HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : رضوان اللہ

تعدد ازواج کی آیت کا مطالعہ (۲)

مذکورہ آیت میں بنیادی طورپردوچیزیں اوربھی زیربحث آئی ہیں:ایک تعدد، یعنی کثرت ازواج اوردوسرے اس کے شرائظ، یعنی عدل اورتحدید۔ ذیل میں ہم انھیں تفصیل سے دیکھتے ہیں:

تعدد

نکاح کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے: ’فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْْمَانُکُمْ ذٰلِکَ اَدْنآی اَلاَّ تَعُوْلُوْا‘۔ یعنی ان میں سے دودو،تین تین، چار چار سے نکاح کر لو۔ پھر اگر ڈر ہو کہ انصاف نہ کرسکو گے توایک ہی بیوی رکھویاپھرلونڈیاں جوتمھارے قبضے میں ہوں۔یہ اس کے زیادہ قریب ہے کہ بے انصافی سے بچے رہو۔

یہ آیت کا وہ مقام ہے جہاں مفسرین کے ہاں تعددازواج کی اصل بحث شروع ہوتی ہے۔چندباتیں اگر اس کے بارے میں بھی سامنے رہیں توبہت سی آراکااپنے آپ محاکمہ ہوجاتاہے:

پہلایہ کہ قرآن میں کثرت ازواج کاحکم ابتداءً نہیں دیاگیا۔انسانی تاریخ میں اس کارواج، جیساکہ ہم نے اوپر ذکر کیا، بہت قدیم زمانے سے شروع ہوگیاتھا۔اگر بعض الہامی صحائف کی شہادت کوتسلیم کرلیاجائے تواس کی ابتدا آدم کی چھٹی نسل کے ایک شخص لمک سے ہو گئی تھی۔ ۱؂ اس لیے یہ کہناکہ قرآن کی یہ آیت اس کاماخذ ہے اوراسی سے اس کی ابتداہوئی ، یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ یہاں فعل امر ’فَانْکِحُوْا‘، درحقیقت ایک مسئلے کاتجویزکردہ حل ہے،اس لیے اسے محض اجازت اور اختیارکے مفہوم میں لے لیناممکن نہیں ۔یعنی اس کامطلب یہ نہیں کہ یتیموں کی بہبودکے لیے تم چاہوتوایک سے زائدعورتوں سے نکاح کرلواورچاہوتونہ کرو یااگر ایساکرناچاہوتواس معاملے میں تم پرکوئی روک اورپابندی نہیں۔اس فعل امرکویہاں حکم ہی کے معنی میں ہوناچاہیے۔البتہ یہ بات صحیح ہے کہ یہ حکم واجبی نوعیت کانہیں تھاکہ اس کومان لیناہرایک کے لیے لازم ہوتا،بلکہ یہ لوگوں کو اُس وقت کے حالات میں ایک کارخیرکی ترغیب دینے کے لیے دیاگیا۔

تیسرے یہ کہ ’فَانْکِحُوْا‘ کا یہ حکم معاشرے میں پہلے سے موجود تعددازواج کے رواج سے فائدہ اٹھالینے کے لیے آیا ہے، اس بارے میں کوئی نیاقانون دینا،یہاں پیش نظرنہیں ہے۔ چنانچہ یہ کہناصحیح نہیں ہے کہ خداکااصل منشااس رواج کوختم کرکے صرف ایک عورت سے شادی کاقانون دینا تھا،البتہ اس نے عربوں کے مزاج کی رعایت سے اسے مکمل طورپرختم نہیں کیااوراس پرچارکی شرط عائد کردی۔ہم جانتے ہیں کہ خدا کامنشا معلوم کرنے کا ایک ہی ذریعہ ہے اوروہ اس کی طرف سے آنے والی وحی اوراس کے الفاظ کی دلالت ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ’فَانْکِحُوْا‘ کا لفظ، بلکہ ساری آیت اوریہ پوراسلسلۂ کلام ،اس طرح کی کسی بھی دلالت سے یک سرخالی ہیں۔خداکے پیش نظر اگرواقعی اس رواج کوختم کرناہوتا تووہ اس بات کوایک قانون کی حیثیت سے ذکر کرتااوریہاں نہیں توکسی اورمقام پر اس کو ضرور کھول کر بیان کر دیتا۔ بالکل اسی طرح،جس طرح اسی آیت میں ’اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْْمَانُکُمْ‘ کے الفاظ میں لونڈیوں کا ذکر آیا ہے، مگر خدا کا ارادہ آخرکاراس رواج کوختم کردینا تھا،چنانچہ اس نے باقاعدہ قانون کے طورپراسے ایک جگہ بیان بھی کر دیا ہے۔۲؂

چوتھے یہ کہ آیت میں جس طرح کسی نئے قانون کی بنیادنہیں رکھی جارہی ،اسی طرح کسی اصل قانون میں سے کوئی استثنابھی بیان نہیں کیاجارہا۔چنانچہ یہ بات صحیح نہیں کہ اسلام میں نکاح کے بارے میں اصل قانون ایک مرداورایک عورت کی شادی کاہے اوریہ آیت اس میں سے ایک استثناکوبیان کررہی ہے۔ قرآن میں کہیں بھی ایک مرداورایک عورت کی شادی کاکوئی قانون بیان نہیں ہوا۔آدم کے لیے ایک حواکی پیدایش، ایک واقعہ ہے جس سے زیادہ سے زیادہ یہ معلوم ہوتاہے کہ عام حالات میں اصل اورمطلوب طریقہ یہی ہے۔اس سے آگے بڑھ کراس کو قانون کادرجہ دے دینا،قرآن فہمی کی کوئی اچھی مثال نہیں ہے۔

اسی طرح بعض لوگوں کا یہ دعویٰ کرنا بھی صحیح نہیں کہ کثرت ازواج کے لیے جس عدل کی شرط ہے،اس عدل کاواقع ہوجاناممکن ہی نہیں، جیساکہ فرمایاہے: ’وَلَنْ تَسْتَطِیْعُوْٓا اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْْنَ النِّسَآءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ‘ ۳؂ کہ تم چاہوبھی توعورتوں کے درمیان میں عدل نہیں کرسکتے۔چنانچہ ایک سے زیادہ شادی کرناممکن ہی نہیں ہے۔یہ دعویٰ اس لیے صحیح نہیں کہ ’وَلَنْ تَسْتَطِیْعُوْا‘ کی آیت کثرت ازواج کے لیے مطلوب عدل کے اِمکان کی نفی نہیں کر رہی، بلکہ اس کے حدودکی وضاحت کررہی ہے۔اس میں صرف یہ بتایاگیاہے کہ دلی جذبات اورظاہرکے برتاؤمیں ترازو کی تول برابری ہوجائے،یہ ممکن نہیں اورنہ کسی سے اس کاتقاضا کیاگیا ہے۔بلکہ مطلوب صرف یہ ہے کہ ایک بیوی کی طرف اس درجہ جھکاؤنہ ہو کہ دوسری بیوی ایک عضومعطل ہوکررہ جائے۔ پھر یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ ایک سے زیادہ عورتوں میں خداعدل کی شرط رکھے اورپھرہمیں خودیہ بھی بتادے کہ تم اس عدل کی طاقت نہیں رکھتے توکیااس کے باوجود وہ ہمیں ایک سے زیادہ شادی کرنے کاحکم دے سکتاہے، جیساکہ زیربحث آیت میں اس نے دیاہے۔

پانچویں یہ کہ تعددکایہ معاملہ اپنی اصل میں جائزہے اورکچھ خاص قسم کے حالات کے ساتھ لازم وملزوم نہیں کہ وہ حالات ہوں تواس پرعمل جائزہو،وگرنہ ناجائزہو۔لہٰذابعض حضرات کایہ کہنادرست نہیں کہ یہ حکم اس لیے دیا گیا تھا کہ عرب کے پدرسرانہ معاشرے میں عورت کے لیے مرد ہی کفالت کاواحدذریعہ تھا،وہ بالغ ہوتوخاوندکی صورت میں اوراگرنابالغ ہوتوباپ کی صورت میں۔ تمدن کی ترقی کی وجہ سے چونکہ اس قسم کے معاشرے ناپیدہوگئے ہیں، اس لیے تعددازواج کاجوازبھی اب ختم ہو گیا ہے۔ یاد رہنا چاہیے کہ جو معاملہ اپنی اصل میں مباح ہے، کچھ خاص حالات کی وجہ سے اس پر عمل کرنامستحب اوربعض اوقات واجب بھی ہوسکتاہے،مگراس کی اباحت ان حالات پر ہی موقوف قرار پائے ،یہ بات صحیح نہیں ہے۔طبیب کسی مریض کودودھ پینے کامشورہ دے یا اس کی تاکیدکرے ،اس کاہرگزیہ مطلب نہیں کہ وہ مریض جب صحت یاب ہوجائے تویہ دودھ اس کے لیے جائزنہ رہے۔چنانچہ آیت کے بارے میں یہ توکہاجاسکتا ہے کہ کثرت ازواج کایہ حکم خاص حالات میں دیاگیا،اس اعتبارسے یہ حکم وقتی اورعارضی تھا،مگریہ نہیں کہاجاسکتاکہ بذات خودکثرت ازواج کا جوازوقتی اورعارضی تھا۔غرض یہ کہ قرآن کے زمانے جیسے حالات دوبارہ سے پیدا ہو جائیں اور اگر اس کا امکان نہیں توکچھ اورناگزیر ضرورتیں لاحق ہو جائیں یاسرے سے کوئی مسئلہ بھی نہ ہو، ان تمام صورتوں میں تعددازواج پرعمل کرنابالکل جائز ہے اور وجہ اس کی یہی ہے کہ یہ اپنی اصل میں مباح ہے اورکوئی شرعی مانع اس میں موجودنہیں۔

عدل اور تحدید

کثرت ازواج کاجوازقرآن میں دوشرطوں کے ساتھ بیان ہوا ہے: ایک عورتوں کے درمیان میں عدل کرنا اوردوسراان عورتوں کی تعداد کا چار میں مقیدہونا۔اس میں سے عدل پرتوکسی بحث کی ضرورت نہیں ،اس لیے کہ یہ دین ا وراخلاق کابنیادی مسلمہ ہے اوراس میں کسی اختلاف کی کوئی گنجایش نہیں،مگرتحدیدکے بارے میں زیربحث آیت کے یہ الفاظ ضرورقابل مطالعہ ہیں: ’مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ‘۔ یعنی دودو،تین تین اورچارچارسے نکاح کرلو۔

ان الفاظ کے بارے میں بعض لوگوں کی راے ہے کہ یہاں دودو،تین تین اورچارچار سے مقصودکوئی خاص عدد نہیں ہے کہ ان کی تحدید کا سوال پیداہو۔یہ ایساہی اسلوب ہے جیسے ہم کہیں کہ اس کتاب کودوچارمرتبہ پڑھوگے تو پھر اس کے مطالب کوجان پاؤگے۔ یہ بات صحیح ہے کہ عربی زبان میں بھی اعداد اپنے مجازی معنی میں استعمال ہوتے ہیں، جیسے سات کاہندسہ اپنے حقیقی معنی میں بھی ہوسکتاہے اورمجازی معنی میں بھی،تاہم اس میں چندباتوں کاخیال رہنا چاہیے: ایک یہ کہ اس کے مجازیاحقیقت ہونے کافیصلہ خودوہ کلام کرتاہے جس میں یہ استعمال ہوتے ہیں۔دوم یہ کہ عربی زبان میں جب یہ مجازی معنی میں ہوں توبالعموم مرکب کے بجاے مفردکی صورت میں آتے ہیں،جیسے سات، ستر اور ہزار۔ سوم یہ کہ یہاں ’مَثْنٰی وَثُلٰثَ‘ تک بات ختم ہوجاتی توکسی درجے میں اس کومجازماناجاسکتاتھا،لیکن اس کے بعد ’رُبٰعَ‘ کا استعمال اس بات میں مانع ہے کہ اس کو مجاز کے معنی میں لیاجائے۔غرض یہ کہ یہ اسلوب اپنے حقیقی معنی میں ہے اوراس پر دلیل مزیدکے لیے قرآن کاوہ مقام بھی کفایت کرتاہے جس میں فرشتوں کے لیے انھی الفاظ میں ارشاد ہوا ہے: ’اُولِیْٓ اَجْنِحَۃٍ مَّثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ‘، یعنی یہ فرشتے دودوپروں والے بھی ہیں اور تین تین اور چار چار پروں والے بھی۔۴؂ اورظاہرہے،یہ الفاظ ان کے پروں کی متعین تعدادہی کوبیان کررہے ہیں۔

یہ مان لینے کے بعدکہ آیت میں اعداداپنے حقیقی معنوں میں ہیں،اس بات میں پھراختلاف ہے کہ یہ ہیں کتنے۔ بعض لوگوں کے نزدیک یہاں واؤ جمع کے لیے آیا ہے ،اس لیے مرادان تینوں کامجموعہ ہے۔یعنی لوگوں کوحکم دیا گیا ہے کہ وہ نوعددعورتوں سے نکاح کرلیں کہ اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نونکاح کیے۔ بعض لوگ اس سے بھی تجاوزکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آیت میں اٹھارہ عورتوں سے نکاح کاحکم دیاگیاہے ،اس لیے کہ ’مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ‘ یہاں معدول ہوکرآئے ہیں اور ’مَثْنٰی‘ سے مراد دونہیں،بلکہ دودوہیں اوراسی طرح دیگر اعداد کامعاملہ ہے ۔اس کے جواب میں عرض ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تو صاف طور پر بتا دیا گیا ہے کہ یہ اجازت صرف اورصرف آپ کے ساتھ خاص ہے،اس لیے اس کودلیل بنالیناممکن نہیں۔۵؂ پھر واؤ بھی یہاں جمع کے لیے نہیں ،بلکہ بدل کے طورپر آئی ہے۔مطلب یہ کہ تم میں سے کوئی دوسے ،کوئی تین سے اورکوئی چارسے نکاح کر لے۔اس لیے کہ اہل عرب نویااٹھارہ کہناچاہیں گے تووہ اس کے لیے اعدادکو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے اورپھرواؤ جمع لاکر کبھی بھی بیان نہیں کریں گے۔ مزید یہ کہ قرآن کامدعابھی اگریہی ہوتاتووہ سیدھانویااٹھارہ کاہندسہ استعمال کر دیتا، یوں حساب کاسوال بناکرپیش کرنے کی آخراس کو ضرورت کیا تھی۔

یہاں ایک نکتہ اٹھایاجاسکتاہے ۔مان لیاکہ ان الفاظ سے مراددوسے چارتک کے اعدادہیں،مگرکیااس سے یہ لازم بھی آتاہے کہ متکلم کے پیش نظر چارتک کی تحدیدکرناہے۔وہ ایک بھلائی کے کام کی ترغیب دے رہاہے، بالکل اسی طرح جس طرح کہاجائے کہ خداکی راہ میں فقیروں کودودوتین تین چارچارروپے دے دو۔اب ظاہرہے اس سے مقصودیہ نہیں ہوتا کہ کوئی پانچ روپے نہ دے۔بلکہ کلام کا سیاق مدنظررہے توزیادہ سے زیادہ دینامتکلم کامطلوب سمجھا جاتاہے۔اس نکتے کے جواب میں جن علما کی راے یہ ہے کہ اسلام میں کثرت ازواج کاجوازبے حد و حساب نہیں، بلکہ اس میں چار تک کا حصرپایاجاتاہے ،انھوں نے مختلف طریقوں سے اس حصرکوثابت کیاہے:

بعض علماکاکہناہے کہ قرآن میں چاہے تعدد ازواج کی تحدیدنہیں ہوئی،لیکن سب فقہاکااس پراجماع ہو جانا، یہی اس کی دلیل ہے۔سوال پیداہوتاہے کہ تعددازواج اگراپنی اصل میں جائزہے اورخدا اوررسول نے بھی اس کی کوئی حدمقرر نہیں کی توکیاعلماکااجماع یہ حیثیت رکھتا ہے کہ اس کوشارع قراردے دیاجائے اورصرف اسی بناپراس میں تحدیدکومان لیاجائے۔ظاہرہے خداکوشارع اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شارح ماننے والااورصرف قرآن وسنت کودین کاماخذ قراردینے والاکوئی بھی شخص اس بات سے مطمئن نہیں ہوسکتا۔

بعض حضرات کے نزدیک یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول کچھ روایات ہیں جوچارتک کے حصرکوبیان کرتی ہیں۔ ایک شخص کوجس کی دس بیویاں تھیں،آپ نے فرمایاکہ ان میں سے چارکواپنے ساتھ رکھ لواورباقی چھ کو چھوڑ دو۶؂ ۔ اسی طرح ایک شخص کی پانچ اورایک کی آٹھ بیویاں تھیں ،انھیں بھی آپ نے چاربیویاں رکھنے کی اجازت دی۔۷؂ ان روایات کی بنیادپربھی حصرکے استدلال کومان لینااتنا آسان نہیں۔اس لیے کہ روایات کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ یہ بالعموم شرعی احکام کے اطلاقات کو بیان کرتی ہیں جوقرآن مجیدیاپھرسنت میں پہلے سے موجودہوتے ہے۔مثال کے طورپر، ایک شخص مسلمان ہوااوراس کے عقدمیں دوسگی بہنیں تھیں۔آپ نے اس سے بھی یہی فرمایا: ’إختر أیتھما شئت‘،۸؂ یعنی ان میں سے کسی ایک کوساتھ رکھواوردوسری کوطلاق دے دو۔ ظاہرہے یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی مستقل بالذات حکم نہیں دے رہے ،بلکہ قرآن مجیدمیں موجود ’وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَیْْنَ الْاُخْتَیْْنِ‘ کے حکم کا اطلاق فرمارہے ہیں۔ ۹؂ بالکل اسی طرح ان تحدیدبیان کرنے والی روایات کا معاملہ ہے ،یہ بھی لازماًکسی نہ کسی حکم شرعی کااطلاق ہی بیان کررہی ہیں۔لیکن یہاں سوال پیداہوتاہے کہ وہ حکم شرعی کہاں مذکورہواہے کہ جس پریہ روایات مبنی ہیں۔اس کے جواب میں ہماری طالب علمانہ راے یہ ہے کہ وہ حکم شرعی قرآن ہی میں مذکورہواہے اوراس بات کی تفصیل کچھ یوں ہے:

آیت میں ’مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ‘ کے الفاظ اپنی نحوی تالیف کے لحاظ سے حال واقع ہوئے ہیں۔حال کسی نہ کسی عامل کاتقاضا کرتاہے اوروہ عامل یہاں فعل امر ’فَانْکِحُوْا‘ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ جس حال کاعامل فعل امرحقیقی ہو تو وہ معنوی اعتبارسے شرط کے مفہوم میں ہوتا ہے۔۰ا؂ چنانچہ اس آیت کاٹھیک لفظی ترجمہ یہ ہوگا: تم ان عورتوں میں سے جن کوموزوں خیال کرو،نکاح کرلو،شرط یہ ہے کہ وہ دودو ہوں، تین تین ہوں اورچارچار ہوں۔گویااس میں تعددازواج کاصرف حکم بیان نہیں ہوا،بلکہ یہ چارتک کی تحدیدکے ساتھ بیان ہواہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی آیت کایہی حصرہے کہ جس کااطلاق آپ نے مختلف موقعوں پرفرمایاہے۔

دوسرے یہ کہ یہاں تعددازواج کی ترغیب یتیموں کی فلاح و بہبودکی خاطردی گئی ہے۔اس کی رعایت رہے تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آیت میں زیادہ سے زیادہ نکاح کرنے کی ترغیب دی جاتی۔اس کوبیان کرنے کاایک طریقہ یہ تھاکہ زیادہ سے زیادہ نکاح کرو،یااسی طرح کے کچھ الفاظ ہوتے۔ یاپھرعددکاذکرہی نہ ہوتا،محض نکاح کرنے کاحکم ہوتااورہرکوئی اپنی استطاعت کے مطابق نکاح کرلیتا، جیسا کہ مثال کے طورپرانفاق کی ترغیب دیتے ہوئے جگہ جگہ اس اسلوب کو اختیارکیا گیاہے۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں کچھ اعدادکا ذکر کیا گیا ہے ،اس کے باوجودکہ عرب معاشرے میں چار سے زائد شادیوں کارواج معمول کی بات تھی اوراس کے باوجودکہ بہت سے لوگ اس کے لیے درکار وسائل بھی فراہم کرسکتے تھے۔سوکچھ مخصوص اعدادکا ذکر کرنا،اس بات کی بین دلیل ہے کہ متکلم کے پیش نظر یہاں کثرت ازواج میں تحدیدکو بطور شرط بیان کرنا مقصودہے۔

تیسرے یہ کہ آیت میں فرمایاہے: ’فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً‘۔ یعنی اگر ڈر ہو کہ تم دو، تین اور چار بیویوں میں انصاف نہ کر سکو گے تو ایک ہی بیوی رکھو۔ ان لفظوں سے بالبداہت معلوم ہوتاہے کہ یہ مان لیاگیاہے کہ چارتک میں عدل کیے جانے کا امکان ضرور پایاجاتاہے۔ دوسری جگہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوچارسے زائد شادیوں کی اجازت دی گئی تووہاں عدل کی شرط کوساقط کردیاگیا،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ چارسے زائدشادیوں میں عدل کاامکان نہیں ماناگیا۔۱۱؂ ان دونوں باتوں کایہ بدیہی نتیجہ نکلتاہے کہ آیت مذکورہ میں عدل چونکہ شرط کے طورپرآیاہے،اس لیے اب چارسے زائدنکاح کرناممنوع قرارپاگیاہے۔

چوتھے یہ کہ چارتک کی اس تحدیدپرقرآن نے ایک اورطریقے سے بھی مہرتصدیق ثبت کردی ہے۔سورۂ احزاب میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نکاح کے باب میں بعض خصوصی احکامات نازل ہوئے تواس میں بنیادی طور پر دو ہی باتیں فرمائی گئیں: ایک یہ کہ آپ پرچارسے زائدنکاح کرلینے میں کوئی پابندی نہیں اوردوسری یہ کہ عدل کی شرط بھی بعض وجوہات کی بناپراب آپ پر قائم نہیں رہی۔ الفاظ یہ ہیں: ’خَالِصَۃً لَّکَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ، قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْْہِمْ فِیْٓ اَزْوَاجِہِمْ وَمَا مَلَکَتْ اَیْْمَانُہُمْ لِکَیْْلَا یَکُوْنَ عَلَیْْکَ حَرَجٌ‘۔ ۱۲؂ ظاہر ہے ،اس کا مفہوم اس کے سواکچھ نہیں کہ عام لوگوں کے نکاح میں یہ دونوں چیزیں شرط کے طورپرموجودہیں۔

________

۱؂ پیدایش ۴: ۱۹۔

۲؂ محمد ۴۷: ۴۔

۳؂ النساء ۴: ۱۲۹۔

۴؂ فاطر ۳۵: ۱۔ یہاں اُس شبہے کابھی ازالہ ہوجاناچاہیے کہ اصل میں ’یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَآءُ‘ کے الفاظ ہیں جومذکورہ اعداد کے حقیقی ہونے پردلالت کرتے ہیں۔یہ دلیل صحیح ہوسکتی تھی اگریہ جملہ صرف فرشتوں کے پروں کے بارے میں آیا ہوتا، دراں حالیکہ ایسانہیں ہے۔

۵؂ الاحزاب ۳۳: ۵۰۔

۶؂ موطا مالک، رقم ۲۱۷۹۔

۷؂ شرح السنۃ، رقم ۲۲۸۹ا، ابوداؤد، رقم ۲۲۴۱۔

۸؂ ترمذی، رقم ۱۱۲۹۔

۹؂ النساء ۴: ۲۳۔

۱۰؂ اس اسلوب کی مثالیں قرآن میں کئی جگہ پردیکھ لی جا سکتی ہیں،جیسے: ’فَانْکِحُوْھُنَّ بِاِذْنِ اَھْلِھِنَّ ..... مُحْصَنٰتِ‘ (النساء ۴: ۲۵)، ’وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَۃً‘ (الاعراف ۷: ۲۰۵) اور ’وَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ‘ (الاعراف ۷: ۲۹) وغیرہا۔

۱۱؂ الاحزاب ۳۳: ۵۱۔

۱۲؂ الاحزاب ۳۳: ۵۰۔

____________

 

B