HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

غزل

خیال وخامہ


o
چرخ اطلس آپ برسائے ، وہ زم زم چاہیے
غنچۂ دل جس سے کھل جائے ، وہ شبنم چاہیے
وصل کی شب جی میں کیا آئی کہ اُن سے کہہ دیا
ہو چکا جشن طرب ، اب آپ کا غم چاہیے
آسماں سے ایک لغزش ہے زمیں کا فاصلہ
ہو بلندی کا سفر تو سعی پیہم چاہیے
تھا ہی کیا شیرازہ بندی کو ، مگر کرتے رہے
اب وہ آئے ہیں تو ضد ہے ، وہ بھی برہم چاہیے
زخم سینے کے لیے آئے تو دے جاتا ہے زخم
پھر بھی خواہش ہے کہ ہم کو اُس کا مرہم چاہیے
دعوت حق کی تمنا ہے تو اِس دنیا میں اب
علم و استدلال میں تیغوں کا دم خم چاہیے
رات دن لاحول پڑھ لیتے ہیں ، لیکن کیا کریں
دل مچلتا ہے وہی دیرینہ ہمدم چاہیے
بندۂ حق کی رفاقت کا ہے کس میں حوصلہ
ہر کسی کو بندۂ دینار و درہم چاہیے
راحتیں کھو کر ہوئی افکار تازہ کی نمود
یہ ثمر وہ ہے کہ جس کو لو کا موسم چاہیے
ہم فقیروں نے بھی کیا مانگا ہے ، صاحب آپ سے
ایک دزدیدہ نظر اور وہ بھی کم کم چاہیے

____________

B