HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

ذریت آدم

(مشکوٰۃ المصابیح حدیث: ۹۶۔۹۷)


عن مسلم بن یسار قال : سئل عمر بن الخطاب [رضی اللّٰہ عنہ]عن ہذہ الآیۃ: و إذ أخذ ربک من بنی آدم من ظہورہم ذریتہم ۔ قال عمر : سمعت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یسأل عنہا ۔ فقال: إن اﷲ خلق آدم ۔ ثم مسح ظہرہ بیمینہ ۔ فاستخرج منہ ذریۃ۔ فقال : خلقت ہؤلاء للجنۃ و بعمل اہل الجنۃ یعملون ۔ ثم مسح ظہرہ۔ فاستخرج منہ ذریۃ۔ فقال: خلقت ھؤلاء للنار ۔ وبعمل اہل النار یعملون۔ فقال رجل : ففیم العمل ، یارسول اﷲ ؟ فقال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم : إن اﷲ إذا خلق العبد للجنۃ ، استعملہ بعمل أہل الجنۃ حتی یموت علی عمل أہل الجنۃ ۔ فیدخلہ بہ الجنۃ ۔ وإذا خلق العبد للنار ، استعملہ بعمل أہل النار ، حتی یموت علی عمل من أعمال أہل النار۔ فیدخلہ بہ النار۔
’’مسلم بن یسار روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے آیت : ’و إذ أخذ ربک من بنی آدم من ظہورہم ذریتہم ‘ کے بار ے میں سوال کیا گیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ (ایک مرتبہ )میں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے سنا تھا ۔ آپ نے بتایا تھا : اللہ تعالیٰ نے( حضرت ) آدم (علیہ السلام ) کو پیدا کیا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی کمر پر اپنا دایاں ہاتھ پھیرا ۔ اس طرح اس سے ایک نسل (یعنی اولاد آدم کی ایک جماعت ) نکال لی ۔ پھر کہا: ہم نے اسے جنت کے لیے پیدا کیا ہے ۔ اور یہ لوگ اہل جنت والے اعمال کریں گے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے (دوبارہ)کمر پر ہاتھ پھیرا ۔ اور ایک دوسری جماعت نکال لی ۔ ارشاد فرمایا : اسے میں نے جہنم کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ لوگ اہل جہنم والے اعمال کریں گے ۔ اس پر ایک آدمی نے پوچھا : یارسول اللہ ، پھر عمل کس مقصد کے لیے ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ جب کسی آدمی کو جنت کے اعمال کے لیے پیدا کرتے ہیں تو اسے اہل جنت کے اعمال پر لگا دیتے ہیں ، یہاں تک کہ وہ اہل جنت والے اعمال کرتے ہوئے مرتا ہے اور ان اعمال کے نتیجے میں جنت میں داخل ہو جائے گا۔ اور جب کسی آدمی کو جہنم کے لیے پیدا کرتے ہیں تو اسے اہل جہنم کے اعمال پر لگا دیتے ہیں ، یہاں تک کہ وہ اہل جہنم کے اعمال کرتے ہوئے مرتا ہے اور ان کے نتیجے میں جہنم میں داخل ہو جائے گا۔ ‘‘
لغوی مباحث

ثم مسح ظہرہ بیمینہ:ان الفاظ میں جو بات بیان ہوئی ہے ، وہ تمثیل و تشبیہ کے پیرائے میں ہے ۔ اس کی حقیقت طے کرنے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں۔

استعملہ بعمل اہل الجنۃ :یعنی انھیں اہل جنت کے عمل کرنے کی توفیق دی جاتی ہے ۔

متون

ذریت آدم سے لیے گئے عہد سے متعلق یہ روایت کتب حدیث میں کم وبیش انھی الفاظ میں نقل ہوئی ہے ۔ کچھ راویوں نے روایت کے آخر میں’ فیدخلہ بہ الجنۃ‘ والا جملہ ’فیدخلہ ربہ الجنۃ‘یا ’فیدخل الجنۃ‘ کے الفاظ میں بیان کیا ہے ۔ دو تین سو سال کے بعد کی کتب میں اتنے معمولی فرق کی وجہ غالبا مًؤطا امام مالک میں اس روایت کا ضبط تحریر میں آجانا ہے ۔البتہ صحیح ابن حبان میں اس روایت کا ایک ملخص نقل ہوا ہے اور اس کے الفاظ کافی مختلف ہو گئے ہیں ۔روایت کے الفاظ ہیں:

حدثنی عبدالرحمن بن قتادہ : سمعت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یقول: خلق اﷲ آدم ثم أخذ الخلق من ظہرہ فقال ھؤلاء فی الجنۃ ولاأبالی، فقال ھؤلاء فی النار ولا أبالی قال قائل یا رسول اﷲ فعلی ماذا نعمل ؟ قال علی مواقع القدر۔ (صحیح ابن حبان ، رقم ۳۳۸)
’’ عبدالرحمن بن قتادہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا پھر ان کی پشت سے مخلوق کو نکالا پھر کہا : یہ جنت میں جائیں گے اور مجھے کچھ پروا نہیں ۔ پھر کہا یہ جہنم میں جائیں گے اور مجھے کچھ پروا نہیں۔اس پر ایک پوچھنے والے نے پوچھا : پھر ہم عمل کس لیے کریں ؟ آپ نے جواب دیا تقدیر کے پیداشدہ مواقع کے مطابق عمل کرو۔‘‘

مستدرک میں اس واقعے کے متعلق ایک اور روایت نقل ہوئی ہے ۔ اگرچہ یہ روایت زیر بحث روایت کا متن نہیں ہے ، لیکن اس میں عہد الست کو ایک اور طریقے سے بیان کیا گیا ہے :

عن عباس عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال أخذ اللّٰہ المیثاق من ظہر آدم فأخرج من صلبہ ذریۃ ذراہا فنثرہم نثرا بین یدیہ کالذر ثم کلمہم فقال ألست بربکم قالوا بلی شہدنا أن تقولوا یوم القیامۃ إنا کنا عن ہذا غافلین أو تقولوا إنما أشرک آباؤنا من قبل و کنا ذریۃ من بعدہم أفتہلکنا بما فعل المبطلون؟ (المستدرک ، رقم ۷۵)
’’ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی پشتوں سے عہد لیا ۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے آدم کی پیٹھ سے نسل آدم کو نکالا پھر اسے اپنے سامنے دانوں کی طرح بکھیر دیا ۔ پھر ان سے کلام کیا اور پوچھا : کیا میں تمھارا مالک نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا : کیوں نہیں ، ہم اس کا برملااقرارکرتے ہیں۔ (یہ ہم نے اس لیے کیا )کہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہو کہ ہم اس (حقیقت ) سے بے خبر تھے یا یہ کہو کہ شرک تو ہم سے پہلے ہمارے آبا نے کیا تھا ، ہم تو ان کے بعد ان کی نسل سے ۔ کیا آپ ہمیں ان باطل پرستوں کے کیے پر ہلاک کردیں گے؟ ‘‘

واقعے کی یہ صورت قرآن مجید کے عین مطابق ہے ۔ زیر بحث روایت اور اس کے متون قرآن مجید سے اتنی واضح مطابقت نہیں رکھتے ۔

معنی

اس روایت کی توضیح سے پہلے قرآن مجید کے اس مقام کا مطالعہ مفید مطلب ہے جس کا ذکر اس روایت میں آیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْ ٓ آدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَ اَشْہَدَہُمْ عَلیٰٓ اَنْفُسِہِمْ ، اَ لَسْتُ بِرَبِّکُمْ ، قَالُوْا بَلیٰ ، شَہِدْنَا ۔ اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیَمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ہٰذَا غٰفِلِیْنَ ۔ اَوْ تَقُوْلُوْا اِنِّمَا اَشْرَکَ اٰبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَ کُنَّا ذُرِّیَّۃً مِّنْ بَعْدِہِمْ ، اَفَتُہْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ ۔ (الاعراف ۷ : ۱۷۲ ۔ ۱۷۳)
’’ اور یاد کرو ، جب نکالا تمھارے رب نے بنی آدم سے، ان کی پیٹھوں سے ، ان کی ذریت کو اور ان کو گواہ ٹھیرایا خود ان کے اوپر۔ پوچھا : کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ بولے ، ہاں تو ہمارا رب ہے۔ ہم اس کے گواہ ہیں۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ مبادا قیامت کوتم عذر کرو کہ ہم تو اس سے بے خبر ہی رہے یا عذر کرو کہ ہمارے باپ دادا نے پہلے سے شرک کیا اور ہم ان کے بعد ان کے خلف ہوئے تو کیا باطل پرستوں کے عمل کی پاداش میں تو ہم کو ہلاک کرے گا۔‘‘

مزید توضیح کے لیے ہم ’’تدبر قرآن‘‘ سے اہم نکات یہاں درج کریں گے :

’’’من بنی آدم من ظہورہم ‘ میں ’من ظہورہم‘ ، ’ من بنی آدم ‘سے بدل واقع ہوا ہے اور اس بدل کے لانے سے مقصود اس حقیقت کا اظہار ہے کہ بنی آدم سے متعلق یہاں جو حقیقت بیان ہوئی ہے ، وہ کسی خاص دور کے بنی آدم سے متعلق نہیں ہے۔
... اللہ تعالیٰ نے تمام بنی آدم سے اپنی ربوبیت کا اقرار لیا ... یہ اقرار اللہ تعالیٰ نے اس صرف اس بات کا نہیں لیا کہ وہ اللہ ہے بلکہ اس بات کا بھی لیا کہ وہی رب بھی ہے ۔یہ ملحوظ رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ اہل عرب کو اللہ کے اللہ ہونے سے انکار نہیں تھا ۔ لیکن رب انھوں نے اللہ کے سوا اور بھی بنا لیے تھے ۔ حالانکہ عہد فطرت میں اقرار صرف اللہ ہی کی ربوبیت کا ہے ۔‘‘(۳ /۳۹۲)

مزید برآں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس واقعے کی وجہ سے اب انسان کے لیے یہ ممکن نہیں ہوگا کہ وہ اپنی بے خبری اور ماحول کے اثرات کو قیامت کے دن عذر کے طور پر پیش کر سکے ۔ مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں :

’’... جہاں تک توحید اوربدیہات فطرت کا تعلق ہے ، ان کے باب میں قیامت کے دن مواخذہ ہر شخص سے مجرد اس اقرار کی بنا پر ہوگا جو مذکور ہوا ۔ قطع نظر اس کے کہ اس کو کسی نبی کی دعوت پہنچی یا نہیں ۔
۔۔۔ اسی طرح ان لوگوں کا یہ عذر بھی کچھ کام نہ آئے گا کہ ہمارے باپ دادا مشرک تھے ، ہم انھی کے ہاں پیدا ہوئے اور پھر قدرتی طور پر ہم نے انھی کے طریقے کی پیروی کی ، اس وجہ سے یہ جرم ہمارا نہیں ، بلکہ ان کا ہے ۔ اس کی سزا ان کو ملنی چاہیے نہ کہ ہم کو ۔ مطلب یہ ہوا کہ یہ اقرار توحید انسان کی فطرت کے اندر ودیعت ہے ۔ اس وجہ سے اس باطنی شہادت سے انحراف کے لیے خارجی اثرات کا عذر بھی کسی کا خدا کے ہاں مسموع نہیں ہوگا۔‘‘ (تدبر قرآن ۳/ ۳۹۳)

ان آیات میں تین باتیں روایت کے ظاہری معنی سے مختلف ہیں ۔ ایک یہ کہ تمام نسل انسانی کو حضرت آدم کی پشت سے نکالا گیا تھا۔ قرآن مجید نے نہایت ایجاز کے اسلوب میں یہ بات بیان کی ہے کہ ہر شخص اسی ترتیب سے ظاہر ہوا جس ترتیب سے وہ دنیا میں پیدا ہو رہا ہے ۔روایت کی یہ توجیہ کی جاسکتی ہے کہ اس میں اصل واقعے کی طرف محض اشارہ ہے ۔ لہٰذا اس کے اجمال کو قرآن مجید کی روشنی میں سمجھ لینا چاہیے ۔ لیکن روایت میں مذکور اگلی بات اس توجیہ کو ناقابل قبول بنا دیتی ہے ۔ یعنی یہ بات کہ آد م علیہ السلام کی کمر پر ایک مرتبہ ہاتھ پھیرا تو جنتی پیدا کردیے اور دوسری مرتبہ ہاتھ پھیرا تو جہنمی۔ بالبداہت واضح ہے کہ نسل انسانی میں جنتی اور جہنمی ملے جلے ہیں ۔ جب قرآن مجید کے مطابق نسل انسانی کو ان کی حقیقی ترتیب کے مطابق نکالا گیاتھا تو روایت میں جنتی اور جہنمی کی گروہ بندی دوسرے مرحلے کی حیثیت سے بیان ہونی چاہیے تھی۔

دوسری مختلف بات یہ کہ تخلیق کا یہ عمل جنتیوں اور جہنمیوں کو متعارف کرانے کے لیے کیا گیا تھا ۔ قرآن مجید سے یہ بالکل واضح ہے کہ یہ کائنات کی سب سے بڑی حقیقت کے اقرار کا موقع ہے ۔قرآن مجید سے یہ بھی واضح ہے کہ حق کے اقرار میں کسی نے کوئی پس وپیش نہیں کی ۔ جب سب نے حق قبول کر لیا ۔ اس کے باوجود یہ تقسیم کہ ایک گروہ جہنمی ہے اور ایک جنتی ایک بے محل بات لگتی ہے ۔

تیسری مختلف بات یہ ہے کہ جنت اور جہنم کا فیصلہ تقدیر پرموقوف ہے ۔یہ آیات واضح طور پر اللہ تعالیٰ کے کامل عدل کو بیان کرتی ہیں ۔اس میں بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فطرت میں حق ودیعت کیا ہے ۔ اس لیے کسی بھی شخص کو حق کے پہچاننے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی ۔ الست کا وعدہ لینے کا معاملہ اس لیے کیا گیا ہے تاکہ کوئی شخص اپنے ماحول کے برے اثرات یا اپنی بے علمی کو بطور عذر پیش نہ کر سکے ۔اس آیت سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ دونوں عذر اہم ہیں اور اگر یہ حقیقی ہوتے تو عذاب سے چھٹکارے کا باعث بھی بن سکتے تھے ۔روایت میں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس میں یہ بیان کر دیا گیا ہے کہ جنت اور جہنم کا فیصلہ ازل سے کر دیا گیا ہے ۔

ان نکات کے متعین ہونے سے واضح ہے کہ روایت کے ان الفاظ کو درست ماننا ممکن نہیں ہے ۔ روایت اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی نسبت میں درست ہے تو یقیناًاس سے مختلف الفاظ میں ہو گی ۔یہاں یہ بات واضح رہے کہ محدثین کے نزدیک یہ روایت منقطع ہے ۔ یعنی سند کے اعتبار سے یہ ایک ضعیف روایت ہے اور ہماری توضیحات سے واضح ہے کہ متن کے اعتبار سے بھی محل نظر ہے ۔

ہم اس سے پہلے کی روایات کی وضاحت کرتے ہوئے یہ بیان کر چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے غیب کے علم کی بنیاد پر یہ جان لیا ہے کہ کون جنت میں جائیں گے اور کون جہنم میں جائیں گے ۔ ممکن ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی موقع پر عہد الست کے واقعے کے ساتھ اس حقیقت کو بیان بھی کیا ہو اور راویوں کے اس کے خلط ملط کردینے کی وجہ سے روایت نے یہ صورت اختیار کر لی ہو۔ اوپر درج متون کے مطالعے سے یہ امکان کافی قوی ہو جاتا ہے ۔

باقی رہا ’ففیم العمل‘ کا سوال تو یہ ایک اہم سوال ہے ۔ قرآن مجید واضح ہے کہ ہمیں عمل صالح و عمل بد اور حق اور باطل کے اپنانے کی پوری آزادی حاصل ہے اور ہم اسی آزمایش میں ڈالے گئے ہیں ۔ یہی اس دنیا کی تقدیر ہے اور ہمیں اسی کے مطابق عمل کرنا ہے۔اور غالباً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب ’علی مواقع القدر‘حقیقت معاملہ کے اسی پہلوپر مبنی ہے ۔

کتابیات

ترمذی ، کتاب تفسیر القرآن ، رقم ۳۰۰۱۔ ابوداؤد ، کتاب السنہ ، رقم ۴۰۸۱۔ مالک ، کتاب الجامع ، رقم ۱۳۹۵۔المستدرک ، ۷۴۔۷۵ ۔۳۲۵۶۔ ۴۰۰۱۔ ابن حبان ،رقم ۳۳۸۔ ۶۱۶۶۔

_______

 

دو کتابیں

عن عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ قال : خرج رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ، و فی یدیہ کتابان ۔ فقال : أتدرون ما ہذان الکتابان ؟ قلنا : لا ، یا رسول اﷲ إلا أن تخبرنا۔ فقال الذی فی یدہ الیمنی : ہذا کتاب من رب العالمین ، فیہ أسماء أہل الجنۃ ، وأسماء آباۂم و قبائلہم ، ثم أجمل علی آخرہم ، فلا یزاد فیہم ولا ینقص منہم أبدا ۔ ثم قال الذی فی شمالہ : ہذا کتاب من رب العالمین ، فیہ أسماء أہل النار وأسماء آباۂم و قبائلہم ، ثم أجمل علی آخرہم ، فلا یزاد فیہم ولا ینقص منہم أبدا ۔ فقال أصحابہ : ففیم العمل یا رسول اﷲ ، إن کان أمر قد فرغ منہ ؟ فقال سددوا وقاربوا ، فإن صاحب الجنۃ یختم لہ بعمل أہل الجنۃ و إن عمل أی عمل ۔ وإن صاحب النار یختم لہ بعمل أہل النار وإن عمل أی عمل ۔ثم قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بیدیہ فنبذہما قال فرغ ربکم من العباد فریق فی الجنۃ و فریق فی السعیر۔
’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور آپ کے ہاتھوں میں دو کتابیں تھیں ۔ آپ نے پوچھا ، جانتے ہو یہ دو کتابیں کیا ہیں ؟ ہم نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ الاّ یہ کہ آپ ہمیں بتا دیں ۔ پھر آپ نے اپنے دائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں بتایا : یہ کتاب پروردگارعالم کی طرف سے ہے ۔ اس میں اہل جنت کے نام ہیں ۔ اور ان کے آبا اورقبیلوں کے نام ہیں ۔ آخر میں حساب مکمل کر دیا گیا ہے ۔چنانچہ نہ اس میں کبھی کوئی کمی ہو گی نہ اس میں کوئی اضافہ ہو گا ۔ پھر اپنے بائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں فرمایا : اس میں اہل جہنم کے نام ہیں ۔ اور ان کے آبا اور ان کے قبیلوں کے نام ہیں ۔ پھر آخر میں حساب کر دیا گیا ہے ۔ نہ اس میں کوئی اضافہ ہو گانہ اس میں کبھی کوئی کمی ہوگی ۔ صحابہ نے پوچھا : یار سول اللہ اگر صورت یہ ہے کہ معاملہ نمٹا دیا گیا ہے تو عمل کس لیے ؟ آپ نے فرمایا : اپنا معاملہ سیدھا اور درست رکھو اوراس طرح اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرو، کیونکہ اہل جنت کے لیے طے کر دیا جاتا ہے کہ ان کی آخری زندگی اہل جنت کے عمل والی ہوگی خواہ انھوں نے کوئی بھی عمل کیا ہو۔ اسی طرح اہل جہنم کے لیے طے ہوتا ہے کہ ان کی آخری زندگی جہنمیوں والے اعمال کی ہوگی خواہ انھوں نے کوئی بھی عمل کیا ہو۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کی طرف اشارہ کیا ۔ پھر آپ نے دونوں (کتابیں ) پھینک دیں۔ آپ نے فرمایا : ان بندوں کا معاملہ طے کرکے تمھارا پروردگار فارغ ہو چکا ہے ۔ ایک فریق جنت میں ہے اور ایک جہنم میں ۔ ‘‘
لغوی مباحث

أجمل علی آخرہم : اس کے آخر میں خلاصہ کر دیا گیا ہے ۔ یہ حساب کے مکمل کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ یعنی پہلے تفصیلی حساب لکھا جاتا ہے ۔ آخر میں اہم حاصلات کو ایک سمری کی صورت میں درج کر دیا جاتا ہے ۔یعنی اس معاملے کی لکھت پڑھت مکمل ہو گئی ہے ۔اب اس میں نہ کوئی اضافہ پیش نظر ہے اور نہ اس میں کسی ترمیم کا اب کوئی امکان ہے۔

سددوا و قاربوا :تسدید کا مطلب سیدھا کرنا یا سیدھی راہ پر چلنا ہے ۔ مقاربت کے معنی قریب ہونے یا بیچ کی راہ اختیار کرنے کے ہیں۔ یہاں ان کے مفعول بہ بر بناے قرینہ حذف ہیں ۔ ہمارے نزدیک پوری بات یوں ہے : سددوا اعمالکم و قاربوا اللّٰہ۔

فنبذہما:پھر آپ نے ان کتابوں کو پھینک دیا ۔ یہ جملہ بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ اس سے ان کتابوں کی اہانت کا پہلو نکلتا ہے ۔ اس کے دو حل کیے گئے ہیں ۔ ایک یہ کہ کتابیں اوپر کی طرف پھینکی گئیں۔ یعنی جس طرف سے آئی تھیں ادھر واپس کردیں ۔ دوسرے یہ کہ کتابیں غیر مرئی تھیں ۔ لوٹانے کے اشارے کو راوی نے ان الفاظ سے تعبیر کر دیا ہے ۔بظاہر روایت زیادہ امکان اسی کا ہے کہ کتابیں غیر مرئی نہیں تھیں ، جب آپ نے بات مکمل کر لی آپ نے انھیں لوٹا دیا۔

فرغ ربکم بالعباد :تمھارا پروردگار ان بندوں کے معاملے سے فارغ ہو گیا ۔ یعنی یہ معاملہ نمٹا دیا گیا ہے۔

متون

یہ روایت بھی کم وبیش انھی الفاظ میں مروی ہے ۔ چند لفظی اختلافات ہیں ۔ مثلاً، ایک روایت میں ’ہذا کتاب من رب العالمین فیہ أسماء۔۔۔‘کے بجائے ’ہذا کتاب أہل النار ۔۔۔‘ کے الفاظ ہیں اور ایک دوسری روایت میں آخری جملہ ’العمل بخواتمہ‘یا ’فالعمل الی خاتمہ‘ہے ۔ المعجم الاوسط میں یہ روایت کافی مختلف انداز میں نقل ہوئی ہے ۔مثلاً،روایت کا آغاز اس طرح سے ہوا ہے :

صعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم علی المنبر فحمد اﷲ واثنی علیہ وقال کتاب کتبہ اﷲ فیہ أسماء۔۔۔۔ (رقم ۵۲۱۹)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے ۔آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کی ۔ پھر آپ نے فرمایا : یہ ایک کتاب ہے ۔ اسے اللہ تعالیٰ نے لکھا ہے ۔ اس میں نام ہیں ۔۔۔‘‘

آگے کی تفصیلات بھی اگرچہ مختلف الفاظ میں بیان ہوئی ہیں ، لیکن معنی کے اعتبار سے کوئی اہم فرق نہیں ہے ۔

معنی

اس روایت میں ایک اہم واقعہ بیان ہوا ہے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر آئے تو آپ کے ہاتھوں میں دو کتابیں تھیں ۔ آپ نے بتایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور ایک کتاب میں اہل جنت کے نام نسب کے ساتھ لکھے ہوئے ہیں اور دوسری میں اہل جہنم کے ۔ حساب مکمل کردیا گیا ہے اور اب اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہو گی ۔ لوگوں نے بجا طور پر پوچھا ہے کہ اب ہمیں عمل کی کیا ضرورت ہے۔ آپ نے بتایا کہ ہر ایک کا فیصلہ اس کی موت تک کے اعمال کی بنیاد پر ہو گا ، چنانچہ اپنے عمل ٹھیک رکھو اور خدا کی رضااور قرب پانے کی کوشش کرتے رہو۔

شارحین نے روایت کو تمام انسانوں سے متعلق لیا ہے اور اسے تقدیر کے بیان کے معنی ہی میں لیا ہے ۔ گویا ان کے نزدیک اس روایت کا مضمون بھی وہی ہے جو اس سے پہلے کی روایات میں بیان ہو چکا ہے ۔اس روایت سے البتہ ، ایک اضافی بات معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام بنی آدم کے جنتیوں اور جہنمیوں کے بارے میں تفصیل سے بتا دیا تھا ۔بظاہر اس روایت کے یہی معنی ہیں ۔ ہم حسب سابق یہاں بھی یہی وضاحت کرتے کہ یہ علم کا بیان ہے ۔ اس سے کوئی جبر لازم نہیں آتا ۔ یعنی اس روایت کے وہ معنی نہیں لیے جا سکتے جو اللہ تعالیٰ کے قانون آزمایش اور نظام عدل کی نفی کرتے ہوں۔لیکن اس روایت میں ایک قرینہ ایسا ہے جس سے تمام انسانوں کے بجائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین تک محدود کرنے کا اشارہ ملتاہے۔ وہ قرینہ یہ ہے کہ آپ نے بتایا کہ اس میں اہل جنت اور اہل جہنم کے نام ولدیت اور قبیلے کی صراحت کے ساتھ لکھے گئے ہیں ۔ گویا یہ کتابیں اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے کا اعلان تھیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انذار کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے صادر ہوا تھا ۔ اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کار رسالت کے مکمل ہونے کا اشارہ بھی تھا اور آپ کے حقیقی دوستوں یعنی اہل ایمان اور دشمنوں یعنی اہل کفر ونفاق کے بارے میں تصریح بھی تھی ۔

اگراس روایت کے یہ معنی درست ہیں تو اس واقعے کے ظہور کا زمانہ سورۂ توبہ کے نزول سے ملحق ہونا چاہیے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سورۂ توبہ قرآن مجید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کار رسالت کی تکمیل کی سورہ ہے ۔ استاذ محترم جناب جاوید احمد غامدی کی تصریح کے مطابق اس سورہ میں اہل ایمان اور اہل کفر ونفاق کے تمام طبقات کا انجام بیان ہوا ہے ۔ چنانچہ یہی موقع سب سے زیادہ موزوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے تمام مخاطبین کی اصل حقیقت یعنی آخری انجام بتا دیا جائے ۔

ضمنی طور پر یہ بات واضح رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کتابوں سے حاصل ہونے والی معلومات سے کسی کو آگاہ نہیں کیا تھا ۔ آپ نے یہ بات صحابہ کو صرف اس پہلو سے بتائی ہے کہ مجھے اتمام حجت کی جس ذمہ داری پر فائز کیا گیا تھا ، وہ مکمل ہو گئی ہے اور اس کے نتائج بھی مرتب و معین ہوگئے ہیں۔

کتابیات

المعجم الاوسط ، رقم ۵۲۱۹۔ ترمذی ، رقم ۲۰۶۷۔ مسند احمد ۶۲۷۵۔

____________

B