HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : معز امجد

رمضان میں نبی ﷺ کی نماز تہجد

ترجمہ و تدوین: شاہد رضا

رُوِیَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَرَجَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ مِنْ جَوْفِ اللَّیْلِ، فَصَلّٰی فِی الْمَسْجِدِ فَصَلّٰی رِجَالٌ بِصَلٰوتِہِ، فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوْا فَاجْتَمَعَ أَکْثَرُ مِنْہُمْ فَصَلَّوْا مَعَہُ، فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوْا، فَکَثُرَ أَہْلُ الْمَسْجِدِ مِنَ اللَّیْلَۃِ الثَّالِثَۃِ، فَخَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصَلَّوْا بِصَلٰوتِہِ، فَلَمَّا کَانَتِ اللَّیْلَۃُ الرَّابِعَۃُ عَجَزَ الْمَسْجِدُ عَنْ أَہْلِہِ [فَلَمْ یَخْرُجْ إِلَیْہِمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ]،۱ حَتّٰی خَرَجَ لِصَلٰوۃِ الصُّبْحِ، فَلَمَّا قَضَی الْفَجْرَ أَقْبَلَ عَلَی النَّاسِ فَتَشَہَّدَ، ثُمَّ قَالَ: ’أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّہُ لَمْ یَخْفَ عَلَیَّ مَکَانُکُمْ لٰکِنِّیْ خَشِیْتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَیْکُمْ فَتَعْجِزُوْا‘.(بخاری، رقم ۸۸۲)
وَرُوِیَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ’فَصَلُّوْا، أَیُّہَا النَّاسُ، فِیْ بُیُوْتِکُمْ فَإِنَّ أَفْضَلَ الصَّلٰوۃِ صَلٰوۃُ الْمَرْءِِ فِیْ بَیْتِہِ إِلاَّ الْمَکْتُوْبَۃَ‘.(بخاری، رقم ۶۹۸)
روایت کیا گیا ہے کہ ایک رات نصف شب کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (گھر سے مسجد کے لیے) نکلے اور مسجد میں نماز پڑھی اور چند صحابہ (رضی اللہ عنہم) بھی آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اقتدا میں نماز پڑھنے کھڑے ہو گئے۔ صبح کے وقت ان صحابۂ کرام نے دوسرے لوگوں سے اس کا تذکرہ کیا۔ چنانچہ (دوسرے دن) اس سے بھی زیادہ لوگ جمع ہو گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پیچھے نماز پڑھی۔ صبح کے وقت ان صحابۂ کرام نے دوسرے لوگوں سے اس کا تذکرہ کیا (تو اس کا مزید چرچا ہوا)۔ پھر تیسری رات بڑی تعداد میں لوگ جمع ہو گئے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو صحابہ (رضی اللہ عنہم) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز شروع کر دی۔ جب چوتھی رات آئی تو مسجد نمازیوں (کی کثرت کی وجہ) سے کم پڑ گئی، [مگر ( اس رات) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں نماز پڑھانے کے لیے تشریف نہیں لائے]، یہاں تک کہ صبح کی نماز کے لیے تشریف لائے، جب آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فجر کی نماز ادا فرما لی، تو لوگوں کی جانب متوجہ ہوئے اور تشہد پڑھا، پھر فرمایا: امابعد، میں تمھاری اس حاضری سے بے خبر نہیں ہوں، مگر (میں اس نماز کے لیے تمھاری طرف اس لیے نہیں آیا کہ) مجھے اس بات کا خوف ہوا کہ تم پر یہ نماز فرض کر دی جائے۱، پھر تم اسے ادا نہ کر سکو۔
اور روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے لوگو، اپنے گھروں میں نماز پڑھتے رہو، اس لیے کہ فرض نماز کے سوا آدمی کی سب سے افضل نماز وہی ہے جو اس کے گھر میں ہو۲(کیونکہ وہ مسجد میں پڑھنی ضروری ہے)۔

متن کے حواشی

۱۔ قوسین میں دیے گئے الفاظ بخاری، رقم ۱۰۷۷ سے لیے گئے ہیں۔

ترجمے کے حواشی

۱۔ یہ لوگوں کے ایک خاص تصور عبادت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر اس عبادت کو مسلسل ادا کرتے تو اس بات کا امکان تھا کہ لوگ بہ آسانی اس عبادت کو اپنے اوپر تاکیدی طور پر فرض سمجھ لیتے۔

۲۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے اس بات کی تحریض ہے کہ لوگ اپنی نفل نمازیں اپنے گھروں میں بھی ادا کرتے رہیں۔

متون

پہلی روایت

اپنی اصل کے اعتبار سے یہ روایت بخاری، رقم۸۸۲ میں روایت کی گئی ہے۔

یہ روایت بعض اختلافات کے ساتھ بخاری، رقم۶۹۸، ۱۰۷۷، ۱۹۰۸؛ موطا امام مالک، رقم۲۴۸؛ مسلم، رقم ۷۶۱ا، ۷۶۱ب؛ ابوداؤد، رقم۱۳۷۳۔۱۳۷۴؛ نسائی، رقم۱۶۰۴؛ احمد، رقم۲۵۴۰۱، ۲۵۴۸۵، ۲۵۵۳۵، ۲۵۹۹۶۔۲۵۹۹۷، ۲۶۳۵۰؛ ابن حبان، رقم ۱۴۱، ۲۵۴۲۔۲۵۴۵؛ ابویعلیٰ، رقم۴۷۸۸ اور عبدالرزاق، رقم۷۷۴۶۔۷۷۴۷ میں بھی روایت کی گئی ہے۔

بعض روایات، مثلاً موطا امام مالک، رقم ۲۴۸ میں ’لم یخف علی مکانکم‘(میں تمھاری اس حاضری سے بے خبر نہیں ہوں) کے الفاظ کے بجاے ’قد رأیت الذی صنعتم‘(تم نے جو کیا، وہ میں نے دیکھ لیا ہے)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ مسلم، رقم۷۶۱ب میں یہ الفاظ ’لم یخف علی شأنکم اللیلۃ‘(میں تمھارے رات کے معاملے سے بے خبر نہیں ہوں) روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً ابوداؤد، رقم۱۳۷۴ میں ان الفاظ کے بجاے ’أما واللّٰہ ما بت لیلتی ہذہ بحمد اللّٰہ غافلاً ولا خفی علی مکانکم‘(سنو، خدا کی قسم، خدا کے فضل سے میں نے یہ رات سوتے ہوئے نہیں گزاری اور نہ ہی میں تمھاری اس حاضری سے بے خبر تھا) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً موطا امام مالک، رقم ۲۴۸ میں ’لکنی خشیت أن تفرض علیکم‘(مگر مجھے اس بات کا خوف ہوا کہ تم پر یہ نماز فرض کر دی جائے) کے الفاظ کے بجاے ’ولم یمنعنی من الخروج إلیکم إلا أنی خشیت أن تفرض علیکم‘(اور مجھے تمھارے پاس آنے سے کسی شے نے نہیں روکا، مگر مجھے اس بات کا خوف ہوا کہ تم پر یہ نماز فرض کر دی جائے)کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ جبکہ ابوداؤد، رقم۱۳۷۳ میں ’ولم یمنعنی‘(اور مجھے کسی شے نے نہیں روکا) کے الفاظ کے بجاے ’فلم یمنعنی‘(مگر مجھے کسی شے نے نہیں روکا) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۲۵۹۹۶ میں ان الفاظ کے بجاے ان کے مترادف الفاظ ’ولکنی خشیت أن تکتب علیہم‘ (مگر مجھے اس بات کا خوف ہوا کہ ان پر یہ نماز لکھ دی جائے) روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم۷۶۱ب میں یہ الفاظ ’ولکنی خشیت أن تفرض علیکم صلٰوۃ اللیل‘(مگر مجھے اس بات کا خوف ہوا کہ تم پر رات کی نماز فرض کر دی جائے) روایت کیے گئے ہیں؛ جبکہ نسائی، رقم۱۶۰۴ میں ’تفرض‘(فرض کر دی جائے) کے لفظ کے بجاے ’یفرض‘(اللہ تعالیٰ یہ نماز فرض کر دے) کا لفظ روایت کیا گیا ہے؛ احمد، رقم ۲۵۵۳۵ میں یہ الفاظ ’لم یمنعنی أن أنزل إلیکم إلا مخافۃ أن یفترض علیکم قیام ہذا الشہر‘( مجھے تمھارے پاس آنے سے کسی شے نے نہیں روکا، مگر مجھے اس بات کا خوف ہوا کہ تم پر اس ماہ کا قیام فرض کر دیا جائے) روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً ابن حبان، رقم۱۴۱ میں ’فتعجزوا عنہا‘(پھر تم اسے ادا نہ کر سکو) کے الفاظ کے بجاے ’فتقعدوا عنہا‘(پھر تم اسے نظرانداز کر سکتے ہو) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم۷۶۱ا میں بیان کیا گیا ہے کہ چوتھی رات جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرہ سے باہر تشریف نہ لائے تو بعض صحابہ (رضی اللہ عنہم) نے ندا دی: ’الصلٰوۃ‘ (نماز کا وقت ہو گیا)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر بھی اپنے حجرہ سے باہر تشریف نہ لائے۔ احمد، رقم ۲۵۵۳۵ میں بیان کیا گیا ہے کہ لوگوں نے آپس میں باتیں کرنا شروع کر دیں اور کہنا شروع کر دیا: ’ما شأن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم ینزل‘(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا معاملہ درپیش ہے کہ آپ تشریف نہیں لارہے ہیں)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی یہ باتیں سن لیں۔ اس کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو ارشاد فرمایا: ’یا أیہا الناس، إنی قد سمعت مقالتکم، وإنہ لم یمنعنی أن أنزل إلیکم إلا مخافۃ أن یفترض علیکم قیام ہذا الشہر‘ (اے لوگو، میں نے تمھاری باتیں سن لی ہیں، مجھے تمھارے پاس آنے سے کسی شے نے نہیں روکا، مگر مجھے اس بات کا خوف ہوا کہ تم پر اس ماہ کا قیام فرض کر دیا جائے)؛ جبکہ بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۲۵۹۹۶ کے مطابق، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت باہر تشریف لائے تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ’ما زال الناس ینتظرونک البارحۃ، یا رسول اللّٰہ‘(یارسول اللہ، گذشتہ رات لوگ آپ کا انتظار کرتے رہے)، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر کو جواب میں فرمایا: ’لم یخف علی أمرہم، ولکنی خشیت أن تکتب علیہم‘(مجھ پر ان کا معاملہ مخفی نہیں ہے، مگر مجھے اس بات کا خوف ہوا کہ ان پر یہ نماز لکھ دی جائے)۔

احمد، رقم۲۶۳۵۰ میں بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

أکلفوا من الأعمال ما تطیقون فإن اللّٰہ لا یمل حتی تملوا وکانت عائشۃ تقول: إن أحب الأعمال إلی اللّٰہ أدومہا وإن قل.
’’اپنے اوپر ان اعمال کی ذمہ داری ڈالو جنھیں تم ادا کرنے کی طاقت رکھتے ہو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ (تمھارے اعمال سے) نہیں اکتاتا، یہاں تک کہ تم اکتا جاتے ہو۔ حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں: بے شک، اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ اعمال وہ ہیں جو دائمی ہوں، اگرچہ وہ(مقدار میں) تھوڑے ہوں۔‘‘

یہ روایت نفلی عبادت کے حوالے سے عام تعلیمات پر مشتمل ہے۔ تاہم بعض روایات، مثلاً درج بالا بنیادی روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نماز تہجد کے واقعے کے تناظر میں روایت کیا گیا ہے۔ ہماری فہم کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد عام تعلیمات پر مبنی ہے۔ اس روایت کی تفاصیل ہم ایک دوسرے مقام میں الگ سے بیان کریں گے۔

دوسری روایت

اپنی اصل کے اعتبار سے یہ روایت بخاری، رقم ۶۹۸ میں روایت کی گئی ہے۔

یہ روایت بعض اختلافات کے ساتھ بخاری، رقم۶۸۶۰؛ مسلم، رقم ۷۶۱ا، ۷۶۱ب؛ ابوداؤد، رقم۱۰۴۴۔۱۰۴۷؛ نسائی، رقم۱۵۹۹؛ احمد، رقم۲۱۶۴۲۔۲۱۶۴۳، ۲۱۶۷۵ اور ابن حبان، رقم ۲۴۹۱ میں بھی روایت کی گئی ہے۔

بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم۷۸۱ا میں ’صلوا، أیہا الناس، فی بیوتکم‘(اے لوگو، اپنے گھروں میں نماز پڑھتے رہو) کے الفاظ کے بجاے ’فعلیکم بالصلٰوۃ فی بیوتکم‘ (اپنے گھروں میں بھی نماز کا التزام کرو) روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً بخاری، رقم۶۸۶۰ میں ’فإن أفضل الصلٰوۃ، صلٰوۃ المرء فی بیتہ‘( اس لیے کہ آدمی کی سب سے افضل نماز وہی ہے جو اس کے گھر میں ہو) کے الفاظ کے بجاے ’فإن أفضل صلٰوۃ المرء فی بیتہ‘ (اس لیے کہ آدمی کی سب سے افضل نماز وہی ہے جو اس کے گھر میں ہو) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم ۷۸۱ ا میں ان الفاظ کے بجاے ان کے ہم معنی الفاظ ’فإن خیر صلٰوۃ المرء فی بیتہ‘ (اس لیے کہ آدمی کی سب سے افضل نماز وہی ہے جو اس کے گھر میں ہو) روایت کیے گئے ہیں؛ جبکہ ابوداؤد، رقم۱۰۴۴ میں یہ الفاظ ’صلٰوۃ المرء فی بیتہ أفضل من صلٰوتہ فی مسجدی ہذا‘ (آدمی کی اپنے گھر میں نماز میری اس مسجد کی نماز سے زیادہ افضل ہے) روایت کیے گئے ہیں۔

دوسری روایت بھی اسی پس منظر میں بیان کی گئی ہے، جس پس منظر میں پہلی روایت بیان کی گئی ہے۔ بخاری کی ایک روایت کے مطابق یہ واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے:

عن زید بن ثابت أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم إتخذ حجرۃ فی المسجد من حصیر فصلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فیہا لیالی حتی اجتمع إلیہ ناس. ثم فقدوا صوتہ لیلۃ فظنوا أنہ قد نام فجعل بعضہم یتنحنح لیخرج إلیہم. فقال: ما زال بکم الذی رأیت من صنیعکم حتی خشیت أن یکتب علیکم، ولو کتب علیکم ما قمتم بہ. فصلوا، أیہا الناس، فی بیوتکم، فإن أفضل صلٰوۃ المرء فی بیتہ إلا صلٰوۃ المکتوبۃ.(رقم ۶۸۶۰)
’’حضرت زید بن ثابت (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں چٹائی سے گھیر کر ایک حجرہ بنا لیا اور (رمضان کی) راتوں میں اس کے اندر نماز پڑھنے لگے، یہاں تک کہ دوسرے لوگ بھی آپ کے ساتھ جمع ہو گئے ۔ پھر ایک رات انھیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی آواز نہیں آئی، انھوں نے سمجھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے ہیں، اس لیے ان میں سے بعض کھنکھارنے لگے تاکہ آپ ان کے پاس باہر تشریف لائیں، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم لوگوں کے کام سے واقف ہوں، یہاں تک کہ مجھے اس بات کا خوف ہوا کہ کہیں تم پر یہ نماز فرض کر دی جائے اور اگر فرض کر دی جائے تو تم اسے قائم نہیں رکھ سکو گے۔ اس لیے، اے لوگو، اپنے گھروں میں یہ نماز پڑھتے رہو، کیونکہ فرض نماز کے سوا آدمی کی سب سے افضل نماز اس کے گھر میں ہے۔‘‘

بخاری، رقم۶۹۶ میں بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نمازیں پڑھنے کے لیے باہر تشریف نہیں لائے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نمازیں اپنی حجرے میں ہی پڑھیں۔ چونکہ حجرے کی دیواریں چھوٹی تھیں، اس لیے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیام کرتے ہوئے دیکھ سکتے اور آپ کی نمازوں میں آپ کے ساتھ شامل ہو سکتے تھے۔ روایت کا حسب حال جز درج ذیل الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:

روی أنہ کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلی من اللیل فی حجرتہ وجدار الحجرۃ قصیر. فرأی الناس شخص النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقام أناس یصلون بصلاتہ....
’’روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز اپنے حجرے ہی میں پڑھتے، جبکہ حجرے کی دیواریں چھوٹی تھیں۔ لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو (نماز پڑھتے ہوئے) دیکھا تو وہ بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھنے لگے...۔‘‘

جبکہ بعض روایات، مثلاً ابوداؤد، رقم ۱۳۷۴ میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے الگ نماز صرف اس وقت پڑھنی شروع کی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مسجد میں الگ الگ نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ وہ روایت درج ذیل ہے:

روی أنہ قالت عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا: کان الناس یصلون فی المسجد فی رمضان أوزاعًا. فأمرنی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فضربت لہ حصیرًا فصلی علیہ....
’’روایت کیا گیا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ماہ رمضان میں لوگ مسجد میں الگ الگ نماز پڑھتے تھے، تو (یہ دیکھ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (ایک چٹائی بچھانے کا) حکم فرمایا، میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے ایک چٹائی بچھا دی تو آپ نے اس پر نماز ادا فرمائی...۔‘‘

____________

B