HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: النحل ۱۶: ۶۵- ۸۳ (۵)

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


وَاللّٰہُ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنَ(۶۵) وَاِنَّ لَکُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَۃً نُسْقِیْکُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِہٖ مِنْم بَیْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآءِغًا لِّلشّٰرِبِیْنَ(۶۶) وَمِنْ ثَمَرٰتِ النَّخِیْلِ وَالْاَعْنَابِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْہُ سَکَرًا وَّرِزْقًا حَسَنًا اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ(۶۷)
وَاَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُوْنَ(۶۸) ثُمَّ کُلِیْ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ فَاسْلُکِیْ سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلاً یَخْرُجُ مِنْم بُطُوْنِھَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُہٗ فِیْہِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ(۶۹)
وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ ثُمَّ یَتَوَفّٰکُمْ وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰٓی اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِکَیْ لَا یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْءًا اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ(۷۰)
وَاللّٰہُ فَضَّلَ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ فِی الرِّزْقِ فَمَا الَّذِیْنَ فُضِّلُوْا بِرَآدِّیْ رِزْقِہِمْ عَلٰی مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ فَھُمْ فِیْہِ سَوَآءٌ اَفَبِنِعْمَۃِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَ(۷۱)
وَاللّٰہُ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا وَّجَعَلَ لَکُمْ مِّنْ اَزْوَاجِکُمْ بَنِیْنَ وَحَفَدَۃً وَّرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ اَفَبِالْبَاطِلِ یُؤْمِنُوْنَ وَبِنِعْمَتِ اللّٰہِ ھُمْ یَکْفُرُوْنَ(۷۲) وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَمْلِکُ لَھُمْ رِزْقًا مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ شَیْءًا وَّلَا یَسْتَطِیْعُوْنََ(۷۳) فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰہِ الْاَمْثَالَ اِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۷۴)
ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً عَبْدًا مَّمْلُوْکًا لَّا یَقْدِرُ عَلٰی شَیْءٍ وَّمَنْ رَّزَقْنٰہُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا فَھُوَ یُنْفِقُ مِنْہُ سِرًّا وَّجَھْرًا ھَلْ یَسْتَوٗنَ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ بَلْ اَکْثَرُھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(۷۵) وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً رَّجُلَیْنِ اَحَدُھُمَآ اَبْکَمُ لَا یَقْدِرُ عَلٰی شَیْءٍ وَّھُوَ کَلٌّ عَلٰی مَوْلٰہُ اَیْنَمَا یُوَجِّھْہُّ لَا یَاْتِ بِخَیْرٍ ھَلْ یَسْتَوِیْ ھُوَ وَمَنْ یَّاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَھُوَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۷۶)
وَلِلّٰہِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَآ اَمْرُالسَّاعَۃِ اِلَّا کَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ ھُوَ اَقْرَبُ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۷۷)  
وَاللّٰہُ اَخْرَجَکُمْ مِّنْم بُطُوْنِ اُمَّھٰٰتِکُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْءًا وَّجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْءِدَۃَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ(۷۸)
اَلَمْ یَرَوْا اِلَی الطَّیْرِ مُسَخَّرٰٰتٍ فِیْ جَوِّ السَّمَآءِ مَا یُمْسِکُھُنَّ اِلَّا اللّٰہُ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(۷۹) وَاللّٰہُ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْم بُیُوْتِکُمْ سَکَنًا وَّجَعَلَ لَکُمْ مِّنْ جُلُوْدِالْاَنْعَامِ بُیُوْتًا تَسْتَخِفُّوْنَھَا یَوْمَ ظَعْنِکُمْ وَیَوْمَ اِقَامَتِکُمْ وَمِنْ اَصْوَافِھَا وَاَوْبَارِھَا وَاَشْعَارِھَآ اَثَاثًا وَّمَتَاعًا اِلٰی حِیْنٍ(۸۰)
وَاللّٰہُ جَعَلَ لَکُمْ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلاً وَّجَعَلَ لَکُمْ مِّنَ الْجِبَالِ اَکْنَانًا وَّجَعَلَ لَکُمْ سََرَابِیْلَ تَقِیْکُمُ الْحَرَّ وَسَرَابِیْلَ تَقِیْکُمْ بَاْسَکُمْ کَذٰلِکَ یُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عََلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تُسْلِمُوْنَ(۸۱)
فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ(۸۲) یَعْرِفُوْنَ نِعْمَتَ اللّٰہِ ثُمَّ یُنْکِرُوْنَھَا وَاَکْثَرُھُمُ الْکٰفِرُوْنَ(۸۳) 
حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی نے آسمان سے پانی برسایا۔ پھر اُس سے زمین کو اُس کے مردہ ہو جانے کے بعد زندہ کر دیا۔ اِس میں یقیناً اُن لوگوں کے لیے بڑی نشانی ہے جو سنتے ہیں۔ اور تمھارے لیے چوپایوں میں بھی یقینا بڑا سبق ہے۳۸؎۔ ہم اُن کے پیٹوں کے اندر کے گوبر اور خون کے درمیان سے۳۹؎ تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے نہایت خوش گوار ہے۔ (اِسی طرح) کھجور اور انگور کے پھلوں سے بھی۔ تم اُن سے نشے کی چیزیں بھی بناتے ہو اور کھانے کی اچھی چیزیں بھی۴۰؎۔ اِس میں یقینا اُن لوگوں کے لیے بڑی نشانی ہے جو عقل سے کام لیتے ہیں ۴۱؎۔ ۶۵-۶۷
(تم دیکھتے نہیں ہو کہ)، تمھارے پروردگار نے شہد کی مکھی پر وحی کی۴۲؎ کہ پہاڑوں اور درختوں میں اور لوگ جو ٹٹیاں باندھتے ہیں، اُن میں چھتے بنا، پھر ہر قسم کے پھلوں سے رس چوس اور اپنے پروردگار کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ۴۳؎۔ اُس کے پیٹ سے ایک مشروب نکلتا ہے جس کے رنگ مختلف ہوتے ہیں، اُس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔ اِس کے اندر بھی یقینا اُن لوگوں کے لیے بڑی نشانی ہے جو غور کرتے ہیں ۴۴؎۔ ۶۸-۶۹
(اِسی طرح) اللہ نے تم کو پیدا کیا ہے، پھر وہی تم کو موت دیتا ہے۔ (تم میں سے کچھ پہلے رخصت ہو جاتے ہیں) اور تم میں سے کچھ ارذل عمر کو پہنچا دیے جاتے ہیں، اِس لیے کہ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانیں۔ حق یہ ہے کہ اللہ ہی جاننے والا ہے، وہی ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۴۵؎۔ ۷۰
(پھر یہ بھی دیکھو کہ) اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر روزی میں برتری دے رکھی ہے۔ پھر جن کو برتری دی گئی ہے، وہ اپنی روزی اپنے غلاموں کو نہیں دے دیتے کہ وہ اُس میں برابر ہو جائیں۔ (لیکن خدا کے بارے میں یہی سمجھتے ہیں کہ اُس نے اپنی خدائی دوسروں میں بانٹ دی ہے)۔تو کیا یہ اللہ کی نعمت کا انکار کر رہے ہیں ۴۶؎؟ ۷۱
(پھر یہ بھی دیکھو کہ) اللہ نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں اور تمھاری بیویوں سے تمھارے لیے بیٹے اور پوتے پیدا کیے اور تمھیں کھانے کی پاکیزہ چیزیں عطا فرمائیں۔ پھر کیا یہ (سب کچھ دیکھتے اور جانتے ہوئے بھی) باطل کو مانتے ہیں اور اللہ کی نعمت کے منکر ہو گئے ہیں اور اللہ کے سوا اُن چیزوں کو پوجتے ہیں جو نہ آسمانوں سے اِن کے لیے کسی روزی پر کوئی اختیار رکھتی ہیں، نہ زمین سے اور نہ (اِس طرح کے کسی اختیار پر) دسترس پا سکتی ہیں ۴۷؎۔ سو (اپنے اوپر قیاس کرکے تم) اللہ کے لیے مثالیں نہ بیان کرو۴۸؎۔ حقیقت یہ ہے کہ (اپنی ذات و صفات کو) اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے ہو۔ ۷۲-۷۴
(تم مثالیں ہی سننی چاہتے ہو تو سنو)، اللہ ایک غلام کی مثال بیان کرتا ہے جو دوسرے کی ملکیت میں ہے، وہ کسی چیز پر اختیار نہیں رکھتا۔ (اُس کے مقابل میں) دوسرا ایک شخص ہے جس کو ہم نے اپنی طرف سے اچھی روزی عطا کر رکھی ہے، پھر وہ اُس میں سے کھلے اور چھپے، (جس طرح چاہتا ہے)، خرچ کرتا ہے۔ (بتاؤ)، کیا دونوں برابر ہو ں گے؟ (پھر خدا اور اُس کے بے اختیار بندوں کو کس طرح برابر کر دیتے ہو؟ حق یہ ہے کہ) شکر کا سزاوار اللہ ہے، لیکن اِن کے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ اللہ (اِسی حقیقت کی وضاحت کے لیے) ایک اور مثال بیان کرتا ہے۔ دو آدمی ہیں، اُن میں سے ایک گونگا ہے، کوئی کام نہیں کر سکتا اور اپنے آقا پر بوجھ بنا ہوا ہے۔ وہ اُس کو جہاں بھیجتا ہے، وہ کوئی چیز درست کرکے نہیں لاتا۔ کیا یہ (گونگا) اور وہ شخص برابر ہوں گے جو انصاف کی تعلیم دیتا ہے اور خود بھی سیدھی راہ پر قائم ہے۹۴؎؟ ۷۵-۷۶
(اِنھیں اصرار ہے کہ قیامت آنی ہے تو اُس کا وقت بتایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ) زمین اور آسمانوں کا سارا غیب اللہ ہی کے اختیار میں ہے اور قیامت کا معاملہ تو اتنا ہی ہے، جیسے آنکھ جھپک جائے یا اُس سے بھی پہلے۔ (یہ ہمارے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہے)، اِس لیے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔۷۷
اور (دیکھو)، تم کو اللہ ہی نے تمھاری ماؤں کے پیٹ سے نکالا، اُس وقت تم کچھ نہیں جانتے تھے۔ اُس نے تمھیں کان اور آنکھیں اور (سوچنے والے) دل دیے، اِس لیے کہ تم شکر کرو۵۰؎۔ ۷۸
کیا اِنھوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا کہ آسمان کی فضا میں مسخر ہو رہے ہیں ۵۱؎۔ اُن کو صرف اللہ تھامے ہوئے ہے۔ یقینا اِس میں اُن لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو ایمان لانا چاہیں ۵۲؎۔(فضا میں اڑتے ہوئے اِن پرندوں کی طرح)تمھارے لیے تمھارے گھروں کا سکون بھی اللہ ہی نے پیدا کیا ہے۔ اُسی نے تمھارے لیے چوپایوں کی کھال کے گھر بنائے ہیں ۵۳؎ جنھیں تم اپنے کوچ اور قیام کے دن نہایت ہلکا پاتے ہو۵۴؎۔ اور اُن کی اون اور اُن کے روؤں اور اُن کے بالوں سے (تمھارے لیے) گھروں کا سامان اور برتنے کی بہت سی چیزیں بنائی ہیں (جن سے) ایک وقت تک فائدہ اٹھاتے ہو۔۷۹-۸۰
اور اللہ ہی نے تمھارے لیے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں کے سایے بنائے ہیں اور پہاڑوں میں تمھارے لیے پناہ گاہیں بنائی ہیں ۵۵؎ اور تمھارے لیے ایسے لباس بنائے ہیں جو تم کو (تمھارے ملک کی)گرمی سے بچاتے ہیں اور ایسے لباس بنائے ہیں جو آپس کی لڑائی میں تمھاری حفاظت کرتے ہیں۔ اِسی طرح اللہ تم پر اپنی نعمتیں پوری کرتا ہے تاکہ اُس کے فرماں بردار بنو۵۶؎۔ ۸۱
اِس کے باوجود یہ لوگ اگر منہ موڑتے ہیں تو، (اے پیغمبر)، تم پر صاف صاف پہنچا دینے ہی کی ذمہ داری ہے۔(اِس کا نتیجہ یہ خود بھگتیں گے، اِس لیے کہ) یہ (وہ لوگ ہیں جو) اللہ کی نعمتوں کو پہچانتے ہیں، پھر اُن سے انجان بن جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اِن میں اکثر ناشکرے ہیں۔ ۸۲-۸۳

۳۸؎ اصل میں لفظ ’عِبْرَۃ‘ آیا ہے۔ اِس کے معنی ہیں: ایک حقیقت سے دوسری حقیقت تک پہنچ جانا۔ انسان اگر غور کرے تو یہی عبرت اُس کے تمام علم کی کلید ہے۔

۳۹؎ یعنی ایک طرف خون بنتا ہے، دوسری طرف گوبر، مگر اِنھی جانوروں کی مادینوں کے پیٹ سے ایک تیسری چیز بھی پیدا ہو جاتی ہے جس میں گوبر یا خون کا کوئی شائبہ نہیں ہوتا۔ وہ ہر آلودگی سے بالکل پاک اور پینے والوں کے لیے نہایت لذیذ اور خوش گوار ہوتی ہے۔

۴۰؎ اِس سے ضمناً یہ حقیقت بھی واضح ہو گئی کہ نشے کی چیزیں اچھی نہیں ہیں۔ یہ کھجور اور انگور اور اِس طرح کی دوسری چیزوں کا سوء استعمال ہے کہ انسان اُن سے عقل و دل کو ماؤف کر دینے والی چیزیں تیار کرے۔

۴۱؎ یعنی توحید اور قیامت کی بڑی نشانی ہے۔ اِس لیے کہ اِن میں سے ایک ایک چیز زبان حال سے بتا رہی ہے کہ زمین و آسمان، دونوں میں ایک ہی حکیم و قدیر کا ارادہ کارفرما ہے۔ وہ جس طرح مردہ زمینوں کو پانی کے ایک چھینٹے سے حیات تازہ بخش دیتا ہے، اُسی طرح تمھارے مردوں کو بھی اٹھا کھڑا کرے گا۔ یہ اُس کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”...اللہ نے اپنی نعمتوں میں یہ گوناگونی و بوقلمونی اِس لیے رکھی ہے کہ سوچنے والے سوچیں اور سمجھنے والے سمجھیں۔ ظاہر ہے کہ یہ دنیا اپنی بقا کے لیے اِن تنوعات کی محتاج نہیں تھی، یہ بالکل سادہ اور یک رنگ، بلکہ بالکل بے رنگ بھی ہو سکتی تھی۔ لیکن اِس کے خالق نے یہ چاہا کہ یہ اُس کی صفات کا ایک پرتو اور مظہر ہو تاکہ غور کرنے والے غور کریں اور اِس کی ایک ایک چیز سے اِس کے خالق کی اعلیٰ صفات، اُس کی بے نہایت قدرت و حکمت، اُس کی غیرمحدود رافت و رحمت، اُس کی بے مثال ربوبیت و پروردگاری اور اُس کی کامل وحدت و یکتائی کا کچھ تصور اور اُس کی روشنی میں اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کا احساس کریں۔“(تدبرقرآن۴/ ۴۲۸)

۴۲؎ یہ لفظ یہاں اُس الہام فطرت کے لیے استعمال ہوا ہے جو ہر مخلوق کی پیدایش کے ساتھ ہی اُس میں کر دیا جاتا ہے۔ اِس سے وہ وحی مراد نہیں ہے جو انبیا علیہم السلام پر کی جاتی ہے۔

۴۳؎ یہ اُس پورے نظام اور طریق کار کی طرف اشارہ ہے جس کے مطابق شہد کی مکھیاں لاکھوں برس سے کام کر رہی ہیں۔ یہ ایک حیرت انگیز نظام ہے۔ شہد کی مکھیاں ریاضیاتی قوانین کی پابندی کرتے ہوئے انتہائی اعلیٰ معیار کا چھتا بناتی ہیں۔ پھر ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت پھولوں سے رس چوس کر لاتی ہیں، اُس کو چھتوں میں ذخیرہ کرتی ہیں، پھر شہد جیسی مفید اور نفیس اور لذیذ چیز پیدا کر دیتی ہیں۔ قرآن نے اِسی کو یہاں اپنے پروردگار کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتے رہنے سے تعبیر کیا ہے۔

۴۴؎ اصل میں ’یَتَفَکَّرُوْنَ‘کا لفظ آیا ہے۔ اِس سے پہلے اِسی مقصد سے ’یَسْمَعُوْنَ‘ اور ’یَعْقِلُوْنَ‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ یعنی سنتے ہیں، عقل سے کام لیتے ہیں اور تدبر و تفکر کرتے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”یہی صفتیں انسانیت کا اصلی جوہر ہیں اور اِن میں ایک حکیمانہ تدریج و ترتیب ہے۔
 اِس کائنات کے حقائق میں سے بے شمار حقائق ایسے ہیں جو بدیہیات فطرت کے حکم میں داخل ہیں۔ اُن کو سمجھنے کے لیے کسی بڑی کاوش کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک معقول انسان اول تو اُن کو خود سمجھتا ہے اور اگر خود نہیں سمجھتا ہے تو چونکہ معقول باتوں کے لیے اُس کے کان کھلے ہوئے ہوتے ہیں، اِس وجہ سے دوسرے کسی معقول آدمی کی زبان سے اُن کو سنتے ہی ’ازدل خیزد بردل ریزد‘ کی کیفیت محسوس کرتا ہے۔
دوسرا مرحلہ ’یَعْقِلُوْنَ‘ کا ہے جہاں سوچنے سمجھنے اور عقل سے کام لینے کی ضرورت پڑتی ہے، جہاں مقدمات کی ایک ترتیب ہوتی ہے اور پھر اُن سے نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ یہ مرحلہ پہلے مرحلہ سے اونچا ہے اور علم کی راہ میں اِس کے ثمرات بھی زیادہ وقیع ہیں، لیکن ہے یہ عام عقل کی دسترس کی چیز۔ جو لوگ اپنی عقل کی قدر کرتے اور اِس نعمت سے فائدہ اٹھاتے ہیں،وہ اِس کی برکات سے محروم نہیں رہتے۔
تیسرا مرحلہ ’یَتَفَکَّرُوْنَ‘ کا ہے۔یہ سب سے اونچا مرحلہ ہے۔ یہ اُن لوگوں کا مقام ہے جو اسرار کائنات میں برابر غور کرتے اور علم کے مدارج برابر طے کرتے رہتے ہیں۔ یہ حکما کا درجہ ہے۔ جس طرح شہد کی مکھی اپنی بے مثال کاوش سے طرح طرح کے پھولوں سے رس چوس کر شہد بناتی ہے جس میں لوگوں کے لیے غذا اور شفا ہے، اُسی طرح یہ لوگ اپنے تدبر و تفکر کی کاوشوں سے حکمت کا شہد جمع کرتے ہیں جس میں عقل و دل کے امراض کا مداوا ہوتا ہے۔ وہ خود بھی اُس سے آسودہ رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی اُس سے فیض پہنچتا ہے۔“(تدبرقرآن۴/ ۴۲۹)

۴۵؎ مطلب یہ ہے کہ مرتے تو سب ہیں، مگر سب کا وقت ایک نہیں ہے۔ کچھ بچپن میں مر جاتے ہیں، کچھ جوانی میں اور کچھ ایسے بھی ہیں جنھیں قدرت ارذل عمر کو پہنچاکر یہ حقیقت ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ یہاں سارا علم اور ساری قدرت صرف خدا کے لیے ہے۔ انسان کو جو کچھ ملتا ہے، وہ اُسی کا عطیہ ہے۔ چنانچہ دیکھتے ہو کہ جو اپنے آپ کو علم و عقل کا دیوتا سمجھتے ہیں، وہ بھی بالآخر علم، عقل اور طاقت ہر چیز سے عاری اور دوسروں کے محتاج ہو کر رہ جاتے ہیں اور اُن کے تمام کمالات اُسی پروردگار کی طرف لوٹ جاتے ہیں جو اُن کا دینے والا ہے۔ چنانچہ حق یہ ہے کہ وہی علیم و قدیر ہے۔

۴۶؎ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ خدا کی بخشی ہوئی نعمتوں کو دوسروں کی طرف منسوب کیا جائے اور اُن کا شکریہ اُن کو ادا کیا جائے تو یہ اُن نعمتوں کا صریح انکار ہے۔ قرآن میں یہ مضمون کئی مقامات پر آیا ہے۔

۴۷؎ پیچھے فرمایا تھا کہ باطل کو مانتے ہیں۔ یہ اُسی کی تفصیل ہے۔

۴۸؎ یعنی اللہ کو دنیا کے بادشاہوں اور راجوں اور مہاراجوں پر قیاس کرکے اُس کی اولاد اور مصاحبین اور مقربین نہ بناؤ کہ جن کی وساطت کے بغیر اُس کی بارگاہ میں کوئی شخص نہ رسائی حاصل کر سکتا ہے اور نہ اپنی عرض معروض کر سکتا ہے۔

۴۹؎ یعنی ایک طرف خدا ہے، حکیم ناطق۔دنیا کی ہدایت کے لیے اپنی کتابیں نازل کرتا ہے اور لوگوں کو عدل و انصاف کی تعلیم دیتا ہے۔ پھر یہی نہیں، خود بھی قائم بالقسط ہے اور جو کچھ کرتا ہے، کمال راستی اور صحت کے ساتھ کرتا ہے۔ دوسری طرف یہ تمھارے ٹھیرائے ہوئے معبود ہیں، گونگے بہرے۔ نہ تمھاری پکار سن سکتے ہیں، نہ اُس کا جواب دے سکتے ہیں اور نہ تمھارا کوئی کام بنا سکتے ہیں۔ بتاؤ، یہ کہاں کی عقل مندی ہے کہ دونوں کو یکساں سمجھ رہے ہو؟

۵۰؎ یعنی پیدا ہوئے تو صرف ایک مضغۂ گوشت تھے، ایسے بے خبر کہ کسی جانور کا بچہ بھی اتنا بے خبر نہیں ہوتا۔ مگر اللہ نے اِس کے بعد تم کو وہ تمام صلاحیتیں عطا کر دیں جن پر ناز کرتے ہو۔ یہ بے بہا نعمتیں اِس لیے دی گئی تھیں کہ خدا کے شکر گزار بندے بنو، لیکن تعجب ہے کہ تمھارے یہ کان، یہ آنکھیں اور یہ دل ہر چیز کے لیے کھلے ہیں، صرف خدا کی بات سننے اور اُس کی آیات کو دیکھنے اور صرف اُسی کے بیان کردہ حقائق پر غور کرنے کے لیے بند ہو گئے ہیں۔

۵۱؎ یہ پرواز کے لیے پرندوں کی نہایت موزوں ساخت اور زمین کے اوپر ہوا کے اُس نظام کی طرف اشارہ ہے جس کے بغیر پرندوں کا اڑنا ممکن نہیں تھا۔

۵۲؎ یعنی خدا کے علم و حکمت اور رحمت و ربوبیت کی نشانیاں ہیں۔ اصل میں ’لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں فعل ارادۂ فعل کے معنی میں ہے۔ ہم نے ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا ہے۔

۵۳؎ یہ چمڑے کے اُن خیموں کا ذکر ہے جن کا رواج عرب میں بہت رہا ہے۔

۵۴؎ یعنی کوچ کرنا ہو تو نہایت آسانی کے ساتھ تہ کرکے اٹھا لے جاتے ہو اور قیام پیش نظر ہو تو اِسی طرح آسانی کے ساتھ، جہاں چاہتے ہو، ڈیرا ڈال دیتے ہو۔

۵۵؎ یعنی غار جو زمین پر انسان کی اولین پناہ گاہ بنے ہیں۔

۵۶؎ مطلب یہ ہے کہ ہر ہر پہلو سے تمھاری ضرورتوں کو پورا کرنے کا اہتمام کرتا ہے۔ اِس پورے سلسلۂ بیان میں جو چیزیں بھی مذکور ہوئی ہیں، اُن میں اہل عرب اور اُن کی بدویانہ زندگی کی رعایت ملحوظ ہے۔ اِس کلام کے اولین مخاطب وہی تھے۔ قرآن میں یہ چیز ایسے تمام مقامات پر پیش نظر رہنی چاہیے، اِس لیے کہ کلام کے حسن اور اُس کے اثر کا صحیح اندازہ اِسی سے ہوتا ہے۔

[باقی]

________________

B