HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : خورشید احمد ندیم

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

ہاشمیہ سے اسلام آباد تک

یہ آٹھویں صدی کا ہاشمیہ ہے، دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کا پایاے تخت۔ اموی معزول ہوئے اور عباسی مسند آرا۔ یہ تخت نشینی کسی استحقاق کا نہیں قوت بازو کا نتیجہ ہے۔ تمام تر مخاصمت کے باوجود، عباسیوں کو امویوں کی یہ ادا پسند آئی کہ حکومت سازی کے لیے عامتہ الناس کی تائید لازم نہیں۔ اس کے ساتھ امویوں کی یہ خواہش بھی ان کی طرف منتقل ہوئی کہ لوگوں کے گلے میں ہماری اطاعت کا طوق ہو۔ معاشرے کے مذہبی پس منظر کے پیش نظر وہ اس بات کے متمنی بھی تھے کہ کتاب شریعت اور آئین تہذیب سے کوئی ایسی سند حکمرانی مل جائے کہ ہمارے خلاف کوئی علم بغاوت بلند نہ ہو اور اگر کوئی یہ جسارت کرے تو اسی کتاب اور آئین کی دلیل سے اسے باغی اور فساد فی الارض کا مجرم قرار دے کر اس کا سر قلم کر دیا جائے۔ ماہرین جمع ہوئے اور ان کے مشورے سے ایک عبارت پر اتفاق ہو گیا: ’’ جس کی گردن میں عباسی خلیفہ کی بیعت کا قلابہ نہ ہو گا، اس کی بیوی کو طلاق ہو جائے گی۔‘‘ لوگ سہم گئے اور اقتدار مضبوط ہو گیا۔تنہا مالک ابن انس کھڑے ہوئے اور کہا کہ میں اس حکم کو خلاف شریعت اور اگر لغت عصر میں عرض کروں تو خلاف آئین سمجھتا ہوں۔ میں اس قصے کو یہیں تمام کرتا ہوں اور دانستہ اس پہلو سے صرف نظر کرتا ہوں کہ مالک بن انس کو اس کی کیا قیمت ادا کرنا پڑی۔

اور پھر یہ آٹھویں صدی کا بغداد ہے، منصور کا آباد کیا ہوا ۔ وہ عظیم الشان شہر کہ جہاں امام ابو حنیفہ نے اس بنا پر دفن ہونا گوارا نہ کیا کہ اس کی بنیادوں میں غریبوں کا لہو تھا۔ اب بادشاہ وقت منصور کے پوتے کو ایک مسئلہ درپیش ہے۔ آئینی ماہرین دارالحکومت میں جمع ہوئے اور ان کے سامنے بادشاہ کی پریشانی رکھی گئی۔ ایک لونڈی پر بادشاہ کا جی آگیا۔ قربت کی آرزو بڑھی تو ضبط کے بند قبا کھلنے لگے ۔ لونڈی نے عرض کیا : ’’حضور ، میں تو آپ کے والد گرامی کی مدخولہ ہوں۔‘‘ شریعت پسند بادشاہ کے بڑھتے ہوئے قدم اور ہاتھ رک گئے۔ فقہ کا مسئلہ ہے کہ باپ کی لونڈی، بیٹے کے تصرف میں نہیں آسکتی۔بادشاہ اس لمحے تو رک گیا ، لیکن دل تھا کہ مان کر نہیں دے رہا تھا۔ خیال کیا کہ ماہرین فقہ ہی سے کیوں نہ رجوع کیا جائے۔ شاید وہ کوئی حل نکال سکیں۔ اپنے عہد کے ایک بڑے فقیہ کو طلب کیا، جسے اس کے عہد کے لوگ ’’جادو گر‘‘ کہتے تھے۔ مسئلہ ان کے سامنے رکھا گیا۔ انہوں نے سنا اور اطمینان سے جواب دیا : ’’لونڈی آپ پر حلال ہے۔‘‘ بادشاہ چونکا، اس کا اشتیاق بڑھا، پوچھا : ’’کیسے‘‘ فقیہ نے سوال کیا : ’’یہ بات آپ کو کس نے بتائی کہ وہ آپ کے باپ کی لونڈی رہی ہے؟‘‘ مامون نے کہا : ’’خود اس لونڈی نے۔‘‘ ماہر قانون نے کہا : ’’ لونڈی کی گواہی کا کوئی اعتبار نہیں۔ کیا معلوم وہ جھوٹی ہو۔ پھر آپ کو کیا پڑی کہ اس کے سچ جھوٹ کی تصدیق کریں۔ اس لیے آپ کے تمتع کے راستے میں کوئی شرعی عذر حائل نہیں۔‘‘ جنھیں اس روایت کی صحت میں کلام ہے، وہ فقیہ کی صفائی دیتے ہیں، خلیفہ کی نہیں۔ وہ بھی اس سے متفق ہیں کہ بادشاہ ایسے عذر تراشتے تھے اور ان کے دربار میں ان کی سیئات کو حسنات قرار دینے والے آئینی ماہرین کی کمی نہیں تھی۔

پھر اے مبصرین کرام ! یہ بیسوی صد ی کا اسلام آباد ہے۔ بغداد اور اسلام آباد میں سیکڑوں میل ہی نہیں سیکڑوں برس بھی حائل ہیں۔ لیکن تاریخ کچھ اس طرح اپنے آپ کو دہرا رہی ہے کہ ہر نقش قدم پر قدم ہے اور ہر پاؤں پر پاؤں ! یہ ہم نے بھی سن رکھا ہے کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے، اس کا سفر خط مستقیم پر نہیں، دائرے میں ہے ، لیکن یہ گمان نہ تھا کہ یکسانی کا یہ عالم ہوگا کہ حیرت کو بھی حیر ت ہونے لگے۔ اللہ کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی امت کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ تم گزری اقوام کے ہر نقش قدم پر اپنا قدم رکھوگے اور اس مماثلت کا یہ عالم ہو گا کہ جیسے بالشت کے ساتھ بالشت اور گز کے ساتھ گز ملتا ہے۔ حتیٰ کہ اگرکوئی سوسمار میں داخل ہوا ہے تو تم بھی اسی میں جا نکلو گے۔اللہ کے رسول کی طرف اگر اس روایت کی نسبت میں کچھ کلام نہیں تو پھر آپ صلی اللہ و علیہ و سلم سے بڑھ کر سچی بات کس کی ہو سکتی ہے۔ ہم اقوام رفتہ کی تقلید تو ویسے ہی کریں گے جیسے آپ نے پیش گوئی فرمائی ، لیکن ہم ایک دوسرے کی تقلید میں بھی نقالی کا یہ معیار قائم کریں گے، میں سوچ نہیں سکتا تھا۔

ذکر بیسویں صدی کے اسلام آباد اور آٹھویں صدی کے بغداد میں مماثلت کا ہے ،اسلام آباد اگر اپنے عہد کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کا پایاے تخت ہے تو بغداد اپنے دور کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کا دارالخلافہ تھا۔مسئلہ وہی پرانا ہے۔ایک حکومت معزول ہوئی اور ایک شخص مسند آرا ۔ اسے آنے کے لیے کسی اخلاقی جواز کی ضرورت محسوس نہ ہوئی، لیکن اسے طوالت اقتدار کے لیے کسی فقہی یعنی آئینی دلیل کی طلب ہوئی شاید وہ بھی امویوں اور عباسیوں کی طرح خوف زدہ تھا کہ کہیں اس کے خلاف علم بغاوت نہ بلند ہو۔ آئینی ماہرین کے قافلے دارالحکومت میں اترنے لگے اور انھوں نے بیعت عام کے لیے ایک آئینی حل تلاش کر لیا۔ ارشاد ہو کہ لوگوں سے رجوع کیا جائے :’’اے عامتہ الناس! کیا تم اسلام چاہتے ہو؟ اگر تمھارا جواب اثبات میں ہے تو میں پانچ سال کے لیے تمھارا صدر ہوں۔‘‘ صرف یہی نہیں، جب بھی حکمرانوں کو کوئی ایسا امتحان درپیش ہوا، کوئی ’’جادوگر‘‘ دارالخلافہ میں اترا اور اپنے جادو کے زور سے مشکل کو آسان کر گیا۔ہاشمیہ اور بغداد سے اسلام آباد تک ایک ہی روایت کا تسلسل ہے۔بیچ میں اگرچہ سیکڑوں برس حائل ہیں ، لیکن واقعات خود کو یوں دہرا رہے ہیں کہ یہ طالب علم وادی حیرت میں کھڑا ہے۔ افتخار عارف نے کسی اور تناظر میں جو کچھ کہا، اس کا اطلاق یہاں بھی تو ہوتا ہے:

وہی پیاس ہے، وہی دشت ہے، وہی گھرانا ہے

مشکیزے سے تیر کا رشتہ بہت پرانا ہے

آج عباسیوں کی روایت زندہ ہے۔ فقہی اور آئینی ماہرین آج بھی ویسے ہی ہیں۔ کتاب الحیل آج بھی ماخذ ہدایت ہے۔ سب کچھ وہی ہے، ہاں ، اگر نہیں ہے تو مالک ابن انس جیسا کوئی نہیں ہے۔ یہ سچ ہے کہ لوگ حزب اختلاف کا پر چم بلند کیے ہوئے ہیں۔ ۱۹۸۴ء میں بھی کچھ لوگوں نے اس روایت کو زندہ کرنے کی سعی کی تھی ، لیکن سب کچھ نقش برآب ثابت ہوا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ عباسیوں کے جانشین تو تقلید میں سچے ہیں ، لیکن مالک ابن انس کے نام لیوا اس رفعت فکر اور جرات کردار سے خالی ہیں جس نے انھیں امام وقت بنایا۔ یہ وہ منزل ہے جہاں سے ہماری تاریخ کا سفر دائرے کے بجائے خط مستقیم پر شروع ہو جاتا ہے۔ کاش اس باب میں بھی تاریخ اپنے آپ کو دہراتی!

____________

B