HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

تقدیر کا دائرۂ اثر

عن ابن عمر رضی اﷲ عنہ قال : قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: کل شیء بقدر حتی العجز و الکیس ۔
’’حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہر چیز مقدر کر دی گئی ہے ،یہاں تک کہ بے چارگی اور ہوشیاری بھی ۔‘‘

لغوی مباحث

قدر: مقدار ، اندازہ ، طے شدہ شرح۔

حتی: یہ یہاں حرفِ جار کی حیثیت سے استعمال ہوا ہے ۔

عجز: درماندگی و بے چارگی ۔ کسی معاملے یا عمل کو کسی بھی سبب کے تحت نہ کرنے کی حالت میں ہونا۔

الکیس: یہ لفظ سمجھ داری کے معنی میں بھی آتا ہے اور چستی اور چالاکی کے معنی میں بھی ۔ یہاں یہ دوسرے معنی زیادہ موزوں لگتے ہیں ۔

متون

صاحبِ مشکوٰۃ نے اس روایت کا ایک حصہ منتخب کیا ہے ۔ پوری روایت میں صحابہ کی قدر کے بارے میں عمومی رائے بھی بیان ہوئی ہے ۔ مثلاً دیکھیے مسلم میں روایت کے الفاظ یہ ہیں :

عن طاؤس أنہ قال :أدرکت ناسا من اصحاب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یقولون : کل شیء بقدر۔ قال : سمعت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ یقول : قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کل شیء بقدر حتی العجز و الکیس أو الکیس و العجز۔
’’ حضرت طاؤس رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کئی ایک کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ہر شے کی تقدیر ہے ۔ اسی طرح وہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو یہ روایت کرتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہرشے مقدرکر دی گئی ہے ،یہاں تک کہ درماندگی اور ہوشیاری بھی ۔‘‘

اس روایت کا یہی متن کتبِ حدیث میں نقل ہوا ہے ۔ طاؤس نے یہ روایت حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے ۔ انھوں نے یہی الفاظ عبداللہ بن عباس سے بھی روایت کیے ہیں ۔

معنی

یہ روایت تقدیر کے موضوع سے متعلق ہے ۔ اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر چیز کی تقدیر ہے یہاں تک کہ ’عجز‘ اور ’کیس‘ جیسی چیزیں بھی پہلے سے طے شدہ ہیں ۔اس روایت کا پہلا جملہ قرآنِ مجید میں بعینہٖ موجود ہے ۔ سورۂ قمر میں خدا کے مجرموں کا انجام بیان ہوا ہے ۔ ان کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے کہ یہ انجام جلدی کیوں سامنے نہیں آتا ، فرمایا :

اِنَّا کُلَّ شَیْءٍ خَلَقْنٰہُ بِقَدَرٍ ۔ وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَۃٌ کَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ ۔ (۵۴ : ۴۹۔۵۰)
’’ہم نے ہر چیز ایک اندازے کے ساتھ پیدا کی ہے اور ہمارا حکم تو بس بیک دفعہ پلک جھپکنے کی طرح پورا ہو گا۔‘‘

یعنی ہر چیز ایک طے شدہ پروگرام کے تحت ہو رہی ہے ۔ اس میں بندوں کی رعایت اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہر امر طے کیا گیا ہے ۔ اس سے مجرموں کو اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ عذاب کی خبر محض خالی خولی دھمکی ہے ۔

قدر کا لفظ ان آیات میں طے شدہ پلان کے معنی میں آیا ہے ۔ ہمارے نزدیک ،زیرِ بحث روایت میں بھی یہ اسی معنی میں آیا ہے ۔

اس روایت کا دوسرا حصہ ’عجز‘ اور ’ کیس‘ سے متعلق ہے ۔ ’عجز‘ اس حالت کو کہتے ہیں جب آدمی کسی بھی وجہ سے خواہ وہ وجہ خارجی حالات سے متعلق ہو یا باطنی کیفیات سے ،کوئی کام بطریقِ احسن یا بالکل نہ کر پار ہا ہو ۔ اس کے متضاد مفہوم کے لیے لفظ ’کیس‘ استعمال ہوا ہے ۔ اس کے معنی ذکاوت کے ہیں ۔ لیکن یہ نشاط ، چستی اور ہشیاری کے معنی میں بھی آتا ہے۔ ہم نے ’عجز‘ کی مناسبت سے ’کیس‘ کے دوسرے معنی کو ترجیح دی ہے ۔ اور اس کے نتیجے میں ’ عجز‘ کا لفظ بھی ایک خاص معنی تک محدود ہو جاتا ہے ۔’عجز‘سے یہاں آدمی کا کاموں کو ہشیاری سے نہ کرنا مراد ہے ۔

گویاہمارے نزدیک ، روایت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز اور ہر معاملے کے لیے ایک پیمانہ مقرر کر رکھا ہے ۔ یہاں تک کہ ہر انسان کو جو مزاجی خصوصیات دی گئی ہیں ،وہ بھی طے شدہ ہیں ۔کچھ لوگ تیز گام اور پھرتیلے ہوتے ہیں اور کچھ لوگ سست رو یا دھیمے مزاج کے ہوتے ہیں اور یہ دونوں چیزیں بھی اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق دی گئی ہیں ۔

کتابیات

موطا امام مالک ، کتاب الجامع ، باب ۱۲۔مسندِ احمد ، مسند عبداللہ بن عمر۔مسلم ، کتاب القدر ، باب ۴۔خلق افعال العباد ، ج ۱ ، ص ۴۷ ۔ الاعتقاد ، ج ۱ ، ص ۱۳۵ ۔ مسند الشہاب ، ج ۱ ، ص ۱۴۹ ۔ صحیح ابنِ حبان ، ج ۱۴ ، ص ۱۷۔

____________

B