HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

تقدیر اور عمل

(مشکوٰۃ المصابیح حدیث: ۸۵)


عن علی رضی اﷲ عنہ قال : قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم : ما منکم من أحد إلا و قد کتب مقعدہ من النار و مقعدہ من الجنۃ ۔ قالوا یا رسول اﷲ ، أفلا نتکل علی کتابنا و ندع العمل ؟ قال : اعملوا فکل میسر لما خلق لہ ، و اما من کان من أہل السعادۃ فسییسر لعمل السعادۃ ، و أما من کان من اھل الشقاوۃ فسییسر لعمل الشقاوۃ ۔ ثم قرأ: ’فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَ اتَّقٰی ۔ وَ صَدَّقَ بِالْحُسْنٰی ۔ فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْیُسْرٰی ۔ وَ اَمَّا مَنْ بَخِلَ وَ اسْتَغْنٰی ۔ وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰی ۔ فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْعُسْرٰی‘ ۔
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی ایک نہیں ہے ،مگر یہ کہ اس کاجہنم کا ٹھکانا اور جنت کا ٹھکانا لکھ دیا گیا ہو ۔ لوگوں نے کہا : یا رسول اللہ، کیوں نہ ہم اپنے لکھے پر بھروسا کریں اور عمل چھوڑ دیں ۔ آپ نے واضح کیا ۔ عمل کرو کیونکہ ہر ایک کو اس کی توفیق دی جاتی ہے جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے ۔وہ جو اہل سعادت میں سے ہوتے ہیں ، انھیں سعادت کے عمل کی توفیق دی جاتی ہے ۔ اور وہ جو بد نصیبوں میں سے ہوتے ہیں ، انھیں بدنصیب کے اعمال کی توفیق دی جاتی ہے ۔ پھر آپ نے (سورۂ لیل کی ان آیات کی) تلاوت کی :’’چنانچہ وہ جس نے دیا ، تقویٰ کی راہ اختیار کی اور اچھی راہ کی تصدیق کی تو ہم اس کے لیے جلد آسانی کا سامان کریں گے اور جس نے بخل کیا اور بے پروائی کی اور اچھائی کو جھٹلایا تو ہم اس کے لیے جلد تنگی کا سامان کریں گے۔ ‘‘ ‘‘

لغوی مباحث

مقعدہ من النار و مقعدہ من الجنۃ: اس ’و‘ کے بارے میں یہ سوال ہے کہ آیا ہر شخص کے لیے دونوں جگہ جانا ضروری ہے ۔ اس کا ایک حل یہ کیا گیا ہے کہ یہ برزخی زندگی سے متعلق ہے ۔ حدیث کا مضمون اس تاویل کو قبول نہیں کرتا ۔ صحیح یہ ہے کہ یہ ’و‘ ’أو‘ کے معنی میں ہے ۔

السعادۃ: لفظی معنی تو خوش بختی کے ہیں ، لیکن یہاں اس کا اطلاق دنیا میں ایمان و عمل صالح کی توفیق اور آخرت میں رضاے الہٰی اور جنت کے حصول پر ہوا ہے ۔

الشقاوۃ: لفظی معنی دل کی سختی کے ہیں ۔یہ ’سعادۃ‘ کے بالمقابل بد بختی کے معنی میں بھی آتا ہے ۔اس حدیث میں اس سے مراد ایمان کی حقیقت اورعمل صالح کی توفیق سے محرومی اور نتیجۃً جہنم کا انجام ہے۔

سییسر: ’یسر‘ کسی کے لیے کسی شے کے حصول کو آسان بنانے کے معنی میں آتا ہے ۔اسی سے یہ نیک و بد کی توفیق دیے جانے کے معنی میں بھی آیا ہے ۔

صدق بالحسنی: ’’اس نے ’حسنی‘ کی تصدیق کی ‘‘سے کیا مراد ہے ؟ مولانا امیں احسن صاحب اصلاحی نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’’ حسنی‘ کا موصوف ’عاقبۃ‘یا اس کے کوئی ہم معنی لفظ محذوف ہے ۔ یعنی وہ انفاق یا نیکی کے اچھے انجام پر یقین رکھتے ہیں ۔ یہ ان کی نیکی کے اصل محرک کا پتا دیا ہے ۔‘‘(تدبر قرآن ۹/ ۴۰۳)

متون

ایک روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس گفتگو کا پس منظر بھی بیان ہوا ہے:

کنا فی جنازۃ فی بقیع الغرقد۔ فأتانا نبی صلی اﷲ علیہ وسلم فقعد وقعدنا حولہ ومعہ مخضرۃ۔ فنکس۔ فجعل ینکت بمخضرتہ۔ ثم قال: ما منکم من أحد وما من نفس منفوسۃ الا کتب مکانہ من الجنۃ و النار والا قد کتب شقیۃ و سعیدۃ۔ (بخاری ، رقم ۱۲۷۴)
’’ ہم بقیع غرقد میں ایک جنازے میں شریک تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمارے پاس آگئے ۔آپ بیٹھ گئے اور ہم بھی ان کے گرد بیٹھ گئے ۔ آپ کے ہاتھ میں ایک سبز شاخ تھی ۔آپ نے سر جھکایا اور شاخ کی نوک زمین پر مارنے لگے ۔پھر فرمایا :نہ تم میں سے کوئی ایسا ہے اور نہ پیدا ہونے والی کوئی جان ایسی ہے جس کا جنت یا جہنم میں ٹھکانا اور جس کا شقی یا سعید ہونا لکھ نہ دیا گیا ہو ۔‘‘

ایک روایت کا آغاز صرف ان الفاظ سے ہوا ہے : ’کنا جلوسا عند النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال ۔۔۔‘۔ ایک روایت میں ’قد کتب مقعدہ‘ کے بجائے ’قد علم منزلہا من الجنۃ و النار‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے فرق معمولی نوعیت کے ہیں ۔ بعض روایات مفصل اور بعض مختصر ہیں ۔ اسی طرح بعض روایات کے کچھ الفاظ اس روایت سے مختلف ہیں۔ لیکن مضمون میں ان سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا ۔ایک آدھ روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن مجید سے استدلال نقل نہیں ہوا ۔ اگرچہ اس روایت کے مفہوم اور آیات کے مفہوم میں کافی بعد ہے ۔ اس وجہ سے خیال ہوتا ہے کہ شاید اس استدلال کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت درست نہ ہو اور جن راویوں نے اسے نقل نہیں کیا ، ان کی روایت ہی زیادہ درست ہو ۔ لیکن تمام اہم محدثین نے استدلال والی روایت نقل کی ہے ۔اس لیے اسے اصل روایت کی حیثیت دینے کے سوا کو ئی چارہ نہیں ہے۔

معنی

اس روایت کے محل غور پہلو تین ہیں:

ایک یہ کہ انجام لکھ دیے جانے سے کیا مراد ہے؟

دوسرے یہ کہ انجام کے متعین ہونے کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر انحصار کو کیوں درست نہیں سمجھا؟

تیسرے یہ کہ روایت میں جن آیات سے استشہاد کیا گیا ہے ، بظاہر ان کا روایت کے مضمون سے کوئی تعلق نہیں بنتا ۔ اس تضاد کا حل کیا ہے؟

ہم یہ بات اس سے پہلے کی روایات کی وضاحت میں بیان کر چکے ہیں کہ نیکی و بدی کا معاملہ سر تا سر ہمارے اختیار میں ہے ۔ قرآن مجید نے متعدد مقامات پر یہ بات بیان کی ہے کہ ہدایت و ضلالت کے معاملے میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے لیے دونوں راہیں کھلی رکھی ہیں ۔ جو آدمی راہ حق کو اختیار کرنا چاہتا ہے ، اسے اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آتی اور جو برائی کی راہ اختیار کرنا چاہتا ہے ، اسے اس کا پورا موقع حاصل ہوتا ہے ۔ چنانچہ روایات میں انجام کے لکھے جانے کے الفاظ سے یہ مطلب لینا کسی طرح درست نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کا انجام پہلے سے متعین کر رکھا ہے ۔ دوزخ کے لیے پیدا کیے گئے لوگ جنت میں نہیں جا سکتے اور جہنم کے لیے تخلیق کیے گئے لوگ بہشت میں داخل نہیں ہو سکتے۔اس بیان کی اس کے علاوہ کوئی حقیقت نہیں ہو سکتی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مستقبل کے علم کی بنیاد پر ہر شخص کی کار کردگی کو دیکھ لیا ہے اور اسے لکھ بھی دیا ہے۔ یعنی معاملہ یہ نہیں ہے کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے طے کیا کہ فلاں شخص یہ اور یہ کرے اوراس کے بعد اس طے شدہ پروگرام کو لکھ دیا گیا ہے ۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر و شر کے اختیار کرنے کی کامل آزادی دی ۔ پھر اپنے علم جو ماضی حال اور مستقبل سب پر حاوی ہے کی بنیاد پر یہ لکھ دیا کہ فلاں یہ اور یہ کرے گا ۔غرض یہ کہ یہ علم انسان کی آزادیِ ترک و اختیار پر کوئی قدغن عائد نہیں کرتا۔

ہماری اس بات سے دوسرا نکتہ آپ سے آپ واضح ہو جاتا ہے ۔ جب معاملہ جبر کا نہیں ہے ۔ ہر انسان خیر وشر کے اختیار کرنے میں کامل آزاد ہے اور اس کا انجام اس کے کیے ہوئے اعمال پر منحصر ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ترکِ عمل کی تلقین کسی طرح نہیں کر سکتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل درست فرمایا کہ ہر شخص کو خیر کی راہ پر چلنا چاہیے تاکہ وہ خدا کے سعادت مند بندوں میں شامل ہو اور وہ برائیوں کو چھوڑے تاکہ بد بختوں میں سے نکل جائے ۔

یہاں یہ بات واضح رہے کہ روایت میں یہ بات جن الفاظ میں کہی گئی ہے ، ان سے یہ مفہوم اخذ کرنا نا ممکن ہے ۔ الفاظ کا تقاضا تو یہ ہے کہ یہ بات مان لی جائے کہ کچھ لوگوں کے لیے جنت مقدر ہے اور کچھ لوگوں کے لیے جہنم مقدر ہے ۔ جنت والوں کو اچھے اعمال کی توفیق دی جاتی ہے اور جہنم والوں کو برے اعمال کے مواقع دیے جاتے ہیں ۔ حدیث کے یہ الفاظ اور ان کا یہ مفہوم قرآن مجید کے صریحاً خلاف ہے ۔ لہٰذا اس بات کو کسی صورت میں بھی نہیں مانا جاسکتا ۔ ہمارا گمان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی بات فرمائی ہوگی جس کی تفصیل ہم نے اوپر کے پیرا گراف میں کی ہے ۔ قرین قیاس یہی لگتا ہے کہ روایت ہونے میں بات تبدیل ہو گئی ہے ۔

تیسرا نکتہ روایت کے ظاہری معنی اور آیات کے مفہوم کے تضاد سے متعلق ہے ۔ پہلے آیات کے سیاق پر ایک نظر ڈال لیجیے:

وَاللَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی۔ وَالنَّہَارِ اِذَا تَجَلّٰی۔ وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی ۔ اِنَّ سَعْیَکُمْ لَشَتّٰی ۔ فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَ اتَّقٰی ۔ وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی ۔ فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْیُسْرٰی۔ وَ اَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنٰی ۔ وَ کَذَّبَ بِالْحُسْنٰی ۔ فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْعُسْرٰی۔ (اللیل ۹۲: ۱۔۱۰)
’’ شاہد ہے رات جبکہ چھاجاتی ہے اور دن جبکہ چمک اٹھتا ہے اور شاہد ہے نرومادہ کی آفرینش کہ تمھاری (آخرت کی ) کمائی الگ الگ ہے ۔سو جس نے انفاق کیا اور پرہیز گاری اختیار کی اور اچھے انجام کوسچ جانا ، اس کو تو ہم اہل بنائیں گے راحت کی منزل کا اور جس نے بخالت کی اور بے پروا ہوا اور اچھے انجام کو جھٹلایا، اس کو ہم ڈھیل دیں گے کٹھن منزل کے لیے ۔ ‘‘

مولانا امین احسن صاحب اصلاحی نے ان آیات کی وضاحت میں لکھا ہے:

’’عقل اور فطرت کا بدیہی تقاضا ہے کہ نیکوں اور بدوں ، دونوں کی سعی کا نتیجہ ایک ہی شکل میں برآمد نہ ہو ، بلکہ ان کی جدو جہد کے اعتبار سے الگ الگ ہو ۔ جنھوں نے نیکی کمائی ہو ، وہ اس کا صلہ فضل و انعام کی شکل میں پائیں اور جنھوں نے بدی کمائی ہو ، وہ اس کے انجام سے دوچار ہوں۔
فاما من اعطی‘ یہ تفصیل ہے اس فرق و اختلاف کی جو لازماً نیکوں اور بدوں کی کمائی میں رونما ہوگا اورجس کو رونما ہونا چاہیے بھی ۔ فرمایا جو اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا ، اپنے رب سے ڈرے گا ، اچھے انجام کو سچ مانے گا ، اس کو تو ہم آسان راہ پر چلائیں اور آسانی کی منزل تک پہنچائیں گے ۔
اعطی‘ کے بعد ’واتقی‘ کے ذکر سے مقصود اس حقیقت کا اظہار ہے کہ اس انفاق سے مقصود ریاو نمایش یاکوئی اور دنیوی چیز نہ ہو ، بلکہ صرف اللہ کی خوشنودی کی تمنا اور ایک ایسے دن کا خوف ہو جس دن نیک عمل کے سوا کوئی چیز کام آنے والی نہیں بنے گی ۔
فسنیسرہ للیسری‘ یہ اس سنت الہٰی کا حوالہ ہے جو قرآن میں جگہ جگہ بیان ہوئی ہے کہ جو شخص نیکی کی راہ اختیار کر لیتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس راہ کی مشکلات آسان کرتا اور اس کو کامیابی کی منزل تک پہنچنے کی توفیق بخشتا ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ۹/ ۴۰۲)

ان آیات میں یہ بات بیان نہیں ہوئی کہ اصل فیصلہ تقدیر کا ہے، بلکہ اس کے بالکل برعکس یہ بات بیان ہوئی ہے کہ اللہ کی دنیا میں توفیق اور آخرت کا انجام انسان کے اپنے عمل کے انعام کی صورت میں نکلتا ہے ۔ روایت اس کے برعکس اعمال کو خدا کے فیصلے پر منحصر قرار دیتی ہے ۔یقیناًنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیات اس بات کو واضح کرنے کے لیے بیان کی ہوں گی کہ تم نیکی کا ارادہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دیں گے اور برائی کا فیصلہ کرو گے تو اللہ اس کے لیے مہلت دیں گے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل کرنے کی تلقین کرنا اور ان آیات سے استشہاد اس بات کو واضح کرتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی بات فرمائی ہے جو قرآن مجید کے مطابق ہے۔ لیکن روایت ہونے میں الفاظ پوری صحت کے ساتھ نقل نہیں ہو سکے ۔

کتابیات

بخاری :کتاب الجنائز ، رقم ۱۲۷۴۔ کتاب تفسیر القرآن ، رقم ۴۵۶۴ ، ۴۵۶۵، ۴۵۶۶، ۴۵۶۷، ۴۵۶۸۔کتاب الادب ، رقم ۵۷۴۹۔ کتاب القدر ، رقم ۶۱۱۵۔ کتاب التوحید ، رقم ۶۹۹۷۔ مسلم :کتاب القدر، رقم ۴۷۸۶، ۴۷۸۷۔ترمذی :کتاب القدر ، رقم ۲۰۶۲۔ کتاب تفسیر القرآن ، رقم ۳۲۶۷۔ابن ماجہ :کتاب المقدمہ ، رقم۷۵۔ مسند احمد : رقم ۵۸۷ ، ۱۰۱۵، ۱۰۵۵ ، ۱۱۲۰ ، ۱۲۷۸، ۱۶۰۳۵ ، ۱۶۰۳۶، ۱۹۰۲۳ ۔ صحیح ابن حبان : ۲/ ۴۳۔ السنن الکبری : ۶/ ۵۱۷ ۔ الجامع از معمر بن راشد : ۱۱ /۱۱۱۔مسند ابی یعلی :۴/ ۴۵ ۔ مسند عبد بن حمید: ۱/ ۵۷۔

____________

B