بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
اَوَلَمْ یَرَوْا اِلٰی مَا خَلَقَ اللّٰہُ مِنْ شَیْءٍ یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُہٗ عَنِ الْیَمِیْنِ وَالشَّمَآءِلِ سُجَّدًا لِّلّٰہِ وَھُمْ دٰخِرُوْنَ(۴۸) وَلِلّٰہِ یَسْجُدُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ مِنْ دَآبَّۃٍ وَّ الْمَلٰٓءِکَۃُ وَھُمْ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ(۴۹) یَخَافُوْنَ رَبَّھُمْ مِّنْ فَوْقِھِمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(۵۰)
وَقَالَ اللّٰہُ لَا تَتَّخِذُوْٓا اِلٰھَیْنِ اثْنَیْنِ اِنَّمَا ھُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَاِیَّایَ فَارْھَبُوْنِ(۵۱) وَلَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَہُ الدِّیْنُ وَاصِبًا اَفَغَیْرَ اللّٰہِ تَتَّقُوْنَ(۵۲)
وَمَا بِکُمْ مِّنْ نِّعْمَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ ثُمَّ اِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُّ فَاِلَیْہِ تَجْءَرُوْنَ(۵۳) ثُمَّ اِذَا کَشَفَ الضُّرَّ عَنْکُمْ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْکُمْ بِرَبِّھِمْ یُشْرِکُوْنَ(۵۴) لِیَکْفُرُوْا بِمَآ اٰتَیْنٰھُمْ فَتَمَتَّعُوْا فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ(۵۵) وَیَجْعَلُوْنَ لِمَا لَا یَعْلَمُوْنَ نَصِیْبًا مِّمَّا رَزَقْنٰہُمْ تَاللّٰہِ لَتُسْءَلُنَّ عَمَّا کُنْتُمْ تَفْتَرُوْنَ(۵۶)
وَیَجْعَلُوْنَ لِلّٰہِ الْبَنٰتِ سُبْحٰنَہٗ وَلَھُمْ مَّا یَشْتَھُوْنَ(۵۷) وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُھُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْھُہٗ مُسْوَدًّا وَّھُوَ کَظِیْمٌ(۵۸) یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓءِ مَا بُشِّرَ بِہٖ اَیُمْسِکُہٗ عَلٰی ھُوْنٍ اَمْ ےَدُسُّہٗ فِی التُّرَابِ اَلَاسَآءَ مَا یَحْکُمُوْنَ(۵۹) لِلَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ مَثَلُ السَّوْءِ وَلِلّٰہِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰی وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ(۶۰)
وَلَوْیُؤَاخِذُ اللّٰہُ النَّاسَ بِظُلْمِھِمْ مَّا تَرَکَ عَلَیْھَا مِنْ دَآبَّۃٍ وَّلٰکِنْ یُّؤَخِّرُھُمْ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاِذَا جَآءَ اَجَلُہُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ(۶۱)
وَیَجْعَلُوْنَ لِلّٰہِ مَا یَکْرَھُوْنَ وَتَصِفُ اَلْسِنَتُھُمُ الْکَذِبَ اَنَّ لَھُمُ الْحُسْنٰی لَاجَرَمَ اَنَّ لَہُمُ النَّارَ وَاَنَّھُمْ مُّفْرَطُوْنَ(۶۲)
تَاللّٰہِ لَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَزَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَھُمْ فَھُوَ وَلِیُّھُمُ الْیَوْمَ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۶۳)
ومَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ اِلَّا لِتُبَیِّنَ لَہُمُ الَّذِی اخْتَلَفُوْا فِیْہِ وَھُدًی وَّرَحْمَۃً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(۶۴)
اللہ نے جو چیز بھی پیدا کی ہے، کیا یہ اُس کو نہیں دیکھتے کہ اُس کے سایے اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے۷۲؎ دائیں اور بائیں سے پلٹتے ہیں اور (جن کے یہ سایے ہیں)، اُن پر بھی فروتنی طاری ہوتی ہے۲۸؎۔ (حقیقت یہ ہے کہ) زمین اور آسمانوں میں جتنے جان دار ہیں، وہ سب خدا ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور (خدا کے) فرشتے بھی، وہ کبھی سرتابی نہیں کرتے۔ وہ اپنے اوپر اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جس کا اُنھیں حکم دیا جاتا ہے۔ ۴۸-۵۰
اللہ نے فرمایا ہے کہ دو معبود نہ ٹھیراؤ، وہ ایک ہی معبود ہے، اِس لیے مجھی سے ڈرو۔ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اُسی کا ہے اور اُسی کی اطاعت ہمیشہ لازم ہے۔ پھر کیا اللہ کے سوا اوروں سے ڈرتے ہو۲۹؎؟ ۵۱-۵۲
تمھیں جو نعمت بھی ملی ہوئی ہے، اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ پھر جب کوئی تکلیف تم کو پہنچتی ہے تو فریاد بھی اُسی سے کرتے ہو۳۰؎۔ پھر جب اللہ وہ تکلیف تم سے دور کر دیتا ہے تو اُسی وقت تم میں سے کچھ لوگ اپنے پروردگار کے شریک ٹھیرانے لگتے ہیں تاکہ جو نعمتیں ہم نے اُن کو دی ہیں، اُن کی ناشکری کریں۔ سو چند دن عیش کر لو، پھر عنقریب تم جان لو گے۔ اور جن کے بارے میں اِنھیں کچھ علم نہیں ہے۳۱؎، یہ اُن کا حصہ بھی اُن چیزوں میں لگاتے ہیں جو ہم نے اِنھیں عطا کی ہیں ۳۲؎۔ خدا کی قسم، جو افترا تم کر رہے ہو، اُس کی تم سے ضرور بازپرس ہونی ہے۔ ۵۳-۵۶
یہ اللہ کے لیے بیٹیاں ٹھیراتے ہیں۔ سبحان اللہ، (خدا کے لیے بیٹیاں) اور اِن کے لیے جو یہ چاہیں۔ جب اِن میں سے کسی کو بیٹی کی خوش خبری دی جائے تو اُس کا چہرہ سیاہ پڑ جائے، وہ جی میں گھٹتا رہے، اُس کی عار کے مارے جس کی خوش خبری دی گئی، لوگوں سے چھپتا پھرے، سوچے کہ اُس کو ذلت کے ساتھ رکھ چھوڑے یا اُس کو مٹی میں دبا دے افسوس، کیا ہی بُرا فیصلہ ہے جو یہ کرتے ہیں ۳۳؎۔ (حقیقت یہ ہے کہ)بری تمثیل کے لائق تو وہ لوگ ہیں جو آخرت کو نہیں مانتے۔ اللہ کے لیے تو سب سے برتر تمثیلیں ہیں ۳۴؎۔ وہ زبردست ہے، بڑی حکمت والا ہے۔ ۵۷-۶۰
اگر اللہ لوگوں کے ظلم۳۵؎ پر فوراً اُنھیں پکڑ لیتا تو زمین پر کسی جان دار کو نہ چھوڑتا، لیکن (اُس کا قاعدہ ہے کہ) وہ ایک مقرر وقت تک اُنھیں مہلت دیتا ہے۔ پھر جب اُن کا وہ مقرر وقت آجائے گا تو وہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آگے بڑھ سکیں گے۔۶۱
یہ اللہ کے لیے وہ چیزیں تجویز کررہے ہیں جو خود اپنے لیے پسند نہیں کرتے اور اِن کی زبانیں جھوٹ کہتی ہیں کہ اِن کے لیے (آگے بھی) بھلائی ہے۳۶؎۔ اِن کے لیے لازماً دوزخ ہے اور یہ اُسی میں پڑے چھوڑ دیے جائیں گے۔ ۶۲
خدا کی قسم، (اے پیغمبر)، ہم نے تم سے پہلے بھی بہت سی قوموں کی طرف رسول بھیجے تو شیطان نے اُن کے اعمال بھی (اِسی طرح) اُنھیں اچھے کرکے دکھا دیے۔ سو اب وہی اُن کا ساتھی ہے اور اُن کے لیے ایک دردناک عذاب ہے۔ ۶۳
(یہ نہیں مانتے تو اِس کی کوئی ذمہ داری تم پر نہیں ہے)۔ ہم نے یہ کتاب صرف اِس لیے تم پر اتاری ہے کہ (اِس کے ذریعے سے) تم وہ چیز اِن پر اچھی طرح واضح کر دو جس میں یہ اختلاف کررہے ہیں اور (اِس لیے کہ) یہ اُن لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہو۳۷؎ جو اِس کو مان لیں۔ ۶۴
۲۷؎ ہر چیز کا سایہ زمین پر بچھا رہتا ہے۔ اِسی کو یہاں سجدے سے تعبیر فرمایا ہے۔ یہ اِس بات کا علامتی اظہار ہے کہ ہر چیز طوعاً و کرہاً خدا ہی کے سامنے سجدہ ریز ہے۔ آگے اِسی کی وضاحت ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”...یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ سایے کا یہ سجدہ سورج کی بالکل مخالف سمت میں ہوتا ہے۔ سورج اگر پورب کی طرف ہے تو سایہ پچھم کی طرف پھیلے گا اور اگر سورج پچھم کی طرف ہے تو سایے کا پھیلاؤ پورب کی طرف ہو گا۔ یہ ایک لطیف اشارہ ہے اِس حقیقت کی طرف کہ سایے کی فطرت ابراہیمی ہے۔ آفتاب پرستی سے اُس کو عار ہے۔“(تدبر قرآن ۴/ ۴۱۶)
۲۸؎ یعنی عاجز و درماندہ، یہاں تک کہ اُن میں سے کوئی اگر خدا سے اکڑتا بھی ہے تو جس وقت اکڑتا ہے، حقیقت کی نگاہ سے دیکھیے تو عین اُسی وقت اپنے پورے وجود سے خدا کے سامنے جھکا ہوا ہوتا ہے۔ اِس لیے کہ جس دائرے میں اُسے اختیار نہیں دیا گیا، اُس میں وہ ادنیٰ درجے میں بھی خدا کے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا۔
۲۹؎ اوپر توحید کی تکوینی دلیل بیان ہوئی ہے۔ اُس کے بعد اب یہ اُسی کے حق میں خود خدا کی شہادت کا حوالہ دیا ہے جو اُس کے پیغمبروں اور اُس کی کتابوں کے ذریعے سے لوگوں کو پہنچی ہے۔
۳۰؎ یہ توحید کی انفسی دلیل ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”...یہ دلیل ہے اِس بات کی کہ اصل فطرت کے اندر صرف ایک ہی خدا کا شعور ہے۔ یہ دوسرے دیوی دیوتا جو تم نے بنا رکھے ہیں، اصل فطرت کے اندر اِن کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ چنانچہ جب کسی حقیقی پریشانی کا وقت آتا ہے تو یہ سارے بناوٹی دیوی دیوتا غائب ہو جاتے ہیں، صرف ایک ہی خدا باقی رہ جاتا ہے جس کا اعتقاد اصل فطرت کے اندر ودیعت ہے۔“ (تدبرقرآن ۴/ ۴۱۷)
۳۱؎ یعنی دیوی دیوتا جن کے بارے میں یہ جو کچھ کہتے ہیں، بغیر کسی علم کے کہتے ہیں۔
۳۲؎ یہ اُس مقرر حصے کا ذکر ہے جو یہ لوگ اپنے دیوی دیوتاؤں کی نذر، نیاز اور بھینٹ کے لیے الگ نکال رکھتے تھے۔
۳۳؎ مطلب یہ ہے کہ خدا کے لیے اولاد تجویز کرنا بجاے خود شدید جہالت ہے، مگر اِن کی بلادت کا یہ حال ہے کہ اُس چیز کو خدا کی طرف منسوب کرتے ہیں، جسے اپنے لیے اِس قدر ناپسندیدہ سمجھتے ہیں۔
۳۴؎ خدا کے صفات و افعال کو سمجھانے کے لیے کوئی تمثیل بیان کی جائے تو اُسے اعلیٰ سے اعلیٰ ہونا چاہیے، اِس لیے کہ یہی اُس کے شایان شان ہے۔ یہ علم و نظر کی موت ہے کہ خدا اور بندوں کے تعلق کو بیٹوں اور بیٹیوں کے ذریعے سے سمجھا اور سمجھایا جائے۔ قرآن نے یہ اِسی نوعیت کی حماقتوں پر تبصرہ کیا ہے۔
۳۵؎ اِس سے مراد وہی کفر و شرک ہے جس کا ذکر پیچھے سے چلا آرہا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”’ظُلْم‘ کے اصل معنی حق تلفی کے ہیں۔ چونکہ شرک و کفر سب سے بڑی حق تلفی ہے، جس کا ارتکاب کر کے بندہ اپنے رب کے سب سے بڑے حق کو بھی تلف کرتا ہے اور خود اپنی جان پر بھی سب سے بڑا ظلم ڈھاتا ہے، اِس وجہ سے قرآن نے جگہ جگہ کفر و شرک کو ظلم سے تعبیر کیا ہے۔“(تدبرقرآن۴/ ۴۲۰)
۳۶؎ یہ بات، ظاہر ہے کہ وہ اُنھی دیویوں کے اعتماد پر کہتے تھے جنھیں وہ خدا کی بیٹیاں قرار دے کر پوجتے تھے۔
۳۷؎ یعنی ہدایت آغاز کے لحاظ سے اور رحمت انجام کے لحاظ سے۔
[باقی]
________________________