’’میں نے خدا کا نام لے کر ’’خدام الدین‘‘ کی جماعت قائم کر دی ہے ۔ الگ مکان لے دیا ہے اور الگ تربیت ہے ۔ قریباً ایک مہینا ہوا ہے ، اب تک امید افزا آثار ہیں ۔ احکامِ اسلامی کی پابندی میں شغف اور مستعدی پائی جاتی ہے ۔ ابھی سات لڑکے عہد وپیمان کے ساتھ خود اپنی مرضی سے داخل ہوئے ہیں ۔ یہ دیہات وغیرہ میں اشاعتِ اسلام کے کام بھی آئیں گے ۔ ‘‘ ۱
یہ الفاظ علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ نے اپنے قریبی عزیز مولانا حمید الدین فراہی کو اپنے ایک مکتوب میں لکھے۔ سید سیلمان ندوی اس بارے میں لکھتے ہیں :
’’ ان سات خادمانِ دین میں ایک یہ مرحوم عبد الرحمن نگرامی تھے ۔ یہ جماعت بٹ گئی ۔ اس کا بانی رخصت ہو گیا۔حالات بدل گئے ۔ مگر عبد الرحمن نے اس حیثیت سے جو عہد کیا تھا ، اس کو اخیر تک نبھایا۔‘‘ (سید سلیمان ندوی ’’یادِ رفتگان‘‘ مجلسِ نشریاتِ اسلام کراچی ۱۹۸۳ ، ص : ۶۱)
مولانا شبلی کی نظر میں اس بچے کی کیا قدرومنزلت تھی اس بارے میں سید سیلمان ندوی تحریرکرتے ہیں :
’’مولانا شبلی مرحوم جو اچھی استعداد اور قابلِ جوہر کے ہمیشہ جویا رہتے تھے ،وہ خاص طور پر مرحوم عبد الرحمن نگرامی کی تربیت سے دلچسپی رکھتے تھے ۔ ایک دو دفعہ جلسوں میں وہ اپنے ساتھ لے کر گئے ۔ مدرسہ سراے میر (اعظم گڑھ) کے پہلے یا دوسرے اجلاس میں مولانا جب ان کو ساتھ لائے تو بچے کی زبان سے اچھے خیالات اور ایسی سنجیدہ تقریر سن کر لوگ حیرت میں آ گئے ۔ ‘‘ ( سید سلیمان ندوی ،یادِ رفتگان،مجلسِ نشریاتِ اسلام کراچی ۱۹۸۳ ، ص : ۶۰۔۶۱ )
مولانا عبد الرحمن نگرامی ۱۸۹۹ء میں ضلع لکھنو کے مردم خیز قصبے نگرام کے ایک معروف صاحبِ علم انصاری خاندان میں پیدا ہوئے ۔ ابھی کمسن تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا۔ ان کی پرورش ان کے شفیق چچا مولانا محفوظ الرحمن نے کی ۔ پانچ سال کی عمر میں مکتب میں بٹھائے گئے ۔ یہیں انھوں نے قرآنِ مجید حفظ کیا اور ابتدائی درسیات پڑھیں ۔۲
۱۹۰۷ء میں وہ دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنو میں داخل ہوئے ۔اس وقت مولانا سید سلیمان ندوی مدرسہ میں ادبیات کے استاد تھے ۔ انھوں نے عبد الرحمن کو ابتدائی کتب پڑھائیں ۔ ۳
۱۹۰۸ ء میں آریہ سماج نے شدھی کا پہلا فتنہ اٹھایا ۔ آریہ سماجی مبلغوں کے جوشِ تبلیغ سے ناخواندہ مسلمان متاثر ہو رہے تھے ۔ آریہ سماج کی ان سرگرمیوں نے مسلمان اہلِ نظر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا اور شدھی کے مقابلے میں مختلف تبلیغی انجمنیں میدانِ عمل میں آ گئیں ۔ مولانا شبلی نعمانی نے ان متفرق اور پراگندہ تبلیغی کوششوں کو مربوط و یکجا کرنے کی خاطر ۶، ۷، ۸ اپریل ۱۹۱۲ کو لکھنو میں ایک اجلاس بلایا اور ندوۃ العلما میں مبلغین تیار کرنے کے لیے ’’خدام القرآن‘‘ کی ایک جماعت قائم کی ۔ ۴ اس جماعت میں صرف ان طلبہ کو داخل کیا جاتا تھا جن کے والدین یا اولیا اپنے بچے کو صرف خدمتِ دین کے لیے وقف کر سکیں ۔ یہ بچے سادہ پہننے ، سادہ کھانے ، اور سادہ رہنے کا عہد کرتے تھے ۔ ۵ مولانا نگرامی بھی اس جماعت سے وابستہ ہو گئے ۔
۱۹۱۵ء میں ندوہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد چار برس تک مدرسہ سراے میر میں رہ کر درس و تدریس کا فرض انجام دیا، اس دوران میں سید سلیمان ندوی کے بقول :
’’مدرسہ میں زیر تربیت چند اچھے لڑکے پیدا کیے ، جن میں سے ایک آج مولانا امین احسن اصلاحی کے نام سے مشہور ہیں ، اسی زمانہ میں انھوں نے مولانا حمید الدین کے زیرِ سایہ قرآنِ پاک کا فیض حاصل کیا ۔‘‘( سید سلیمان ندوی ’’یادِ رفتگان‘‘ مجلسِ نشریاتِ اسلام کراچی ۱۹۸۳ ، ص : ۶۱ )
تحریکِ ترکِ موالات کے زمانہ میں مولانا ابو الکلام آزاد نے مدرسہ اسلامیہ جامع مسجد کلکتہ قائم کیا ۔ ان کی خواہش پر مدرسہ اسلامیہ کلکتہ کی صدر مدرسی کا عہدہ قبول کیا اور انتہائی کسمپرسی کے عالم میں نہایت جفاکشی سے اسے چلایا ۔ ۶
مولانا عبد الماجد دریا آبادی مولانا نگرامی کے کلکتہ جانے کی ایک دوسری وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اسی اثنا میں ملک میں خلافت و ترکِ موالات کی تحریک زوروں پر تھی ۔ مدرسے پر مدرسے بند ہونے لگے۔ نئے نئے پرچے اور اخبار جاری ہونے لگے ۔ مولانا ابو الکلام آزاد نے ۱۹۲۰ء میں ایک اخبار ’’پیام‘‘ کے نام سے نکالنا چاہا اور اس کے لیے نگرامی مرحوم کو اپنے ساتھ کلکتہ لے گئے ۔ نگرامی اس کے لیے بہت موزوں ثابت ہوئے ۔‘‘ ۷
اسی زمانہ میں کلکتہ شہر کی خلافت کمیٹی کے صدر منتخب ہوئے اور سارے شہر کو اخلاق و ایثار سے اپنا گرویدہ بنالیا ۔ ۸ اس زمانے میں اعظم گڑھ اور کلکتہ میں ان کی سیاسی تقریریں حددرجہ بلاانگیز ہوتی تھیں، مگر ان کا دل کبھی خوف سے آشنا نہ ہوا ۔ ۹ اس تحریک کے دوران میں قید و بند کی صعوبت بھی برداشت کی ۔ ۱۰
مدرسہ اسلامیہ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا ۔ سید سلیمان ندوی کے اصرار پر کلکتہ سے لکھنو آئے اور ۱۹۲۳ء میں دارالعلوم ندوۃ العلما میں ادب و تفسیر کی خدمت ان کے سپرد کر دی گئی ، جسے انھوں نے آخر دم تک نبھایا ۔ ۱۱
ندوہ کی تدریسی زندگی کے دوران میں انھوں نے صحافت میں بھی بھر پور حصہ لیا ۔ مولانا عبد الماجد دریا آبادی لکھتے ہیں :
’’اخیر ۱۹۲۴ ء میں ظفر الملک علوی کا کوروی ، مالک’’الناظر‘‘ پریس کے مشورے سے یہ طے پایا کہ لکھنو سے ایک ہفتہ وار اصلاحی پرچہ ، نیم سیاسی ، نیم مذہبی ، ’’سچ‘‘ کے نام سے سلیس زبان میں عام فہم انداز سے نکالا جائے ۔ پرچہ شروع ۱۹۲۵ ء سے جاری ہوا ۔ اس کے ایڈیٹر تین قرار پائے ۔ ایک خود ظفر الملک دوسرے میں ، تیسرے یہی مولانا عبد الرحمن نگرامی ۔ مضمون ہم تینوں لکھتے ۔ مذہبی عنوانات پر زیادہ تر نگرامی مرحوم ہی قلم اٹھاتے اور لکھنے کا حق ادا کر دیتے ۔ ‘‘ ۱۲
دوسری جگہ لکھتے ہیں :
’’حسنِ ترتیب ، حسنِ بیان ، سلاستِ زبان ، ذوقِ انشاء کی شہادت ان کے قلم کی نکلی ہوئی ہر سطر دے رہی ہے ۔ ‘‘( وفیاتِ ماجدی، لکھنو ۱۹۷۸ ، ص ۶۲۔۶۳)
(جاری)
________
۱ مکاتیبِ شبلی، شبلی نعمانی، ص ۳۶، حصہ دوم معارف پریس اعظم گڑھ ۱۹۲۷۔
۲ مولانا عبد الرحمن نگرامی، پروفیسر اختر راہی ۔ ص ۴۵۔ ماہنامہ ’’المعارف‘‘ لاہور اگست ۱۹۸۱۔
۳ یادِ رفتگان، سید سلیمان ندوی ، ص ۶۰ ۔
۴ مولانا عبد الرحمن نگرامی، پروفیسر اختر راہی ۔ ص ۴۶۔ ماہنامہ ’’المعارف‘‘ لاہور اگست ۱۹۸۱۔
۵ یادِ رفتگان، سید سلیمان ندوی ، ص ۶۱ ۔
۶ یادِ رفتگان، سید سلیمان ندوی ، ص ۶۲۔
۷ معاصرین،عبد الماجد دریا آبادی ، ص ۲۲۴۔ مجلس نشریات اسلام کراچی ۔
۸ یادِ رفتگان، سید سلیمان ندوی ، ص ۶۲۔
۹ یادِ رفتگان ، سید سلیمان ندوی ، ص ۶۵۔
۱۰ معاصرین،عبد الماجد دریا آبادی ، ص ۲۲۴۔ مجلسِ نشریاتِ اسلام کراچی ۔
۱۱ یادِ رفتگان، سید سلیمان ندوی ، ص ۶۲۔
۱۲ معاصرین،عبد الماجد دریا آبادی ، ص ۲۲۵۔ مجلسِ نشریاتِ اسلام کراچی ۔
____________