HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اﷲ عنہ (۳)

ابن کثیر کہتے ہیں ،جنگ یرموک میں حضرت شرحبیل بن حسنہ اور ان کادستہ ایک بار پسپا ہوا، لیکن جب سالار جیش نے ’اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ‘، ’’بلاشبہ، اﷲ نے اہل ایمان سے ان کی جانیں اور مال اس قیمت پر خرید لیے ہیں کہ انھیں جنت ملے گی‘‘ (التوبہ ۹: ۱۱۱) والی آیت تلاوت کی تووہ اپنی پوزیشن پر واپس آگئے۔

سیدنا ابوبکر کے آخری ایام میں لڑی جانے والی جنگ یرموک میں فتح پانے کے بعد حضرت ابوعبیدہ بن جراح نے حضرت بشیر بن کعب کو والی مقرر کر کے صفر کی راہ لی۔انھیں معلوم ہوا کہ شکست خوردگان یرموک فحل میں جمع ہو چکے ہیں اور اہل دمشق کو حمص سے مدد آچکی ہے تو خلیفۂ ثانی سیدنا عمر بن خطاب سے، جنھوں نے انھیں نیا کمانڈر اِن چیف مقرر کیا تھا، ہدایت مانگی کہ اردن کے مقام فحل پر حملہ کیا جائے یا دمشق کا رخ کیا جائے؟ فوراً جواب آیا:دمشق پر حملے سے ابتدا کرو جو شام کا قلعہ اور دارا لخلافہ ہے،دریں اثنا فحل والوں کو ایک دستے سے الجھائے رکھو۔جب دمشق فتح ہو جائے تو فحل کارخ کرنا اور اسے زیر کرنے کے بعد خالد کے ہم راہ حمص کی خبر لینا۔ تب حضرت شرحبیل بن حسنہ کو اردن اور حضرت عمرو بن عاص کو فلسطین پر متعین کردینا۔ حضرت ابو عبیدہ نے حضرت ابو اعورسُلمی کی قیادت میں دس دستے فحل بھیج دیے اور خود حضرت خالد بن ولید کے ساتھ ایک بڑی فوج لے کر دمشق کو چلے۔فحل کے لوگوں نے اسلامی فوج کی آمد کی خبر سنی تو بحیرۂ طبریہ اور نہر اردن کا پانی کھول دیا۔ راستہ کیچڑ سے بھرجانے کی وجہ سے جیش ابو اعور کی پیش قدمی رک گئی۔

ادھر حضرت ابو عبیدہ کا لشکر تیزی سے نہروں ، چشموں اورسرسبز وادیوں والی سر زمین عبور کر کے دمشق جا پہنچا، راستے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی ۔دمشق کا نواحی علاقہ غُوطہ خالی ہو چکا تھا ، وہاں کے ساکنان شہر پناہ کے اندر جا چکے تھے۔ چھ گز بلند فصیل کے گردا گرد تین گز چوڑی خندق کھدی ہوئی تھی اور اس کے کنارے نہر بَرَدی کا پانی جاری تھا۔ شہر کا دفاع کرنے کے لیے کئی منجنیقیں اور سینکڑوں تیر انداز موجود تھے۔ حضرت ابوعبیدہ بن جراح کواندازہ ہو گیا کہ فتح پانے کے لیے طویل محاصرہ کرنا ہو گا۔ انھوں نے اپنے سپاہیوں کو غوطہ کے خالی گھروں میں قیام کرنے کا حکم دے دیا اور خود ہرقل کی طرف سے آنے والی ممکنہ فوجی مدد بے اثر کرنے کی تدبیر کرنے لگے۔ انھوں نے حضرت ذو الکلاع حمیری کی قیادت میں ایک لشکر روانہ کیا جس نے حمص اور دمشق کے راستے میں چھاؤنی ڈال دی، حضرت علقمہ بن حکیم اور حضرت مسروق عکی کی سربراہی میں دوسرے لشکر نے فلسطین سے دمشق آنے والی کمک کا راستہ کاٹ دیا۔ حضرت خالد بن ولید فوج لے کر آئے تو حضرت عمرو بن عاص اور حضرت ابوعبیدہ نے میمنہ و میسرہ، عیاض نے گھڑ سواردستے اور حضرت شرحبیل نے پیادہ فوج کی ذمہ داریاں سنبھال لیں ۔محاصرہ شروع ہواتو حضرت ابوعبیدہ نے قلعے کے توما، فرادیس اور کیسان نامی دروازوں پر حضرت عمرو بن عاص، حضرت شرحبیل بن حسنہ اور حضرت یزید بن ابو سفیان کی نگرانی میں علیحدہ علیحدہ دستے مقرر کر دیے اور خود باب جابیہ پر ڈیرا ڈال دیا۔ حضرت خالد بن ولید مشرقی دروازے پر تھے ، پاس صلیبا کا بت خانہ تھاجو بعد میں دیر خالد کے نام سے مشہورہو گیا۔ مسلمانوں نے توپیں اور منجنیقیں نصب کر کے قلعے پر حملہ کرنے کی کوشش کی، لیکن ناتجربہ کار ہونے کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکے۔ حاکم شہر نسطاس اورسالار افواج باہان ہرقل کی کمک کے انتظار میں محاصرے کو طول دیتے گئے،مسلمان بھی قلعہ میں داخل ہونے کا رستہ نہ پا سکے۔ ادھرحمص سے آنے والی فوج کی ذو الکلاع کے لشکر سے مڈبھیڑ ہوئی ،ایک سخت لڑائی کے بعد رومی فوج کو شکست کھا کر پلٹنا پڑا۔ اب محصورین کوموسم سرما کا انتظارتھا، ان کے خیال میں عرب کے صحرائیوں کے لیے سخت سردی برداشت کرنا مشکل تھا ۔ سرماآ کر گزر گیا، بہار آگئی ،شوال ۱۳ھ تاصفر ۱۴ھ،چار ماہ ہونے کو آئے، ہرقل کی مدد آئی نہ مسلمان محاصرین ٹلے۔ چنانچہ قلعہ بندوں کے ہاتھ پاؤں پھولے اور وہ صلح کی تدبیریں کرنے لگے ۔

حضرت خالد بن ولید اپنی مقررہ پوسٹ مشرقی دروازے پر تھے ، انھیں خبر ملی کہ قلعے کو جانے والے راستے پر کسی بڑے کمانڈر کے گھربچے کی ولادت ہوئی ہے، لوگ خوشیاں منا کراور کھا پی کر مدہوش پڑے ہیں ۔رات ہوئی تووہ حضرت قعقاع بن عمرو، حضرت مذعور بن عدی اور کچھ اور بہادروں کو لے کر نکلے ،مشکیزوں پر بیٹھ کر بَرَدی کو عبور کیا اور فصیل قلعہ پر کمندیں پھینک کر سیڑھیاں نصب کر لیں۔منڈیر پر پہنچ کر سیڑھیاں کھینچ کراندر کو پھینکیں اور قلعے میں اتر گئے، ان کے ساتھیوں نے نعرۂ تکبیر بلند کیاتو فوج بھی نہر پار کر کے مشرقی دروازے کی طرف لپکی ۔دروازے کے اندر اور باہر متعین پہرے داروں اور مسلمان فوجیوں میں مختصر لڑائی ہوئی اور غافل رومی فوجی جلد مغلوب ہو گئے۔سب سے مضبوط اور اہم مشرقی دروازہ کھل گیا تو باقی دروازے رومیوں نے خود کھول دیے اور امیر جیش حضرت ابو عبیدہ بن جراح سے صلح کر لی۔

ذی قعد ۱۳ھ:جنگ فحل، جنگ بیسان یاکیچڑ اور دلدل والی جنگ: فتح دمشق کے بعد جیش اسلامی حضرت شرحبیل بن حسنہ کی قیادت میں فحل روانہ ہوا۔ حضرت ابو اعور وہاں پہلے سے متعین تھے، جبکہ اہل فحل اپنا شہر چھوڑ کر بیسان میں پناہ لے چکے تھے۔ حضرت ابواعورکو طبریہ بھیجنے کے بعد حضرت شرحبیل نے حضرت عمر کو خط لکھا کہ ہمارے اور دشمن کے بیچ کیچڑ اور دلدل حائل ہے ۔رومی جرنیل سقلار(یا سقلاب) بن مخراق اہل ایمان پرشب خون مارنا چاہتا تھا، لیکن حضرت شرحبیل صبح و شام فوج کو چوکس رکھتے تھے۔ رومی حملہ کرتے تووہ فوراًمدافعت کرتے ۔ایک رات انھوں نے اچانک حملہ کر دیا، لیکن مسلمانوں نے یک مشت ہو کردفاع کیا ،گھمسان کی جنگ شروع ہوئی جو دو راتیں اور ایک دن جاری رہی۔ گھنی رات میں غنیم کو شکست ہوئی، سقلاب اور اس کا نائب نسطورس مارے گئے ۔رومی سپاہی کیچڑ اور دلدل میں پھنستے گئے،ان میں سے بیش تر مسلمانوں کے نیزوں کا شکار ہوئے۔اسی ہزارکی نفری میں سے کچھ ہی بچ پائے۔فتح کے بعد حضرت ابوعبیدہ بن جراح اور حضرت خالد بن ولید نے حمص کا رخ کیا، جبکہ حضرت شرحبیل بن حسنہ حضرت عمرو بن عاص کی معیت میں بیسان کو چلے۔ اہل بیسان قلعہ بند ہوئے، پھر ایک مختصر لڑائی کے بعد صلح پر مجبور ہو گئے۔ ادھر باشندگان طبریہ نے حضرت شرحبیل کے پہنچنے سے پہلے ہی حضرت ابو الاعورکے ہاتھوں پر صلح کر لی۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ ما سواے طبریہ کے تمام اردن حضرت شرحبیل نے جنگ کر کے فتح کیا۔

جنگ قادسیہ: یکم محرم ۱۴ ھ (۶۳۵ء)کو حضرت عمر نے حضرت سعد بن ابی وقاص کوچار ہزار کے لشکر کی کمان سونپی اور عراق میں پہلے سے موجود جرنیلوں کو ان کے ماتحت کام کرنے کا حکم دیا۔ ان کے مقابلے کے لیے شاہ ایران یزدگرد نے رستم کو مقرر کیا،اسی ہزار(یاایک لاکھ بیس ہزار) کی فوج منظم کرنے کے بعد مدائن سے قادسیہ پہنچنے میں اس نے چار ماہ لگا دیے ۔ا میر المومنین کے حکم پر حضرت سعد نے ایک دعوتی وفد یزدگرد کے پاس بھیجا ، اس نے دھمکی دے کر رخصت کر دیا،لیکن جب دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں تو رستم نے بات چیت کی دعوت دی۔ حضرت سعد نے حضرت ربعی بن عامر کو بھیجا۔ اگلے روز حضرت حذیفہ بن محصن اور تیسرے روز حضرت مغیرہ بن شعبہ سفیر بن کر آئے۔ رستم نے پوچھا: اگر ہم اسلام قبول کر لیں تو کیاتم اپنے ملک واپس چلے جاؤ گے؟ انھوں نے کہا: ہاں، پھر ہم محض تجارت کی خاطر یا کسی ضرورت کے لیے آئیں گے۔ اس نے اپنے ساتھی جرنیلوں سے مشورہ کیا تو نیا دین قبول کرنے پر کوئی آمادہ نہ ہوا۔اب جنگ کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔

حضرت سعد بن ابی وقاص نے ایرانی فوج کونہر عتیق عبور کر کے اپنی طرف آنے کی دعوت دی۔ جنگ شروع نہ ہوئی تھی کہ وہ عرق النسا (sciatica) میں مبتلا ہو گئے، اس لیے حضرت خالد بن غرفطہ کو اپنا نائب مقرر کیااور خود چھت پر سے فوج کی نگرانی کرنے لگے۔جنگ کاپہلادن یوم ارماث: ظہر کی نماز کے بعد حضرت سعد نے تین دفعہ نعرۂ تکبیر بلند کیا تو فوج مستعد (alert) ہو گئی،چوتھی تکبیر پر وہ دشمن کی فوج سے بھڑ گئی۔ حضرت غالب بن عبداﷲنے ہرمز کو قید کیا، حضرت عاصم بن عمرو ایرانی فوج کی صفوں میں گھس گئے، حضرت عمرو بن معدی کرب نے دعوت مبارزت دینے والے ایرانی کو جہنم رسید کیا۔ایرانی ہاتھیوں نے زوردارحملہ کیا تو حضرت سعد نے ان پر تیروں کی بوچھاڑ کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ شام تک ایسا کوئی ہاتھی نہ رہا جس پر ہودج یافیل نشین ہو۔دوسرادن ، یوم اغواث: حضرت عمر کی ہدایت پر شام سے حضرت ابوعبیدہ بن جراح نے حضرت قعقاع کی قیادت میں ایک ہزار گھڑ سواروں کا دستہ بھیجا۔ حضرت قعقاع نے ذو الحاجب اور فیرزان کو مبارزت میں جہنم رسید کیا۔ فوجیں گتھم گتھا ہوئیں تو بے شمار ایرانی قتل ہوئے اورکئی مسلمانوں نے شہادت پائی۔ تیسرے دن یوم عماس :کا سورج اس حال میں طلوع ہوا کہ دو ہزار مسلمان شہید یا زخمی پڑے ہوئے تھے ۔علی الصبح ان کی تدفین اور علاج معالجہ کی سرگرمیاں شروع ہوئیں۔ شام سے حضرت ہاشم بن عتبہ کی قیادت میں تازہ دم فوج پہنچی تو جنگ کا بازار گرم ہوا۔ حضرت قیس بن مکشوح اور حضرت عمرو بن معدی کرب نے خوب داد شجاعت دی۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے ایرانی فوج کے ہاتھیوں کو پھر سے روبکار دیکھا توبڑے سفید ہاتھی کونشانہ بنانے کا حکم د یا۔ حضرت قعقاع اور حضرت عاصم نے سفید ہاتھی کی آنکھوں میں نیزے دے مارے تو اس نے اپنے سائس کو پٹک دیا۔ اب حضرت قعقاع نے ایک زور کا وار کرکے اسے گرادیا اور اس کے سواروں کو جہنم رسید کیا۔دوسرے بڑے ہاتھی کو حضرت حمال اور حضرت ربیل نے بینائی سے محرو م کر دیا، وہ گرتا پڑتااپنی ہی فوج کی صفیں روندتا ہوا نہر عتیق میں جا گرا۔ باقی ہاتھی بھی اپنے ہودہ نشینوں کو لے کر مدائن کی طرف دوڑے ۔سورج مائل بہ غروب تھا کہ زوروں کی دست بدست جنگ شروع ہوئی جو رات بھر جاری رہی۔ حضرت طلیحہ اور حضرت عمرو نے ازخود ہی دشمن پر عقبی حملہ کر دیا۔ بنو اسد، بنو نخع، بنوبجیلہ اور کندہ کے دستے بھی کود پڑے۔ بے شمار جانی نقصان ہوا،صبح ہوئی تو کسی فریق کا پلڑا بھاری نہ تھا۔ یہ چوتھی رات تھی جسے لیلۃ الہریر کا نام دیا گیا۔ دوپہر تک معرکہ آرائی جاری تھی جب فیرزان اور ہرمزان پسپا ہوئے ۔ اسی اثنا میں شدید آندھی اٹھی جس سے ایرانی فوج کے خیمے اکھڑ گئے۔رستم کا تخت گر پڑا ،اس کاسائبان اڑکر عتیق میں جا گرا۔ وہ گھبراکر خچر پر سوار ہوا اور بھاگ نکلا۔ قعقاع اور ان کے ساتھیوں نے اس کاپیچھا کیا ، حضرت ہلال بن علّفہ نے اس پر وار کیا تو وہ نہر عتیق میں کود گیا۔ انھوں نے اس کی ٹانگیں پکڑ لیں اور پیشانی پر تلوار مار کر جہنم رسید کیا۔ضرار بن خطاب نے ایرانی پرچم ’’درفش کاویان‘‘ اپنے قبضے میں لے لیا ۔ مسلمانوں نے بھاگتے ہوئے ایرانیوں پر تیر اندازی شروع کر دی، صرف اس روزدس ہزارایرانی کھیت رہے ۔ چھ ہزار اہل ایمان نے جام شہادت نوش کیا،پہلے تین دنوں کے شہدا کی تعداد اڑھائی ہزارتھی۔ جنگ قادسیہ میں شکست کھانے کے بعد ایرانی فرار ہو کر ایران کے مختلف اطراف میں بکھر گئے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے حضرت قعقاع اور حضرت شرحبیل بن حسنہ کو حکم دیا کہ ایرانی بھگوڑوں کا پیچھا کریں،وہ قادسیہ کے نواحی مقام خرارہ تک ہر بستی، دریا اور جنگل میں گئے اور جو سپاہی نظر آیا،موت کے گھاٹ اتار دیا۔ حضرت زہرہ بن حویہ بھی تین سو سواروں کو لے کر گئے اور ایرانی جرنیل جالینوس اوراس کے ساتھیوں کو پکڑ لائے۔

۱۵ھ: خلیفۂ ثانی حضرت عمر بن خطاب نے حضرت عمرو بن عاص کو رومی جرنیل ارطبون (اطربون، Tribune) کا مقابلہ کرنے کا حکم دیا۔ حضرت ابوالاعور کو اردن کا قائم مقام امیر مقرر کرنے کے بعدوہ روانہ ہوئے تو حضرت شرحبیل بن حسنہ کو مقدمۃ الجیش کی قیادت سونپی۔ اجنادین کے مقام پر حضرت عمرو ایلچی کے روپ میں ارطبون سے ملنے خود ہی چلے گئے ۔جب اسے معلوم ہواتوانھیں قتل کرنے کا حکم دے دیا، لیکن حضرت عمرو نے حیلہ کیا اور بچ آئے۔ اسی اثنا میں ارطبون فوج لے کر ایلیا منتقل ہو گیا۔

۱۵ھ: ایلیا (بیت المقدس) قدیم زمانے سے ایک مضبوط قلعہ تھا۔ مختلف اور متضاد روایتوں میں سے یہی روایت قرین قیاس لگتی ہے کہ اسے فتح کرنے کے لیے مسلمانوں کو ایک طویل محاصرہ کرنا پڑا۔ حضرت خالد بن ولید اور حضرت ابو عبیدہ بن جراح اس محاصرے میں شریک نہ تھے، اس لیے کہ وہ عین اس وقت (۱۵ھ، ۶۳۶ء) حمص اور انطاکیہ کی جنگوں میں مشغول تھے۔ حضرت عمر نے مسجد نبوی میں موجود اہل راے سے ایلیا جانے کے بارے میں مشورہ کیا۔ حضرت عثمان نے مدینہ ہی میں موجود رہنے کاسجھاؤ دیا، جبکہ حضرت علی نے کہا: بیت المقدس جانا بہتر ہے، اس سے وہاں پر موجودمسلمان مطمئن ہو جائیں گے۔ حضرت عمر نے اسی راے پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا ،پہلے انھوں نے ایک لشکر بیت المقدس روانہ کیا، پھر حضرت علی کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر کر کے عازم سفر ہوئے۔ان کے بیت المقدس (ایلیا) پہنچنے سے قبل رومی کمانڈر ارطبون مصر کو کھسک چکا تھا اوربوڑھا پادری صفرنیوس شہر ان کے حوالے کرنے کو تیار تھا۔ فاروق اعظم مدینہ سے جابیہ پہنچے تو صفرنیوس کے ایلچی معاہدۂ صلح کرنے آئے جس میں تحریر تھا: ایلیا میں رہنے والوں کو جان ومال کی امان دی جاتی ہے ۔ ان کے گرجوں کو گرایا جائے گا،نہ ان کی صلیبوں کو منہدم کیا جائے گا۔ ان کے مذہبی معاملات میں کوئی زبردستی نہ ہو گی۔انھیں جزیہ دینا ہو گا ۔یہ رومیوں کو اپنے شہر سے نکال دیں گے ۔ جو ان کے ساتھ رہے گا، اسے بھی امان حاصل ہو گی۔ حضرت عمر نے معاہدے پر دست خط کیے اور حضرت خالد بن ولید، حضرت عمرو بن عاص، حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت معاویہ بن ابوسفیان نے گواہی دی۔جابیہ میں حضرت عمرو بن عاص اور حضرت شرحبیل بن حسنہ سے حضرت عمر کی ملاقات ہوئی۔طبری کہتے ہیں کہ حضرت عمرو اور حضرت شرحبیل نے بھی معاہدے کی دستاویز پر بہ حیثیت گواہ دستخط ثبت کیے۔ ایلیا کے بعد رملہ اور لدکے رہنے والوں نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے ساتھ معاہدات صلح کیے۔ حضرت عمر نے حضرت علقمہ بن حکیم کورملہ کا اور حضرت علقمہ بن مجرز کو ایلیا کا عامل مقرر کیا۔ ابن کثیرکا کہنا ہے کہ اس موقع پر حضرت عمرو بن عاص اور حضرت شرحبیل بن حسنہ کی حضرت عمر سے ملاقات ہی نہیں ہوئی، کیونکہ وہ اجنادین میں ارطبون سے جنگ میں مشغول تھے۔ البتہ صلح کے بعد حضرت عمر بیت المقدس جانے کے لیے اونٹ (یاگھوڑے) پر سوار تھے تو یہ دونوں جابیہ پہنچے، انھوں نے حضرت عمر کے گھٹنے چھوئے اور حضرت عمر نے انھیں سینے سے لگایا۔ حضرت عمرو بن عاص اور حضرت شرحبیل بن حسنہ حضرت عمر کے ساتھ بیت المقدس بھی گئے۔کچھ روایات کے مطابق حضرت ابو عبیدہ اور حضرت خالد بھی ان کے ساتھ تھے۔ ایک غلام حضرت عمر کا ہم رکاب تھا ، دونوں باری بار ی اونٹ(یاگھوڑے) پر سوار ہوتے ۔ جب وہ بیت المقدس پہنچے تو غلام سوار تھا اور حضرت عمر مہار پکڑے ہوئے تھے۔صفرنیوس اور عمائدین شہر نے باہر نکل کر ان کا استقبال کیا۔ مشہور روایت کے مطابق بیت المقدس ۱۵ھ میں فتح ہوا ، کچھ مؤرخین ۱۶ھ کا سن بتاتے ہیں۔

۱۷ھ میں حضرت عمر غرض جہاد سے شام کے سفر پر نکلے۔سرغ کے مقام پر افواج اسلامی کے کمانڈر حضرت ابوعبیدہ بن جراح، حضرت یزید بن ابوسفیان اور حضرت شرحبیل بن حسنہ سے ان کی ملاقات ہوئی۔انھیں معلوم ہوا کہ آگے طاعون کی وبا پھیلی ہوئی ہے تو وہاں پر موجود صحابہ سے مشورہ کیا۔کچھ نے کہا: آپ اﷲ کی رضا جوئی کے لیے نکلے ہیں، کوئی بلا اس میں رکاوٹ نہیں بننی چاہیے۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح نے اعتراض کیا، آپ تقدیر الٰہی سے بھاگ رہے ہیں؟ دوسرے اصحاب کا کہنا تھا: لوگوں کو واپس لے جائیں، کیونکہ طاعون بڑی مصیبت ہے جو جانیں لے لیتی ہے۔ آخرکار حضرت عبدالرحمن بن عوف کی راے فیصلہ کن ہوئی۔ انھوں نے کہا: میری حجت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے: ’’جب کسی شہر میں کوئی وبا پھیل جائے اور تم وہاں نہ ہو تو وہاں نہ جاؤ۔ اور اگر وبا اس جگہ پھوٹے جہاں تم ہو تووہاں سے نہ بھاگو‘‘ (بخاری، رقم ۵۷۲۹، مسلم، رقم ۵۷۸۴)۔ حضرت عمر نے کہا: الحمد ﷲ، لوگو، یہاں سے نکل چلو اورمدینہ لوٹ گئے۔

حضرت یزید بن ابوسفیان طاعون کا شکار ہو کر چل بسے تو حضرت عمر نے ان کے بھائی حضرت معاویہ کو دمشق کا حاکم (کلکٹر) مقرر کیا اور حضرت شرحبیل بن حسنہ کواردن کا کلکٹر (خراج وصول کرنے والا)اور وہاں پر متعین اسلامی فوج کاسالار بنادیا۔

خلیفۂ دوم وبا ختم ہونے کے بعدآخری بارشام آئے تو حضرت شرحبیل کو معزول کرکے ان کی ذمہ داریاں حضرت معاویہ بن ابوسفیان کو سونپ دیں۔ حضرت شرحبیل نے پوچھا: امیرالمومنین، کیا کسی ناراضی کے سبب سے مجھے ہٹایا ہے؟ تو کہا: نہیں، میں کوئی بہتر شخص لانا چاہتا تھا۔ حضرت شرحبیل نے کہا: تب لوگوں میں میرے بے قصور ہونے کا اعلان کر دیجیے۔ اس پر حضرت عمر نے کھڑے ہو کر حضرت شرحبیل کو دیا ہوا جواب دہرا دیا۔

۱۸ھ(۶۳۹ء)میں جب فلسطین کی بستی عمواس میں طاعون کی وبا پھوٹی، حضرت شرحبیل ابوعبیدہ بن جراح کی کمان میں شامی فوجوں سے برسرپیکار تھے۔ حضرت شرحبیل، حضرت ابو مالک اشعری اور حضرت ابوعبیدہ بن جراح ایک ہی دن اس مہلک بیماری کا شکار ہوئے۔ حضرت شرحبیل نے سڑسٹھ برس کی عمر پائی۔ وفات سے پہلے انھوں نے حضرت عمرو بن عاص کو یہ خطبہ دیتے سنا: ’’لوگو، طاعون ایک بیماری ہے،اسے یہیں چھوڑ کران وادیوں اوران گھاٹیوں میں بکھرجاؤ۔‘‘ حضرت شرحبیل غضب ناک ہوگئے، جوتی ہاتھ میں پکڑے، کپڑے گھسیٹتے ہوئے جلدی جلدی آئے اور کہا: ’’میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ رہا ہوں۔ عمرو اپنے پالتو گدھے (دوسری روایت: اونٹ) سے بڑھ کر گمراہ ہے، طاعون تو اﷲ کی رحمت، تمھارے نبی کی دعا اورتم سے پہلے گزرے نیکو کاروں کی وفات ہے، اس لیے اسے چھوڑ کر مت جاؤ‘‘ (احمد، رقم ۱۷۶۸۲، ۱۷۶۸۳)۔ حضرت عمرو بن عاص کو پتا چلا تو کہا: حضرت شرحبیل سچ کہتے ہیں (احمد، رقم ۱۷۶۸۴)۔

حضرت شرحبیل بن حسنہ سے صرف دو احادیث منقول ہیں جو انھوں نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت عبادہ بن صامت سے حدیث روایت کیں۔ان سے روایت کرنے والوں میں شامل ہیں: ان کے بیٹے حضرت ربیعہ بن شرحبیل، حضرت شرحبیل بن شفعہ، حضرت عبدالرحمن بن غنم، حضرت عمر بن عبدالرحمن اور حضرت ابو عبداﷲ اشعری۔ اکثر محدثین نے حضرت عبدالرحمن بن حسنہ کو حضرت شرحبیل کا بھائی بتایا ہے، لیکن ابن ابی خیثمہ کہتے ہیں کہ یہ بات درست نہیں۔

مطالعۂ مزید: السیرۃ النبویۃ(ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)،التاریخ الکبیر (بخاری)،تاریخ الامم والملوک (طبری)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جوزی)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ (ابن اثیر)،الکامل فی التاریخ(ابن اثیر)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال(مزی)، تاریخ الاسلام (ذہبی)،البداےۃ والنہاےۃ (ابن کثیر)، کتاب العبرودیوان المبتدأ والخبر (ابن خلدون)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، اردو دا ئرہ معارف اسلامیہ(پنجاب یونیورسٹی)۔

____________

B