور اِنھی لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں کہ اللہ کی رضا جوئی کے لیے اپنی جان کھپا دینے کے لیے تیار ہیں ۔ (یہی ہیں کہ جن سے کوئی غلطی ہو جائے تو اللہ اُسے معاف کر دیتے ہیں)، اور اِس طرح کے بندوں پر اللہ بہت مہربان ہیں ۔ ۲۰۷ 

ایمان والو، ۵۵۹ (ایمان کے ساتھ یہ دو رویے نہیں ہو سکتے ، اِس لیے )تم سب ۵۶۰  (ایک ہی طریقے سے) اللہ کی اطاعت میں داخل ہو جاؤ اور شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کرو ۔ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے ۔ اِن کھلی ہوئی تنبیہات کے بعد بھی جو تمھارے پاس آئی ہیں ، ۵۶۱ اگر تم لغزش کھاتے ہو تو جان لو کہ اللہ زبردست ہے ، وہ بڑی حکمت والا ہے ۔ ۵۶۲  ۲۰۸ ۔۲۰۹  

(اِس اتمام حجت کے باوجود) کیا یہ اِسی کے منتظر ہیں کہ اللہ اور اُس کے فرشتے بدلیوں کے سایے میں نمودار ہو جائیں اور معاملے کا فیصلہ کر دیا جائے ؟ (لیکن یہ اللہ کا طریقہ نہیں ہے) اور اِس طرح کے معاملات تو اللہ ہی کے حوالے ہیں ۔ بنی اسرائیل سے پوچھو، ہم نے اُن کو کتنی واضح نشانیاں دیں (، مگر اِس سے کیا فائدہ ہوا؟) ۵۶۳ اور (حقیقت یہ ہے کہ) جو لوگ اللہ کی (ہدایت جیسی)نعمت کو پا لینے کے بعد (اُس کو گمراہی سے) بدلتے ہیں ، (وہ اللہ کی گرفت سے نہیں بچ سکتے)۔ اِس لیے کہ اللہ سخت مواخذہ کرنے والا ہے ۔ دنیا کی زندگی اِن منکروں کے لیے بڑی دل پسند بنا دی گئی ہے ۔ (اِس کے انجام سے اِنھیں آگاہ کیا جائے تو نہیں سنتے) اور ایمان والوں کا مذاق اڑاتے ہیں ، ۴ ۵۶ دراں حالیکہ خدا سے ڈرنے والے قیامت کے دن اِن کے مقابلے میں عالی مقام ہوں گے ۔ (یہ اُن کے لیے اللہ کا فضل ہے) اور اللہ جس کو چاہے گا ، اپنا فضل بے حساب عطا فرمائے گا ۔ ۵۶۵ ۲۱۰ ۔ ۲۱۲ 

(اپنی منافقت کے لیے یہ اختلافات کو بہانہ بناتے ہیں ۔ ۵۶۶  اِنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) لوگ ایک ہی امت تھے ۔ (اُن میں اختلاف پیدا ہوا) تو اللہ نے نبی بھیجے ، بشارت دیتے اور انذار کرتے ہوئے اور اُن کے ساتھ قول فیصل کی صورت میں اپنی کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے درمیان وہ اُن کے اختلافات کا فیصلہ کر دے ۔ یہ جن کو دی گئی ، اِس میں اختلاف بھی اُنھی لوگوں نے کیا ، نہایت واضح دلائل کے سامنے آ جانے کے بعد ، محض آپس کے ضدم ضدا کی وجہ سے ۔ پھر یہ جو (قرآن کے) ماننے والے ہیں ، اللہ نے اپنی توفیق ۵۶۷ سے حق کے متعلق اِن سب اختلافات میں اِن کی رہ نمائی کی ۔ اور اللہ جس کو چاہتا ہے ، (اپنے قانون کے مطابق) سیدھی راہ کی ہدایت عطا فرماتا ہے ۔ ۵۶۸   ۲۱۳ 

(یہ سمجھتے ہیں کہ اِن پر کوئی ذمہ داری ڈالے بغیر ہی اِس راہ کی سب مشکلیں اللہ کی مدد سے دور ہو جانی چاہییں۔ خدا کے بندو)، تمھارا خیال ہے کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے ، دراں حالیکہ تمھیں وہ حالات ابھی پیش ہی نہیں آئے جو (رسولوں کی بعثت کے نتیجے میں) تم سے پہلے لوگوں کو پیش آئے تھے ؟ اُن پر آفتیں آئیں ، مصیبتیں گزریں اور وہ ہلا مارے گئے ، یہاں تک کہ رسول اور اُس کے ساتھ ایمان لانے والے سب پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ۔ (اُس وقت بشارت دی گئی کہ) سنو، اللہ کی مدد قریب ہی ہے ۔۵۶۹  ۲۱۴  


۵۵۳؎ یہ اشارہ ہے مدینہ کے ان منافقین کی طرف جو اللہ کی راہ میں جہادو قتال کی باتیں کرتے تو زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س سے ہٹتے تو ان کی ساری تگ و دو اللہ اور رسول سے لوگوں کو برگشتہ کرنے اور اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے ہوتی تھی۔ فرمایا کہ یہ سب اس دنیا کی زندگی ہی میں ہے ۔ قیامت کے دن پر دہ اٹھے گا تو اپنے باطن کو چھپانے کے لیے یہ کچھ بھی نہ کر سکیں گے ۔

۵۵۴؎ منافق کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ اپنے آپ کو معتبر ثابت کرنے کے لیے وہ بات بات پر قسم کھاتا ہے ۔ اس لیے کہ اپنی نفسیاتی کمزوری کی وجہ سے وہ سمجھتا ہے کہ لوگ اس کی بات کو باور نہیں کریں گے ۔

۵۵۵؎ اصل میں ’الد الخصام‘کے الفاظ آئے ہیں ۔ ان میں ’خصام‘ ہمارے نزدیک ’خصم‘ کی جمع ہے ۔ یعنی دشمنوں میں سے بدترین ۔

۵۵۶؎ یعنی خدا کی جو دینونت اس سرزمین میں برپا ہے ، اس میں لوگوں کو ایمان کی دعوت دینے اور اس طرح صلح و امن پر آمادہ کرنے کے بجائے وہ جنگ کی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں جس کا نتیجہ ، ظاہر ہے کہ حرث و نسل کی تباہی کی صورت ہی میں نکلے گا ۔

۵۵۷؎ اصل الفاظ ہیں : ’اخذتہ العزۃ بالاثم‘ ۔ ان میں ’بالاثم‘ کی ’ب‘ ہمارے نزدیک مصاحبت کے لیے ہے اور لفظ ’العزۃ‘ ٹھیک اس معنی میں آیا ہے جس میں یہ سورہ ص (۳۸) کی آیت ۲ ’بل الذین کفروا فی عزۃ و شقاق‘ میں ہے ۔ 

۵۵۸؎ مطلب یہ ہے کہ انھیں اگر اس وقت ڈھیل ملی ہوئی ہے تو یہ کوئی رعایت نہیں ہے ۔ اس طرح کے لوگوں کے لیے دوزخ تیار ہے ، وہ کوئی کمی نہ چھوڑے گی ۔ ان کی شرارتوں کی جو سزا انھیں ملنی چاہیے ، اس کے لیے بالکل کافی ہو جائے گی۔

۵۵۹؎ یہ خطاب اگرچہ عام ہے ، لیکن روے سخن، اگر غور کیجیے تو انھی منافقین کی طرف ہے جن کاذکر اوپر ہوا ہے ۔ انھیں دعوت دی گئی ہے کہ شیطان کے پیچھے چلنے کے بجائے ان سچے اہل ایمان کی پیروی کرو جو اپنے پروردگار کی رضا کے لیے اپنا سب کچھ دینے کے لیے تیار ہیں ۔

۵۶۰؎ اصل میں لفظ ’کافۃ‘ استعمال ہوا ہے اور یہ یہاں ضمیر فاعل سے حال پڑا ہوا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ تم سب مسلمان ایک جماعت ہو تو اللہ کی اطاعت کے معاملے میں بھی تمھیں ایک ہی جماعت ہونا چاہیے ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ تم ایمان کا دعویٰ تو کرو اور پھر تم میں سے کچھ اللہ کا حکم ماننے والے ہوں اور کچھ شیطان کے پیچھے چلنے والے ۔ اللہ کو ماننے کے بعد یہ رویہ کسی حال میں بھی گوارا نہیں کیا جا سکتا۔

۵۶۱؎ اصل میں لفظ ’بینات‘ آیا ہے ۔ یعنی وہ آیات جو شیطان کے فتنوں سے خبردار کرنے اور ایمان و اسلام کے تقاضوں سے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے قرآن میں وارد ہوئی ہیں ۔ تنبیہات کے لفظ سے اس کا ترجمہ ہم نے اسی مفہوم کے لحاظ سے کیا ہے۔

۵۶۲؎ اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا حوالہ یہاں جس پہلو سے آیا ہے ، استاذ امام امین احسن اصلاحی اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں :

              ’’عزیز کی صفت کے حوالہ سے دو حقیقتوں کی طرف اشارہ مقصود ہے ۔ ایک تو اس حقیقت کی طرف کہ خدا کوئی کمزور و ناتواں ہستی نہیں ہے ، بلکہ وہ غالب و توانا ہے تو جو اس کی تنبیہات کے باوجود شیطان کی پیروی کریں گے ، ان کو وہ اس عذاب میں ضرور پکڑے گا جو شیطان کے پیرووں کے لیے اس نے مقدر کر رکھا ہے اور جس کی اس نے پہلے سے خبر دے رکھی ہے ۔ دوسرا اس طرف کہ جو لوگ ان واضح ہدایات کے بعد بھی راہ حق کو چھوڑ کر شیطان ہی کی پیروی اختیار کریں گے، وہ خدا کا کچھ نہیں بگاڑیں گے ، بلکہ اپنا ہی بگاڑیں گے ۔ اس لیے کہ خدا عزیز ہے ، یعنی ہر نفع و نقصان سے بالاتر۔
              اسی طرح حکیم کی صفت بھی یہاں دو حقیقتوں کو نمایاں کر رہی ہے ۔ ایک تو یہ کہ اس دنیا کا خالق حکیم ہے اور اس کے حکیم ہونے کا یہ بدیہی تقاضا ہے کہ وہ اپنی ہدایت پر جمے رہنے والوں اور اس سے منحرف ہو جانے والوں کے درمیان ان کے انجام کے لحاظ سے امتیاز کرے ۔ اگر وہ ان میں کوئی امتیاز نہ کرے ، بلکہ دونوں کو ان کے حال پر چھوڑ دے یا دونوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ ایک حکیم نہیں ، بلکہ ایک کھلنڈرا ہے اور یہ دنیا ایک پرحکمت اور بامقصد کارخانہ نہیں، بلکہ کسی کھلنڈرے کا کھیل تماشا ہے ۔ دوسری یہ کہ بدی اور نیکی کے نتائج کے ظہور میں جو دیر سویر ہوتی ہے ، وہ سب حکمت پر مبنی ہوتی ہے ۔ بسا اوقات شیطان کے پیروکاروں کو اللہ تعالیٰ مہلت دیتا ہے اور بسا اوقات اہل حق کسی آزمایش میں ڈالے جاتے ہیں ۔ اس سے نہ تو اہل باطل کو مغرور ہونا چاہیے نہ اہل حق کو مایوس، بلکہ یہ یقین رکھنا چاہیے کہ وہ مہلت اور یہ آزمایش ، دونوں خداے حکیم و دانا کی حکمت پر مبنی ہیں ، اور اس حکمت کے تحت اس کے قوانین اور ان کے نتائج بالکل قطعی اور اٹل ہیں ، ان میں سر مو فرق ممکن نہیں ہے ۔ ‘‘ (تدبر قرآن ۱ /۴۹۹)

۵۶۳؎ یہ منافقین چونکہ زیادہ تر بنی اسرائیل کے گروہ سے تعلق رکھتے تھے ، اس لیے فرمایا ہے کہ اپنے ان بھائیوں ہی سے پوچھ لو ، وہ تمھیں بتائیں گے کہ جو لوگ عقل اور سمجھ سے کام نہیں لیتے ، ان کی آنکھیں بڑے سے بڑا معجزہ دیکھ لینے کے بعد بھی بند ہی رہتی ہیں ۔

۵۶۴؎ یہ جس فریب نظر کی وجہ سے ہوتا ہے ، استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے :

              ’’اس دنیا کی زندگی میں حق اور باطل اور کفرو ایمان ، دونوں کو مہلت ملی ہوئی ہے ۔ کوئی شخص اگر نیکی اور اطاعت کی راہ اختیار کرتا ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ وہ ابتلا کے قانون سے بالاتر ہو جائے، بلکہ بعض حالات میں اس کا ابتلا اس کے ایمان کے اعتبار سے سخت سے سخت تر ہوتا جاتا ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کفر و نافرمانی کی زندگی گزارنا چاہتا ہے تو اس کے لیے بھی سنت الہٰی یہ نہیں ہے کہ فوراً خدا کے فرشتے اتر کر اس کی گردن ناپ دیں ، بلکہ اکثر حالات میں اس کو ایسی ڈھیل پر ڈھیل ملتی جاتی ہے کہ اس کی جسارت دن پر دن بڑھتی ہی جاتی ہے ۔ اسی فریب نظر کو یہاں ’زین‘ سے تعبیر فرمایا ہے ۔ یعنی اس دنیاوی زندگی کا یہ فریب اس طرح ان کی نگاہوں میں کھبا دیا گیا ہے کہ وہ اس کے اس پہلو سے نگاہ ہٹا کر کسی اور پہلو سے اس کو دیکھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے ۔ ظاہر ہے کہ ان کی نگاہوں میں اس زندگی کی اس خاص پہلو سے تزئین شیطان نے کی ہے ، جیسا کہ قرآن مجید کے دوسرے مقامات میں اس کی تصریح ہے ۔ اور یہ امر بھی ظاہر ہے کہ شیطان کو اس تزئین کا موقع انسان کی عاجلہ پرستی اور اتباع شہوات نے فراہم کیا ہے ۔ ‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۵۰۱)

۵۶۵؎ یعنی اس طرح عطا فرمائے گا کہ توقعات اور اندازوں کے تمام پیمانے اسے ناپنے سے قاصر رہ جائیں گے ۔

۵۶۶؎ یعنی کہتے ہیں کہ حق و باطل کا معاملہ کچھ ایسا واضح نہیں ہے کہ اس کے لیے ہم بالکل ہی یک سو ہو کر کھڑے ہو جائیں ۔ اس میں اختلافات ہیں اور ان کا ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ اس معاملے میں کوئی حتمی بات کہنا کسی شخص کے لیے ممکن نہیں ہے ۔ لہٰذا جو کشمکش اس وقت برپا ہے ، اس میں غیر جانب داری کا وہی رویہ صحیح ہے جو ہم نے اختیار کر رکھا ہے ۔

۵۶۷؎ اصل میں لفظ ’اذن‘ آیا ہے جس کے معنی اجازت کے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اجازت امہال کے لیے بھی ہوتی ہے اور توفیق کے لیے بھی ۔ یہاں موقع کلام دلیل ہے کہ یہ توفیق کے لیے ہے ۔

۵۶۸؎ مطلب یہ ہے کہ حق تو ہمیشہ سے واضح رہا ہے اور اب بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کے ذریعے سے اسے پوری طرح واضح کر دیا ہے ، لیکن اس کو پانے کے لیے پہلی شرط یہی ہے کہ آدمی ضدم ضدا کا رویہ چھوڑ دے اور حق کا سچا طالب بن کر کتاب الہٰی کی طرف رجوع کرے ۔ ہدایت و ضلالت کے باب میں یہ اللہ کا قانون ہے اور اللہ اسی کے مطابق لوگوں کو سیدھی راہ دکھاتا ہے ۔

۵۶۹؎ یعنی رسولوں کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی دینونت جب بھی کسی سرزمین میں برپا ہوئی ہے ، اس کا طریقہ یہی رہا ہے کہ سزا بھی اتمام حجت کے بعد دی جاتی ہے اور سرفرازی کا فیصلہ بھی ایمان لانے والوں کے بعض غیر معمولی آزمایشوں سے گزرنے کے بعد ہی کیا جاتا ہے ۔ اللہ کی مدد ، جس طرح تم چاہتے ہو ، اس طرح نہ اس سے پہلے کبھی آئی ہے اور نہ اب آئے گی ۔ یہ سنت الہٰی ہے اور اللہ کبھی اس کی خلاف ورزی نہیں کرتے ۔

[باقی]

ــــــــــــــــــــــ

B