HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

متفرق مضامین

خدا کی رحمت خدا کا عذاب

اگر اللہ لوگوں کے لیے عذاب کے معاملے میں ویسی ہی سبقت کرنے والا ہوتا جس طرح وہ ان کے ساتھ رحمت میں سبقت کرتا ہے تو ان کی مدت تمام کر دی گئی ہوتی (یعنی ان کا خاتمہ ہوجاتا) تو ہم ان لوگوں کو جو ہماری ملاقات کی توقع نہیں رکھتے ان کی سرکشی میں بھٹکتے رہنے کے لیے ڈھیل دے دیتے ہیں ۔ (یونس ۱۰: ۱۱)

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بندوں کو اپنے فضل و رحمت سے نوازنے اور ان پر قہر نازل کرنے کے بارے میں اپنی سنت بیان کی ہے کہ وہ لوگوں پررحمت کرنے میں جلدی کرتا ہے، مگر عذاب بھیجنے اور سزا دینے کی صورت میں آخری درجے میں ضبط و تحمل سے کام لیتا اور اپنی حکمت کے لحاظ سے ٹالتا رہتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا اپنی رحمت کے ظہور کے لیے بنائی ہے ۔ رحمت کا یہ ظہور ارادے کی آزادی اور اختیار کے صحیح استعمال کے ساتھ وابستہ ہے ۔ خدا چاہتا ہے کہ بندے اسی کی عنایات، فضل و احسان اور مہربانیوں کے قدردان بن کر جینے کا عہد کریں اور ہرحال میں نیکی کی راہ اختیار کیے رکھیں ۔ اس کے عوض میں وہ اپنے بندوں کو دنیا و آخرت، دونوں میں اپنے فضل و کرم کا سزاوار ٹھیراتا ہے ۔ اللہ ایسے لوگوں کو دنیا میں پاکیزہ زندگی گزارنے کے حالات کو سازگار بنا دیتا ہے ۔ وہ انھیں دنیا کی آزمایش میں صبر و استقامت کے ساتھ حق پر قائم رہنے کا حوصلہ دیتا ہے اور مصائب اور تکالیف کی صورت میں ان کے ایمان کو قوی کرتا ہے ۔ اس سے ان کے نفوس کا تزکیہ ہو جاتا ہے ۔ وہ مشکلات و مصائب کے باوجود سکون اور اطمینان محسوس کرتے ہیں اور اپنے رب پر ان کا یقین اور مضبوط ہو جاتا ہے ۔

اس کے برخلاف بندہ اگر عالم کے پروردگار کے بارے میں بے پروا اور سرکش ہو جائے اور نافرمان ہو کر شیطان کی راہ پر چلنے کا فیصلہ کر لے تو ایسا نہیں ہوتا کہ اس کی فوراً گرفت ہو جاتی ہے بلکہ اسے ڈھیل ملتی ہے ۔ اللہ اسے مہلت دیتے ہیں تاکہ وہ اگر چاہے تو اپنی اصلاح کر لے ۔ اس طرح کی مہلت ملنے کے باوجود بندہ اگر برائی پر جما رہے اور خدا کی طرف متوجہ نہ ہو اور اس ڈھیل ملنے کا فائدہ نہ اٹھائے تو پھر وہ خدا کے غضب کی زد میں آ جاتا ہے ۔ پھر ہو سکتا ہے کہ وہ اسی دنیا میں اس کو پکڑے اور اسے سزا بھی مل جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خدا اپنی حکمت کے تحت دنیا میں اس کی گرفت نہ کرے اور زندگی کے آخری سانس تک اسے کھل کھیلنے کا موقع ملا رہے ۔ یہ صورت مجرموں کی آزمایش کو مزید سخت کر دیتی ہے ۔ وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ سرکشی کے باوجود خدا اگر ان کا راستہ نہیں روک رہا، بلکہ انھیں زیادہ کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں تو خدا کی مرضی بھی یہی ہے کہ میں ایسی ہی زندگی گزاروں ۔ اس سے اس کی شقاوت اور بدبختی میں اضافہ ہوتا چلاجاتا ہے او ر بالآخر وہ شیطان کے راستے پر چلتے ہوئے زندگی کے آخری کنارے پر پہنچ جاتا ہے جہاں آخرت کی سختیاں اور جہنم کا عذاب اس کے منتظر ہوتے ہیں ۔

آیت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ خدا کے بارے میں یہ باغیانہ رویہ آخرت پر یقین نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ۔ واضح رہے کہ کسی حقیقت کو محض ماننا اور دل کے یقین کے ساتھ تسلیم کرنا دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔ محض ماننے سے یقین پیدا نہیں ہوتا اور یقین پیدا ہو جانے کے بعد ماننا ایک زندہ حقیقت بن جاتا ہے ۔

محمد اسلم نجمی

_______


پیمانہ

روز مرہ کی زندگی میں ہمیں قسم قسم کے معاملات پیش آتے ہیں ۔ گھریلو زندگی اور گھر کے باہر کے معاملات میں ہر طبیعت اور ہر مزاج کے لوگوں سے سابقہ پیش آتا ہے ۔ ہم میں سے ہر شخص اور اس میں کوئی استثنا نہیں ہے ، دوسروں کے لیے وجہ شکایت بنتا ہے ۔ کسی کو ہم سے تیمار داری نہ کرنے کی شکایت ہوتی ہے ۔ کسی کو ضرورت کے وقت تعاون نہ کرنے کی ۔ کسی کو کسی موقع پر ہم سے خفت اٹھانی پڑی ہے اور کسی کو ہم نے بد زبانی سے مجروح کیا ہے۔

یہ غلطیوں کی ایک نوعیت ہے ۔ اس سے آگے شکایات کی ایک اور دنیا بھی ہے جس کا ہمیں سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ یہ شکایات ہم سے وابستہ توقعات کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں ۔ کہیں ہم صحیح بیٹے ثابت نہیں ہو سکے ، کہیں صحیح والد ۔ کسی استاد کو شکایت ہے کہ ہم اچھے شاگرد نہیں ۔ اور ہم میں سے کوئی اگر استاد ہے تو اس کے بعض شاگر د شکایت کرتے ہیں کہ ہم اچھے استاد نہیں اگر کسی کا ماتحتوں سے واسطہ ہے تو بعض ماتحت اس سے شاکی ہیں اور اگر کوئی ماتحت ہے تو اس کا باس اسے اچھا نہیں گردانتا ۔چھوٹے بھائی بڑے بھائی کو اچھا سرپرست قرار نہیں دیتے اور بڑا بھائی چھوٹوں کا رویہ درست ماننے میں متأمل ہے۔ غرض یہ کہ ہمیں جو حیثیت حاصل ہے ، اس حیثیت میں ہم سے کچھ توقعات وابستہ ہیں اورجس کے نزدیک ہم توقعات پر پورے نہیں اترے وہ ہم سے شاکی نظر آتا ہے ۔

شکایت کی ایک سطح اس سے بھی بلند ہے ۔ اس کا سامنا ہم اس وقت کرتے ہیں جب لوگ ہمیں بہتر صلاحیت کا حامل یا زیادہ سمجھ دارخیال کرتے ہیں ۔ یہ معاملہ ہمیں اس وقت بھی پیش آتا ہے جب ہم نظریاتی یا مذہبی شخصیت کے طور پر سامنے آتے ہیں ۔ اب ہم لوگوں کی نظر میں ایک بڑے آدمی ہیں ۔’’بڑا آدمی‘‘ایک پیمانہ ہے ۔ ہمارے ہر ہر عمل کو اس پیمانے پر ناپا جا رہا ہے ۔ جہاں جہاں لوگوں کو ہمارے ہاں کوتاہی نظر آتی ہے، وہ ہم پرتنقید کرتے ہیں ۔

تنقید کی یہ یورش ہماری زندگی کو تلخ بنادیتی ہے ۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے ۔ اب ذرا اس کا دوسرا رخ دیکھیے ۔یعنی ہم اس تنقید کو کس طرح دیکھتے ہیں ۔ہم تنہائی میں بیٹھیں تو اس تنقید کا کیا جواب ہمارے ذہن میں آتا ہے ۔ لوگ تنقید کر رہے ہوں تو ہم اس کا کیا جواب دیتے ہیں ۔

بہت کم ایسا ہوتا ہے جب ہمیں کوئی تنقید درست لگتی ہے۔ بالعموم ہم اپنے ہر عمل کا کوئی نہ کوئی جواز رکھتے اور اسے پیش کر دیتے ہیں ۔ کبھی ہم اس کا جواز متعلقہ افراد کے رویے سے دیتے اور کبھی درپیش حالات سے اس کی گنجایش نکال لیتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک جواز ہم اپنے ضعف یعنی بحیثیت انسان اپنی محدودیت سے پیش کرتے ہیں ۔ کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ ہم اپنی محدودیت کا اعتراف لوگوں کے سامنے کریں ۔ لوگوں کے سامنے تو ہم تمام ذمہ داری دوسروں ہی پر ڈالتے ہیں ۔ لیکن تنہائی میں جب سائل اور مسؤل ہم خود ہی ہوتے ہیں تو یہ اعتراف ہمارے لیے بڑے اطمینان کا سامان بنتا ہے ۔

اس سارے تجزیے اور جواب سے ہمیں سب سے ایک شکایت پیدا ہو جاتی ہے ۔ہم محسوس کرتے ہیں کہ لوگوں نے ہمارا عذر قبول نہیں کیا۔ ہم خیال کرتے ہیں کہ بعض تقاضے غیر حقیقی ہیں ۔ اگر لوگوں کا تقاضا حقیقی ہوتا تو انھیں ہم سے کوئی شکایت نہ ہوتی ۔ غرض یہ کہ تنقید اور شکایات کا جواب دینے کے بعد ہم لوگوں کے رویے اور آرا میں تبدیلی کی توقع کرتے ہیں ، لیکن اکثر یہ توقع پوری نہیں ہوتی ۔ اس سے ہم اور دکھی ہو جاتے ہیں ۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنی تنقید اور شکایت کے جواب میں اپنے مخاطب کو یہی رویہ دیتے ہیں ؟کیا ہم اس کے ضعف کالحاظ کرتے اور اس کے عذر مان لیتے ہیں؟کیا ہمارے لینے اور دینے کے باٹ الگ الگ نہیں ہیں ؟کیا پیمانہ ایک نہیں ہونا چاہیے؟ دیکھیے، پیغمبر کا فرمان ہے :

’’(ایمان یہ ہے کہ ) تو لوگوں کے لیے وہی پسندکرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے اور جو اپنے لیے ناپسند کرے وہی لوگوں کے لیے نا پسند کرے ۔‘‘ (مسنداحمد ، عن معاذ بن جبل)

طالب محسن

_______

 

ایاک نستعین: ایک اہم پیغام

سورۂ فاتحہ جن مضامین کی حامل ہے، وہ یقیناً نہایت گہرے اور وسیع سمندر کے مانند ہیں: تصورِ رب ، ہدایت، اس کی بنیاد ، اس کی طلب ، اس کا شعور اور اس کی تاریخ کو جس خوبی سے اس سورہ میں تلمیح ، کنایے اور بیان کے اسالیب میں سمیٹا گیا ہے ، اس کی نظیر شاید ہی کسی کلام میں ملتی ہو ۔ ہم ان سب مضامین سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اس لیے کہ ان پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے قارئین کو ایک ایسی بات کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں، جسے وہ ہر روز پڑھتے ہیں، مگر اس کے اہم پیغام سے غیرا رادی طور پر بے اعتنائی سے گزرجاتے ہیں۔

سورۂ فاتحہ کا یہ پیغام اس کی آیت ’ایاک نعبد و ایاک نستعین ‘کے بین السطور ہے۔ ’نستعین‘ میں جس استعانت اور مدد کی بات کی گئی ہے ،وہ عام انسانی سطح پر مانگی گئی مدد نہیں ہے، بلکہ یہ وہ مدد ہے جو کسی مافوق الفطرت قوتوں کی مالک ذات سے مانگی گئی ہو۔ مثلاً ایک مدد دریا میں ڈوبنے والا ساحل پر چلتے راہ گیروں کو پکار کر مانگتا ہے جو وہاں موجود ہونے کی وجہ سے اس کی پکار سن سکتے ہیں اور پانی میں اتر کر اس کی جان بچا سکتے ہیں ۔

ایک مددوہ ہے جومثلاً ڈوبنے والا کسی ایسے شخص کو پکار کر مانگتا ہے جو نہ وہاں موجود ہوتا ہے اورنہ وہ راہ گیر کی طرح پانی میں اتر کر اس کی مدد کرتا ہے، بلکہ پکارنے والے کو یہ یقین ہوتاہے کہ وہ یہاں موجود نہ ہونے کے باوجود اس کی پکار سنتا ہے، اور پانی میں اترے بغیر اپنی جگہ پر بیٹھا بیٹھا اپنی غیر مرئی قوتوں سے اسے بچا سکتا ہے ۔ یہی استعانت یہاں ’نستعین‘ میں مراد ہے ۔ اگر اس استعانت کی حقیقت پر غور کیا جائے تو یہ ’نعبد‘ سے الگ نہیں ہے ،بلکہ اسی کا ایک بڑا حصہ ہے۔ استعانت دعا ہے اور دعا عبادت کا بھی مغز ہے ۔ چنانچہ اگر استعانت عبادت ہی کا ایک بڑا حصہ ہے تو پھر یہ سوال پید ا ہوتا ہے کہ اسے الگ سے بیان کیوں کیا گیا ہے اور اتنی اہم سورہ میں اسے ہی کیوں بیان کیا گیا ہے۔

اس کو الگ سے بیان کرنے کا ایک پہلو یہ ہے کہ اسلام کے بعد بالخصوص اور اسلام سے پہلے بالعموم، یہ بات تاریخ مذاہب میں دیکھی جا سکتی ہے کہ شرک کا آغاز ہمیشہ استعانت ہی سے ہوتا ہے: لوگ کچھ بزرگوں یا خیالی شخصیات کو خدا کا مقرب سمجھتے اور اپنے گناہوں کی معافی اور اپنے دنیوی مسائل کے حل کے لیے ان کی وساطت سے مددطلب کرتے ہیں۔

ٹھیک اسی طرح امت مسلمہ میں بھی بعض علاقوں اور مکاتب فکر میں شرک شروع ہو رہا ہے۔ یہ شرک استعانت ہی کی نوعیت کا ہے۔ لوگ ماضی و حال کی بعض شخصیات کو ’’وسیلہ‘‘ قرار دیتے اور ان سے اولاد ، مال و دولت کی محرومی کی صورت میں طالب مدد ہوتے ہیں۔

ہم سورۂ فاتحہ کی اس آیت کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کی اس راہ نمائی کو پورے وثوق سے سمجھ سکتے ہیں کہ یہ استعانت بھی شرک ہے۔ جس طرح کسی کے آگے سجدہ کرنا ممنوع ہے ،اسی طرح اس نوعیت کی مدد طلب کرنا بھی شرک و گناہ ہے۔ ’ایاک نعبد‘ کے بعد ’ایاک نستعین‘ کا اضافہ امت کی تعلیم کے لیے تھا ۔چونکہ پرستش اور استعانت دونوں میں شرک ہوتا ہے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہماری یاددہانی کے لیے ’ایاک نستعین ‘ کو سورۂ فاتحہ کا حصہ بنا دیا ہے تاکہ پانچ وقت کی نماز امت کو اس بات کی یاد دہانی کرائے کہ پرستش کی طر ح خدا کے سوا کسی سے طلب مدد یا استعانت بھی بچنے کی چیز ہے۔

خدا ہمیں’ایاک نعبد‘کے ساتھ ساتھ ’ایاک نستعین ‘ کا سبق یاد رکھنے اوراس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔

ساجد حمید

_______

 

جائزہ

ایک قید خانہ تھا ، جس میں بڑے بڑے ڈاکو اور قاتل بند تھے ۔ ہفتہ میں ایک دن کسی واعظ کو بلایا جاتا جو انھیں نصیحت کیا کرتا تھا۔ ایک بار کسی نوجوان واعظ کو دعوت دی گئی ۔ وہ جب ہال میں داخل ہوا تو درشت چہروں اور بے رحم نظروں نے اس کا استقبال کیا ۔ وہ گھبرا گیا۔ کسی شے میں اس کا پاؤں الجھا اور وہ گر گیا جس پر قیدی ہنسنے لگے ۔ نوجوان واعظ تقریر کرنے کے لیے کھڑا ہوا اور بولا : میں آپ کو یہی بتانے آیا تھا کہ آدمی گر جائے تو اٹھ بھی سکتا ہے ۔ گر جانا کوئی ایسی بات نہیں ، انسان خطا کا پتلا ہے ، ہر شخص سے بھول چوک ہو سکتی ہے ، مگر گرے رہنا بری بات ہے ۔ دوسرے الفاظ میں گناہ سرزد ہو جانا کوئی ایسی بات نہیں ۔ توبہ کے دروازے ہر وقت کھلے ہیں ، اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کے گناہ معاف کرنا بہت پسند ہے ،مگر سوچ سمجھ کر گناہ کرنا اور پھر اس پر جمے رہنابری بات ہے۔

اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملا کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ روزانہ اپنا جائزہ لے اور جو گناہ اس سے سرزد ہوئے ان سے بچنے پر غور کرے اور ان گناہوں سے جنھوں نے زندگی کو آلود ہ کیا ،ان کی بخشش کے لیے اللہ کی طرف رجوع کرے اور اللہ کے حضور میں جواب دہی کا احساس تازہ کرے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ دنیا کی آلایشوں اور بندھنوں میں پھنس کر اس حیاتِ دنیوی کی قیمتی مہلت کو کھو دے اور اللہ کی ابدی ناراضی ، دوسرے لفظوں میں ابدی سزا میں مبتلا ہو جائے۔

محمد وسیم اختر مفتی

____________

B