سوال: کتاب و سنت کی تصریحات سے یہ امر بخوبی ثابت ہے کہ اسلام کا سیاسی نظام شورائی نوعیت کا ہے۔ اس سلسلہ میں یہ امر وضاحت طلب ہے کہ شوریٰ کی نوعیت کیا ہو گی یعنی:
۱۔ کیا ارکان شوریٰ کی تعیین ثابت ہے یا امیر جس سے چاہے مشورہ کر لے۔
۲۔ کیا امیر مجلس مشاورت کے ارکان کی اکثریت کے فیصلہ کا پابند ہو گا؟
امید ہے کہ جناب اولین فرصت میں ان سوالات پر روشنی ڈالیں گے۔
جواب: ۱۔ اسلام میں جس شوریٰ کا حکم دیا گیا ہے، اس کی نوعیت یہ نہیں ہے کہ امیر جس راہ چلتے سے چاہے مشورہ کر لے، بلکہ قرآن و حدیث میں اس بات کی صاف تصریح ہے کہ انھی لوگوں سے مشورہ کیا جائے جو امت کے اندر اجتہاد و استنباط کی صلاحیت رکھنے والے ہیں، جن کی حیثیت ارباب حل و عقد اور اولوالامر کی ہے اور جو علم اور تقویٰ کی صفات سے متصف ہیں۔
یہ صفتیں لفظاً بھی قرآن و حدیث میں وارد ہوئی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین نے عملاً بھی ان صفات کو اہل شوریٰ میں ملحوظ رکھا ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق شوریٰ کے جتنے واقعات ملتے ہیں، ان سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ آپ قابل مشورہ امور میں انھی لوگوں کو مقدم رکھتے تھے جو علم، راے اور لوگوں کے اعتماد کے پہلو سے فوقیت رکھنے والے ہوتے تھے۔ کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی ہے جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکے کہ اہل الراے اور اصحاب اعتماد کو تو نظر انداز کر دیا ہو اور کسی عام آدمی سے مشورہ کر کے کسی قابل مشورہ امر کا فیصلہ کر دیا ہو۔
ٹھیک یہی طریقہ حضرات خلفاے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین کا تھا۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر، دونوں بزرگوں کا طریقہ یہ رہا ہے کہ جب کوئی اہم معاملہ قابل مشورہ سامنے آتا تو انصار و مہاجرین کے لیڈروں اور ان کے اصحاب علم کو بلاتے اور ان سے مشورہ حاصل کرتے۔ انصار و مہاجرین اس زمانہ میں پورے سواد امت کی رہنمائی کرتے تھے اور مدینہ منورہ ان سب کا مرکز تھا۔ ہجرت کے حکم نے تمام مسلمانوں کو وہاں اس طرح جمع کر دیا تھا کہ مدینہ سے باہر صرف وہی لوگ ہوتے جو یا تو جنگ و جہاد کے مقصد سے نکلے ہوئے ہوتے یا حکومت کی کسی دوسری اہم خدمت کے لیے بھیجے جاتے۔ ظاہر ہے کہ ان لوگوں سے مشورہ کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ البتہ جو اہل الراے مدینہ میں موجود ہوتے، وہ ضرور بلائے جاتے۔ بس اتنا فرق ہوتا کہ اگر کوئی بڑی اہمیت رکھنے والا معاملہ ہوتا تو انصار و مہاجرین اور قبائل کے سارے ہی قابل ذکر لوگ جمع کیے جاتے، ورنہ صرف خاص خاص لیڈروں سے ہی مشورہ کر لیا جاتا۔ یہ محض اس اعتماد پر کہ معاملہ ایسا سنگین نہیں ہے کہ دوسروں کو اگر نہ بلایا گیا تو اس سے ان کے اندر کوئی بے اعتمادی یا شکایت پیدا ہو گی۔
یہ ارباب حل و عقد یا اصحاب الراے جن کو شریک مشورہ کیا جاتا، اگرچہ موجودہ سیاسی مفہوم میں قوم کے منتخب نمایندے نہیں ہوتے تھے، اس لیے کہ اس زمانہ میں انتخابات کا موجودہ طریقہ روشناس نہیں ہوا تھا، لیکن یہ لوگ اپنے اپنے گروہوں کے معتمد نمایندے ضرور ہوتے تھے۔ ان کے معتمد ہونے کی دلیل یہ ہوتی تھی کہ ان گروہوں کے لوگ اپنے معاملات میں انھی کی طرف رجوع کرتے تھے۔
اہل عرب جاہلیت میں چونکہ قبائلی زندگی کے عادی تھے، اس وجہ سے ان کے لیے لیڈر کے بغیر زندگی بسر کرنا ناقابل تصور تھا۔ اسلام کے بعد قیادت کے متعلق ان کے اقدار اور پیمانے تبدیل ہو گئے، لیکن ہر گروہ نے اپنی یہ روایت باقی رکھی کہ اس کا کوئی نہ کوئی معین لیڈر ضرور ہو۔ چنانچہ جس طرح وہ جاہلیت میں اپنے معین لیڈروں کی رہنمائی اور ان کے مشوروں کی پابندی کرتے تھے، اسی طرح اسلام میں بھی وہ اس روایت کے پابند رہے۔ بس فرق اگر ہوا تو یہ ہوا کہ جاہلیت میں ان کے لیڈر ابولہب اور ابوجہل کے قسم کے لوگ ہوتے تھے، اسلام میں آکر ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہم کے قسم کے لوگ ہونے لگے۔
یہی لوگ تھے جن سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی عام اہمیت کے معاملات میں مشورے فرماتے تھے اور انھی سے حضرات شیخین بھی مشورے کرتے تھے۔ ان لوگوں کو کسی مشورہ میں نظرانداز نہیں کیا جاتا تھا، الاّآنکہ معاملہ کوئی عمومی اہمیت رکھنے والا نہ ہو یا اہمیت رکھنے والا تو ہو، لیکن اس کی نوعیت ایسی ہو کہ صرف مخصوص اصحاب علم و فن ہی اس کے بارے میں کوئی مشورہ دے سکتے ہوں۔ اس وجہ سے میں یہ تو قطعی راے رکھتا ہوں کہ حضرات شیخین کے زمانہ میں اہل شوریٰ بالکل متعین تھے۔ البتہ یہ ضرور ہوتا رہا ہے کہ معاملات کی نوعیت کے لحاظ سے، جیسا کہ عرض کیا گیا، کبھی تمام نمایندے بلائے جاتے اور کبھی صرف چوٹی کے خاص خاص لوگوں ہی سے مشورہ کر لیا جاتا۔ حضرت عمر کے زمانہ میں تو بڑی اور چھوٹی دو الگ الگ کونسلیں موجود تھیں جن کے ارکان کے نام الگ الگ مولانا شبلی نے ’’الفاروق‘‘ میں گنائے ہیں اور اس باب میں جو کچھ لکھا ہے، اپنی عادت کے مطابق مستند حوالوں سے لکھا ہے۔ آپ ’’الفاروق‘‘ اور حاجی معین الدین صاحب کی ’’خلفائے راشدین‘‘ میں متعلقہ ابواب پر ایک نظر ڈال لیجیے۔
۲۔ میں اس امر میں بھی بالکل یکسو ہوں کہ امیر کے لیے مجلس شوریٰ کی اکثریت کے فیصلوں کی پابندی ضروری ہے۔ اس کی اول دلیل تو وہی ہے جو صاحب ’’احکام القرآن‘‘ ابوبکر جصاص نے دی ہے کہ یہ شوریٰ کی فطرت کا اقتضا ہے کہ اہل شوریٰ کی اکثریت کے فیصلہ کو تسلیم کیا جائے، اس لیے کہ یہ بات بالکل بے معنی سی معلوم ہوتی ہے کہ اسلام میں شوریٰ کا حکم تو اس شد و مد سے دیا جائے اور مقصود صرف یہ ہو کہ چند لوگوں کو شریک مشورہ کر کے ذرا ان کی دل داری اور عزت افزائی کر دی جائے، امیر کے لیے ان کے مشوروں کی پابندی ضروری نہ ہو۔ صاحب ’’احکام القرآن‘‘ کے نزدیک یہ شکل لوگوں کی دل داری اور عزت افزائی کی نہیں، بلکہ الٹا ان کی دل شکنی اور توہین کے مترادف ہے۔
دوسری دلیل اس کی یہ ہے کہ ایک شخص کے مقابل میں ایک جماعت کی راے بہرحال اپنے اند رصحت و اصابت کے زیادہ امکانات رکھتی ہے، اس وجہ سے عقل و فطرت کا تقاضا یہی ہے کہ امیر اپنی تنہا راے کے مقابل میں یا اپنے چند ہم خیالوں کی راے کے مقابل میں اکثریت کی راے کو رد نہ کرے۔ آخر ایک اجتہادی یا مصلحتی معاملہ میں اس کو یہ علم کس طرح ہوا کہ اس کی راے صحیح اور دوسروں کی راے غلط ہے۔ صحت اور غلطی کا امکان دونوں طرف ہے، لیکن صحت کا غالب امکان اس طرف ہے جدھر اکثریت ہے۔ چنانچہ اسی بنیاد پر فرد کے مقابل میں جمہور کے مسلک اور انفرادی اجتہاد کے بالمقابل اجماع کو شریعت میں ترجیح دی گئی ہے۔
اس کی تیسری دلیل یہ ہے کہ خلفاے راشدین کے زمانہ کی کوئی ایک مثال بھی ہمارے سامنے ایسی نہیں ہے جس سے یہ ثابت کیا جا سکے کہ انھوں نے کسی قابل مشورہ امر میں لوگوں سے مشورہ کیا ہو اور پھر ان کے متفق علیہ مشورہ یا ان کی اکثریت کی راے کے خلاف قدم اٹھایا ہو۔ خلفاے راشدین تو درکنار خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ آپ نے بھی جس معاملہ میں لوگوں سے مشورہ لیا، اس میں اکثریت کے فیصلہ کے مطابق ہی عمل کیا۔ کوئی ایک مثال بھی اس کی خلاف ورزی کی حضور سے منقول نہیں ہے، حالاں کہ حضور نہ تو کسی معاملہ میں لوگوں کے مشورہ کے محتاج تھے اور نہ کسی مشورہ کی پابندی آپ کے لیے لازمی قرار دی جا سکتی تھی۔
صرف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی زندگی سے دو واقعے ایسے پیش کیے جاتے ہیں جن سے بعض حضرات یہ استدلال کرتے ہیں کہ امیر اپنی تنہا راے کے ذریعہ سے اہل شوریٰ کے متفقہ فیصلہ یا ان کی اکثریت کی راے کو رد (VETO) کر سکتا ہے۔ ایک حضرت ابوبکر کا موقف مانعین زکوٰۃ سے جنگ کے معاملہ میں، دوسرا لشکر اسامہ کی روانگی کے معاملہ میں، لیکن میرا خیال یہ ہے کہ ان دونوں مواقع پر حضرت ابوبکر نے جو موقف اختیار فرمایا، اس کو عام طور پر غلط سمجھا گیا ہے، اس وجہ سے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اختصار کے ساتھ میں یہاں ان کے موقف کی وضاحت کر دوں۔
پہلے مانعین زکوٰۃ کے معاملہ کو لیجیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عرب کے جو قبائل مرتد ہو گئے تھے، ان میں ایک گروہ ان لوگوں کا بھی تھا جو کہتے تھے کہ ہم نماز تو پڑھیں گے، لیکن زکوٰۃ نہیں ادا کریں گے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کو بہ زور شمشیر ادائیگی زکوٰۃ پر مجبور کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ معاملہ ان کے نزدیک شریعت کے ان واضح اور منصوص مسائل میں سے تھا جن کے بارے میں دو رائیں نہیں ہو سکتی تھیں۔ اس وجہ سے اس میں انھوں نے شوریٰ سے مشورہ حاصل کرنے کا اپنے کو پابند نہیں سمجھا، بلکہ روزہ، نماز، حدود، تعزیرات اور اس قسم کے دوسرے مسائل کی طرح اس میں بہ حیثیت خلیفہ اپنی ذمہ داری خدا کے قانون کی تنفیذ سمجھی۔ چنانچہ انھوں نے اپنے اسی نقطۂ نظر کے مطابق یہ فیصلہ کر لیا کہ اگر یہ اسلامی بیت المال کو زکوٰۃ ادا نہ کریں تو ان کو طاقت کے زور سے اطاعت پر مجبور کیا جائے۔
جب لوگوں کو ان کے اس فیصلہ کا علم ہوا تو کچھ لوگوں نے ان سے کہا کہ ابھی اسلام کا معاملہ نیا نیا ہے، مخالفین کی تعداد زیادہ ہے اور ہم تھوڑے ہیں، بہ یک وقت سارے عرب کا مقابلہ مشکل ہو گا۔ اس وجہ سے بہتر ہو گا کہ اگر یہ لوگ نماز کا اقرار کرتے ہیں تو صرف زکوٰۃ کے لیے ان سے جنگ نہ کی جائے، بلکہ جس حد تک بھی یہ دین کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہیں، اسی پر قناعت کر لی جائے۔ ان لوگوں نے اپنے نقطۂ نظر کی تائید میں ایک حدیث بھی پیش کی کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’أمرت أن أقاتل الناس حتٰی یقولوا لا إلٰہ إلا اللّٰہ فإذا قالوھا عصموا منی دِماء ھم وأموالھم إلا بحقھا وحسابھم علی اللّٰہ‘* (مجھے یہ حکم ملا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں، یہاں تک کہ وہ لا الٰہ کا اقرار کریں، جب وہ اس کا اقرار کر لیں گے تو ان کی جانیں اور ان کے مال میری طرف سے محفوظ ہو جائیں گے، مگر اسی کلمہ کے کسی حق کے تحت اور ان کے باطن کا محاسبہ اللہ کے ذمہ ہے) حضرت ابوبکر نے اس کے جواب میں فرمایا کہ یہ زکوٰۃ تو اس کلمہ کے حقوق میں شامل ہے اس وجہ سے ان لوگوں سے جنگ ناگزیر ہے۔
جب لوگوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اپنے فیصلہ پر بالکل عازم پایا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ وہ اس معاملہ میں حضرت ابوبکر سے گفتگو کریں۔ جب حضرت عمر نے گفتگو کی تو حضرت ابوبکر نے ان کے سامنے اوپر والی حدیث کی وضاحت ایک دوسری حدیث کی روشنی میں کی کہ ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: ’أمرت أن أقاتل الناس علی ثلاث: شہادۃ أن لا الٰہ إلا اللّٰہ وإقام الصلٰوۃ وإیتاء الزکٰوۃ‘ (مجھے حکم ملا ہے کہ میں تین چیزوں پر لوگوں سے جنگ کروں: کلمۂ لا الٰہ الا اللہ کی شہادت پر، نماز قائم کرنے پر، زکوٰۃ کی ادائیگی پر)۔ پس اس خدا کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں اس سے کم پر قناعت نہیں کروں گا۔ اگر یہ لوگ اس زکوٰۃ میں سے ایک جانور بھی روکیں گے جو رسول اللہ کو ادا کرتے رہے ہیں تو میں اس کے لیے بھی ان سے جنگ کروں گا، یہاں تک کہ اللہ جو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے، میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کر دے۔ اگر میں ان لوگوں سے جنگ کرنے کے لیے کسی کو بھی نہ پاؤں گا تو ان سے تنہا جنگ کروں گا۔
ان کی اس وضاحت اور اس عزم بالجزم کے اظہار کے بعد لوگ مطمئن ہو گئے۔ بالآخر انھوں نے مانعین زکوٰۃ پر فوج کشی کی اور ان کو بیت المال کو زکوٰۃ ادا کرنے پر مجبور کر دیا۔ لوگوں نے ان کے اس اقدام کو اس قدر پسند کیا کہ ابورجاء عطاروی بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ لوگ جمع ہیں اور حضرت عمر حضرت ابوبکر کا سر بار بار چومتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ میں آپ کے قربان جاؤں۔ اگر آپ نہ ہوتے تو ہم تو تباہ ہو گئے ہوتے۔
میں نے یہ سارا بیان ابن قتیبہ کی ’’الامامۃ والسیاسۃ‘‘** سے لیا ہے اور بغیر کسی تصرف کے اس کا ترجمہ کر دیا ہے۔ اس کو پڑھنے اور اس پر غور کرنے سے چند حقیقتیں بالکل واضح طور پر سامنے آتی ہیں۔
ایک یہ کہ یہ معاملہ شوریٰ اور امیر کے درمیان کا کوئی معاملہ نہیں تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کو شوریٰ کے سامنے پیش ہی نہیں کیا تھا۔ شوریٰ کے سامنے وہ مسائل پیش ہوتے ہیں جو اجتہاد اور امور مصلحت سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں۔ یہ معاملہ دین کا ایک منصوص مسئلہ ہے۔ اسلامی حکومت میں کسی ایسی جماعت کے بہ حیثیت مسلم حقوق شہریت باقی نہیں رہتے جو بیت المال کو زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کر دے۔ یہ چیز اسلامی قانون میں طے شدہ ہے۔ اس وجہ سے حضرت ابوبکر کی ذمہ داری یہ نہیں تھی کہ وہ اس کو شوریٰ کے سامنے رکھتے، بلکہ بہ حیثیت خلیفہ ان کی ذمہ داری صرف یہ تھی کہ وہ اس بارے میں قانون کی تنفیذ کرتے۔ چنانچہ انھوں نے یہی کیا۔ اس کو مثال سے یوں سمجھیے کہ اسلامی حکومت کے حدود میں کوئی جماعت اگر قتل و غارت شروع کر دے تو خلیفہ کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ اس جماعت کی سرکوبی کے لیے شوریٰ سے اجازت حاصل کرے، بلکہ اس کا فرض ہے کہ قرآن نے محاربین کے لیے جو قانون بتایا ہے، اس کی تنفیذ کے لیے اپنے اختیارات بے دھڑک استعمال کرے۔
دوسری یہ کہ جن لوگوں نے امیر کے اس اقدام سے متعلق تردد کا اظہار کیا، ان کو ایک حدیث کے سمجھنے میں غلط فہمی ہو رہی تھی۔ حضرت ابوبکر نے اس حدیث کے اجمال کو ایک دوسری حدیث سے، جو انھوں نے خود حضور سے سنی تھی، واضح کر دیا جس سے لوگ مطمئن ہو گئے۔ ظاہر ہے کہ اس زمانہ کے لوگوں کے نزدیک اس حدیث سے زیادہ وقیع حدیث اور کون ہو سکتی تھی جس کے راوی خود حضرت ابوبکر صدیق ہوں۔
تیسری یہ کہ حضرت ابوبکر نے یہ جو فرمایا کہ اگر ان لوگوں سے لڑنے کے لیے میں کسی کو نہیں پاؤں گا تو میں تنہا ان سے لڑوں گا، یہ شوریٰ کے کسی فیصلہ کو ویٹو کرنے والی بات نہیں ہے، بلکہ یہ اس ذمہ داری کا صحیح صحیح اظہار و اعلان ہے جو دین کے واضح اور قطعی احکام کی تنفیذ اور ان کے اجرا سے متعلق بہ حیثیت خلیفہ ان پر عائد ہوتی تھی۔ اسلام میں خدا اور اس کے رسول کے احکام کی تنفیذ کے لیے خلیفہ کی اصل ذمہ داری یہی ہے کہ وہ ان کی تنفیذ کے لیے اپنی جان لڑا دے، اگرچہ ایک شخص بھی اس کا ساتھ نہ دے۔ جمہور کے مشوروں کا پابند وہ، جیسا کہ عرض کیا گیا، مصلحتی اور اجتہادی امور میں ہے، نہ کہ شریعت کی قطعیات میں۔
اسی طرح لشکر اسامہ کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی ساری تیاریاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضور کی حیات مبارک ہی میں ہو چکی تھیں۔ اس کے لیے اشخاص بھی حضور کے منتخب کردہ تھے۔ اس کے لیے جھنڈا بھی خود حضور نے باندھا تھا، یہاں تک کہ اگر حضور کی علالت نے تشویش انگیز شکل نہ اختیار کر لی ہوتی تو یہ لشکر روانہ ہو چکا ہوتا۔ اسی دوران میں حضور کا وصال ہو گیا اور حضور کے بعد حضرت ابوبکر خلیفہ ہوئے۔ انھوں نے خلیفہ ہونے کے بعد قدرتی طور پر اپنی سب سے بڑی ذمہ داری یہ سمجھی کہ حضور جس لشکر کے بھیجنے کی ساری تیاریاں اپنے سامنے کر چکے تھے اور جس کے جلد سے جلد بھیجنے کے دل سے آرزو مند تھے، اس لشکر کو اس کی پیش نظر مہم پر روانہ کریں۔ بہ حیثیت خلیفۂ رسول ان کی سب سے بڑی ذمہ داری اور ان کے لیے سب سے بڑی سعادت اس وقت اگر کوئی ہو سکتی تھی تو بلاریب یہی ہو سکتی تھی کہ وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے منشا کو پورا کریں۔ اس کام کے لیے وہ شوریٰ سے کسی مشورہ کے محتاج نہ تھے، کیونکہ اس لشکر کے بھیجنے کے فیصلہ سے متعلق سارے امور خود حضور کے سامنے، بلکہ حضور کے حکم سے طے پا چکے تھے۔ پیغمبر کے خلیفہ کی حیثیت سے ان کا کام پیغمبر کے فیصلہ کو نافذ کرنا تھا نہ کہ اس کو بدل دینا۔ چنانچہ کچھ لوگوں نے جب وقت کے مخصوص حالات کی بنا پر اس لشکر کی روانگی کو خلاف مصلحت قرار دیا تو انھوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ جس جھنڈے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا ہے، میں اس کو کھولنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔
بہرحال، یہ دونوں واقعے کسی طرح بھی اس بات کی دلیل نہیں بن سکتے کہ خلیفہ کو شوریٰ کے فیصلے رد کر دینے کا حق ہے۔ یہ اگر دلیل ہیں تو اس بات کی دلیل ہیں کہ خدا اور رسول کے قطعی اور واضح احکام کی تنفیذ کے معاملہ میں خلیفہ شوریٰ سے مشورہ حاصل کرنے کا پابند نہیں ہے، بلکہ اس کی ذمہ داری صرف ان احکام کی تنفیذ ہے۔
اس ساری تفصیل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اسلام میں شوریٰ متعین بھی ہے اور امیر اس کی اکثریت کے فیصلوں کا پابند بھی ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں چونکہ تمام اہل الراے، جیسا کہ عرض کیا گیا، مرکز میں مجتمع رہتے تھے، جماعتوں اور قبیلوں کے لیڈر وقت کے نظام معاشرت کے تقاضے کے تحت معین ہوتے تھے، نیز مملکت کا دائرہ بہت زیادہ وسیع نہ تھا، اس وجہ سے یہ شورائی نظام بہت سادہ اور بسیط قسم کا تھا۔ اس زمانہ میں حالات بہت مختلف ہیں، اس وجہ سے شوریٰ کو متعین کرنے کے لیے بعض ضروری اصلاحات کے ساتھ انتخابات کے جدید طریقوں کو اختیار کیا جا سکتا ہے اور شوریٰ اور امیر کے باہمی تعلقات کی تعیین کے لیے ضروری قوانین بھی بنائے جا سکتے ہیں۔ ایسا کرنا اسلام کے منشا کے خلاف نہ ہو گا۔
(تفہیم دین ۱۲۶۔۱۳۳)
________
* ترمذی، رقم ۳۳۴۱۔
** ۱/ ۱۹۔
____________