HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

بھرے ہوئے ہاتھ

(مشکوٰۃ المصابیح حدیث :۹۲)


و عن أبی ہریرۃ رضی اﷲ عنہ قال : قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم : ید اﷲ ملأی لا تغیضہا نفقۃ سحاء اللیل و النہار ، أرأیت ما أنفق مذ خلق السماء و الأرض ؟ فإنہ لم یغض ما فی یدہ ، و کان عرشہ علی الماء ، وبیدہ المیزان یخفض و یرفع۔
وفی روایۃ مسلم : یمین اﷲ ملأی ۔ قال ابن نمیر ملآن ۔ سحاء لا یغیضہا شیء اللیل والنہار۔
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ کے ہاتھ بھرے ہوئے ہیں ۔ کوئی خرچ اس میں کمی نہیں کرتا ، (یہاں تک کہ )صبح شام پانی کی طرح بہانا بھی۔ کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ (اللہ تعالیٰ نے )جب سے یہ زمین وآسمان تخلیق کیے ہیں کیا کچھ خرچ کر ڈالا ہے ۔ چنانچہ ، اس کے ہاتھ میں جو کچھ ہے ، اس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔اس کا تخت پانی پر تھا۔ اس کے ہاتھ میں ترازو ہے ، وہ اسے جھکاتا اور اٹھاتا ہے ۔
مسلم کی روایت میں ہے دایاں ہاتھ بھر ا ہو ہے ۔ ابن نمیر نے ’ملآن‘ روایت کیا ہے ۔ صبح شام پانی کی طرح بہانے والا ، کوئی چیز اس میں کمی نہیں کرتی ۔‘‘
لغوی مباحث

ید اﷲ : ’ید‘کا لفظ یہاں اللہ تعالیٰ کے خزائن کے بھر پور ہونے اور ہمہ وقت عطا و عنایت کی تعبیر کے لیے آیا ہے ۔ اسی معنی کے لیے قرآن مجید میں’یداہ مبسوطتان‘ (مائدہ ۵ : ۶۴) کی تعبیراختیار کی گئی ہے۔

ملأی:یہ ’ملآن‘ سے ’فعلی‘ کے وزن پر مؤنث کا صیغہ ہے اور یہ ’یداللّٰہ‘ کی خبرہونے کی وجہ سے محلاً مرفوع ہے۔ اس کے معنی بھرے ہوئے کے ہیں۔

لاتغیضہا: ’غاض یغیض‘کا مطلب ہے کم کردینا ۔

سحاء اللیل والنہار: ’سحاء سح‘سے اسم صفت ہے ، جس کے معنی اوپر سے نیچے پانی بہانے کے ہیں۔یہاں یہ دوسری خبرہے اور اس کے معنی بے دریغ خرچ کرنے والے کے ہیں۔ دونوں خبریں بغیر حرف عطف کے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ نہ ہاتھوں کے بھر ے ہونے میں کوئی تبدیلی واقع ہوتی ہے اور نہ پانی کی طرح مال کے صرف ہونے میں کوئی کمی آتی ہے ۔ ’اللیل و النہار‘ ظرف ہونے کی وجہ سے منصوب ہیں۔

متون

بعض روایات میں ’ید اللّٰہ ملأی‘سے پہلے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نقل ہوا ہے :’یاابن آدم أنفق أنفق علیک‘۔ (آدم کے بیٹے ، خرچ کر میں تم پر خرچ کروں گا)۔ یہ ایک اہم فرق ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگلا جملہ اس جملے کے لیے بطور استدلال آیا ہے ۔کچھ روایات میں ’ید اﷲ‘ کی جگہ ’یمین اﷲ‘ یا ’یمین الرحمن‘ کے الفاظ بھی روایت ہوئے ہیں۔’ لاتغیضہا نفقۃ‘ کی بجائے ’لا یغیضہا شیء‘ یا ’سحاء لایغیضہا اللیل و النہار‘ بھی روایت ہوا ہے ۔ اسی طرح یہ جملہ کچھ روایات میں اس طرح مروی ہے کہ ’اللیل و النہار‘ بطور ظرف آئے ہیں اور ’یغیضہا‘ والا جملہ یا تو مروی نہیں یا اس میں فاعل کی حیثیت سے ’شیء‘ کا لفظ آیا ہے ۔ ’أرأیتم‘ والا جملہ ابن ماجہ کی ایک روایت میں ’میزان‘ والے جملے کے بعد ہے ۔ کچھ روایات میں یہ جملہ ’أرأیتم‘ کی تمہید کے بغیر ہے اور اسی طرح اس جملے میں کچھ راوی ’لم یغض‘ کے بجائے ’لم ینقص‘ کے الفاظ روایت کرتے ہیں۔ ’بیدہ میزان‘ والاجملہ بعض روایات میں ’بیدہ الأخری میزان‘ یا ’بیدہ القبض أو القیض‘ کی صورت میں آیا ہے ۔ معنی کے اعتبار سے ان میں سے کوئی بھی فرق کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔علاوہ ازیں اس روایت کے کچھ اجزا بیان ہوئے ہیں اور کچھ بیان نہیں ہوئے ۔

معنی

اس روایت میں بھی سابقہ روایت کی طرح اللہ تعالیٰ کی کچھ صفات بیان ہوئی ہیں ۔ پہلی صفت یہ بیان ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بھرے ہوئے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے خزانے نعمتوں سے معمور ہیں اور ان خزانوں سے یہ نعمتیں صبح و شام مخلوقات کواس طرح عطا کی جاری ہیں جیسے پانی بہایا جارہا ہو۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں اس سے کچھ بھی کمی واقع نہیں ہوتی ۔ اللہ تعالیٰ کے خزانے بے نہایت ہیں ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی وضاحت کے لیے ہمارے سامنے موجود ایک عظیم حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ آپ نے فرمایا :تم اندازہ کر سکتے ہو کہ زمین وآسمان کی تخلیق کے بعد سے آج تک اللہ تعالیٰ نے کیا کچھ صرف کر ڈالا ہے ۔ لیکن اس کے خزانوں میں اس سے ذرہ برابر بھی کمی واقع نہیں ہوئی ۔

اس روایت میں یہ بات ایک خبر کے طور پر نقل ہوئی ہے ۔ لیکن جیسا کہ ہم متون میں بیان کر چکے ہیں کہ یہ جملے ’ ’اے بنی آدم خرچ کرو میں تم پر خرچ کروں گا‘‘ کے لیے استدلال کے طور پر آئے ہیں۔ اس صورت میں یہ انفاق کی ترغیب کے موقع پر کہے گئے جملے ہیں ۔ انفاق میں انسان کی کمزوری کا ایک باعث انسان کا یہ احساس ہے کہ اس نے جو کچھ کمایا ہے اور پس انداز کر کے رکھا ہے، انفاق کے نتیجے میں اس میں کمی واقع ہو جائے گی اور اسے بازیاب کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ گویا یہ انسان کے اللہ تعالیٰ کے رازق ہونے پر اعتمادمیں کمی کا مظہر ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا ہے کہ جس کے دیے سے تم دیتے ہو ، اس کے خزانے معمور ہیں ۔ اس کی نعمتیں ہمہ وقت برستی رہتی ہیں ۔ان نعمتوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی کہ تم کسی اندیشے میں مبتلا ہوکر اپنا ہاتھ روک لو ۔

’’اے بنی آدم خرچ کرو میں تم پر خرچ کروں گا‘‘ یہ جملہ بظاہر ایک وعدے کا جملہ معلوم ہوتا ہے ۔ اگر اسے آخرت سے متعلق مان لیا جائے تو اس میں کوئی الجھن نہیں ہے ۔ آخرت میں ہر عمل کا اجر دیا جائے گا ، یہ خدا کا وعدہ ہے اور یہ وعدہ ہر حال میں پورا ہو گا ۔ اگر اسے دنیا سے متعلق مانا جائے تو یہ کسی وعدے کا جملہ نہیں ہے کہ جب بھی کوئی بندہ خرچ کرے گا ، اللہ تعالیٰ لازماً اس پر خرچ کریں گے ۔اس صورت میں اس سے مراد صرف یہ ہے کہ بندہ مؤمن کو یاس یا اندیشوں میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے ۔ وہ خرچ کرے ،رزق کا معاملہ خدا پر ہے اور رزق میں کمی بیشی کا باعث محض اپنی تدبیر کو نہ سمجھے ۔ یہ اللہ تعالیٰ ہیں جو اپنے آزمایش کے اصول کے تحت کسی کو کشادہ دست رکھتے ہیں اور کسی کو تنگ دست۔یہ اسی طرح کا جملہ ہے جس طرح کا جملہ قرآن مجید میں قتل اولاد سے روکنے کے لیے آیا ہے ۔سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد ہے :

لاَ تَقْتُلُوْآ اَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَ اِیَّاکُمْ ۔ (۱۷ : ۳۱)
’’ اپنی اولاد کو تنگ دستی کے اندیشے کے تحت قتل نہ کرو۔ ہم انھیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمھیں بھی۔‘‘

اس آیت میں بھی انسان کو اس غلط فہمی سے نکالنا مقصود ہے کہ وہ خدا کے رازق ہونے کے معاملے کو نظر انداز کرکے محض اندیشوں کی بنیاد پر قتل نفس ، بلکہ اس سے بھی آگے قتل اولادجیسے جرم کا ارتکاب نہ کرے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی بات واضح کی ہے کہ رزق کے بارے میں اندیشوں میں مبتلا ہو کر انسان خرچ کرنے میں دریغ نہ کرے ۔

اس روایت میں دوسری بات یہ بیان ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر ہے ۔ روایت کی یہ بات قرآن مجید سے ماخوذ ہے ۔عام طور پر شارحین نے اسے ایک مستقل معاملے کی حیثیت سے لیا ہے ۔لیکن قرآن مجید میں جہاں یہ بات بیان ہوئی ہے ، وہاں اس کے معنی یہ نہیں ہیں ، بلکہ اس سے ہماری اس دنیا کے ایک دور کی طرف اشارہ کیا گیا ہے :

وَہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ وَّکَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَآءِ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُُ عَمَلًا۔ (ہود۱۱: ۷)
’’ اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا تاکہ تمھیں جانچے کہ کون اچھے عمل کرنے والا ہے ۔‘‘

مولانا امین احسن اصلاحی نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے :

وکان عرشہ علی الماء‘ عرش خدا کی حکومت کی تعبیر ہے ۔ مطلب یہ کہ اس کرۂ ارض کی خشکی نمودار ہونے سے پہلے پہلے یہ سار ا کرہ مائی تھا اور اللہ کی حکومت اس پر تھی ۔ پھر پانی سے خشکی نمودار ہوئی اور زندگی کی مختلف النوع انواع ظہور میں آئیں اور درجہ بدرجہ یہ پورا عالم ہستی آباد ہوا ۔ یہی بات تورات میں بھی بیان ہوئی ہے اگرچہ اس کے مترجموں نے مطلب خبط کر دیا ہے ۔ کتاب پیدایش کی پہلی ہی آیت میں یہ الفاظ ہیں : ’’ اور گہراؤ کے اوپر اندھیرا اور خدا کی روح پانی کی سطح پر جنبش کرتی تھی۔‘‘(تدبر قرآن ۴/ ۱۰۹)

تیسری بات زمین وآسمان میں قائم میزان سے متعلق ہے ۔ اس کی وضاحت ہم سابقہ روایت کے جملے ’یخفض القسط و یرفعہ‘ کے تحت تفصیل سے کر چکے ہیں ۔ یہاں اسے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔

کتابیات

بخاری :کتاب تفسیر القرآن ، رقم ۴۳۱۶؛ کتاب النفقات ، رقم ۴۹۳۳؛ کتاب التوحید ، رقم ۶۸۶۲، ۶۸۶۹۔ مسلم : کتاب الزکوٰۃ ، رقم ۱۶۵۸، ۱۶۵۹۔ابن ماجہ : المقدمہ ،رقم ۱۹۳ ۔ احمد ، رقم ۶۹۹۷ ، ۷۷۹۳ ، ۷۸۰۶ ، ۹۶۰۶ ، ۱۰۰۹۶۔مسند ابی یعلیٰ ، رقم ۶۲۶۰۔ مسندالحمیدی ، رقم ۱۰۶۷۔ السنن الکبری ، رقم ۱۱۲۳۹۔

____________

B