دانش سرا ، پاکستان کا تیسرا سالانہ کنونشن ۲۳،۲۴،۲۵ مارچ ۲۰۰۱ کو رباط العلوم الاسلامیہ عالم گیر روڈ بہادر آباد کراچی میں منعقد ہوا ۔ مدیرِ ’’اشراق ‘‘ اور دانش سرا ، پاکستان کے بانی جناب جاوید احمد غامدی نے اس کنونشن کے پہلے روز افتتاحی تقریر کرتے ہوئے کہا :
خواتین و حضرات ، میں نے جب سے شعور سنبھالا ہے اور میرا دینی علوم سے تعلق قائم ہوا ہے ، اس وقت سے دو چیزیں میری خصوصی دلچسپی کا موضوع رہی ہیں۔ ایک یہ چیز کہ دین کو اس کے اصل ماخذوں سے سمجھنے کی روایت زندہ کی جائے ۔ میں نے جس معاشرے میں آنکھ کھولی ، جو ماحول اپنے گردوپیش میں دیکھا ،اس میں یہ روایت بڑی حد تک مردہ ہو چکی تھی ۔ میں نے یہ محسوس کیا کہ اس روایت کو زندہ کیے بغیر ،کم سے کم دورِ حاضر میں نہ مسلمانوں کی نئی نسل کو دین پر مطمئن کیا جا سکتا ہے اور نہ مغربی تہذیب کے اس استیلا اور تغلب میں اسلام کی دعوت دوسرے لوگوں کے سامنے پیش کی جا سکتی ہے ۔ دوسری چیز یہ تھی کہ دین کے لیے وہ کام جو ہماری قوم میں ہو رہے ہیں یا ان سے آگے بڑھ کر ہماری ملت میں ہو رہے ہیں، ان کا جائزہ لے کر یہ دیکھا جائے کہ ان کی جہت کس طرح سے درست کی جا سکتی ہے۔
پہلے مسئلے کی راہ میں ایک ہفت خوان حائل تھا او رمیں اللہ تعالیٰ کا بہت شکر ادا کرتا ہوں کہ کم و بیش ربع صدی کے عرصے میں مجھے مدرسۂ فراہی کے جلیل القدر علما سے استفادے کا موقع ملا ،ا س سے میرے لیے یہ راہ کھل گئی۔ اس معاملے میں، میں جس حد تک کچھ حقیر خدمات انجام دے سکا، لوگ ان کا جائزہ لیتے رہیں گے اور ان کی قدروقیمت کا تعین بھی کرتے رہیں گے۔ میں اتنی بات بہرحال کہہ سکتا ہوں کہ ان خدمات سے کچھ اور ہوا ہو یا نہ ہوا ہو ،لیکن یہ اطمینان ضرور ہوا ہے کہ کسی حد تک اس روایت کا احیا ہو گیا ہے اور کسی حد تک یہ واضح ہو گیا ہے کہ کہ دین کو اس کے اصل ماخذوں یعنی قرآنِ مجید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی بنیاد پر اگر سمجھا جائے تو اس سے کیا روشنی حاصل ہوتی ہے؟کون سے مسائل حل ہوتے ہیں؟کون سے افق نمایاں ہوتے ہیں اور جادہ و منزل میں کیا تغیرات آتے ہیں؟
دوسری چیز کے لیے میں نے یہ کوشش کی کہ امت میں جو کچھ علمی کام ہو رہا ہے اس کا دقتِ نظر کے ساتھ جائزہ لیا جائے، اس کے اندر اتر کر دیکھا جائے کہ معاملے کی نوعیت فی الواقع کیا ہے ۔ اس میں جو کچھ خیر ہے ،اسے ہرحال میں دانتوں سے پکڑ لیا جائے اور جہاں کہیں خرابی اور کوتاہی ہے ،اس کی اپنی دانش کے مطابق ،اپنے حقیر علم کی حد تک اصلاح کرنے کی کوشش کی جائے ۔یہ سارا سفر علم و عمل دونوں اعتبارات سے بڑے مراحل سے گزرا ہے۔اس میں ترک و اختیار کی بے شمار منازل آئی ہیں۔ اس میں بہت سے حقائق کو واضح ہونے میں بہت سا وقت لگا ہے۔ اور بے شمار مسائل ہیں جن کے بارے میں ایک رائے بنی ہے اور ایک رائے تبدیل ہوئی ہے ۔ تراشیدم، پرستیدم ، شکستیدم کے بڑے مراحل سے گزرے ،تب کہیں جا کر وہ اطمینان حاصل ہوا ہے جس کی بنیاد پر کسی کام کی بنا ڈالی جا سکے ۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اب جو کچھ واضح ہے ،اس میں کوئی غلطی نہیں ہو گی؛ جو راستہ متعین ہو گیا ہے، اس میں کوئی موڑ نہیں آئے گا؛جس منزل کو آنکھوں سے دیکھا ہے ، وہ کسی درجے میں اوجھل نہیں ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وحی و الہام کا دروازہ بند ہو چکا ہے، نبوت ختم ہو گئی ہے،ہم سب انسان ہیں، ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی کتاب کی رہنمائی ہے ، اس کے پیغمبر کی رہنمائی ہے، لیکن ہم اپنے علم اور اپنی عقل کی حد تک ہی اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ ہماری بات غلط بھی ہوتی ہے، صحیح بھی ہوتی ہے۔اس کی غلطی کو کوئی آنے والا واضح کر دیتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ گویا اصل بات کچھ اور تھی جس کو ہم دیکھ نہ سکے۔ اور اگر آنے والا وقت اس کی تصدیق کر دیتا ہے تو اطمینان ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے حقیر علم کی حد تک جو کچھ سمجھا ،اس نے کوئی راستہ واضح کر دیا ۔
لہٰذا ہم انسانوں کو آرا قائم کرنی ہیں، دین کے حقائق پر غور کرنا ہے ، زندگی کے مختلف معاملات کے بارے میں کوئی نقطۂ نظر اختیار کرنا ہے اور پھر اپنے علم کی حد تک اس کے مطابق عمل کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو جانا ہے۔ پیشِ نظر یہ ہے کہ یہ غور کرنے کی روایت زندہ کر دی جائے ۔ ہم ایک دوسرے کو ایک دوسرے کی غلطیوں پر شایستگی اور تہذیب کے ساتھ متنبہ کریں اور آگے بڑھتے ہوئے اور پیچھے دیکھتے ہوئے اپنی منزل کی طرف گامزن رہیں۔
یہ چیز ہمیشہ میرے سامنے رہتی ہے۔ میں نے اپنے رفقا ،اپنے احباب اور اپنے طلبہ کو بھی ہمیشہ اس کی نصیحت کی ہے اور اسی چیز پر سب سے زیادہ زور دیا ہے کہ اس امت میں یہ روایت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے کہ وہ جو کچھ کر چکی ہے ،اس پر بھی غور کرے، جو کچھ آیندہ کرنا ہے اس کو وحی و الہام سمجھ کر آگے نہ بڑھائے ،بلکہ یہ دیکھے کہ کیا چیز لینے کی ہے اور کیا چھوڑ دینے کی ہے، کیا ترک کرنے کی ہے اور کیا اختیار کر لینے کی ہے ۔
یہی وہ پس منظر ہے، جس میں، میں نے یہ ارادہ کیا کہ پہلا کام تو یہ کیا جائے کہ دین کے ماخذ کی بنیاد پر جو کچھ دین سمجھ میں آتا ہے ،جو کچھ اس کے حقائق واضح ہوتے ہیں ، ان کی نشر و اشاعت کا اہتمام کیا جائے ۔ میرے سامنے یہ چیز اولین ترجیح کے طور پر رہی۔ یہ الگ بات ہے کہ ایک لمبے عرصے تک اس پر زیادہ توجہ نہیں دی جا سکی ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ جن حقائق کو میں سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا،ان میں بھی ترک و اختیار کے بے شمار مراحل درپیش تھے۔ چنانچہ پھر ایک وقت ایسا آ گیا جب اس مقصد کے لیے میں نے ایک ادارہ قائم کیا ۔اس ادارے میں اب میں کوشش کر رہا ہوں کہ جو کچھ دین ہم سمجھتے ہیں، اسے دوسروں تک پہنچانے کا اہتمام کیا جائے، جواہلِ علم اس طریقے پر دین سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس مدرسۂ فکر سے وابستہ ہیں، ان کی مزید تربیت کا انتظام کیا جائے۔جو حقائق واضح ہو رہے ہیں ،ان کو مرتب کرنے کا اہتمام کیا جائے ۔ دورِ جدید میں جو ذرائع پید اہو گئے ہیں، ان سب کو استعمال کر کے یہ کوشش کی جائے کہ یہ بات دوسرے لوگوں تک پہنچے ،بحث و مباحثے کا موضوع بنے ،اس پر تبصرہ ہو اور پھر اس کے غث و ثمین کا ٹھیک ٹھیک جائزہ لینے کے مواقع پیدا کیے جا سکیں ۔ یہ ادارہ ’’دارالاشراق‘‘ ہے ۔میری کوشش ہے کہ میں اس کی تنظیم اس طریقے سے کردوں کہ جس میں کم سے کم نشر و اشاعت اور دعوت کے معاملات باقاعدہ تسلسل اختیار کر سکیں ۔ چنانچہ اسی ادارے کے اہتمام میں ہمارے دو رسائل نکل رہے ہیں ۔ ایک ’’اشراق ‘‘ہے اور دوسرا ’’رینی ساں ‘‘ ۔ ایک اردو میں ہے اور دوسرا انگریزی میں۔ اسی کے تحت ہماری ویب سائٹس قائم ہیں ، جن میں دنیا بھر سے آنے واے استفسارات کے جوابات دیے جا رہے ہیں اور میں اظہارِ تشکر کے طور پر یہ بات بیان کر رہا ہوں کہ ان دونوں ویب سائٹس کو اس وقت عالمی سطح پر سب سے زیادہ مقبول ویب سائٹس ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔
لوگوں نے جس طرح دین کی طرف رجوع کیا ہے اور یہ امرِ واقعی ہے کہ دنیا بھر سے رجوع کیا ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نوجوانوں کے ذہنوں میں دین کے بارے میں جو مسائل ہیں ،ان کا انھیں حل ملا ہے۔ مختلف چیزوں کے بارے میں جو اشکالات وہ محسوس کر رہے تھے ،وہ دور ہوئے ہیں ۔ جو مباحث غیر مسلموں نے اٹھا دیے تھے، ان کے بارے میں ان کے ذہن درست ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کو اس وقت جو مسائل درپیش ہیں ، ان میں بھی کچھ ان کی رہنمائی ہوئی ہے اور دین و شریعت کی وہ حقیقتیں جو نگاہوں سے اوجھل ہو رہی تھیں ،وہ نمایاں ہوئی ہیں۔ ہماری کتابیں اور تصنیفات سب اس ادارے کے تحت شائع ہو رہی ہیں اور ان شاء اللہ مستقبل میں مزید شائع ہوتی رہیں گی ۔ وہ لوگ جنھوں نے مجھ سے کچھ تربیت پائی ہے اور اب اس مدرسۂ فکر میں کچھ علمی خدمات انجام دے سکتے ہیں، میں یہ کوشش کر رہا ہوں کہ ان کو بھی اس ادارے کے تحت منظم کر دوں۔
دوسری چیز بیان کرنے سے قبل یہ بات پیشِ نظر رہے کہ ایک عام آدمی دین سنتا ہے، سمجھتا ہے،اس پر غور کرتا ہے اور جو کچھ اس کو صحیح معلوم ہوتا ہے ،اس کو اپنا لیتا ہے، لیکن وہ سنتا کن لوگوں سے ہے؟ انھی لوگوں سے سنتا ہے کہ جن کواللہ تعالیٰ دین میں اختصاص کا موقع فراہم کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ہر آدمی دین کا محقق بن کر زندگی نہیں بسر کر سکتا۔ یہ ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے ہر شخص پر ڈالی بھی نہیں ہے۔ دنیا کا نظم جس اصول پر چل رہا ہے اس میں مختلف لوگ مختلف ذمہ داریاں انجام دیتے ہیں۔ کوئی مسلمانوں کی صحت کے معاملات کو دیکھتا ہے ، کوئی ان کی تربیت کے معاملات کو دیکھتا ہے ، کوئی ان کی تعلیم کے معاملات کو دیکھتا ہے ،کوئی ان کی تعمیر کے کاموں کو دیکھتا ہے ،غرض یہ کہ مختلف نوعیت کے کام ہیں جو مختلف لوگ انجام دیتے ہیں۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو مختلف صلاحیت دے رکھی ہے اور اس اصول پر دے رکھی ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے کام لے سکیں۔ لوگوں نے منڈی میں بھی بیٹھنا ہوتا ہے ،دفاتر میں بھی جانا ہوتا ہے ،حکومت کا نظم و نسق بھی چلانا ہوتا ہے ،اداروں کو تشکیل بھی دینا ہوتا ہے، غرض یہ کہ زندگی کے متعلق جتنے بھی شعبے ہیں ،ان سب میں کچھ نہ کچھ خدمات انجام دینا ہوتی ہیں۔ یہ چیز ہر آدمی کے بس میں نہیں ہوتی کہ وہ اپنے آپ کو دین کے علم ہی کے لیے خاص کر لے۔ ہر مسلمان یہ تو کرتا ہے کہ جتنا دین اس کی ضرورت ہے ،اسے وہ سمجھ لے ، اس کے مقاصد اس پر واضح ہو جائیں۔لیکن وہ محقق بن جائے، وہ جید عالم بن جائے، یہ چیز ہر آدمی کے بس کی نہیں ہوتی، مگر دین کی دعوت اسی وقت دوسروں تک پہنچائی جاسکتی ہے جب دین کو جاننے والے، دین کی حقیقتوں کو سمجھنے والے اور دین کے ماخذوں سے براہِ راست تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد امت کے اندر پیدا ہو جائے ۔
میرے سامنے دوسرا کام یہ تھا کہ جس طریقے سے ہم نے دین سیکھا ، جس طرح ہم پر دین کی حقیقتیں واضح ہوئیں اور جس طرح اس کے علوم سے ہمارا تعلق پیدا ہوا ہے ،اسی نقطہء نظر کے مطابق، انھی اصولوں پر اب اہلِ علم پیدا کرنے کے لیے کوئی ادارہ وجود میں لانا چاہیے ۔چنانچہ آج سے دس سال پہلے میں نے اس مقصد کے لیے معہدالعلم الاسلامی ، ’’المورد‘‘ کی تاسیس کی ۔ اس کا ایک بنیادی مقصد یہ طے کیا کہ جو لوگ دین کے جید عالم بننا چاہتے ہیں ، جن کے سامنے یہ مقصد ہے کہ وہ دینی علوم میں اختصاص کو اپنا اصل کام بنا لیں ، ان کی تربیت اور تعلیم کا اعلیٰ ترین درجے پر اہتمام کیا جائے۔ ہمارے معاشرے میں، جس میں ہم جی رہے ہیں اور جس میں دین کے ماخذ کے ساتھ براہِ راست تعلق کی روایت بہت حد تک مردہ ہو چکی ہے، یہ ایک انتہائی مشکل کام تھا ۔ اس طرح کے کسی ادارے کے لیے ایسے لوگوں کا جو پہلے سے دینی علوم سے واقف ہیں یا دینی علوم سے وابستہ ہیں ، تعاون حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھاکہ نئی نسل کے کچھ نوجوانوں کا انتخاب کیا جائے کہ وہ وہاں تدریس کی ذمہ داریاں انجام دینے کے قابل ہو سکیں ۔ اس میں بھی ظاہر بات ہے کہ وسائل اور حالات کے لحاظ سے جس درجے کے لوگ بھی میسر ہوئے، انھی کو لے کر یہ کام کیا جا سکتا تھا ۔ چنانچہ میں نے یہی طریقہ اختیار کیا اور اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ایسے افراد تیار ہو گئے جو اس نوعیت کے کسی ادارے کی بنا ڈالنے کے لیے کافی صلاحیتوں کے حامل بھی تھے اور ایک حد تک انھوں نے ہمارے فکر اور طرزِ فکر کو سمجھ بھی لیا تھا۔چنانچہ میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ ادارہ جو معہد العلم الاسلامی ،المورد کے نام سے لاہور میں قائم ہے، اس میں ہم اسلامی علوم میں اب ماسٹرز کی کلاسز لے رہے ہیں اور اس کو ہم نے عام دینی مدارس کے اصولوں پر قائم کرنے کے بجائے جدید درس گاہ کے اصولوں پر قائم کیا ہے۔ وہ لوگ جو بی اے اور بی ایس سی تک تعلیم حاصل کر چکے ہوں، وہ یہاں آئیں اور آ کر عربی زبان سیکھیں، اسلامی علوم سیکھیں اور پھر وہی ڈگری ان کو حاصل ہو جائے جو اس وقت ہماری یونیورسٹیاں معارفِ اسلامی میں ماسٹر کی ڈگری کے طور پر دیتی ہیں۔ میں یہ بھی آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اس معاملے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسی سال یہ کامیابی عطا فرمائی کہ اب کراچی ہی کی ایک یونیورسٹی کے ساتھ اس ادارے کا الحاق ہو جائے گا اور اس طرح جو لوگ ’’المورد‘‘ میں تعلیم پائیں گے ،ان کو جو ڈگری ادارے کی طرف سے ملے گی ،وہ اسی طرح ایک مسلمہ ڈگری ہو گی جس طرح پنجاب یونیورسٹی یا کسی اور ادارے کی ہوتی ہے۔
اس وقت ہم یہ کوشش کر رہے ہیں کہ اس میں اس تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف علوم کے ایسے کورسز کا بھی اجرا کیا جائے جن میں لوگ ڈپلومہ حاصل کر سکیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ابتدا ہے ۔اس میں ابھی بہت سی مشکلات اور بہت سے مسائل ہیں۔ نصاب کو بھی ابھی بہت سے مراحل سے گزرنا ہے۔ اساتذہ کو بھی ابھی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے بڑی تربیت پانی ہے۔ اور جس پیمانے پر لوگوں کے سامنے اس کا تعارف ہونا چاہیے تھا ،وہ بھی چونکہ وسائل کی کمی کی وجہ سے نہیں کرایا جا سکتا، اس لیے طلبہ بھی اس درجے کے میسر نہیں ہو سکتے جس درجے کی ہم توقع کرتے ہیں ۔
تیسری چیز دین و ملت کی خدمت کے باب میں جو میرے سامنے آئی ،وہ یہ تھی کہ ایسا نظم قائم کیا جائے کہ جس میں قدیم خانقاہی نظام کی اصلاح کر کے تربیت کا ایک ادارہ وجود میں لایا جائے ۔ وہ لوگ جو دین میں فکری لحاظ سے صحت حاصل کر لیتے ہیں ،جن چیزوں کو انھوں نے سمجھنا ہوتا ہے ،انھیں سمجھ لیتے ہیں ۔ ایک حد تک دین کے ماخذ کے ساتھ ان کا تعلق قائم ہو جاتا ہے اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے سامنے دین کی صحیح تعبیر آگئی ہے، لیکن وہ چاہتے ہیں کہ دین ان کے عمل کا حصہ بن جائے، دین ان کی روح کا حصہ بن جائے، اب اس کے مطابق ان کی تربیت ہو۔ جس معاشرے میں ،جس ماحول میں وہ رہتے ہیں ، اس میں جو مشکلات ان کو پیش آتی ہیں، وہ ان کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں آ جائیں۔ ان کے گردوپیش میں جو مصائب اور تکلیفیں ہیں ، ان میں دین کی راہِ راست پر قائم رہنے کا جذبہ ان کے اندر پیدا ہو جائے اور دین انسان کی جو تعمیر کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے مطلوب چیزیں میسر ہو جائیں ، وہ زندگی بسر کرتے ہوئے، اپنے کاروبار میں، اپنے تعلیمی کاموں میں، اپنے معاملات میں جو مشکلات محسوس کرتے ہیں،ان میں ان کی رہنمائی ہو جائے۔ اور وہ چیزیں جو دین میں اور دینی زندگی کے لیے سیکھنی ضروری ہیں ، مگر معاشرے کی غلط تربیت کی وجہ سے وہ چیزیں سیکھ نہیں سکے،ان کے سکھانے کا اہتمام کر دیا جائے۔ غرض یہ کہ اعلیٰ علمی سطح کے کام کے بجائے عام آدمی کے لیے جو ایک خاص نوعیت کی تربیت درکا رہے، جس سے وہ اپنے آپ کو، اپنے نفس کو انضباط میں لے آتا ہے، اس کا اہتمام کرنے کی کوشش کی جائے۔ میں اس پر بھی اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ایسے اسباب پیدا ہو گئے ہیں۔ ہم لاہور میں ایک مسجد اور اس کے ساتھ ملحق ایک ادارے کی بنیاد رکھ چکے ہیں اور توقع ہے کہ اسی سال یہ بھی تعمیر کے مراحل سے گزرنے کے بعد اپنا کام شروع کر سکے گا ۔
میں نے جس طرح عرض کیا ہے کہ اس میں مقصود یہی ہے کہ عام آدمی جب دین کو سمجھ لیتا ہے یا اس کا دین کی طرف رجحان ہو جاتا ہے یا اسے دین کے فکری معاملات میں یکسوئی حاصل ہو جاتی ہے یا وہ چیزیں جو فکری لحاظ سے قبول کرنی چاہییں ، وہ انھیں قبول کر لیتا ہے ،جو چھوڑنے کی ہوں وہ انھیں چھوڑ دیتا ہے تو اس کی عملی تربیت کا اہتمام کرنے کے لیے کوئی ایسی تربیت گاہ قائم کی جائے ،کوئی ایسا ادارہ قائم کیا جائے جس میں وہ اپنے نفس کا تزکیہ کر سکے ۔ یہ اس کام کی شروعات ہیں، ابھی اس کام کی بنا ڈالی جا رہی ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعاکرتا ہوں کہ وہ اس کو بھی اسی طرح پابرجا کر دے جس طرح اس نے دوسرے کاموں کو کیا ۔اور میں یہ چاہتا ہوں کہ ہمارے ہاں خانقاہوں کی پرانی روایت میں ’’زاویہ‘‘ کا لفظ بھی ایک زمانے تک مستعمل رہا ہے اس کو بھی جدت کے ساتھ ،نئی روح کے ساتھ، نئے مقاصد کے ساتھ اور دین اور خالص دین کی روشنی میں زندہ کیا جائے۔
چوتھی چیز جو دین و ملت کے کاموں میں میرے سامنے آئی او رجو بہت توجہ کا تقاضا کر رہی تھی، وہ یہ تھی کہ یہ قوم جس کے ساتھ ہم رہتے بستے ہیں ،اس کی تعمیر کا اہتمام کیا جائے۔ یہ چیز دو اعتبارات سے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے ۔ایک اس اعتبار سے کہ اب دین جو کچھ بھی ہے اس میں شبہ نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ہے ، اس میں شبہ نہیں کہ وہ انبیا کی قائم کردہ سنت میں ہے ، اس میں شبہ نہیں کہ وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں ہے ، یہ سب اپنی جگہ حقیقت ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس کو ہم اصل ماخذ کی بنیاد پر جب چاہیں ، جس طرح چاہیں پیش کر سکتے ہیں ،لیکن اب دین اپنے تعارف کے حوالے سے اس قوم کے ساتھ وابستہ ہو چکا ہے۔ یہ قوم جیسی بھی ہے ،لوگ بہرحال اسے دیکھ کر دین کے بارے میں تاثر قائم کرتے ہیں۔ یعنی دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمان دین کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ اسے بیان بھی کررہے ہوتے ہیں۔ اسے پہنچا بھی رہے ہوتے ہیں۔ اس کی بنیاد پر اقدام بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کے علم سے اپنی زندگی بھی استوار کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح اس کے علم سے گریز کے راستے بھی تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ چلیں باہر کے لوگوں کو الگ رہنے دیجیے، خود مسلمانوں کی جو نئی نسلیں ہیں، ان تک اس طرح دین پہنچتا ہے، وہ اچھی یا بری رائے بھی اسی سے قائم کرتے ہیں۔ لہٰذا کوئی دین سے محبت رکھنے والا مسلمان اس قوم کے خیر و شر سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ اور میرا احساس یہ ہے کہ یہ خود دین کی نصرت کا تقاضا ہے کہ اس قوم کی تعمیر کا اہتمام کیا جائے ۔ ا س کام کو بھی ہدف بنایا جائے، دین مسلمان بھائیوں سے باہمی نصح و خیر خواہی کا تقاضا کرتا ۔ ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ دین ان چیزوں سے مجرد ہو کر کہیں بیان کیا جاتا رہے ۔ اس کو سب سے پہلے اس امت میں پہنچنا ہے ، اسے اس امت سے اعوان و انصار ملنے ہیں، اس امت سے وہ لوگ ملنے ہیں جو آگے بڑھ کر اس کا علم حاصل کر سکیں۔ لہٰذا نصرتِ دین اور نصح و خیر خواہی کا یہ تقاضا ہے کہ قومی تعمیر کو بھی موضوع بنایا جائے۔ چنانچہ وہ لوگ جو اس طریقے پر سوچ رہے ہیں، ایسے ہی جذبات اپنے اندر رکھتے ہیں، اسی طرح قومی تعمیر کے جذبے سے سرشار ہیں ، ایک ادارہ ان کے لیے بھی بنایا جائے۔چنانچہ ’’دانش سرا‘‘ کو ہم نے ترک و اختیار کے بہت سے مراحل سے گزرنے کے بعد اس کام کے لیے خاص کر دیا ہے۔ یعنی باقی تمام کاموں کو دوسرے اداروں میں منظم کر لینے کے بعد یہ چیز دانش سرا کے ساتھ خاص کر دی ہے۔ پیشِ نظر رہے کہ دوسرے ادارے بھی اس کے پس منظرکے ادارے ہیں، وہ اس کے لیے معاون اداروں کی حیثیت رکھتے ہیں، اس کے فکر کی تشکیل انھی سے ہوئی ہے اور وہ اس کے دست و بازو ہیں۔ لیکن دین کی روشنی میں قومی تعمیر کا کام دانش سرا کے ساتھ خاص کر دیا ہے ،تاکہ جو لوگ اس کام کا جذبہ رکھتے ہیں وہ اس ادارے کے تحت آ کر کام کریں ۔
دانش سرا کے دینی محرکات تو میں نے واضح کر دیے ،لیکن قومی تعمیر کے کام میں الم ناک صورتِ حال جو اس وقت درپیش ہے ، ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اس کی جانب بھی اشارہ کر دوں ۔ ہر مسلمان اس پر کڑھتا ہے کہ یہ امت اس وقت بحیثیتِ مجموعی اضمحلال کا شکار ہے۔ یہ زوال آشنا ہو چکی ہے۔ اس کا کوئی وقار نہیں ہے ۔ اس وقت دنیا میں اس کا کوئی مقام نہیں ہے۔
ایک زمانہ اس پر اچھا بھی گزرا ہے ۔ اس کا ماضی معمولی ماضی نہیں ہے ۔ یہ دنیا کی تعمیر کر چکی ہے ۔ دنیا کو علم و فن سے آشنا کر چکی ہے ۔ دنیا کو ہدایت کی روشنی دے چکی ہے ۔ دنیا پر اس کا سیاسی اور فکری غلبہ کم و بیش ایک ہزار سال تک قائم رہا ۔ ایسے میں ہر شخص سوچتا ہے کہ زوالِ امتکے کیا اسباب ہیں؟ میرے نزدیک اس کے دو بنیادی اسباب ہیں: ایک اس کا قرآنِ مجید سے غیر متعلق ہونا ۔ یعنی امت کے علم و عمل میں قرآن کو جس طرح محور کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے تھی ،وہ بدقسمتی سے صدیوں سے اسے حاصل نہیں ہے ۔ اور دوسرا سبب یہ کہ چوتھی صدی میں فلسفے اور تصوف کے ساتھ اس امت کے ذہین افراد کا اشتغال اور پھر ایک طویل عرصے تک اس اشتعال کا قائم رہنا۔
پہلی چیز کے اثرات امت پر یہ ہوئے کہ قرآن جس طریقے سے ،جس روح کے ساتھ ، جس استدلال کے ساتھ دین کو بیان کرتا ہے ، امت اس سے محروم ہو گئی ۔ اس کی فقہ قرآن کے تابع نہیں رہی ، اس کا علمِ حدیث اس کے تابع نہیں رہا ،اس کا علمِ کلام اس کے تابع نہیں رہا ، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امت دین کے معاملے میں ٹھیک انصاف پر قائم نہیں رہی۔ قرآن جو ایک میزان ہے ، ایک کسوٹی ہے ،ایک فرقان ہے ،اس کا یہ مقام امت میں باقی نہیں رہا۔ قرآن کو جو حیثیت امت کے علم ، فکر ، عمل میں ملنی چاہیے تھی ، وہ نہیں ملی ۔
دوسری چیز یعنی فلسفے او رتصوف سے اشتغال کے اثرات بھی انتہائی گہرے ہوئے ۔ مابعد الطبیعیات کے حقائق کے بارے میں قرآنِ مجید کی جو نہایت واضح رہنمائی موجود تھی ،ہم اس سے بہت دور ہو گئے ۔ ہم نے ان چیزوں کو موضوع بنا لیا جن کے بارے میں ہمارے پروردگار کی ہدایت یہ تھی کہ :’’اس میں تمھیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے ۔‘‘ انھی موضوعات پر ہم دادِ تحقیق دیتے رہے ۔ اس کے بعد لازمی نتیجے کے طور پر امت میں سائنسی فکر کا فقدان ہونا شروع ہو گیا ۔ بنو امیہ کے بعد جب ہماری امت پر عجم کے اثرات ہوئے تو اس کے بعد لوگوں کے اصل اشتغال کا موضوع سائنسی فکر نہیں بنا ۔ اندلس میں کسی حد تک معاملہ اس سے مختلف رہا ،لیکن اس کے سقوط کے بعد جو لوگ وہاں سے نکلے ،انھیں ہماری عثمانی سلطنت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئی۔ ان کو پناہ ملی تو یورپ میں ملی ۔ اس سے تاریخ کا رخ بدل گیا ۔ دنیا کی قیادت و سیادت کی باگ مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئی ۔
اصل میں اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے جو کارخانہ بنا رکھا ہے ،یہ جس طرح اخلاقی اساسات پر امتوں کی تعمیر کرتا ہے ،بالکل اسی طرح توانائی کے ذرائع کی دریافت پر بھی ان کے عروج و زوال کا انحصار ہوتا ہے ۔ چنانچہ دانش سرا کے تحت ہم نے اپنے سامنے بنیادی طور پر یہی چیزیں رکھی ہیں کہ لوگوں میں اخلاقی اساسات کے استحکام پر محنت کی جائے جس سے یہ امت بحیثیتِ مجموعی محروم ہو چکی ہے ۔ اس کے منڈیوں میں کام کرنے والے ،اس کے دفتروں میں کام کرنے والے ،اس کے اربابِ اقتدار ، سب اس سے محروم ہو چکے ہیں ۔ اخلاقی اساسات یعنی دیانت ، امانت ، رواداری ، برداشت ، لوگوں کے باہمی تعلقات میں ناگزیر اخلاقیات کو اگر محکم نہیں کیا جائے گا تو جو چاہے کر لیں ،قوم دنیا کے اندر سراٹھا کر کھڑی نہیں ہو سکتی ۔
اس کے لیے ہم کوشش کر رہے ہیں کہ لوگوں کا قرآنِ مجید کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کیا جائے ، اسے پڑھنے کے لیے ان کے اندر رغبت پیدا کی جائے ۔ انھیں احساس ہو کہ کیا نعمت ہے جو انھیں دی گئی ہے ۔ اس کے لیے قرآنِ مجید اور احادیث کا ایک انتخاب کر کے لوگوں کو دیا جائے اور یہی دانش سرا کا اصل لٹریچر قرار پاجائے ۔
دوسری چیز یہ کہ امت کے اندر جو قومی ادارے قائم ہیں ،خواہ وہ معاشی ادارے ہوں ،خواہ وہ سیاسی ادارے ہوں ، خواہ معاشرتی ادارے ہوں ،انھیں نئے سرے سے دین کی روشنی میں استوار کرنے کے لیے قوم میں شعور پیدا کیا جائے ۔ مکالمے کی ایسی فضا پیدا کی جائے کہ فکری انقلاب کی راہ ہموار ہو ۔ ان تمام سوالات کا جواب دیا جائے جو امت کے ذہین عناصر کے ذہنوں میں موجود ہیں ۔ اور خاص طور پر ان چیزوں کو ہدف بنایا جائے جو ہماری ریاست سے متعلق ہیں اس لیے کہ قومی ادارے اسی پر منحصر ہوتے ہیں اور وہی ان کی تشکیل کرتی ہے ۔
اس سلسلے میں پس منظر کا کام ، اللہ کا شکر ہے کہ ہم کر چکے ۔ اب اس کام کو اس طرح پیش کرنا ہے کہ عام لوگ اس کی طرف متوجہ ہو سکیں ۔ اس کے لیے ہم سیمینار کریں گے ۔مذاکرے کریں گے ۔ اذہان کو مخاطب کریں گے ۔ حکمت کے ساتھ ، دانش کے ساتھ ۔ دین نے ہمیں خدا کی طرف بلانے کے لیے حکمت اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی ہے ۔ اسی لیے ہم نے اس کا نام دانش سرا رکھا ہے ۔ اس کے علاوہ ہمارے پیشِ نظر ہے کہ دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے بھی جو رفقا اس کام میں آگے بڑھیں ، وہ فعال ہوں۔ اس معاملے میں بھی عام مسلمان کی حیثیت سے جو کچھ ہم کر سکیں ، وہ کریں ۔
دانش سرا کے یہ مقاصد ہیں جو متعین کیے گئے ،جنھیں دستور میں دو اور دو چار کی طرح واضح کر دیا گیا ۔ چنانچہ اس موقع پر میں سمجھتا ہوں کہ میرا کام ایک حد تک مکمل ہو گیا ۔ میں نے اس کے بانی کی حیثیت سے یہ سب کام انجام دینے کے بعد اس کی مجلسِ شوریٰ سے درخواست کی کہ میرے علاوہ کسی شخصیت کو اس کی ذمہ داری سنبھالنے کے لیے سربراہ کے طور پر منتخب کرے۔ چنانچہ دانش سرا کی مجلسِ شوریٰ نے ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کا انتخاب کیا ہے ۔ اس کنونشن سے وہ اس کی صدارت کی ذمہ داریاں سنبھال رہے ہیں ۔ باقی معاملات کنونشن کے دوران میں آتے رہیں گے ۔ مجھے اس وقت پس منظر ہی کے لحاظ سے یہ معروضات پیش کرنی تھیں۔
اس کے بعد دانش سرا ، پاکستان کے نو منتخب صدر جناب ڈاکٹر محمد فاروق خان نے خطاب کیا ۔ دوسرے دن (۲۴ مارچ کو) نمازِ ظہر کے بعد جناب محمد رفیع مفتی نے درسِ قرآن اور جناب طالب محسن نے درسِ حدیث دیا ۔ ناشتے کے بعد باہمی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا ۔ نمازِ ظہر اور طعام کے بعد دانش سرا کے مختلف شہروں میں قائم حلقوں نے اپنے کاموں کی روداد بیان کی ۔ نمازِ مغرب کے بعد بچوں کے رسالے’’آنکھ مچولی‘‘ کے مدیرِ اعلیٰ جناب نعیم احمد بلوچ نے اپنے کام کا تعارف کرایا ۔
پھر شہزاد سلیم صاحب نے ’’المورد‘‘ کے بارے میں ، معز امجد صاحب نے اپنی ویب سائٹ ’’انڈر سٹینڈنگ اسلام‘‘ کے بارے میں ، محمد اسحاق صاحب نے مصعب پبلک اسکول کے بارے میں ، جناب ڈاکٹر آغا طارق سجاد نے ’’دارالاشراق‘‘ کے انتظامی کاموں کے بارے میں حاضرین کے سوالات کے جوابات دیے ۔
تیسرے دن (۲۵ مارچ کو) جناب ساجد حمید صاحب نے نمازِ فجر کے بعد درسِ قرآن دیا ۔ ناشتے کے بعد ۱۰ بجے جناب جاوید احمد صاحب غامدی نے حاضرین کے مختلف مسائل کے بارے میں سوالات کے جوابات دیے ۔ اس کے بعد جناب ڈاکٹر محمد فاروق خان کا اختتامی خطاب ہوا ۔ اور یوں نمازِ ظہر اور طعام کے بعد کنونشن اپنے اختتام کو پہنچا ۔
دانش سرا کا یہ کنونشن پہلی مرتبہ کراچی میں منعقد ہوا ۔ کراچی کے احباب نے اس کے لیے بہت اچھے انتظامات کیے اور شرکا کے آرام اور آسایش کا ہر پہلو سے خیال رکھا ۔ دعا ہے کہ خدا ان کی اس خدمت کو قبول فرمائے۔
____________