HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : خورشید احمد ندیم

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

اسلام اور مغرب: ۱۱ ستمبر کے بعد

۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد ہم ایک نئی دنیا میں زندہ ہیں۔ ایسی دینا جس میں انسانوں کے خیالات، زاویۂ نگاہ، اندازِ حیات، ہر چیز پہلے سے مختلف ہے۔ مثال کے طور پر مغرب میں بسنے والا انسان یہ بھی سوچنے لگا تھا کہ ایک آزاد جمہوری سرمایہ دارانہ معاشرے (Liberal Democratic Capitalist Society) کے قیام کے بعد ہم ایک ایسی معاشرت کو وجود میں لانے میں کا میاب ہو گئے ہیں، جسے مزید ارتقا کا کو ئی مرحلہ درپیش نہیں ہے۔ جو لوگ اس تصورپر سنجیدگی سے غورکرتے تھے، اب یقیناًکسی دوسرے زاویے سے سوچ رہے ہیں۔ اسی طرح پروفیسرہنٹٹنگٹن نے جب تہذیبوں کے تصادم کی پیش گوئی کی تھی تو جہاں یہ ایک عالم گیر معاشرت ( Globalization) کے تصور کی نفی تھی، وہاں اس بات کا بھی اعلان تھا کہ آنے والے دنوں میں مسابقت کا اصل میدان تہذیبی اقدار ہیں۔ ظاہر ہے کہ ۱۱ ستمبر کے بعد مقابلے کا یہ میدان بدل چکا ہے۔ ریاست کو درپیش مسائل کے باب میں بھی، جو رائے پہلے تھی، اب نہیں رہی۔ یہ کب کسی نے سوچاتھا کہ ایک وقت ایسا آنے والا ہے جب دہشت گردی ایک ریاست کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار پائے گی۔ چند افراد کا خوف ایک عظیم الشان مملکت پر آسیب کی طرح چھا جا ئے گا۔

’’اسلام اور مغرب‘‘ بھی یقیناًایک ایسا موضوع ہے جس پر غور و فکر کا اسلوب اب بدل رہا ہے۔ یہ موضوع اس سے قبل بھی زیرِ بحث تھا ، لیکن ۱۱ ستمبر کے بعد اس کی نوعیت وہ نہیں رہی۔ اس میں بعض نئی جہتیں ((Dimensions شامل ہو گئی ہیں۔ چونکہ یہ مسئلہ ایسا ہے ، جو مستقبل میں عالمی معاشرت کو سب سے زیادہ متاثر کر نے والا ہے، اس لیے ہمارے نزدیک اب یہ ہم پر بھی لازم ہو گیا ہے کہ اس پر زیادہ سے زیادہ سوچ بچار کیا جائے اور مسلمان ایک قوم کی حیثیت سے کوئی ایسا نقطۂ نظر اختیارکریں جو ایک طرف بہتر اور پر امن مستقبل کی بشارت ہو اور دوسری طرف مسلمانوں کے لیے ترقی اور بقا کے زیادہ سے زیادہ امکانات لیے ہوئے ہو۔ اس حوالے سے دو امور بطور خاص ہماری توجہ کے مستحق ہیں۔ ایک تو مغرب کے بارے میں درست معلومات اور دوسرا معاصراسلامی فکر کا جائزہ جسے آج مسلمانوں کی مجموعی سوچ قرار دیا جا رہا ہے۔

اس واقعے کے بعد ابتداءً مغرب میں جس رائے کا غلبہ رہا، وہ بحیثیت مجموعی اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ایک منفی تاثر پر مبنی تھی۔ اس رائے کو دو وجوہات سے تقویت پہنچی۔ ایک تو اس کا سبب وہ موقف ہے جو اسامہ بن لادن اور ان سے وابستہ لوگوں نے اختیار کر رکھا تھا۔ وہ علانیہ طور پر خود کو امریکہ کے سا تھ حالت جنگ میں قرار دے رہے تھے اور امریکہ کی نظر میں اسامہ سب سے زیادہ مطلوب آدمی Person) The Most Wanted (تھے۔ ظاہر ہے کہ ان دھماکوں کے بعد سب سے زیادہ شک انھی پر ہو نا تھا۔ پھر اس کے ساتھ مختلف مقامات پر مسلمانوں کے وہ مظاہرے تھے، جو اسامہ کے حق میں ہو رہے تھے۔ دوسری وجہ یہ ہو ئی کہ مغربی ذرائع ابلاغ اسامہ بن لادن کوپوری مسلمان قوم کا نمائندہ بنا کر پیش کر رہے تھے اور اس تاثرکو گہرا کر نے کی شعوری کوشش میں مصروف تھے کہ اسلام ایک جنگ جو مزاج کا مذہب ہے اور اس کے ماننے والوں سے انسانی تہذیب کو خطرات درپیش ہیں۔ اس باب میں ان کے ذرائع ابلاغ نے بنیادی اخلاقیات کو جس طرح پامال کیا، حقیقت یہ ہے کہ وہ مغربی تہذیب کے چہرے پر ایک بد نماداغ کے طور پر ہمیشہ نمایاں رہے گا۔ مثال کے طور پر ان دھماکوں کے بعد سی این این نے کئی مرتبہ ایک فلم دکھائی جس میں فلسطینی مسلمان ان واقعات پر اظہار مسرت کر رہے ہیں۔ظاہر بات ہے کہ اگر کسی کے گھر میں صف ماتم بچھی ہو اور اس پر کو ئی خوشی کا اظہار کرے تو اس کا لازمی نتیجہ نفرت کا وہ جذبہ ہے جو متاثرہ قوم کے دل میں پیدا ہو تا ہے۔ اب یہ بات متحقق ہو گئی ہے کہ یہ فلم ۱۹۹۱ ء میں بنی تھی جب تل ابیب پر عراق کے میز ائل گرے تھے۔ فلسطینی اس واقعے پر خوشی منا رہے تھے ، لیکن سی این این جیسا عالمی شہرت یافتہ ادارہ اسے ۱۱ ستمبر کے دھماکوں کے تناظر میں دکھا رہا تھا۔ اس کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتا کہ امریکیوں میں فلسطین کے مسلمانو ں کے بارے میں نفرت پیدا کی جائے اور اسرائیل کے لیے ہمدردی میں اضافہ کیا جائے۔ ان ذرائع ابلاغ کی اس جارحانہ مہم نے بھی عام لوگوں پر اثرڈالا۔ امریکہ کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہاں ایک عام آدمی عالمی سیاست سے کو ئی دل چسپی نہیں رکھتا۔ بہت سے لوگ یہ بھی نہیں جا نتے کہ دنیا کے نقشے پر افغانستان یا پاکستان نام کے ممالک بھی موجود ہیں۔ ان کے اذہان کو متاثر کر نے میں ان ذرائع ابلاغ نے بنیادی کردار ادا کیا جو رائے سازی کا آج سب سے موثر ذریعہ ہیں۔

ان دو وجوہات کی بنیاد پر ابتدا میں اہل مغرب کی نفرت اور نا پسندیدگی کا نشانہ تنہا مسلمان ہی بنے۔ ایک طرف امریکہ اور بعض دوسری جگہوں پر ایسے افسوس ناک واقعات ہوئے جن میں عام مسلمانوں کو اہل مغرب کی ناراضی کا شکار ہونا پڑا اور دوسری طرف صدر بش جیسے آدمی نے بھی غیر محتاط الفاظ استعمال کر تے ہوئے ان واقعات کو نئی صلیبی جنگوں کا نقطۂ آغاز قرار دے دیا۔ اگر چہ جلد ہی انھیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور انھوں نے اس پر معذرت کر لی۔ اس سے یہ معلو م کیا جا سکتا ہے کہ ذرائع ابلاغ نے کیسے لوگوں کے دل و دماغ کو ماؤف کر دیا تھا۔ تا ہم یہ دورانیہ کچھ ایسا طویل نہیں رہا۔ جیسے ہی جذبات کی شدت میں کمی آئی لو گوں نے ان واقعات کو ایک وسیع تر تناظر میں دیکھنا شروع کر دیا۔ ایک طرف اس رائے کا اظہار ہو نے لگا کہ ان واقعات کا ذمہ دار تنہا اسامہ بن لادن کو قرار دینا اس وقت تک درست نہیں ہو گا جب تک آپ کے پاس ٹھوس شواہد موجود نہ ہوں۔ لہٰذا دوسرے عوامل پر بھی غور کر نا چاہیے اور اس پہلوسے بھی سوچنا چاہیے کہ ان دھماکو ں میں کو ئی دوسرا گروہ بھی ملوث ہو سکتا ہے۔دوسری طرف یہ رائے بھی سامنے آنے لگی کہ اسامہ بن لادن کو پوری ملت اسلامیہ کا تنہا ترجمان قرار دینا بھی صحیح نہیں ہے ۔ اس بات پر غور ہو نا چاہیے کہ وہ جو موقف پیش کر رہے ہیں ، کیا اسلام کے ماخذ اس کی تائید کر تے ہیں اور کیا مسلمان بحیثیت مجموعی اس تعبیر کو مانتے ہیں۔

اب یہ بات باآسانی کہی جا سکتی ہے کہ مغرب میں یہ موقف متفق علیہ نہیں رہا کہ اسلام کوئی جنگ جو مذہب ہے یا اس نوعیت کے واقعات کو اسلام کی حمایت حاصل ہے۔مثال کے طور پر ٹائم میگزین میں کیرن آرم سٹرانگ (Karen Armstrong) کا ایک مضمون ’’اسلام کا حقیقی پر امن چہرہ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے جس میں اس تاثر کی قرآن مجید کے نظائرکی روشنی میں نفی کی گئی ہے کہ اسلام تشددپسند دین ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ اسلام میں اگر ان واقعات کے حق میں کو ئی دلیل ہو تی جو ۱۱ ستمبر کو پیش آئے تواسلام کبھی دنیا کا سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا دین نہ ہو تا۔ اس نے مزید لکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو جنگ کی نفسیات میں جینے والے عرب معاشرے کو اس فضا سے نکال کر امن اور بھائی چارے کا درس دیا، اگر انھوں نے کبھی جنگ لڑی تو اسی وقت جب انھیں اس پر مجبور کیا گیا۔ کیرن آرم سٹرانگ نے لکھا کہ اسلام آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت کا اصول مانتا ہے جو تورات میں بھی بیان ہو ا ہے ، لیکن اگر کو ئی معاف کر دینے کی روش اختیار کر ے تو قرآن اس کو زیادہ پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ۱ ؂

یہ بات بھی پوری طرح درست نہیں کہ مغرب یا امریکہ کا ہر آدمی اسلام یا مسلمانوں کے خلاف جنگ چاہتا ہے یا اس رجحان کی تائید کر رہا ہے ۔’’انڈی پینڈنٹ‘‘ کے رابرٹ فسک اورمعروف دانش ور نوم چومسکی جیسے حضرات اب امریکہ پر کھل کر تنقید کر رہے ہیں اور ان واقعات کو اس حکمت عملی کا رد عمل قرار دے ہے ہیں جو امریکہ نے مشرق وسطیٰ یا غریب اقوام کے معاملے میں اختیار کر رکھی ہے۔ ان کے نزدیک یہ سب کیا دھرا امریکہ کا اپنا ہے۔ اگر وہ فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم کی تائید نہ کرتا اور غریب ملکوں پر عرصۂ حیات تنگ نہ کر تا تو اس صورت حال سے دو چار نہ ہو تا۔ امریکہ کا ایک عام شہری بھی اب جنگ نہیں چاہتا اور اس رائے کے خلاف ہے کہ تشدد کا جواب تشدد سے دیا جائے۔ ۱۱ ستمبر کو پینٹا گان میں امریکی فوج کا ایک ذمہ دار فرد کریگ سکاٹ امنڈسن (Craig Scott Amundson)بھی ہلاک ہوا۔ یہ اٹھائیس سالہ نوجوان دو بچوں کا باپ تھا۔ جب جنگ کی فضا بننے لگی اور انتقام کی آ واز یں بلند ہوئیں تو اس کی اہلیہ امبر امنڈسن نے ایک مضمون لکھا جو ’’شکاگو ٹریبون‘‘ میں ۲۵ ستمبر ۲۰۰۱ء کو شائع ہوا۔ اس مضمون میں اس نے لکھا :

’’اس خوف نے میر ے دکھ کو گہرا کر دیا ہے کہ میر ے خاوند کی موت کو بہت سے معصوم لو گوں پر تشدد کے لیے جواز بنایا جا رہا ہے۔امریکی قوم کے جو راہنما انتقام کی بات کر رہے ہیں، میں ان پر واضح کر نا چاہتی ہوں کہ اس سے میر ے خاندان کو کوئی خوشی نہیں ہوئی۔ اگر آپ لوگ ۱۱ ستمبر کے واقعات کو معصوم لوگوں پر تشدد کے لیے بطور دلیل استعمال کر یں گے تو یہ میرے خاوند کے ساتھ انصاف نہیں ہو گا۔ انتقام کے الفاظ جو آپ کی زبانوں سے نکل رہے ہیں، میر ے خاندان کے غم میں اضافہ کر رہے ہیں۔ میں اپنی قوم کے رہنما ؤں سے یہ کہتی ہوں کہ وہ ۱۱ ستمبر کے حادثے کوتشدد کے خاتمے کے لیے استعمال کریں۔ اور امریکی قوم کی صلاحیت اور وسائل کو نفرت اور تشدد سے آزادی کی خاطر ایک عالمی مکالمے کے لیے استعمال میں لائیں۔‘‘

آج جو غلطی مغربی ذرائع ابلاغ مسلمانو ں یا اسلام کے بارے میں دانستہ یا نادانستہ طور پر کر رہے ہیں، ہم بھی مغرب کے بارے میں رائے قائم کر تے وقت اسی غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں ہمارے ہاں بھی ایک رائے یہی ہے کہ مغرب بحیثیت مجموعی مسلمانوں کے خلاف بر سر پیکار ہے اور ہمیں بھی جواباً تیرو تفنگ لے کر میدان میں نکل آنا چاہیے۔ ہمارے نزدیک یہ رائے درست نہیں ہے۔ امریکہ اور مغرب میں کیر ن آرم سٹرانگ، رابٹ فسک، چومسکی اور امبرامیڈسن جیسے بہت سے لو گ بھی ہیں جو دوسری سمت میں سوچ رہے ہیں اور یہ محض چند نام نہیں ، بلکہ ایک نقطۂ نظر کی ترجمانی ہے جس کے حاملین کم نہیں ہیں ۔ ایسے بہت سے واقعات اخبارات وغیرہ میں نقل ہوئے ہیں اور بعض سے ہم ذاتی طور پر آگاہ ہیں کہ اس فضا میں کئی غیرمسلموں نے مسلمانوں کے تحفظ کا اہتمام کیا اور اس ماحول کو بدلنے کے لیے شعوری کوششیں کیں۔ پھر جس سطح کا یہ حادثہ تھا، اس کے رد عمل میں یہ واقعات کچھ ایسے زیادہ نہیں ہیں جو ایک پورے براعظم میں ہوئے۔

اس لیے ہمارے نزدیک آج ضرورت ہے کہ مسلمان مغرب میں موجود اس گروہ کو اپنا مخاطب بنائیں اور اس بات کی شعوری کو شش کر یں کہ مستقبل میں مغرب اور اسلام کے مابین فا صلے کے بجائے قربت میں اضافہ ہو۔ تصادم کے بجائے مکالمے کی فضا قائم ہو۔ اگر کسی سمت سے صلیبی جنگوں کا کو ئی احمقانہ نعرہ بلند ہو تو جواباً ویسا ہی نعرہ بلند کر نا کوئی حکیمانہ طرز عمل نہیں ہے۔ اس کی ایک ضرورت تو اس وجہ سے ہے کہ تصادم کسی طرح بھی انسانیت کے مفاد میں نہیں ہے۔ دنیا جب بھی کسی جنگ میں مبتلا ہوئی ہے اس کا انجام کسی خیر پر نہیں ہوا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مسلمان آج مادی اعتبار سے اس قابل نہیں ہیں کہ کسی جنگ کے متحمل ہو سکیں۔ہم آج معاشی اور عسکری اعتبار سے مغرب بالخصوص امریکہ کے رحم و کر م پر ہیں۔ ہمارے ایف ۱۶ امریکہ کی دین ہیں۔ اور یہ چل نہیں سکتے اگر امریکہ اس کے فالتو پرزے فراہم نہ کر ے۔ دینا میں اسلحہ کے سب سے بڑے کا رخانے امریکہ میں ہیں اور تمام مسلمان ملک ان کے خریدار ہیں۔ اس میں کو ئی شبہ نہیں کہ مسلمان اللہ کی تائید پر بھروسہ کرتے ہیں ، لیکن اس باب میں بھی قرآنی اصول یہ ہے کہ اگر ہمارا ایمان صحابۂ کرام کی سطح کا ہو تب بھی مادی اعتبار سے ضروری ہے کہ دشمن کے مقابلے میں ایک اور دو کی نسبت ہو۔ آج نہ تو ہمارا ایمان ویسا ہے اور نہ ہم مادی اعتبار سے دشمن کے مقابلے میںآدھی قوت ہی رکھتے ہیں۔

مغرب کے ساتھ مکالمے کی فضا قائم کر نے کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کی اصل تعلیمات سے اہل مغرب کو روشناس کرایا جائے۔ اس تاثر کی نفی ضروری ہے کہ اسامہ بن لادن یا طالبان اسلام کاکوئی متفق علیہ تصور پیش کر رہے ہیں۔ یہ ایک رائے ہے جو انھوں نے مختلف مسائل میں اختیار کرلی ہے ، جبکہ مسلمانو ں میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جنھیں اس سے اتفاق نہیں۔ یہ دوسرا نقطۂ نظر بھی پوری قوت کے ساتھ دنیا کے سامنے آنا چاہیے۔ اسلام میں جہادکا تصور کیا ہے۔ مسلمان دوسری اقوام کے ساتھ روابط کے باب میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ وہ خوا تین اور اقلیتوں وغیرہ کے بارے میں کس نقطۂ نظرکے حامل ہیں؟ ارتدار اور مسلمان ریاست میں دوسرے ادیان کی تبلیغ کے حوالے سے ان کا موقف کیا ہے؟اقوام عالم کے باہمی تعلق کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر کیا ہے۔ ان سب سوالات پر ہمیں مغرب سے مکالمہ کر نا چاہیے اور اس تاثر کی نفی کرنا چاہیے کہ ان امور میں طالبان یا اسامہ بن لادن نے جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا ہے وہ مسلمانو ں کا کو ئی متفقہ موقف ہے۔

دوسری طرف اس کی بھی ضرورت ہے کہ خود مسلمانوں میں دین کے صحیح تصور کو فروغ ملے۔ آج اسامہ بن لادن اور بہت سے مسلمان ایسے ہیں جو پوری دیا نت داری کے ساتھ یہ رائے رکھتے ہوں گے کہ موجودہ دور میں اعلاے کلمۃ اللہ کا وہی راستہ ہے جو انھوں نے اپنایا ہے۔ ایسے لوگوں کو یہ بات سمجھانے کی سنجیدہ کو شش ہونی چاہیے کہ ان مسائل کے بارے میں دینی احکامات کیا ہیں اورکہیں ایسا تو نہیں کہ تمام تر اخلاص کے باوجود ہمارا طرز عمل دین کے فروغ میں مانع ہو رہاہو۔ یہ اسی وقت ہو گا جب مسلمان ایک دوسرے کی رائے کو دیانت داری اور سنجیدگی سے سمجھنے کی کو شش کر یں گے اور کوئی گروہ اپنے بارے میں کبھی اس زعم میں مبتلا نہیں ہو گا کہ ا س کا فہم دین ہی اسلام کی درست ترین تعبیر ہے اور اس کے علاوہ سب کچھ ضلالت اور گمراہی ہے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جو کچھ ہمیں میسر ہے، اسے ضائع کر نا مشکل نہیں ، لیکن جو کچھ ہمارے پاس نہیں ہے، اس کا حصول آسان نہیں ہے ۔ حاصل کے استعمال کے لیے بے تابی سے زیادہ آج مطلوب وہ جد وجہد ہے جو ہمارے دامن کو ان چیزوں سے بھردے جو ہمیں میسر نہیں رہیں۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جب علم اور سائنس کے مراکز عالم مغرب سے عالم اسلام کی طرف منتقل ہوں گے، دنیا کا قبلہ بھی خود بخود تبدیل ہو جا ئے گا۔ آج ہمیں ایک طرف اس کے لیے جدو جہد کر نی ہے اور دوسری طرف جو کچھ انسانی و مادی وسائل ہمیں میسر ہیں ان کا تحفظ کر نا ہے۔ ان دونوں کاموں کے لیے تصادم سے گریز اولین شرط ہے۔ موجودہ افغان امریکہ تنازع کا جو حل بھی سامنے آئے، بہرحال دنیا کو اسی طرف لوٹنا ہو گا کہ تصادم کسی فریق کے حق میں نہیں ہے۔ اگر امریکہ عالمی قوت ہونے کے زعم میں اسے جاری رکھتا ہے تو پھر یہ کچھ لازم نہیں کہ نتائج ہمیشہ اس کے حق میں رہیں اور اگر مسلمان اس راستے پر چلتے ہیں تو بھی ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ کسی خیر کی صورت میں نہیں نکل سکتا۔

_______

۱؂ ہفت روزہ ’’ٹائم‘‘ یکم اکتوبر ۲۰۰۱ء۔

____________

B