HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: البقرہ ۲: ۱۷۸-۱۷۹ (۳۴)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ) 


یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی ، اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی ، فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْئٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَآئٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ ۔ ذٰلِکَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ رَحْمَۃٌ فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۔ وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ۔ {۱۷۸۔ ۱۷۹}

ایمان والو، (تم میں) جو لوگ قتل کر دیے جائیں ، اُن کا قصاص ۴۶۴ تم پر فرض کیا گیا ہے ۔ ۴۶۵ اِس طرح کہ قاتل آزاد ہو تو اُس کے بدلے میں وہی آزاد، غلام ہو تو اُس کے بدلے میں وہی غلام ، عورت ہو تو اُس کے بدلے میں وہی عورت ۔ ۴۶۶ پھر جس کے لیے اُس کے بھائی کی طرف سے کچھ رعایت کی گئی ۴۶۷ تو چاہیے کہ دستور کے مطابق اُس کی پیروی کی جائے ۴۶۸ اور (جو کچھ بھی خون بہا ہو) وہ خوبی کے ساتھ اُسے ادا کر دیا جائے ۔ ۴۶۹  یہ تمھارے پروردگار کی طرف سے ایک قسم کی رعایت اور تم پر اُس کی عنایت ہے ۔ ۴۷۰  پھر اِس کے بعد جو زیادتی کرے تو اُس کے لیے (قیامت میں) دردناک سزا ہے ۴۷۱ ـــــ اور تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے ، ۴۷۲ عقل والو، تاکہ تم حدود الہٰی کی پابندی کرتے رہو ۔ ۱۷۸۔ ۱۷۹ 

۴۶۴؎ قصاص ’قصص‘ سے ہے جس کے اصل معنی کسی کے پیچھے اس کے نقش قدم کے ساتھ چلنے کے ہیں ۔ اسی سے یہ اس سزا کے لیے استعمال ہوا جس میں مجرم کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے جو اس نے دوسروں کے ساتھ کیا ہے ۔

۴۶۵؎ اس حکم کا تعلق مسلمانوں کے پورے معاشرے سے ہے ۔ ’کتب علیکم ‘ کا مخاطب وہی ہے ۔ چنانچہ یہ فرض معاشرے کے نظم اجتماعی پر عائد ہوتا ہے کہ اس کے دائرۂ اختیار میں اگر کوئی قتل ہو جائے تواس کے قاتلوں کا سراغ لگائے، انھیں گرفتار کرے اور قانون کے مطابق مقتول کے اولیا کی مرضی ان پر ٹھیک ٹھیک نافذ کر دے ۔

۴۶۶؎ یہ اس بے لاگ انصاف اور کامل مساوات کا بیان ہے جو قصاص میں لازماً ملحوظ رکھی جائے گی ۔ قرآن کے اس حکم نے قدیم و جدید جاہلیت کی تمام ناانصافیوں کا خاتمہ کر دیا ہے ۔ا دنیٰ و اعلیٰ ، امیر و غریب ، شریف و وضیع اور آقاو غلام ، سب کو ایک ہی آدم و حوا کی اولاد مان کر اس معاملے میں بالکل ایک ہی سطح پر رکھا جائے گا ۔ کسی شخص کا معاشرتی اور سماجی مرتبہ ہر گز کسی ترجیح کا باعث نہ بنے گا اور قانون و عدالت ہر ایک کے ساتھ بالکل یکساں معاملہ کریں گے ۔

۴۶۷؎ یعنی اگر مقتول کے وارثوں کی طرف سے قاتل کو کچھ چھوٹ دے دی گئی ۔ اس کی جو صورت یہاں مراد ہے ، وہ یہ ہے کہ جان کے بدلے جان کے بجائے وہ خون بہا لینا قبول کر لیں ۔ آگے ’ اداء الیہ باحسان‘ کے الفاظ سے یہ معنی بالکل واضح ہو جاتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ قصاص کا معاملہ شریعت کی رو سے قابل راضی نامہ ہے ۔ اس میں شبہ نہیں کہ جہاں تک قصاص لینے کے فرض کا تعلق ہے ، وہ تو حکومت ہی پر عائد ہوتا ہے ، لیکن اس کے ساتھ وہ پابند ہے کہ خود کوئی فیصلہ کرنے کے بجائے یہ اختیار مقتول کے وارثوں کو دے دے کہ وہ قانون کے حدود میںرہتے ہوئے چاہیں تو مجرم کو قتل کر دیں اور چاہیں تو اس سے دیت قبول کر لیں ۔ وارثوں کے اس اختیار کو نافذ کر دینے کے بعد حکومت اس فرض سے سبک دوش ہو جائے گی جو ’کتب علیکم القصاص فی القتلی‘ کی رو سے اس پر عائد ہوتا ہے ۔ غور کیجیے تو اس معاملے میں شریعت کا یہی اصول ہے جو اسے موجودہ قوانین سے ممتاز کرتا ہے اور مجرم کو اس طریقے سے ان لوگوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر جن کے خلاف جرم کا ارتکاب ہوا ہے ، نہ صرف یہ کہ ان کی آتش انتقام بجھا دیتا ہے ، بلکہ قتل جیسے جرائم سے مسموم معاشروں میں اس زہر کا تریاق بن جاتا ہے ۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’قصاص کے معاملے میں مقتول کے اولیا کی مرضی کو اسلام نے یہ اہمیت جو دی ہے ، یہ مختلف پہلووں سے نہایت حکیمانہ ہے ۔ قاتل کی جان پر مقتول کے وارثوں کو براہ راست اختیار مل جانے سے ایک تو ان کے بہت بڑے زخم کے اندمال کی ایک شکل پیدا ہوتی ہے ، دوسرے اگر اس صورت میں یہ کوئی نرم رویہ اختیار کریں تو قاتل اور اس کے خاندان پر یہ ان کا براہ راست احسان ہوتا ہے جس سے نہایت مفید نتائج کی توقع ہو سکتی ہے ۔ ‘‘ (تدبرِ قرآن ۱/ ۴۳۳)

اس میں یہ بات البتہ ، بالبداہت واضح ہے کہ مقتول اگر لاوارث ہو یا اس کے وارث تو ہوں ، لیکن وہ کسی وجہ سے مقتول کے معاملے میں کوئی دل چسپی نہ رکھتے ہوں یا ان کی اصل دل چسپی ہی کسی سبب سے مقتول کے بجائے قاتل اور اس کے شرکا کے ساتھ ہو جائے تو حکومت یقینا مدعی ہو گی اور وہی اختیار جو مقتول کے اولیا کو حاصل ہے ، وہ اس صورت میں اسے حاصل ہو جائے گا۔

۴۶۸؎ اصل الفاظ ہیں : ’فاتباع بالمعروف‘ ۔ لفظ ’معروف‘ قرآن میں بھلائی اور خیر کے معنی میں بھی آیا ہے اور رواج اور دستور کے معنی میں بھی ۔ یہاں ’اداء الیہ باحسان‘ کے الفاظ اس کے بعد دلیل ہیں کہ یہ دوسرے معنی میں ہے ۔ اس سے صاف واضح ہے کہ قرآن نے دیت کی کوئی خاص مقدار خود متعین کر دینے کے بجائے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اس معاملے میں معاشرے کے دستور کی پیروی کریں ۔ قرآن کے اس حکم کے مطابق ہر معاشرہ اپنے ہی دستور کا پابند ہے ۔ جس معاشرے میں دیت کا کوئی قانون پہلے سے موجود نہیں ہے ، وہاں مسلمانوں کے ارباب حل و عقد کو اختیار ہے کہ چاہیں تو عرب کے اس دستور کو برقرار رکھیں جس کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں دیت کے فیصلے کیے اور چاہیں تو اس کی کوئی دوسری صورت تجویز کریں ۔ وہ جو صورت بھی اختیار کریں گے ، معاشرہ اسے قبول کر لیتا ہے تو اس کے لیے وہی دستور قرار پائے گی اور اس کے مطابق دیت ادا کر دینے سے قرآن کا منشا یقیناً پورا ہو جائے گا ۔

۴۶۹؎ یہ خوبی کے ساتھ دیت ادا کرنے کا حکم جس وجہ سے دیا ہے ، اس کی وضاحت میں استاذ امام نے لکھا ہے :

’’حسن و خوبی کے ساتھ ادائیگی کی تاکید ا س لیے فرمائی کہ عرب میں دیت کی ادائیگی بالعموم نقد کی صورت میں نہیں ، بلکہ جنس و مال کی شکل میں ہوتی تھی ۔ اس وجہ سے اگر ادئیگی کرنے والوں کی نیت اچھی نہ ہوتی تو وہ اس میں بہت کچھ چالیں چل سکتے تھے ۔ یہ بات بڑی آسانی سے ممکن ہے کہ اونٹوں یا بکریوں کی تعداد یا غلہ اور کھجور کی مقدار و کمیت کے لحاظ سے تو دیت کا مطالبہ پورا کر دیا جائے ، لیکن باعتبار حقیقت و کیفیت اس کی حیثیت محض خانہ پری ہی کی ہو ۔ اگر ایسا ہو تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ ان لوگوں کے احسان کی کوئی قدر نہیں کی گئی جنھوں نے ایک شخص کی جان پر شرعی اختیار پا کر اس کو معاف کر دیا اور اس کی طرف سے مال قبول کر لینے پر راضی ہوگئے ۔ ان کے احسان کا جواب تو احسان ہی ہونا چاہیے ۔ یعنی دیت کی ادائیگی اس خوبی ، فیاضی اور کشادہ دلی کے ساتھ کی جائے کہ ان کو یہ صدمہ نہ اٹھانا پڑے کہ انھوں نے اپنے ایک عزیز کے خون کے بدلے میں بھیڑ بکریاں قبول کر کے کوئی غلطی یا بے غیرتی کی ۔ ‘‘ (تدبرِ قرآن ۱/ ۴۳۴)

۴۷۰؎ مطلب یہ ہے کہ حرمت جان کا اصل حق تو یہی تھا کہ جان کے بدلے جان لی جاتی ، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہے کہ اس نے اس معاملے میں رعایت فرما دی ہے ۔ لہٰذا اب اس رعایت سے کسی شخص کو کوئی غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے ۔

۴۷۱؎ اس کی تفسیر میں استاذ امام لکھتے ہیں :

’’اس میں قاتل اور اس کے خاندان والوں کے لیے بھی تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس رعایت سے فائدہ اٹھانے کے بعد یہ انتہائی کفرانِ نعمت ہو گا کہ اس کے پردے میں مقتول کے خاندان پر کسی نئے ظلم کے لیے اسکیم بنائی جائے ۔ مثلاً یہ کہ قاتل اور اس کے اعزہ یہ منصوبہ بنائیں کہ اس وقت تو کسی طرح مقتول کے ورثا کو راضی کر کے اپنی جان بچا لو ، پھر موقع پیدا کر کے اس کو مزید نقصان پہنچائیں گے ۔ اسی طرح اس میں مقتول کے وارثوں کے لیے بھی تنبیہ ہے کہ انھیں اپنے دل میں یہ منصوبہ رکھ کے دیت کا راضی نامہ نہیں کرنا چاہیے کہ اس وقت تو قاتل سے دیت لے لیتے ہیں ، بعد میں موقع ملنے پر اس کی جان بھی ٹھکانے لگا دیں گے ۔ خدا کی بخشی ہوئی ایک رعایت کے تحت جو راضی نامہ ہو گیا ہے ، دونوں فریقوں کو سچے دل سے اس کا احترام کرنا چاہیے۔ جو بھی یہ راضی نامہ ہو چکنے کے بعد کوئی زیادتی کرے گا ، وہ اللہ کے غضب کا مستحق ٹھیرے گا ۔ ‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۴۳۴)

۴۷۲؎ یہ قرآن نے خاص طور پر اہل عقل کو مخاطب کر کے اس قانون کی حکمت بیان فرمائی ہے تاکہ لوگ نہ قصاص کے معاملے میں کسی سہل انگاری، چشم پوشی ، جانب داری اور بے جا رحم و مروت کو حائل ہونے دیں اور نہ جذبات سے مغلوب ہو کر جرم و سزا کے معاملے میں اس طرح کے فلسفے پیش کرنے کی جسارت کریں جو اس زمانے میں بعض لوگوں نے مجرموں کی وکالت کرتے ہوئے پیش فرمائے ہیں ۔ استاذ امام اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں :

’’یہ زندگی فرد کے لحاظ سے نہیں ، بلکہ معاشرے کے لحاظ سے ہے ۔ اگر ایک شخص قتل کے جرم میں قتل کر دیا جاتا ہے تو بظاہر تو ایک جان کے بعد یہ دوسری جان بھی گویا تلف ہی ہوتی ہے ، لیکن حقیقت کے اعتبار سے اگر دیکھیے تو اس کے قتل سے پورے معاشرے کے لیے زندگی کی ضمانت پیدا ہوتی ہے ۔ اگر اس سے قصاص نہ لیا جائے تو یہ جس ذہنی خرابی میں مبتلا ہو کر ایک بے گناہ کے قتل کا مرتکب ہوا ہے ، وہ خرابی پورے معاشرے میں متعدی ہو جائے ۔ بیماری اور بیماری میں فرق ہوتا ہے ۔ جو بیماریاں قتل ، ڈکیتی، چوری اور زنا وغیرہ جیسے خطرناک جرائم کا سبب بنتی ہیں ، ان کی مثال ان بیماریوں کی ہے جن میں پورے جسم کو بچانے کے لیے بسا اوقات جسم کے کسی عضو کو کاٹ کر الگ کر دینا پڑتا ہے ۔ اگرچہ کسی عضو کو کاٹ پھینکنا ایک سنگ دلی کا کام معلوم ہوتا ہے ، لیکن ایک ڈاکٹر کو یہ سنگ دلی اختیار کرنی پڑتی ہے ۔ اگر وہ طبیعت پر جبر کر کے یہ سنگ دلی اختیار نہ کرے تو اس ایک عضو کی ہم دردی میں اسے مریض کے پورے جسم کو ہلاکت کے حوالے کرنا پڑے گا ۔
معاشرہ اپنی مجموعی حیثیت میں ایک جسم سے مشابہت رکھتا ہے ۔ اس جسم کے بعض اعضا میں بھی بسا اوقات اسی قسم کا فساد و اختلال پیدا ہو جاتا ہے جس کا علاج مرہم و ضماد سے ممکن نہیں ہوتا ، بلکہ عضو مریض پر آپریشن کر کے اس کو جسم کے مجموعے سے الگ کر دینا ضروری ہوتا ہے ۔ اگر یہ خیال کیا جائے کہ یہ عضو مریض ہے ، اس وجہ سے نرمی اور ہم دردی کا مستحق ہے تو اس نرمی کا نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ ایک دن یہ عضو سارے جسم کو سڑا اور گلا کر رکھ دے ۔ ‘‘ (تدبر قران ۱/ ۴۳۶)

(باقی)      

              ـــــــــــــــ              ـــــــــــــــ

B