۱۳ اپریل ۲۰۰۱ کو لاہور کے ایک ہوٹل میں تیسری پنجابی عالمی کانفرنس شروع ہوئی جو ۱۶ اپریل کو اختتام پزیر ہوئی ۔ اس کانفرنس کے انعقاد کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ اس میں پنجاب ، پنجابیوں اور پنجابی زبان کو درپیش مسائل کا جائزہ لیا جائے ، موجودہ صدی کے لیے امن، محبت اور دوستی کا پیغام دیا جائے ، ادب اور ثقافت کے ذریعے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا خاتمہ کیا جائے اور امن و اخوت کی فضا پیدا کی جائے۔
بلاشبہ یہ مقاصد لائقِ تحسین ہیں ۔ دینی ، ملی ، ملکی غرض یہ کہ کسی بھی پہلو سے ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ اپنی مادری زبان سے محبت کرنا ، اس کے فروغ کے لیے کام کرنا بالکل قابلِ فہم ہے۔ ہر شخص کو اپنی مادری زبان سے محبت ہوتی ہے اور یہ محبت بالکل فطری ہوتی ہے۔ ایسی کانفرنسوں کا انعقاد سندھی، پٹھان اور بلوچی حضرات کو بھی کرنا چاہیے۔ یہ سب انسان کی پہچانیں ہیں۔ ان پہچانوں کو دین بھی تسلیم کرتا ہے ۔ لیکن پہچان کو پہچان ہی کی سطح پر رکھنا چاہیے ، اسے انسان کی حقیقت پر غلبہ نہیں پانا چاہیے۔
مگر حضرتِ انسان کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ کم ہی حدود کے اندر رہ پاتا ہے ۔ پنجابی کانفرنس میں بھی ایسے ہی ہوا ہے۔ اس کانفرنس کے اصل موضوع اور مقصد سے ہٹ کر دسرے مسائل پر بھی اظہار خیال کر دیا گیا۔ بالفاظِ دیگر کچھ دوسرے مسائل بھی پیدا کر دیے گئے، جس سے عالمی سطح پر امن و اخوت کی فضا پیدا ہونے کے بجائے پاکستان ہی میں بدامنی اور لڑائی جھگڑے کی فضا پیدا ہو گئی۔
اس کانفرنس میں یہ کہہ دیا گیا کہ : ’’مذہب بہت بڑا سچ ہے مگر پنجابیت مذہب سے بھی بڑی سچائی ہے ۔ اور مذہب پنجابیت کے راستے میں دیوار نہیں بن سکتا ، ہم پہلے پنجابی پھر ہندو ، مسلمان اور سکھ ہیں ‘‘ ۔۔۔ ’’سرحد کے دونوں طرف بسنے والے پنجابی ایک ہی تہذیب و ثقافت کا حصہ ہیں ‘‘۔۔۔ ایک پاکستانی دانش ور حمید اختر نے کہا : ’’پاکستان تلاوتیں کرنے کے لیے نہیں بلکہ ترقی کرنے کے لیے بنایا گیا ہے ۔‘‘
اس قسم کے کچھ اور خیالات کا بھی اظہار کیا گیا ۔ اس پر ہمارے مذہبی رہنماؤں نے سخت ردِ عمل کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا: ’’پنجابی زبان کو نظریہء پاکستان کے مقابلے میں لانا غداری ہے۔‘‘۔۔۔ ’’ملک دشمن طرح طرح کے فتنے اٹھا رہے ہیں۔‘‘۔۔۔ ’’یہ کانفرنس کشمیریوں کے خون کا مذاق اڑانے کے لیے بلائی گئی ہے۔‘‘۔۔۔ ’’پنجابی زبان کے نام پر علاقائی جذبات کو ابھارنے اور نظریہء پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔‘‘ مذہب پسند دانش وروں نے یہ لکھا ہے : ’’جس کا پیسہ لگے گا اسی کی مرضی کی بات ہو گی،بھارت نے منظم طریقے سے ایسے ادارے ، تنظیمیں اور انجمنیں قائم کر رکھی ہیں جو بظاہر تو غیر سیاسی ہیں، لیکن کام ان سے وہی لیا جاتا ہے جو پاکستان کے خلاف بھارت کی طے شدہ پالیسیوں کو آگے بڑھاتا ہے۔‘‘۔۔۔ ’’ مجھے پنجابی زبان سے عشق ہے مگر میں پہلے پاکستانی ہوں پھر پنجابی ہوں۔میرے گھر کے اندر میری بیوی کے پنجابی افسانوں کا مجموعہ ’’اک اوپری کڑی‘‘ پنجابی زبان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے مگر وہ پہلے پاکستانی اور پھر پنجابی ہے ۔‘‘
اسی طرح کے کچھ اور کالم بھی لکھے گئے ہیں ،جن میں اس کانفرنس کے اصل محرکات سیاسی قرار دیے گئے اور اس کانفرنس کو بھارت کی ایک سازش ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ۔
اس ردِعمل کا بھی ایک ردِ عمل ہوا ۔ کانفرنس کے چیئرمین فخر زمان نے کہا کہ : ’’اس کانفرنس کی مخالفت کرنے والے مولویوں کو پنجاب میں رہنے کا کوئی حق نہیں ۔ انھیں چاہیے کہ وہ جلد از جلد پنجاب چھوڑ دیں ورنہ ہم انھیں زبردستی پنجاب سے نکال دیں گے ۔‘‘
پھر یہ سلسلہ مزید آگے چلا ۔ مسجدشہدا ، لاہور کے سامنے مختلف مذہبی جماعتوں نے ایک مظاہرہ کیا ۔ حکومت کی طرف سے پنجابی کانفرنس کے منتظمین کے خلاف ابھی تک کارروائی نہ کرنے کے خلاف احتجاج کیا ۔ اس مظاہرے میں یہ کہا گیا : ’’قرآن و سنت کی توہین کی دفعہ لگا کر پنجابی کانفرنس کے منتظمین کو گرفتار کر لیا جائے ۔‘‘ ۔۔۔’’ان کی گرفتاری تک احتجاج جاری رہے گا۔ آیندہ پنجابی کانفرنس کو زبردستی روکیں گے ۔‘‘ اور یہ اعلان کیا گیا کہ :’’فخر زمان اور حمید اختر کا نہ تو جنازہ پڑھایا جائے گا ،نہ ان کے جنازے میں شرکت کی جائے گی اور نہ انھیں مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے دیا جائے گا ۔‘‘
اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں اختلاف کتنی جلدی ’’مخالفت‘‘ بن جاتا ہے اور پھر ’’مخالفت‘‘ سے معاملہ کتنی جلدی خوں ریزی کے قریب پہنچ جاتا ہے ۔
اس طرح کا رویہ اگر روایتی دانش ور اختیار کریں تو افسوس تو ہوتا ہے مگر کم ۔ اس لیے کہ روایتی دانش وروں کا تصورِ دین بہت ناقص ہوتا ہے ۔ حیات و کائنات کے بارے میں ان کے خیالات حقیقت سے بہت دور ہوتے ہیں ۔ خدا اور اس کی ہدایت کو وہ کوئی شعوری اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں۔ اخروی پرسش جو انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ، ان کے نزدیک سرے سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ۔ لہٰذا ایسے لوگوں سے کسی بھی وقت اور کسی بھی قسم کی جہالت ، حماقت اور ضلالت کے صادر ہونے کا پورا امکان موجود ہوتا ہے ۔ مگر جب اہلِ مذہب ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں ، اختلافی بات سن کر سخت کلامی پر اتر آتے ہیں ، قطعی ثبوت کے بغیر کسی پر غداری کا الزام لگا دیتے ہیں، تفتیش کے بغیر کسی کے سازشی ہونے کا فیصلہ دے دیتے ہیں تو افسوس ہی نہیں، دکھ بھی ہوتا ہے ۔
اور ایسا رویہ اختیار کرنے سے سب سے زیادہ نقصان بھی انھی کا ہوتا ہے۔ ان کے بارے میں تاثر قائم ہوتا ہے کہ یہ سخت کلام اور سخت مزاج ہیں۔ پھر لوگ ان کے قریب آنے سے گریز کرتے ہیں، بلکہ یہ گریز فطری طور پر آپ سے آپ لوگوں کے اندر پیدا ہو جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ معاشرے میں دین سے دوری کی شکل میں نکلتا ہے۔ اس صورتِ حال کے سب سے زیادہ ذمہ دار بہرحال علماے دین، مذہبی رہنما اور مذہبی دانش ور ہی قرار پائیں گے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی معاشرے میں سب افراد ایک ہی فکر کے حامل نہیں ہوتے ، وہ مختلف طریقے سے سوچتے ہیں، وہ مختلف معیارات قائم کرتے ہیں ، مختلف نتائج اخذ کرتے ہیں ، مختلف آرا ختیار کرتے ہیں اور ان آرا کا اظہار بھی کرتے ہیں ۔ ایسا ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے، آج بھی ہو رہا ہے اور آیندہ بھی ہوتا رہے گا۔ چنانچہ ایسی صورتِ حال سے گھبرا جانا اور مشتعل ہو جانا کوئی دانش مندی نہیں ہے۔
یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ فکری نوعیت کے اختلافات بہت گہرے ہوتے ہیں ۔ ان کی جڑیں بہت دور دور تک پھیلی ہوئی ہوتی ہیں ۔ ایسے اختلافات کو کسی ’’گالی‘‘ یا ’’الزام‘‘ سے ختم یا کم نہیں کیا جا سکتا ۔ اسی طرح اگر کوئی شخص مذہب کے خلاف بات کرے تو گھبرا نہیں جانا چاہیے ۔ مذہب ایک بہت بڑی چٹان ہے ۔ اس کے خلاف کی جانے والی باتوں کی حیثیت محض خشک پتیوں کی سی ہے ،جو چٹان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں ۔
مذہب ایک ایسی کائناتی سچائی ہے جو ملک ، صوبے ، زبان غرض یہ کہ ہر چیر پر فوقیت رکھتی ہے ۔ چنانچہ ہم پہلے مسلمان ہیں، اس کے بعد پاکستانی اور پھر پنجابی ہیں ۔ بالفاظِ دیگر خدا پہلے ہے اور اس کے بعد خدائی ہے ۔ قدرت پہلے ہے اور اس کے بعد فطرت ہے ۔ خالق پہلے ہے اور اس کے بعد مخلوق ہے ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو نابینا کو بھی دکھائی دیتی ہے ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی گواہی انسان کے اندر اور باہر ، ساکن اور متحرک ہر شے دیتی ہے ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو محض کوئی فکری بات نہیں ہے بلکہ اس کے انکار پر انسان کو بڑی دردناک سزا مل سکتی ہے ۔
وہ لوگ جو سچے ’’حقیقت پسند ‘‘ہیں ، انھوں نے کبھی اس حقیقت سے انکار نہیں کیا ۔ انھوں نے ہمیشہ اس حقیقت کے مطابق اپنی ترجیحات کی فہرست کو مرتب کیا ۔ مذہب نے تقاضا کیا تو اپنا ملک چھوڑ دیا ۔ ہجر ت کا مشکل سفر اختیار کر لیا ۔ اپنے ہم زبان چھوڑ دیے ۔ اپنے ہم ثقافت چھوڑ دیے ۔ اپنے ماں باپ چھوڑ دے ۔ ابراہیم خلیل اللہ انتہائی نرم دل انسان تھے مگر جب ان پر کھلا کہ ان کے والد خدا کے دشمن ہیں تو آپ نے انھیں چھوڑ دیا ۔
صدیق و فاروق ، عثمان و علی کی زبان عربی تھی ۔ ابوجہل، ابولہب اور عبد اللہ بن ابی کی زبان بھی عربی ہی تھی ،مگر دنیا جانتی ہے کہ مذہب نے اس اشتراک کے باوجود انھیں ایک دوسرے سے کس قدر مختلف کر دیا تھا ۔ اسی چیز کو دوسرے پہلو سے دیکھیے۔ ایرانی ، ترکی ، سعودی ، افغانی مختلف زبانیں بولتے ہیں مگر اس کے باوجود ایک مذہب ہونے کے باعث اپنے اپنے سے لگتے ہیں ۔
پنجاب اور پنجابی سے بات چلی ہے ۔ ہم پنجاب اور پنجابی کی بات کرتے ہیں ۔ بے شمار پنجابی مسلمان ہیں جو مکہ اور مدینہ جانے کے لیے بے تاب ہیں ۔ غریب ہوں تو اس کے لیے پائی پائی جوڑتے ہیں ۔ اس معاملے میں حکومتِ پاکستان کے پاس درخواستوں کی مقدار اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ اسے قرعہ اندازی کرنا پڑتی ہے ۔ آج کل تو سفر محفوظ ہو گئے ہیں ،پہلے لوگ بحری جہاز کے ذریعے سے عرب جاتے تھے اور سچی بات ہے کہ جان ہتھیلی پر رکھ کر جاتے تھے ۔ حالانکہ مکہ اور مدینہ کے باسیوں کی زبان مختلف ہے ۔ تہذیب اور تمدن کے بہت سے مظاہر مختلف ہیں اور پنجاب اور مکہ کے مابین غیر معمولی فاصلے حائل ہیں ۔
اب غور کریں ، کتنے پنجابی مسلمان ہیں جو اسی طرح امرتسر اور جالندھر جانے کے لیے بے تاب ہیں ۔ حالانکہ یہ شہر مکہ اور مدینہ کی نسبت بہت قریب ہیں ۔ وہاں جانے کے لیے اخراجات بھی کم درکار ہیں ۔ زبان بھی ایک ہے۔ تہذیب و تمدن کے بعض مظاہر بھی ملتے جلتے ہیں۔ پھر ایک اور زاویے سے غور کریں بلکہ مشاہدہ کر کے دیکھ لیں، دیوبندی پنجابی، بریلوی پنجابی کی نسبت دیو بندی پٹھان سے زیادہ قربت محسوس کرتے ہیں۔ اسی طرح تصوف کا قائل پنجابی ، تصوف کے ناقد پنجابی کی نسبت تصوف کے قائل سندھی کو زیادہ اپنا اپنا سمجھتا ہے۔
سچ یہ ہے کہ مذہب ایک سمندر ہے اور علاقائی زبانیں اور ثقافتیں ندی نالے ہیں ۔ ندی نالوں کو سمندر پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ جو لوگ ندی نالوں کو سمندر پر ترجیح دیتے ہیں، اصل میں ان کے فکر میں کوئی بنیادی خرابی پائی جاتی ہے۔ اس صورتِ حال میں اگر فرض کر لیا جائے کہ ان لوگوں کے پیچھے غیر ملکی ایجنسیاں ہیں تو اوپر مذکور رویہ اختیار کرنے سے کیا ہو گا؟ اس سے یہ ہو گا کہ انھیں کوئی سزا ہو جائے گی یا وہ اپنی بات کھل کر کرنے سے گریز کریں گے ۔ پھر وہ اپنا باطن چھپا لیں گے، معاشرے میں منافق بن کر رہیں گے اور خفیہ طریقے سے کارروائیاں کریں گے ، جو ظاہر ہے کہ زیادہ سنگین صورتِ حال ہو گی ۔
اس لیے اس معاملے میں بہتر حکمتِ عملی یہ ہے کہ انھیں کھل کر بات کہنے کی آزادی دی جائے ۔ جب یہ کھل کر اور تفصیل کے ساتھ بات کریں گے، تو ان کی پوری بات سامنے آئے گی ، ان کی اصل دلیل واضح ہو گی اور دلیل کی بنیاد نمایاں ہو گی۔ اس کے بعد فکری طریقے سے اس کی بنیاد کو ہدف بنایا جائے ۔ اس کی بنیاد کو ڈھانے کی کوشش کی جائے ۔ اس سے ان لوگوں کے نظریات کمزور ہو جائیں گے ۔ وہ ان کے ذریعے سے مزید لوگوں کو متاثر نہ کر سکیں گے ۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ انسان بنیادی طور پر مسلمان پیدا ہوتا ہے ۔ مذہب اس کے ریشے ریشے میں رچا بسا ہوتا ہے ،مگر غلط ماحول اور غلط فکر اسے غلط راہ پر ڈال دیتے ہیں ۔ عین ممکن ہے کہ فکری اصلاح ہو جانے کے بعد ایسے لوگوں کے اگر بالفرض غیر ملکی ایجنسیوں سے رابطے ہوئے بھی تو یہ خود انھیں ختم کر دیں۔ اور یوں مسئلے کے جڑ بنیاد سے حل ہونے کے قوی امکانات پیدا ہو جائیں۔
____________