HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت عمرو بن عبسہ رضی اﷲ عنہ

عرب عدنان، قحطان اور قضاعہ کی ذریت ہیں۔ ان میں سے عدنان بن ادد(یا اد)ہی واحد شخص ہیں جن کے اولاد اسمٰعیل علیہ السلام ہونے میں کسی نے شک نہیں کیا۔مضر عدنان کے پڑپوتے تھے، سُلیم بن منصور قیس عیلان بن مضرکے سکڑپوتے تھے جن سے بنوسُلیم کا قبیلہ منسوب ہوا۔ یہ قبیلہ بالائی نجد میں خیبر کے قرب و جوار میں بودوباش رکھتا تھا، حضرت عمروبن عبسہ اسی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ حضرت عمرو کے دادا کا نام خالد بن عامر(ابن حجر)یا عامر بن خالد (ابن عبدالبر،ابن اثیر)تھا۔تیسری روایت(ابن سعد) کے مطابق خالد بن حذیفہ ان کے دادا تھے۔ چوتھی روایت ابن حزم نے ’’جمہرۃ انساب العرب‘‘ میں بیان کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ منقذبن خالد حضرت عمرو بن عبسہ کے دادا اور حذیفہ سکڑدادا تھے۔ سُلیم ان کے آٹھویں (ابن عبدالبر، ابن حجر)یا دسویں( ابن سعد)جد تھے، اس نسبت سے وہ سلمی اور اپنے ساتویں جد مالک بن ثعلبہ کی زوجہ بجلہ بنت ہناۃ کی نسبت سے بجلی کہلاتے ہیں۔ابونجیح یا ابو شعیب ان کی کنیت تھی۔ حضرت عمروبن عبسہ حضرت ابوذر غفاری کے ماں جاے بھائی تھے۔ رملہ بنت وقیعہ غفاریہ دونوں اصحاب کی والدہ تھیں۔ابن جوزی نے حضرت عمرو کے والد کا نام عنبسہ تحریر کیا ہے۔

حضرت عمرو بن عبسہ سلیم الطبع تھے اور زمانۂ جاہلیت ہی میں بت پرستی سے کنارہ کش ہو چکے تھے۔اپنی نیک فطرت کی وجہ سے انھوں نے اسلام کی طرف لپکنے میں بھی پہل کی ۔ خود فرماتے ہیں: میں ایمان لانے والا چوتھا شخص تھا۔ ابوامامہ باہلی نے حضرت عمرو سے پوچھا: آپ بنوسلیم کے ایک فرد اور صاحب حیثیت بزرگ ہیں ۔ اپنے آپ کو اسلام میں داخل ہونے والا چوتھا فرد کس طرح قرار دیتے ہیں؟انھوں نے بتایا: زمانۂ جاہلیت ہی میں میرا خیال تھا کہ ہماری قوم گمراہ ہو چکی ہے۔یہ بتوں کی پوجا کرتے ہیں اور ان کا کوئی دین نہیں۔ایک بار میں ایسی ہی گفتگو کر رہا تھا کہ کسی آدمی نے سن کر کہا: مکہ میں ایک شخص ہے جو یہی بات کرتاہے، میں نے سواری پکڑی اور مکہ پہنچ گیا۔ آپ کا کھوج لگاتا رہا، پھر پتا چلا کہ آپ مخفی رہتے ہیں۔ رات کے وقت خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں ،اس وقت آپ سے ملا جا سکتا ہے۔ میں کعبہ کے پردوں میں چھپ کر سو گیا اور آپ کی آواز سن کر بیدار ہوا۔ آپ لا الٰہ الا اﷲ کا ورد کررہے تھے۔ میں باہر نکلااور پوچھا: آپ کون ہیں؟ فرمایا: میں اﷲ کا نبی ہوں۔ پوچھا: نبی کیا ہوتا ہے؟ فرمایا: اﷲ کا رسول (پیغمبر)۔ میں نے پھر پوچھا: کیا اﷲ نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے؟ فرمایا: ہاں۔ میں نے سوال کیا: کیا پیغام دے کرآپ کو مبعوث کیا ہے؟ فرمایا: یہ کہ اﷲ اکیلے کو معبود مانا جائے اور کسی کو بھی اس کا شریک نہ بنایا جائے،بتوں کو توڑ دیا جائے، رحم کے رشتوں کو جوڑا جائے ،خون ریزی بند کی جائے اور راستوں کو محفوظ بنایا جائے۔ میں نے پوچھا: اس دین میں آپ کا ساتھ کون دے رہا ہے؟ جواب فرمایا: ایک آزاد اور ایک غلام۔ تب سیدنا ابوبکر اور سیدنا بلال آپ کے ساتھ تھے۔ میں نے کہا: ہاتھ بڑھائیے، میں آپ کی بیعت کرتا ہوں۔ تب میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دست مبارک پر اسلام کی بیعت کی۔ پھر کہا: میں آپ کے ساتھ ساتھ رہوں گا۔ آپ نے فرمایا: تم دیکھ نہیں رہے کہ لوگ میرے لائے ہوئے نور ہدایت کو نا پسند کر رہے ہیں، اس لیے آج تم یہاں رہ نہیں سکو گے،اپنے اہل خانہ کے پاس واپس چلے جاؤ اور جب یہ سنو کہ میں مکہ سے نکل آیا ہوں(یا مجھے غلبہ حاصل ہو گیا ہے) تو میرے پاس چلے آنا (مسلم، رقم ۱۸۸۲۔ احمد، رقم ۱۶۹۵۳)۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ آپ کے ارشاد ’غلام ‘اور ’آزاد‘کا اطلاق محض سیدنا ابوبکر و سیدنا بلال پر کرنا درست نہیں۔ ان الفاظ کو اسماے جنس سمجھنا چاہیے، اس لیے کہ صحابہ کی ایک جماعت حضرت عمروبن عبسہ سے پہلے اسلام قبول کر چکی تھی۔ مثلاً آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے غلام حضرت زید بن حارثہ، سیدنا بلال سے بھی پہلے ایمان لا چکے تھے۔ حضرت عمرو بن عبسہ اپنے آپ کو چوتھا مسلمان اپنی معلومات کے مطابق قرار دیتے ہیں، کیونکہ اس وقت مسلمان اپنا اسلام چھپاتے تھے۔ ان کے ایمان کا علم ان کے رشتہ داروں کی اکثریت کو نہ ہوتا تھا کجا اجنبیوں اور اہل بادیہ کو یہ خبر مل پاتی۔

اسلام لانے کے بعد حضرت عمروبن عبسہ بنو سُلیم کے علاقوں صُفینہ اور حاذہ(جادہ)میں مقیم رہے۔خود بیان کرتے ہیں کہ میں مسلمان ہونے کے بعد اپنے گھروالوں کے پاس چلاآیا اور ایک لمبا عرصہ آپ کی اطلاع آنے کا انتظار کرتا رہا۔ ہمار اگھر قافلوں کی گزرگاہ سے زیادہ دور نہ تھا۔میں مکہ سے آنے و الے قافلوں سے پوچھتا رہتا،کیا وہاں کوئی واقعہ رونما ہوا ہے؟ اس طرح مجھے پتا چل گیا کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کر کے یثرب تشریف لے آئے ہیں۔پھر یثرب سے ایک قافلہ آیا تو میں نے استفسار کیا ،مکہ کے اس شخص کے کیا احوال ہیں جو آپ کے شہر میں ہجرت کر آیا ہے؟ انھوں نے بتایا کہ آپ کی قوم نے آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا، لیکن مشیت ایزدی حائل ہوئی اور دشمن کامیاب نہ ہو سکے۔ میں لوگوں کو چھوڑ کر بھاگا ،اپنی سواری پکڑی اور مدینہ چلا آیا۔آپ کے پاس پہنچا اور پوچھا: کیا آپ نے مجھے پہچان لیا ہے؟ فرمایا: ہاں تو وہی ہے جو مکہ میں میرے پاس آیا تھا۔ میں نے گزارش کی کہ اﷲ نے آپ کو جو سکھایا ہے، مجھے بھی اس میں سے تلقین کیجیے۔آپ نے فرمایا: جب تو فجر کی نماز ادا کر لے تو سورج طلوع ہونے تک کوئی نفلی نماز نہ پڑھنا۔ طلوع ہونے کے بعد بھی جب سورج چمڑے کی ڈھال کی طرح سرخ ہو، نماز میں مشغول نہ ہونا،کیونکہ یہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان سے نکلتا ہے اور اس وقت کفار اسے سجدہ کرتے ہیں۔سورج جب ایک نیزہ یا دو نیزوں کی مقدار کے برابر بلند ہو جائے تو نوافل پڑھنا،اس لیے کہ اس وقت نماز حضوری کے ساتھ پڑھی جاتی ہے اور مقبول ہوتی ہے۔ سورج بلندہونے میں ایک نیزہ کے برابرکسر رہ جائے (یا آدمی کا سایہ ہم مثل ہو جائے)تو بھی نماز ادا کرنے سے رک جانا، کیونکہ یہ وہ وقت ہے جب جہنم دہکائی جاتی ہے۔ جب سایہ مشرق کی جانب ڈھل جائے تو نماز میں مصروف ہوجانا ،اس وقت نماز مقبول و مشہود ہوتی ہے۔ یہ وقت تب تک رہتا ہے جب تم عصر کی نماز پڑھ لو۔ عصر کے بعد سورج ڈوبنے تک نماز نہ پڑھنا، اس لیے کہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے مابین غروب ہوتاہے۔تب کفار اس کے آگے ماتھا ٹیکتے ہیں۔ حضرت عمروبن عبسہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا، یا رسول اﷲ! مجھے وضو کے بارے میں بتائیے۔آپ نے فرمایا: تم میں سے جو کوئی بھی وضوکر کے قربت الٰہی حاصل کرنا چاہتا ہے، کلی کرتا ہے اور پانی پھینکتا ہے، پھر ناک میں پانی ڈالتا ہے اور نکالتا ہے تو اس کے منہ اور ناک کے دونوں اطراف کے گناہ پانی میں بہ جاتے ہیں۔ وہ جب منہ اس طرح دھوتا ہے، جس طرح اﷲ کا حکم ہے تو اس کے چہرے کے گناہ دھل کر ڈاڑھی کے کناروں سے گر جاتے ہیں۔جب وہ ہاتھوں کو کلائیوں سمیت دھوتا ہے تو اس کے ہاتھوں کے گناہ انگلیوں کے پوروں کے کناروں سے پانی کے ساتھ بہ جاتے ہیں۔ وضو کرنے والا جب اﷲ کے ارشاد پر عمل کرتے ہوئے سر پر مسح کرتا ہے تو اس کے سر کے گناہ بالوں کے سروں سے پانی کے ساتھ چلے جاتے ہیں۔ آخر میں وہ پاؤں ٹخنوں سمیت دھوتا ہے، جیسے اس کو اﷲ کا حکم ہے ،اس کے قدموں کے گناہ انگلیوں کی پوروں کے کناروں سے پانی میں بہ جاتے ہیں۔ وضو کرنے والا پھر کھڑا ہوتا ہے اوران الفاط میں اﷲ کی حمد وثنا کرتا ہے جس کا وہ حق دار ہے اور دوگانہ ادا کرتا ہے تو اس کے تمام گناہ جھڑ جاتے ہیں،اس دن کی طرح جب اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ راوی ابوامامہ نے کہا: جناب عمروبن عبسہ، دیکھیے تو سہی، آپ کیا کہہ رہے ہیں؟کیاآپ نے یہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے سن رکھا ہے؟کیا وضو کرنے اور نماز پڑھنے والے کو یہ سب کچھ اسی وقت مل جائے گا؟ حضرت عمرونے جواب دیا: اے ابوامامہ، میں بوڑھا ہو گیا ہوں، ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں اورموت قریب آ گئی ہے،مجھے کیا ضرورت کہ اﷲ اور اس کے رسول پر جھوٹ باندھوں؟ میں نے یہ ارشاد آپ سے ایک دو بار نہیں، بلکہ سات دفعہ سنا ہے (مسلم، رقم ۱۸۸۲۔ نسائی، رقم ۱۴۷۔ احمد، رقم ۱۶۹۵۶)۔ اس سے ملتی جلتی دوسری روایت میں اضافہ ہے کہ یا نبی اﷲ، کون سی گھڑی ہے جس میں دعا اور نماز سب سے زیادہ مقبول ہوتی ہے؟ آپ نے فرمایا: رات کا آخری پہر ،رب اس وقت اپنے بندے کے قریب ترین ہوتا ہے۔ اگر تو اس گھڑی اﷲ کا ذکر کر سکتا ہے تو ضرور کر (ابو داؤد، رقم ۱۲۷۷۔ نسائی، رقم ۵۷۳)۔

ابو امامہ ہی کی دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عمرو بن عبسہ نے بتایا: میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے اس وقت ملا جب آپ بازارعکاظ میں تشریف لائے ہوئے تھے۔ایمان لانے کے بعد میں نے پوچھا: یا رسول اﷲ، میں آپ کے ساتھ رہوں یا اپنی قوم میں واپس چلا جاؤں؟ فرمایا: اپنی قوم کے ساتھ رہو، حتیٰ کہ اﷲ تمھارے رسول کو طاقت دے دے۔ چنانچہ میں فتح مکہ سے کچھ دیر پہلے مدینہ آیااور سلام کے بعد عرض کیا: یا رسول اﷲ ،میں عمروبن عبسہ سلمی ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ سے وہ پوچھوں جوآپ جانتے ہیں اور میں نہیں جانتا،جومیرے لیے نفع بخش ہو اور آپ کے لیے باعث ضرر نہ ہو ۔کون سی گھڑ ی بہترین ہے ؟کون سا وقت ہے جس میں تقویٰ حاصل کیا جا سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: تو نے وہ بات پوچھی ہے جو تم سے پہلے کسی نے نہیں پوچھی۔اﷲ رات کے درمیانی حصے میں خوب توجہ فرماتا ہے اور شرک و بغاوت کے علاوہ تمام گناہ معاف فرمادیتا ہے۔ اس وقت نمازبڑی حضوری سے ادا ہوتی ہے اور خوب مقبول ہوتی ہے۔تو سورج طلوع ہونے تک نماز پڑھ سکتا ہے(احمد، رقم ۱۹۳۲۶۔مستدرک حاکم، رقم ۴۴۱۹)۔

ابوامامہ سے مروی تیسری روایت اس طرح ہے کہ حضرت عمرو بن عبسہ نے بتایا: جاہلیت میں، میں اپنی قوم کے خداؤں سے متنفر تھا۔میرا خیال تھا کہ یہ نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتے۔میں اہل کتاب میں سے ایک شخص سے ملا جو وادی القریٰ کے پاس واقع یہودیوں کے مسکن تیما کا رہنے والا تھااور اسے بتایا: میں بتوں کی پوجا کرنے والی قوم سے تعلق رکھتا تھا۔ایک بار ہمارا قبیلہ ایسی جگہ قیام پذیر ہوا جہاں کوئی صنم نہ تھا۔ایک شخص نکلا اور چار پتھر اٹھا لایا،تین پتھروں کا چولہا بنا کر اس پر ہنڈیا چڑھا دی اورسب سے عمدہ اور خوب صورت نظر آنے والے چوتھے پتھر کومعبود بنا کر پوجنے لگا۔ممکن تھا کہ کوچ کرنے سے پہلے اسے اس سے اچھا پتھر ملتا تو پہلے صنم کو پھینک کر اس کی بندگی کرنے لگتا۔تب مجھے احساس ہوا کہ یہ معبودان باطلہ ہیں،نفع پہنچا سکتے ہیں نہ ضرر ۔آپ مجھے اس دین سے بہتر دین کی راہ سجھائیے۔اس نے بتایا کہ مکہ سے ایک شخص ظاہر ہو گا ،اپنی قوم کے معبودوں سے بے زاری کا اظہار کرے گا اور انھیں چھوڑ کر معبود واحد کی طرف بلائے گا۔وہی بہترین دین پیش کرے گا۔ جب تو اس کا کلام سن لے تو اس کی پیروی کرنا۔اب مکہ جانا ہی میرا مقصد بن گیا۔ میں پوچھتا رہتا: کیا وہاں کوئی واقعہ رونما ہوا ہے؟پھر وہ وقت آیا کہ ایک سوار مکہ سے آیا اور اس نے وہی واقعات سنائے جو میں مذکورہ اہل کتاب سے سن چکا تھا۔میں نے رخت سفر باندھا اور مکہ پہنچ گیا۔

حضرت جُبیر بن نفیر کہتے ہیں کہ حضرت ابوذر غفاری اور حضرت عمرو بن عبسہ دونوں کہا کرتے تھے: ’’میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے آپ کو چوتھا مسلمان پایاہے۔مجھ سے پہلے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم ،ابوبکر اور بلال کے علاوہ کوئی اسلام نہ لایا تھا۔‘‘ دونوں حضرات یہی کہا کرتے ،ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ ان میں سے دوسرا کب ایمان لایا۔ اہل صفہ میں شامل مشہور صحابی حضرت عرباض بن ساریہ بھی بنوسُلیم سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ بھی حضرت عمرو بن عبسہ کی طرح اسلام کے ابتدائی زمانے میں ایمان لائے۔

بدر، احد اور خندق کی جنگیں ہو چکیں تو حضرت عمرو بن عبسہ مدینہ پہنچے اور یہاں سکونت اختیار کر لی۔ایک روایت میں ہے کہ وہ فتح خیبر کے بعد مدینہ آئے (مسلم، رقم ۸۳۲)۔

حضرت عمرو بن عبسہ غزوۂ طائف میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے۔ خود روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ طائف کے قلعے کا محاصرہ کیا۔ میں نے آپ کو یہ ارشاد فرماتے سنا: جس نے ایک تیر پھینکا ،اسے جنت میں ایک درجہ حاصل ہو جائے گا۔چنانچہ اس روز میں نے سترہ تیر برسائے۔ حضرت عمرو مزید بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ فرماتے بھی سنا: جس نے اﷲکی راہ میں ایک تیر چلایا، دشمن کو لگا یا نہ لگ سکا،ایک غلام آزاد کرنے کے برابرثواب پائے گا۔جس نے اﷲکی راہ میں اپنا بڑھاپا گزارا، روز قیامت اس کے لیے نور کا کام دے گا۔ جس نے ایک مسلمان غلام آزاد کیا،اﷲ تعالیٰ غلام کی ہر ہڈی کے بدلے میں اس کی ہر ہڈی بچائے گا۔اور جس کسی نے مومنہ عورت آزاد کی ،اﷲ تعالیٰ عورت کی ایک ایک ہڈی کے بدلے میں آزاد کرنے والے کی ایک ایک ہڈی کو دوزخ سے بچا لے گا (ابوداؤد، رقم ۳۹۶۵۔ ترمذی، رقم ۱۶۳۵۔ نسائی، رقم ۳۱۴۴)۔

حضرت عمرو بن عبسہ نے غزوۂ فتح مکہ میں شرکت کی۔

حضرت کعب کے غلام نے بیان کیا: ہم حضرت عمروبن عبسہ، حضرت مقدادبن عمرو اور حضرت مسافع بن حبیب کے ساتھ سفر پر نکلے۔سب کے ساتھ مویشی بھی تھے۔ایک دن کڑی دوپہر کے وقت میں نے دیکھا کہ حضرت عمرو بن عبسہ سوئے پڑے ہیں اور ان پر ایک بادل سایہ فگن ہے۔ ایسے لگتا تھا کہ خاص انھی کے لیے بھیجا گیا ہے۔ وہ بیدار ہوئے اور بتایا: یہ ابر آتا رہتا ہے، پھر مجھے متنبہ کیا کہ یہ بات کسی کوہر گز نہ بتانا۔مجھے پتا چلا کہ تو نے ایسا کیا ہے تو تمھاری خیر نہ ہو گی۔ واﷲ، ان کی وفات تک میں نے یہ بات کسی کو نہ بتائی(حلےۃ الاولیاء: ۱۳۷۹)۔

جمادی الثانی۱۳ھ:عہد صدیقی کے آخر میں جنگ یرموک ہوئی۔ یرموک (Hieromyax) گولان کی پہاڑیوں کے جنوب مشرق میں چالیس میل کے فاصلے پر ایک سطح مرتفع ہے جوموجودہ اسرائیل ، اردن اور شام کی درمیانی سرحد پر واقع ہے ۔رومی فوج کی تعداد دو لاکھ چالیس ہزار، جبکہ اہل ایمان کی نفری چالیس ہزار سے کچھ کم یا زیادہ تھی۔ طبری کے بیان کے مطابق حضرت خالدبن ولید اس وقت سپہ سالار نہیں، بلکہ ایک کمانڈر تھے ۔انھوں نے تجویز پیش کی کہ باری باری ہر جرنیل کو سالاری کا موقع دیا جائے۔ اس طرح پہلے دن کی کمان ان کے حصے میں آئی۔ اپنی فوج کو بے ترتیب پاکر انھوں نے ایک خطبہ دیا جس میں فوج کی صف بندی اور تنظیم کی اہمیت واضح کی ۔ ادھر عیسائی راہبوں نے اپنے پیروؤں کو جنگ پر انگیخت کیا۔ حضرت خالدنے فوج کو چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے دستوں میں بانٹ دیا،ہر دستہ کم و بیش ایک ہزار فوجیو ں پر مشتمل تھا ۔قلب میں حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کی قیادت میں اٹھارہ دستے، میمنہ پر حضرت عمرو بن عاص کی کمان میں دس دستے اور میسرہ پر حضرت یزید بن ابو سفیان کی سربراہی میں دس دستے تھے۔ ہراول دستے پر حضرت قباب بن اشیم مقرر تھے۔ ایک دستے کی سربراہی حضرت عمروبن عبسہ کے پاس تھی۔ دوسرے کمانڈروں میں حضرت قعقاع بن عمرو، حضرت عیاض بن غنم، حضرت ہاشم بن عتبہ، حضرت خالد بن سعید شامل تھے۔ حضرت ابو الدرداء کو قاضئ لشکر، حضرت عبداﷲ بن مسعود کو امیر بند وبست اور حضرت ابو سفیان کو واعظ بنایا گیا۔ تاریخ اسلام کے اس اہم معرکے میں مسلمانوں کو زبردست فتح حاصل ہوئی۔تین ہزار اہل ایمان نے جام شہادت نوش کیا، جبکہ ایک لاکھ بیس ہزار رومی جہنم واصل ہوئے۔رومی کمانڈر ان چیف ،شاہ ہرقل کا بھائی تذراق (Theodore) اپنے انجام کو پہنچا اور شام میں رومی سلطنت (Byzantine or Eastern Roman Empire) کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا۔

جنگ یرموک میں حصہ لینے کے بعد حضرت عمرو بن عبسہ شام کے شہر حمص میں مقیم ہو گئے ۔رکوی ندی کے پاس ابن ابوسحنہ کی گلی میں ان کا گھر تھا۔حمص میں بنوسلیم کے چارسو مزید اہل ایمان سکونت رکھتے تھے۔

۱۷ھ میں خلیفۂ ثانی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ زندگی میں آخری بار شام گئے،مہاجرین وانصار کی ایک جماعت ان کے ساتھ تھی۔ سیدنا علی کو مدینہ کا قائم مقام امیر مقرر کر کے وہ حجاز اور شام کی سرحد پر واقع شہر ایلہ پہنچے۔ ہر ضلع میں گھوم کر انھوں نے شام کی چوکیوں کو محفوظ بنایا،گرما و سرما کی الگ الگ فوجیں مقرر کر کے ان میں وظائف تقسیم کیے۔ سیدنا عمرنے حضرت عبداﷲ بن قیس کو ساحلی علاقوں کا حاکم بنانے اور اردن کے گورنر حضرت شرحبیل بن حسنہ کو معزول کر کے گورنر دمشق حضرت معاویہ کو شام کے پورے صوبے کا حاکم مقرر کرنے کے احکامات جاری کیے۔ حضرت عمروبن عبسہ کو اہراکا امیر نامزد کر کے وہ شام سے رخصت ہوئے اور ذو الحجہ کے مہینے میں مدینہ پہنچ گئے۔

حضرت معاویہ نے رومیوں سے جنگ بندی کا معاہدہ کر رکھا تھا ۔ مدت معاہدہ ختم ہونے سے پہلے ہی وہ لشکر لے کر چل پڑتے اورجونہی مدت پوری ہوتی ،ان پر حملہ کردیتے۔اسی طرح کے ایک واقعہ میں لوگوں نے دیکھا کہ ایک شخص عربی یا ترکی گھوڑے پر سوار پکارتے ہوئے چلاآرہا ہے: ’’اﷲ اکبر! اﷲ اکبر! ایفاے عہد ہوگا،عہدشکنی نہ ہو گی۔‘‘ وہ حضرت عمرو بن عبسہ تھے۔ حضرت معاویہ نے پچھوایا کہ بدعہدی کاکیا معاملہ ہے؟ حضرت عمروبن عبسہ نے کہا: میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے،جس کا کسی قوم سے معاہدہ ہوتو مدت معاہدہ ختم ہونے سے پہلے معاہدے میں کوئی کمی بیشی کرے نہ اسے توڑے۔ہاں معاہد کی طرف سے بدعہدی ہو تو وہ معاہدہ توڑ سکتاہے۔ حضرت معاویہ نے یہ سنا تو لشکر لے کر واپس چلے گئے (ابو داؤد، رقم ۲۷۵۹۔ ترمذی، رقم ۱۵۸۰۔ احمد، رقم۱۶۹۵۲)۔

حضرت عمروبن عبسہ شام میں مقیم رہے اور ۱۷ھ میں وفات پائی(ابن جوزی)۔ابن حجر کا خیال ہے کہ ان کا انتقال عہد عثمانی کے اواخر میں حمص میں ہوا۔ تیسری روایت کے مطابق سیدنا عثمان کی شہادت کے وقت حضرت عمرو بن عبسہ زندہ تھے اور انھوں نے حضرت معاویہ، حضرت عبادہ بن صامت، حضرت ابوالدرداء اور حضرت ابوامامہ کے ساتھ مل کر قاتلین خوارج سے سیدنا عثمان کا قصاص لینے کا مطالبہ کیا۔ذہبی نے خیال ظاہر کیا ہے کہ حضرت عمرو بن عبسہ کی وفات ۶۰ھ کے بعد ہوئی، البتہ انھیں خود بھی اس تا ریخ پرپختہ یقین نہیں۔

اصحاب رجال حضرت عمرو بن عبسہ کو شامی صحابہ میں شمار کرتے ہیں۔ان کی مرویات صحیح بخاری کے علاوہ ہر کتاب میں ہیں۔ حضرت عمرو نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے روایت کی، جبکہ ان سے حد یث روایت کرنے والوں میں شامل ہیں: حضرت عبداﷲ بن مسعود، حضرت ابوامامہ باہلی، حضرت سہل بن سعد ساعدی، حضرت ابورزین لقیط بن صبرہ جیسے جلیل القدر اصحاب رسول اور حضرت ابو ادریس خولانی، حضرت عبدالرحمن بن عسیلہ صنابحی، حضرت کثیر بن مرہ، حضرت عدی بن ارطاۃ،حضرت شرحبیل بن سمط، حضرت معدان بن ابو طلحہ، حضرت سلیم بن عامر، حضرت ضمرہ بن حبیب، حضرت عبدالرحمن بن عامر، حضرت جبیر بن نفیر، حضرت شہر بن حوشب،حضرت عبدالرحمن بن بیلمانی، حضرت عبدالرحمن بن عائذ، حضرت قاسم بن عبدالرحمن اور حضرت ابوسلام اسود جیسے تابعین جن میں سے زیادہ تر شام میں مقیم تھے۔ حضرت بسر بن عبد اﷲ (یا عبیداﷲ)، حضرت حبیب بن عبید، حضرت سوید بن جبلہ، حضرت شداد ابوعمار، حضرت ابوظبیہ (یا ابو طیبہ) کلاعی،حضرت عبدالرحمن بن یزید اور حضرت ابو قلابہ جرمی بھی ان کے راویوں میں شامل ہیں۔

حضرت عمرو بن عبسہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیں نمازپڑھائی ۔مال غنیمت کا ایک اونٹ (سترہ کے طور پر) سامنے تھا،سلام پھیرنے کے بعد آپ نے اونٹ کے پہلو سے ایک بال ہاتھ میں لیا اور فرمایا: تمھاری غنیمتوں میں سے میرے لیے اس بال کی مقدار کے برابر لینابھی جائز نہیں۔ہاں خمس لے سکتا ہوں اور وہ بھی تم لوگوں ہی میں پلٹ آتا ہے(یعنی مصالح عامہ میں استعمال ہوتا ہے۔ ابوداؤد، رقم ۲۷۵۵۔ مستدرک حاکم، رقم ۶۵۸۳)۔ آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خمس یتیموں اور مساکین میں تقسیم فرما دیتے یا اسلحہ اور فوج کے گھوڑوں کی خریداری میں صرف فرما تے۔

حضرت عمرو بن عبسہ کہتے ہیں: میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا ،اسلام کیا ہے؟ فرمایا: اچھی گفتگو کرنا اور کھانا کھلانا۔ پوچھا: ایمان کیا ہے؟ جواب فرمایا: صبر کرنا اور فراخ دلی کا مظاہرہ کرنا۔میں نے دریافت کیا: کون سا اسلام افضل ہے؟ توارشاد کیا: اس مسلمان کا اسلام جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ سوال کیا: کون سا ایمان افضل ہے؟ جواب فرمایا: جو اچھا اخلاق جنم دے۔ پوچھا: کون سی نماز بہترین ہے؟ آپ نے فرمایا: جس میں دعا لمبی ہو۔ میرا اگلا سوال تھا: کون سی ہجرت بہترین ہے؟ جواب ارشاد ہوا: یہ کہ تو ان سب کاموں کو چھوڑ دے جنھیں تمھارا رب پسند نہیں کرتا۔ میں نے استفسار کیا کہ کون سا جہاد سب سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے؟ فرمایا: اس مجاہد کا جہاد جس کا خون بہے اور اس کا گھوڑا ہلاک ہو جائے (ابن ماجہ، رقم ۲۷۹۴۔ احمد، رقم ۱۹۳۲۸)۔

مطالعۂ مزید: الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، تاریخ الامم والملوک (طبری)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جوزی)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، تاریخ دمشق الکبیر (ابن عساکر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال (مزی)، سیر اعلام النبلاء (ذہبی) البدایۃ والنہایۃ (ابن کثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، تہذیب التہذیب (ابن حجر)۔

____________

 

B