بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ)
اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا وَ مَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِرٌ عَلِیْمٌ {۱۵۸} اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالْھُدٰی مِنْ بَعْدِ مَا بَیَّنّٰہُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتٰبِ اُولٰٓئِکَ یَلْعَنُھُمُ اللّٰہُ وَ یَلْعَنُھُمُ اللّٰعِنُوْنَ {۱۵۹} اِلَّاالَّذِیْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَ بَیَّنُوْا فَاُولٰٓئِکَ اَتُوْبُ عَلَیْھِمْ وَاَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ {۱۶۰}
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَمَا تُوْا وَ ھُمْ کُفَّارٌ اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالنَّاسِ
اَجْمَعِیْنَ {۱۶۱} خٰلِدِیْنَ فِیْھَا لُا یَخَفَّفُ عَنْھُمُ الْعَذَابُ وَلَا ھُمْ یُنْظَرُوْنَ {۱۶۲}
(بیت الحرام ہی کی طرح صفا و مروہ کی حقیقت بھی اِن یہودیوں نے ہمیشہ چھپانے کی کوشش کی ہے ، لہٰذا تحویلِ قبلہ کے اِس موقع پر یہ بات تم پر واضح ہونی چاہیے کہ) صفا اور مروہ ۳۹۹ یقینا اللہ کے شعائر ۴۰۰ میں سے ہیں ۔ چنانچہ وہ لوگ جو اِس گھر کا حج یا عمرہ کرنے کے لیے آئیں ، اُن پر کوئی حرج نہیں ۴۰۱ کہ وہ اِن کا طواف ۴۰۲ بھی کر لیں، (بلکہ یہ ایک نیکی کا کام ہے) اور جس نے اپنے شوق سے نیکی کا کوئی کام کیا ، ۴۰۳ اللہ اُسے قبول کرنے والا ہے ، ۴۰۴ اُس سے پوری طرح باخبر ہے ۔ (اِس معاملے میں) جو حقائق ہم نے نازل کیے اور جو ہدایت بھیجی تھی ، ۴۰۵ اُسے جو لوگ چھپاتے ہیں ، اِس کے باوجود کہ اِن لوگوں کے لیے اپنی کتاب ۴۰۶ میں ہم نے اُسے کھول کھول کر بیان کر دیا تھا، یقینا وہی ہیں جن پر اللہ لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے بھی جن پر لعنت کریں گے ۔ (اِن میں سے) البتہ ، جو توبہ کریں اور اپنے اِس طرزِ عمل کی اصلاح کر لیں ۴۰۷ اور جو کچھ چھپاتے تھے ، اُسے صاف صاف بیان کر دیں ۰۸ ۴ تو اُن کی توبہ میں اپنی شفقت سے قبول کر لوں گا ۴۰۹ اور (حقیقت یہ ہے کہ) میں بڑا توبہ قبول کرنے والا ہوں ، میری شفقت ابدی ہے۔ ۱۵۸۔۱۶۰
(اِس کے برخلاف) وہ لوگ جو اپنے انکار پر قائم رہے اور مرے تو اِسی طرح منکر تھے ، ۴۱۰ یقینا وہی ہیں جن پر اللہ اور اُس کے فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے ۔ ۴۱۱ وہ اِس میں ہمیشہ رہیں گے ، ۴۱۲ نہ اُن کی سزا میں کمی کی جائے گی اور نہ اُنھیں کوئی مہلت ہی ملے گی ۔ ۱۶۱ ۔ ۱۶۲
۳۹۹؎ صفا و مروہ بیت اللہ کے پاس وہ دو پہاڑیاں ہیں جن کے درمیان حج و عمرہ کے موقع پر سعی کی جاتی ہے ۔ اصل قربان گاہ جہاں سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے فرزند کو قربانی کے لیے پیش کیا ، وہ چونکہ یہی مروہ ہے ، اس لیے یہود نے اپنے صحیفوں میں اس کا تعلق بھی ان سے کاٹ دینے کی ہر ممکن کوشش کی ہے ۔ اس کی تفصیلات امام حمید الدین فراہی کی کتاب ، ’’الرای الصحیح فی من ہوالذبیح ‘‘ میں دیکھ لی جا سکتی ہے ۔
۴۰۰؎ یہ شعیرہ کی جمع ہے جس کے معنی علامت کے ہیں ۔ اصطلاح میں اس سے مراد وہ مظاہر ہیں جو اللہ اور رسول کی طرف سے کسی حقیقت کا شعور قائم رکھنے کے لیے بطور ایک نشان کے مقرر کیے گئے ہوں ۔ چنانچہ قربانی جس طرح حقیقتِ اسلام کی علامت ہے، حجرِاسود کا استلام اللہ تعالیٰ کے ساتھ عہدو میثاق کی علامت ہے ، رمیِ جمرات شیطان کے خلاف جنگ اور اس پر لعنت کی علامت ہے ، اسی طرح صفا و مروہ کی سعی اپنے پروردگار کے لیے اس غلامانہ سرگرمی کی علامت ہے جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اس وقت دکھائی جب وہ اسمعٰیل کو صفا سے مروہ کی طرف لائے اور انھیں قربانی کے لیے اس پر لٹادیا ۔ ان شعائر میں اصل مطمحِ نظر تو وہ حقیقتیں ہوا کرتی ہیں جن کی یہ علامت ہوتے ہیں ، لیکن انھی حقیقتوں کے تعلق سے یہ شعائر بھی دین میں تقدس کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں ۔ تاہم یہ بات ان کے بارے میں ہمیشہ پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ جو حقیقتیں ان میں مضمر ہوتی ہیں ، وہ اگر لوگوں کے دل و دماغ میں زندہ نہ رہیں تو ان شعائر کی حیثیت روح کے بغیر ایک قالب سے زیادہ کی نہیں رہتی ۔ اسی طرح یہ بات بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ تمام شعائر اللہ اور رسول کے مقرر کردہ ہیں اور ان کی تعظیم کے حدود بھی اللہ و رسول نے ہمیشہ کے لیے طے کر دیے ہیں ، لہٰذا اب کوئی شخص نہ اپنی طرف سے ان میں کوئی اضافہ کرسکتا ہے اور نہ ان کی تعظیم کے حدود میں کسی نوعیت کی کوئی تبدیلی کر سکتا ہے ۔ اس طرح کی ہر چیز ایک بدعت ہو گی جس کے لیے دین میں ہر گز کوئی گنجایش نہیں ہے ۔
۴۰۱؎ یہ اس لیے فرمایا ہے کہ یہود نے جب صفا و مروہ کا تعلق سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے کاٹ دینے کی کوشش کی تو اس کے ساتھ یہ بات بھی لازماًکہی ہو گی کہ ان پہاڑیوں کے درمیان سعی محض ایک مشرکانہ بدعت ہے ، دینِ ابراہیمی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ قرآن نے یہ اسی کی تردید میں واضح کیا ہے کہ ان کا طواف کر لینے میں ہر گز کوئی حرج نہیں ہے ، بلکہ یہ ایک مشروع عبادت ہے اور اس لیے یقیناً نیکی اور خیر کا کام ہے جو اگر شوق سے کیا جائے تو اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے گا ۔
۴۰۲؎ اس سے مرادہ وہ سعی ہے جو ان پہاڑیوں کے درمیان کی جاتی ہے ۔ اسے طواف کے لفظ سے اس لیے تعبیر کیا ہے کہ اس کی صورت ، اگر غور کیجیے تو طواف سے کچھ ملتی جلتی ہوتی ہے ۔
۴۰۳؎ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سعی صرف حج وعمرہ کے موقع پر کی جا سکتی ہے اور اس موقع پر بھی یہ ایک نفل عبادت ہے جو اگر کی جائے تو باعثِ اجر ہو گی ۔ یہ حج و عمرہ کے لازمی مناسک میں سے نہیں ہے ۔
۴۰۴؎ اصل میں لفظ ’ شاکر‘ استعمال ہوا ہے ۔ یہ عربی زبان کے ان الفاظ میں سے ہے جن کے معنی نسبت کی تبدیلی سے بدل جاتے ہیں ۔ نسبت اگر بندے کی طرف ہو تو اس کے معنی شکر گزاری کے ہوتے ہیں اور اللہ کی طرف ہو تو اس کے معنی قبول کرنے کے ہو جاتے ہیں ۔
۴۰۵؎ یعنی وہ حقائق جو اللہ تعالیٰ نے آخری پیغمبر کی بعثت سے متعلق پرانے صحیفوں میں نازل کیے اور جو ہدایت بالخصوص ان کے باب میں بھیجی تھی ۔
۴۰۶؎ یعنی تورات میں ۔
۴۰۷ ؎ اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ توبہ اس وقت تک معتبر نہیں ہے ،جب تک آدمی اس غلطی کی اصلاح نہ کر لے جس کا ارتکاب اس نے کیا ہے ۔
۴۰۸؎ یعنی آخری نبی کے بارے میں تورات کے جو حقائق یہود نے چھپائے ہیں ، انھیں ظاہر کر دیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے تک کم سے کم یہود کے علما و خواص ان تحریفات سے بے خبر نہیں تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے متعلق تورات اور دوسرے صحیفوں میں کی گئی تھیں ۔
۴۰۹؎ اصل میں ’ اتوب علیھم‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔ ان میں ’اتوب‘کے ساتھ ’علیٰ ‘ کا صلہ دلیل ہے کہ اس میں رحمت کا مفہوم متضمن ہے ۔ آگے ’انا التواب الرحیم‘ کہہ کر قرآن نے اسے واضح کر دیا ہے ۔
۴۱۰؎ مطلب یہ ہے کہ اپنی ضد پر اڑے رہے ،نہ توبہ و اصلاح کی توفیق ہوئی اور نہ حق کے اعلان و اظہار کی ۔ اس سے محروم ہی دنیا سے اٹھ گئے ۔
۴۱۱؎ یہ اس اجمال کو واضح کر دیا ہے جو اوپر ’یلعنھم اللعنٰون‘ کے الفاظ میں موجود تھا ۔
۴۱۲؎ یعنی اس عذاب میں ، جہاں وہ ڈالے جائیں گے ۔
(باقی )
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ