ترجمہ و تدوین: شاہد رضا
رُوِیَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ دَعَا إِلٰی ہُدًی کَانَ لَہُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُوْرِ مَنْ تَبِعَہُ لاَیَنْقُصُ ذٰلِکَ مِنْ أُجُوْرِہِمْ شَیْئًا وَمَنْ دَعَا إِلٰی ضَلاَلَۃٍ کَانَ عَلَیْہِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَہُ لاَیَنْقُصُ ذٰلِکَ مِنْ آثَامِہِمْ شَیْئًا.
وَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ دَلَّ عَلٰی خَیْرٍ فَلَہُ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِہِ.
روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے ہدایت کی طرف دعوت دی، اس کے لیے ان لوگوں کے اجر کے برابر اجر ہو گا جو اس کی اس دعوت۱ پر عمل پیرا ہوں گے۔ اس سے ان کے اجروں میں کچھ کمی نہیں ہو گی۔۲ (اس کے برخلاف)، جس شخص نے کسی گمراہی کی طرف دعوت دی، اس پر ان لوگوں کے گناہوں کے برابر گناہ (کا بوجھ) ہو گا جو اس کی پیروی کریں گے۔اس سے ان کے گناہوں (کے بوجھوں) میں کچھ کمی نہیں ہو گی۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے کسی اچھائی کی طرف رہنمائی کی، اسے اسی طرح کا اجر ملے گا، جس طرح کا اجر اس اچھائی کے کرنے والے کو ملے گا۔۳
۱۔ یہ ایک امر واقعی ہے کہ اچھائی اور ہدایت کی طرف دعوت دینا فی ذاتہٖ ایک اچھا عمل اور ایک عظیم اجر اور صلے کا باعث ہے۔ جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ کسی شخص کی دعوت سنی جائے اور اس کی پیروی کی جائے تو داعی کو نہ صرف اس کے اس دعوتی اقدام کا اجر عطا فرماتا ہے ، بلکہ اس کی دعوت کے نتیجے میں صادر ہونے والے اعمال کا بھی اجر مرحمت فرماتا ہے۔
۲۔ یہ اجر کسی ایک شخص کے اعمال نامے سے دوسرے شخص کے اعمال نامے میں منتقل نہیں کیا جائے گا، جیساکہ ایک داعی کسی دوسرے شخص کے اعمال کا اجر نہیں پائے گا۔ اس کے برعکس، داعی کی دعوت پر جہاں بھی عمل ہو گا، یہ اس کی ہدایت کی طرف محض دعوت ہی ہے جو اس کے لیے ہر قدم پر ثواب کی حامل ہو گی۔
۳۔ جب کوئی شخص کسی عمل خیر کی نیت کر لیتا اور اس پر عمل کرنے کا مصمم ارادہ کر لیتا ہے ، پھر اپنے بعض حالات کے باعث اس پر عمل کرنے سے قاصر رہتا ہے یا کوئی شخص بذات خود کسی حالت میں عمل خیر کی استطاعت نہیں رکھتا، تو وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ اس عمل خیر میں معاونت کے سبب سے نہ صرف اچھے عمل کے ارادے اور نیت کے اجر کا مستحق ٹھہرے گا، بلکہ اس عمل صالح کے حامل لوگوں کی رہنمائی اور معاونت کا بھی اجر پائے گا۔
پہلی روایت بعض اختلافات کے ساتھ مسلم، رقم۲۶۷۴؛ ابوداؤد، رقم۴۶۰۹؛ ترمذی، رقم۲۶۷۴؛ ابن ماجہ، رقم ۲۰۵۔۲۰۷، ۲۰۹۔۲۱۰؛ احمد، رقم۹۱۴۹؛ ابن حبان، رقم۱۱۲؛ دارمی، رقم۵۱۳؛ موطا امام مالک، رقم۵۰۹؛ مسند ابویعلیٰ، رقم۶۴۸۹ اور ابن خزیمہ، رقم۲۴۷۷ میں روایت کی گئی ہے۔
دوسری روایت بعض اختلافات کے ساتھ مسلم، رقم۱۸۹۳ا، ۱۸۹۳ب؛ ترمذی، رقم۲۶۷۱؛ ابوداؤد، رقم۵۱۲۹؛ احمد، رقم۷۱۱۲۵، ۷۱۱۲۷، ۲۲۳۹۳، ۲۲۴۰۵؛ ابن حبان، رقم۲۸۹، ۱۶۶۸؛ بیہقی، رقم ۱۷۶۲۱۔ ۱۷۶۲۲ اور عبدالرزاق، رقم۲۰۰۵۴ میں روایت کی گئی ہے۔
بعض روایات، مثلاً ابن ماجہ، رقم۲۰۵میں ’من دعا إلی ہدی‘ (جس شخص نے ہدایت کی طرف دعوت دی) کے الفاظ کے بجاے ’أیما داع دعا إلی ہدی فأتبع‘ (ہر وہ داعی جس نے ہدایت کی طرف دعوت دی، پھر اس کی پیروی کی گئی) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ جبکہ موطا امام مالک، رقم۵۰۹ میں یہ الفاظ ’ما من داع یدعو إلی ہدی‘ (ہر وہ داعی جو ہدایت کی طرف دعوت دے) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً ابن ماجہ، رقم ۲۰۵ میں ’کان لہ من الأجر مثل أجور من تبعہ‘ (اس کے لیے ان لوگوں کے اجر کے برابر اجر ہو گا جو اس کی اس دعوت پر عمل پیرا ہوں گے) کے الفاظ کے بجاے ’فإن لہ مثل أجور من اتبعہ‘ (بے شک، اس کے لیے ان لوگوں کے اجر کے برابر اجر ہو گا جو اس کی اس دعوت پر عمل پیرا ہوں گے) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ ابن ماجہ، رقم ۲۰۶ میں یہ الفاظ ’کان لہ من الأجر مثل أجور من اتبعہ‘ (اس کے لیے ان لوگوں کے اجر کے برابر اجر ہو گا جو اس کی اس دعوت پر عمل پیرا ہوں گے) روایت کیے گئے ہیں؛ موطا امام مالک، رقم ۲۰۹ میں یہ الفاظ ’إلا کان لہ مثل أجر من أتبعہ‘ (مگر اس کے لیے اس شخص کے اجر کے برابر اجر ہو گا جو اس کی اس دعوت پر عمل پیرا ہو گا) روایت کیے گئے ہیں؛ ترمذی، رقم ۲۶۷۴ میں ان الفاظ کے مترادف الفاظ ’کان لہ من الأجر مثل أجور من یتبعہ‘ (اس کے لیے ان لوگوں کے اجر کے برابر اجر ہو گا جو اس کی اس دعوت پر عمل پیرا ہوں گے) روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً ابن ماجہ، رقم ۲۰۵ میں ’لا ینقص ذلک من أجورہم شیئًا‘ (اس سے ان کے اجروں میں کچھ کمی نہیں ہو گی) کے الفاظ کے بجاے ’ولا ینقص من أجورہم شیئًا‘ (اور ان کے اجروں میں کچھ کمی نہیں ہو گی) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ ابن حبان، رقم۱۱۲ میں یہ الفاظ ’لاینقص من أجورہم شیء‘ (ان کے اجروں میں کچھ کمی نہیں ہو گی) روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً ابن ماجہ، رقم۲۰۵ میں ’من دعا إلی ضلالۃ‘ (جس شخص نے کسی گمراہی کی طرف دعوت دی) کے الفاظ کے بجاے ’أیما داع دعا إلی ضلالۃ فاتبع‘ (ہر وہ داعی جس نے گمراہی کی طرف دعوت دی، پھر اس کی پیروی کی گئی) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ موطا امام مالک، رقم ۵۰۹ میں یہ الفاظ ’ما من داع یدعو إلی ضلالۃ‘ (ہر وہ داعی جو گمراہی کی طرف دعوت دیتا ہے ) روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً دارمی، رقم ۵۱۳ میں ’کان علیہ من الإثم مثل آثام من تبعہ‘ (اس پر ان لوگوں کے گناہوں کے برابر گناہ کا بوجھ ہو گا جو اس کی پیروی کریں گے) کے الفاظ کے بجاے ان کے مترادف الفاظ ’کان علیہ من الإثم مثل آثام من اتبعہ‘ (اس پر ان لوگوں کے گناہوں کے برابر گناہ کا بوجھ ہو گا جو اس کی پیروی کریں گے) روایت کیے گئے ہیں؛ ابن ماجہ، رقم ۲۰۵ میں یہ الفاظ ’فإن لہ مثل أوزار من اتبعہ‘ (اس پر ان لوگوں کے گناہوں کے برابر گناہ کا بوجھ ہو گا جو اس کی پیروی کریں گے) روایت کیے گئے ہیں؛ ابن ماجہ، رقم۲۰۶میں یہ الفاظ ’فعلیہ من الإثم مثل آثام من اتبعہ‘ (اس پر ان لوگوں کے گناہوں کے برابر گناہ کا بوجھ ہو گا جو اس کی پیروی کریں گے) روایت کیے گئے ہیں؛ موطا امام مالک، رقم۵۰۹ میں یہ الفاظ ’کان علیہ مثل أوزارہم‘ (اس پر ان لوگوں کے گناہوں کے برابر گناہ کا بوجھ ہو گا ) روایت کیے گئے ہیں؛ ترمذی، رقم ۲۶۷۴ میں ان الفاظ کے بجاے ان کے مترادف الفاظ ’کان علیہ من الإثم مثل آثام من یتبعہ‘ (اس پر ان لوگوں کے گناہوں کے برابر گناہ کا بوجھ ہو گا جو اس کی پیروی کریں گے) روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً ابن ماجہ، رقم ۲۰۵میں ’لاینقص ذلک من آثامہم شیئًا‘ (اس سے ان کے گناہوں (کے بوجھوں) میں کچھ کمی نہیں ہو گی) کے الفاظ کے بجاے ’لاینقص من أوزارہم شیئًا‘ (ان کے بوجھوں میں کچھ کمی نہیں ہو گی) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ موطا امام مالک، رقم۵۰۹ میں ان الفاظ کے بجاے ان کے مترادف الفاظ ’لا ینقص ذلک من أوزارہم شیئًا‘ (اس سے ا ن کے بوجھوں میں کچھ کمی نہیں ہو گی) روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً احمد، رقم۲۲۴۰۵ میں ’مثل أجر فاعلہ‘ (اس کے کرنے والے کے اجر کی طرح) کے الفاظ کے بجاے ان کے مترادف الفاظ ’مثل أجر عاملہ‘ (اس کے کرنے والے کے اجر کی طرح) روایت کیے گئے ہیں۔
بیہقی، رقم ۱۷۶۲۱ میں یہ روایت ’من دل علی خیر فلہ أجر مثل فاعلہ‘ (جس شخص نے کسی اچھائی کی طرف رہنمائی کی، اسے اسی طرح کا اجر ملے گا، جس طرح کا اجر اس اچھائی کے کرنے والے کو ملے گا) کے الفاظ میں روایت کی گئی ہے۔
بیش تر روایات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درج بالا ارشاد ایک واقعے کے ایک حصے کے طور پر روایات کیا گیا ہے۔ جیساکہ ابوداؤد میں روایت کیا گیا ہے، اس روایت کا پس منظر درج ذیل الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
جاء رجل إلی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: یا رسول اللّٰہ، إنی أبدع بی فاحملنی، قال: لا أجد ما أحملک علیہ ولکن ائت فلانًا فلعلہ أن یحملک فأتاہ فحملہ، فأتی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فأخبرہ، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من دل علی خیر فلہ مثل أجر فاعلہ.(رقم ۵۱۲۹)
’’ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسول اللہ، میں سنگین حالت میں ہوں (اور مہم میں نہیں جا سکتا ہوں)، اس لیے مجھے کوئی سواری دے دیجیے (تاکہ میں آپ کے ساتھ جا سکوں)، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: میرے پاس ایسی کوئی شے نہیں جس پر میں تجھے سوار کرا سکوں، مگر تم فلاں شخص کے پاس جاؤ، شاید وہ تمھیں کوئی سواری دے دے۔ چنانچہ وہ اس فلاں شخص کے پاس گیا تو اس نے اسے سواری دے دی۔ پھر وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو اس بارے میں آگاہ کیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے کسی اچھائی کی طرف رہنمائی کی، اسے اسی طرح کا اجر ملے گا، جس طرح کا اجر اس اچھائی کے کرنے والے کو ملے گا۔‘‘
____________