HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: البقرہ ۲: ۱۹۵-۱۹۶ (۴۰)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

گزشتہ سے پیوستہ 


وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ وَاَحْسِنُوْا ، اِنَّ اللّٰہ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ۔ {۱۹۵}

وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ ، فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْھَدْیِ ، وَلاَ تَحْلِقُوْا رُئُ وْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْھَدْیُ مَحِلَّہٗ، فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْبِہٖٓ اَذًی مِّنْ رَّاْسِہٖ فَفِدْیَۃٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْصَدَقَۃٍ اَوْ نُسُکٍ ۔ فَاِذَآ اَمِنْتُمْ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ اِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْھَدْیِ ، فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ فیِ الْحَجِّ وَ سَبْعَۃٍ اِذَا رَجَعْتُمْ ۔ تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ ۔ ذٰلِکَ لِمَنْ لَّمْ یَکُنْ اَھْلُہٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ، وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْآ اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۔ {۱۹۶}  

اور (اِس جہاد کے لیے) اللہ کی راہ میں انفاق کرو، اور (اِس سے گریز کر کے) اپنے ہی ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو، ۵۲۹ اور (انفاق)خوبی کے ساتھ کرو۔ ۵۳۰ اِس لیے کہ اللہ خوبی کے ساتھ کام کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ ۱۹۵ 

اور حج و عمرہ ۵۳۱ (کی راہ اگر تمھارے لیے کھول دی جائے تو اُن کے تمام مناسک کے ساتھ اُن) کو اللہ ہی کے لیے پورا کرو، ۵۳۲ لیکن راستے میں گھر جاؤ ۵۳۳ تو ہدیے کی جو قربانی بھی میسر ہو ، اُسے پیش کردو ، ۵۳۴ اور اپنے سر اُس وقت تک نہ مونڈو ، جب تک یہ قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے ۔ ۵۳۵  پھر جو بیمار ہو یا اُس کے سر میں کوئی تکلیف ہو (اور وہ قربانی سے پہلے ہی سر منڈانے پر مجبور ہو جائے) تو اُسے چاہیے کہ روزوں یا صدقہ یا قربانی کی صورت میں اُس کا فدیہ دے ۔ ۵۳۶  پھر جب امن کی حالت پیدا ہو جائے تو جو کوئی عمرے (کے سفر) سے یہ فائدہ اٹھائے کہ اُسی کے ساتھ ملا کر حج بھی کر لے تو اُسے قربانی کرنا ہو گی ، جیسی بھی میسر ہو جائے ۔ اور اگر قربانی میسر نہ ہو تو روزے رکھنا ہوں گے ، تین حج کے زمانے میں اور سات (حج سے) واپسی کے بعد ۔ یہ پورے دس دن ہوئے ۔ (اِس طریقے سے ایک ہی سفر میں عمرے کے ساتھ ملا کر حج کی) یہ (رعایت) صرف اُن لوگوں کے لیے ہے جن کے گھر در مسجد حرام کے پاس نہ ہوں ۔ ۵۳۷  (اِس کی پابندی کرو) اور اللہ سے ڈرتے رہو ، اور خوب جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے ۔ ۱۹۶ 

۵۲۹؎ اصل میں ’ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ‘ کے الفاظ آئے ہیں ـ۔ ان میں ’التھلکۃ‘ مصدر ہے اور ’بایدیکم‘ سے پہلے ’انفسکم‘ کا لفظ عربیت کے اسلوب پر حذف ہو گیا ہے ۔ سورۂ توبہ (۹) کی آیت ۴۲ میں یہی بات ’یھلکون انفسکم‘ کے الفاظ میں ادا کی گئی ہے ۔ استاذ امام کے الفاظ میں اس سے ایک ایسے شخص کی تصویر نگاہوں کے سامنے آتی ہے جو اوپر سے نیچے کی طرف اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے کسی دریا یا غار میں چھلانگ لگا رہا ہو۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اس طرح کے موقعوں پر جان و مال کی قربانی سے جی چراتے ہیں ، وہ درحقیقت اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہوتے ہیں ۔ اس لیے کہ زندگی اور مال کے حریص جس چیز کو کامیابی سمجھتے ہیں ، اللہ کی نگاہ میں وہی ہلاکت ہے ۔

۵۳۰؎ اصل میں لفظ ’احسنوا‘ آیا ہے ۔ اس کا عطف ’انفقوا‘ پر ہے ۔ یعنی اللہ کی راہ میں اپنا پسندیدہ مال خرچ کرو اور اسے پورے جوش و جذبہ اور دل کی آمادگی کے ساتھ خرچ کرو ۔ انفاق کا یہی طریقہ اللہ کو پسند ہے ۔ قرآن کے بعض دوسرے مقامات پر بھی اس کے بارے میں اسی بات کی تاکید کی گئی ہے ۔

۵۳۱؎ان عبادات کا ذکر یہاں جس طریقے سے ہواہے ، اس سے واضح ہے کہ اہل عرب کے لیے یہ کوئی اجنبی چیزیں نہ تھیں ۔ ان کی تاریخ سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ حج و عمرہ کے مناسک اور حدود و آداب سے وہ پوری طرح واقف تھے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ان میں بعض بدعات انھوں نے داخل کر دی تھیں، لیکن وہ جانتے تھے کہ یہ عبادات کیا ہیں ۔ قرآن نے اسی بنا پر ان کی تفصیل نہیں کی ۔ اس کا بیان اس معاملے میں بدعات کی اصلاح اور ان کے مناسک سے متعلق بعض ضروری توضیحات تک ہی محدود ہے ۔

۵۳۲؎ اصل الفاظ ہیں : ’و اتموا الحج والعمرۃ للّٰہ ‘ ۔یعنی اس صورت میں کوئی رعایت نہ ہو گی ۔ تمام مناسک ، جس طرح کہ وہ ہیں ، اسی طرح پورے کیے جائیں گے ۔ اس جملے میں زور لفظ ’للّٰہ‘ پر ہے ۔ یعنی حج و عمرہ کی یہ عبادات صرف اللہ وحدہ لاشریک کے لیے ہونی چاہییں۔ اس تنبیہ کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اہل عرب کے لیے یہ دونوں عبادت سے زیادہ تجارت کا ذریعہ بن گئی تھیں اور ان کا حج و عمرہ صرف اللہ ، پروردگار عالم ہی کے لیے نہیں ہوتا تھا، بلکہ ان کے وہ معبودان باطل بھی اس میں شریک تھے جن کے بت انھوں نے عین بیت الحرام میں بھی اور حج کے دوسرے مقامات پر بھی نصب کر دیے تھے۔

۵۳۳؎ اس سے آگے ’فاذا امنتم‘کے جو الفاظ آئے ہیں ، ان سے واضح ہے کہ اس سے مراد یہاں دشمن کی طرف سے گھیر لیا جانا ہے ، لیکن یہی صورت بعض دوسرے موانع کی وجہ سے پیش آ جائے تو اس کا حکم بھی ، ظاہر ہے کہ اس سے مختلف نہیں ہونا چاہیے ۔

۵۳۴ ؎ یعنی اس صورت میں قربانی پیش کرنا ضروری ہو گا اور مجبوری کی اس حالت میں یہ حج و عمرہ کے تمام مناسک کی قائم مقام ہو جائے گی ۔

۵۳۵؎ عام حالات میں قربانی کی جگہ اور وقت ، دونوں متعین ہیں ، لیکن جس صورت کا یہاں ذکر ہے ، اس میں قربانی کے پہنچنے کی جگہ وہی ہے ، جہاں کوئی شخص گھر جائے ۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے بھی اسی بات کی تائید ہوتی ہے ۔

۵۳۶؎ اصل میں ’ففدیۃ من صیام اوصدقۃ اونسک‘کے الفاظ آئے ہیں ۔ ان کا یہ اسلوب دلیل ہے کہ فدیے کی تعداد اور مقدار کا معاملہ لوگوں کی صواب دید پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ بخاری کی روایت (رقم ۱۸۱۴) ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : تین روزے رکھ لیے جائیں یا ۶ مسکینوں کو کھانا کھلا دیا جائے یا ایک بکری ذبح کر دی جائے تو کافی ہو جائے گا۔

۵۳۷؎ اس سے واضح ہے کہ آدمی کے لیے ممکن ہو تو بہتر یہی ہے کہ وہ عمرہ کے لیے الگ اور حج کے لیے الگ سفر کرے۔ ایک ہی سفر میں پہلے عمرہ اور اس کے بعد احرام کھول کر حج کی تاریخوں میں اس کے لیے نیا احرام باندھ کر حج کرنا حدود حرم کے باہر سے آئے ہوئے عازمین حج کے لیے محض ایک رخصت ہے جو اللہ تعالیٰ نے دو مرتبہ سفر کی زحمت کے پیش نظر انھیں مرحمت فرمائی ہے ۔ اس پر فدیہ اسی لیے لازم کیا گیا ہے ۔ چنانچہ اس رخصت سے فائدہ بھی ہر مسلمان کو اسے رخصت سمجھ کر ہی اٹھانا چاہیے ۔

[باقی]

ــــــــــــــــــــــ

B