HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الحجر ۱۵: ۴۹- ۷۷ (۳)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


نَبِّئْ عِبَادِیْٓ اَنِّیْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(۴۹) وَاَنَّ عَذَابِیْ ھُوَ الْعَذَابُ الْاَلِیْمُ(۵۰) وَنَبِّءْھُمْ عَنْ ضَیْفِ اِبْرٰھِیْمَ(۵۱) اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْہِ فَقَالُوْا سَلٰمًا قَالَ اِنَّا مِنْکُمْ وَجِلُوْنَ(۵۲) قَالُوْا لَا تَوْجَلْ اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ(۵۳) قَالَ اَبَشَّرْتُمُوْنِیْ عَلٰٓی اَنْ مَّسَّنِیَ الْکِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُوْنَ(۵۴) قَالُوْا بَشَّرْنٰکَ بِالْحَقِّ فَلَا تَکُنْ مِّنَ الْقٰنِطِیْنَ(۵۵) قَالَ وَمَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ اِلَّا الضَّآلُّوْنَ(۵۶)
قَالَ فَمَا خَطْبُکُمْ اَیُّھَا الْمُرْسَلُوْنَ(۵۷) قَالُوْٓا اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰی قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَ(۵۸) اِلَّآ اٰلَ لُوْطٍ اِنَّا لَمُنَجُّوْھُمْ اَجْمَعِیْنَ (۵۹) اِلَّا امْرَاَتَہٗ قَدَّرْنَآ اِنَّھَا لَمِنَ الْغٰبِرِیْنَ(۶۰)
فَلَمَّا جَآءَ اٰلَ لُوْطِنِ الْمُرْسَلُوْنَ(۶۱) قَالَ اِنَّکُمْ قَوْمٌ مُّنْکَرُوْنَ(۶۲) قَالُوْا بَلْ جِءْنٰکَ بِمَا کَانُوْا فِیْہِ یَمْتَرُوْنَ(۶۳) وَاَتَیْنٰکَ بِالْحَقِّ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ(۶۴) فَاَسْرِ بِاَھْلِکَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ وَاتَّبِعْ اَدْبَارَھُمْ وَلَا یَلْتَفِتْ مِنْکُمْ اَحَدٌ وَّامْضُوْا حَیْثُ تُؤْمَرُوْنَ(۶۵) وَقَضَیْنَآ اِلَیْہِ ذٰلِکَ الْاَمْرَ اَنَّ دَابِرَ ھٰٓؤُلَآءِ مَقْطُوْعٌ مُّصْبِحِیْنَ(۶۶)
وَجَآءَ اَھْلُ الْمَدِیْنَۃِ یَسْتَبْشِرُوْنَ(۶۷) قَالَ اِنَّ ھٰٓؤُلَآءِ ضَیْفِیْ فَلَا تَفْضَحُوْنِ(۶۸) وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَلَا تُخْزُوْنِ(۶۹) قَالُوْٓا اَوَلَمْ نَنْھَکَ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ(۷۰) قَالَ ھٰٓؤُلَآءِ بَنٰتِیْٓ اِنْ کُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ(۷۱) لَعَمْرُکَ اِنَّھُمْ لَفِیْ سَکْرَتِھِمْ یَعْمَھُوْنَ(۷۲) فَاَخَذَتْھُمُ الصَّیْحَۃُ مُشْرِقِیْن(۷۳) فَجَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا وَاَمْطَرْنَا عَلَیْھِمْ حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ(۷۴) اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِےْنَ(۷۵) وَاِنَّھَا لَبِسَبِیْلٍ مُّقِیْمٍ(۷۶) اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ(۷۷)
(اے پیغمبر)، میرے بندوں کو بتاؤ کہ میں بڑاہی بخشنے والا ہوں، میری شفقت ابدی ہے۔ اور (یہ بھی کہ) میرا عذاب بڑا ہی دردناک عذاب ہے۔ (یہ فرشتوں کو دکھانے کا مطالبہ کر رہے ہیں)، اِنھیں (یہ حقیقت۷۱؎ سمجھانے کے لیے) ابراہیم کے مہمانوں کا قصہ سناؤ۔ جب وہ اُس کے پاس آئے تو اُنھوں نے کہا: تم پر سلام ہو۔ ابراہیم نے (اُن کے رویے میں کچھ اجنبیت دیکھی تو) کہا: ہمیں تم لوگوں سے اندیشہ محسوس ہو رہا ہے۷۲؎۔ وہ بولے: اندیشہ نہ کرو، ہم تمھیں ایک ذی علم۷۳؎ لڑکے کی بشارت دیتے ہیں۔ ابراہیم نے کہا: کیا تم مجھے بشارت دے رہے ہو، جبکہ مجھ پر بڑھاپا آ چکا ہے؟ سو اب کس چیز کی بشارت دیتے ہو۷۴؎؟ اُنھوں نے جواب دیا: ہم نے تمھیں برحق بشارت دی ہے، اِس لیے مایوس نہ ہو۔ ابراہیم نے کہا: اپنے پروردگار کی رحمت سے گمراہوں کے سوا کون مایوس ہو سکتا ہے۔ ۴۹-۵۶
ا براہیم نے پوچھا: اے فرستادو، اب تمھاری مہم کیا ہے۷۵؎؟ اُنھوں نے جواب دیا: ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ صرف لوط کے گھر والے مستثنیٰ ہیں۔ اُن سب کو ہم لازماً بچا لیں گے،۷۶؎ اُس کی بیوی کے سوا۔ ہم نے ٹھیرا لیا ہے کہ وہ اُنھی میں ہو گی جو پیچھے رہ جائیں گے۔۷۷؎۵۷-۶۰
پھر جب یہ فرستادے لوط کے لوگوں کے پاس پہنچے تو اُس نے کہا: تم لوگ اجنبی معلوم ہوتے ہو۔ اُنھوں نے جواب دیا: (نہیں)، بلکہ ہم تمھارے پاس وہی چیز لے کر آگئے ہیں جس میں یہ شک کر رہے تھے۔ ہم تمھارے پاس ایک قطعی حکم لے کر آئے ہیں اور ہم بالکل سچے ہیں ۷۸؎۔ لہٰذا اب تم کچھ رات رہے اپنے گھر والوں کے ساتھ یہاں سے نکل جاؤ اور تم اُن کے پیچھے پیچھے چلنا ۷۹؎اور تم میں سے کوئی پلٹ کر نہ دیکھے۸۰؎ اور وہاں چلے جاؤ، جہاں تم کو جانے کی ہدایت کی جا رہی ہے۔ اور ہم نے اُس کو اپنا یہ فیصلہ پہنچا دیا ۸۱؎کہ صبح ہوتے ہی اِن لوگوں کی جڑ کاٹ دی جائے گی۔۶۱-۶۶
(اِس سے پہلے ۸۲؎یہ ہوا کہ لڑکوں کو لوط کے گھر آتے دیکھ کر) شہر کے لوگ خوشیاں مناتے ہوئے آ پہنچے۸۳؎۔ لوط نے کہا: یہ میرے مہمان ہیں، اِس لیے میر ی فضیحت نہ کرو، اللہ سے ڈرو اور مجھے رسوا نہ کرو۸۴؎۔ وہ بولے:کیا ہم نے تمھیں باہر کے سب لوگوں سے روک نہیں دیاتھا(کہ اُن کے اور ہمارے درمیان رکاوٹ نہ بنا کرو۸۵؎)۔لوط نے (عاجز ہو کر) کہا:اگر تمھیں کچھ کرنا ہی ہے تو یہ میری بیٹیاں موجود ہیں ۸۶؎۔ تیری جان کی قسم، (اے لوط، اِس وقت)یہ اپنی سرمستی میں اندھے ہو رہے ہیں۔ (ہم نے لوط کو تسلی دی)، پھر دن نکلتے ہی اُن کو ہماری ڈانٹ ۸۷؎نے آپکڑا اور ہم نے وہ بستی اوپر تلے کر ڈالی اور اُن پر پکی ہوئی مٹی کے پتھروں کی بارش برسا دی۸۸؎۔ بے شک، اِس سرگذشت میں اُن لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو بصیرت حاصل کرنے والے ہوں۔ یہ بستی ایک عام گزرگاہ پر واقع ہے۸۹؎۔ بے شک،اِس میں ایمان والوں کے لیے بھی بڑی نشانی ہے۹۰؎۔ ۶۷-۷۷

۷۱؎ یعنی یہ حقیقت کہ میں بڑا مہربان ہوں، لیکن اُس کے ساتھ بڑا ہی منتقم اور قہار بھی ہوں۔ اِس لیے یہ مطالبہ کر رہے ہو تو اِس بات پر بھی غور کرلو کہ اگر فرشتے آئے تو وہ تمھارے لیے کوئی بشارت لے کر آئیں گے یا صاعقۂ عذاب بن کر تمھاری بستیوں پر ٹوٹ پڑیں گے؟


۷۲؎ ابراہیم علیہ السلام کے اِس ارشاد سے واضح ہے کہ وہ یہ بات سمجھ گئے تھے کہ فرشتوں کا اِس طرح علانیہ آنا خطرے سے خالی نہیں ہے، یہ لازماً کسی مہم کے لیے آئے ہیں۔ سورۂ ہود میں اِس واقعے کی تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے فرشتہ ہونے کا گمان اُنھیں اُس وقت ہوا، جب اُنھوں نے کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا۔

۷۳؎ یہ اِس بات کی طرف لطیف اشارہ تھا کہ وہ لڑکا علم نبوت سے بھی سرفراز ہو گا۔

۷۴؎ ابراہیم علیہ السلام نے یہ نہایت خوب صورت پیرائے میں اِس بات کی تصدیق چاہی ہے کہ تم جو بشارت مجھے دے رہے ہو، کیا یہ فی الواقع اُسی پروردگار کی طرف سے ہے جو بڑھاپے میں بھی اولاد دے سکتا ہے؟

۷۵؎ یہ سوال بتا رہا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے دل کی کھٹک دور نہیں ہوئی اور اپنے لیے بشارت کے باوجود اُنھیں اندیشہ رہا کہ فرشتوں کی یہ پوری جماعت ضرور کسی دوسرے مقصد سے آئی ہے۔ وہ قوم لوط کے حالات سے واقف تھے، اِس لیے ممکن ہے کہ اُنھی کے بارے میں خیال کر رہے ہوں کہ یہ بجلی کہیں اِسی خرمن فساد پر تو گرنے والی نہیں ہے۔

۷۶؎ یہ صراحت اِس لیے ضروری تھی کہ حضرت ابراہیم کم سے کم لوط اور اُن کے پیرووں کے بارے میں مطمئن ہو جائیں کہ وہ اِس عذاب کی زد میں نہیں آئیں گے۔ لوط علیہ السلام کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ حضرت ابراہیم کے بھتیجے تھے۔ اُن کی قوم اُس علاقے میں رہتی تھی جو شام کے جنوب میں عراق و فلسطین کے درمیان واقع ہے اور آج کل شرق اردن کہلاتا ہے۔ بائیبل میں اُن کے سب سے بڑے شہر کا نام سدوم بتایا گیا ہے۔ لوط علیہ السلام کا تعلق اُس قوم کے ساتھ وہی تھا جو حضرت موسیٰ کا قوم فرعون کے ساتھ تھا۔ اُن کی بیوی کا ذکر یہاں اور بعض دوسرے مقامات پر جس اسلوب میں ہوا ہے، اُس سے اشارہ نکلتا ہے کہ اُن کی شادی اُسی قوم کے اندر ہوئی تھی اور اِس لحاظ سے وہ اُنھی کے ایک فرد بن چکے تھے۔

۷۷؎ یعنی اگرچہ پیغمبر کی بیوی ہے، لیکن خدا کا قانون بے لاگ ہے، وہ اُسے بھی نہیں چھوڑے گا۔ آیت میں اِس کے لیے لفظ ’قَدَّرْنَا‘ آیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”... لفظ ’قَدَّرْنَا‘ کے صحیح مفہوم کو پیش نظر رکھیے تو اِس سے یہ اشارہ بھی نکلتا ہے کہ پیغمبروں اور نیکوں سے قرابت رکھنے کے باوجود اگر کوئی شخص، خواہ مرد ہو یا عورت، بدی کی راہ اختیار کرے تو وہ خدا کے غضب کا دوسروں کے مقابل میں زیادہ سزاوار ٹھیرتا ہے۔“(تدبرقرآن۴/ ۳۶۸)

۷۸؎ یہ تنبیہ اور توثیق کا جملہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہمیں لڑکوں کی صورت میں دیکھ کر کسی غلط فہمی میں نہ پڑنا۔ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں، وہ شدنی ہے، اِس لیے اب بغیر کسی تردد کے اور بلا تاخیر ہماری ہدایات پر عمل کرو۔ 

۷۹؎ یہ اِس لیے فرمایا کہ اُن کے گھر والوں میں سے کوئی پیچھے نہ رہ جائے۔ استاذ امام کے الفاظ میں، جس طرح راعی اپنے گلے کے پیچھے چلتا ہے کہ کوئی بھیڑ ریوڑ سے الگ رہ کر بھیڑیے کا شکار نہ ہو جائے۔

۸۰؎ یہ ہدایت کیوں ہوئی؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

”...کسی جگہ سے نکلتے ہوئے اُس کی طرف مڑ مڑ کے دیکھنا اِس بات کی علامت ہے کہ اُس کے ساتھ انس اور لگاؤ ہے۔ یہ انس اور لگاؤ عام حالات میں تو ایک فطری چیز ہے اور ایک فطری تقاضے کو روکا یا دبایا نہیں جا سکتا، لیکن جس بستی کے لیے اتمام حجت کے بعد عذاب الٰہی کا فیصلہ ہو چکا ہو،اُ س سے نکلتے وقت اہل ایمان کو اِس طرح دامن جھاڑ کے اٹھنا چاہیے کہ اُس کے ساتھ دل کے لگاؤ کا کوئی شائبہ بھی باقی نہ رہ جائے۔“(تدبرقرآن۴/ ۳۶۸)

۸۱؎ اصل میں لفظ ’قَضَیْنَا‘آیا ہے اور اُس کے ساتھ ’اِلٰی‘ کا صلہ ہے۔ یہ اِس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ یہاں ’أَبْلَغْنَا‘ یا اِس کے ہم معنی کسی لفظ کا مفہوم مقدر ہے۔

۸۲؎ سورۂ ہود میں یہ واقعہ جس ترتیب سے سنایا گیا ہے، اُس سے واضح ہے کہ بدمعاشوں کے حملے سے پہلے حضرت لوط اِس بات سے واقف نہ تھے کہ اُن کے مہمان درحقیقت فرشتے ہیں۔ یہی ترتیب واقعات کی فطری ترتیب ہے، اِس لیے کہ لوط علیہ السلام اگر اُن کی حقیقت سے واقف ہو چکے ہوتے تو اُس فریاد و فغاں کی ضرورت نہیں تھی جس کا ذکر آگے ہوا ہے۔ لیکن قرآن نے یہاں حملے کی روداد کو موخر کر دیا ہے، اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں جس پہلو کو نمایاں کرنا مقصود ہے، وہ فرشتوں کا آنا ہے تاکہ مخاطبین یہ جان لیں کہ اُن کے مطالبے پر فرشتے آگئے تو اُن کے لیے کیا لے کر آئیں گے۔ اِس طرح کی تقدیم و تاخیر کی مثالیں قرآن کے بعض دوسرے مقامات میں بھی ہیں۔

۸۳؎ اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ بد اخلاقی کی کس انتہا کو پہنچ چکے تھے۔ لوط علیہ السلام جیسا مقدس انسان اور معلم اخلاق ہے جس کے گھر پر یہ اِس لیے خوشیاں مناتے ہوئے پہنچ گئے ہیں کہ اِنھیں کچھ خوب رو لڑکے اُن کے گھر جاتے ہوئے نظر آگئے ہیں جن سے یہ اپنی ہوس کی پیاس بجھا سکتے ہیں۔

۸۴؎ حضرت لوط نے یہ اِن لوگوں کو نہایت موثر انداز میں اپنی عزت و آبرو کا واسطہ اور خوف خدا کا حوالہ دے کر بدمعاشی سے روکنے کی کوشش کی ہے۔

۸۵؎ یعنی باہر سے آنے والوں کو ہم ماریں، لوٹیں یا اُن کی آبروریزی کریں، تم اِس میں رکاوٹ نہ بنا کرو۔ لوط علیہ السلام، ظاہر ہے کہ اِس سے پہلے بھی اُنھیں اِن سب باتوں سے روکتے رہے ہوں گے اور اُنھوں نے آپ کو اور آپ کے پیرووں کو دھمکیاں دی ہوں گی کہ ہماری بدمعاشیوں میں اِس طرح کی رکاوٹیں پیدا کرکے تم ہماری بستی میں نہیں رہ سکو گے۔ یہ اُن لوگوں نے اِسی کا حوالہ دیا ہے۔

۸۶؎ حضرت لوط کی طرف سے یہ اُن اوباشوں کے لیے کیا کوئی پیش کش تھی؟استاذ امام لکھتے ہیں:

”...یہ حضرت لوط کی طرف سے کوئی پیش کش نہیں تھی، بلکہ یہ اپنی قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے اُن کی آخری تدبیر تھی۔ اگراُ ن لوگوں کے اندر اخلاقی حس کی کوئی رمق بھی ہوتی تو وہ سوچ سکتے تھے کہ ایک یہ شخص ہے جو اپنے مہمانوں کی عزت بچانے کے لیے اپنی عزت تک خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار ہے اور ایک ہم ہیں کہ اُس کی اور اُس کے مہمانوں کی عزت کے درپے ہیں۔ یہ بالکل اُسی طرح کی بات ہے، جس طرح ایک اعلیٰ کردار کا آدمی دوسرے کی جان یا آبرو بچانے کے لیے اپنی جان اور اپنے وقار کو خطرے میں ڈال دینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔“ (تدبرقرآن۴/ ۳۷۰)

۸۷؎ یہ اُس عذاب کی تعبیر ہے جو قوم لوط پر بھیجا گیا۔ باد تند کے ساتھ اُس میں رعد و برق کی کڑک اور چمک بھی تھی، اِس وجہ سے یہ لفظ اُس کے لیے نہایت موزوں استعمال ہوا ہے۔

۸۸؎ پیغمبروں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اُن کی قومیں بالعموم پتھر برسانے والی آندھی سے تباہ کی گئی ہیں۔ قرآن نے دوسری جگہ اِسے ’حَاصِب‘سے تعبیر کیا ہے۔ یہ اُسی کا بیان ہے۔

۸۹؎ سدوم اور عمورہ کی بستیاں حجاز اور شام کے تجارتی راستے پر واقع تھیں۔ دونوں ملکوں کے تجارتی قافلوں کے لیے یہ راستہ عام گزرگاہ تھا۔ اِس سے قافلے گزرتے تو لوگ تباہی کے اُن آثار کو دیکھتے تھے جو اِس علاقے میں آج بھی نمایاں ہیں۔

۹۰؎ قریش مکہ کے بعد اب یہ اہل ایمان کو بھی متوجہ کیا ہے کہ وہ بھی اگر چاہیں تو اِن آثار میں اپنے دشمنوں کا مستقبل دیکھ سکتے ہیں۔ لہٰذا مطمئن رہیں، بالآخر وہی کامیاب ہوں گے اور اُن کے دشمن اِسی طرح پامال ہو جائیں گے۔

[باقی]

_____________________

B