’’کہہ دو ، اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیرو ی کرو، اللہ تم کو دوست رکھے گا اور تمھارے گناہوں کو بخش دے گا ، اللہ بخشنے والا ، رحم کرنے والا ہے ۔ کہہ دو کہ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی ، اگر یہ اعراض کریں تو یاد رکھیں کہ اللہ کافروں کو دوست نہیں رکھتے ۔‘‘ (آل عمران ۳: ۲۱۔۲۲)
ان آیات میں وہ رویہ بیان ہوا ہے جو ایک سچے مسلمان کو اختیار کرنا چاہیے اور بتایا گیا ہے کہ اللہ سے محبت کا کیا مطلب ہے ۔
قرآن مجید کے اس مقام سے واضح ہے کہ ایمان کی اصل روح اللہ سے سچا اور محبت بھرا تعلق ہے ۔ اس کے لیے شرط یہ ہے کہ اس کے ساتھ کوئی ایسی محبت جمع نہ ہونے پائے ۔جو اس کی ضد ہو اور کوئی جائز محبت اس کی برابری نہ کر سکے اور نہ اس کے مقابل میں قابل ترجیح قرارپائے ۔ مثلاً خدا اور دین کے دشمنوں کی محبت اور خدا کی محبت بندۂ مومن کے دل میں جمع نہیں ہوسکتی ۔ کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کی نقیض ہیں ۔ اسی طرح مال و اولاد کی محبت اگرچہ ایک جائز محبت ہے ، مگر ایمان کا تقاضا ہے کہ یہ محبت نہ اللہ و رسول کی محبت کی برابری کرے اور نہ ان کے مقابل میں زیادہ پسندیدہ بن جائے۔
اسی طرح یہ بات بھی واضح کر دی گئی ہے کہ بندۂ مومن کے لیے اصل مقصود یعنی اللہ کی محبت کو پانے کا واحد ذریعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہے ۔ اس سے ہٹ کر جو راستہ بھی اختیار کیا جائے گا، اس سے یہ مقصد ہرگز حاصل نہ ہو سکے اور وہ دین میں بدعت و ضلالت قرا ر پائے گا ۔ رسول کی پیروی سے انحراف کرتے ہوئے زندگی گزارنے والا دراصل اپنے آپ کو منکرین کی صف میں کھڑا کرنے کا خطرہ مول لیتا ہے اور اللہ کا فیصلہ ہے کہ وہ حق کا انکار کرنے والوں کو کبھی دوست نہیں رکھتا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ایمان کی اصل روح ، یعنی خدا کی محبت کو پانے کے لیے خدا کا تجویز کردہ راستہ یہ ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے پر زندگی گزاریں اور آپ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کریں ۔ انھیں چھوڑ کر خدا و رسول سے محبت کی نئی نئی راہیں نکالنے کا نتیجہ دنیا میں اللہ کی محبت سے محروی اور آخرت میں جنت کے حصول میں ناکامی کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔
محمد اسلم نجمی
_______
بے شک تمھارا رب وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ ادوار میں پیدا کیا ، پھر وہ معاملات کا انتظام سنبھالے عرش پر متمکن ہوا ۔ اس کے ہاں اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش نہیں ۔ یہی اللہ تمھارا رب ہے تو اسی کی بندگی کرو ، کیا تم سوچتے نہیں ۔ (یونس ۱۰: ۳ )
اس آیت کے اولین مخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم بنی اسمٰعیل کے لوگ ہیں ۔ مشرکین مکہ اللہ کو اُس کی ذات کی حد تک تو وحدہ لا شریک مانتے تھے ، مگر اس کی صفات میں دوسروں کو شریک ٹھیرا کر انھیں الوہیت کے منصب پر فائز کر دیتے تھے ۔ انھیں بتایا گیا ہے کہ جس اللہ نے زمین و آسمان بنائے ہیں ، وہی تمھارا رب اور آقا و مولیٰ ہے ۔ لہٰذا جیسے اس کی ذات میں کوئی شریک نہیں ہے ، اسی طرح وہ اپنی صفات اور حقوق میں بھی یکتا ہے ۔ وہ اس کائنات کو پیدا کرنے کے بعد اس سے بے تعلق ہو کر نہیں بیٹھ گیا ، بلکہ وہ اس کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے اور تنہا اس کا نظام چلا رہا ہے ۔ وہ افراد اور قوموں کے ساتھ اپنے اصول و قوانین کے مطابق معاملہ کرتا ہے ۔ ایسے قاعدوں اور ضابطوں کو ، جن کے مطابق وہ صفحۂ ہستی پر قوموں کے عروج و زوال اور بقاو فنا کی داستانیں رقم کرتا ہے ۔ قرآن مجید میں انھیں اللہ کی سنتیں کہا گیا ہے اور ان کے بارے میں اس کا حتمی فیصلہ ہے کہ وہ اپنی سنتوں میں کوئی رد و بدل نہیں کرتا ۔ ۱ اور نہ اس کی مخلوق میں سے کسی کو یہ زورو اختیار حاصل ہے کہ اسے ان سنتوں میں کسی تبدیلی او رتر میم اور اضافہ پر مجبور کر سکے ۔ اس لیے اگر کوئی کوتاہ فہم مخلوق میں سے کسی کو اس کی ربوبیت میں شامل کر کے اپنا الہٰ بنا لیتا ہے اور پھر اس سے یہ توقع باندھ لیتا ہے کہ وہ ہستی قیامت میں خدا کی مرضی کے خلاف اس کے کام آ سکے گی تو یہ اس کی خام خیالی ہے ۔ اسی بات کو (کون ہے جو اس کے حضور اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کر سکے ) ‘‘ ۲ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ۔
انسان اپنی ضعیف الاعتقادی کے باعث اکثر اوقات ایسی گمراہیوں کا شکار ہو جاتا ہے ۔ شرک ایک عالم گیر ضلالت ہے ۔ یہ ضلالت مشرکینِ مکہ تک محدود نہیں ہے ، بلکہ اس کے آثار و شواہد ہر دور میں موجود رہے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ مسلمان معاشرے بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہے ۔
آج کے دور میں اگرچہ اپنے آپ کو ہم دین توحید کے علم بردار سمجھتے ہیں ، مگر اس کے باوجود شرک کی بہت سی خفی اور جلی صورتیں اختیار کیے ہوئے ہیں اور ستم بالاے ستم یہ کہ ہم یہ جرم دین کے نام پر کر رہے ہیں ۔
قرآن مجید میں دو ٹوک الفاظ میں اعلان کر دیا گیا ہے کہ شرک ناقابل تلافی جرم ہے ۔ ۳ اس لیے بندۂ مومن کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن کی روشنی میں اپنے عقیدۂ توحید کی اصلاح کرے ۔
محمد اسلم نجمی
۱ الاحزاب ۳۳ : ۶۲ ، فاطر ۳۵: ۴۳ ، الفتح ۴۸: ۲۳ ۔
۲ البقرہ ۲ : ۲۵۵۔
۳ النساء ۴: ۴۸، ۱۱۶۔
_______
’’(وہ اللہ جس نے زمین و آسمان کو چھ ادوار میں پیدا کیا ، جو کائنات کا انتظام سنبھالے عرش پر متمکن ہے او رجس کے ہاں کوئی سفارش کام نہ آئے گی) ۔ اسی (اللہ ) کی طرف تم سب کو لوٹنا ہے ۔ یہ اللہ کا پکا وعدہ ہے ۔ بے شک وہی خلق کا آغاز کرتا ہے پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک کام کیے ، ان کو عدل کے ساتھ بدلہ دے اور جنھوں نے کفر کیا ، ان کے لیے اس کفر کی پاداش میں کھولتا ہوا پانی اور دردناک عذاب ہے ۔‘‘( یونس ۱۰: ۴)
یہ آیت اس حقیقت کی یاددہانی ہے کہ یہ دنیا بے غایت اور بے مقصد پیدا نہیں کی گئی ہے ، اسے بہرحال اپنے انجام کو پہنچنا ہے ۔ ایک دن آئے گا جب صور پھونکا جائے گا ۔ تو یہ کائنات ختم ہو جائے گی ۔ یہ زمین دوسری زمین سے اور یہ آسمان دوسرے آسمانوں سے بدل دیے جائیں گے ۔ (۱۴: ۴۸) اور سارے لوگ عالم کے پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے ۔ ہر ایک بغیر کسی سازو سامان کے یکہ و تنہاپیش ہو گا ۔ (۱۹: ۹۵) اور اس کا کوئی حامی و مددگار اور شفیع و سفارشی اس کے ساتھ نہ ہو گا ۔ الغرض اللہ کا قیامت کا وعدہ شدنی ہے وہ بہرحال پورا ہو گا ۔
البتہ یہ بات جان لینی چاہیے کہ اللہ چونکہ اصلاً رحمن و رحیم ہے ، اس کی رحمت کائنات کی ہر چیز پر حاوی ہے اور اس نے اپنے اوپر لازم ٹھہرالیا ہے کہ وہ کائنات کا نظام رحمت ہی کی بنیاد پر چلائے گا ۔ اس لیے جب یہ دنیا اپنے انجام کو پہنچے گی تو قیامت اصلاً اللہ کی رحمت کے ظہور کے لیے برپا ہو گی ۔ اس کا اصل مقصد اہل ایمان کو دنیا کی آزمایش میں کامیابی کے بعد آخرت کی ابدی بادشاہی کی بشارت دینا ہے۔ باقی چیزوں کی حیثیت اسی حقیقت کے لوازم اور توابع کی ہو گی ۔ اہل کفر کو سزا دراصل اس کے نتیجے کے طور پر ملے گی ۔
اس ساری بات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قیامت کی خبر اصلاً اہل ایمان کے لیے بشارت ہے ، مگر وہ لوگ جو دنیا کی آزمایش میں ناکام ہوں گے ان کے لیے دردناک عذاب کے دروازے کھول دیے جائیں گے۔
محمد اسلم نجمی
_______
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی کہ اللہ نے فرمایا : ابن آدم (انسان) نے مجھے جھٹلایا حالانکہ اسے یہ زیب نہ دیتا تھا۔ اور اس نے مجھے گالی دی جب کہ یہ اس کے لائق نہ تھا۔ (پھر ان دونوں باتوں کی وضاحت کرتے ہوئے آپ نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ) اس کے مجھے جھٹلانے سے مراد اس کا یہ کہنا ہے کہ اللہ مجھے مرنے کے بعد ہرگز دوبارہ زندہ نہ کرے گا جیسا کہ اُس نے مجھے پہلی بار پیدا کیا ، حالانکہ پہلی مرتبہ پیدا کرنا اس کے دوبارہ لوٹانے (یعنی مرنے کے بعد زندہ کرنے) سے زیادہ مشکل ہے ، اور اس کے گالی دینے سے مراد اس کا یہ کہنا ہے کہ اللہ کی اولاد ہے ، جبکہ میں سب سے الگ ہوں، سب کا سہارا ہوں اور میں وہ (ہستی ) ہوں جو نہ باپ ہے نہ بیٹا اور میرا کوئی ہم سر نہیں ہے۔(مشکوٰۃ ، رقم ۲۰)
اس روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک مکالمے کا ذکر ہوا ہے ۔ یہ حدیث اپنے مدعا کے اعتبار سے بالکل واضح ہے ، البتہ یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ خدا کو جھٹلانے اور گالی دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی زبان سے ایسے جملے ادا کرے جن میں (معاذ اللہ) خدا کو برا بھلا کہا گیا ہو یا ا س پر بہتان لگایا گیا ہو ۔ ایک شخص اگر زبان سے کوئی لفظ ادا کیے بغیر اپنے پروردگار کے بارے میں بے پروائی اور سرکشی کا رویہ اختیار کرے اور خدا کے علاوہ دوسروں کے آستانوں سے بھی مشکل کشائی اور حاجت روائی کے لیے وابستہ ہو جائے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے اس نے زبان سے اللہ کو جھٹلا یا اور گالی دی ۔
اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا آزمایش کے اصول پر بنائی ہے ۔ دنیا کی زندگی میں اس کی آزمایش یہ ہے کہ وہ آخرت کے بارے میں خدا کے وعدوں پر اعتبار کرے ۔ وہ ہر حال میں خدا کا بندہ بن کر جینے کا عہد کرے اور اس کا اصل مسئلہ آخرت میں خدا کی جنت کا حصول ہو ۔
اس کے برخلاف وہ اگر دنیا ہی کی طلب میں جیتا اور مرتا ہے تو گویا وہ خدا کی مرضی کے خلاف زندگی گزارتااور دنیا کی آزمایش اور آخرت کے وعدوں کو بے اصل خیال کرتاہے ۔ یہ طرز عمل (معاذ اللہ) خدا کو جھوٹا قرار دینے کے مترادف ہے ۔
اسی طرح خدا وحدہ لا شریک ہے ۔ توحید اصل ایمان ہے ۔ اللہ کے سارے پیغمبر توحید ہی کی منادی کرنے کے لیے تشریف لائے ۔ الہامی کتابیں اور مقدس صحیفے اسی توحید کی شرح و وضاحت کے لیے نازل ہوئے ۔ اور آخرت میں حشر اسی توحید کے تقاضوں کی جواب دہی کے لیے برپا ہو گا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو اللہ پر قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ایمان لے آیا ، اس نے دین کی اصل حقیقت کو پا لیا ۔ وہ دنیا کی آزمایش میں کامیاب اور آخرت میں بامراد ہوا۔ اور جس نے خدا کی ذات، صفات یا حقوق میں کسی کو شریک ٹھیرایا ، اس نے گویا دین کی اصل بنیادی ڈھا دی اور خدا کو گالی دی۔
محمد اسلم نجمی
_______
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (اللہ تعالیٰ سے اپنے ایک مکالمے کی روداد بیان کرتے ہوئے) خبر دی کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ابن آدم زمانے کو برا بھلا کہہ کر مجھے ایذا دیتا ہے کیونکہ زمانہ تو میں خود ہی ہوں۔ اور کائنات کے سارے معاملات کی باگ ڈور میرے ہی ہاتھ میں ہے ۔ دن رات میں جو کچھ واقع ہوتا ہے ۔ وہ میرے ہی تصرف کے باعث ہوتاہے ۔‘‘ (مشکوٰۃ، رقم ۲۲)
بعض لوگوں کوعادت ہوتی ہے کہ وہ اپنی بے تدبیری اور شامت اعمال کا گلہ تقدیر سے کرتے ہیں اور الزام زمانے کو دیتے ہیں ۔ اسی طرح شاعر حضرات بھی آسمان ، فلک اور گردش دوراں کا نوحہ پڑھتے رہتے ہیں ۔
اس روایت میں یہ حقیقت بیان ہوئی ہے کہ آسمان اپنی گردش سے کوئی چیز پیدا نہیں کرتا۔ انسان پر جو حالتیں گزرتی ہیں اور اسے جن مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، وہ سب کچھ اللہ کے اذن کے تحت اور اس کے قانون کے مطابق ہوتا ہے ۔ گردشِ لیل و نہاراور عالم کے نظام کے پیچھے اللہ ہی کا ارادہ کارفرما ہے ۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا میں جو کچھ واقع ہوتا ہے اور انسان کو جو احوال پیش آتے ہیں ، ان کے پیچھے اللہ کی بے شمار حکمتیں کارفرما ہوتی ہیں ۔
دنیا کی زندگی میں ہمیں ہر قسم کے حالات سے سابقہ پیش آتا ہے ۔ ہمیں ہدایت کی گئی ہے کہ ہم ہرحال میں خدا کے شکرگزار بندے بن کر رہیں ۔ ہم پر جو مشکلات آتی ہیں ، وہ جیسا کہ اوپربیان ہوا ہے ، اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی حکمت لیے ہوئے ہوتی ہیں ۔ یہ ہماری شامت اعمال کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عالم کا پرورگار ان کے ذریعے سے ہمارا تزکیہ کرنا چاہتا ہو۔ ہمیں تنبیہ کرنا مقصود ہو یا اس کے پیش نظر یہ ہو کہ وہ ان کے ذریعے سے ہمیں آخرت کے خسارے سے بچالے ۔
الغرض دنیا میں سب کچھ آزمایش کے لیے اور اس اصول کے مطابق واقع ہوتا ہے جس پر اس کائنات کا نظم ترتیب دیا گیا ہے ۔ لہٰذا کسی بھی قسم کے ناپسندیدہ حالات میں جزع و فزع اور شکوہ و شکایت کا رویہ اختیار کرنے کا مطلب خدا کی اسکیم پر اعتراض کرنا اور اس کی حکمت اور مشیت کو ناپسندیدہ ٹھیرانا ہے ۔ یہی چیز ہے جسے روایت میں زمانے کو برا کہنے کو خدا نے اپنے لیے گالی قرار دیا ہے ۔
اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو دنیا میں زبان اور عمل دونوں کا امتحان درپیش ہے ۔ لہٰذا اسے ہر بات کہتے ہوئے اور کوئی بھی کام کرتے ہوئے یہ دیکھنا چاہیے کہ اس کی زد کہاں پڑتی ہے۔ اسے اللہ کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے ہمیشہ یہ لحاظ رکھنا چاہیے کہ وہ ہر حال میں شکر اور صبر کے مقام پر کھڑا ہو ۔
محمد اسلم نجمی
_______
نماز دین کا بنیادی رکن ہے اور اللہ اور بندے کے تعلق کا سب سے بھرپور مظہر ہے ۔ اس لیے نماز کی حفاظت اور اس میں خشوع و خضوع کی خواہش بندگی کا لازمی تقاضا ہے ۔ عام طور پر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ نماز میں خشوع و خضوع کیسے پیدا کیا جا سکتا ہے؟ ہمارے نزدیک اگر مندرجہ ذیل باتیں ملحوظ رکھی جائیں تو نماز میں بہتری لائی جا سکتی ہے ۔
ایک یہ کہ نماز میں اس احساس کے ساتھ کھڑے ہوں کہ ہم اللہ کے حضور میں موجود ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ نماز اس طرح پڑھو گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو ۔ گویا اگر آدمی نماز کے دوران میں خود کو اللہ کی بارگاہ میں تصور کرے تو بندگی اور حضوری کا احساس اس کے رگ و پے میں سرایت کر جائے گا۔ جب اس کے اندر یہ شعور بیدار ہو گا کہ وہ اس وقت اس بادشاہ ارض و سما کے سامنے کھڑا ہے جو اس کا خالق و مالک ہے تو اس کی جبین نیاز کے ساتھ ساتھ اس کا دل بھی بے اختیار جھک جائے گا ۔
دوسرے یہ کہ ہر ممکن حد تک نماز باجماعت پڑھی جائے ۔ خدا کے ساتھ تعلق کی بیداری کے لیے دربار خداوندی کا ماحول جو کردار ادا کرتا ہے ، وہ کئی تقریریں بھی ادا نہیں کرتیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے وضو کیا اور اچھا وضو کیا۔ پھر وہ مسجد کی طرف گیا تو اللہ ہر قدم پر ایک نیکی کا اضافہ کرے گا اور ایک گناہ کم کرے گا ۔
تیسرے یہ کہ نماز کے کلمات غوروفکر اور پورے شعور کے ساتھ ادا کیے جائیں ۔ سورۂ فاتحہ اور نماز کے دیگر اذکار میں ایسی مقناطیسیت ہے کہ وہ آدمی کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں ۔ مولانا امین احسن اصلاحی فرمایا کرتے تھے کہ میں نے نماز میں ’اھدنا الصراط المستقیم‘ کے الفاظ پر توجہ مرکوز کر کے خشوع و خضوع کو بہتر کیا ۔
چوتھے یہ کہ عام زندگی میں اپنی نگاہ کو پاکیزہ رکھا جائے ۔ اگر نگاہ میں حیا ہو گی تو آلایشیں نفس کو آلودہ نہیں کر پائیں گے اور انسان پوری توجہ کے ساتھ اپنے پروردگار کی طرف راغب ہو سکے گا۔
پانچویں یہ کہ صالحین کی صحبت اختیار کی جائے اور بری صحبت سے بچنے کی کوشش کی جائے ۔ اس طرح انسان کی طبیعت نیکی کی طرف مائل ہوتی ہے جس کے نتیجے میں نماز میں بہتری آتی ہے ۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ نماز میں خشوع و خضوع کے لیے فکر مندی خود ایک مثبت چیز ہے ۔ بندۂ مومن کبھی اللہ سے اپنے تعلق کی کسی خاص سطح پر مطمئن نہیں رہتا ، بلکہ ہمیشہ خدا کے قرب اور اس کی خوشنودی کے حصول کی کوششوں میں مگن رہتا ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم راتوں کو اٹھ کر اللہ سے استغفار طلب کیا کرتے تھے ۔ اسی طرح صحابۂ کرام مثلاً حضرت عمر بھی کبھی کبھی اپنی نمازوں کے بارے میں پریشان ہو جاتے تھے ، جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ حضرت عمر ان اصحاب میں سے ہیں جو بدر میں شریک ہوئے اور جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت کی بشارت دی تھی ۔
کاشف علی خان شیروانی
_______
میں نے بحیثیت انسان شعور سنبھالا تو بعض د وسرے سوالات کی طرح مجھے ان دو سوالوں نے بھی پریشان کیا ۔ ایک یہ کہ زندگی کیا ہے ؟ اور دوسرے یہ کہ میرے خالق نے مجھے یہ کیوں عطا کی ہے ، اور اسے کیسے بسر کرنا چاہیے ؟
پہلے سوال پر جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ زندگی آسایش ہی نہیں آزمایش بھی ہے ۔ یہ ببول کے کانٹوں کا گھنا جنگل ہے جسے عبور کرنے والے کو اختتام سفر پر زخموں سے چور چور بدن تحفے میں ملتا ہے ۔ یہ ٹھاٹھیں مارتی ہوئی شوریدہ سر لہروں کا بحر ذخار ہے جسے عبور کرنے والا جب اپنی قوت ارادی کے بل بوتے پر ساحل تک پہنچتا ہے تو سانس دم آخر پر ہوتی ہے ۔ یہ گہری اور عمیق گھاٹیوں کے مانند ہے جہاں ذرا سی لغزش ہڈیوں کو سرمے میں تبدیل کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے ۔ عظیم لوگ زندگی کو آزمایش سمجھ کر یوں سرخ رو گزر جاتے ہیں جیسے کوئی اعتقادِ خداوندی کے سہارے پانی پر پیر رکھ کر پار اتر جائے ۔ مگر آں سوے افلاک نے مجھے وقت پیدایش جذبات اور خواہشات عطا کر دیں ۔ اور ان میں سب سے شدید خواہش اس لافانی دنیا کا حصول تھی ۔ اسی خواہش کے زیرا ثر میں نے کبھی بلند و بالا عمارات تعمیر کیں اور کبھی دیو ہیکل مشینیں ایجاد کیں ، مگر خواہش پوری ہونے کے لیے پیدا ہی کب ہوتی ہے ۔
جب مجھے یہاں بھی اطمینان نصیب نہ ہوا تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ کسی گوشۂ عافیت میں پناہ لے لوں ؟ کیوں نہ اسی فطرت کی طرف لوٹ جاؤں جہاں رعنائی بھی ہے اور صفائی بھی ہے ؟ جہان دختر دہقان کا گیت ہے ، ساربانوں کے نغمے ہیں۔ جہاں پینگوں میں بہار جھولے لیتی ہے ۔ جہاں کھیتوں کا سبزہ دل موہ لیتا ہے ۔ جہاں رات تارے چھٹکاتی ہے ۔ جہاں جھرنے پھوٹتے ہیں ، کوئل گاتی ہے ، بلبل چہکتی ہے ، چاندنی کھلتی ہے اور جہاں خزاں بھی حسن بن کر آتی ہے ۔ مگر دل کو اطمینان کہیں بھی نہیں کہ یہاں ہر چیز کتنی بھی خوبصورت پرکشش اور دل آویز بن جائے ، رہتی نامکمل ہی ہے ۔
بالآخر میرے خالق نے خود میری رہنمائی اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے فرمائی ۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ خالق کے کام اسی کے لیے رہنے دو۔ تم مخلوق ہو ،خالق کے حکم کی پیروی کرو تو ایک مکمل دنیا ، جنت کے نام سے اس غفورورحیم عظیم رب نے تمھارے لیے ہی بنائی ہے ۔ اس نے یہ زندگی اس لیے بنائی تا کہ تم میں سے بہترین اپنی جنت کے لیے چن سکے ۔ بس تم بھی اس دوڑ میں شامل ہو جاؤ اور اس کی توقع رکھو جو انسانی سوچ سے زیادہ بلند، خیال سے زیادہ خوبصورت اور ذات سے زیادہ مکمل ہے ۔
معاذ احسن غامدی
____________